’’یہ تو میں نہیں جانتی وہ کہاں ملے گا؟ پرنتو اس کٹھن سمے میں وہی تمری سہائتا کر سکتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن صائمہ کو اب میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا کیا پتا کب وہ حرام کا نطفہ دوبارہ آجائے؟‘‘ غصے سے میرا برا حال تھا
’’تم اس کی چنتا نہ کرو، جب وہ تمری پتنی کے پاس آئے گا میں تمہیں کھبر کر دوں گی‘‘ رادھا نے مجھے تسلی دی۔
’’ٹھیک ہے میں کل ہی اسے تلاش کرتا ہوں‘‘ رادھا کی بات سے مجھے اطمینان ہوگیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہم کافی دیر تک پروگرام بناتے رہے اس کے بعد رادھا نے جانے کی اجازت چاہی۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میرے جاپ کا سمے ہوگیا ہے موہن! میں جاتی ہوں کل اسی سمے آؤں گی‘‘ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں واپس کمرے میں آیا تو صائمہ سوئی ہوئی تھی۔ میں کافی دیر اس کے حسین چہرے کو دیکھتا رہا یہ سب کچھ میری نادانیوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہ میں رادھا کے ساتھ تعلقات رکھتا نہ یہ سب کچھ ہوتا۔ میں دیر تک سوچتا رہا ،سر میں شدید درد ہونے لگا۔ سگریٹ سلگا کر میں بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ کیا ملنگ اس سلسلے میں میری مدد کرے گا۔۔۔؟ رادھا کے بقول صائمہ کے جسم پر کسی اور نے قبضہ جما لیا تھا۔ لیکن صائمہ تو نہایت پاکباز عورت ہے پھر۔۔۔؟ کسی بات کی سمجھ تو نہ آئی البتہ سرکار درد بہت بڑھ گیا۔ میں نے دراز سے خواب آور دوا نکال کر کھائی، تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آگئی۔ کسی کے جھنجھوڑنے سے میری آنکھ کھلی۔
’’بابا اٹھیں سکول کا ٹائم ہوگیا ہے ۔ میں نے ماما کو جگایا لیکن وہ بھی نہیں جاگیں‘‘ احد مجھے جھنجھوڑ رہا تھا
میں نے کلاک پر نظر ڈالی آٹھ بج رہے تھے ۔ ’’اوہو۔۔۔اٹھ بج گئے آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ میں آپ کے لئے ناشتہ بناتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ماما کو کیا ہوا ہے؟‘‘ احد کو حیرت تھی کہ آج مایا کیو سو رہی ہیں؟
’’رات ماما کو ٹمپریچر ہوگیا تھا اسی وجہ سے ابھی تک سو رہی ہیں۔ آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔
’’مومنہ کو جگا دوں‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں اسے بھی جگا دو میں ناشتہ تیار کرتا ہوں‘‘ میں نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ واپس آیا تو مومنہ صائمہ کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے ایک نظر سوئی ہوئی صائمہ کو دیکھا۔ میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس کا گلاب جیسا شگفتہ چہرہ کملا گیا تھا۔ چہرے پر زردی کھنڈ گئی تھی۔ مومنہ پیار سے اپنی ماں کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بھاگ کر میرے پاس آگئی۔’’ماما کیوں سو رہی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’رات ماما کو بخار ہوگیا تھا اس لئے سو رہی ہیں آپ جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو سکول کا ٹائم ہوگیا ہے‘‘ میں نے اسے اٹھا کر باتھ روم کا رخ کیا۔
’’میں نہیں جاؤں گی‘‘ اس نے ضد کی۔
’’اچھا ٹھیک ہے ناشتہ کرلو پھر کھیلنا‘‘ میں نے یہی بہتر سمجھا کہ آج بچوں کو چھٹی کروا دی جائے۔ اس طرح صائمہ کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ ناشتہ کرنے کے بعد بچے تو لان میں جا کر کھیلنے لگے جبکہ میں بیڈ پر بیٹھ کر سوچوں میں غرق ہوگیا۔
’’ارے۔۔۔آٹھ بج گئے۔۔۔فاروق! آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں دیکھیں بچوں کے سکول کا حرج ہوگیا‘‘صائمہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ میرے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔
’’تم جاگ گئیں؟ میں نے اس لئے نہیں جگایا کہ تمہاری طبیعت خراب تھی‘‘ میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا۔
’’میری طبیعت کو کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
’’رات تمہیں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ورنہ تو تم علی الصبح جاگنے کی عادی ہو‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’بچوں کی سکول سے بلا وجہ چھٹی ہوگئی‘‘ اس نے افسوس کیا۔
’’پھر کیا ہوا ایک دن نہ جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آج میں نے بھی چھٹی لی ہوئی ہے جلدی سے ناشتہ تیار کر لو پھر پروفیسر انکل کی طرف چلیں گے‘‘ میں نے پیار سے اس کی طرف دیکھ۔
’’آپ نے کیوں چھٹی لی ہے؟‘‘ اسنے مجھے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔
’’دل تمہارے بنا اداس ہو جاتا ہے اس لئے سوچ رہا ہوں گھر میں ہی بینک کھول لوں تاکہ تم سارا وقت میری آنکھوں کے سامنے رہ سکو۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر ایسی بات کہی تاکہ معلوم ہو سکے اس وقت صائمہ کی کیفیت کیا ہے؟
’’آپ دن بدن نکمے ہوتے جا رہے ہیں چلیں ناشتہ کرکے جائیں اپنے کام پر‘‘ اس کے چہرے پر وہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی جو اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ میں اس کی حالت سے مطمئن ہوگیا۔
’’محترمہ ! آپ کے اس خادم نے بچوں کو ناشتہ کروا دیا ہے اور خود بھی چائے پی لی اگر آپ کا حکم ہو تو آپ کے لیے بھی ناشتہ تیار کردیا جائے‘‘ میرے مزاحیہ انداز پر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مجھے اسکی طرف سے اطمینان ہوا تو میں نے سوچا ملنگ کو کہاں تلاش کیا جائے؟ اس درویش کا کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں کہ میں سیدھا وہیں چلا جاتا۔ گھر سے نکل کر گاڑی بے مقصد سڑکوں پر گھماتا رہا۔ دو ڈھائی گھنٹے کی شدید محنت کے بعد بھی ملنگ کو نہ پا سکا۔ سوچا بینک جا کر عمران سے بات کروں یا محمد شریف سے پوچھوں، یہی سوچ کر میں نے گاڑی بینک جانے والے راستے پر ڈال دی۔ اچانک ایک سڑک پرمجھے ملنگ بیٹھا نظر آیا۔وہ سڑک کی دوسری طرف تھا۔ خدشہ تھا کہ جب تک میں موڑکاٹ کر اس تک پہنچوں گا کہیں چلا نہ جائے۔ اسی غرض سے میں نے گاڑی اسی طرف روک کر اسے آواز دی۔ اسنے چونک کر میری طرف دیکھا اورمسکرا دیا۔ میں نے اسے وہیں بیٹھا رہنے کا اشارہ کیا اورجلدی سے گاڑی موڑ کر اسکے پاس پہنچ گیا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’چل۔۔۔‘‘ اسنے بیٹھتے ہی حکم دیا۔ میں اس کے کہنے کے مطابق چل پڑا۔ بار بار اسکی طرف دیکھتا لیکن وہ تو شاید میری موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ آخر کار میں نے گاڑی کھیتوں کی طرف جانے والی سڑک پر ڈالی دی۔ کچھ اور آگے جا کر میں نے ایک درخت کے نیچے گاڑی کو روکا۔
’’بابا جی! میں بہت پریشان ہوں صائمہ۔‘‘
’’مجھے کیا بتاتا ہے سب پتا ہے مجھے‘‘ اس نے مجھے بری طرح جھڑک دیا۔ میں سہم کر خاموش ہوگیا۔ اس کا تھپڑ میں بھولا نہیں تھا۔ کچھ دیر وہ سرجھکائے بیٹھا رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا اس کی سرخ آنکھیں میرے چہرے پر جمی تھیں۔ میں کچھ دیر اس کی پر جلال آنکھوں کو دیکھتا رہا پھر رعب درویشی سے میری نظریں جھک گئیں۔
’’اگر کام ہماری بیٹیا کا نہ ہوتا تو توقیامت تک ہمیں تلاش نہ کرپاتا‘‘ بالاخر اسنے سکوت توڑا۔
’’لیکن اب بات ہمارے بس سے بھی باہر ہوگئی ہے۔ شیطانی قوتوں نے الحاق کر لیا ہے اور یہ سب کچھ تیری نادانی کی وجہ سے ہوا‘‘ اس کی تیز نظریں مجھ پر جمی تھیں۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’تجھے ایک مرد قلندر نے بہت سمجھایا تھا لیکن تو نے اس کے تحفے کی قدر نہ کی اور ذلت کی گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا۔‘‘
کچھ دیر وہ سخت نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ ’’شاید قسمت میں یہ کچھ لکھا تھا۔ شاید قدرت تجھ سے کوئی خاص کام لینا چاہتی ہے‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’بابا جی! میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔‘‘
’’ابھی میں خود کچھ نہیں جانتا۔۔۔رب ذوالجلال جس قدر چاہتا ہے اپنے بندوں کو بتا دیتا ہے اس کی مرضی و منشا کے خلاف ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس نے سب کے ذمے کام لگائے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ تو قسمت کا دھنی ہے کہ تجھے پاک پروردگار نے کسی نیک کام کے لیے چن لیا ہے۔ اگر تونے اپنے دامن کو گندگیوں سے آلودہ نہ کیا تو بہت جلد کوئی فریضہ تجھے سونپا جائے گا ۔اگر نفسانی خواہشات سے بچا رہا تو کامیابی تیرا مقدر بن جائے گی۔ ورنہ ذلت کے گہرے سمندرمیں ڈوب جائے گا۔ شیاطین تیرے گردجال کس رہے ہیں خود کو ان کے چنگل سے بچا۔ عورت شیطان کابڑا ہتھیار ہے وہ اس داؤ سے بڑے بڑوں کو چت کر دیتا ہے۔ غیبت جھوٹ اور فحش گوئی سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔ کوشش کیا کر کہ ہر وقت تیری زبان سے ذکر الٰہی جاری رہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو توجس وقت یاد آئے اللہ پاک کے ذکر میں لگ جایا کر ۔ تیری بیوی اس وقت ایک خبیث جنّ کے چنگل میں پھنس چکی ہے لیکن وہ چونکہ پاکباز عورت ہے اس لئے وہ اس پر قابو پانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔ جادو کے ماہر کچھ لوگ اس جن کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جن زادی بھی اس کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اگر کوئی تمہاری مدد کر سکتا ہے تو وہ ایک ہی شخصیت ہے جس کو تم نے اپنی حماقت سے ناراض کر دیا ہے‘‘ میں جو بڑے دھیان سے ملنگ کی باتیں سن رہا تھا چونک گیا۔
’’کسے بابا جی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ان کا نام حضرت ابولحان ہے یہ وہی بزرگ ہیں جو محمد شریف کی درخواست پر تمہارے گھر کا حصار کرنے آئے تھے‘‘ میرا سر جھک گیا۔ میں رادھا کی محبت میں اندھا ہو کر خود اپنی تباہی کا سامان کربیٹھا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ملنگ نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’میرے بچے! اگر رونا ہے تو اس غفورالرحیم کے آگے سر سجدے میں رکھ کر رو جو سب کے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘ اس نے سمجھایا۔
’’بابا جی اب کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔ وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا۔
’’ایک وظیفہ بتا رہا ہوں رات کو اسے پڑھنا مقررہ تعداد مکمل کرنے کے بعد سو جانا جو خواب نظر آئے وہ محمد شریف کو بتانا اور اس سے درخواست کرنا کہ وہ حضرت صاحب کے گوش گزار کر دے۔ اگر محمد شریف اس بزرگ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا۔‘‘
’’بابا جی! میں اپنی شریک حیات کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ وہ جو کوئی بھی ہے کمبخت میری بیوی کے جسم کوحاصل کرنا چاہتا ہے میرے لئے نہ دن کو سکون ہے نہ رات کوچین۔ اگر خدانخواستہ اس نے صائمہ کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’اپنا دامن جلا ہے تو چیخ اٹھا ہے کمبخت۔۔۔! اس وقت تجھے ہوش نہ تھا جب تو نا محرم عورتوں کے ساتھ بدکاری میں ملوث تھا۔۔۔‘‘ ملنگ میری بات کاٹ کر دھاڑا۔ میں لرز گیا کچھ دیر وہ لال انگارہ آنکھوں سے مجھے گھورتا رہا پھر آہستہ آہستہ اس کا چہرہ معمول پر آگیا۔
’’حضرت صاحب بہت جلالی بزرگ ہیں، خیال رکھنا ان کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر بیٹھنا ورنہ ساری زندگی گلیوں میں رلتا پھرے گا‘‘ اس بار اس نے ذرا نرمی سے سمجھایا۔
’’تیری اہلیہ پر کچھ دن بہت سخت گزریں گے بڑی حکمت سے یہ دن گزارنا ہوں گے بچوں کی طرف سے بے فکر رہنا ہو معصوم ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے گا اس لئے ان کی کسی دھمکی میں آکر کوئی غیر شرعی کام نہ کر بیٹھنا ورنہ سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ فی الحال میں تجھے اتنا ہی بتا سکتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
’’بابا جی! اگر آپ سے ملنا ہو تو کہاں آپ سے مل سکتاہوں؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’بے کار ہے ۔۔۔سب بے کار ہے ۔ ہمیں تلاش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد ماگنا ور حضرت صاحب کو منانے کی کوشش ۔۔۔حق اللہ‘‘ اسنے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور بیٹھے بیٹھے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اب ان باتوں کا میں عادی ہوگیا تھا۔ میں مطمئن ہو کر بینک چلا گیا۔ ملنگ سے ملنے کے بعد میرے دماغ سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا اور خود کو ہلکاپھلکا محسوس کر رہاتھا۔ میں نے چپراسی کے ذریعے محمد شریف کو بلوایا۔
’’اسلام علیکم جناب!کیا حکم ہے؟‘‘ اس نے اندر داخل ہو کربڑی خوش اخلاقی سے پوچھا۔
’’بیٹھو محمد شریف!‘‘ میں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بیٹھنے کے بعد میں نے ساری صورتحال اسے بتا دی۔ وہ خاموشی سے سرجھکائے میری بات سنتا رہا۔ میں پر امید نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے جناب! ہے تو یہ بہت مشکل کام لیکن میں اپنی بہن صائمہ کے لئے ضرور کوشش کروں گا‘‘ بالآخر وہ بولا۔
’’تمہاری بہت مہربانی ہوگی محمد شریف! اس مشکل وقت میں تمہارا یہ احسان میں ساری زندگی نہیں بھولوں گا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔
’’جناب!کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔۔۔میں حتی الامکان کوشش کروں گا کہ آپ کا کام ہو جائے‘‘ اس نے عجز سے کہا۔ محمد شریف کے جانے کے بعد میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ شام کو ہم عمران کے گھر چلے گئے العرض وہ دن جتنااچھا گزرا تھا رات اتنی ہی بھیانک آئی۔ رات کا کھانا عمران کے گھر کھا کر ہم تقریبا گیارہ بجے کے قریب گھر آئے۔ میں نے وضو کرکے نماز پڑھی چونکہ میں نے وظیفہ کرنا تھا اس لئے چاہتا تھا صائمہ سو جائے تومیں ملنگ کا بتایا ہوا وظیفہ پڑھنے بیٹھوں۔ صائمہ نے آج سارے دن میں کوئی نماز نہ پڑھی تھی۔ ایک دوبار میں نے آہستہ سے اسے یاد دلایا کہ نماز کا وقت ہوگیاہے لیکن اس کے کان پرجون تک نہ رینگی۔ عشاء کو بھی وہ بغیر نماز پڑھے سونے کے لئے لیٹ گئی۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا کہیں خدانخواستہ پھر اسکی طبیعت نہ بگڑ جائے یا وہ کوئی ایسا لفظ نہ منہ سے نکال بیٹھے جو کفر کا باعث بن جائے تھوڑی دیر بعد وہ سو گئی۔
میں نے وضو کیا اور مطلوبہ سامان جو میں نے دن میں ہی خریدلیا تھا لے کر باہر آگیا۔ وظیفہ کھلے آسمان تلے پڑھناتھا۔ میں اللہ کا نام لے کر پڑھائی میں مگن ہوگیا۔ وظیفہ ختم کرتے کرتے دو بج گئے۔ میں کمرے میں تو صائمہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔
’’کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’نیند نہیں آرہی تھی اور تم جانتی ہو کہ میں سگریٹ پینے باہر چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن تم کیوں جاگ رہی ہو؟‘‘
’’ابھی آنکھ کھلی ہے میں تو بے خبر سو رہی تھی‘‘ اس نے جمائی لیتے ہوئے بتایا۔میں چاہتا تھا سونے سے پہلے شاور لے لوں اس لئے میں باتھ روم جانے لگا۔
’’جلدی سے نہا کر سو جائیں صبح آپ نے آفس بھی جانا ہے‘‘ وہ انگڑائی لیتے ہوئے بولی۔
’’بس دو منٹ میں آیا‘‘ ابھی میں باتھ روم کے دروزے تک بھی نہ پہنچا تاکہ پیچھے سے صائمہ کی آواز آئی۔
’’موہن!‘‘
اگر ساتوں آسمان ایک ساتھ میرے سر پر گر پڑتے تو بھی میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا صائمہ کی آواز سن کر ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ صائمہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’پی۔۔۔تت۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں ہکلا کر رہ گیا۔وہ چونک کرمیری طرف دیکھنے لگی۔
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا‘‘ وہ جما ہی لیتے ہوئے بولی۔
’’ابھی تم نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’میں کہہ رہی تھی جلدی سے نہا کر سوجائیں آپ نے صبح آفس جاناہے۔‘‘ اس نے وہی بات دہرائی جو تھوڑی دیر پہلے کہہ چکی تھی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا وہ یوں بے نیاز نظر آرہی تھی جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی تھیں۔ جب میں باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو وہ گہری نیند میں تھی۔ کہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر تو نہیں کررہی؟ میں نے سوچا۔ لیکن رادھانے بھی کہا تھا کہ صائمہ پر کوئی طاقتور جن قابض ہوگیاہے ہوسکتا ہے رادھا اپنے مقصد کے لئے کہہ رہی ہو کہ اس طرح میں اسکا محتاج بنا رہوں۔میرے دل میں خیال آیا۔ لیکن ملنگ توجھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ صائمہ کا مجھے موہن کہنا نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔
’’یا خدا میں کن مصائب میں پھنس گیا ہوں؟‘‘ میں نے دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ صائمہ بے خبر سو رہی تھیا ورنیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ ملنگ نے کہا تھا کہ وظیفہ مکمل کرنے کے بعد سوجاؤں اورجو کچھ خواب میں نظر آئے وہ محمد شریف کو بتا دوں لیکن نیند پرکسے اختیار ہے؟ میں جاگتا رہا۔ آخر کار نیند مجھ پرمہربان ہوگئی۔ خواب میں دیکھا ایک ویران سی جگہ ہے جہاں میں صائمہ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ میں اسے آوازیں دیتا ہوں لیکن اس کا کہیں پتا نہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نظر آتا ہے جوایک گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے۔ میں اسے آواز دیتاہوں وہ مڑ کرمیری طرف دیکھتا ہے میں اس کے نزدیک جا کر اسے سلام کرتاہوں۔ وہ گٹھڑی زمین پر پھینک دیتا ہے۔ میرے سلام کا جواب دے کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں اسے بتاتا ہوں میں اور میری بیوی کسی کام سے ادھر آئے تھے اب وہ کہیں نظر آرہی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ وہ مسکراتاہے۔
’’یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو تو میں تمہیں تمہاری بیوی کا پتا بتا دوں گا‘‘ وہ گٹھڑی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میں گٹھڑی اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ باوجود کوشش کے میں کامیاب نہیں ہوتا بے بسی سے اس بزرگ کی طرف دیکھتاہوں۔
’’بابا جی! میرے بچے گھر میں اکیلے ہیں شام ہو رہی ہے اگرمیں جلدی گھر نہ پہنچا تو وہ پریشان ہوں گے۔ مہربانی کرکے آپ مجھے صائمہ کا پتا بتا دیں‘‘ آخر کار ناکام ہو کرمیں اس بزرگ سے درخواست کرتا ہوں۔
’’جو کچھ میں نے کہا ہے اگر کر سکتے ہو تو کہو نہیں تو میں جاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ گٹھڑی اٹھانے لگتا ہے۔ میں جلدی سے جھک کر دوبارہ کوشش کرنے لگتاہوں۔ لیکن گٹھری بہت وزنی ہوتی ہے۔ میری کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر وہ کہتا ہے۔
’’آیۃ الکرسی پڑھ کر اٹھاؤ‘‘ میں اس کی ہدایت پر عمل کرتا ہوں اس بار وہ گٹھڑی مجھے بہت ہلکی محسوس ہوتی ہے وہ مسکرا کر چل پڑتا ہے میں جلدی سے اسکا پیچھا کرتا ہوں۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک کوٹھڑی آجاتی ہے بوڑھا اسکے سامنے رک کر کہتا ہے۔
’’اس کے اندر لے جا کر رکھ دو‘‘ میں جلدی سے اندر داخل ہوتا ہوں اور گٹھڑی زمین پر پھینک کر باہر نکلتاہوں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن چاروں طرف دیکھتا ہوں لق دوق میدان ہے کوئی بندہ نا پرندہ۔میں اس بزرگ کو آوازیں دیتا ہوں لیکن کوئی ہو تو سنے۔ آخر کار تھک ہارکرمیں وہیں بیٹھ جاتا ہوں میرا دل اپنی بے بسی کے احساس سے بھر آتا ہے اورمیری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میں جی بھرکر روتا ہوں۔ اتنے میں کیا دیکھتاہوں سفید لباس اور بڑی سی چادرمیں ملبوس ایک نہایت حسین لڑکی آتی ہے اس کے پاکیزہ چہرے پرملکوتی مسکراہٹ ہے۔
’’کیا بات ہے کیوں پریشان ہو؟ ‘‘ وہ مجھ سے پوچھتی ہے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سے سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہوں‘‘ وہ کہتی ہے۔
’’رادھا۔۔۔؟ تم رادھا کیسے ہو سکتی ہو؟‘‘ میں حیرت بھرے لہجے میں سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہی ہوں۔۔۔تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ وہ پوچھتی ہے۔
’’میری بیوی کہیں چلی گئی ہے مجھے گھر جانا ہے شام ہو رہی ہے بچے گھرمیں اکیلے ہیں۔ ایک بزرگ مجھے یہاں یہ کہہ کر لایا تھاکہ وہ مجے میری بیوی کے بارے میں بتا دے گا لیکن وہ کہیں چلا گیا۔ اسنے اپنا کام نکلوا لیا اب غائب ہوگیا ہے میری بیوی کاپتا بھی نہیں بتایا‘‘ میں اسے بتاتا ہوں۔
’’یوں نہیں کہتے وہ بزرگ بڑا نیک انسان ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر اس نے کہا ہے کہ وہ تمہیں بتا دے گا تو ضرور بتائے گا اور ہاں میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ کیونکہ تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے‘‘
’’میں نے تم پر کیا احسان کیا ہے‘‘ میں حیران ہو کر پوچھتا ہوں۔
’’وقت آنے پر بتا دوں گی۔ چلو اٹھو۔‘‘
وہ کہتی ہے اور واپس مڑ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ میں اس کے پیچھے چل پڑتاہوں ۔ کسی نے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔
’’فاروق‘‘ اٹھیں دیکھیں ساڑھے سات بج گئے ہیں بچوں نے سکول جانا ہے‘‘ صائمہ میرے اوپر جھکی کہہ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔
’’جلدی سے تیار ہو جائیں میں ناشتہ لگاتی ہوں‘‘ اسنے کہا اور کچن کی طرچ چلی گئی۔ میری فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔ بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر پہنچ چکے تھے۔ میں نے جلدی سے وضو کیا اور قضا نماز ادا کی پھر تیار ہو کر ناشتہ کرکے بینک روانہ ہوگیا۔ میں جلد از جلد محمد شریف کو اپنا خواب سنانا چاہتا تھا۔ جس کی مجھے قطعاً سمجھ نہ آئی تھی۔ بینک پہنچ کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ اسے ساری بات بتائی اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔
’’اللہ تعالیٰ بڑا مہربان اور زبردست قدرت والا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’محمد شریف میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔ اس خواب کی کیا تعبیر ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ۔
’’آج را ت میں حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا مجھے اللہ پاک سے امید ہے کہ بہت جلد آپ کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے کہا اور جانے کی اجازت چاہی۔
’’محمد شریف کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اس خواب کی کیا تعبیرہے؟‘‘ میں نے اسے اٹھتے دیکھ کر جلدی سے پوچھا۔
’’آپ یقین کریں جناب عالی! مجھے بھی کچھ معلوم نہیں میں آج رات حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا اگر اللہ کے حکم سے کامیاب ہوگیا تو انہیں سب کچھ بتا دوں گا پھر وہ جیسا حکم کریں گے اس پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے لیکن یاد سے رابطہ کرلینا۔ میں اس معاملے میں سخت پریشان ہوں‘ میں نے اسے تاکید کی۔
’’آپ بے فکر ہو جائیں اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔‘‘ مجھے تسلی دے کر وہ باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں کام میں مصروف ہوگیا۔ لیکن دل کسی شے میں نہ لگ رہا تھا۔ بار بار صائمہ کا خیال آرہا تھا۔ صبح اس کی طبیعت ٹھیک تھی لینک ۔۔۔خدانخواستہ پھر خراب نہ ہوگئی ہو میں نے سوچا اور گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ حسب معمول گھنٹی بجتی رہی لیکن اسنے فون نہیں اٹھایا۔ کئی بار کوشش کرنے پر نتیجہ وہی رہا تو میں گاڑی کی چابی اٹھا کر جلدی سے باہر نکل آیا۔
آج 16 نمبر قسط شا ئع نہین ھوی۔؟؟