ایک مظلوم خاندان کی کہانی جو شیطان کے چنگل میں پھنس گیا تھا، خاص تحریر۔ آخری قسط

میں نے وضو کیا اور مطلوبہ سامان جو میں نے دن میں ہی خریدلیا تھا لے کر باہر آگیا۔ وظیفہ کھلے آسمان تلے پڑھناتھا۔ میں اللہ کا نام لے کر پڑھائی میں مگن ہوگیا۔ وظیفہ ختم کرتے کرتے دو بج گئے۔ میں کمرے میں تو صائمہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔
’’کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’نیند نہیں آرہی تھی اور تم جانتی ہو کہ میں سگریٹ پینے باہر چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن تم کیوں جاگ رہی ہو؟‘‘
’’ابھی آنکھ کھلی ہے میں تو بے خبر سو رہی تھی‘‘ اس نے جمائی لیتے ہوئے بتایا۔میں چاہتا تھا سونے سے پہلے شاور لے لوں اس لئے میں باتھ روم جانے لگا۔
’’جلدی سے نہا کر سو جائیں صبح آپ نے آفس بھی جانا ہے‘‘ وہ انگڑائی لیتے ہوئے بولی۔
’’بس دو منٹ میں آیا‘‘ ابھی میں باتھ روم کے دروزے تک بھی نہ پہنچا تاکہ پیچھے سے صائمہ کی آواز آئی۔

جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’موہن!‘‘
اگر ساتوں آسمان ایک ساتھ میرے سر پر گر پڑتے تو بھی میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا صائمہ کی آواز سن کر ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ صائمہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’پی۔۔۔تت۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں ہکلا کر رہ گیا۔وہ چونک کرمیری طرف دیکھنے لگی۔
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا‘‘ وہ جما ہی لیتے ہوئے بولی۔
’’ابھی تم نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’میں کہہ رہی تھی جلدی سے نہا کر سوجائیں آپ نے صبح آفس جاناہے۔‘‘ اس نے وہی بات دہرائی جو تھوڑی دیر پہلے کہہ چکی تھی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا وہ یوں بے نیاز نظر آرہی تھی جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی تھیں۔ جب میں باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو وہ گہری نیند میں تھی۔ کہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر تو نہیں کررہی؟ میں نے سوچا۔ لیکن رادھانے بھی کہا تھا کہ صائمہ پر کوئی طاقتور جن قابض ہوگیاہے ہوسکتا ہے رادھا اپنے مقصد کے لئے کہہ رہی ہو کہ اس طرح میں اسکا محتاج بنا رہوں۔میرے دل میں خیال آیا۔ لیکن ملنگ توجھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ صائمہ کا مجھے موہن کہنا نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔
’’یا خدا میں کن مصائب میں پھنس گیا ہوں؟‘‘ میں نے دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ صائمہ بے خبر سو رہی تھیا ورنیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ ملنگ نے کہا تھا کہ وظیفہ مکمل کرنے کے بعد سوجاؤں اورجو کچھ خواب میں نظر آئے وہ محمد شریف کو بتا دوں لیکن نیند پرکسے اختیار ہے؟ میں جاگتا رہا۔ آخر کار نیند مجھ پرمہربان ہوگئی۔ خواب میں دیکھا ایک ویران سی جگہ ہے جہاں میں صائمہ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ میں اسے آوازیں دیتا ہوں لیکن اس کا کہیں پتا نہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نظر آتا ہے جوایک گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے۔ میں اسے آواز دیتاہوں وہ مڑ کرمیری طرف دیکھتا ہے میں اس کے نزدیک جا کر اسے سلام کرتاہوں۔ وہ گٹھڑی زمین پر پھینک دیتا ہے۔ میرے سلام کا جواب دے کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں اسے بتاتا ہوں میں اور میری بیوی کسی کام سے ادھر آئے تھے اب وہ کہیں نظر آرہی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ وہ مسکراتاہے۔
’’یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو تو میں تمہیں تمہاری بیوی کا پتا بتا دوں گا‘‘ وہ گٹھڑی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میں گٹھڑی اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ باوجود کوشش کے میں کامیاب نہیں ہوتا بے بسی سے اس بزرگ کی طرف دیکھتاہوں۔
’’بابا جی! میرے بچے گھر میں اکیلے ہیں شام ہو رہی ہے اگرمیں جلدی گھر نہ پہنچا تو وہ پریشان ہوں گے۔ مہربانی کرکے آپ مجھے صائمہ کا پتا بتا دیں‘‘ آخر کار ناکام ہو کرمیں اس بزرگ سے درخواست کرتا ہوں۔
’’جو کچھ میں نے کہا ہے اگر کر سکتے ہو تو کہو نہیں تو میں جاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ گٹھڑی اٹھانے لگتا ہے۔ میں جلدی سے جھک کر دوبارہ کوشش کرنے لگتاہوں۔ لیکن گٹھری بہت وزنی ہوتی ہے۔ میری کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر وہ کہتا ہے۔
’’آیۃ الکرسی پڑھ کر اٹھاؤ‘‘ میں اس کی ہدایت پر عمل کرتا ہوں اس بار وہ گٹھڑی مجھے بہت ہلکی محسوس ہوتی ہے وہ مسکرا کر چل پڑتا ہے میں جلدی سے اسکا پیچھا کرتا ہوں۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک کوٹھڑی آجاتی ہے بوڑھا اسکے سامنے رک کر کہتا ہے۔
’’اس کے اندر لے جا کر رکھ دو‘‘ میں جلدی سے اندر داخل ہوتا ہوں اور گٹھڑی زمین پر پھینک کر باہر نکلتاہوں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن چاروں طرف دیکھتا ہوں لق دوق میدان ہے کوئی بندہ نا پرندہ۔میں اس بزرگ کو آوازیں دیتا ہوں لیکن کوئی ہو تو سنے۔ آخر کار تھک ہارکرمیں وہیں بیٹھ جاتا ہوں میرا دل اپنی بے بسی کے احساس سے بھر آتا ہے اورمیری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میں جی بھرکر روتا ہوں۔ اتنے میں کیا دیکھتاہوں سفید لباس اور بڑی سی چادرمیں ملبوس ایک نہایت حسین لڑکی آتی ہے اس کے پاکیزہ چہرے پرملکوتی مسکراہٹ ہے۔
’’کیا بات ہے کیوں پریشان ہو؟ ‘‘ وہ مجھ سے پوچھتی ہے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سے سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہوں‘‘ وہ کہتی ہے۔


’’رادھا۔۔۔؟ تم رادھا کیسے ہو سکتی ہو؟‘‘ میں حیرت بھرے لہجے میں سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہی ہوں۔۔۔تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ وہ پوچھتی ہے۔
’’میری بیوی کہیں چلی گئی ہے مجھے گھر جانا ہے شام ہو رہی ہے بچے گھرمیں اکیلے ہیں۔ ایک بزرگ مجھے یہاں یہ کہہ کر لایا تھاکہ وہ مجے میری بیوی کے بارے میں بتا دے گا لیکن وہ کہیں چلا گیا۔ اسنے اپنا کام نکلوا لیا اب غائب ہوگیا ہے میری بیوی کاپتا بھی نہیں بتایا‘‘ میں اسے بتاتا ہوں۔
’’یوں نہیں کہتے وہ بزرگ بڑا نیک انسان ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر اس نے کہا ہے کہ وہ تمہیں بتا دے گا تو ضرور بتائے گا اور ہاں میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ کیونکہ تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے‘‘
’’میں نے تم پر کیا احسان کیا ہے‘‘ میں حیران ہو کر پوچھتا ہوں۔
’’وقت آنے پر بتا دوں گی۔ چلو اٹھو۔‘‘
وہ کہتی ہے اور واپس مڑ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ میں اس کے پیچھے چل پڑتاہوں ۔ کسی نے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔
’’فاروق‘‘ اٹھیں دیکھیں ساڑھے سات بج گئے ہیں بچوں نے سکول جانا ہے‘‘ صائمہ میرے اوپر جھکی کہہ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔
’’جلدی سے تیار ہو جائیں میں ناشتہ لگاتی ہوں‘‘ اسنے کہا اور کچن کی طرچ چلی گئی۔ میری فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔ بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر پہنچ چکے تھے۔ میں نے جلدی سے وضو کیا اور قضا نماز ادا کی پھر تیار ہو کر ناشتہ کرکے بینک روانہ ہوگیا۔ میں جلد از جلد محمد شریف کو اپنا خواب سنانا چاہتا تھا۔ جس کی مجھے قطعاً سمجھ نہ آئی تھی۔ بینک پہنچ کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ اسے ساری بات بتائی اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔
’’اللہ تعالیٰ بڑا مہربان اور زبردست قدرت والا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’محمد شریف میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔ اس خواب کی کیا تعبیر ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ۔
’’آج را ت میں حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا مجھے اللہ پاک سے امید ہے کہ بہت جلد آپ کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے کہا اور جانے کی اجازت چاہی۔
’’محمد شریف کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اس خواب کی کیا تعبیرہے؟‘‘ میں نے اسے اٹھتے دیکھ کر جلدی سے پوچھا۔
’’آپ یقین کریں جناب عالی! مجھے بھی کچھ معلوم نہیں میں آج رات حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا اگر اللہ کے حکم سے کامیاب ہوگیا تو انہیں سب کچھ بتا دوں گا پھر وہ جیسا حکم کریں گے اس پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے لیکن یاد سے رابطہ کرلینا۔ میں اس معاملے میں سخت پریشان ہوں‘ میں نے اسے تاکید کی۔
’’آپ بے فکر ہو جائیں اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔‘‘ مجھے تسلی دے کر وہ باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں کام میں مصروف ہوگیا۔ لیکن دل کسی شے میں نہ لگ رہا تھا۔ بار بار صائمہ کا خیال آرہا تھا۔ صبح اس کی طبیعت ٹھیک تھی لینک ۔۔۔خدانخواستہ پھر خراب نہ ہوگئی ہو میں نے سوچا اور گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ حسب معمول گھنٹی بجتی رہی لیکن اسنے فون نہیں اٹھایا۔ کئی بار کوشش کرنے پر نتیجہ وہی رہا تو میں گاڑی کی چابی اٹھا کر جلدی سے باہر نکل آیا۔

تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ چابی سے گیٹ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ اس بارمیں بیڈ روم کی طرف جانے کے بجائے میں پچھلے صحن کی طرف آگیا۔ بیڈ روم کی ایک کھڑی اس طرف کھلتی تھی۔ کھڑکی کے نیچے کیاریوں میں گلاب کے پھول مہک رہے تھے۔ میں دبے قدموں چلتا ہوا کھڑکی کے قریب پہنچا تو بری طرح ٹھٹک گیا۔ اندر سے خود میری آواز آرہی تھی۔ میں جلدی سے آگے بڑھا اور گلاب کے پودوں سے بچتا ہوا کھڑکی سے جھانکا۔
اندر کا منظر دیکھ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ صائمہ اس دن کی طرح ہار سنگھار کرکے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ آج بھی بیلے کی کلیاں اس کے بالوں میں لٹک رہی تھیں۔ جس چیز کو دیکھ کر مجھے حیرت سے زیادہ صدمہ ہوا تھا وہ صائمہ کے ماتھے پر لگا ہوا تلک تھا۔ جیسے ہندو عورتیں ماتھے پر لگاتی ہیں۔ اس کا چہرہ خوشی سے گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔ بڑی ہی پیاری مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر تھی۔ بالکل اس کے سامنے بیڈ پر میری طرف پشت کیے ایک شخص نیم دراز تھا۔ میں ابھی اسے پوری طرح دیکھنے بھی نہ پایا تھا کہ مجھے اپنے بالکل قریب زور دار پھنکار سنائی دی۔ میں اچھل پڑا۔ نیچے دیکھا تو سانس اوپر کی اوپر رہ گئی۔ ایک سیاہ کالا ناگ پھن پھیلائے میرے پیروں سے دو فٹ کے فاصلے پر لہرا رہا تھا۔ میں سن ہوگیا۔ اسکی سرخ زبان لپ لپ باہر اندر ہو رہی تھی۔ چھوٹی چھوٹی نہایت چمکیلی آنکھیں مجھ پر جمعی تھیں۔ وہ زور زور سے پھنکار رہاتھا۔ میں سب کچھ بھول کر جان بچانے کی فکر میں پڑ گیا۔ اگر میں ہلتا تو ممکن تھا وہ مجھے ڈس لیتا۔ بڑی احتیاط سے میں نے پیر پیچھے کھسکایا۔ وہ چوکناہو کر پھنکارنے لگا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر پیچھے کی طرف چھلانگ لگائی اور پشت کے بل اس موذی سے چار پانچ فٹ دور لان میں جاگرا۔ اس نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا پھن اس جگہ پر مارا جہاں ایک لمحے قبل میرا پیرتھا۔ میں نے الٹ بازی لگائی اور اس سے کچھ اور دور ہوگیا اور چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے میں اس موذی کا سر کچل سکوں۔ لان کے آخری کنارے پر بیلچہ پڑا تھا۔ میں نے بھاگ کر اسے اٹھایا اور اس جگہ کی طرف بڑھا دیا جہاں کچھ دیر قبل میں نے اس خطرناک ناگ کو دیکھا تھا۔ لیکن اب وہاں اس کا نام و نشان نہ تھا۔ میں نے احتیاط سے بیلچے کے ڈنڈے سے پودوں کو ادھر ادھر کرکے دیکھا لیکن وہ نکل چکا تھا۔ بچوں والا گھر تھا اور شام کو وہ لان میں کھیلتے رہتے تھے۔ اس کام میں پڑ کرمیں سب کچھ بھول گیا تھا۔ بہت تلاش کیا لیکن وہ کمبخت تویوں غائب ہوگیا تھا جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو۔ کافی دیر تلاش کرنے پر بھی ناکامی ہوئی تو مجھے صائمہ اور اس شخص کا خیال آیا۔ میں لپک کر اندر کی طرف بڑھا تاکہ بیڈ روم میں جا کر اس حرامزادے کا سر کچل دوں۔ اس سارے مسئے کی جڑ وہی نابکار تھا۔ میں بھاگتا ہوا کاریڈور سے گزر کر بیڈ روم میں پہنچا تو حیرت سے میری عقل گم ہوگئی۔ صائمہ انہی کپڑوں میں ملبوس سو رہی تھی جو اسنے صبح پہن رکھے تھے۔ اسکا میک اپ سے عاری چہرہ تھکا تھکا سا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنی جلدی لباس تبدیل کرکے میک اپ ختم کرنا ناممکن نہ تھا۔ میں آنکھیں پھاڑے اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ صائمہ کا چہرہ جو تھوڑی دیر پہلے گلاب کے پھول جیسا دکھائی دے رہا تھا خطرناک حد تک زرد تھا۔ میں لپک کر اس کے پاس پہنچا۔

’’صائمہ‘‘ میں نے اسے بری طرح جھنجھوڑ دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ حیرت سے مجھے دیکھا۔
’’کیا بات ہے فاروق؟‘‘ اسنے نیند سے بوجھل پلکیں اٹھا کر پوچھا۔
’’خیریت تو ہے؟ آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں؟‘‘
میں دھم سے بیڈ پر گر گیا۔
’’یہ سب کیا ہے؟ کیا میری نظروں کو دھوکہ ہوا تھا۔ کیا میرے تخیل نے سب کچھ گھڑ کر میرے سامنے پیش کر دیا تھا؟‘‘ مختلف سوالات میرے ذہن میں چکرا رہے تھے۔
’’فاروق! آپ بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا؟‘‘ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر ہلا رہی تھی۔ میں نے خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’صائمہ! میری تو خود سمجھ میں نہیں آتا کیا بات ہے؟‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔اس کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اگر آپ مجھے نہیں بتانا چاہتے تو میں مجبور نہیں کروں گی‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
میں نے اسے سینے سے لگا کربھینچ لیا ۔
’’یہ بات نہیں میری جان! میں بھلا تم سے کوئی بات چھپا سکتا ہوں‘‘ میں نے اس کا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
’’آپ کے چہرے سے لگ رہا ہے کوئی خاص بات ہے لیکن میں پوچھتی ہوں تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں‘‘ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’صائمہ! ابھی جب میں گھر آیا تو تم۔۔۔‘‘ میں سوچنے لگا اسے یہ سب بتانا ٹھیک رہے گا یا نہیں۔
’’آپ رک کیوں گئے؟ جب آپ گھر آئے تو میں کیا؟‘‘ اس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’تمہیں کچھ یاد ہے رات جب میں باہر سے آیا تو تم نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رات۔۔۔رات کب؟ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ باہر گئے تھے یا نہیں آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ کو کہیں جانا ہے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
’’باہر سے میری مراد لان میں چہل قدمی سے ہے۔ جب میں اندر آیا تو تم جاگ رہی تھیں یاد ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔رات تو آپ سے پہلے ہی میں سو گئی تھی۔ پتا نہیں فاروق! کیا بات ہے آج کل مجھے نیند بہت آنے لگی ہے۔ دن کو بھی میں اکثر سو جاتی ہوں کئی دن سے گھر کی اچھی طرح صفائی بھی نہیں کی۔ جب سے کام کرنے والی گئی ہے سارا گھر گندا پڑا ہے لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں مجھ میں ہمت ہی نہیں کہ میں صفائی ستھرائی کر سکوں حالانکہ آپ جانتے ہیں اس معاملے میں کتنی ٹچی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ہاں جانتا ہوں وہی تو کہنے جا رہا تھا کہ جب میں گھر آیا تو تم سو رہی تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی اس لئے میں نے تمہیں جگا دیا‘‘ میں نے بات بنائی۔ دراصل محمد شریف کی طرف سے جب تک کوئی مثبت جواب نہیں مل جاتا میں صائمہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ارے اتنی سی بات سے آپ پریشان ہوگئے۔‘‘
میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا۔


’’تمہاری ذرا سی پریشانی مجھے بے چین کر دیتی ہے لیکن تم سوتے ہوئے لگ بہت پیاری رہی تھیں۔۔۔‘‘ میری آنکھوں میں شوخی دیکھ کر وہ پھر گھبرا گئی۔ حالانکہ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی تھی لیکن کہتے ہیں نا عورت کی حس اس معاملے میں بہت تیزہوتی ہے۔ اس نے میری آنکھوں میں پڑھ لیا تھا کہ میں کیا چاہتاہوں؟۔
’’مم ۔۔۔میں واش روم جا رہی ہوں‘‘ وہ بری طرح گھبرا گئی۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ کیا یہ وہی صائمہ ہے جو میرے قرب کے لیے بے چین رہا کرتی۔ ہر چند کہ وہ اس معاملے میں بہت شرمیلی ہے لیکن ایسا تو کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ مجھ سے گریزاں رہے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھانا چاہا۔ یکدم اس کی آنکھوں میں سختی اتر آئی۔ اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر غصے سے میری طرف دیکھا۔ اورپیر پٹختے ہوئے باتھ روم میں گھس گئی۔ میں ہکا بکا وہیں بیٹھا رہ گیا۔
’’اسے کیا ہوگیا ہے؟ یہ تو مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کسی نادیدہ پراسرار ہستی کے زیر اثر ہے لیکن اس وقت تو وہ بالکل نارمل حالت میں میرے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ اس دن بھی جب میں نے مذاقاً اس کے قرب کی خواہش کا اظہار کیا تھا وہ اسی طرح گھبرا گئی تھی۔ آج جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو طیش میں آگئی۔
’’اگر آپ نے آفس نہیں جانا تو ڈریس چینج کرلیں‘‘ میں اپنی سوچوں میں اس قدر غرق تھا کہ صائمہ کی آمد سے بے خبر رہا۔ مجھ پر بھی ضد سوار ہوگئی۔
’’میری جان! تھوری دیر میرے پاس تو بیٹھو۔ تمہارے حسن کی تپش نے مجھے بے حال کر دیا ہے۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یک بیک اس کی کیفیت بدل گئی۔ آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔
’’میرا ہاتھ چھوڑ دو۔‘‘ اس کی سرد آواز آئی۔
’’کیوں؟ کیوں چھوڑ دوں تمہارا ہاتھ۔۔۔تم میری بیوی ہو جب چاہے میں تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں یہ حق مجھے شرعی طور پر ملا ہوا ہے۔‘‘ میں نے ہاتھ کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔


’’تو ایسے نہیں مانے گا‘‘ اس کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہوگیا۔ ایک جھٹکے سے اس نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ نزم و نازک صائمہ میں یکدم کسی پہلوان جیسی طاقت عود کر آئی تھی۔ میری رگوں میں خون کے بجائے لاوا گردش کرنے لگا۔ میں نے جھپٹ کر اسے پشت کی طرف سے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اس نے میری کلائیوں کو پکڑکر میرے ہاتھ یوں کھول دیئے جیسے کوئی بڑا آدمی کسی بچے کے شکنجے کو کھول دے۔ پھر پیچھے مڑی اور مجھے زور سے دھکا دیا۔ میں اڑتا ہوا بیڈ پر جا گرا۔ یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔اگر میں زمین پر گرتا تو شاید میری ہڈیاں سرمہ بن جاتیں۔ ہوا میں اڑتا ہوا بیڈ پر گرا اور سپرنگوں والے میٹرس کی وجہ سے ایک بار پھر کئی فٹ اوپر اچھلا۔ دوبارہ گرنے تک میں کچھ نہ کچھ سنبھل چکا تھا۔ غصے سے میرا چہرہ تپ گیا۔ صائمہ مجسم قہر بنی مجھے گھور رہی تھی۔ جب وہ بولی تو میں ششدر رہ گیا۔
’’جیون سے پریم ہے تو پھر میرے شریر کو چھونے کی اوشکتا نہ کرنا۔‘‘ اس کے منہ سے مردانہ آواز نکلی۔ وہ بپھری ہوئی ناگن کی طرح بل کھا رہی تھی۔ ایک سرد لہر میرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔

اس کی آنکھیں کبوتر کے خون کی طرح سرخ ہوگئیں۔ کچھ دیر تو میں بوکھلایا ہوا اسے دیکھتا رہا پھر اچانک میرے جسم میں آگ سی بھر گئی۔
’’کون ہو تم۔۔۔میری بیوی کے جسم پر قبضہ کرنے کی تمہاری جرات کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے دبنگ لہجے میں پوچھا۔
’’تم ایک ملیچھ مسلے ہو کر ہمرے دھرم کی ناریوں سنگ بلات کار کر سکتے ہو تو میں تمری پتنی سنگ کیوں نہیں؟‘‘
صائمہ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ اس کے منہ سے نکلنے والی آواز سنی ہوئی سی محسوس ہوئی لیکن باوجود کوشش کے میں پہچان نہ سکا۔
’’کالی داس! تم چاہے جتنے روپ بدل لو میں نے تمہیں پہچان لیا‘‘ میں نے اندھیرے میں تیر چھوڑا۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ صائمہ کے منہ سے خوفناک قہقہہ بلند ہوا۔

’’منش جاتی کو تو بہت بدھی مان کہا جاتا ہے پرنتو جان پڑتا ہے تیری بدھی میں بھس بھرا ہوا ہے ۔ سن یدی تو نے اب اپنی پتنی کے شریر کو چھونے کی اوشکتا کی تو اپنی مرتیو کاپر بند تو کھد کرے گا ،سن لیا نا پلید مسلے۔۔۔یدی میرا بس چلے تو میں ایک پل میں تجھے نرکھ میں بھیج دوں۔ وہ سمے دور نہیں جب میرا ادھیکار تیری پتنی کے شریر پر ہوگا۔ میں اس کے کومل شریر سنگ اسی طرح کھلواڑ کروں گا جیسے تو ہمرے دھرم کی ناریوں سے کرتا رہا ہے‘‘ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ میں یک ٹک صائمہ کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ غصے سے آگ کی طرح تپ رہا تھا۔
’’ تو نے میری بیوی کو ہاتھ بھی لگایا تو میں تجھے جہنم میں جھونک دوں گا‘‘ طیش سے میرے جسم میں انگارے بھر گئے۔
’’یدی تو اتنا ہی شکتی مان ہے تو مجھے اپنی پتنی کے شریر سے نکال کر دیکھا‘‘ اس نے مضحکہ اڑایا۔
وہ جو کوئی بھی تھا اس وقت میرے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن پر تھا۔
’’کس و چار میں کھو گیا؟ اپنے دھرم کے کسی مہا شکتی مان کو بلا وہ مجھے تیری پتنی کے شریر سے نکالے۔ تو تو بڑا بلوان ہے۔۔۔کالی داس جیسا مہا پرش بھی تیرے آگے کچھ نہیں پھر کس کارن چپ ہے؟‘‘ وہ مسلسل میرا مضحکہ اڑا رہا تھا۔
’’میری بات دھیان سے سن۔۔۔یدی تو نے کوئی چھل کپٹ کیا تو تیری پتنی جیوت نہ رہے گی۔ اس بات کو من میں اچھی طرح بٹھا لے‘‘ اس نے مجھے دھمکی دی۔ میں نے بے بسی کی حالت میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اگر وہ کوئی مجسم شخص ہوتا تو میں اسے ایک منٹ میں مزا چھکا دیتا۔ لیکن نادیدہ وجود کے خلاف میں کیا کر سکتا تھا؟
’’میں جا رہا ہوں ، پرنتو اس بات کا دھیان رہے یدی تو نے کوئی چال چلی تو میں تیری پتنی کو جیوت نہ چھوڑوں گا‘‘ اس کے ساتھ ہی صائمہ نے ایک جھرجھری لی اور چونک کر میری طرف دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
’’کیا میں پھر سو گئی تھی؟‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے تم پر بار بار غنودگی چھا جاتی ہے۔ جلدی سے نہا کر فریش ہو جاؤ پھر ہم بچوں کو سکول سے لے کر نازش کے گھر جائیں گے کہہ رہی تھی رات کا کھانا ہم ان کے ہاں کھائیں‘‘ وہ چپ چاپ باتھ روم میں گھس گئی۔ تھوری دیر بعد ہم بچوں کے سکول سے لے کر عمران کے گھر جا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا صائمہ کو وہاں چھوڑ کر میں محمد شریف کو ساری صورتحال بتاؤں اس کے علاوہ رادھا کے ساتھ بات کرنا بھی ضروری تھا۔ اتنا تو میں جان چکا تھا کہ کوئی خبیث جن صائم پر قابض ہوگیا ہے۔ اس کا یہ کہنا ’’تو ہمارے دھرم کی ناریوں سے بلات کار کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا۔‘‘


’’کہیں یہ بسنتی کا کوئی دوست تو نہیں؟ ہو سکتا ہے وہ مجھ سے بدلہ لے رہا ہو’‘‘ کچھ بھی ہو سب میری کوتاہیوں کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ میں سوچوں میں غرق گاڑی چلا رہا تھا۔ صائمہ بھی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ بچے ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے جب انہوں نے سنا کہ ہم عمران انکل کے گھر جا رہے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم عمران کے گھر پہنچ گئے۔ نازش ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ میں نے علیحدگی میں انہیں سمجھایا کہ صائمہ ذہنی خلفشار کا شکار ہو گئی ہے اس لئے میں اسے تنہائی سے نکالنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے مسکرا کر کہا’’خان بھائی! بے فکر ہو کر جائیں مجھے بھی ایک ساتھی کی ضرورت ہے جو میری باتیں سن سکے‘‘ میں ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔
مجھے یہ خطرہ بھی تھا کہ نازش پر حقیقت نہ کھل جائے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ یہ بھی سوچا خاموشی سے لاہور چلے جائیں لیکن اگر وہاں اس خبیث جن نے امی جان اور بھائی صاحب کے سامنے میرا پول کھول دیا تو کیا ہوگا؟ اس پیش نظر ابھی میرا یہاں سے جانا ناممکن تھا۔ محمد شریف نے بھی کہا تھا وہ حضرت صاحب سے رابطہ کرے گا۔ بینک جا کر میں نے محمد شریف کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
’’جناب عالیٰ میں انشاء اللہ آج رات حضرت صاحب سے رابطہ کروں گا انہیں ساری صورتحال بتا کر ان کے مشورے سے کچھ کرنا بہتر ہوگا۔‘‘ اس نے بڑی اپنایت سے کہا۔


’’محمدشریف میں صائمہ کی حالت سے سخت پریشان ہوں۔ یہ تو شکر ہے بچوں کے سامنے اس کی حالت ٹھیک رہی ورنہ میرے لئے اور زیادہ مصیبت بن جاتی۔ لیکن ڈرتا ہوں کسی وقت اس حالت میں وہ بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
’’جناب خان صاحب ! اللہ تعالیٰ اسے شرمسار کرے گا۔ اور وہی معصوم بچوں کی حفاظت بھی کرے گا۔ آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ اس کا خیال بھی یہی تھا کہ یہ کسی سرکش جن کی کارستانی ہے۔ محمد شریف سے بات کرکے مجھے کچھ تسلی ہوئی۔ رادھا کے سلسلے میں میں محتاط ہو چکا تھا۔ مجھے شک تھا صائمہ نے ہمیں ملتے دیکھ لیا ہے لیکن کسی وجہ سے خاموش ہے۔ رادھا سے ملنا بھی ضروری تھا اس لیے میں نے صائمہ سے بہانہ بنایا کہ مجھے وظیفے کے لیے خالی مکان چاہئے اس لیے تم بچوں کے ساتھ عمران کے ہاں ٹھہر جاؤ۔ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ رات کے کھانے کے بعد میں واپس اپنے گھر آگیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جیسے ہی میں بیڈ روم میں داخل ہوا۔ عجیب سی ناگوار بومیرے نتھنوں سے ٹکرائی جیسے کوئی مردار کمرے میں پڑا ہو۔ ابھی میں سو ہی رہا تھا کہ کمرہ دھویں سے بھرنے لگا۔ مجھے کھانسی چھڑ گئی۔ میں الٹے قدموں کمرے سے باہر آنے لگا۔ اچانک کسی نے پشت سے مجھے دھکا دیا اور میں ہوا میں اڑتا ہوا کمرے کے درمیان جا گرا۔ ساری ہڈیاں کڑکڑا کر رہ گئیں۔ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا اس کے باوجود خاصی چوٹ آئی۔ اگر ننگا فرش ہوتا تو شاید میں زندگی بھر کے لیے معذور ہو سکتا تھا۔
’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی۔۔۔‘‘ کمرے میں مکروہ نسوانی ہنسی گونج اٹھی۔ میں نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ دم بدم بدبو میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سانس لینا دوبھر ہوگیا کمرے میں اندھیرا تھا مجھے لائٹ جلانے کی مہلت ہی نہ مل سکی تھی۔ ابھی میں اس افتاد کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ہاتھ سے کوئی سرد چیز ٹکرائی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ جھٹک دیا۔ تھوڑی دیر پھر اس شے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے کراہیت محسوس ہوئی۔ اسکی گرفت میرے ہاتھ پر سخت ہوگئی۔ میں نے دوسرے ہاتھ سے اسے ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ آہستہ آہستہ میرے ہاتھ کے گرد لپٹنا شروع ہوگئی۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے دیکھنا تو ممکن نہ تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا جیسے سانپ میرے ہاتھ کے گرد لپٹ گیا ہو۔ اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ اب دھویں کانام و نشان نہ تھا۔ یکدم روشنی ہونے کی وجہ سے میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔میں نے چندھی آنکھوں سے دیکھا اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
بسنتی میرا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی۔ وہی بسنتی جس کے حسن کے پیچھے کئی سادھو اور پنڈت بچاری پاگل تھے۔ اب وہ خوفناک حد تک کریہہ المنظر ہو چکی تھی۔ بدبو کے بھبھکے اس کے بدن سے اٹھ رہے تھے جگہ جگہ سے پیپ رس رہی تھی۔ کھال اترنے کے باعث اندر سے گوشت اور پیپ جھانکنے لگی تھی۔ گھٹاؤں جیسی زلفوں کے بجائے گنجا سر اور گلاب کی نوشگفتہ کلی جیسی جلد کی بجائے جھریوں بھرا چہرہ۔ دلوں پر بجلیاں گرانے والے موتیوں جیسے دانت۔۔۔اب منہ سے باہر نکل کر بھیانک منظر پیش کر رہے تھے۔ سڈول جسم اب بد وضع ہو کر ڈھلک چکا تھا۔ وہ سو سالہ بڑھیا جیسی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک نظر ڈال کر میں نے منہ دوسری طرف پھیرلیا۔ اس کا ہاتھ لمبا ہو کر میرے ہاتھ کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ بغیر ہڈی کا ہاتھ جس میں مکمل انگلیاں موجود تھیں لیکن ہڈی کے بغیر۔


’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی۔۔۔‘‘ اس کی مکروہ ہنسی کمرے میں گونج اتھی۔
’’مہاراج! کس کارن ناراج ہو اپنی داسی سے‘‘ اور کوئی کہتا کہ کچھ عرصہ قبل یہ حور شمائل تھی تو سننے والا اسے پاگل قرار دیتا۔
’’تمہیں تو ادھیک پریم تھا میرے سنگ؟ کیا بھول گئے۔۔۔میں وہی بسنتی ہوں جسے اپنی بانہوں میں لینے کے کارن تم بیاکل رہا کرتے۔ دوشی تو تم بھی تھے موہن! پرنتو۔۔۔شراپ اس کلٹانے کیول مجھے دیا۔ تم پر اسنے دیا کی اور میری سندرتا کی کیا دشا بنا دی؟ یہ سب کچھ تمرے کارن ہی تو ہوا ہے۔ یدی میں بیاکل ہوں تو تم کیوں شانت پھرو؟‘‘ اس کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی۔
’’یاد ہے میں نے اس سمے کتنی بنتی کی تھی تجھ سے۔۔۔رادھا کے شراپ سے مجھے بچا لے۔ پرنتو تونے میری ایک نہ سنی۔ میرے شریر سے کھلواڑ کرکے تو یوں ہوگیا جیسے مجھے جانتا ہی نہیں ۔یدی تو ایک بار اس پاپن سے کہہ دیتا وہ اوش مجھے شما کردیتی۔ پرنتو تیرے نینوں پر تو ایک بارپھر رادھا کے پریم کی پٹی بندھ چکی تھی۔ سب یاد ہے یا بھول گیا؟‘‘ میں گنگ کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔
’’کہاں گئی پریم کے بول بولنے والی تیری جیب(زبان)؟ کیا میں نے کچھ گلط کہا۔۔۔بولتا کیوں نہیں پاپی‘‘ وہ مجھے خاموش پا کر دھاڑی۔ میں نے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن جتنا میں اس سے ہاتھ چھڑاتا اتنا ہی اس کا ہاتھ لمبا ہو کر میرے بازو سے لپٹنے لگتا۔ بدبو کے مارے ابکائیاں آرہی تھیں۔ جیسے ابھی قے ہو جائے گی۔
’’یہ بسنتی کی پکڑ ہے۔ اس سے جان چھڑانا بالکوں کا کھیل نہیں۔ کہاں ہے تیری پریمیکا جس نے تیرے کارن اپنی سکھی پر دیا نہ کی۔ یدی وہ تجھے بھی شراپ دیتی تو مجھے دیکھ نہ ہوتا۔ پرنتو اس نے مجھے توکہیں کا نہ رکھا اور تجھے اسی طرح سندر رہنے دیا۔ یہ بات مجھے بھلی نہ لگی۔ بلا اس کلٹا کو جس نے میری یہ دشا بنا دی ہے۔‘‘ وہ گرجی۔


’’دیکھو بسنتی! اس میں میرا کیا قصور ہے؟ تمہارے ساتھ جوکچھ ہوا وہ رادھا نے کیا ہے میں تو خود اس وقت بہت ڈر گیا تھا کہیں وہ مجھے بھی سزا نہ دے دے۔ میں قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا ظلم کرے لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ وہ بہت طاقتور ہے۔ میں جانتا تھا وہ میرے کہنے پر بھی تمہیں نہیں چھوڑے گی اس لئے میں خاموش رہا‘‘ میں نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش ترک کرتے ہوئے اسے بڑے رسان سے سمجھایا۔
’’اگر تم نے بدلہ لینا ہے تو رادھا سے لو۔۔۔اسی نے تمہاری یہ حالت بنائی ہے مجھ بے قصور پر کس لئے ظلم کرتی ہو؟‘‘
’’بند کر اپنی گندی جیب۔۔۔یدی تو نے کالی داس کی آگیا کا پالن کرتے ہوئے اس کی سہائتا کی ہوتی تو اس کلٹا کو کچھ کرنے کا اوسر ہی نہ ملتا۔ تو دوشی ہے۔۔۔اب میرے شراپ سے تجھے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ وہ طیش کے عالم میں گرجی۔ اس کی گرفت میرے ہاتھ پر سخت ہونے لگی۔ مجھے اپنے ہاتھ کی ہڈیاں کڑکڑاتی محسوس ہوئی۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔
اسی قت بسنتی مجھ سے دور چلی گئی۔ اسکا ہاتھ ربر کی طرح لمباہوگیا تھا دور جانے کے باوجود میرے ہاتھ پر اس کی گرفت اسی طرح سخت تھی۔ اس نے اپنا منہ کھولا۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آج بھی جب مجھے وہ منظر یاد آتاہے تو جھرجھری آجاتی ہے۔ اس کی سرخ زبان لمبی ہو کر میری طرف بڑھنے لگی۔ میرے چہرے کے سامنے پہنچ کر وہ سانپ کے پھن کی طرح لہرانے لگی۔ میں نے حتی الامکان چہرے کو پیچھے کر لیا۔ کوئی لمحہ جاتا تھا کہ اس کی کریہہ زبان میرے چہرے کو چھو لیتی۔ میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں۔ اچانک کمرے میں گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میرا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔ میں نے چونک کر آنکھیں کھولیں تو کمرے میں بسنتی کا نام و نشان نہ تھا۔
’’چنتا نہ کرو پریم! میں آگئی ہوں‘‘ رادھاکی پیار بھری سرگوشی سنائی دی۔ جیسے کسی اندھے کو آنکھیں مل جائیں۔میں نے چاروں طرف دیکھا۔
’’رادھا تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے اسے آواز دی۔


’’میں اس سمے تم سے جیادہ دور نہیں ہوں پریم! پرنتو۔۔۔تم مجھے دیکھنے میں سپھل نہ ہو پاؤ گے اس کا کارن کیا ہے یہ میں تمہیں پھر بتاؤں گی۔ وہ کلٹا بھاگ گئی ہے تم چنتا مت کرو اب وہ نہیں آئے گی نشچنٹ ہو کر سو جاؤ۔ میں نے تمری رکھشا کا پربند کر دیا ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے کسی کو آواز دی۔’’چمارو۔۔۔!‘‘
’’جی دیوی جی‘‘ سہمی ہوئی کھرکھراتی آواز سنائی دی۔
’’تجھے میں نے موہن کی رکھشا کرنے کو کہا تھا پھر وہ کلٹا کیسے اپنے داؤ میں سپھل ہوگئی؟‘‘ رادھا کی سرد آواز آئی۔
’’دو۔۔۔دیو۔۔۔دیوی جی ! شما چاہتا ہوں بھول ہوگئی۔ مجھ پر دیا کرو دیوی جی! شما کردو پھر ایسا نہ ہوگا‘‘ کانپتی ہوئی آواز میں کہا گیا۔
’’یدی اب ایسا ہوا تو تجھے نرکھ میں بھیج دوں گی تیری اس بھول پر تجھے شراپ تو اوش ملے گا پرنتو اس سمے میں کسی جاپ میں لگی ہوں یدی اب اس پاپن نے میرے پریمی کو ستایا تو۔۔۔‘‘ رادھا کی قہر بار آواز اائی۔
’’دیوی جی! اس بار شما کر دوپھر ایسی بھول نہ ہوگی‘‘ چمارو کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔
’’پریم ! چنتا نہ کرنا چمارو تمری رکھشا کرے گا۔۔۔میں کل آؤں گی۔‘‘ رادھا نے مجھے مخاطب کیا۔ اس کے ساتھ ہی چھا گئی۔ گلاب کی خوشبو بھی ختم ہوگئی۔ مجھے حیرت تھی کہ رادھامجھے مشکل میں دیکھ کر کیوں نہیں آئی؟ ہاں اس نے بر وقت میری مدد کردی تھی ورنہ پتا نہیں وہ منحوس بسنتی میرا کیا حشر کرتی؟ اگر رادھا خود نہ آئی تھی تو گلاب کی خوشبو کہاں سے آگئی؟ ہو سکتا ہے وہ مجھے نظر نہ آنا چاہتی ہو۔ کوئی مجبور ہوگی سر جھٹک کر ان خیالات سے پیچھا چھڑایا۔

میں یہاں رادھا سے ملنے کی خاطر ہی آیا تھا لیکن اس کے بقول وہ کسی ضروری کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہ آسکتی تھی۔ دل چاہا واپس عمران کے گھر چلا جاؤں لیکن صائمہ کو کیا جواب دیتا یہ سوچ کر میں نہ چاہتے ہوئے بھی بستر پر لیٹ گیا۔ ذرا سی آہٹ پر چونک اٹھتا ہر چند کہ رادھا نے کہا تھا چمارو میری حفاظت کرے گا لیکن ان پراسرار قوت کے مالک لوگوں پر مجھے کچھ زیادہ یقین نہ رہا تھا۔ کافی دیر بعد نیند آئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو دس بج رہے تھے۔ جلدی سے تیار ہو کر بینک پہنچ گیا۔ چپراسی سے کہہ کر چائے اور بسکٹ منگوا کرمیں نے ناشتہ کیا اور محمد شریف کو بلوا لیا۔
’’اسلام علیکم جناب عالی‘‘ اس کا مسکراتا ہوا شفیق چہرہ سامنے تھے۔
’’وعلیکم اسلام! آؤ محمد شریف بیٹھو‘‘ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
میری بے چین نظروں کا مفہوم جان کر اس نے کہا۔
’حضرت صاحب نے ہماری مدد کرنے کی حامی بھر لی ہے۔۔۔بدبخت شیطان کو شکست فاش ہوگی۔ انشاء اللہ‘‘

’’انشاء اللہ‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک تعویز نکالا اور میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولا۔
’’یہ حضرت صاحب نے دیا ہے۔ فرما رہے تھے اسے صائمہ بیٹا کے گلے میں پہنچا دینا لیکن اس وقت اس کی طبیعت ٹھیک ہو۔ آپ سمجھ گئے نا؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اللہ کریم کے حکم سے وہ بدکار دوبارہ خاتون محترم کے جسم پر قبضہ نہ کر سکے گا۔‘‘ اس کے الفاظ سے میرے دل کو تسلی ہوئی۔
’’بہت شکریہ محمد شریف۔ میں تمہارا احسان کبھی نہ بھولوں گا‘‘ میں نے عقیدت سے چوم کر تعویذسامنے والی جیب میں رکھ لیا۔
’’اس کے علاوہ حضرت صاحب نے ایک پیغام بھی دیا ہے‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میرا دل دھڑکنے لگا۔


’’فرما رہے تھے آپ کو مبارک باد دے دوں کہ بہت جلد آپ سے کوئی نیک کام لیا جائے گا‘‘
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔اپنی بدکاری اور دین سے دوری کا سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔‘‘ میں کہاں اس قابل کہ مجھ سے کسی نیک کام کی توقع کی جائے۔‘‘ آنسو چھپانے کی خاطر میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
’’اللہ کے نزدیک کون کتنا اچھا ہے؟ یہ وہ مالک دو جہاں خود بہتر جانتا ہے ہم تو سب اس کے حکم کے بندے ہیں۔ حضرت صاحب کا فرمان میرے پاس آپ کی امانت تھا میں نے پہنچا دیا۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ میرے آنے کے بعد عمران کھانا کھانے گھر چلا گیا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے بتایا۔
’’بھابی بچوں کو لے کر گھر چلی گئی ہیں کہہ رہی تھیں آپ سیدھے گھر آجائیں‘‘ اسکی بات سن کر میری کان کھڑے ہوگئے۔
’’لیکن وہ گھر کیوں چلی گئی؟ میں نے کہا تو تھا کہ شام کو میں خود لے جاؤں گا۔‘‘ میں نے الجھ کر پوچھا۔
’’کہہ رہی تھیں میرے سرمیں درد ہے گھر جا کر کچھ دیر آرام کروں گی۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا لیکن میرے دل میں طرح طرح کے خدشات آرہے تھے۔ بچوں کا صائمہ کے ساتھ اکیلا گھر میں ہونا اچھا نہیں تھا۔ کیا خبر کب اس کی طبیعت پھر خراب ہو جائے۔ یہ سوچ کر میں نے عمران سے کہا
’’میں ذرا گھر کا ایک چکر لگا آؤں صبح صائمہ کی طبیعت خراب تھی۔‘‘ یہ کہہ کر میں آندھی اور طوفان کی طرح گھر پہنچا۔ گیٹ کھول کر میں ے گاڑی گیراج میں کھڑی کی۔ گھر میں سنانا چھایا ہوا تھا۔ ابھی میں گاڑی سے اترنے بھی نہ پایا تھا کہ مومنہ کی دل خراش چیخ نے فضا کا سینہ چیر دیا۔ میں بھاگتا ہوا بیڈا روم میں پہنچا۔ صائمہ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھے کمرے کے درمیان کھڑی تھی۔ دونوں بچے سہم کو کرنے میں دبکے ہوئے تھے۔ خوف سے ان کی آنکھیں پھٹی اور چہرے زرد تھے۔ احد نے مومنہ کو اپنے بازوؤں میں لے رکھا تھا۔وہ حد درجہ خوفزدہ تھے اور سہمی ہوئی نظروں سے صائمہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں صائمہ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔اُ ف میرے خدا۔۔۔اسکا چہرہ اس قدر بھیانک ہو چکا تھا کوئی بڑا بھی دیکھتا تو خوف سے اس گھگی بندھ جاتی۔ صائمہ کی زبان گز بھر لمبی ہو کر باہر نکل آئی تھی۔ آنکھیں بڑی ہو کر گولائی اختیار کر چکی تھیں۔ چہرہ اس قدر ڈراؤنا ہو چکا تھا کہ نظر بھر دیکھنا مشکل تھا۔ اسی وقت صائمہ کی نظر مجھ پر پڑی۔ کھڑے کھڑے اس کی گردن گھوم گئی۔ اس کا صرف چہرہ میری طرف ہوا تھا ورنہ وہ اسی طرح میری طرف پشت کیے کھڑی تھی۔ بچوں نے مجھے دیکھا تو چیخیں مارنے لگے۔ میرا بدن غصے سے کانپنے لگا۔ اپنے ننھے منے معصوم بچوں کو اس حالت میں دیکھ کر میں غصے سے پاگل ہوگیا۔ جنون کی حالت میں میں صائمہ کی طرف بڑھا اور اللہ کا نام لے کر پوری قوت سے اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ مجھے یقین ہے اگر وہ تھپڑ کسی آدمی کو بھی پڑتا تو وہ کئی فٹ دور جا گرتا لیکن صائمہ صرف لہرا کر رہ گئی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے خوفناک قہقہہ بلند ہوا۔
’’توآگیا۔۔۔ٹھیک کیا۔۔۔آج میں تیرے سامنے تیری سنتان کے شریرسے رت پی کر ان کاماس(جسم کا خون پی کر ان کا گوشت) کھاؤں گا۔‘‘ اس نے سرخ انگارہ آنکھوں سے مجھے گھورا۔
’’آج تجھے میں بتاؤں گا بلو ان کون ہے؟ دیکھ کیسا کومل شریر ہے ان بالکوں کا ۔۔۔ان کا ماس بڑا سوادش (مزے دار) ہوگا۔‘‘ اسنے اپنی لمبی زبان کو سکوڑ کر ہونٹوں پرپھیرا۔ گردن دوبارہ بچوں کی طرف گھوم گئی۔ جنہوں نے سہم کر آنکھیں بند کر لی تھی۔ احد خان کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے۔ صائمہ نے اسے سمجھا رکھا تھا جب کبھی ڈر لگے کلمہ پڑھا کرو، اس کے اثر سے چڑیلیں ڈرکر بھاگ جاتی ہیں۔ مومنہ بھائی کی بغل میں گھسی ہوئی تھی۔ اس کا ننھا وجود خوف سے کانپ رہا تھا۔ ان کا حال دیکھ کر میں پاگل ہوگیا۔ صائمہ کا ہاتھ درازہوکر بچوں کی طرف بڑھنے لگا۔ بچے اس قدرسہم گئے تھے کہ وہ میری طرف بڑھنا بھول گئے۔ حالانکہ احد مجھے دیکھ چکا تھا۔
میں سپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھلا اور پورے زور سے صائمہ کے ساتھ ٹکرا گیا۔ ساتھ ہی میں نے بالوں سے پکڑکراسے اچھال دیا۔ وہ ہوا میں اڑتی ہوئی بیڈ پر جاگری۔ لیکن فوراً اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ زبان سانپ کی طرح بار بار اندر باہر ہونے لگی۔ اسنے اپنے ہاتھوں کا رخ میری طرف کیا۔ اچانک اس کے ہاتھ لمبے ہو کر میری گردن کی طرف بڑھنے لگے۔ سادھو امر کمار نے بھی اس طرح کا مظاہرہ کیا تھا اس وقت رادھا میری مدگار تھی جبکہ آج میں اکیلا تھا۔ مجھے اپنی نہیں بچوں کی فکر تھی۔ صائمہ کے خوبصورت ہاتھ یک بیک سیاہ اور بد وضع ہوگئے۔ ان پر بال نکلنے لگے، تھوڑی دیر میں وہ جانور کے پنجے کی شکل اختیار کر گئے۔ تیزی سے اسکے ہاتھ میری گردن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔ میں چاہتا تھا کسی طرح بچوں کے پاس پہنچ جاؤں لیکن وہ خبیث میرا عند یہ بھانپ چکا تھا۔
قریب تھاکہ میری گردن اس کے شکنجے میں ہوتی بے اختیار میری زبان پر آیتہ الکرسی کا ورد جاری ہوگیا۔۔۔ہاتھ وہیں رک گئے۔ میں بلند آواز سے آیتہ الکرسی کا ورد کرنے لگا ۔دونوں بچے آہستہ آہستہ رو رہے تھے۔ مومنہ کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔ صائمہ کے ہاتھ مجھ سے کچھ فاصلے پر رک گئے تھے۔
’’آگے بڑھ پھر دیکھ میں تیرا کریہ کرم کیسے کرتا ہوں؟‘‘ میں نے اسکی طرف کوئی دھیان نہ دیا بلکہ آہستہ سے کھسکتا ہوا بچوں کی طرف بڑھنے لگا۔
’’یہیں رک جا۔۔۔نہیں تومیں اس بالک کو نرکھ میں پہنچا دوں گا‘‘ صائمہ کے منہ سے دھاڑ نکلی اور اس نے ہاتھ کا رخ بچوں کی طرف کردیا۔ میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ آیتہ الکرسی کی برکت اور بزرگ کے دیے ہوئے تعویذ کی وجہ سے وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ فتح کے نشے سے سرشار اس نے قہقہہ لگایا۔
’’بہت پریم ہے نا تجھے اپنی سنتانسے۔۔۔آج تو کھد دیکھے گا میں ان کا ماس کیسے کھاتاہوں؟‘‘ ہاتھ ایک بار پھر بچوں کی طرف بڑھنے لگا۔ احد نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔فلک شگاف چیخ اسکے منہ سے نکلی۔ اس کے ساتھ ہی مومنہ نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ جانور کے پنجے نما ہاتھ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ بے ہوش ہو کر ایک طرف لڑھک گئی۔ احد مسلسل چیخ رہا تھا۔ اب دیر کرنا درست نہ تھا۔ میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور بھاگتا ہوا صائمہ سے ٹکرا گیا۔ میری زور دار ٹکر سے اس کے پاؤں اکھڑ گئے۔ میں سینے کے بل اس سے ٹکرایا تھا۔ دراصل میں اسے دبوچنا چاہتا تھا۔ دل دہلا دینے والی چیخ صائمہ کے منہ سے نکلی، وہ سینہ پکڑے نیچے گرکر بے ہوش ہوگئی۔ اس کا ہاتھ اور چہرہ یک دم اپنی اصلی حالت میں آگئے۔ میں بھاگ کر بچوں کے پاس پہنچا ۔مومنہ کو اٹھایا اور باتھ روم میں جا کر اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ میرے ساتھ لپٹ کر رونے لگی۔ احد بھی میری ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دونوں بچے اس قدر سہم چکے تھے کہ ان سے ٹھیک طرح سے رویا بھی نہ جا رہا تھا۔ میں نے مومنہ کو کندھے سے لگاکر دوسرے ہاتھ سے احدکو اٹھالیا۔ دونوں میرے سینے سے چپک گئے۔ میں باتھ روم سے باہر آیا تو دیکھا صائمہ بال کھولے بیڈ پر بیٹھی جھوم رہی ہے۔ اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔
کیسے ہو رادھا کے موہن؟‘‘ میں بری طرح چونک گیا۔ صائمہ کی سرخ آنکھیں تمسخر سے بھری ہوئی تھیں۔
’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’تمیری پتنی کا پریمی‘‘ اس نے مضحکہ خیز لہجے میں جواب دیا۔ بچے ایک بارپھر سہم کرمیرے ساتھ چپک گئے۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ اس وقت بچوں کو لے کر گھر سے نکل جاؤں اور انکو عمران کے گھر چھوڑ کر دوبارہ واپس آکر اس خبیث سے نبٹوں۔ اتنا میں جان چکا تھا کہ وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔
’’کہاں جا رہا ہے پلید؟‘‘ مجھے جاتے دیکھ کر صائمہ کھڑی ہوگئی۔ میں نے دل ہی دل میں کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھا اور بیڈ روم سے باہر نکل گیا۔
’’کہاں بھاگ رہا ہے قائر اپنی پتنی کو کس پر چھوڑے جا رہا ہے؟ کیا میں یہ سمجھوں کہ تو نے اپنی پتنی مجھے دان کردی؟‘‘
اس نے بلند آواز سے کہا۔ میرا دل چاہابچوں کو اتارکر اس حرامی کا منہ توڑ دوں۔ لیکن میں جانتا تھا اس طرح تکلیف صرف صائمہ کو ہوگی دل پر پتھر رکھے زہر کے گھونٹ پیتاباہر نکل آیا۔ اس کے بلند آہنگ قہقہے میرا پیچھا کرتے رہے۔

میں ہر طرف سے بے نیاز ہو کر بھاگتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا اور درواز کھول کر بچوں کوبٹھا دیا جو کسی طور مجھ سے جدا ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔ میں نے بمشکل بچوں کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا اوردروازہ بند کرکے آگے بیٹھنے لگا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔

”کہاں جا رہا ہے میلچھ؟آ….مجھے نشٹ کر….قائر! ڈر کر بھاگ رہا ہے۔ ہا….ہا….ہا….“اس کے قہقہے کی باز گشت میری رگوںمیں ابل لے آئی۔ دل تو چاہا اسی وقت اس حرامزادے کو قبرمیں اتار دوں۔ اگر وہ مجسم حالت میں میرے سامنے آتا تومیں اپنے انجام کی پرواہ کیے بغیر اس سے بھڑ جاتا۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ وہ بزدل صائمہ کے جسم کی پناہ لے کر مجھے للکار رہا تھا۔ میں نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی سٹارٹ کرکے اسے ریورس کرتا باہر نکل آیا۔صائمہ کو اس حالت میں چھوڑنے پر میرا خون کے آنسو رو رہا تھا۔ مومنہ کی ہچکیاں اب بھی جاری تھیں۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ احد بھی فوراً اگلی سیٹ پر آگیا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھال کر اس کے سر پرہاتھ پھیرا۔
”احد بیٹا! آپ تو بہت بہادر ہو کسی سے نہیں ڈرتے۔“ میں نے اسکا سر تھپتھپایا۔
”بب….بابا! ماما کو کیا ہوا ہے ان کی شکل کیسی ہوگئی تھی؟ وہ اس طرح کیوں بول رہی تھیں؟“ اس نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
”بیٹا! ماما بیمار ہیں اس لئے ان کی ایسی حالت ہوگئی ہے۔“ میں نے اس کی تسلی کے لیے کہا۔
”لل….لیکن ماما کی شکل تو بہت بری ہوگئی تھی وہ ہمیں کیوں مارنا چاہتی تھیں؟“ بے ساختہ آہ میرے منہ سے نکل گئی۔
”بیٹا! وہ آپ کو مارنا نہیں چاہتیں جب وہ بیمار ہو جاتی ہیں تو ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ فکر نہ کرو میں ااپ لوگوں کو آنٹی نازش کے گھر چھوڑ کر ماما کو ہاسپٹل لے جاﺅں گا ڈاکٹر ان کا علاج کرے گا تو وہ ٹھیک ہو جائیں گی؟“
اس کے بعد اسنے کوئی سوال نہ کیا۔ میرے لیے یہ خیال ہی سوہان روح تھا کہ میں صائمہ کو اس بدبخت کے رحم و کرم چھوڑ آیا تھا۔ عمران کے گھر پہنچ کر میں نے بچوں کو نازش کے حوالے کیا اور اسے بتایا کہ صائمہ کی طبیعت خراب ہے میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہا ہوں اور بچوں کو وہاں داخلہ ممنوع ہے۔
”فاروق بھائی! کیا ہوا بھابی کو؟“ وہ فکر مند ہوگئیں۔
”معمولی سا بخار ہے۔“ میں نے جلدی سے کہا اور مومنہ کو ان کی گودمیں دے دیا۔
”ارے….اسے کیا ہوا یہ تو بہت بری طرح ڈری ہوئی ہے؟“ نازش نے اسے اپنے سینے سے لگاکر پوچھا۔
”صائمہ نے بخار میں اسے ڈانٹ دیا تھا اسلئے یہ بے چاری سہم گئی ہے۔“ میں نے کہا۔ پھر احدکو ایک طرف لے جاکر سمجھایا کہ وہ آنٹی سے کوئی ایسی ویسی بات نہ کرے۔ اسنے اپنا ننھا سا سرہلا دیا۔ مجھے یقین تھا وہ میری بات پر عمل کرے گی۔ ان کو وہاں چھوڑ کر میں سیدھا بینک چلا گیا۔ جلدی سے محمد شریف کوبلوا کر میں نے ساری صورتحال بتائی وہ اسی وقت میرے ساتھ جانے پر تیار ہوگیا۔
”خان صاحب! وہ تعویذ کہاں ہے جو میں نے آپ کو دیا تھا؟“ اسنے پوچھا۔
”میری جیب میں ہے کیوں؟“

”اسے اپنے سے جدا مت کیجئے گا وہ خبیث مجھے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن آپ کے اوپر وارکرنے سے نہیں چوکے گا۔“
ہم دس منٹ میں دوبارہ گھرپہنچ گئے گیٹ ابھی تک کھلاہوا تھا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے میں جلدی سے اندرکی طرف بھاگا۔ محمد شریف میرے پیچھے تھا۔ بیڈ روم میں پہنچے تو وہ خالی تھا۔

’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے زور سے آواز دی۔ خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں نے سارا گھر دیکھ لیا لیکن صائمہ وہاں نہیں تھی۔ پریشانی سے مریا برا حال تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اسے ایک ایک کمرے میں تلاش کر رہا تھا۔ محمد شریف اوپر کی منزل پر دیکھنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’محمد شریف ! اب کیا ہوگا، وہ خبیث صائمہ کو کہاں لے گیا؟‘‘
’’آپ فکر نہ کریں مجھے جائے نماز دے دیں میں ایک چھوٹا سا وظیفہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس نے کہا۔
میں نے بیڈ روم میں ہی جائے نماز بچھا دی۔ وہ آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگا۔ میں سارے گھر میں چکراتا رہا۔ میرا دل بھر آیا۔ وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بار بار صائمہ کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا۔ بچوں کی وجہ سے میں اسے اکیلا اس لعنتی کے رحم و کرم پر چھوڑ تو گیا تھا اب پچھتاوے مجھے گھیر رہے تھے۔ لیکن میں کیا کرتا اگر بچوں کو اس وقت لے کر نہ جاتا تو ہو سکتا تھا مومنہ کو خدانخواستہ کچھ ہو جاتا۔ وہ بری طرح خوفزدہ ہوگئی تھی۔

’’خان بھائی!‘‘ محمد شریف میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے آنسوؤں سے تر آنکھوں سے اسے دیکھا۔
’’وہ صائمہ کو لے کر ایک ہندو پنڈت کی پناہ میں چلا گیا ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’وہ بدبخت ضرور صائمہ کو کالی داس کے پاس لے گیا ہوگا‘‘ میں نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہاں وہ وہیں گیا ہے۔‘‘ محمد شریف نے تصدیق کی۔
’’اب کیا ہوگا محمد شریف؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
’’آپ فکر نہ کریں جناب! اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔ آپ کسی طرح ملنگ کو تلاش کرکے اس سے اس جگہ کا پتا پوچھیں میں جب تک گھر سے کچھ ضروری سامان لے آؤں اس کے بعد اس خبیث سے نبٹ لیتے ہیں‘‘ محمد شریف نے مجھے تسلی دی۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اسے بینک چھوڑ کر میں ملنگ کی تلاش میں نکل گیا۔ اسے تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ میں اسی سڑک پر جا رہا تھا جہاں ایک دوبارہ میری ملنگ سے ملاقات ہوئی تھی۔
’’پریم! کہاں جا رہے ہو؟‘‘ پیچھیسے رادھا کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا، جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ رادھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرکے روک دی۔ رادھا کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔
’’رادھا وہ خبیث صائمہ۔۔۔‘‘


’’جانتی ہوں پریم! میں یہ بھی جانتی ہوں وہ تمری پتنی کہاں لے گیا ہے؟‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
’’تم جانتی ہو تو مجھے بتاؤ۔۔۔میں اس حرامزادے کو جان سے مار دوں گا‘‘ طیش سے میرا برا حال ہوگیا۔
’’شانت رہو پریم! میں اوش تمہیں وہاں لے جاؤں گی پرنتو اس سے پہلے کچھ پربند کرنا ہوگا۔ کالی داس نے میری شکتی بارے غلط و چار کیا ہے وہ بھول گیا ہے کہ میں نے اس کی کیا دشا بنا دی تھی؟‘‘ وہ دانت پیس کر بولی۔
’’پریم ! اس نے تمہیں نہیں ۔۔۔مجھے دکھ دیا۔ اس پاپی نے کشٹ تمہاری پتنی کو نہیں مجھے دیا ہے اور جو کوئی رادھا کو کشٹ دیتا ہے رادھا کا شراپ اسے سنسار میں سکھی نہیں رہنے دیتا۔ یدی تم اس سمے اس دھشٹ کو شما نہ کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘ اس نے کہا۔
’’لیکن تم کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں اس کارن اپنی شکتی بڑھا رہی تھی، جانتی تھی کالی داس چپ نہ بیٹھے گا۔ مجھے کشٹ دینے کا وچار تو وہ اپنے من میں نہیں لا سکتا اور وہ پاپی یہ بھی جانتا ہے کہ میں تمری رکھشا کر رہی ہوں۔ کیول تمری پتنی رہ جاتی ہے۔ مجھے پوراوشواس تھا کہ وہ جرور تمری پنتی کو کشٹ دے گا۔ اسی کارن میں سات دن کا ایک جاپ کر ہی تھی۔ جیسے وہ کھتم ہوا میں آگئی ہوں‘‘ اسنے تفصیل سے بتایا۔
’’رادھا! جلدی سے اس جگہ چلو جہاں وہ خبیث صائمہ کو لے کر گیا ہے‘‘ مجھے وہاں پہنچنے کی جلدی تھی۔
’’موہن! وہ پاپی جان بوجھ کر تمری پتنی کو وہاں لے کر گیا ہے ۔ کالی داس نے اپنے متروں سے بنتی کی ہے کہ وہ اس کی سہائتا کریں۔ سات بچاری اس کی بنتی کو سوئیکار کرکے اس کی سہائتا کرنے پہنچ چکے ہیں۔ باقی سب تو ایسے ہی میں کیول مجھے چنتا ایک پچاری کی ہے۔ اس کا نام وشنوداس ہے۔۔۔جس نے اپنا سمے کڑی تپسیا میں بتایا ہے۔ وہ ادیھک شاستر اور وید(جادوگری) جانتا ہے اس سے یدھ کرنے کے کارن ہمیں بھی کچھ پربند کرنا ہوگا۔‘‘ رادھا نے مجھے سمجھایا۔
’’تم مجھے صرف تسلیاں دے رہی ہو تم نہیں جانتیں میرے دل پر کیا بیت رہی ہے؟ میری بیوی ان حرامزادوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور میں آرام سے یہاں بیٹھا رہوں‘‘ رادھا کی کی بات سن کر میں پھٹ پڑا۔


’’موہن! جانتی تمرے من کا حال۔۔۔پرنتو مجھے واشوس ہے وشنو داس جیادہ سمے کالی داس کیا ستھان پر نہیں ٹک سکتا۔ اسے پوجا پاٹ کے کارن بہت سارے استھانوں پر جانا ہوتا ہے۔ کیول دو دن انتجار کر لو جیسے ہی وشنو داس گیا میں تمہیں کھبر کر دوں گی‘‘ اس نے ناراض ہونے کے بجائے مجھے سمجھایا۔
’’تم جو اتنے سارے جاپ کرتی رہتی ہو ان کا کیا فائدہ؟ اگر تم میری بیوی کو بازیاب کرانے میں میری مدد نہیں کر سکتیں تو مہربانی کرکے مجھے وہ جگہ بتا دو میں خود ہی چلا جاتا ہوں‘‘ میرے جومنہ میں آیا کہتا چلا گیا۔ صائمہ کی جدائی نے میرے ہوش و حواس چھین لیے تھے۔
’’موہن! اس سمے تمرے من کی جو دشا ہے اس کی جانکاری ہے مجھے پرنتو میں یہ بھی جانتی ہوں اس سمے وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے۔ کالی داس جانتا ہے تم تر نت وہاں آؤ گے اور اس پاپی کی اچھا بھی یہی ہے کہ تم اس کے جال میں آجاؤ۔ پرنتو اس سمے وہاں جانے سے تم اپنی پتنی کو اور جیادہ کشٹ میں ڈال دو گے‘‘ اس نے رسان سے مجھے سمجھایا۔
’’پھر۔۔۔پھر کیا کروں، کیا صائمہ کو ان حرامیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں؟‘‘ غصے سے میرا برا حال ہوگیا۔
’’یہ میں نے کب کہا؟ پرنتو اس سمے بدھی سے کام لینا ہوگا۔ کالی داس نے یہ سب کچھ اسی کارن کیا ہے کہ تم اپنی پتنی کے کارن بیاکل ہو کر وہاں پہنچ جاؤ اور وہ اپنی شکتی کے جور سے تمرا بلیدان کالی ماتا کے چرنوں میں کر دے‘‘ میں بل کھا کر رہ گیا۔
’’کیول دو دن اور انتجار کر لو اس کے بعد یکھنا میں ان پاپیوں کا کیسے سروناش کرتی ہوں؟‘‘ اس نے ایک بار پھر مجھے نرمی سے سمجھایا۔ میں نے اس کی بات کو کئی جواب نہ دیا۔ مجھے خاموش پا کر وہ بولی۔
’’من تو نہیں کرتا اس کڑے سمے تمہیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں پرنتو میرا جانا بہت جروری ہے مجھے کچھ پربند کرنا ہے‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’جاؤ۔۔۔جاؤ۔۔۔تم بھی چلی جاؤ میری بربادی میں اب کوئی کسر نہیں رہ گئی‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ اس نے اداسی سے میری طرف دیکھا اورنظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں دوبارہ بینک چلا گیا۔ ہر چیز مجھے کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ محمد شریف ابھی نہیں آیا تھا۔ عمران اندر آگیا۔ میری حالت دیکھ کر اس نے دروازہ بند کیا اورمیرے سامنے کرسی پربیٹھ گیا۔


’’کیا بات ہے خان بھائی؟خیریت توہے؟‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بھرآیا۔ میں نے جلدی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن اس نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے۔جلدی سے اٹھ کر میرے پاس آگیا۔
’’خان بھائی! آپ بتاتے کیوں نہیں؟ سب خیریت ہے نا؟‘‘ کچھ دیر خود کو سنبھالنے کے بعد میں نے اسے اب تک پیش آنے والے سارے واقعات بتا دیئے۔ وہ حیرت سے منہ کھولے سنتا رہا۔
’’خان بھائی! اتنا کچھ ہوگیا اور آپ نے مجھ کچھ بھی نہ بتایا۔ کیا میں اتنا غیر ہوں آپ کے لئے؟‘ اس نے دکھ سے کہا۔
’’میری تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔اتنے مصائب پڑے کہ میری عقل گم ہوگئی‘‘ میں نے سب کچھ اس لئے عمران کے بتا دیا تھا کہ اگر میں دل کا بوجھ ہلکا نہ کرتا توہو سکتا تھا میری دماغ کی شریان پھٹ جاتی۔ وہ سر جھکائے کچھ دیر بیٹھا رہا۔
’’اب کیا ہوگا خان بھائی؟‘‘ اسنے فکر مندی سے پوچھا۔
’’محمد شریف کا انتظار کر رہا ہوں وہ آئے تو کچھ پتا چلے۔ ملنگ تو نہیں ملا ہاں رادھا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ خبیث جن صائمہ کو کالی داس کے ٹھکانے پر لے گیا ہے‘‘ میں نے کہا۔ ایک بات یہاں واضح کر دوں کہ میں عمران سے کافی ساری باتیں چھپا گیا تھا۔ ورنہ وہ کیا سوچتا میں کتنا بدکار ہوں؟ رادھا کے بارے میں میں نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسی گھر میں میری دوست بنی ہے وہ ایسا بھلے مانس تھا کہ زیادہ کریدنا اس کی عادت نہ تھی۔ ہم دونوں خاموشی سے سرجھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ چھٹی ہونے میں تھوڑی دیر رہ گئی تھی۔ مجھے بچوں کی فکر بھی تھی۔ خاص کر مومنہ بہت بری طرح اپ سیٹ تھی۔ محمد شریف چھٹی ہونے کے تھوڑی دیر بعد آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔
’’چلیں۔۔۔؟‘‘ میں اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’خان بھائی! آج رات میں آپ کے گھر گزاروں گا مجھے ایک وظیفہ کرنا ہے۔ مراقبے سے معلوم ہوا ہے کہ ان شیطانوں نے اکٹھے ہو کرمقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ باقیوں کی تومجھے اتنی فکر نہیں لیکن ان میں سے ایک شخص جادوکا ماہر ہے اس سے نبٹنا ذرا مشکل ہے۔ اسکے لئے دو راتیں مسلسل پڑھائی کرنا ہوگی‘‘ اسنے کہا۔
رادھا نے بھی یہی کہاتھا کہ وشنو داس نام کاایک پجاری ہے جو اپنے کام میں ماہر ہے۔ وہ چلا جائے تو باقی لوگوں کووہ دیکھ لے گی۔ محمد شریف بھی وہی کچھ کہہ رہا تھا۔میں نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھا۔


’’اور دو دن تک کیا صائمہ انہی حرامزدوں کے چنگل میں پھنسی رہے گی؟‘‘میرا لہجہ خود بخود تلخ ہوگیاتھا۔
’’جناب عالی! اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں ایک لمحہ تاخیر نہ کرتا‘‘ محمد شریف نے سر جھکا لیا۔ میں اس کی مجبوری سمجھ رہا تھا لیکن اپنی جگہ میں بھی ٹھیک تھا۔ صائمہ کی جدائی کا ایک ایک لمحہ میرے اوپر بھاری تھا۔
’’خان بھائی! صبر کریں انشاء اللہ تعالیٰ بھابی محفوظ رہیں گی وہ بہت نیک اور پاکباز خاتون ہیں‘‘ محمد شریف نے میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے مجھے تسلی دی۔
’’ٹھیک ہے، آؤ چلیں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ہم سب گاڑی میں بیٹھ کر بنگلے پرچلے گئے۔ محمد شریف نے کچھ انتظامات کیے اور مجھ سے کہا۔
’’آپ عمران صاحب کے ساتھ ان کے گھر چلے جائیں۔ صبح انشاء اللہ میں آپ کو خوشخبری سناؤں گا‘‘ ہم دونوں وہاں سے عمران کے گھر چلے گئے۔ بچوں نے مجھے دیکھا تو بھاگ کر میرے پاس آگئے۔
’’ماما کہاں ہیں؟‘‘ مومنہ میری گود میں چڑھ کر بولی۔ رو روکر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ میرا دل بھر آیا قریب تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے۔ میں نے خود پر قابو پایا۔

’’بیٹا! ماما ہاسپٹل میں ہیں۔ وہ بیمار ہیں نا اس لئے۔ دو دن بعد آجائیں گی‘‘ میں نے اس کے گال پر پیار کرکے کہا۔
’’میں نے ماما کے پاس جانا ہے‘‘ وہ مچلنے لگی۔ عمران کے بچے اسے بہلا کر باہر لے گئے۔ دونوں میاں بیوی دیر تک میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے بھابی نے سب بچوں کو کھانا کھلا دیا تھا ان کے بہت اصرار پرمیں نے بھی دو چار لقمے زہر مارکر لیے۔ کھانے کے بعد بچے سو گئے میں بھی بیڈ روم میں آگیا۔ ہم جب بھی عمران کے گھر قیام کرتے یہی کمرہ زیر استعمال رہتا۔ صائمہ مجھے کس قدر عزیز تھی اس کا پتا مجھے اب چلا تھا۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے وضو کیا نماز پڑھ کر میں دیر تک مصلے پر بیٹھا صائمہ کی سلامتی کی دعائیں مانگتا رہا۔ آنسو میری آنکھوں سے لگاتار جاری تھے۔ ملنگ نے کہا تھا اگر رونا ہے تو اس غفور الرحیم کے آگے سر سجدے میں رکھ کر روؤں۔ میں بے اختیار سجدے میں چلا گیا۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔
’’اے دو جہاں کے مالک ! میری سیاہ کاریوں کی سزا میری معصوم بیوی کو نہ دینا‘‘ رونیا ور دعا مانگنے سے میرے دل کو سکون ملا۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ میں نے نماز تہجد ادا کی۔ کہیں پڑھا تھا اس وقت اللہ پاک پکارتاہے۔
’’ہے کوئی جو میری رحمت کا طلبگارہو؟‘‘
دیر تک میں پاک رب ذولجلال کے سامنے گڑ گڑاتا رہا۔ دل کو سکون ملا تو مجھے نیند آگئی کسی قدر مہربان شے ہے نیند بھی۔۔۔انسان کو غموں سے چھٹکارا دلا دیتی ہے۔ صبح مومنہ کے رونے پر میری آنکھ کھلی۔ جاگتے ہی صائمہ کو یاد کرکے بے اختیار میرے منہ سے آہ نکل گئی۔ مومنہ کا رو رو کا براحال تھا۔ وہ صائمہ سے بہت اٹیچ تھی۔ صبح اسی کے ہاتھ سے ناشتہ کرتی۔ آج اسے نہ پراکر وہ مچل گئی تھی۔ احد خان بھی جاگ گیا تھا اور چپکے چپکے رو رہا تھا۔
’’بابا۔۔۔میری ماما کو لے آئیں پلیز میں۔۔۔‘‘ احد بھی رونے لگا۔
دونوں بچوں کو چپ کراتے کراتے میری آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر گئیں۔
’’صائمہ تم کہاں ہو خدا کے لئے آجاؤ میں دوبارہ کوئی غلطی نہیں کروں گا۔۔۔میرے خدا! مجھے صائمہ سے ملا دے۔۔۔معصوم بچوں پر رحم کر میرے معبود۔۔۔! ان کو ان کی ماں سے ملا دے یا اللہ! تم ہر چیز پر قادر ہے میری کوتاہیوں کی سزا ان معصوموں کو نہ دینا میرے مالک‘‘
میرا دل رو رہا تھا۔
آنکھیں رو رہی تھیں۔


ہم تینوں رو رہے تھے۔
نازش جاگ گئی تھیں انہوں نے جب بچوں کے رونے کی آواز سنی تو اندر آگئیں۔ پیار سے انہیں گلے لگایا اور چپ کرانے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تھوڑی دیر وہ انہیں ساتھ لگائے بیٹھی رہیں پھر پیار سے انہیں سمجھاکر ساتھ لے گئیں۔ چونکہ ہم اکثر عمران کے گھر آیا کرتے اس لئے بھی بچے نازش سے مانوس تھے۔ ناشتہ ہم سب نے اکھٹے کیا۔
’’خان بھائی! آج آپ چھٹی کر لیں۔ بھابی کے نہ ہونے سے بچے اداس ہو جائیں گے‘‘ عمران نے مجھے مشورہ دیا۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ عمران کے جانے کے بعد میں بچوں کو گاڑی میں گھمانے لے گیا۔ ایک سٹور سے بسکٹ ، چپس، کولڈ ڈرنک وغیرہ لے کر ہم ایک چھوٹے سے پارک میں آگئے۔ وہاں جھولے لگے ہوئے تھے۔ دونوں بچے کھیل میں مگن ہوگئے اور میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
’’نہ جانے صائمہ کس حال میں ہوگی۔ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہوگیا تو ۔۔۔اللہ نہ کرے‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میں بار بار اپنے ذہن کو جھٹک کر ان خیالت سے چھٹکارہ حاصل کرتا لیکن دوسرے لمحے وہ میرے پھر میرے ذہن پر حملہ کر دیتے۔ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ملنگ چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ لیے میرے پیچھے کھڑا تھا۔ میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’باباجی۔۔۔!‘‘ میری آواز رندھ گئی۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے خلا میں نظریں جمائے خاموش کھڑا تھا۔
’’بابا جی! صائمہ۔۔۔‘‘ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔
’’مرد بن۔۔۔مرد کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہا ہے؟‘‘ اس نے مجھے جھڑک دیا۔
’’تو تو بہت بہادر ہے، کسی سے نہیں ڈرتا۔ حتیٰ کہ ۔۔۔خدائے بزرگ و برتر سے بھی نہیں‘‘ اس کی غیض و غضب میں ڈوبی آواز آئی۔
’’لوگ جنات کا نام سن کر کانپ جاتے ہیں جبکہ تو اتنا دلیر ہے کہ ان کے ساتھ شب بسری کرتا ہے ۔ اپنی گھر والی پر کسی کی نظر پڑی ہے تو بلبلا اٹھا ہے؟‘‘ اس نے طنز کیا۔ میرا خیال تھا وہ میری دلجوئی کرے گا اور مجھے صائمہ تک پہنچنے میں مدد دے گا لیکن وہ تو میرا مذاق اڑا رہا تھا۔ کچھ دیر میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
’’بابا جی! اگر آپ میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن براہ کرم میرے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں‘‘ اس کے رویے سے میرا دل دکھ گیا۔
’’نمک حرام ۔۔۔تو کیا کرے گا؟ تو تو اس کا بھی وفادار نہیں جو تیری وجہ سے یہ مصیبت جھیل رہی ہے‘‘ اس کا لہجہ زہریلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں میں جہنمی ہوں۔۔۔مجھے مر جانا چاہئے۔۔۔زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے مجھے‘‘ میں بری طرح جھنجھلا گیا۔ وہ کچھ دیر قہر نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ بچے جھولا جھول رہے تھے۔ جب ایک مجہول اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے میلے کچیلے شخص کو میرے پاس کھڑے دیکھا تو حیرت سے میرے پاس چلے آئے۔
’’ادھر آؤ میرے پاس‘‘ ملنگ نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔ مومنہ فوراً اس کے پاس چلی گئی۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا اور مومنہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ ملنگ کے منہ سے رال بہہ رہی تھی۔ خوراک کے ذرے اس کے داڑھی سے چپکے ہوئے تھے۔ میرے بچے صفائی ستھرائی کے معاملے میں اپنی ماں کی طرح حساس ہیں لیکن مجھے حیرت ہوئی مومنہ نے ملنگ کی داڑھی پکڑ لی اور اس سے کسی شیر خوار بچے کی طرح کھیلنے لگی۔ احد بھی اس کے گٹھنے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ ملنگ نے پھٹے ہوئے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور تسبیح کے دانوں جیسے سفید موتی نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیے۔ کچھ دیر انہیں منہ میں گھماتا رہا پھر انہیں ہتھیلی پر تھوک سمیت نکال لیا۔ سفید دانے سبز رنگ اختیار کر گئے تھے۔
اس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے ایک دانے کو پکڑا اور مومنہ سے منہ کھولنے کے کہا۔ اس نے جھٹ منہ کھول دیا۔ ملنگ نے دانہ مومنہ کے منہ میں ڈال دیا۔ مومنہ اسے بڑے مزے سے چباگئی۔ اس کے بعد اس نے احد کو دوسرا دانہ کھلا دیا۔ وہ بھی مزے سے کھا گیا۔ ملنگ کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے کچھ دیر وہ پڑھتا رہا پھر دونوں بچوں پرپھونک دیا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’تمہاری ماں بہت جلد آجائے گی‘‘ اس نے بڑی شفقت سے ان سے کہا۔ مومنہ تو کچھ نہ سمجھی لیکن احد نے اسے طرح سر ہلایا جیسے وہ ملنگ کی بات سمجھ گیا ہو۔
’’جاؤ جا کرکھیلو‘‘ اس نے بچوں سے کہا وہ اس کی بات مان کر دوبارہ جھولوں کی طرف دوڑ گئے۔
’’جا تو بھی کھیل۔۔۔تیرے ابھی کھیلنے کے دن ہیں۔۔۔۔جامن پسند کھیل کھیلنے میں لگ جا‘‘ اس نے پھر مجھ پر طنز کیا۔ میں جلدی سے اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا اور بے نیازی سے ایک طرف چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ بلا کی تیز رفتاری سے چلتا ہوا پارک سے نکل گیا۔ میں سر جھکائے بچوں کے پاس واپس آگیا۔ ملنگ کا آنا بے مقصد نہ تھا وہ ایک پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کھیل کر بچے تھک گئے۔ میرے پاس آکر انہوں نے واپس چلنے کوکہا۔
’’ماما کے پاس جانا ہے‘‘ مومنہ پھر رونے لگی۔ میں نے جلدی سے اسے اٹھایا اور احد کی انگلی پکڑ کر پارک سے نکل آیا۔ مومنہ کسی طور چپ ہونے میں نہ آرہی تھی۔ وہ بار بار ماں کے پاس جانے کی ضد کرتی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح بہلا پھسلا کر اسے چپ کرایا۔ اس کے من پسندکھلونے لے کر دیے۔ احد جو ہمیشہ کھلونے پا کر خوش ہوتا آج اس نے بڑی بے دلی سے کھلونے لے کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیے۔ اس کی معصوم آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ ان کی حالت دیکھ کرمیرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
کافی دیر انہیں مختلف جگہوں پر گھما پھر اکر ہم شام کے قریب واپس گھر گئے۔ گھر آکر ایک بار پھر مومنہ نے ماں کو یاد کرکے رونا شروع کر دیا۔ نازش نے بچوں کو اشارہ کیا وہ اسے پیار کرکے کھیلنے کے بہانے لے گئے۔ وقت کاٹے نہ کٹتا تھا۔ میں جلے پاؤں کی بلی کی طرح کبھی اندر کبھی باہر پھرتا رہا۔ بار بار صائمہ کا معصوم چہرہ میرے سامنے آجاتا۔ اس کی معصوم نظریں مجھ سے سوال کرتیں۔
’’فاروق! مجھے کس کے سہارے اکیلا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں سرجھٹک کر ان خیالات سے پیچھا چھڑاتا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ میرے سامنے آجاتی۔
فاروق! خدا کے لئے مجھے ان ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤ میں بہت اکیلی ہوں‘‘ میں گھبرا کر باہر آگیا۔
’’فاروق! تم تو کہتے تھے مجھے تم سے عشق ہے پھر مجھے کیوں اکیلا چھوڑ دیا‘‘ وہ بار بار مجھ سے سوال کرتی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں گھبرا کر اندر آگیا۔ ڈرائینگ روم میں بچھے صوفے پر بیٹھ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
’’فاروق! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز میری مدد کرو مجھے یہاں سے لے جاؤ‘‘ صائمہ کا چہرہ بندآنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔
’’میں آرہا ہوں صائمہ۔۔۔!میں آرہا ہوں‘‘ میں چیخ اٹھا۔ نازش بھاگ کر اندر آئیں۔
’’کیا ہوا فاروق بھائی؟‘‘ وہ میرے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔
’’کک۔۔۔کچھ نہیں‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے گا فاروق بھائی! آپ تو بڑے حوصلے والے ہیں۔ صائمہ بھی بہت نیک ہیں اللہ پاک ان کی حفاظت کرے گا‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دی۔ میں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ میرا حوصلہ جواب دے جائے گا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگوں گا۔ نازش باہر چلی گئیں۔ عمران نے انہیں ساری بات بتا دی تھی۔
’’فاروق بھائی!‘‘ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے کھڑی تھیں۔ صبح سے اب تک ایک کھیل بھی اڑ کر میرے منہ میں نہ گئی تھی۔ بچوں کو تو میں نے بازار سے کچھ چیزیں لے کر کھلا دی تھیں لیکن خود پانی تک نہ پیا تھا۔
’’ صائمہ نہ جانے کس حال میں ہوگی؟اس نے کچھ کھایا بھی نہ ہوگا‘‘ اس خیال نے مجھے کھانے سے باز رکھا۔ رات ہوگئی مومنہ تھوڑی دیر بعد رونے اور ماں کو یاد کرنے لگتی۔ شام تک اسے بخار ہوگیا۔ عمران اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ مجھے تو اپنا ہوش نہ تھا۔

احد بار بار میرے پاس آتا۔ معصوم آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتا اور باہر چلا جاتا۔ ڈاکٹر نے عمران کے کہنے پر مومنہ کو نیند کی دوا بھی کھلا دی تھی۔ وہ سو رہی تھی۔ عمران کافی دیر میرے پاس بیٹھا تسلی دیتا رہا۔ لیکن میرا حال تو یہ تھا جیسے دنیا اندھیرا ہوگئی ہو۔ کچھ اچھا نہ لگ رہا تھا۔ بار بار اپنی بزدلی پر مجھے غصہ آتا کہ میں کیوں اسے وہاں چھوڑ کر چلا آیا؟ رات ہوگئی۔ میں نے عشاء کی نماز پڑھ کر ایک بار پھر اپنے معبود کے سامنے سر سجدے میں رکھ دیا۔ رو رو کر مصلّی گیلا ہوگیا۔ رونے سے کچھ سکون ملا۔ عمران کے اصرار پر چند لقمے زہر مارکیے اور خاموشی سے کمرے میں آگیا۔ بچے سو چکے تھے۔
’’پریم‘‘ رادھا کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ پریم! ترنت اپنے گھر پہنچو‘‘ آواز دوبارہ آئی۔ میں نے چاروں طرف دیکھا رادھا کہیں نہ تھی۔ میں سوچ ہی رہا تھا کیا واقعی رادھا نے آواز دی تھی یا یہ سب کچھ میرا وہم تھا۔
’’سمے برباد نہ کرو ترنت اپنے گھر جاؤ‘‘ آواز اس بار واضح طور پر سنائی دی۔
’’رادھا تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے ایک بار پھر چاروں طرف نظر دوڑائی۔

’’میں بھی ایک جروری کام سے جارہی ہوں تم اپنے گھر چلے جاؤ۔ اپنے متر کی پتنی سے کہو وہ تمری سنتان کی رکھشا کرے۔ گھر میں کوئی تمرا انتجار کر رہا ہے‘‘ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ میں نے عمران کو ساری صورتحال بتائی اور تاکید کی کہ نازش بچوں کے پاس سو جائیں۔ وہ ساتھ جانے پر بضد تھا لیکن میرے سمجھانے پر مان گیا۔ میں گاڑی آندھی اور طوفان کی طرح بھگاتا گھر پہنچا۔ گیٹ بند تھا۔ میں نے بیل بجائی کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی دروازہ نہ کھلا تو میں نے چابی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ لان اور برآمدے کی لائٹس جل رہی تھیں۔ لان کے بیچوں بیچ اوپلوں کی راکھ سے ایک بہت بڑا دائرہ بنا ہوا تھا۔ دائرے کے درمیان ایک پیتل کا تھال جس میں باریک باریک رائی جیسے سیاہ دانے بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر زمین میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے کلے گڑھے ہوئے تھے۔ یہ بالکل ویسے تھے جیسے لوگ مویشیوں کو باندھنے کے لئے زمین میں گاڑ دیتے ہیں لیکن سائز میں اس سے کافی چھوٹے تھے۔ برآمدے کے فرش پر کوئلے سے عجیب و غریب نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ میں حیرت سے سب کچھ دیکھتا اندر داخل ہوگیا۔ سارا گھر خالی تھا۔ میرا خیال تھا محمد شریف موجود ہوگا لیکن وہ بھی نہ تھا۔ یہ سب کچھ شاید اسی نے کیا تھا۔ رادھا کے بقول کوئی میرا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن یہاں تو بندہ نہ بندے کی ذات گھربھائیں بھائیں کر رہا تھا۔میں سارے گھر کا چکر لگا کر ڈرائنگ روم میں آگیا۔ ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ بیل بجی۔ میں چونک گیا۔
’’کون ہوسکتا ہے اس وقت؟‘‘ میں نے سوچا اور اٹھ کر باہر آگیا۔ گیٹ کھولا تو سامنے محمد شریف کھڑا تھا
’’اسلام علیکم جناب عالی!‘‘ اس نے مسکرا کر مجھے سلام کیا۔
’’وعلیکم اسلام! محمد شریف گیٹ تو کھلاہوا تھا پھر تم نے بیل کیوں بجائی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’میں نے آپ کی گاڑی کھڑی دیکھ لی تھی اس پیش نظر بیل دی ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ خواتین بھی ہوں‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’آؤ ۔۔۔اندر آجاؤ‘‘ میں نے ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا۔ وہ اندر آگیا۔ میں نے گیٹ بند کر دیا۔
’’محمدشریف یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے لان کی طرف اشارہ کیا۔
’’سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے جناب ! کل رات حضرت صاحب تشریف لائے تھے لیکن آپ اس وقت یہاں کیسے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ اسے رادھا کے بارے میں بتایا جائے یا نہیں۔
’’ایسے ہی بس دل بہت افسردہ تھا اس لئے یہاں چلا آیا۔‘‘ میں نے بات بنائی۔
’’اچھا ہوا آپ آگئے میں تو خود آپ کو بلانے کا ارادہ کر رہا تھا‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’کیوں خیریت؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کسی کو آپ سے ملانا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کسے۔۔۔؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’آئیے اندر چل کر بیٹھتے ہیں‘‘ وہ اندر کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ ہم دونوں ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئے۔ میں منتظر تھا کہ محمد شریف کس سے مجھے ملوانا چاہتا ہے۔ ساتھ میں حیران بھی تھا کہ گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔
’’عبدالودود! اندر تشریف لے آئیے‘‘ محمد شریف نے باہر کی طرف منہ کرکے آواز دی۔ میں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک نہایت خوش روباریش نوجوان اندر داخل ہوا۔ دراز قد، سرخ سفید رنگت ، بڑی بڑی سحر کار آنکھیں۔ شانے تک بڑھے ہوئے سیاہ کالے بال۔ اس کی سفید رنگت پر کالی داڑھی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اس نے پرانے زمانے کے شہزادوں جیسا قیمتی لباس پہن رکھا تھا۔ اندر داخل ہو کر اس نے بڑے باوقار انداز سے سلام کیا۔
’’وعلیکم اسلام‘‘ محمد شریف نے جواب دیا۔
میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ گیٹ بند تھا۔ اور شریف کے آنے سے پہلے میں سارے گھر میں چکر لگا کر دیکھ چکا تھا میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ پھر یہ جوان کہاں سے آگیا۔ میں بے اختیار اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ وہ باوقار چال چلتا ہوا میرے پاس آگیا۔ اتنا خوبصورت جوان میں نے کم ہی دیکھا تھا۔ حالانکہ پرتاب بھی بہت وجیہہ تھا لیکن اس نوجوان جسے محمد شریف نے عبدالودود کے نام سے پکارا تھا وجاہت اور شاندار شخصیت میں نمبر لے گیا تھا۔ اس کے چہرے پر نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ نظر ہٹانا مشکل تھا۔ میں یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی دلچسپی تھی۔
’’ماشاء اللہ ! اس نے میری طرف دیکھ کر بڑے نستعلیق عربی انداز سے کہا۔ اس کی آواز بھی اس کی طرح خوبصورت تھی۔ میرے قریب آکر اس نے اپناہاتھ بڑھایا۔ میں نے جلدی سے اس سے مصافحہ کیا۔ محمد شریف مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے نام ہاتھ پر روئی کے گالے کا گمان ہوتا تھا۔
’’یہ شیخ عبدالودود ہیں۔ حضرت صاحب کے مرید خاص‘‘محمد شریف نے میری الجھن دور کی۔ میں سمجھ گیاکہ اس نوجوان کا تعلق قوم جنات سے ہے۔ وہ مسکراتا ہوا مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو دل کھول کر وجاہت عطا فرمائی ہے۔ سبحان تیری قدرت ‘‘ میں اسکی گھمبیر آواز کے سحرمیں کھو گیا۔
’’آپ بھی کچھ کم نہیں۔۔۔اللہ پاک نے آپ کے بھی بے مثال پیدا فرمایا ہے‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
’’تشریف رکھیئے‘‘ محمد شریف نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔
’’خان صاحب! کل رات حضرت سے میری با تفصیل بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے کمال شفقت فرماتے ہوئے بھائی عبدالودود کو بھیجا ہے یہ ہماری رہنمائی فرمائیں گے‘‘ محمد شریف نے کہا۔
’’بھائی فاروق! آپ فکر نہ کریں انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے اللہ پاک نے اس کا تدارک بھی اسی دنیا میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو آزماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’ہم جس کو آزماتے ہیں اسے بھی بھوک اور خوف سے آزماتے ہیں اور جس کو سزا دیتے ہیں اسے بھی بھوک اور خوف ہے‘‘ عبدالودود نے بڑے مدبرانہ انداز میں سمجھایا۔ جنات سے ہم کلام ہونے کا یہ میرا پہلا موقع نہ تھا کہ میں جھجھکتا۔
’’بھائی عبدالودود! ہم کہاں اس قابل کہ اللہ کے پیاروں میں خود کو شمار کرنے کی جرات کر سکیں۔ میں تو اپنے گناہوں پر اتنا شرمندہ ہوں کہ بتا نہیں سکتا۔ لیکن میری بیوی تو معصوم اورپاکباز ہے، اتنی باوفا اور با حیا کہ میں اس کی پاکیزگی کی قسم کھانے کے لیے تیار ہوں۔ پھر۔۔۔پھر اس پر یہ مصیبت۔۔۔میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا‘‘ میں نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’بھائی! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔ یہ مصائب اور مشکلات انسان کے گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا باعث ہوتے ہیں کسی کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور کسی کو درجات میں بلندی عطا ہوئی ہے۔ آپ فکر نہ کریں شیطان جتناچاہے قوی ہو جائے اللہ پاک کی قدرت کے آگے بے بس ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مشکل وقت کسی نیک کام کی سعاددت کا باعث بن جائے‘‘ عبدالودود نے کہا۔ میں سر جھکا لیا۔
’’بھائی محمد شریف! حضرت صاحب کا حکم تھا بلاتاخیر کام کیا جائے اس لئے مجھے ایک جائے نماز عطا فرما دیں تو مشکور ہوں گا میں کچھ دیر مراقبہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ وہ محمد شریف سے مخاطب ہوا۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر جائے نماز دے دی۔
’’معذرت خواہ ہوں آپ لوگوں کو کچھ دیر مجھے تنہائی میں کام کرنے کی اجازت دینا ہوگی۔‘‘ اس نے ہم دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ضرور میں اور خان بھائی باہر انتظار کرتے ہیں جب آپ فارغ ہو جائیں توبتا دیجئے گا‘‘ ہم دونوں باہر آکر برآمدے میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

’’محمد شریف یہ سب کیا ہے؟ یہ نوجوان۔۔۔‘‘
’’خان صاحب! بھائی عبدالودود حضرت صاحب کے بہت ہونہار شاگرد اور مرید ہیں۔ اس عمر میں اللہ کی رحمت اور ریاضت و عبادت کے باعث انہوں نے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو کسی کسی خوش نصیب کوملتا ہے۔ زبردست روحانی قوتوں کے مالک ہیں یہ صاحب۔ انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہماری مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا‘‘ اسنے بڑے خلیق لہجے میں کہا۔
’’کیا صائمہ کی شکل دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آجائے گی‘‘ جو فکر مجھے کل سے کھائے جا رہی تھی میں نے اس کا ذکر محمد شریف سے کیا۔
’’جناب! معذرت چاہتا ہوں میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔‘‘
’’میں نے کل تمہیں بتایا تھا نا ، جب میں گھر پہنچا تو وہ بدبخت صائمہ کے جسم پر قابض تھا۔ اور صائمہ کی شکل بہت خوفناک ہو چکی تھی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔

’’ہاں جی بتایا تھا۔ لیکن خان بھائی آپ اس بارے میں بالکل فکر مند نہ ہوں یہ سب بصری دھوکہ ہوتا تھا۔ جنات کی یہ مجال نہیں کہ وہ انسان کی شکل و شباہت میں تبدیلی پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ وہ محض ہم انسانوں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر ہماری نظر کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے ایسا قطعاً نہیں ہوتا جنات کو کچھ معاملات میں انسان پر فوقیت حاصل ہے وہ اس سے کام لے کر خوفزدہ کرتے ہیں۔‘‘
میرے سر پر سے جیسے پہاڑ ہٹ گیا۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ یہ سب نظری دھوکہ ہوتا ہے اوراللہ پاک نے ان کو اس ظلم کی طاقت نہیں دی ورنہ تو انسان بہت نقصان میں رہتا۔ میں نے ایک طویل سانس لی۔
’’توکیا وہ سب دھوکہ تھا؟‘‘
’’ہاں جناب وہ محض نظر بندی ہوتی ہے وہ جو کچھ چاہتے ہیں ہمیں وہی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ بعض شعبدہ باز ہماری نظر بندی کرکے ہمیں وہ کچھ دکھاتے ہیں جس پر عقل اعتبار نہیں کرتی۔ مثلاً وہ کاغذ کو نوٹ کی شکل میں لے آتے ہیں۔ خشک ٹہنیوں کی ایک جھڑی بنا کر اس میں سے آم پید اکرکے ہمیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘اسنے تفصیل سے بتایا۔
ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس معاملے میں محمد شریف کی معلومات کافی زیادہ تھیں۔ حالانکہ میرا واسطہ ایک عرصے سے جنات سے تھا لیکن میں ان کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ سچ کہتے ہیں اللہ والے وسیع علم کے مالک ہوتے ہیں جو انہیں ان کی نیکی اور پاکبازی کے باعث اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ میں نے محمد شریف کو ملنگ کے بارے میں بتایا جسے سن کر اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ بچوں کی حفاظت کی خاطر ملنگ نے یہ سب کچھ کیا تھا۔
’’بھائی محمد شریف! اگر زحمت نہ ہو تو اندر تشریف لے آئیے لیکن بصد معذرت آپ اکیلے ہی آئیے گا‘‘ اندر سے عبدالودودکی آواز آئی۔ محمد شریف نے معذرت خواہانہ انداز سے میری طرف دیکھا۔
’’کوئی بات نہیں محمد شریف تم چلے جاؤ‘‘ میں نے مسکرا کر اجازت دی۔ شکر یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔ میں ٹہلتا ہوا گیٹ کے پاس آگیا۔
’’پریم!‘‘ اچانک میرے کان میں رادھا کی سرگوشی ابھری۔ میں نے چونک کر دیکھا۔
’’پریم ! میں کالی داس کے استھان پر جارہی ہوں تم اپنے متروں کو لے کر ترنت وہاں پہنچو۔ سارے پجاری کسی جاپ میں مگن ہیں اور وشنو داس کہیں جا چکا ہے۔‘‘ رادھا نے جلدی سے کہا۔
’’لیکن رادھا! مجھے تو اس جگہ کے بارے میں معلوم ہی نہیں میں کیسے آؤں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمرے متر جانتے ہیں‘‘ آواز آئی۔
’’میں جا رہی ہوں ترنت وہاں پہنچو‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔ اتنے میں محمد شریف باہر آیا۔
’’خان بھائی! جلدی سے چلیے ہمیں ایک جگہ جانا ہے‘‘ وہ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ لیکن وہ بھائی جو اندر۔۔۔‘‘
’’وہ جا چکے ہیں اور ہمارے لئے کہا ہے کہ ہم بھی وہاں پہنچ جائیں‘‘ محمد شریف میری بات کاٹ کر بولا۔ میں نے گیٹ کو تالا لگایا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔
’’کس طرف جانا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ محمد شریف آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔
’’دائیں طرف موڑ لیجئے اور اب آپ نے انہیں پوچھنا میں خود ہی بتاتا چلوں گا‘‘ وہ بغیر آنکھیں کھولے بولا۔ میں اس کے کہنے کے مطابق چلتا رہا۔ وہ گاہے بگاہے مجھے بتا دیتا کہ گاڑی کس طرف موڑنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد شہر پیچھے رہ گیا اور ہم بڑی سڑک پر آگئے۔تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیور کے بعد ہم ایک گاؤں پہنچ گئے۔ گاؤں کیا تھا چند کچے گھر بنے ہوئے تھے رات کی تاریکی میں گاڑی میں ہیڈ لائٹ میں جو کچھ نظر آتا میں اس کی روشنی میں دیکھتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد اچانک کھنڈرات شروع ہوگئے۔ شاید کبھی یہاں شہر آباد ہوگا کیونکہ کھنڈرات کافی وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم کھنڈرات کے درمیان کچے راستوں پر چلتے رہے۔ محمد شریف مجھے باقاعدہ راستہ سمجھا رہا تھا۔ اسکی آنکھیں مسلسل بندتھیں۔
’’بس یہاں گاڑی روک دیجئے‘‘ ایک بڑی عمارت کے کھنڈر کے پاس پہنچ کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے بریک پر پاؤں رکھ دیا۔ گاڑی ایک بلند و بالا عمارت کے کھنڈر کے پاس رک گئی۔ کبھی یہ عمارت واقعی شاندارہوگی لیکن رات کے اندھیرے میں اس کے مہیب کھنڈر بے حد ڈرؤانے لگ رہے تھے۔ عمارت کا بیرونی گیٹ سالخوردہ لکڑی کا تھا جو امتداد زمانہ کے ہاتھوں بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ میں نے گاڑی کی لائٹ جلتی رہنے دی۔ محمد شریف نے اپنے تھیلے سے وہ چھوٹی الائچی کے دانے نکال کرایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے منہ میں رکھ لیا۔
’’خان بھائی! اسے منہ میں رکھ لیجئے چبائے گا نہیں‘‘ اس نے مجھے ہدایت کی اور نیچے اترنے کے لیے کہا اور تھیلے سے ایک طاقتور اور بہت بڑی ٹارچ نکال کر جلالی۔
’’اسے مضبوطی سے تھام لیجئے کسی صورت یہ آپ کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔‘‘ اس نے ٹارچ میری طرف بڑھائی۔ میں نے اسے پکڑلیا۔ ہم گاڑی سے نکل آئے۔ میں نے اسے لاک کر دیا۔ محمد شریف نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اندر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
’’خان بھائی! کیا آپ کو سورۃ الناس زبانی یاد ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں مجھے آخری سپارے کی کافی سارے صورتیں یاد ہیں‘‘ میں نے بتایا۔
’’الحمد اللہ۔ اس کا ورد شروع کر دیئے اور بولیئے گا نہیں‘‘ اس نے دوسری ہدایت دی۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے معبود برحق سے صائمہ کی خیریت اور اپنی کامیابی کی دعا مانگ رہا تھا ۔ جیسے ہی ہم ٹوٹا ہوا پھاٹک پار کرکے اندر پہنچے۔ تیز آندھی چلنا شروع ہوگئی مٹی اور گردوغبار سے کچھ نظر آنا مشکل ہوگیا۔ ہماری آنکھوں میں مٹی گھس گئی تھی۔ میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں۔ ہوا کے تیز جھکڑ ہمیں ساتھ اڑانے کی کوشش میں تھے۔ آندھی اس قدر تیز تھی کہ قدم اکھڑتے محسوس ہو رہے تھے۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
ہمارے کپڑے ہوا میں اڑنے لگے۔ جیسے ہی پڑھنے کے لیے منہ کھولتا اس میں مٹی بھر جاتی۔ آخرمیں نے ہونٹ سختی سے بھینچ کر دل ہی دل میں پڑھنا شروع کر دیا۔ہوا کی شور سے کان پڑی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔ پھر یکدم جیسے آندھی شروع ہوئی تھی ختم ہوگئی۔ گردوغبار بیٹھ گیا اور فضا صاف ہوگئی۔ میں نے تھوک کر منہ میں آئی مٹی کو نکالا اور قمیص کے دامن سے منہ کو اچھی طرح صاف کرلیا۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہو اتھا۔ اچانک سارا کھنڈر تیز سرخ روشنی میں نہا گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے قریب ہی کہیں آگ لگی ہو۔ہم ایک وسیع دلان میں کھڑے تھے۔ سامنے کی طرف ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر تھے۔ آدھی آدھی دیواریں نظر آرہی تھیں۔ کبھی یہ کمرے رہے ہوں گے اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے تھے۔ میں ابھی گردوپیش کا منظر دیکھ ہی رہا تھاکہ محمد شریف نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف دوڑ لگا دی۔ میں اپنے خیال میں تھا جھٹکاکھا کر اسکے پیچھے گھسٹتا چلا گیا۔ اچانک میری نظر مٹی کے ان تو دوں پر پڑی جو سامنے کسی ٹیلے کی طرح نظر آرہے تھے۔ تودے تیزی سے ہماری طرف لڑھک رہے تھے۔ اگر ایک لمحے کی تاخیر ہو جاتی تو ہم دونوں ان تودوں کے نیچے کچلے جاتے۔ خوفناک آوازیں نکالتے تو دے ہم سے چند گز کے فاصلے پر گزر گئے۔ محمد شریف مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں نے بھی سورۃ الناس کا وردجاری رکھا۔
’’بھاگ جاؤ۔۔۔اسی وقت یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں‘‘ اچانک ایک گرجدار آواز گونجی۔اس کی گرج سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔ آواز اتنی بلندا ور خوفناک تھی کہ دل دہل رہا تھا۔ محمد شریف کسی بات کی پرواہ کیے بغیر میرا ہاتھ پکڑے مجھے اپنے پیچھے گھسیٹ رہا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میرے لئے آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔ وسیع دالان پار کرکے ہم ایک ٹوٹے ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس کمرے کی چھت سلامت تھی۔ اندر ملگجا اندھیرا تھا۔ اچانک بہت سے چمگاڈریں ہم پر حملہ آور ہوئیں۔اندھیرے میں ان کی آنکھیں ننھے ننھے جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اتنی زور دار تھی کہ میں لرز گیا۔
محمد شریف نے کچھ پڑھ کر انکی طرف پھونک دیا۔ وہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگیں۔ بلا شبہ ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ کمرے کا فرش ان کی بیٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ فرش ہی بیٹوں کا بنا ہوا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ کمرے میں ایسی بو پھیلی ہوئی تھی جو پرانی عمارتوں میں ہوتی ہے۔ ہر طرف دھول جمی ہوئی تھی۔
محمد شریف نے کچھ پڑھ کر پھونکا کمرے میں دودھیا روشنی پھیل گئی۔ سامنے والی دیوار میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا جس کاایک پٹ بند تھا جبکہ دوسرا ٹوٹ کر جھول رہا تھا۔ محمد شریف میرا ہاتھ تھامے اس کے نزدیک پہنچ گیا۔کمرے کے دروازے پر مکڑی نے اتنے جالے بن رکھے تھے کہ گمان ہوتا جیسے دروازے پر مہین ململ کا پردہ پڑا ہو اہے۔
شریف ایک ہاتھ سے جالے ہٹاتا میرا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوگیا۔ دوسری جانب ایک طویل راہداری تھی۔ یہاں بھی جا بجا چھت سے جالے لٹک رہے تھے جو چلنے سے ہمارے چہرے پر لگتے ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے جالے ہٹاتے اندر بڑھتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل راہداری ختم ہو نے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔
یہاں سکوت مرگ طاری تھا۔ اس گرجدار آواز کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی تھی۔ بلکہ اب تو ایسی خاموشی طاری تھی جیسے دنیا ختم ہوگئی ہو۔ آگے جا کر اندھیرا گہرا ہوگیا۔ محمد شریف نے دوبارہ وہی عمل دہرایا جس سے ایک بار پھر دودھیا روشنی پھیل گئی۔ وہ میرا تھامے آگے بڑھتا رہا۔ زمین پرگرد کی تہیں اور پرندوں کی بیٹیں جمی ہوئی تھیں۔ہمارے چلنے سے مٹی اڑ کر منہ میں آرہی تھی۔ راہداری گرد سے بھر گئی۔ اچانک مجھے کھانسی محسوس ہوئی کھانسنے کی وجہ سے میرا دم ٹوٹ گیا۔

اچانک میرے پیر جلنا شروع ہوگئے جیسے میں تپتے ہوئے توے پر چل رہا ہوں۔ اذیت کے باعث میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔ پاؤں زمین پر رکھنا محال تھا۔ ایک پاؤں اٹھاتا تو دوسرا جلنے لگتا پہلا پاؤں رکھ کر دوسرا اٹھاتا تو وہ جلنے لگتا۔ تکلیف سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ محمد ۔۔۔شریف‘‘ میں نے اذیت سے پکارا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور جلدی سے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک بوتل نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر کوئی سیال سی شے کے چند قطرے زمین پر گرا دیے۔ اچانک زمین ٹھنڈی ہوگئی۔ لیکن اتنی دیر میں میرے تلوے بری طرح جل چکے تھے۔ میں لنگڑاتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑا۔
بڑی مشکل سے اپنا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔ تکلیف سے میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ آکر کار راہداری کا اختتام ایک دروازہ پر ہوا۔ یہ پہلا دروازہ تھا جو صحیح سلامت اور بند تھا۔ محمد شریف نے اس کے سامنے پہنچ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک تسبیح نکالی اور میرے گلے میں ڈال دی۔ پھر ایک اور تسبیح نکال کر دروازے پر بنے ایک کیل پر ٹانگ دی۔ یہ پرانے زمانے کا دروازہ تھا جس پر نقش و نگار کے ساتھ کچھ موٹے موٹے ابھرے ہوئے کیل بھی تھے۔ اس کے بعد اس نے وہی بوتل نکالی اور اشارے سے مجھے بوتل منہ سے لگا کر پینے کو کہا۔ میں نے ڈھکن کھول کر ایک گھونٹ برا اور بوتل اسے پکڑا دی۔ اس نے دائیں ہاتھ کا چلو بنا کر اس میں چند قطرے ڈالے اور انہیں دروازے پر چھڑک دیا۔

’’چز ززززززز‘‘ کی آواز اائی جیسے پانی جلتے توے پر پڑا ہو۔
’’ہا ۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ دل دہلا دینے والے خوفناک قہقہے لگنے شروع ہوگئے ۔ آواز اتنی بلند تھی کہ گھبرا کر میں نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیے۔ کافی دیر قہقہے جاری رہے۔ لگتا تھا کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ میں نے پورے زور سے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں۔ محمد شریف ہر چیز سے بے نیاز کچھ پڑھنے میں مصروف تھا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسے بھی قہقہوں کی بازگشت سانئی دے رہی تھی یا نہیں۔ لیکن وہ اطمینان سے اپنے عمل میں مصروف تھا۔ اچانک قہقہے لگنے بند ہوگئے اور ایک بار پھر سکوت چھا گیا۔ اتنی گہری خاموشی تھی اگر سوئی بھی زمین پر گرتی تو اس کی آواز واضح سنائی دیتی۔ اچانک دلخراش چیخ نے سکوت کو درہم برہم کر دیا۔ چیخ صائمہ کی تھی۔۔۔کرب و اذیت سے بھری چیخ سن کر میں میرا کلیجہ حلق میں آگیا۔
’’فاروق! مجھے بچاؤ۔۔۔ان درندوں سے مجھے بچاؤ‘‘ صائمہ کی اذیت بھری چیخیں سن کر میں لرز گیا۔ قریب تھا کہ دیوانہ وار آواز کی سمت بھاگ اٹھتا محمد شریف نے اشارے سے مجھے منع کیا۔ چیخیں مسلسل آرہی تھیں۔ میں نے بے چینی سے محمد شریف کی طرف دیکھا۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’فاروق! مجھے ان ظالم،وں سے بچاؤ۔۔۔فاروق! مجھے ان درندوں سے بچاؤ یہ میری عزت لوٹنا چاہتے ہیں اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں خودکشی کر لوں گی‘‘ صائمہ مسلسل چیخ چیخ کر مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔
میں بار بار محمد شریف کی طرف دیکھتا لیکن اس نے مسلسل انگلی ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی۔ وہ کچھ پڑھ رہا تھا۔ صائمہ کی چیخیں میرے صبر کا امتحان لے رہی تھیں۔ میرا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اس کی مدد کے لیے بھاگ پڑوں۔ دل پر پتھر رکھے کھڑا رہا۔ صائمہ مسلسل میری منتیں کر رہی تھی۔
’’فاروق ! اگر تم میری مدد کے لیے نہ آئے تو سچ کہہ رہی ہوں میں اپنی جان دے دوں گی۔ ان بدبختوں نے میرے کپڑے اتار دیے ہیں اگر تم نے مجھے ان سے نہ بچایا تو مرنے کے بعد بھی میں تمہیں معاف نہ کروں گی۔‘‘ صائمہ چیخ رہی تھی۔فریاد کر رہی تھی۔
آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ محمد شریف میری کیفیت بھانپ گیا اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ اس نے آنکھیں نکال کر مجھے تنبیہہ کی کہ میں اس حرکت سے باز رہوں لیکن صائمہ کی پکارنے مجھے دیوانہ کر دیا تھامیں مسلسل زور لگاتا رہا۔ محمد شریف نے میری طرف دیکھا اور دروازے پر پھونک مار دی۔ اس کے ساتھ ہی چیخیں بند ہوگئیں۔
’’خان بھائی! یہ سب دھوکہ ہے، یہ آواز صائمہ بہن کی نہیں ان کم بختوں کی چال ہے۔ وہ میرا وظیفہ خراب کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ دروازہ نہ کھل سکے۔ اگر آپ جانے لگتے تو میں ضرور وظیفہ توڑ کر آپ کو روکتا اور یہی وہ بدبخت چاہتے تھے۔ وہ جانتے ہیں اگر میں نے پڑھائی مکمل کر لی تو دروازہ کھل جائے گا۔یہ دیکھیں‘‘ اس نے دروازے کو دھکیلا۔ وہ زبردست چرچراہٹ سے کھل گیا۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ تھاما اور بسم اللہ پڑھ کر اندر قدم رکھ دیا۔ میں نے بھی اس کی تقلید کی۔ دروازے کے آگے نہایت پیش قیمت حریریں پردہ پڑا ہوا تھا جیسے ہی محمد شریف نے پردہ ہٹایا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کمرہ تھا یا کسی بادشاہ کی پرتعیش خوابگاہ۔ قصے کہانیوں میں اس قسم کی خوابگاہوں کا تذکرہ پڑھا تھا۔
وسیع و عریض خوابگاہ کے بیچوں بیچ ایک بیش قیمت لکڑی کی جہازی سائز کی مسہری موجود تھی جس کے گرد باریک پردے لٹکے ہوئے تھے۔ نہایت مسحور کن خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ کمرہ پوری طرح روشن تھا لیکن روشنی کا مخرج نگاہوں سے پوشیدہ تھا۔ میں چاروں طرف آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ حیرت سے میری زبان گنگ تھی۔ میں نے قدم بڑھایا تو جیسے ریشم میں دھنس گیا۔ فرش پر نہایت ملائم اور دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ محمدشریف نے ہاتھ سے پکڑکر مجھے روک دیا۔ میں نے مسہری پر نظر ڈالی۔ ریشمی باریک پردوں کے پیچھے کسی کی موجودگی ظاہر ہو رہی تھی۔ محمد شریف نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک چھڑی نکالی اور اسے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر چاروں طرف گھمایا۔ وہ مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ اچانک پردے ایک طرف سرکنا شروع ہوگئے۔ اندر کا منظر سامنے آتے ہی میرے آنکھیں پھٹ گئیں۔ مسہری پر شہزادوں جیسا لباس پہنے سر پر ہیروں کا تاج رکھے پرتاب نیم دراز تھا۔ وہی پرتاب جسے رادھا نے بسنتی کو لانے کا حکم دیا تھا اور وہ اپنی جان پر کھیل کر اسے لے آیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ ساتھ سونے والی شخصیت پر نظر پڑتے ہی میرے خون میں ابال آگیا۔ رگوں میں خون کے بجائے لاوا دوڑنے لگا۔ اس بدبخت کے پہلو میں صائمہ دراز تھی۔

اس کے جسم پر بیش قیمت لباس اتنا مہین تھا کہ اس کا کندن بدن جھلک رہا تھا۔ محمد شریف نے یکدم آنکھیں جھکا لیں۔ قریب تھا کہ میں انجام سے بے خبر آگے بڑھ کر اس ملعون کو جان سے مار دیتا۔ اس کی آواز آئی۔
’’آہا۔۔۔مہاراج موہن آئے ہیں۔ پدھارئیے مہاراج۔۔۔پدھارئیے۔ ہمرے بھاگ، آج تو چیونٹی کے گھر نارائن آئے ہیں۔‘‘ وہ چہک کر بولا۔ میرے جسم میں چنگاریاں دوڑنے لگیں۔
’’تو۔۔۔؟ اچھا تو یہ تو تھا حرامزادے۔۔۔! میں سوچتا تھا کہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے ۔ حرام کے جنے تیری اگرکوئی دشمنی تھی بھی تو مجھ سے ۔پھر تو نے میری معصوم بیوی کو کیوں اپنے ظلم کا نشانہ بنایا؟‘‘ میرے منہ سے جھاگ اڑنے لگا۔
’’کل یگ ہے ۔۔۔کل یگ (اندھیر ہے۔۔۔اندھیر) مہاراج! میں نے تو کوئی انیائے نہیں کیا۔ تم نے میری پریمیکا سے پریم کیا میں نے تمری پتنی سے اس میں انیائے کی کیا بات ہے؟ یہ تو سیدھا سادہ سودا ہے۔ تمہیں جس شے کی چاہ تھی تم نے لے لی۔ مجھے جس کی چاہ تھی میں نے۔ اب تم ہی کہو مہاراج! اس میں کوئی انیائے والی بات ہے؟‘‘ اس نے آخری فقرہ محمد شریف کی طرف دیکھ کر کہا۔جو آنکھیں جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اس نے صائمہ کی طرف دوبارہ نگاہ نہ ڈالی تھی۔
’’تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔تم نے غیر شرعی فعل کیا ہے۔ اگر سلامتی چاہتے ہو تو صائمہ بن کر اس کے خاوند کے حوالے کر دو اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو وہ بڑا غفور الرحیم ہے سب کو معاف کر دیتا ہے جن وانس سب کو۔۔۔اب تک جو گناہ تم سے سر زد ہوئے ہیں ان کی بخشش کے لئے اس کے سامنے جھک جاؤ۔ اسلام قبول کرلو اور ایک اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ کہ وہی سب کا معبود برحق ہے اور کائنات کا مالک بھی۔ شرک کے اس راستے کو جس پر تم شیطان کے حکم کی اطاعت میں چل رہے ہو سیدھا تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جن و انس سے ان کے گناہوں پر باز پرس کرے گا اور جس نے اطاعت قبول کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنا معبود مان لیا۔ حضرت محمد صلی اللہ وسلم کو آخری نبی مان لیا قیامت پر ایمان لے آیا وہ نجات پا گیا۔ ورنہ تو انسان و جن سے روز محشر ان کے اعمال کا حساب ہونا ہی ہے۔‘‘ محمد شریف نے نہایت تحمل سے اسے اسلام کی دعوت دی۔

’’بند کر اپنا یہ اپدیش۔۔۔تو نہیں جانتا اس سمے تو کسی شکتی کے سامنے کھڑا ہے؟یدی ایک پل میں تو یہاں سے باہر نہ گیا تو بھسم ہو جائے گا‘‘پرتاب حلق کے بل دھاڑا۔
ایک لمحے کے لئے محمد شریف کے چہرے پر جلال چھا گیا پھر وہ معمول پر آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اس ملعون کو اسلام کی دعوت دی لیکن جواب میں وہ بکواس کرتا ہرا۔ اس نے اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا غصے سے محمد شریف کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’تو نادان ہے۔۔۔میں نے بہت کوشش کی کہ تو راہ راست پر آجائے لیکن تیرے دل پر قفل لگاہوا ہے تو ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہے۔‘‘ محمد شریف کی قہر بار آواز آئی۔
’’بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کر میں جانتا ہوں تو عام منشوں سے ہٹ کر ہے۔ میں تجھے شما کرکے جانے کا اوسر دیتا ہوں پرنتو اس ملیچھ کو ساتھ لے جانے کا نہ کہنا۔ میں نے مہاراج کالی داس کو وچن دیا ہے کہ اس کا بلیدان اوش کالی ماتا کے چرنوں میں ہوگا۔‘‘ پرتاب نے حقارت سے کہا۔
’’تو ایسے نہیں مانے گا‘‘ محمدشریف نے کہا۔
’’بھائی عبدالودود! میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ لیکن اس کی قسمت میں ایمان کی دولت نہیں لکھی۔ اب آپ جیسا حکم کریں‘‘ محمد شریف نے پرتاب کو جھڑک کر ایک طرف منہ کرکے کہا۔ اچانک عبدالودود ظاہر ہوگیا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ پرتاب نے چونک کر عبدالودود کو دیکھا اور جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ چوکنا دکھائی دے رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ بڑی بے پرواہی سے نیم دراز تھا۔
’’بھائی محمد شریف نے آپ کو اسلام کی دعوت دی میں بھی آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ شیطان کی پیروکاری چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ آخرت میں آپ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ یہ دنیا محض چند روزہ کھیل تماشہ ہے دھوکہ ہے۔ا صل زندگی تو آخرت کے بعد شروع ہوگی۔ جہاں ہم سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہماری دعوت پر غور فرمائیں۔ اگر آپ کو کچھ مہلت چاہیے تو ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔اس خاتون کو آزاد دیجئے اور ہماری ساتھ ایک نشست اختیار کیجئے۔ امید ہے اللہ کے حکم سے ہماری بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی‘‘ عبدالودود نے نہایت تحمل سے اس خبیث کو سمجھایا۔ پرتاب کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ چھا گئی۔
’’تم مجھے شکتی پورک(طاقتور) جان پڑتے ہو۔ پرنتو تمرا یہ بھاشن میری بدھی میں نہیں سماتا۔ منش جاتی سے ہمیں کچھ پراپت ہونے والا نہیں۔ ان کی سنگت چھوڑ کر میرے متر بن جاؤ پھر دیکھو یہ سنسار تمرے واسطے سورگ بن جائے گا۔ ایک سے ایک سندر کنیا ہے کالی داس کے آشرم میں۔۔۔دیکھو گے تو اپسراؤں(پریوں) کو بھول جاؤ گے۔ میں تمہیں وچن دیتا ہوں کہ کچھ سمے بعد یہ سندرنازی بھی تمہیں دان کر دوں گا‘‘ پرتاب نے اوباشوں کے سے انداز میں صائمہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اس کی بات سن کر عبدالودود کا چہرہ طیش سے قندھاری انار جیسا ہوگیا۔ اسنے قہر ناک نظروں سے پرتاب کو دیکھا جس کے ہونٹوں پر تاؤ دلانے والی مسکراہٹ تھی۔
’’محمد شریف! آپ گواہ ہیں کہ میں نے بھی اپنا فرض ادا کردیا‘‘ اس نے محمد شریف کو مخاطب کیا۔
’’سن مورکھ! تو مجھے ان سے الگ جان پڑتا ہے اس کارن میں نے تجھ سے یہ بات کہی۔ پرنتو اس سے من میں یہ وچار نہ لانا کہ پرتاب تیری شکتی سے ڈر گیا ہے‘‘ وہ دوبارہ نیم دراز ہوتے ہوئے بولا۔
اس خبیث کو صائمہ کے ساتھ دیکھ کر میرے خون میں ابال گیا۔ میں مسہری کی پائنتنی کی طرف میرے ساتھ محمد شریف جبکہ مسہری کی دوسری جانب عبدالودود کھڑا تھا۔ ہم جس دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے وہ میرے بائیں جانب تھا۔
’’پریم! میں آگئی ہوں چنتا مت کرنا‘‘ اچانک دروازے سے رادھا اندر داخل ہوئی۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ رادھا کی نظر عبدالودود پر پڑی۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا اور جلدی سے ساڑھی کا آنچل اپنے سرپر ڈال لیا۔ جیسا کہ ہماری خواتین کسی بزرگ کو دیکھ کر کرتی ہیںَ ۔آج اس نے لباس بھی اس قسم کا پہن رکھا تھا جس نے اس کے سارے جسم کو ڈھک دیا تھا جبکہ اس سے پہلے اس کی ساڑھی مہین اور بلاوز اتنا مختصر ہوا کرتا جو اس کے جسم کو ڈھکنے سے قاصرہوتا۔ ململ کی سارڑھی میں وہ بہت مقدس دکھائی دے رہی تھی۔ چہرہ سنگھار سے عاری اور گھنی زلفیں چٹیا کی صورت میں بندھی نظر آرہی تھی۔پھولوں کا زیور بھی غائب تھا جو اس کی شخصیت کا لازمی جز ہوا کرتا حتیٰ کہ اس کے ماتھے پر وہ تلک بھی نہ تھا جو ہمیشہ اسکی صبیح پیشانی پر چپکا ہوتا۔ وہ بڑے غور سے عبدالودود کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے دیکھا عبدالودود کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ وہ بھی دلچسپی سے رادھا کی جانب دیکھ رہا تھا لیکن اس کی شفاف آنکھوں میں کسی قسم کی آلودگی نہیں فقط دلچسپی تھی۔

’’آہا۔۔۔رادھا دیوی آئی ہیں۔ پدھارئیے دیوی جی۔۔۔پدھارئیے آج کیسے داس کی یاد آگئی۔ ہمرے بھاگ آپ ہمری کٹیا میں پدھاریں۔ ہم تو بڑے بھاگیہ شالی ہیں دیوی جی! آپ نے کیوں کشٹ اٹھایا؟ داس کو آگیا دی ہوتی آپ کے چرنوں میں آجاتا۔‘‘ پرتاب چہکا۔ کچھ دیر عبدالودودکو دیکھ کر رادھا نے اپنی نظریں پرتاب پر مرکوز کر دیں۔ اب دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ یک بیک رادھا کا چہرہ تپ گیا۔
’’مورکھ! تو نے بڑی بھول کی جو رادھا کو کشٹ دیا۔ کیا تو بھول گیا تھا کہ رادھا کس شکتی کا نام ہے؟‘‘ اس کی غضبناک آواز کمرے میں گونجی۔ عبدالودود آرام سے چلتا ہوا ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی ہر ادا سے وقار جھلکتا تھا۔ وہ بڑی دلچسپی سے دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔
’’آج تیری سندر تاکا کوئی داؤ پر تاب پر نہ چلے گا۔ ہم تجھ سے نراش ہوئے اور اپنا من اس سندرنار کو ارپن(دے دیا) کر دیا ہے۔ دیکھو تو یہ سندرتا میں تم سے کم نہیں‘‘ پرتاب نے محو خواب صائمہ کی طرف اشارہ کیا۔ میری کن پٹیاں تپ گئیں۔ قریب تھا کہ میں اس کتے پر جھپٹ پڑتا رادھا کی آواز آئی۔

’’پرتاب ! میں اب بھی تجھے شما کر سکتی ہوں، کیول تجھے اتنا کرنا ہوگا کہ اس سندرناری کو اس کے پتی کے حوالے کر دے اور دیا کی بھکشا مانگ، مجھے وشواس ہے موہن تیرے اپرادھ کو بھول کر تجھے شما کر دے گا، یدی سے سمے تیرے ہاتھ سے نکل گیا تو تو جیون بھکشا مانگے گا بھی تو نہ ملے گی۔ میں تجھے ایک اور سر دیتی ہوں کہ میری بات مان لے اور وہ بھی اس کارن کے تونے میری بڑی سیوا کی ہے‘‘ رادھا کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ پرتاب کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ سنبھل کر بولا۔
’’سمے تو کب کا بیت گیا رادھا۔۔۔! یاد ہے میں نے تیرے چرنوں میں سر رکھ کر تجھ سے پریم کی بھکشا مانگی تھی۔ پرنتو تو نے اس پلید مسلے کے کارن میری بنتی کو سوئیکار نہ کیا۔۔۔یاد ہے نا؟‘‘ پرتاب غصے سے بل کھا کر رہ گیا۔ اس کے انداز میں چوکنا پن تھا وہ کبھی رادھا کو دیکھتا کبھی عبدالودود کو۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔اب اپنے مہاگرو اس دھشٹ کالی داس کو بلا کہ وہ تجھے میرے شراپ سے بچائے۔ آواج دے کسی اور شکتی کو۔۔۔رادھا تجھے اس سنسار سے پرلوک بھیجنے کے کارن آئی ہے۔ میں نے تیری تپسیا کے کارن تجھے ایک اور سردیا تھا پرنتو تو مورکھ ہے‘‘ رادھا غضبناک ہوگئی۔
اس کے ساتھ ہی اس نے چھت کی طرف دیکھ کر کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میرا خیال تھا کہ ابھی چھت سے آگ کا گولہ گرے گا اور پرتاب کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔ فکر مجھے صائمہ تھی کہیں وہ بھی آگ کی زد میں نہ آجائے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا کمرے کے ایک کونے سے بسنتی کی مکروہ ہنسی سنائی دی۔
’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی، دیوی جی! ہم بھی کسی کارن یہاں بیٹھک لگائے بیٹھے ہیں کیا تیری شکتی نے تجھے ہمرے بارے جانکاری نہیں دی؟‘‘ اس کی کھرکھراتی آواز آئی۔ ساتھ ہی اس کا گندہ وجود ظاہر ہوگیا۔ رادھا نے چونک کراسکی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
بسنتی اپنے گندے وجود کو گھسیٹتی مسہری کے قریب آگئی جس سے بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔
’’تو۔۔۔؟ تو رادھا کی شکتی کے آڑے آئے گی؟‘‘ رادھا نے زہر خند سے کہا ۔ اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری مسکراہٹ چھا گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر منہ ہی منہ کچھ پڑھا اور چھت کی طرف دیکھ کر کسی کو پکارا۔ اس سے پہلے کہ گولا چھت سے بسنتی پر گرتا بسنتی چلائی۔
’’مہاراج! یہ کلنکی آگئی ہے اپنے وچن کے انوسار میری سہائتا کرو‘‘ اچانک کمرے کے ایک کونے سے چنگھاڑ سنائی دی۔
میں اور محمد شریف بری طرح اچھل پڑے۔ دیکھا تو ایک دیونما شخص جس کا سر چھت سے لگ رہا تھا اور جسم کسی پہاڑ کی طرح تھا ایک طرف سے نمودار ہوا اور چنگھاڑتا ہوا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس کے جسم پر ریچھ کی طرح بال تھے۔ یوں لگ رہا جیسے بالوں سے بھرا ہوا گوشت کا پہاڑ لڑھک رہا ہو۔ا س نے اپنا پاؤں اٹھا کر دھم سے زمین پر رکھا جس سے بڑی بھیانک آواز خارج ہوئی۔ اس کے جسم پر فقط ایک لنگوٹی تھی۔ کمرے کی چھت لگ بھگ پچاس فٹ بلند ہوگئی۔ وہ پہاڑ اس میں سر جھکائے چل رہا تھا۔ رادھا نے ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے گوشت کے اس پہاڑکو دیکھا، اچانک اسکی آنکھوں سے سرخ روشنی کی دھار نکل کر اس پر دیو پر پڑی اور ایک لمحے میں اسے جلا کر دھویں میں تبدیل کردیا۔ دھواں چکراتا ہوا چھت کے پاس جا کر غائب ہوگیا۔ میں جو اس دیو کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا رادھا نے بڑی آسانی سے اسے ختم کر دیا۔ عبدالودود جو بڑی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اسکے چہرے پر رادھا کے لئے تحسین کے تاثرات ابھر آئے۔ بسنتی نے اپنے مددگار کا یہ حشر دیکھا تو فوراً غائب ہوگئی۔
’’چمارو‘‘ رادھا غضبناک ہو کر گرجی۔
’’جی دیوی جی!‘‘فورا! چمارو کی آواز آئی۔
’’بسنتی کو لاؤ‘‘ رادھا نے اسے حکم دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دھماکے کے آواز آئی اور کسی نے بسنتی کو زمین پر پھینک دیا۔ وہ درد سے بلبلا اٹھی۔ ابھی وہ کھڑی بھی نہ ہو پائی تھی کہ رادھا نے چھت کی طرف دیکھا۔ آگ کا گولہ نمودار ہو کر بسنتی کے سر پر گرا۔ اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخ برآمد ہوئی جس سے دل دہل جائیں۔ پل کے پل آگ کے گولے نے اسے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
’’پاپن۔۔۔رادھا کی شکتی کو نشٹ کرنے چلی تھی‘‘ رادھا نے نیچے تھوک دیا۔
’’اب کیا وچارہیں تیرے؟‘‘ غیض و غضب میں بھری رادھا نے پرتاب سے کہا جسکے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔بسنتی کا حشر دیکھ کر وہ خوفزدہ نظر آنے لگا۔
’’کالی داس کا شراپ تجھے بھسم کر دے گا‘‘ اس نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔ اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن سکینڈ کے ہزاویں حصے میں دوبارہ روشنی ہوگئی۔
’’کیا بالکوں جیسے چمتکار دکھا رہا ہے؟ کوئی ایسا کام دکھا کر رادھا کو تجھے اپنا سیوک کہنے پر لاج نہ آئے۔‘‘ رادھا نے اس کا تمسخر اڑایا۔
’’رادھا! ہمرادھرم ایک ہے۔ ہمرے بیچ یدھ اچھی نہیں۔ تو ان مسلوں کے کارن اپنے ہی دھرم کے ایک بچاری کو نشٹ کرنے کا وچار من میں لا رہی ہے ، کیا تجھے لاج نہیں آتی؟ تو نے ایک مسلے سنگ اپنے شریر کا سمبندھ جوڑا، میں نے کتنا کہا تجھے یہ شوبھا(زیب) نہیں دیتا تو دوجے دھرم کے منش سنگ ایسا سمبندھ رکھے۔ پرنتو تو نے میری ایک نہ مانی۔ یدی تو منش جاتی سنگ ایسا سمبندھ رکھ سکتی ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘ پرتاب نے بڑی ڈھٹائی سے کہا۔ میرا سر بے اختیار شرم سے جھک گیا۔ محمد شریف کیا سوچتاہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں؟ میں نے دیکھا رادھا بھی شرمساردکھائی دے رہی تھی۔ اسنے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔مجھ سے بھول ہوئی۔ میں نے پوتر پریم کوپلید کیا۔پرنتو اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں اس مہاپرش نے‘‘ اسنے میری طرف اشارہ کیا۔
’’اپدیش دے کر میری آنکھیں کھول دیں۔ اس نے کہا تھا ہم دونوں کے بیچ جو سمبندھ ہے وہ اس کے دھرم کی شکشا(مذہب کی تعلیمات) کے انوسار ٹھیک نہ ہے۔ اس دن سے میں نے من میں ٹھان لیا میں دوبارہ اس سے ایسا سمبندھ نہیں رکھوں گی۔ ہاں میں اس سے پریم کرتی رہوں گی۔ پرنتو پریم آتما سنگ ہوگا شریر سنگ نہیں۔ جب اسنے مجھے اپدیش دیامجھے بڑی لاج آئی۔ میں واقعی اس کے پریم میں پاگل ہوگئی تھی۔ یدی پریم تو دو آتماؤں(روحوں) کا بندھن ہے، شریرکا نہیں۔‘‘ رادھا نے یہ کہہ کر ہم سب کو حیران کردیا۔ اسکی نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں۔ چہرے سے شرمندگی کا اظہارہو رہا تھا۔

’’رادھا۔۔۔میں تجھے اب بھی شما کر سکتا ہوں پرنتو تجھے وچن دینا ہوگاکہ تو اس مسلے سنگ کوئی سمبندھ نہ رکھے گی‘‘ پرتاب نے اپنی سی کوشش کی۔ اسکا چہرہ اس کے قول کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔
’’پاپی! تو مجھے شکشا دے گا؟‘‘ رادھا اس پر قہر بھری نگاہ ڈال کر گر جی۔ پھر اسکے ہونٹ تیزی سے ہلنے لگے۔ عبدالودود اطمینان سے کرسی پر بیٹھا جھول رہاتھا۔ اسکے پرکشش چہرے پر سکون تھا۔ رادھا نے کچھ پڑھا اور بیڈ کی طرف منہ کرکے پھونک دیا۔ اچانک پرتاب ہوا میں معلق ہوگیا۔ اس کے منہ سے ڈری ڈری آوازیں نکل رہی تھیں۔
’’را۔۔۔را۔۔۔رادھا۔۔۔دو۔۔۔دیوی جی! مجھے شماکردے‘‘ چھت کے پاس جا کر اسکا جسم رک گیا۔ میں جانتا تھا اب کیا ہوگا۔ اسی طرح رادھانے سادھو امرکمار کے سانڈنما چیلے رام داس کو چھت تک پہنچا کر زمین پر پٹخ دیا تھا۔ رادھا کی نظریں پرتاب کے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھیں۔ اس کمینے کا انجام قریب تھا۔ کوئی لمحہ جاتا تھاکہ وہ ایک دھماکے سے فرش سے ٹکرا کر ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوجاتا۔ اچانک عبدالودودبرق کے کوندے کی طرح رادھا کی طرف بڑھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا۔ رادھا کی پوری توجہ پرتاب پر تھی اس دھکے سے اڑتی ہوئی دیوار سے جا ٹکرائی۔ میری اور محمد شریف کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ عبدالودودنے یہ کیا کیا؟ لیکن دوسرے ہی لمحے حقیقت ہم پر واضح ہوگئی۔اگر عبدالودود ایک لمحے کی تاخیر کرتا تو رادھا جل کر راکھ ہو جاتی۔ عین اسی جگہ جہاں رادھا ایک لمحے پہلے موجود تھی۔ آگ کاایک شلعہ بلند ہوا اور چھت پر جا کر غائب ہوگیا۔

عبدالودود نے بڑی سرعت سے رادھا کو دھکا دے کر اس کی جان بچائی تھی۔ رادھا دیوار سے ٹکراکر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے ایک نظر چھت کی طرف جاتے آگ کے گولے کو دیکھا پھر عبدالودود کو، اسکی آنکھوں میں تشکرتھا۔ پلکیں جھکا کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ یک بیک اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔ اس نے چھت سے معلق پرتاب پر نظر ڈالی اور ہونٹ سکوڑ کر اجنبی آواز میں کچھ کہا۔ پرتاب توپ سے نکلے گولے کی طرح سر کے بل زمین سے ٹکرایا اور اس کا سرپاش پاش ہوگیا۔ حالانکہ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا لیکن پرتاب کو اس قوت سے پٹخا گیا تھا کہ اسکا سر ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔
رادھا کی آنکھوں سے پھر سرخ شعاع نکلی اور پرتاب کے جسم نے آگی پکڑ لی۔ دو تین منٹ میں وہاں راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔
’’سبحان اللہ‘‘ بے اختیار عبدالودودکے منہ سے نکلا۔ رادھا نے ایک نظر عبدالودودکو دیکھا پھر اس کی تعریف پر شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔ بے باک رادھا آج ایک گھریلو لڑکی کی طرح شرما رہی تھی۔ دیوار سے ٹکرانے سے یقیناً رادھا کو تکلیف ہوئی ہوگی لیکن اس نے ظاہر نہ ہونے دیا۔ پرتاب کے جہنم واصل ہونے کے بعد میں تیزی سے صائمہ کی طرف بڑھا۔
’’رک جاؤ پریم!‘‘ رادھاکی آواز آئی۔ میں نے حیرت سے دیکھا۔
’’ابھی تمرا اسے چھونا ٹھیک نہ ہے۔ کالی داس نے جرور کوئی پربند کر رکھا ہوگا۔ کویل ایک پل رک جاؤ۔‘‘ اسنے مجھے سمجھایا۔ میں بادل نخواستہ رک گیا۔ محمد شریف نظریں جھکائے کسی بت کی مانند کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اسنے رادھا کی طرف نہ دیکھا تھا۔ حالانکہ رادھا کا حسن کسی کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن محمد شریف عجب درویش انسان تھا۔ اس عمر میں ایسا تقویٰ میں حیران رہ گیا۔ اچانک باہر کا دروازہ ایک دھماکے سے بند ہوگیا۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرے میں کالی داس کا بھیانک قہقہہ گونج اٹھا۔ رادھا نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں۔ اس کے چہرے پر فکر و ترددکے آثار ابھر آئے۔ عبدالودود بھی چوکنا دکھائی دینے لگا۔
’’اس منش کو اپنی پتنی کی اور (طرف) جانے سے کیوں روک دیا تو نے؟ دیکھ کتنا بیاکل ہورہا ہے؟‘‘ کالی داس کی مضحکہ خیز آوازآئی۔
اچانک عبدالودود نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھانے چونک کر دیکھا پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے صائمہ کی فکر تھی۔ کسی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ میں جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتا ۔ محمد شریف کی آواز آئی۔
’’فکر نہ کریں خان بھائی ذکر کریں۔ ذکر کرنے سے اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی انشاء اللہ۔‘‘
میں نے ایک بار پھر آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صائمہ کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میرا ہاتھ ابھی تک محمد شریف کی گرفت میں تھا۔ پتا نہیں رادھا بھی کمرے میں تھی یا چلی گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا اگر وہ ان بدبختوں سے شکست کھا گئی تو صائمہ کا کیا بنے گا؟
’’قائر! یہ کیا بالکوں جیسا کھیل کھیل رہا ہے سامنے آتو جانوں تو کتنا شکتی مان ہے؟‘‘ رادھا کی آواز کمرے میں گونجی۔ رادھاکے بولتے ہی کمرہ روشن ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔
’’وہ سمے دور نہیں جب تو میرے چرنوں میں ہوگی‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔
’’ایسی آشائیں من میں رکھے جانے کتنے پنڈت پجاری پرلوک سدھار گئے۔۔۔تو کیا شے ہے؟‘‘ رادھا نے دبنگ لہجے میں کہا۔
’’یدی تو اتنی شکتی مان ہے پھر ان منشوں کو لے کر یہاں سے چلی کیوں نہیں جاتی؟‘‘ کالی داس نے ایک بار پھر اس کا مضحکہ اڑایا۔
’’تیرا بلیدان کیے بنا ہی چلی جاؤں؟‘‘ رادھا نے کہا۔
’’ارے میں تو کب سے ایسے اوسر کی تاک میں تھی کہ تو خود میرے چرنوں میں آئے۔ پرنتو تو ہیجڑا بنا مجھ سے چھپا پھر رہا تھا۔ ایک ناری سے ڈراڈرا پھر رہا تھا۔ تھو ہے تیری قائرتا پر‘‘ رادھا نے حقارت سے نیچے تھوک کر دیا۔
’’جو من میں آئے کہہ ڈال۔۔۔تیرا انتم سنسکار(خاتمہ) میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ اس ملیچھ سنگ تیرا بلیدان بھی کالی کے چرنوں میں ہوگا‘‘ کالی داس بھڑک گیا۔
’’رادھا تیری کالی ماتا اسے اپنا سمبندھ توڑ بیٹھی ہے۔ کیول کالی ماتا کیا؟ کوئی دیوی دیوتا اب رادھا کو شراپ نہ دے پائے گا۔‘‘ میں رادھا کی بات سن کر بری چونک گیا۔
وہ کیا کہہ رہی تھی؟ ہمیشہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے گن گانے والی کا یہ کہنا مجھے حیران کر گیا۔ اگر میں بھی ان کے بارے میں کچھ کہتا تو وہ برامان جاتی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر ہر بار غصہ چھا جاتا جبکہ آج وہ خود اپنے دیوتاؤں کے بارے میں ایسی بات کہہ رہی تھی۔ حیرت سے میری عقل گم تھی۔
’’اللہ اکبر‘‘ کمرے میں عبدالودود کا فلک شگاف نعرہ گونجا۔ وہ کمرے میں موجود تھا فقط نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ اس کی آواز سن کرمیرا حوصلہ بڑھ گیا۔ کمرے میں نور برسنے لگا۔ میں سمجھ رہا تھا وہ چلا گیا ہے۔ میں نے دیکھا رادھا کے چہرے سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا۔ عبدالودود کا چہرہ جوش سے تمتما رہا تھا۔ محمد شریف کے ہونٹوں پر خوشی سے بھرپور مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔ میں حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ روشنی کے نورانی ہالے نے کمرے کو منور کر دیا۔ کمرہ پہلے بھی روشن تھا لیکن اس روشنی میں اور مقدس روشنی میں بڑا فرق تھا۔
’’تو بدھی کھو بیٹھی ہے مورکھ! دیوی دیوتاؤں کا اپمان کرکے تو نے اپنے دھرم کو نشٹ کر دیا ہے۔ اب تیرا بلیدان کرنا میرا ادھارمک کر یہ (مذہبی فریضہ) ہے‘‘ کالی داس حلق کے بل دھاڑا۔
’’کلنکنی ! اس ملیچھ مسلے کے پریم میں تو اپنی بدھی کھو بیٹھی ہے۔ تجھے یہ دھیان بھی نہ رہا کہ تو کیا اناپ شناپ بکے جارہی ہے۔ اب تجھے دیوتاؤں کے شراپ سے کوئی نہ بچا پائے گا۔ ان ملیچھ مسلوں سے کہہ یہ اپنے دھرم کے کسی مہاشکتی مان کر بلائیں جو تیری رکھشا کا پربند کرے۔ کالی ماتا تجھے ایسا شراپ دے گی کہ تو مرتیو مانگے گی پرنتو وہ بھی تجھے نہ ملے گی پاپن!‘‘ غیض و غضب میں گرجاتا کالی داس ہمیں بھی رگڑ گیا۔

میں نے دیکھا عبدالودود کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ لیکن جب وہ بولا تو اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔
’’کالی داس! مذہب کوئی بھی ہو اسکے پیروکاروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مذہب یا اس مذہب کے ماننے والوں کی شان میں گستاخی کریں۔ تم نے ایک طویل عرصہ اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت میں گزارا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تمہیں عقل نہ آئی۔ علم تو انسان کی فراست کو بڑھاتا ہے لیکن تم نے اس قسم کی باتیں کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تمہارا علم ادھورا اورناقص ہے۔ شاید تم نے اپنے مذہب کی تعلیمات کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا۔ کوئی بھی مذہب انسان کو بدکاری اور ظلم و ستم نہیں سکھاتا۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے ایک معمولی جن زاد ے سے ایک نہایت قبیح فعل کروایا۔۔۔تم نے ایک نامحرم بے قصور کو بلاوجہ پریشن کیا۔ ہمارے مذہب میں اس کی باقاعدہ سزا مقرر ہے۔ لیکن میں چاہتاہوں کہ تم کچھ دیر ہم سے نشست اختیار کرو تاکہ ہم بیٹھ کر شریفانہ انداز سے گفتگو کر سکیں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اس محترم خاتون کو اپنے جادو سے آزاد کرکے عظمت کا ثبوت دو۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کہ یہی ایک سچا مذہب ہے۔ ایک اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اسکے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور قیامت پر ایمان لے آؤ تاکہ شیطان کے دھوکے سے بچ کر صراط مستقیم پر چل سکو جو سیدھا اور سچا راستہ ہے۔ بھلائی کا یہ راستہ جن و انس کو ہمیشہ کے لئے جنت میں لے جائے گا۔ ورنہ تو اس جبار وقہار اللہ نے بڑا ہی دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے جس میں ان سرکشوں کو ڈالا جائے گا جو اسکی نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘ عبدالودود کی گھمبیر آواز براہ راست دل پر اثر کر رہی تھی۔ میں تو خیر الحمد للہ مسلمان ہوں لیکن میں نے دیکھا رادھا کی حسین آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ بڑے بڑے جذب کے عالم میں آنکھیں بند کیے عبدالودود کے ذریعے اللہ کا پیغام سن رہی تھی۔

ندامت اور شرمندگی نے اس کے چہرے کو وہ تقدس بخشا جس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔
’’تیرا اپدیش کھتم ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟‘‘ کالی داس کا لہجہ طنزیہ تھا۔
’’میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے جو میرے ذمے فرض تھا‘‘ عبدالودود نے تحمل جواب دیا۔
’’میں پوچھ رہا ہوں تیرا بھاشن کھتم ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟‘‘ کالی داس کی بیزارسی آواز آئی۔
’’تو نہیں جانتا کہ تو اس سمے کس شکتی سنگ بات کر رہا ہے۔ یدی تو جان لے تو ابھی میرے چرنوں میں سر رکھ کے دیا کی بھکشا مانگے گا۔‘‘ وہ متکبر بڑی حقات سے بولا۔’’رہی بات اس کلٹا کی تو میں اسی سمے اسے نرکھ میں پہنچا سکتا ہوں پرتنو میں نے کالی ماتاکو وچن دیا ہے کہ اس کا اور اس کے پریمی کا بلیدان اس کے چرنوں میں اوش ہوگا‘‘ کالی داس نے اپنی بکواس جاری رکھی۔
’’تھوڑا سمے اور جاتا ہے کہ تم سب جان جاؤ گے کہ کالی داس سے یدھ کرنا بالکو کا کھیل نہیں۔ میرے چیلے پرتاب نے تجھے ایک اوسر دیا تھا کہ تو اس کا متر بن جا پرنتو جان پڑتاہے تیرے سر میں بدھی نہیں بھوسا بھرا ہے۔اس ملیچھ کے کارن تمنے کالی داس کے آشرم میں پگ دھرا ہے۔ یہ تیرے جیون کی سب سے بڑی بھول ہے۔ جانتاہوں کچھ شکتیاں تیری سہائتاکر رہی ہیں پرنتو۔۔۔مہاراج وشنو داس نے مجھے وچن دیا ہے اسکا جاپ پورا ہوتے ہی میں تم سب کا بلیدان کالی ماتاکر چرنوں میں کروں گا۔ اس سمے تک تم اسی کوٹھے میں بندی بنے پڑے رہو گے۔ میں وچن دیتا ہوں اسے تمرے واسطے نرکھ بنا دوں گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔
سب خاموش تھے میں اس انتظارمیں تھا کہ رادھا یا عبدالودود کیا کرتے ہیں؟ صائمہ بدستور بے ہوش تھی۔ صرف اسکے سینے کے زیر بم سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ مجھے بچوں کی فکر ستائے جا رہی تھی۔ نامعلوم کتنا وقت گزرا تھا؟ کیوں کہ اس کمرے سے باہر بھی تاریکی تھی۔ نہ ہی میرے پاس گھڑی تھی کہ میں وقت کے بارے میں معلوم کر سکتا۔ اس جادونگری میں کتنا وقت گزرا احساس ہی نہ تھا۔ جی میں آئی کہ محمد شریف سے پوچھوں لیکن سب کو خاموش پاکر میں بھی چپکا کھڑا رہا۔
’’فاروق!‘‘ رادھا نے مجھے پہلی بار میرے اصلی نام سے پکارا۔ میں بری طرح چونک گیا۔ وہ گہری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ عبدالودود اور محمد شریف بھی چونک گئے۔ سب کو متوجہ پا کر وہ کہنے لگی۔
’’میں تمہرا دھرم سویکارکرنا چاہتی ہوں‘‘ حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مجھے لگا جیسے میری سماعت نے دھوکہ دیا ہو۔
’’کک۔۔۔کیا۔۔۔کیا کہہ رہی ہو رادھا‘‘ میں بری طرح بوکھلا گیا۔
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ میں وہ دھرم اپناؤں جو اس سنار سے جانے کے بعد بھی میری سہائتا کرے؟‘‘ اس نے نظریں جھکا کر کہا۔
’’سبحان اللہ‘‘ محمد شریف نے کہا۔
’’اللہ اکبر‘‘ عبدالودود نے نعرہ بلند کیا۔ دونوں کے چہرے جوش سے چمکنے لگے۔
’’مجھے ابھی اور اسی سمے اپنے دھرم میں لے آؤ۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔
’’رادھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ لیکن یہ ۔۔۔یہ سب کیسے میرا مطلب ہے تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا؟‘‘مجھے ابھی تک یقین نہ آرہا تھا کہ رادھا نے وہی کچھ کہا ہے جو میرے کانوں نے سنا ہے۔
’’کیوں نہیں بہن! یہ تو ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے‘‘ محمد شریف نے مسکرا کر کہا۔ اس کے چہرے سے خوشیوں کا آبشار بہنے لگا تھا۔ عبدالودود کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔

یہ ایک عجیب سا منظر تھا۔شیطان کی آماجگاہ میں نورحق کی شمع روشن ہونے جاری تھی۔
’’اگر آپ چاہتی ہیں ہمیشہ کے لیے نجات پاجائیں تو اس نیک کام میں دیر کیسی۔ لیکن۔۔۔‘‘ اس بار عبدالودود نے رادھا کو مخاطب کیا۔
’’پرنتو کیا۔۔۔تم رک کیوں گے؟‘‘ رادھا پہلی بار براہ راست عبدالودود سے مخاطب ہوئی۔
’’اسلام لانے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہوتا ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’یہاں آنے سے پہلے اشنان کرکے آئی تھی۔‘‘ رادھا نے سر جھکا کر کہا۔
’’بھائی محمد شریف آپ انہیں کلمہ پڑھا کر یہ سعادت حاصل کریں‘‘ عبدالودود نے محمد شریف سے کہا۔
’’یہ حق بھائی فاروق خان کا ہے۔ کیوں کہ انہی کی کوششوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بہن کو قبول کیا‘‘ محمد شریف نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔

’’مم۔۔۔میں اس قابل کہاں؟‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’بھائی عبدالودود! یہ کام آپ کو ہی کرنا ہوگا یوں بھی آپ ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
’’اگر آپ بھائیوں کی یہی خواہش ہے کہ یہ سعادت مجھے نصیب ہو تو میں سب سے پہلے اس پرودگار کا شکر ادا کرتاہوں جس سے قبضے میں سب مخلوق کی جان ہے۔ پھر آپ لوگوں کا شکریہ‘‘یہ کہہ کر وہ بڑے وقار سے آگے بڑھا اور اپنا صافہ جو اس کے کندھے پر تھا آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’اسے تھام لیجئے اور جو کچھ میں پڑھوں اسے دہراتی جائیے گا‘‘ اس نے نظریں جھکا کر رادھا سے کہا۔ اس کے بعد وہ مقدس فریضہ ادا کیا جانے لگا جس کے لئے جن وانس کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے کلمہ پڑھا کر ہم سب نے دعا کی۔ مجھے اب تک جتنی کوفت ہوئی تھی سب دھل گئی۔ محمد شریف کے والد صاحب کے الفاظ یاد آئے جنہوں نے اشارتاً مجھے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ نا چیز سے کوئی نیک کام لینا ہے۔ اس کے بعد محمد شریف ہی کے ذریعے حضرت ابولحان صاحب نے بھی مجھے مبارکباد دی تھی۔ رادھا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ معلوم نہیں ندامت کے تھے یا خوشی کے۔
’’بھائی فاروق! آپ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بتائیے‘‘ محمد شریف نے مجھے مخاطب کیا۔
’’محمد شریف میں تو خود ابھی طفل مکتب ہوں یہ فریضہ تو آپ کوہی سر انجام دیناہوگا۔ رادھا سرجھکائے کھڑی تھی۔
محمد شریف اسے چیدہ چیدہ باتیں سمجھانے لگا۔
’’اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی تمام جہانوں کا مالک ، خالق، رازق ہے۔ اسی کے قبضے میں سب مخلوق کی جان ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔ اس نے ہر ایک کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ہم سب کولوٹ کراسی کے پاس جانا ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔۔‘‘محمد شریف اپنی خوبصورت آواز میں اسلامی تعلیمات کا درس دے رہا تھا۔ رادھا سر جھکائے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے سن رہی تھی۔ اللہ پاک بڑا رحیم ہے جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ ایک ہندو جن زادی جو ہر دم ، دیوی ، دیوتاؤں کی پوجا پاٹ میں لگی رہتی اب مشرف بہ اسلام ہوگئی تھی مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی۔
’’یہ تھیں ابتدائی تعلیمات، باقی میں حضرت صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ آپ کو باقاعدہ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔‘‘ محمد شریف نے کہا۔
’’فاروق! میں نے تمہیں بہت کشٹ دیا ہے پرنتو میں گلط راہ پر چل رہی تھی۔ مجھ سے جو بھی ہوا انجانے میں ہوا۔ تمری سندرپتنی بھی میرے کارن کشٹ بھوگ رہی ہے۔ مجھے شما کر دو‘‘ رادھا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اللہ کے پسندیدہ دین کا اعجاز ہے کہ اس پر چلنے والا خود کی نفی کرکے اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہر دم معافی اور مغفرت کا طلبگار رہتا ہے۔
’’رادھا! وقت گمراہی میں تم سے جو کچھ بھی ہو اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کیونکہ جن انس شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ کرتے ہیں۔تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ تم بہت خوش نصیب ہو۔‘‘میں آبدیدہ ہوگیا۔
اچانک کمرہ ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔ لیکن ایک منٹ کے بعد دوبارہ روشن ہوگیا۔ سامنے نظر پڑی تو میں ششدر رہ گیا۔ دیوار کے پاس ایک قطار میں سات آدمی لنگوٹیاں پہنے کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک ہٹا کٹا طویل القامت شخص تھا۔ اس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے۔ سر انڈے کے چھلکے کی طرح صاف درمیان میں موٹی سی چوٹی لٹک رہی تھی۔ اس نے جسم پر زرد کا کوئی سفوف مل رکھا تھا۔ قد اس کا تقریبا ساڑھے چھ فٹ ہوگا۔ گلے میں کئے موٹے دانوں کی مالا لٹک رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور سرخ انگارے جیسی تھیں۔ ماتھے پر تین مختلف رنگوں کی لکیریں کچھی ہوئی تھیں۔ اس کے پیچھے ایک قطار میں کندھے سے کندھا ملائے دوسرے بچاری کھڑے تھے۔ سب کے حیلے ایک جیسے تھے۔ صرف کالی داس کے بڑے بڑے جھاڑ جھنکار سفید بال اور بے ہنگم داڑھی مونچھیں تھیں۔ باقی سب گنجے اور درمیان میں موٹی موٹی چوٹیاں لٹک رہی تھیں۔ جنہیں انہوں نے اپنے سینوں پر ڈال رکھا تھا۔ سب سے آگے والے بچاری کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بتوں کی مانند ساکت کھڑے تھے حتیٰ کہ پلک بھی نہیں جھپک رہے تھے۔ سب سے آگے کھڑا بچاری یک ٹک رادھا کو گھور رہا تھا۔
’’مہاراج! یہی وہ پاپن‘‘ کالی داس نے رادھا کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
’’مجھے کیا بتاتا ہے مورکھ! سب جانتا ہوں‘‘ اس کی آواز خاصی گرجدار تھی۔
’’کنیا! کیا کالی داس ستیہ کہہ رہا ہے؟‘‘ اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد رادھا سے سوال کیا۔
’’ہاں اس نے جو کہا ہے ستیہ ہے‘‘ رادھا نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’میں تجھے ایک اوسر دیتا ہوں تو دیوتاؤں سے شما مانگ لے۔ مجھے وشواس ہے دیوتا تجھے شما کر دیں گے‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں تمہیں اپدیش دیتی ہوں کہ تو بھی اس راہ کو چھوڑ کر دھرم اسلام سویکار کر لے۔ مجھے وشواس ہے سنسار بنانے والا تجھے شما کر دے گا‘‘ رادھا نے اسی انداز سے جواب دیا۔
’’مہاراج وشنو داس! تمری آگیا ہوتو میں اس پاپن کو چٹیا سے پکڑ کر کالی ماتا کے چرنوں میں لے جاؤں؟‘‘ کالی داس بھڑک کر بولا۔ وشنوداس نے اس اشارے سے خاموش کیا اور عبدالودود سے مخاطب ہوا۔
’’کیا تو نہیں جانتا تھا کالی داس کے آشرم میں آنے کی راہ ہے پرنتو جانے کی نہیں؟‘‘
’’میں کیا جانتا ہوں اورکیا نہیں تم اس میں اپنا وقت برباد نہ کرو اور جو کچھ اس محترم خاتون نے تم سے کہاہے اسے مان کر صراط مستقیم پر آجاؤ۔ اللہ پاک بڑا غفور الرحیم ہے تمہارے سارے گناہ معاف کر دے گا‘‘ عبدالودود نے کمال اطمینان سے جواب دیا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ہنکارہ بھرا۔
’’تو جو کچھ میرے چیلے کالی داس نے کہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ میں نے تجھے اوسر دیا تھا پرنتو تومورکھ ہے۔۔۔ٹھیک ہے کالی داس تو اپنے من کے ارمان نکال لے‘‘ اس نے کالی داس کا اشارہ کیا۔
کالی داس آگے بڑھا اور وشنو داس کے سامنے جھک کر دونوں ہاتھ جوڑے پھر رادھا کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس کے موٹے اور بھدے ہونٹ متحرک ہوگئے۔ وہ آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔ رادھا کے سکون و اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ اچانک کالی داس بھیانک چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ عبدالودود کا چہرہ سرخ انگارہ بن چکا تھا۔ وشنو داس جو دو قدم پیچھے ہٹ کر اطمینان سے کھڑا تھا بری طرح چونک گیا۔ اس کی آنکھوں میں اچانک شعلوں کا رقص شروع ہوگیا۔ چہرہ بری طرح پھڑکنے لگا۔
’’پاپی! تیری یہ مجال۔۔۔؟ تو وشنو داس کے چیلے پر وار کرے‘‘ وہ غیض و غضب میں دھاڑا۔ پھر گلے سے مالا اتار کر عبدالودود کی طرف پھینکی۔ عبدالودود نے زقند بھری اور ایک طر ف ہٹنے لگا۔ لیکن مالا کسی برق کی طرح اس کے گلے میں پھندے کی طرح پڑ چکی تھی۔ وہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کا خوبصورت چہرہ اذیت کے باعث بگڑ چکا تھا۔ آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ وہ دونوں ہاتھ گلے پر رکھے پھڑک رہا تھا۔ محمد شریف نے دیکھا تو جلدی سے آگے بڑھا لیکن دوسری مالا نے اس کا بھی یہی حشر کیا۔ میں بری طرح بوکھلا گیا۔
’’اب کیا وچارہیں؟ تیری سہائتا کرنے والے تو گئے اب کیا کہتی ہے؟‘‘ اس نے قہر ناک نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا ۔ مالا جیسے ہی عبدالودود کی گلے میں پڑی کالی داس خود بخود ٹھیک ہرکر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’تم کیول اتنا کر سکتے ہو کہ میرے پران لے لو۔۔۔پرنتو جو راہ میں چنی ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی‘‘ رادھا کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ البتہ وہ محمد شریف اور عبدالودود کو تکلیف پر بے چین ضرور تھی۔
’’چل آگے بڑھ اور ان ملیچھوں کو کالی ماتا کے چرنوں میں پھینک آ۔۔۔میں آتا ہوں‘‘ وشنوداس نے ایک بچاری سے کہا۔
’’مہاراج اس ملیچھ کا کریہ کرم بھی کر دو جس کے کارن یہ سب کچھ ہوا‘‘ کالی داس نے جھجکھتے ہوئے کہا میں پوری جان سے لرز گیا۔ وشنو داس نے ایک بال اپنے سینے سے توڑا اور میری طرف پھینکنے ہی والا تھا کہ بیرونی دروازہ ایک دھماکے سے کھلا۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ کھلے دروازے میں ملنگ کھڑا تھا۔

اسکی بڑی بڑی روشن آنکھوں میں قہر تھا۔ وشنوداس نے اس کی طرف دیکھا اور چوکنا ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں میں تول رہے تھے۔ اچانک ملنگ نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔
’’حق للہ۔۔۔حق‘‘ اور آگے بڑھ کر پاؤں کی ایک ایک ہلکی سی ٹھوکر محمد شریف اور عبدالودود کو رسید کی۔ مالائیں ان کے گلے سے ٹوٹ کر بکھر گئیں۔ دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ ان کے چہرے جو اذیت سے سیاہ پڑ چکے تھے تیزی سے اصلی حالت میں آگئے۔
مہاراج! یہ بہت بڑا دھشٹ ہے اس کے شریر میں راونڑ کی شکتی ہے‘‘ کالی داس خوفزدہ ہو کر وشنو داس کے پیچھے دبک گیا۔
’’قائر! میرے سامنے ایسے شبد منہ سے نکالتے ہوئے تجھے لاج نہ آئی؟ مہاراج وشنو داس کے سامنے اس پاپی کی مہانتا کے گن گا رہا ہے‘‘ وشنو داس غضبناک ہوگیا۔
’’مم۔۔۔مہار۔۔۔ا۔۔۔ج۔۔۔م۔۔۔یں تو۔۔۔میں تو‘‘ کالی داس کا رنگ خوف سے مزید زردہوگیا۔
’’میں تجھے آگیا دیتاہوں کہ دیوتاؤں کے نام پر آگے بڑھ اور دھرم کونشٹ کرنے والے ان پاپیوں کا سروناش (تباہ) کر دے‘‘ وشنو داس نے کالی داس کو گدی سے پکڑ کر آگے کر دیا۔

’’مہاراج دیا کرو۔۔۔یہ منش نہیں پلید آتما ہے مہاراج! یہ پاپی پہلے بھی مجھے کشٹ دے چکا ہے‘‘ کالی داس ہاتھ باندھ کر وشنوداس کے آگے جھک گیا۔ وہ بار بار مڑ کر ملنگ کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھتا پھر وشنوداس کی منتیں کرنے لگتا۔
’’گرو جی! یدی آگیا ہو تو میں اس دھشٹ کرکریہ کرم کر دوں؟‘‘ وشنوداس کے پیچھے کھڑے ایک معمر پجاری نے جھک کر وشنوداس سے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔کالی داس ہی اس دھشٹ کو کھتم کرے گا۔ آگے بڑھ کالی داس! اور اس پاپی کو نرکھ میں جھونک دے۔ یدی اس یدھ میں تیرے پر ان بھی چلے گئے تو بھاگیہ شالی ہوگا‘‘ وشنوداس نے غصے سے کہا۔ نہ جائے مانند نہ پائے رفتن کے بمصداق کالی داس عجب مصیبت میں پھنس چکاتھا۔ آگے بڑھ کر ملنگ کے ساتھ مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی اگر انکار کرتا تو وشنوداس اسے جیتا نہ چھوڑتا۔ آگے کنواں پیچھے کھائی۔دونوں طرف اسے موت نظر آ رہی تھی۔
’’کس وچار میں ہے کیا تو میری آگیا کا پالن نہ کرے گا؟‘‘ وشنوداس کا لہجہ برف سے زیادہ سرد تھا۔
’’چاروناچار کالی داس آگے بڑھا لیکن اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ملنگ بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جے بجرنگ بلی!‘‘ کالی داس نے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور جم کر ملنگ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ملنگ کے چہرے پر ذرا فکروتردونہ تھا۔کالی داس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور گلے میں پڑی ہوئی مالا کو توڑ کر ملنگ کی طرف اچھال دیا۔ مالا کسی سانپ کی طرح لہراتی ہوئی ملنگ کی طرف بڑھی۔ دھاگا ٹوٹ جانے کے باوجود اس کے دانے نہ بکھرے تھے۔ مالا برق کی سی سرعت کے ساتھ ملنگ کی طرف آئی لیکن اس کے چہرے سے کچھ فاصلے پر ٹھہر گئی۔ملنگ نے معنی خیز مسکراہٹ سے کالی داس کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہا۔ کالی داس نے اپنا وار خالی جاتا دیکھا تو غضبناک ہوگیا۔ اس نے اپنے سینے سے ایک بال توڑ کر ملنگ کی طرف اچھال دیا۔ بال کا حشر بھی مالا سے مختلف نہ ہوا۔ کالی داس ایک سے ایک داؤ آزماتا رہا لیکن ملنگ کی تیوری پر بل نہ ڈالا سکا۔ تھک ہار کر اس نے وشنو داس کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے بیچارگی جھلک رہی تھی۔
’’گرو جی! آگیا ہو تو میں اس پاپی کو نرکھ میں پہنچا دوں؟‘‘اس بچاری نے دوبارہ وشنو داس سے پوچھا۔ وشنوداس بری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
’’پہلے اس پاپی کو نرکھ میں پہنچانے کا پربند کرنے دے۔‘‘ وہ کالی داس کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔
’’مم۔۔۔مہا۔۔۔را۔۔۔ج شما کر دو مہاراج‘‘ کالی داس اس کے قدموں میں گر گیا۔ وشنو داس نے ایک نظر ملنگ کو دیکھا اور کالی داس کے سر پر تھوک دیا۔ تھوک کا کالی داس کے سر پر گرنا تھا کہ اس نے آگ پکڑ لی۔ دل دہلا دینے والی چیخ کالی داس کے منہ سے نکلی۔ وہ چیختا ہوا کمرے میں بھاگنے لگا۔ آگ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کو جلا رہی تھی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے آگ بجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اس کے جھاڑ جھنکار بال دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔ تھوری ہی دیر میں آگ نے اسے بری طرح گھیر لیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ آخر وہ موذی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ آگ نے صرف کالی داس کو جلایا تھا قالین کو نہیں۔ وشنو داس نے فاتحانہ نظروں سے ملنگ کی طرف دیکھا۔ کالی داس کو مرتے دیکھ کر ملنگ نے افسوس سے سر ہلایا۔

’’یہ تم نے برا کیا۔ میں سمجھا تھا تم اپنے مذہب کے سچے پیروکار ہو۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کی حفاظت کا درس دیتا ہے نہ کہ انسانوں کو ایذارسانی کا پیغام۔ تم نے اس بے قصور شخص کو ناحق قتل کر دیا۔ مجھے تمہارے رتبے اور علم پر افسوس ہوا۔‘‘ ملنگ نے افسوس سے سر ہلایا۔
’’رام چندر! آگے بڑھ اور اس اپرادھی کو نشٹ کر دے۔‘‘ وشنو داس نے اپنے پیچھے کھڑے پجاری کو حکم دیا جو دو مرتبہ اپنی خدمات پیش کر چکا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کر پہلے وشنو داس کے آگے جھکا پھر اس کے پیروں کو ہاتھ لگا کر اپنے ماتھے پر لگایا۔ اس کے بعد اس نے بالکل پہلوانوں کے سے انداز میں اپنی ران پر ہاتھ مارا اور اکڑوں بیٹھ کر ملنگ کی طرف تھوک دیا۔ تھوک ہوا میں اڑتا ہوا ملنگ کے چہرے کی طرف بڑھا۔ میں ان لوگوں کی تھوک کی کارستانیاں دیکھ چکا تھا۔ ملنگ کے سکون میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ساکت کھڑا پجاری کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تھوک ملنگ کے چہرے کے قریب آیا تو نہ جانے کس طرف سے ایک شعلہ لپکا۔ چزززززز کی آواز آئی اور تھوک غائب ہوگیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے بھلے مانس‘‘ ملنگ نے بڑی شفقت سے پجاری سے پوچھا۔ اس نے نفرت بھری نگاہ ملنگ پر ڈالی لیکن کچھ نہ بولا اور زمین پر ہاتھ مار کر اس کا رخ ملنگ کی طرف کر دیا۔ اس کی ہتھیلی سے ایک شعلہ نکلا اور ملنگ کی طرف بڑھا لیکن ا س تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہوگیا۔
قصہ مختصر بچاری وار پر وار کرتا رہا لیکن ملنگ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ ملنگ نے اپنا سوال ایک بار پھر دہرایا۔ پجاری کی سب اکڑفوں نکل چکی تھی۔ کالی داس کا انجام اس کے سامنے تھا۔ اسنے خوفزدہ نظروں سے وشنوداس کی طرف دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں شعلوں کا رقص شروع ہو چکا تھا۔ اس نے اس پجاری کو کچھ نہ کہا اور دوسرے پجاری کو اشارہ کیا۔ وہ جھجھکتا ہوا آگے بڑھا اور پہلے پجاری جیسے داؤ آزمانے لگا۔ نتیجہ حسب سابق نکلا۔ وشنو داس کسی سانپ کی طرح بل کھا کر رہ گیا۔ وہ ایک کے بعد ایک پجاری کو اشارہ کرتا گیا۔ چھ کے چھ پجاری ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے چہروں پر ندامت ثبت تھی۔ وشنو داس نے ایک نظر ان پر ڈالی اور نفرت سے تھوک دیا۔
’’بھلے مانسو! میں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ شیطانی راستے کو چھوڑ کرصراط مستقیم پر چل پڑو ،اسی میں کامیابی ہے۔ یہ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ ہے۔ آخر کار ہم سب نے مر کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ غفوالرحیم اللہ پاک سچی توبہ کرنے والے کو فوراً معاف فرما کر اس کے گناہ بخش دیتا ہے اور۔۔۔‘‘
’’بند کر اپنا بھاشن‘‘ وشنو داس گرجا۔ یہ بالک سپھل نہ ہوئے تو یہ وچار کرنے لگاکہ تو مکت(کامیاب) ہو گیا؟‘‘ وہ حقارت سے بولا۔ اس کے لہجے میں غرور اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ سب پجاری ہاتھ باندھے ایک بار پھر وشنو داس کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ وشنو داس نے ایک نظر رادھا پر ڈالی۔
’’پاپن تیرے کارن ایک مہاپرش اور کالی کا سیوک اس سنسار سے چلا گیا۔ اس دھشٹ سے پہلے میں تیرا کریہ کرم کروں گا۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ رادھا کی طرف کیا۔
’’وشنو داس! مردوں کے ہوتے ہوئے ایک عورت پر ہاتھ اٹھانا کسی بھی مرد کے لئے باعث شرم ہے۔ اگر تو اپنی ناکامی کا اعلان کر دے تو میں تجھے معاف کرکے ان سب کو لے کر یہاں سے چلا جاتا ہوں‘‘ ملنگ نے اسے ایک بار پھر سمجھایا۔
’’یہاں سے تم سب اب نرکھ میں جاؤ گے‘‘ وہ دانت پیس کر بولا۔ ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا۔ ایک شعلہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور سرعت سے رادھا کی طرف بڑھا۔ لیکن آفرین ہو عبدالودود پر برق کے کوندے کی طرح لپکا اور شعلے کی راہ میں حائل ہوگیا۔ شعلہ اس کے بائیں بازو پر پڑا اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ وہ اپنا بازو پکڑے وہیں بیٹھ گیا۔ اس کا بازو جل کر سیاہ ہوگیا۔ وہ بری طرح اپنا بازو جھٹک رہا تھا۔ اذیت سے اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
’’نامراد! اپنی حرکتوں سے باز آجا نہیں تو مجھے تیرا بندوبست کرنا پڑے گا‘‘ ملنگ کی دھاڑ کمرے میں گونج اٹھی۔ وشنو داس نے قہر ناک نظروں سے ملنگ کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ کا رخ اس کی طرف کر دیا۔
’’سب کو بھسم کر دوں گا۔۔۔سب کو نرکھ میں جھونک دوں گا‘‘ وہ غضبناک ہو کر دھاڑا۔ ملنگ عبدالودود کی طرف متوجہ ہوا اور وشنو داس کو موقع مل گیا۔ اس سے پہلے کہ ملنگ سنبھلتا وشنو داس نے ہاتھ جھٹک دیا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ ہر چند کہ میں ایک عرسے سے جنات اور جادو کے کارنامے دیکھتا چلا آرہا تھا بلکہ کئی بار ان بدبختوں نے مجھے بھی جادو سے قریب المرگ کر دیا تھا۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ورنہ ان خبیثوں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا وشنوداس کی انگلیوں سے باریک تار جیسی ڈور نکلی اور لمبی ہو کر ملنگ کے جسم سے لپٹنے لگی۔ ملنگ نے بہت کوشش کی کہ وہ اس وار سے بچ سکے لیکن وہ موذی وار کر چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ملنگ کا جسم ڈوری سے بندھ گیا۔ وہ کھڑے کھڑے دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کا صرف چہرہ آزاد تھا ہاتھ، پاؤں اور جسم بندھ چکا تھا۔
’’پاپی! وشنو داس کو اپدیش دے رہا تھا۔ بالکوں کے کھیل سے یہ مورکھ یہ وچار کر بیٹھا تھا کہ وشنوداس بھی انہی جیسا ہوگا‘‘ اس نے حقارت سے تھوک دیا۔ عبدالودود جلدی سے آگے بڑھا۔
’’اے نابکار! اس مجذوب پر اپنی گندی شیطانی طاقت آزما کر تو نے اللہ کے غضب کو آواز دی ہے۔ اس جبار کا قہر تجھے درد ناک عذاب سے دو چار کرے گا‘‘ عبدالودود طیش کے عالم میں وشنو داس کی طرف جھپٹا۔ وشنو داس نے اس کی طرف ہاتھ کرکے پھر وہی عمل دہرایا جس سے عبدالودود کی حالت بھی ملنگ جیسی ہوئی۔ وہ بھی اسی طرح ڈوریوں میں جکڑا گیا۔ وشنو داس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھی۔ سخت غیض و غضب کے عالم میں وہ رادھا کی طرف مڑا۔

’’کلکنی! تجھے تو میرے شراپ سے اب دیوتا بھی نہ بچا پائیں گے۔ تیرے کارن مجھے میرے چیلے کی یہ دشا بنانا پڑی‘‘ اس نے کالی داس کے جسم سے بننے والے راکھ کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ رادھا کے چہرے پر ایسا سکون طاری تھا جیسے وہ بدبخت اس کے بجائے کسی اور سے مخاطب ہوا۔ اور یہ سب اعجاز دین اسلام کا تھا۔ جس کو قبول کرنے والے صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک سے ڈرتے ہیں۔ ملنگک کا حشر دیکھنے کے باوجود وہ بڑے سکون سے بولی۔

’’وشنو داس! میں نے جیون بھر کوئی پن نہیں کمایا۔ نہ جانے کتنے منشوں اور اپنی جاتی کے سندر جوانوں کو اپنی اچھا پوری کرنے کے بعد پرلوک بھیج دیا۔ پرنتو اس منش‘‘ اس نے میری جانب اشارہ کیا۔
’’اس نے مجھے ایسے دھرم کی راہ دکھائی جس پر چل کر سب کو مکتی ملی جاتی ہے۔ میں پھر کہتی ہوں ان راہوں سے باز آجا اور سنسار بنانے والے کو مان کر مکتی پالے نہیں تو ۔۔۔‘‘
’’پاپن! تو وشنو داس مہاراج کو اپدیش دے گی۔۔۔جس نے سارا جیون دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں تپسیا کرتے بتا دیا۔ میری تیوری کابل دیوتاؤں کے وچار(فیصلے) بدل دیتا ہے۔‘‘ وشنو داس ، رادھا کے بات کاٹ کر دھاڑا۔
’’یدی میں چاہتا تو ایک پل میں ان سب کو نرکھ میں پہنچا دیتا۔ پرنتو میں ان پاپیوں کا بلیدان کالی ماتا کے چرنوں میں کروں گا۔ اسی کارن یہ دھشٹ جیوت ہیں۔ سن۔۔۔یدی اب بھی تو اپنے وچار بدل کر دھرم کو اپنا لے تو میں وچن دیتا ہوں تیرے واسطے دیوتاؤں کے آگے بنتی کرکے شما مانگ لوں گا‘‘ اس بار وہ نرم لہجے میں رادھا سے بولا۔
’’جیون لینا اور دینا اوپر والے کا کام ہے، یدی تو چاہے تو ایک چیٹی کو بھی اس کی آگیا کے بنا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں مرتیو سویکار کر لوں گی پرنتو دھرم جو میں ے چن لیا ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی۔ تجھے جو کرنا ہے کر لے‘‘ رادھا نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔ وشنو داس انکار سن کر مشتعل ہوگیا۔
’’پاپن! کیا تو نے نہیں دیکھا میں نے ان بھاشن(تقریر) دینے والوں کی کیا دشا بنا دی؟‘‘ اس نے ملنگ اور عبدالودودکی طرف اشارہ کیا۔ جن کے چہرے کرب و اذیت سے مسخ ہو چکے تھے۔ شدید تکلیف کے باوجود صبر و ضبط ایک مثال تھا۔ وشنو داس پر ایک نظر مجھ پر ڈال کر رادھا کی طرف مڑا۔
’’اب تیرے اس پریمی کی باری ہے جس کے کارن تو نے اپنا دھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ میری طرف کر دیا۔
’’وشنو داس! جس نے جیون دان کیا ہے یدی اس کے نام پر ایسے ہجاروں جیوان بلیدان کرنا پڑیں تو میں نا نہیں کہوں گی‘‘ اس کی با سن کر وشنو داس کو پتنگے لڑ گئے۔
’’پان! اب تو دیا کہ بھکشا بھی مانگ گی تو نہ ملے گی‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ میری طرف موڑا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن رادھا کی بات سن کر میرا سینہ فخر سے پھول گیا۔ واقعی پاک اللہ کے لئے ایک زندگی تو کیا ہزاروں زندگیاں قربان کی جا سکتی ہیں بلکہ ہم مسلمان تو اسے سعادت سمجھتے ہیں کہ جان ، جان آفرین کے نام پر قربان ہو جائے۔ وشنو داس مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ میں اسے معافی مانگوں گا۔
’’وشنو داس! تیرے جیسے شیطان سے معافی مانگ کر میں اپنا ایمان خراب کرنا نہیں چاہتا۔ مجھے یقین ہے اگر اللہ تعالیٰ نے ہم سب کی موت تیرے ہاتھوں لکھی ہے تو کوئی ہمیں بچا نہیں سکتا۔۔۔اگر اسے ہمیں بچانا مقصود ہوگا تو تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں مار سکتی‘‘ میرا عزم دیکھ کر وہ بھڑک گیا۔ کچھ دیر وہ غضبناک نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔
پھربری طرح چونک اٹھا۔ وہ سکتے کے عالم میں میرے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ اس کا ہاتھ اٹھا کا اٹھارہ گیا۔ اچانک اس کے چہرے پر شکست خوردگی کے آثار چھا گئے۔ چہرے سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا جیسے اسے کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری ہو۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور اپنے پیچھے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میرے پیچھے حضرت صاحب کھڑے تھے۔ وہی حضرت صاحب جو محمد شریف کی درخواست پر میرے گھر کا حصار کرنے تشریف لائے تھے وہ قوم جنات میں ولی کامل تھے۔ ان کا پر جلال چہرہ غیض و غضب کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ محمد شریف نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ لیا تھا۔ خوشی سے اس کا چہرہ چمکنے لگا۔ وشنو داس کچھ دیر حضرت صاحب کو دیکھتا رہا۔
’’کیا تو بھی ان کی سہائتا کرنے آیا ہے؟‘‘ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی تھی۔ حضرت صاحب نے اسے کوئی جواب دینے کے بجائے ایک نظر ملنگ اور عبدالودود پر ڈالی اس کے ساتھ ہی وہ بندشوں سے آزاد ہوگئے۔ حضرت صاحب کی ایک نگاہ ان پر پڑی تھی۔ مجھے یاد آیا میں نے کہیں پڑھا تھا۔
’’مومن کی نگاہ سے ڈرو وہ اللہ کی عطا کی ہوئی فراست سے دیکھتا ہے‘‘ حضرت صاحب کی نگاہ میں وہ تاثیر تھی جس نے وشنو داس کی بندشوں کو کاٹ دیا تھا۔ اللہ والے عبادت و ریاضت اور اللہ کی رحمت سے وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جسے شیطان کے پیروکار سمجھ نہیں پاتے۔ وشنو داس کے پیچھے کھڑے پجاریوں میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ بے چین دکھائی دینے لگے۔ بندشوں سے آزاد ہوتے ہی ملنگ اور عبدالودود کھڑے ہوگئے۔ عبدالودود کے چہرے پر شرمندگی تھی۔
’’مرشد ! معافی کا خوستگار ہوں بے خبری میں مار کھا گیا۔ ‘‘ اس کی نظریں جھک گئیں۔ حضرت صاحب نے شفقت سے اسے دیکھا۔ ان کا نورانی چہرہ مسکراہٹ سے مزید روشن ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے رادھا کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
’’میری بچی ! ادھر آؤ‘‘ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ رادھا سارھی کا پلو سر پر درست کرتی ان کے قریب چلی گئی۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’تم نجات پا گئیں جس کے لئے میں تمہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ برائی کے راستے کو چھوڑ کر تم سچے دین پر آگئی ہو یہی راہ نجات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے درجات بلند کرے‘‘ بے اختیار سب کے منہ سے نکلا’’آمین‘‘ اس کے بعد حضرت صاحب وشنو داس کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’میں تمہیں بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ ان سب کھیل تماشوں میں کچھ نہیں رکھا۔ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ ہے۔ شیطان ہم سب کا کھلا دشمن ہے۔ اس کا کام بہکانہ ہے جس کا اس نے رب کائنات سے وعدہ کیا ہے۔ جو کوئی دنیا میں شیطان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے جہنم میں بھی اس کا ساتھی بنے گا۔ تم نے علم حاصل کیا لیکن اس پر عمل نہ کیا۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کا درس دیتا ہے لیکن تم نے اس کے برخلاف عمل کرے اپنی ساری ریاضت کو مٹی میں ملا دیا۔ میں ایک بار پھر تمہیں سمجھاتا ہوں کہ شیطان کی اطاعت سے باز آکر راہ راست پر چلو۔‘‘ بڑے ہی شفیق لہجے میں حضرت صاحب نے اسے سمجھایا۔
’’بند کر اپنا یہ ناٹک‘‘ وشنو داس دھڑا۔
’’ان بالکوں کو تو اس نوٹنکی سے اپنے بس میں کر سکتا ہے پرنتو اس سمے تو وشنو داس مہاراج کے سامنے کھڑا جس نے ورشوں کالی ماتا اور دیوی دیوتاؤں کی تپسیا میں سمے بتایا ہے۔ تو نہیں جانتا میری شکتی اپرم پار(بے پناہ) ہے‘‘ وہ حقارت سے بولا۔
’’یہی تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ جو وقت تم نے اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے میں گزارا ہے۔ اس کے مطابق انسانوں کے لئے باعث سکون بنو نہ کہ ان کو ایذا دو‘‘ حضرت صاحب کی مہربان آواز آئی۔
’’جیادہ جیب نہ چلا۔ میں تجھے اوسر (موقع) دیتا ہوں کہ تو اپنے من کے ارمان نکال لے کہیں ایسا نہ ہو بعد میں تجھے دکھ ہو۔۔۔وشنو داس مہاراج نے تجھے اوسر نہ دیا۔‘‘ وہ مسلسل تکبر اور غرور کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
’’میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ تم ان بے قصور انسانوں کو یہاں سے جانے دو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ حضرت صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
’’ان پاپیوں کو جانے دوں، اس پاپن کو بھی جانے دوں۔۔۔؟‘‘ اس نے رادھا کی طرف اشارہ کیا۔
’’جس نے ہمرادھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ وشنو داس پیچ و تاب کھا کر بولا۔
’’میں ان کو ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک ذی علم شخص کو میرے ہاتھوں نقصان پہنچے۔ یوں بھی ہمارے مذہب میں بے وجہ لڑائی جھگڑے اور زمین پر فساد پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت صاحب ابھی تک اسے سمجھا رہے تھے۔ وشنو داس کی بد تمیزی کو انہوں نے بڑے صبر سے برداشت کیا تھا۔
’’پرنتو ہمرے دھرم میں ایسا کرنے کی آگیا دی گئی ہے‘‘ وشنوداس نے تمسخر سے کہا۔
’’یدی تو ڈر گیا ہے تو میں تجھے آگیا دیتا ہوں کہ یہاں سے چلا جا۔ پرنتو جانے سے پہلے میرے چرن چھو کر مجھے مہا شکتی مان سویکار کر‘‘وہ غرور و تکبر کا پتلا مسلسل ہر زہ سرائی کر رہا تھا۔
’’میں تمہارے قدموں کو ہاتھ لگانے پر بھی تیار ہوں اگر تم اللہ کاپیغام سن کر اس پر غور کرنے کا وعدہ کرو۔‘‘ یہ برداشت کی انتہا تھی۔ عجز کی انتہا تھی خود کی نفی کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے عاجزی اختیار کرنا کوئی ولی کامل ہی ایسے ضبط کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
’’جان پڑتا ہے تو کچھ لے کر ہی جائے گا‘‘ وشنو داس دانت پیس کر بولا۔ ساتھ ہی اس کے ہونٹ متحرک ہوگئے۔ حضرت صاحب اطمینان سے کھڑے رہے۔ وشنو داس نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سانپ آگیا۔ کالا سیاہ سانپ جس کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کی شکل اتنی خوفناک تھی کہ دل دہل جائیں۔ معنی خیز نظروں سے گھورتے ہوئے اس نے وہ سانپ حضرت صاحب کی طرف اچھال دیا۔ سانپ تیر کی طرف ان کی طرف بڑھا۔ اچانک حضرت صاحب کی آنکھوں سے بجلی کوندی اور سانپ جل کر راکھ ہوگیا۔ جلال سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک قہر بار نگاہ وشنو داس پر ڈالی۔
’’میرے بچو! چلو چلیں‘‘ وہ باہر جانے والے راستے کی طرف مڑے۔
’’کیا تو نے مجھے مورکھ سمجھ رکھا۔۔۔میں تجھے جانے کی آگیا دے دوں گا؟‘‘ وشنو داس پہلو بدل کر بولا۔ اس کے بعد اس نے مختلف شعبدے دکھانے شروع کر دیے۔ کچھ دیر تو حضرت صاحب برداشت کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے آخری بار اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ حضرت صاحب نے ایک بار پھر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ وشنو داس اپنے وار خالی جاتے دیکھ کر پاگل ہوگیا۔ اس نے کسی اجنبی زبان میں فلک شگاف نعرہ لگایا اور اپنے گندے جسم سے میل کی ایک تہہ اتار کر ان کی طرف اچھال دی۔ حضرت صاحب جو دروازے کی طرف رخ کیے کھڑے تھے یکدم مڑے۔۔۔ان کی نگاہ اتھی۔۔۔ایک عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ ان کی آنکھوں سے برق نکلی جیسے آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے۔ وشنو داس ایک دلدوز چیخ کے ساتھ زمین پر گر گیا۔ اس کے سارے جسم نے آگ پکڑ لی تھی۔ وہ زمین پر پڑا بری طرح ڈکرارہا تھا۔ آگ نے آنا فاناً اسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ اپنے گرو کی یہ حالت دیکھ کر سب پجاری تھرتھرا اٹھے اچانک وہ زمین پر گر گئے۔
’’گرو جی! ہمیں شما کر دو۔۔۔دیا کرو ہم پر۔۔۔تم بلوان ہو۔۔۔تمری شکتی اپرم پار(تمہاری طاقت بے پناہ ) ہے۔۔۔ہمیں شما کر دو۔۔۔ہم وچن دیتے ہیں کہ پھر کبھی تمری راہ میں نہ آئیں گے‘‘ وہ یک زبان ہو کر چیخ رہے تھے اور اپنے ماتھے زمین پر رگڑ رہے تھے۔
’’اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ‘‘ حضرت صاحب نے مہربان آواز میں انہیں حکم دیا۔
’’وہ تھرتھر کانپتے کھڑے ہوگئے۔ خوف سے ان کے چہرے پیلے پڑ چکے تھے۔ ہاتھ جوڑے وہ حضرت صاحب کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔
’’اگر جھکنا ہے تو ایک اللہ وحدہ لاشریک کے آگے جھکو۔ وہی سب کائنات کا ملک ہے۔ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ۔ میرا کام تم لوگوں کو اللہ کا پیغام دینا تھا سو میں نے دے دیا۔ میرا تعلق قوم جنات سے ہے۔ ہمیں بعض کاموں میں انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ لیکن انسان کو تو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ ہماری قوم انسان پر رشک کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنا کر زمین کی خلافت عطا فرمائی ہے۔ لیکن مجھے تم لوگوں کے سلوک پر افسوس ہوا ہے کہ تم انسان ہو کر انسانوں کو ناحق قتل کر رہے ہو اور زمین پر دنگا فساد پھیلاتے ہو۔‘‘ حضرت صاحب نے تاسف سے سر ہلایا۔
’’جاؤ اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ اور عہد کرو کہ آج سے تم انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرو گے نہ کہ اسے ستانے کے لیے۔‘‘
ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن صرف ایک پل کے لئے۔ دوسرے ہی لمحے کمرہ پھر روشن ہوگیا۔ پجاری جاچکے تھے۔ وشنو داس اور کالی داس کی راکھ بھی موجود نہ تھی۔ شاید پجاری اسے ساتھ لے گئے تھے۔ حضرت صاحب نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ سب سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ کی طرف دلاؤں وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ انہوں نے مشفقانہ نگاہ مجھ پر ڈالی۔
’’ادھر آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے مجھے بلایا۔ میں ایسے ان کی طرف کھینچتا چلا گیا جیسے لوہا مقناطیس کی طرف۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام لیا۔
’’تم بھی مبارک باد کے مستحق ہو۔ تم گناہوں کی دلدل میں دھنس چکے تھے لیکن تمہاری نیک بیوی نے تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑا تم شرمسار ہوئے اور گناہ کا راستہ چھوڑ کر اس معبود برحق کے آگے سر بسجود ہوگئے اور اس پر قائم رہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری یہ بچی تم سے متاثرہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت سے نوازا اور یہ مسلمان ہوگئی۔ تم کافی مشقفت اور مصیبت اٹھا چکے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ وہ اس بندے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے جو سچے دل سے توبہ کر لے اور اس پر قائم رہے۔ تم نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ سیدھا جہنم کو جاتاتھا لیکن اس رحمن الرحیم کی مہربانی دیکھو اس نے تمہاری دل سے کی ہوئی توبہ نہ صرف قبول فرمائی بلکہ تمہیں انعام کے طور پر سعادت بھی عطا فرمائی کہ تم ایک کافرہ کے قبول اسلام کی سعادت کے لئے چن لئے گئے۔‘‘حضرت صاحب کی گھمبیر آواز گونج رہی تھی۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ اپنے گناہوں پر شرمندگی کے احساس نے مجھے سر جھکانے پر مجبور کر دیا۔’’ میرے بچے! یاد رکھنا اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند فرماتا ہے۔ کوشش کرو کہ تم کبھی نماز سے غافل نہ رہو۔ وضو اور نماز ، شیطان کے خلاف ڈھال کا کام دیتے ہیں۔ ہمیشہ باوضو رہنے والے پر اس معلون ابلیس کا داؤ نہیں چلتا‘‘ میرا ہاتھ اپنے نرم و نازک پاکیزہ ہاتھوں میں تھامے وہ درس دے رہے تھے۔ ان کا ایک ایک لفظ میرے دل میں اتر رہا تھا۔
’’میرے پاس آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے عبدالودود کو اپنے پاس بلایا۔ اس کے بعد وہ رادھا کی طرف متوجہ ہوئے جس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
’’میری بچی! میں چاہتا ہوں تمہارا نکاح عبدالودود سے کر دوں اگر تمہیں اعتراض نہ ہو؟‘‘ سب حیران رہ گئے۔ رادھا بری طرح شرما گئی۔ اب سے کچھ عرصہ قبل وہ بڑی بے باکی سے باتیں کرتی تھیں، بعض مرتبہ میں بھی شرما جاتا لیکن اسلام کو قبول کرتے ہی اس اس کے اندر حیا خود بخود آگئی تھی۔

رادھا نے زبان سے تو کچھ نہ کہا البتہ سر ہلا کر اس کی منظوری دے دی اور ساڑھی کے پلو کو کچھ اور آگے کھینچ کر اپنا چہرہ چھپا لیا۔
’’مشورہ کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ چونکہ عبدالودود مجھے یہ حق تفویض کر چکا ہے کہ میں جہاں چاہوں اس کا نکاح کر سکتا ہوں اس لئے میں نے اپنے بچے سے نہ پوچھا۔ لیکن آپ ہمارے بھائی ہیں۔۔۔یہ سعادت انجام دینے سے پہلے میں آپ بھائیوں سے مشاورت کرنا ضروری سمجھا ہوں۔ کیوں برخودار؟‘‘ انہوں نے محمد شریف کی طرف دیکھا۔
’’مرشد! اللہ آپ کے درجات بلند کرے اس نیک کام میں دیر کرنا مناسب نہیں۔ میں آپ سے متفق ہوں‘‘ وہ نہایت ادب سے بولا۔ حضرت صاحب نے ابھی تک کمال مہربانی سے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔
’’برخوردار فاروق احمد! آپ کا کیا مشورہ ہے؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔
’’حضرت صاحب! آپ ذی علم ہیں۔ میں نا چیز آپ کے اس حکم سے اتفاق کرتا ہوں‘‘ میں نے ادب سے کہا۔

’’الحمد للہ‘‘ انہوں نے چھت کی طرف نگاہ دوڑائی۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ کی طرف دلاؤں۔میں نے بیڈ کی طرف دیکھا تو میرا دل دھک رہ گیا۔ بیڈ پر دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ نظر نہ آرہا تھا جبکہ کچھ دیر قبل صائمہ باریک پردوں کے پیچھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھا۔
’’برخوردار!‘‘ حضرت صاحب کی آواز آئی۔ میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا۔
’’فکر نہ کرو ہم نے صائمہ بٹیا کو سب کی نگاہوں سے وقتی طور پر اوجھل کرنے کے لیے یہ سب کیا ہے۔ یہاں آپ کے علاوہ کچھ نامحرم بھی موجود ہیں۔ اور بٹیا کالباس جوان کافروں نے انہیں زیب تن کروایا تھا نامناسب ہے اس لئے ہمیں اس پردے کا بندوبست کرنا پڑا‘‘ وہ میری پریشانی بھانپ چکے تھے اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔ حضرت صاحب کے تقویٰ سے میرا دل بہت متاثر ہوا۔ ’’بیٹی! اگر تمہیں منظور ہو تو اہم تمہارا اسلامی نام تجویز کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رادھا سے کہا۔
’’اب تو آپ ہی ہمرے بڑے ہیں جو آپ کوبھلا دکھے ہم سے پوچھے بنا آگیا دیں ہم منع نہیں کریں گے‘‘ رادھا نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں شاد آباد رکھے آمین‘‘ انہوں نے رادھا کے تابعداری سے خوش ہوکر اسے دعا دی۔ ہمارا خیال ہے ان کا نام عابدہ ہونا چاہئے۔‘‘ سب نے ان کی با کی تائید کی۔
’’عابدہ بیٹی! آپ جا کر صائمہ بیٹا کا لباس تبدیل کر دیں۔ الحمد اللہ وہ ہوش میں آچکی ہیں۔ لباس ان کے پاس رکھا مل جائے گا۔‘‘ انہوں نے عابدہ کو حکم دیا۔
’’جو آگیا مہاراج مم۔۔۔حجرت جی‘‘ اس کے اس طرح کہنے سے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی لیکن پاس ادب سے خاموش رہے۔ رادھا بیڈ کے پاس جا کر دھند میں غائب ہوگئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ صائمہ کے ہوش میں آنے کی خبر سن کر میری آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ اور دل بے اختیار اللہ کا شکر اا کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد دھند چھٹنی شروع ہوگئی۔
بیڈ کے پاس ہی صائمہ اور عابدہ کھڑی تھی۔ صائمہ نے نہایت قرینے کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ محمد شریف اور عبدالودود نے نظریں جھکا لیں۔ صائمہ کو بھلا چنگا دیکھ کر میں نے سکون کی سانس لی۔
’’حضرت صاحب! میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میری بچی! ادھر آؤ۔ انہوں نے صائمہ اور عابدہ کو بلایا۔ دونوں چلتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔ بڑی سی چادروں سے ان کے چہرے اور جسم اچھی طرح ڈھکے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب نے صائمہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’جو بھی مصیبت یا تکلیف۔۔۔جن وانس کو آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ جس سے اس ذات کریم کا مقصد اپنی مخلوق کے گناہ معاف فرمانا اور درجات کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ تم نیک ماں باپ کی اولاد ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں شرم و حیا کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ جو کچھ ہوا اسے بھول کر اپنی زندگی اسلام کی تبلیغ میں صرف کرو۔ ہر دم اللہ کا شکر اداکرو۔ صرف عبادت کر لینا کوئی کمال نہیں۔ اگر اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ بھی اپنی عبادت کرتے تو سوچو ہم لوگ آج کیا مسلمان ہوتے؟ انسان۔۔۔خاص کرامت محمد ﷺ پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کو اپنے روزہ مرہ کے کاموں کا حصہ بنا لے۔ اسی میں نجات ہے۔‘‘ سب سرجھکائے ان کی ایمان افروز باتیں سن رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے میری اور محمد شریف کی موجودگی میں عبدالودود اور عابدہ کا نکاح پڑھایا۔ ان کی خوش الحانی سے پڑھی گئی قرات مجھے آج بھی یاد ہے۔ گواہ ہم دونوں یعنی محمد شریف اور میں تھے۔ سب نے عبدالودود کو مبارک باد دی۔ حضرت صاحب نے مٹھائی تقسیم کی جو عبدالودود ایک لمحے میں لے آیا تھا۔ لیکن اس کے لئے رقم محمد شریف نے بہم پہنچائی کہ حضرت صاحب کا فرمان تھا بلا قیمت کسی سے چیز لے آنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ صائمہ میرے ساتھ کھڑی تھی۔ دہ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اسکی بے چینی کی وجہ سے آگاہ تھا۔ وہ بچوں کے لئے فکر مند تھی۔ نکاح کے بعد حضرت صاحب نے دونوں کے حق میں دعا فرمائی اور انہیں قوم جنات کے دوسرے افراد کی تبلیغ کے لیے دوسرے پر بھیج دیا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت صاحب نے ہمیں حکم دیا کہ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ان کی اجازت کے بغیر ہرگز نہ کھولیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی مجھے اپناجسم ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ بعدمیں صائمہ اور محمد شریف نے میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ انہیں بھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔
’’میرے بچو! اانکھیں کھول دو۔‘‘ ان کہ مہربان آواز آئی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ہم اپنی گاڑی کے پاس کھڑے تھے۔ آسمان پر صبح کی روشنی نمودار ہونے لگی تھی۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔
’’بچو ! جاؤ اللہ تماہرا حامی ہو ناصر ہو۔ میری درخواست پر غور کرنا اور اپنی مصروفیات میں سے تھوڑا بہت وقت نکال کر اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے اسلام کی تبلیغ کرتے رہنا۔ حضرت صاحب کی آواز سنائی دی لیکن وہ نظروں سے اوجھل تھے۔
’’یا حضرت! کیا وہ دوبارہ آپ کی صحبت سے شرف یابی ممکن ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اگر اللہ کا حکم ہوا تو کیونکہ ہم سے اس کے حکم کے پابند ہے جس کے حکم کے بغیر پتا نہیں ہل سکتا۔ اچھا میرے بچو! اللہ حافظ‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔ ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں دور دور تک کسی متنفس کا وجود نہ تھا۔ صائمہ نے چادر کا پلو سر سے کھسکا کر پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے بے اختیار اسے اپنے بازؤں میں بھر لیا۔ وہ میرے شانے سے لگ کر سسکنے لگی۔ میری آنکھوں میں بھی پانی اتر آیا۔ کافی دیر ہم یوں ہی کھڑے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
’’حوصلہ کرو میری جان دیکھو اللہ پاک کے کرم سے ہم ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی جنت میں واپس جا رہے ہیں‘‘ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے تسلی دی۔ جب ہم واپس عمران کے گھر پہنچے تو صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ نازش نے صائمہ کو لپٹا لیا۔ عمران میرے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ عمران اور میں مسجد میں نماز ادا کرنے چلے گئے۔ نازش چائے بنا لائیں۔ ہم سب باتیں کرنے لگے۔ بچوں نے ماں کی آواز سنی تو جاگ گئے اور بھاگے ہوئے آکر اس سے لپٹ گئے۔ وہ بار بار اس کا منہ چومتے اور ننھے منے ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر اسے دیکھنے لگتے۔ صائمہ نے انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اسی دن شام کو ہم سب پروفیسر صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے۔ رات کو ہم دونوں نے اللہ کے حضور شکرانے کے نقل ادا کئے۔ جس نے ہمیں بہت بری مصیبت سے بچایا تھا۔ اس واقعے کو گزرے آج اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد ہم چھ سال مزید اس شہر میں رہے پھر میری تبدیلی واپس لاہور ہوگئی۔ بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ احد ڈاکٹر بن چکا ہے۔ میں اور صائمہ اکثر دعوت تبلیغ کے لے جایا کرتے ہیں۔ ہاں یاد آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک دن عبدالودود اور عابدہ ہم سے ملنے آئے تھے۔ دونوں بہت خوش تھے۔ رادھا بلکہ عابدہ کہنا چاہیے صائمہ سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ آج بھی جب مجھے وہ وقت یاد آتا ہے تو بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے۔
اے اللہ! سب کی حفاظت فرما۔
آمین، ثم آمین۔

(ختم شد)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں