ایک مظلوم خاندان کی کہانی جو شیطان کے چنگل میں پھنس گیا تھا، خاص تحریر۔۔ قسط نمبر14

اس کا حیران ہونا بجا تھا کہاں تو میں اسی کی قربت کے لئے بے چین رہا کرتا اور آج خود ہی اجتناب برت رہا تھا۔
’’جو ہو چکا وہی کافی ہے۔‘‘ میں نے بیزاری سے کہا۔
’’موہ۔۔۔‘‘ وہ شاید موہن کہنے جا رہی تھی لیکن میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’یہ آج تم کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہے ہو؟ کیا تم اپنی داسی سے اتنے ناراج ہو؟ میں جانتی ہوں کالی داس اور بسنتی نے بہت انیائے کیا ہے پرنتو میں تمہیں اس کا کارن بتا چلی ہوں کہ اس سمے کیوں نہ آپائی۔ بسنتی نے میرے سنگ و شواس گھات کیا ہے ۔یدی مجھے کھبر ہوتی کہ وہ کلٹا من میں کیا ٹھانے بیٹھی ہے تو میں جاپ چھوڑ کر آجاتی۔ پرنتو۔۔۔‘‘اتنا کہہ وہ سوچ میں کھو گئی۔

جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’موہن! جب کوئی داسی اپنے دیوتاؤں کے چرنوں میں جاتی ہے تو اسے سنسار سے واسطہ توڑنا پڑتا ہے یدی وہ ایسا نہ کرے تو دیوتاؤں کے شراپ سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پھر بھی مجھے کھبر ہو جاتی تو میں ترنت تمری سہائتا کرنے پہنچ جاتی‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس سے خفا ہوں۔


’’یہ سب فضول باتیں ہیں میں ایسی خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ جہاں تک تعلق ہے بسنتی کے دھوکے کا۔۔۔تو تم خود ہی اسے میرا نگہبان مقرر کر گئی تھیں۔ تمہیں کیا پتا اس بدبخت کی وجہ سے میں کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا؟ اگر کالی داس میری مدد نہ کرتا تو آج شاید میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘
’’بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو۔‘‘ وہ تڑپ کر بولی۔
’’مجھے جانکاری مل گئی تھی تم کشٹ بھوگ رہے ہو۔ پرنتو کالی داس نے مجھے پراپت کرنے کے کارن یہ سارا سوانگ رچایا تھا۔ اس نے کھد ہی سب کچھ کیا پھر تمرا متر بننے کے کارن تمری سہائتا کی۔ میں سب جانتی ہوں پرنتو اس سمے میں جاپ چھوڑ کر آتی تو دیوتا میری شکتی چھین لیتے اور وہ دھشٹ کالی داس ایسے ہی کسی اوسرکی تاک میں تھا، اسی کارن میں نے جاپ نہ چھوڑا‘‘ میرے چہرے پر بیزاری کی کیفیت دیکھ کر وہ بولی۔
’’یدی تمہیں وشواس نہیں تو یہ بتاؤ جو منش تمری پھوٹو (تصویر) بنانے آیا تھا وہ ایسا کیے بنا کیوں چلا گیا؟ میں کھد تو نہ آسکی پرنتو اپنی شکتی کے جور سے میں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یدی کالی داس تمری سہائتا نہ کرتا تو میں اپنی شکتی سے سب کچھ ٹھیک کر لیتی‘‘ اس نے مجھے یقین دلانے کے لیے دلائل دینا شروع کر دیے۔
’’میں تمہاری کسی بات سے انکار نہیں کرتا لیکن اب میں ان سب باتوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم لوگوں کے آپس کے جھگڑوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ کالی داس تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ یہ بات تم نے ہی مجھے بتائی تھی۔ اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو وہ بدبخت بھی مجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھے گا۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ تم اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاؤ اور مجھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہنے دو‘‘
حسین آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔


’’یدی مجھے وشواس ہوتا وہ دھشٹ میرے جانے سے تمرا پیچھا چھوڑ دے گا تو میں تمرے پریم کی کھاطر یہ بھی کر لیتی پرنتو میں جانتی ہوں وہ پاپی تمہیں سکھی نہ رہنے دے گا۔ اسی کارن میرا تمرے سنگ رہنا جروری ہے‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔ میرے رویے سے وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔
’’جب تم چلی جاؤ گی تب میرا پیچھا کیوں کرے گا؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔
’’اس پاپی نے یہ سب کچھ اس کارن کیا تھاکہ تمہرے من میں استھان بنا کر مجھے پراپت کر سکے پرنتو تم نے اس کی بات نہ مان کر اسے بہت دکھ دیا ہے۔ اس نے کالی کے مندرمیں سوگندکھائی ہے کہ جب تک وہ تمرا بلیدان کالی کے چرنوں میں نہ کرے گا شانتی سے نہ بیٹھے گا۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’یہ کونسی نئی بات ہے وہ تو کب سے اس بات کی آس لگائے بیٹھا ہے لیکن زندگی دینا اور لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔وہ شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ رہی بات دیوی دیوتاؤں کی تو میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں ان خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ میں نے بڑے ٹھوس لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزر گئی۔


’’میں تم سے دھرم پر کوئی بات نہ کروں گی؟ میرا وشواس کرو میں کیول تم سے پریم کرتی ہوں تم ہی میرا سب کچھ ہو۔ میرے مندر بھی تم اور دیوتا بھی تم‘‘ اس نے بڑے میٹھے لہجے میں کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ واقعی مجھ سے پیار کرتی تھی میری ذرا سی تکلیف پر وہ بے چین ہو جایا کرتی۔ میری خاطر اس نے کالی داس کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’اگر رادھا کی مدد سے اس منحوس ڈھانچے کو قبر میں اتار جا سکتا ہے تو مجھے سمجھداری سے کام لینا چاہئے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ میں نہیں جانتا یہ خیال خود ہی میرے دل میں آیا تھا یا رادھا کی پراسرار قوت کا کرشمہ تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب مجھے خیال آتا ہے کہ شاید دوسری بات صحیح ہو لیکن اس وقت یہ سوچ کرمیں نے اپنا رویہ کچھ نرم کرلیا۔
’’لیکن میں تمہاری وجہ سے کیسی مصیبت میں مبتلا ہوگیا تھا تمہیں کچھ پتا بھی ہے؟‘‘
’’اس سمے میں تم سے شما مانگنے آئی تھی پرنتو تم تو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ بڑی اداس اور ملول دکھائی دے رہی تھی۔ کافی دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
’’موہن! تم مجھ سے ناراج ہو اس بات کا دکھ نہیں۔ جو پریم کرتے ہیں وہ ایک دوجے پر ادھیکا رکھتے، کیول میری ایک بنتی سوئکار کر لو‘‘ اسکے لہجے میں التجا تھی۔


’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’تھوڑا سا سمے نکال میرے سنگ ایک استھان پر جانا ہوگا‘‘ میری آنکھوں میں شک دیکھ کر وہ جلدی سے بولی’’مانتی ہوں تمہیں مجھ پرواش نہیں رہا۔ پرنتو تمہیں میری اور سے کوئی دکھ پہنچے یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’لیکن کس لئے اورکہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی۔ کل میں اسی سمے آؤں گی‘‘ وہ میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے جب بھی میں کوئی بات سوچتا وہ مجھے بتا دیتی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں بلکہ سپنا کے معاملے میں تو میں بذریعہ سوچ اس سے باتیں بھی کرتا رہا تھا لیکن آج وہ مجھے صرف ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میرے دل کا حال اس پر ظاہر نہ ہو۔
’’یدی تمہیں مجھ پر اتنا بھی وشواس نہیں رہا تو میں نہیں کہتی‘‘ وہ آبدیدہ ہوگئی۔
’’ایسی بات نہیں رادھا! میں تمہارے ساتھ ضرور جاؤں گا بس یہ بتا دو کہاں جانا ہے اور وہاں کتنا وقت لگے گا تاکہ میں اسی حساب سے چلوں‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’کل اسی سمے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کتنا سمے لگے گا یہ تو میں بھی نہیں جانتی پرنتو جس کارن میں تمہیں لے جا رہی ہوں وہ سب دیکھ کر تمرا من جرور پرسن ہوگا‘‘ اس نے مبہم سے بات کہی۔
’’ٹھیک ہے کل تم آجانا، اس کے احسانات بہرحال مجھے پرتھے مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔
’’جب تم تیار ہو جاؤ تو مجھے آواج دے دینا میں آجاؤں گی‘‘ وہ خوش ہوگئی۔ ’’اچھا اب میں جاتی ہوں کچھ پربند کرنا ہے۔‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ دوسرے دن بچوں کو سکول چھوڑ کر میں اسی سنسان راستے پر پہنچا تو میں نے رادھا کو آواز دی۔ دوسرے ہی لمحے وہ میری ساتھ والی سیٹ پر ظاہر ہوگئی۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی میٹھی مسکان تھی۔
’’کیسے ہو پریم؟‘‘ اس نے میری جانب دیکھا۔
’’تمہارے سامنے ہوں ‘‘ اس کی راہنمائی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ جگہ دیکھی بھالی سی لگ رہی تھی غور کرنے پر میں ے پہچان لیا۔ یہ وہی گاؤں تھا جس کے قریب میری گاڑی خراب ہوئی تھی اور میں ایک شخص کی مدد سے کسی مکینک کی تلاش میں کالی داس کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ آج بھی اس اذیت کو محسوس کرکے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر ملنگ اپنے لعاب سے میرا علاج نہ کرتا تو نہ جانے میرا کیا حال ہوتا؟‘‘


’’اس استھان کو جانتے ہو؟‘‘ میں اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ رادھا کی آواز سن کر چونک گیا۔
’’اس جگہ کو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘ مجھے جھرجھری سی آگئی۔ آج بھی گاؤں میں کوئی متنفس دکھائی نہ دے رہا تھا۔ انسان تو کجا ایک جانور بھی نہ تھا۔ عجیب سی وحشت ہر سو برس رہی تھی۔
’’کیا یہاں کوئی نہیں رہتا؟ اس دن بھی میں نے کسی انسان کی صورت نہ دیکھی جب کالی داس مجھے گھیر کر لایا تھا۔ آج بھی صورت حال ویسی ہی ہے‘‘ میں نے حیرت سے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’ تھوڑا سمے اور انتجار کر لو‘‘ رادھا مسکرا کر بولی۔ رادھا کے کہنے پر میں نے اسی مکان کے سامنے گاڑی روک لی۔ وہ یکدم میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میں نے گاڑی سے نیچے اتر کر اسے لاک کیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
’’اندر آجاؤ پریتم!‘‘ رادھا دروازہ کھولے کھڑی تھی۔ میں اس کے پیچھے اندر داخل ہوگیا۔ ہر شے اسی طرح پڑی تھی۔ سامنے وہی کچا کمرہ تھا جہاں مجھے کالی داس نے بے پناہ اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں خاموش سے رادھا کے پیچھے چلتا کمرے میں داخل ہوگیا۔ دن کے اجالے کے باوجود کمرے میں تاریکی تھی۔ دھوپ سے آنے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں کچھ دیر دروازے میں کھڑا آنکھوں کو اندھیرے سے ہم آہنگ کرتا رہا۔ رادھا نے اپنا خوبصورت ہاتھ ہلایا اس کے ساتھ ہی کمرے میں روشنی پھیل گئی جو چاروں طرف سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ کمرے کا ماحول آج بھی ویسا ہی تھا۔ رادھا بڑی تمکنت سے چلتی کمرے میں بچھی واحد چارپائی پر بیٹھ گئی۔
’’یہاں آجاؤ میرے پاس‘‘ اس نے کہا۔ تنہائی میں اس کا قرب مجھے پاگل بنا رہا تھا۔ میں نے بمشکل اس کے سراپے سے نظریں ہٹا کر کمرے کا جائزہ لیا۔
’’پریم۔۔۔‘‘ اس نے بانہیں وا کر دیں۔
’’آؤ میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ آنکھوں میں پیار کی جوت لیے وہ میری منتظر تھی۔
’’رادھا! میں تم سے کہہ چکا ہوں ہمارے مذہب میں غیر محرم مرد عورت کا تعلق حرام ہے۔ اگر تم س مقصد کے لیے مجھے لائی ہو تو میں واپس جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے بمشکل دل پر جبر کرکے کہا۔ میرے انکار پر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ کچھ دیر وہ غصے کی کیفیت میں مجھے دیکھتی رہی پھر ٹھنڈی سانس اس کے منہ سے خارج ہوگئی۔
’’یدی !کوئی دوجا رادھا کی آگیا کا پالن کرنے سے منع کرتا تو رادھا کا شراپ اسے نشٹ کر دیتا۔ پرنتو رادھا اپنے پریمی کو کشٹ نہیں دے سکتی‘‘ اس کا لہجہ شکست خوردہ ہوگیا۔ میرے انکار نے اسے دکھی کر دیا تھا۔ میں جانتا تھا وہ ہر بات برداشت کر سکتی ہے میری بے اعتنائی نہیں لیکن توبہ کرنے کے بعد ان خرافات سے بچنا چاہتا تھا۔
ہم دونوں میں اپنی سوچوں میں گم تھے کہ باہر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ آنے والا ایک نہایت خوبرو نوجوان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی بہت وجاہت عطا فرمائی ہے لیکن وہ جوان بھی کچھ کم نہ تھا۔ اسنے آتے ہی پہلے رادھا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے پھر میری طرف مڑا۔
’’پرنام مہاراج‘‘ اس نے گھمبیر آواز میں کہا۔ مجھے اور توکچھ نہ سوجھا بس سر ہلا کر اسکے سلام کا جواب دے دیا۔
’’یہ پرتاب ہے جیسے میں تمرے بن بیاکل رہتی ہوں ایسے ہی پرتاب بھی میرے نام کی مالا جپتا رہتا ہے‘‘ رادھا نے مسکرا کر کہا۔
میں نے حیرت سے دیکھا نوجوان کی بڑی بڑی سحر انگیز آنکھوں میں اداسی تھی۔ رادھا کی بات سن کر اس کا سرجھک گیا۔ مجھے حیرت ہوئی رادھا نے پہلے اس کا ذکر کبھی نہ کیا تھا۔ وہ رادھا کے سامنے اس طرح ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا جیسے غلام ملکہ کے سامنے۔ بسنتی بھی رادھا کی تابعدار تھی لیکن اس نے کالی داس کے ساتھ مل کر اسے دھوکہ دیا تھا۔ اگر وہ میری حوصلہ افزائی نہ کرتی تو شاید میں اتنا آگے نہ بڑھتا۔ ہر چند کہ قصوروار میں بھی تھا لیکن بسنتی کی نیت میں شروع دن سے فتور تھا۔ بقول اس کے وہ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار ہوگئی تھی۔ رادھا غور سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔
’’کس و چار میں گم ہو پریمی!‘‘ اس نے بڑے پیار سے پوچھا ۔ نوجوان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ماتھے پر پڑنے والے بل اس کی ناگواری کو ظاہر کر رہے تھے۔ جاپ پر جانے سے پہلے رادھا میرے دل کا حال جان لیتی تھی لیکن اب شاید وہ اس پر قادر نہ رہی تھی۔ اس لئے وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میں کیا سوچ رہا ہوںَ اس بات کو جانچنے کے لیے میں نے یونہی کہا۔
’’میں کالی داس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘‘
’’اس دھشٹ کے نشٹ ہونے میں بہت تھوڑا سمے رہ گیا ہے جس یدھ کی شروعات اس پاپی نے کی تھی میں اس کا انت کردوں گی۔‘‘ اس کا حسین چہرہ یک بیک قہر ناک ہوگیا۔ آنکھوں میں آگ کے الاؤ روشن ہوگئے۔ اس نے جوان کی طرف دیکھا
’’پرتاب ! جانتا ہے میں نے اس سمے تجھے کس کارن بلایا ہے؟‘‘
’’نہیں دیوی جی! پرنتو تم جو آگیا بھی ہو گی پرتاب اپنا جیون دان کرکے بھی اس کا پالن کرے گا۔‘‘ اس کے لہجے میں رادھا کے لیے پیار کا سمندر موجزن تھا۔
’’میں اسی پل بسنتی کو یہاں دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ اس نے حکم کے منتظر پرتاب سے کہا۔
’’جو آگیا دیوی جی‘‘ اس نے سر جھکایا اور غائب ہوگیا۔
’’یہ سب لوگ تمہیں دیوی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔
’’میں ان کی دیوی جو ہوں‘‘ اس نے سادہ لہجے میں کہا۔
’’میرے کہنے کا مطلب ہے کیا وہ تمہارے غلام ہیں؟‘‘
’’سنسار کے سارے منش رادھا کے داس ہیں اور رادھا تمری داسی‘‘ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں نشہ چھا گیا۔ خود میرے دل کی حالت بھی عجیب ہو رہی تھی۔ ساتھ بیتے لمحات کے تصور نے خون کی گردش بڑھا دی۔ اس کی سحر کار آنکھوں سے بمشکل اپنا دھیان ہٹا کر میں نے دوسری طرف دیکھا۔ رادھا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں تو تمہیں ایسے ہی دیکھا کرتی ہوں کوئی نئی بات ہے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر میرے قریب آگئی۔ دل کی دھڑکن اسی کا نام جپنے لگی۔ ایمان ڈونوا ڈول ہونے لگا۔ بے اختیار میرا دل چاہا اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لوں۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر آکر بانہیں پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔ قریب تھا کہ میں اس کی جانب کھچتا چلا جاتا کہ پرتاب ظاہر ہوگیا۔ اس کے چہرے پر ندامت تھی۔
’’بسنتی کہاں ہے؟‘‘ رادھا نے کڑی نظروں سے پرتاب کو گھورا۔
’’دیوی اس کی رکھشا کالی داس کر رہا ہے‘‘ پرتاب نے جھجکھتے ہوئے بتایا۔
’’کیا میں یہ سمجھوں تیرے پریم میں کھوٹ ہے؟‘‘ رادھا کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔
’’ی۔۔۔یہ۔۔۔بات نہیں دیوی!‘‘ پرتاب بری طرح گڑ بڑا گیا۔
’’میں نے اسے لانے کی اوشکتا کی تو کالی داس کے بیر میرے آڑے آگئے ۔مجھے تھوڑا سمے دو میں اسے اوش یہاں کھینچ لاؤں گا‘‘ اس نے بڑے یقین سے کہا۔
’’ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔پرنتو دھیان رہے یہ تیری پریکشا(آزمائش) ہے یدی تو اس میں سپھل نہ ہوا تو من میں میرے پریم کا دھیان بھی نہ لانا‘‘ اس کی بے اعتنائی سے پرتاب کا چہرہ دھلے ہوئے لٹھے کی طرح سفید ہوگیا۔
’’دیوی! ایسا انیائے نہ کر ، نہیں تو تیرا یہ داس جیوت نہ رہے گا‘‘ پرتاب تڑپ کر بولا۔
’’میں کچھ نہیں جانتی مجھے کیول بسنتی چاہئے ابھی‘‘ رادھا نے بڑی بے مروتی سے کہا۔
’’جو آگیا دیوی‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور دوبارہ غائب ہوگیا۔ اس کے آنے سے ایک فائدہ ہوا تھا کہ رادھا پر جو محبت کا بھوت سوار ہوا تھا وہ اتر گیا۔ اس کا موڈ بگڑ چکا تھا۔ دوبارہ چارپائی پر بیٹھ کر وہ سوچوں میں گم ہوگئی۔
تقریباً دس منٹ ہم دونوں اسی حالت میں بیٹھے رہے۔ رادھا نے دوبارہ میری طرف بڑھنے کی کوشش نہ کی تھی۔ خود سے کیا عہد بچ جانے پر میں نے شکر ادا کیا۔ رادھا پرتاب کی ناکامی پر بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور پرتاب بسنتی کو کاندھے پرلادے لے آیا۔ اس کے چہرے اور جسم پر لگے زخموں کے نشانات سے لگ رہا تھا وہ کسی درندے سے نبرد آزما رہا ہے۔ کاندھے پر لدی بے ہوش بسنتی کو اس نے کسی بوری کی طرح کچی زمین پر پھینک دیا۔
وہ فتنہ گر ایک بار پھر میرے سامنے تھی۔ ساتھ بتائے پل میری آنکھوں میں لہرا گئے۔ آج تک میرا جتنی لڑکیوں سے تعلق رہا تھا۔ رادھا سمیت بسنتی ان سب پر سبقت لے گئی تھی۔ رادھا کا چہرہ چمکنے لگا۔ اس نے پرتاب کے زخموں پر سرسری نظر ڈالی۔
’’ٹھیک ہے پرتاب! تم جا کر سرسوتی دیوی کا وہ جاپ کر لو جو میں نے تمہیں بتایا تھا اور ہاں’’پرولنگی‘‘ بوٹی کا جل پی لینا‘‘ اس نے کسی بوٹی کا نام لیا۔ پرتاب کی آنکھوں کی اداسی بڑھ گئی ۔وہ شاید رادھا کی نظر التفات کی توقع کر رہا تھا۔ مجھے اس پر ترس بھی آیا لیکن اس وقت تو خود میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اگر بسنتی رادھا کو سب کچھ بتا دیتی تو شاید وہ مجھے بھی سزا دیئے بغیر نہ رہتی۔ ہر چند کہ اسے مجھ سے عشق تھا پر کیا پتا اس جن زادی کا موڈ کب بدل جاتا؟ پرتاب بوجھل قدموں سے باہر نکل گیا۔

رادھا کے ہونٹ متحرک ہوگئے اس نے کچھ پڑھ کر بسنتی پر پھونک دیا۔ اس کے جسم نے حرکت کی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو وہ حیران سی چاروں طرف دیکھتی رہی جیسے اس کی نظر رادھا پر پڑی ،اس کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ رادھا کی آنکھوں میں فتح کا نشہ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ، دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں پر رکھے بسنتی کے سر پر کھڑی تھی ۔ جیسے ہی بسنتی کی نگاہ اس پر پڑی وہ بری طرح گڑ بڑا گئی۔
’’دو ۔۔۔دی۔۔۔دیوی جی تم؟‘‘ اس کے ہونٹ لرز کر رہ گئے۔
’’ہاں میں۔۔۔تمری سکھی‘‘ رادھا زہر خند سے بولی۔’’شما چاہتی ہوں تمرا سواگت ٹھیک طرح نہ کر سکی‘‘ وہ مسلسل طنز کے تیر برسا رہی تھی۔
’’دیوی جی! شما کر دو مجھ سے بھول ہوگئی۔ میں اس منش کو دیکھ کر سب کچھ بھول گئی تھی۔ بھگوان کے لیے مجھے شما کر دو‘‘ بسنتی نے اچانک آگے بڑھ کر رادھا کے پاؤں پکڑ لئے۔ وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔

’’چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔۔۔کالی داس جیسے مہان گرو کی چیلی ہو کر بھی تو مجھ سے شما مانگ رہی ہے اٹھ۔۔۔مجھ کشٹ دے۔۔۔میں نے تجھ سے تیرا پریمی چھین لیا ہے کیا تو مجھے یونہی چھوڑ دیگی؟‘‘ رادھا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ اس کا ایک ایک لفظ زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ بسنتی نے بے بسی سے مجھے دیکھا۔
’’رادھا دیوی! تجھے تیری پریمی کی سوگند مجھے شما کر دے‘‘ اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر التجا کی۔
’’مہاراج! مجھے رادھا دیوی کے شراپ سے بچا لو مجھ سے بھول ہوگئی میں وچن دیتی ہوں پھر کبھی تمری اور نجرا اٹھا کر نہ دیکھوں گی۔‘‘
’’پاپن! ‘‘ رادھا غضبناک ہو کر دھاڑی۔ اس کے آواز کی گھن گرج آج بھی مجھے یاد ہے۔
’’تجھے شما کر دوں۔۔۔؟ تو نے میری بیری، کالی داس کے کہے پر میرے سنگ وشواس گھات کیا۔ جانتی ہے تیرے کارن میں نے کتنا کٹھن سمے بتایا ہے؟ تو نہیں جانتی تھی۔ رادھا کے پریمی کو چھو کر تو کتنا بڑا پاپ کر رہی ہے؟ بلا اپنے گرو کو وہ تجھے اس سمے میرے شراپ سے بچائے‘‘ اس کی غضبانک آواز آئی۔ سچ پوچھیں تو میں بھیا س وقت خوفزدہ ہوگیا تھا۔ کالی داس اور کھیدو چوہڑے کا حشر مجھے یاد تھا۔ رادھا اس وقت سخت غصے میں تھی۔ کالی داس تو اس کے ہاتھ نہ آیا تھا۔ سارا قہر اب بسنتی پر نکلنے والا تھا جو مسلسل رادھا سے گڑ گڑا کر معافیاں مانگ رہی تھی۔ اس کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ رادھا کے پاؤں پکڑے وہ منتیں کر رہی تھی۔ یک بیک رادھا کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئیں۔ بسنتی جو رادھا کی طرف فریادی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کانپ گئی۔
’’دو۔۔۔دیو۔۔۔دیوی! مجھے شما کر دے۔ دیوی! تجھے بھگوان کی سوگند اپنی داسی کو شما کر دے۔ مجھ ابھاگن پر دیا کر دیوی میں تجھ سے جیون بھکشا مانگتی ہوں۔ تیرا یہ اپکار میں جیون بھر نہ بھلا پاؤں گی سدا تیری آگیا کا پالن کروں گی۔‘‘ روتے ہوئے وہ فریاد کر رہی تھی۔
غیض و غضب میں بھری رادھا پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ اچانک چھت سے گاڑھا گاڑھا بدبو دار مادہ نکل کر بسنتی پر گرا۔ اس کی کربناک چیخ فضا کو مرتعش کرگئی۔ نالی سے نکلنے والے گارے جیسا وہ مواد جس میں سے آگ کی چنگاریاں نکل رہی تھیں نے بسنتی کو ڈھک دیا۔ اس کی کربناک چیخیں کمرے کے درو دیوار ہلا رہی تھی۔ وہ کیچڑ نما مواد میں لت پت ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ خوف سے میری ٹانگیں لرزنے لگیں۔ کافی دیر گزر گئی۔ رادھا کے غیض و غضب میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ قہر بار نظروں سے بسنتی کودیکھ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی چیخیں مدہم پڑنے لگیں۔ رادھا نے دوبارہ چھت کی طرف دیکھا اس بار چھت سے صاف شفاف پانی کسی آبشار کی طرح بسنتی کے اوپر گرنے لگا جس نے اسے اچھی طرح دھو دیا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔کیا یہ وہی بسنتی تھی؟ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ گنجے سر کی کالی سیاہ عورت زمین پر پڑی تھی۔ اس کا حال دیکھ کر میں لرز گیا۔ حسین و جوان بسنتی کی جگہ ایک مکروہ صورت بڑھیا نظر آرہی تھی۔ گلاب کے پھول سے زیادہ شگفتہ چہرہ، جھریوں بھرے سیاہ چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ کھال لٹک کر بدوضع ہوگئی تھی۔ سیاہ رنگت پر بڑی بڑی سفید آنکھیں عجیب خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہونٹ غائب ہونے سے دانت جھانکنے لگے تھے۔ ناک کی صرف ہڈی رہ گئی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ لباس جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ ایک نہایت بدوٖضع اور بدصورت بوڑھی عورت اس کی جگہ لے چکی تھی۔ میں زیادہ دیر تک یہ خوفناک منظر نہ دیکھ سکا اور منہ پھیر لیا۔
’’چمارو‘‘ رادھا نے کسی نادیدہ وجود کو پکارا۔
’’جی دیوی جی!‘‘ ایک کھرکھراتی ہوئی مردانہ آواز آئی۔
’’بسنتی کو اسی شریر میں رہنا ہے۔ دھیان رہے یہ کلٹا اس شریر کو چھوڑنے نہ پائے۔‘‘ رادھا نے نفرت بھری نظر بسنتی پر ڈال کر کسی نادیدہ وجود کو حکم دیا۔
’’اوش تمری آگیا کا پالن ہوگا دیوی!‘‘ وہی آواز دوبارہ آئی۔ بسنتی کے منہ سے دبی دبی کراہیں نکل رہی تھیں۔
’’اپنی سندرتا پر بڑا مان تھا نا تجھے۔۔۔؟ اسی کارن تو نے میرے پریمی کی اور دیکھا تھا۔ میں نے تیری اس سندرتاکو رہنے ہی نہ دیا۔ اب دیکھتی ہوں کون تجھ سے پریم کرتاہے؟‘‘ رادھا زہریلے لہجے میں بولی۔
’’جا اپنے گرو سے کہہ وہ تیری سندرتا لوٹا دے جس کی سہائتا کرتے سمے تو رادھا کی شکتی کو بھول گئی تھی۔‘‘ بسنتی اپنے بدوضع وجود کو گھسیٹتی باہر نکل گئی۔ میرا دل زور زورسے دھڑک رہا تھا۔ گھبرائی ہوئی نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا جس کا چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ آنکھیں بند کیے لمبے لمبے سانس لیتی رہی پھر تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’پریم۔۔۔!چلو چلیں‘‘ میں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے چل پڑا ،سچ پوچھیں تو میں ڈر گیا تھا۔ کیا پتا اس جن زادی کا موڈ بدل جاتا اور میں مارا جاتا۔ باہر نکل کر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ رادھا نے چپ سادھ رکھی تھی۔ میں بھی اس کے موڈ کے پیش نظر خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
’’پریم! دوشی تم بھی تھے پرنتو میرا من نہیں کرتا کہ میں تمہیں کوئی کشٹ دوں، کیول اتنا یاد رکھنا رادھا تم سے ادھیک پریم کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میں سکول کے پاس پہنچ چکاتھا۔ چھٹی ہونے میں تھوڑا وقت باقی تھا میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ رادھا کی بات کا مطلب میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے معاف کر دیا تھا۔ ایک بار پھر میں انہی چکروں میں پھنسنے جا رہا تھاجن سے پیچھا چھڑانے کا خواہش مند تھا۔ اگر تھوڑی دیر اور پرتاب نامی نوجوان نہ آتا تو شایدمیں ایک بار پھر پھسل جاتا۔ کیا میں ساری زندگی ان پراسرار قوتوں کے حامل انسانوں اور جنات میں گھرا رہوں گا؟ میرے ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔ محمد شریف نے مجبوری ظاہر کی تھی کہ اب وہ میری مدد نہیں کر سکتا۔ میرا ارادہ تھا کہ صائمہ سے اس سلسلے میں مشورہ کروں۔ لیکن اس کے لیے اسے سب کچھ بتانا پڑتا جبکہ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کسی طور پر گوارا نہ کرتی کہ میرا تعلق کسی اور سے ہو۔ بڑی مشکل سے اس کا ذہن صاف ہوا تھا۔ رادھا کے سلسلے میں وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا دوبارہ وہ پریشان ہو۔
’’کیا کیا جائے؟‘‘ رادھا کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا میری مجبوری سہی لیکن میرا دل ان خرافات سے اچاٹ ہو چاک تھا۔ شیطان کے جال بہت حسین ہوتے ہیں۔ انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کی خاطر وہ ہر داؤ آزماتا ہے۔ بار بار رادھا کے سامنے آنے سے میرا ایمان متزلزل ہوسکتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ اپنی دنیا میں لوٹ جائے لیکن وہ کسی طور اس بات پر آمادہ نہ تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کی بات ماننے پر مجبور تھا۔ بچوں کو سکول سے لے کرگھر پہنچا۔
ہارن دیا تو گیٹ فوراً ہی کھل گیا۔ مجھے حیرت تو ہوئی پھر میں نے سوچا چونکہ چھٹی کا وقت تھا اسلئے صائمہ گیٹ کے پاس ہی انتظار کررہی ہوگی۔ میں گاڑی سے نیچے اترا تو آنکھوں میں حیرت لیے وہ میرے پاس آگئی۔
’’آپ ملتان نہیں گئے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ملتان۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ اب حیران ہونے کی باری میری تھی‘‘ تم سے کس نے کہا میں نے ملتان جانا ہے؟‘‘
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ ہی نے تو کہا تھا‘‘ اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
’’ابھی کب؟ میں تو صبح سے کہیں گیا ہوا تھاآج بینک سے بھی چھٹی لی تھی۔‘‘
’’وہ تو آپ نے صبح بتایا تھا جب آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو کہا نہیں تھا کہ میں کسی کام کے سلسلے میں ملتان جا رہا ہوں‘‘ وہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا کہیں وہ مذاق تونہیں کر رہی لیکن وہ بالکل سنجیدہ تھی۔
’’فاروق! کیا بات ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ہم ابھی تک گیراج میں ہی کھڑے تھے بات میری سمجھ سے باہر تھی میں بچوں کو سکول چھوڑ کر رادھا کے ساتھ چلا گیا تھا۔ ابھی تو میرا ذہن بسنتی کا حشر دیکھ کر الجھا ہوا تھا کہ یہ نئی الجھن سامنے آگئی۔
’’اچھا چھوڑیں اندر آئیں‘‘ صائمہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔ لیکن اس کے چہرے پر فکر کے سائے منڈلا رہے تھے۔ میں خود بھی حیران تھا یہ کیا معاملہ ہے؟ کھانا کھانے کے بعد بچے سو گئے تو میں نے صائمہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے۔
’’اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’جب آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو۔۔۔تو آ۔۔۔آپ۔‘‘
’’بتاتی کیوں نہیں میں نے کیا کہا تھا؟‘‘ خون کی گردش میری رگوں میں تیز ہوگئی چہرہ تپ گیا۔ وہ کون تھا جو میری شکل بناکر صائمہ کے ساتھ۔۔۔؟ وہ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گئی۔
’’فاروق کیا ہوا؟ آپ کیوں پریشان ہوگئے؟‘‘
’’پہلے یہ بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے جھنجھلا گیا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگی۔
’’آپ مجھے حق زوجیت ادا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے جس پرمیں نے کہا میں مخصوص ایام میں ہوں لیکن شاید آپ بہت بے تاب تھے کہنے کوئی بات نہیں۔ مجھے حیرت تو بہت ہوئی لیکن میں نے آپ کو سمجھایا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ اسوقت بھی آپ اسی طرح جھنجھلا گئے تھے اور بار بار مجھ سے اصرار کر رہے تھے کہ میں اپنی خوشی سے اجازت دے دوں لیکن۔۔۔‘‘
’’یہ بتاؤ میں نے تمہیں چھوا تھا میرا مطلب ہے میں نے تمہیں ہاتھ لگایا تھا؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’نہیں اسی بات پر تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ جب میں آپ کے پاس آکر بیٹھنے لگی تو آپ کہنے لگے نہیں ابھی مجھے مت چھونا جب تک تم منہ سے یہ نہ کہہ دو کہ میں تمہیں اجازت دیتی ہوں‘‘ اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔
’’فاروق! یہ۔۔۔یہ سب کیا ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں آپ اس کے بعد واپس گھر آئے ہی نہیں تو پھر۔۔۔؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’دراصل بیماری کی وجہ سے میری یادداشت کچھ کمزور ہوگئی ہے مجھے کچھ یاد نہیں رہتا ۔وہ مطمئن تو نہ ہوئی ہاں اس سلسلے میں مزید کچھ نہ پوچھا۔ میں بری طرح الجھ گیا تھا۔ میں تو صبح سے رادھا کے ساتھ تھا پھر وہ کون تھا جو میری شکل میں صائمہ کے پاس آیا۔۔

خون میری رگوں میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ سوچ سوچ کر دماغ شل ہوگیا۔ اچانک مجھے خیال آیا
’’کیوں نہ رادھا سے اس مسئلے پر بات کی جائے‘‘ لیکن صائمہ کے ہوتے ہوئے اس سے ملنا ممکن نہ تھا۔ اور صائمہ کو تنہا چھوڑکرباہر جانا بھی نہ چاہتا تھا کیا خبر وہ حرامزادہ پھر آجاتا۔
’’کالی داس‘‘ میرے ذہن میں بجلی سے چمکی۔ ہو سکتا ہے وہ بدبخت اپنا بدلہ لینے کے یے میرا ہمشکل بن کر آگیا ہو،صائمہ کے سونے کے بعد ضرور رادھا کو بلاؤں گا وہی اس گتھی کو سلجھا سکتی ہے۔‘‘ یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔
’’فاروق ! ما شااللہ آپ خود بھی بہت کچھ جانتے ہیں پھر کیوں معلوم نہیں کر لیتے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد صائمہ نے آکر کہا۔
’’تم فکر نہ کرو میں آج رات وظیفہ کروں گا‘‘ میں نے اسے تسلی دی اس کے بعد میں گھر پر ہی رہا۔ رات کو تقریبا بارہ بجے جب میں نے دیکھا صائمہ سو گئی ہے تو دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر باہر آگیا۔ دن کی تپش کے بعد رات خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے لان میں آکر آہستہ سے رادھا کو پکارا۔

’’میں یہاں ہوں پریم‘‘میرے پیچھے سے اس کی سریلی آواز سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ آج رادھا نے بالکل بسنتی کی طرح پھولوں کا زیور پہن رکھاتھا۔ دراز گیسوؤں میں موتیا کے پھول گندھے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں بھی نہایت خوشنما اور خوشبودارپھولوں کے گجرے پہنے وہ ایسی پری دکھائی دے رہی تھی جو پرستان سے راستہ بھول کر ادھر آنکلی ہو۔چاندنی نے اس کے حسن میں اضافہ کر دیا تھا۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا گیا۔
’’پریم‘‘ اس کی جانی پہچانی خمار آلود سرگوشی فضا میں بکھر گئی۔ باد صباکی طرح چلتی وہ میرے قریب آگئی۔
’’کس کارن داسی کو یاد کیا ہے؟‘‘ حسین آنکھوں میں پیار کی جوت جل رہی تھی۔
’’کاش میں شاعر ہوتا تو تمہارے حسن میں کوئی قصیدہ لکھتا‘‘ مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگی۔
’’تم توکھد ایک کویتا ہو‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر بولی۔ سب وعدے و عید بھول گئے۔ میں ایک بار پھر بہکنے لگا تھا۔ میری بانہوں کا حلقہ اس کے گرد تنگ ہوگیا۔ میری پشت پر اسکی مخروطی انگلیاں گردش کرنے لگیں۔ دل کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہوگئیںَ سب سے بے نیاز ہم ایک دوسرے میں کھو گئے۔
’’پریم ! تم اتنے کھٹور نہ بنا کرو۔ تمری یہ داسی تمرے بن رہ نہیں پاتی۔ سنسار میں اب میرے واسطے تمرے بن کچھ نہیں۔ یدی تم اس بار مجھ دے دور ہوئے تو بھگوان کی سوگندکھا کر کہتی ہوں آتم ہتھیا کر لوں گی‘‘ وہ میرے سینے سے اپنا چہرہ رگڑکربولی۔ اسکی ادائیں بے تابیوں کا پتا دے رہی تھیں۔ بوجھل پلکیں اٹھا کر اسنے میری طرف دیکھا۔
’’پریم! آج میرے من کو جو شانتی ملی ہے میں تمہیں بتانہیں سکتی۔‘‘ وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔ میرا حوصلہ ختم ہوتا جارہاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے اصل موضوع کی طرف لاؤں لیکن وہ تھی کہ اپنی بیتابیوں کی داستان سنا رہی تھی۔
’’اونہوں۔۔۔‘‘ وہ کسی طور علیحدہ ہونے پر تیار نہ تھی۔
’’میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے‘‘ میں نے اسے ہاتھ سے پکڑکر گھاس پربٹھا لیا۔
’’پریم سے جیادہ جروری تو سنسار میں کچھ بھی نہیں‘‘ اس پر محبت کا بھوت سوار تھا۔ خودمیری حالت بھی غیر ہوتی جارہی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ٹھیک کہتی ہو لیکن اس وقت اس سے بھی زیادہ ضروری مسئلہ درپیش ہے‘‘ میں نے کہا۔
میرے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’کیا بات ہے پریم؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے ساری بات بتا دی۔ وہ حیرت سے سنتی رہی۔
’’مجھے لگتا ہے یہ شرارت کالی داس کی ہے‘‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’پرنتو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک منش کیسے دوجے منش کا روپ دھارن کر سکتا ہے؟ نہیں یہ کوئی اور ہے‘‘ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
’’میں نے تمہیں اسی لئے تکلیف دی ہے کہ تم پتا لگاؤ وہ حرامزدہ کون ہے؟‘‘
کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی پھر آنکھیں کھول کر کہنے لگی۔
’’یہ کوئی بڑی شکتی ہے۔ مجھے اس کارن جاپ کرنا ہوگا‘‘ اسکی بات سن کر میں دہل گیا۔ پچھلی بار بھی جب وہ جاپ کرنے گئی تھی مجھ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
’’کتنے دنوں کاجاپ کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’کیولایک دن سوریہ دیوتا کا جاپ کرناہوگا؟‘‘
’’پھرٹھیک ہے لیکن دھیان رکھنا پہلے کی طرح کہیں اس بار بھی تمہیں کوئی مجبوری آڑے آگئی تومیں غریب مفت میں مارا جاؤں گا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’پھر کیا ہوا اپنے متروں کو بلا لینا پہلے بھی تو انہوں نے تمری سہائتا کی تھی‘‘ اس نے بھی جوابی وار کیا میں خاموش ہوگیا۔
’’ناراج ہوگئے مہاراج؟‘‘ وہ شوخ ہوگئی۔
’’تم سچ کہتی ہو میری غلطی تھی جس پر میں نادم ہوں‘‘میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ارے تم توجراسی بات پر ناراج ہوجاتے ہو میں تویونہی تمہیں چھیڑ رہی تھی‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے مجھے اپنی گود میں گرا لیا حسین چہرہ میرے قریب آنے لگا۔ سانسوں کی تپش نے مجھے بے حال کر دیا۔ قریب تھا کہ میں بے خود ہوجاتا۔
’’صائمہ جاگ رہی ہے‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ اس نے ایک آہ بھر کر مجھے چھوڑ دیا۔
’’اچھا چلتی ہوں‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’ناراض ہوگئیں؟‘‘ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
’’نہیں پریتم تم سے ناراج ہونے کا وچار میں من میں لا ہی نہیں سکتی۔ نہ جانے تم نے کیا کر دیا ہے۔ ہرپل تمرا دھیان من کو بیاکل رکھتا ہے‘‘ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’تم یہ جاپ کر لو اس کے بعدہم ملیں گے‘‘ میں نے اس کا دل رکھنے کی خاطر کہا۔ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھتی رہی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک پرشن پوچھنا ہے پرنتو ڈرتی ہوں یدی تم نے اتر نہ دیا تو میرا مان ٹوٹ جائے گا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ایساکیا پوچھنا چاہتی ہو کہ تمہیں اس بات کا خوف ہے میں جواب نہیں دوں گا‘‘ اسکی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔
’’جاپ پرجانے سے پہلے میں تمرے من میں آئی ہر بات کوپڑھنے کی شکتی رکھتی تھی۔ پرنتوواپس آنے کے بعد ایسا کرنا میرے بس میں نہیں رہا ،اسکا کیا کارن ہے؟‘‘ وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
’’رادھا! میرا یقین کرو میں اس کی وجہ خود بھی نہیں جانتا؟‘‘ میں نے صاف گوئی سے کہا۔
’’ستیہ(سچ) کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’تمہارے سر کی قسم سچ کہہ رہا ہوں میں واقعی نہیں جانتا‘‘ میں نے اسے یقین دلایا۔
’’تم تو بہت طاقتور ہو،تم بھی نہیں جان سکتیں کہ یہ سب کس وجہ سے ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں نے اوشکتا کی تھی پرنتو کوئی اتر نہیں ملا‘‘اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
’’موہن! یدی اس بار کسی نے تمہیں مجھ سے جدا کرنے کی اوشکتا کی تو اسکا حال بسنتی سے برا بھی ہوگا‘‘ اسکے لہجے میں سختی تھی۔
’’اچھا پہلے تو تم میری مشکل حل کرو اسکے بعد دیکھتے ہیں یہ کس کی شرارت ہے؟‘‘ میں نے اس کا دھیان ہٹایا۔
’’چلتی ہوں۔۔۔کل میں اسی سمے آؤں گی تو تمرے پرشن کا اتر میرے پاس اوش ہوگا‘‘ اس نے بڑے یقین سے کہا۔
’’رادھا! میں اس مسئلے پر بہت پریشان ہوں اگر پتا نہ چل سکا توکیا ہوگا؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ارے ایسا کیوں کہہ رہے ہو کیا تمہیں رادھا کی شکتی پروشواس نہیں؟‘‘ اس نے میرے بالوں میں اپنی مخروطی انگلیاں پھنساکر پوچھا۔
’’اعتبارہے تو تمہیں اس مسئلے کے لیے بلایا ہے‘‘
’’تمری ہر سمسیا میری ہے نشچنٹ رہو۔۔۔اس سمسیا کا سمدھان اوش ہوگا‘‘اس نے مجھے تسلی دی اور کھڑی ہوگئی۔
’’اچھا پریتم! کل آؤں گی اسی سمے‘‘ اتنا کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ صائمہ نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ اس کا چہرہ غصے سے سرخ انگارہ بنا ہوا تھا۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔ چورکی داڑھی میں تنکا۔۔۔میں بری طرح بدحواس ہوگیا۔
’’کیا بات ہے صائمہ تم سوئی نہیں؟‘‘ میں نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’فاروق! کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ میں دنگ رہ گیا۔ اس انداز سے اس نے کبھی میرے ساتھ بات نہ کی تھی۔
’’صص۔۔۔صائمہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ میں آج رات وظیفہ کروں گا تاکہ پتا چل سکے وہ منحوس کون تھا‘‘ میں نے کہا۔ اس کی گھورتی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دوسری طرف منہ پھیر کر لیٹ گئی۔
’’کہیں صائمہ نے مجھے رادھا کے ساتھ دیکھ تو نہیں لیا؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں نے اس کے بازو پرآہستہ سے ہاتھ رکھا۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی رہی۔
’’صائمہ!‘‘ میں نے آہستہ سے پکارا۔ کوئی جواب نہ ملا۔
’’صائمہ! میں نے اسکا کندھا بلایا۔ اس نے کسمسا کرکروٹ بدلی اور آنکھیں کھول دیں۔ جیسے ابھی نیند سے جاگی ہو۔
’’آپ آگئے۔۔۔؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ اب اس کے چہرے پر غصے کا نام و نشان نہ تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’چائے بنا دوں؟‘‘ اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’نن۔۔۔نہیں چائے پی لی تو نیند اڑ جائے گی‘‘ میں نے کہا۔ حیرت مجھے اس بات پرتھی کہ یہ سب کیا ہے؟ کہیں صائمہ نیند میں تو نہ تھی؟ میرے ذہن میں خیال آیا۔
’’فاروق !کیا بات ہے، آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’کچھ پتا چلا وظیفے سے؟‘‘ وہ بیٹھ کر اپنے لمبے بالوں کو جوڑے کی صورت لپیٹنے لگی۔
’’وظیفہ تو کرلیا ہے امید ہے چوبیس گھنٹوں کے اندر پتا چل جائے گا‘‘ میں صائمہ کے رویے پر حیرت زدہ تھا۔ اسکی حالت بتا رہی تھی وہ میرے جگانے سے اٹھی ہے لیکن جب میں کمرے میں داخل ہوا تھا تو وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں غصے سے سرخ تھی۔ لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ معاملہ ہے؟ نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں اس لئے میرے کہنے پر وہ فوراً ہی سوگئی۔ دوسرے دن میں بچوں کو سکول چھوڑتا ہوا بینک پہنچ گیا۔ ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ عمران اندر آگیا۔ سلام دعا کے بعد وہ کہنے لگا۔
’’خان بھائی! وہ فائل مکمل ہوگئی جو آپ کل گھر لے گئے تھے؟‘‘ بینک سے واپس آتے ہوئے میں ایک نامکمل فائل گھر لے آیا تھا جو واپس لانا یاد نہ رہی۔
’’تم بیٹھو میں ابھی لے کر آتا ہوں دراصل آتے ہوئے مجھے یاد ہی نہ رہا‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ فائل بہت اہم تھی اس لئے اسے لانا ضروری تھا۔ میں نے گھر پہنچ کر ہارن دیا۔ صائمہ کی عادت تھی وہ دو تین منٹ میں گیٹ کھول دیا کرتی۔ لیکن پانچ منٹ گزرنے کے بعد بھی گیٹ نہ کھلا تو میں نے دوبارہ ہارن بجایا۔ اس بار بھی کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ تیسری بار زیادہ دیر تک ہارن بجاتا رہا۔اس بار بھی گیٹ نہ کھلا تو میں فکر مند ہوگیا۔ بیل بجانے پر بھی نتیجہ حسب سابق رہا۔ اب ایسا بھی نہ تھا کہ اتنی زور سے ہارن اور بیل کی آواز اسے سنائی نہ دی ہو۔میں نے گیٹ کے پاس جا کر اندر جھانکا مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دل میں طرح طرح کے خدشات جنم لینے لگے۔ زور سے گیٹ بجانے پر بھی صورت حال وہی رہی تو میری پریشانی بڑھ گئی۔ سبین والے واقعے کے بعد لوگوں نے مجھے بے قصور تو تسلیم کر لیا تھا پھر بھی پہلے والے تعلقات نہ رہ پائے تھے۔ صرف رسمی سلام دعا باقی رہ گئی تھی۔

دن کا وقت تھا ۔اکاّ دکاّ لوگ آجا رہے تھے، اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوں۔ میں ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ گیٹ کی چھوٹی کھڑی خود بخود کھل گئی۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا کاریڈور کراس کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا مجھے پر لگ جائیں اور میں اڑکر اندر پہنچ جاؤں، جیسے ہی میں بیڈ روم کے قریب پہنچا میرے قدم جیسے زمین نے جکڑ لئے۔ مجھے اپنی سماعت پریقین نہ آیا۔ بیڈ روم سے میری آواز آرہی تھی۔ جی ہاں میری آواز اندر سے آرہی تھی۔ ساتھ ہی صائمہ کی ہنسی کی مدہر جھنکار بھی۔ میں تیزی سے آگے بڑھا لیکن جلدی میں فون کی تار کو بھول گیا جو کاریڈور میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تارمیں نے کچھ دن قبل بڑھائی تھی کہ فون کو بیڈ روم تک لایا جا سکے۔ تار سے میرا پیر الجھا اور میں منہ کے بل جاگرا۔ ایک دھماکے سے میرا سر دیوار سے ٹکرایا اور ہر سو اندھیرا چھا گیا۔ پھر جگنو سا چمکا اور میرے کانوں مدہم مدہم آوازیں آنے لگیں۔ بمشکل میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا سفید اور آل پہنے ایک ڈاکٹر میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ سر بری طرح چکرا رہا تھا اور شدت کا درد تھا۔ آنکھیں کھلتے دیکھ کر ڈاکٹر نے کچھ کہا جسے میں پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ آہستہ آہستہ سے مجھے سب کچھ یاد آتا گیا۔

’’پین کلر انجکشن لگا دو‘‘ مجھے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ اس کے بعد بازو میں سوئی کی چبھن محسوس ہوئی اور میں ایک بار پھر ہوش کی دنیا سے دور چلا گیا۔ دوبارہ ہوش آنے کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو کمرے میں ہلکاہلکا اندھیرا تھا۔ حلق میں پیاس کے مارے کانٹے چبھ رہے تھے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی بیڈ کے ساتھ کرسی پر صائمہ بے خبر سو رہی تھی۔
’’صائمہ‘‘ بمشکل میری آواز نکل سکی۔ بولنے سے میرے سر میں شدید درد اٹھا میں کراہ کر رہ گیا۔ صائمہ بدستور غافل تھا۔ سربھاری بھاری سا محسوس ہو رہا تھا میں ے ہاتھ لگایا۔ سارا سر پیٹوں سے جکڑا ہوا تھا۔ شاید دیوار سے ٹکرانے سے سر پھٹ گیا تھا میں نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی یہ کسی ہسپتال کا کمرہ تھا۔ سر بری طرح چکرانے لگا بمشکل ہمت کرکے دوبارہ صائمہ کو پکارا۔ اس بار وہ چونک کر اٹھ گئی لپک کر قریب آئی اورمیرے اوپر جھک گئی۔
’’فاروق!‘‘ اس کی رندھی ہوئی آواز میرے کان میں پڑی۔ ’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آپ کو ہوش آگیا۔ پتا ہے آپ کے سر پر تیرہ ٹانکے لگے ہیں‘‘ اس نے مجھے بتایا۔
’’ڈاکٹرز کہہ رہے تھے اگر آپ کو ہوش آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کے سر کا آپریشن کرنا پڑے گا‘‘ وہ مجھے بتا رہی تھی۔
’’مم۔۔۔مجھے پپ۔۔۔پانی پلا دو۔‘‘ بمشکل چند الفاظ ادا ہوئے۔ اس نے جلدی سے پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں نے بدقت چند گھونٹ حلق سے اتارے ۔اتنا کرنے سے میرے سر میں دھماکے ہونے لگے میں کراہ کر رہ گیا۔ صائمہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلا لائی اس نے میرا معائنہ کیا اور تسلی دی کہ اب میری حالت خطرے سے باہر ہے۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘ خود مجھے اپنی آواز مشکل سے سنائی دی۔ صائمہ نے جھک کر اپنا کان میرے منہ سے لگا دیا۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔
’’آپ کاریڈور میں گر گئے تھے۔ جلدی میں آپ فون کا تار نہ دیکھ سکے جس سے آپ کا پیر الجھ گیا تھا۔ میں سو رہی تھی، دھماکے کی آواز سے میری آنکھ کھلی جب میں نے باہر آکر دیکھا تو آپ کاریڈور میں بے ہوش پڑے تھے۔ آپ کے سر سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سمجھ نہ آرہا تھا کیا کروں۔ آخر کار ہمت کرکے آپ کے سر پر دوپٹا باندھا اور بمشکل آپ کو گھسیٹ کر گیراج تک لائی گاڑی بھی باہر کھڑی تھی اسے اندر لا کر آپ کو اس میں ڈالا اور ہسپتال لے آئی۔راستوں سے واقفیت تو تھی نہیں بس ایسے ہی باہر نکل آئی تھی۔ ایک جگہ یہ پرائیویٹ ہسپتال کا بورڈ نظر آیا تو فوراً آپ کو یہاں لے آئی۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اتنی قوت دی اور میں یہ سب کرگزری۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ اس نے میر اہاتھ تھپتھپا کر مجھے تسلی دی۔ صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ سو رہی تھی جبکہ میں نے خود اس کی ہنسی کی آواز سنی تھی یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا میری سماعت نے مجھے دھوکہ دیا تھا؟ اگر اسے سچ سمجھ لیا جائے تو گیٹ کس نے کھولا تھا؟ کیونکہ اچھی طرح ہلانے پر گیٹ بند ملا تھا۔ یا خدا۔۔۔! یہ کیا ماجرا ہے؟ سوچ سوچ کر میرا سر مزید دکھنے لگا۔
’’فاروق‘‘ صائمہ کی مدہم سے آواز میرے کان میں پڑی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔
’’آپ پریشان نہ ہوں اللہ کا شکر ہے خطرے والی کوئی بات نہیں میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہا تھا احتیاط کریں باقی سب خیریت ہے‘‘ اس نے کہا۔ میں زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آیا۔ صائمہ کا پریشان چہرہ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ باربار میرے ذہن میں گزرا ہوا واقعہ آرہا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ سب اسی حرامزادے کی شرارت ہو۔ میں نے سوچا لیکن صائمہ کیوں جھوٹ بولتی؟ میرے ذہن نے فوراً اس خیال کو رد کر دیا اگر اس کے پاس کوئی موجود تھا تو وہ کیوں کہتی کہ میں سو رہی تھی؟ مجھ پر ایک بار پھر ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہونے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد ساری پریشانیوں سے چھٹکارہ مل گیا اور میں گہری نیند سوگیا۔ دوبارہ جب میری آنکھ کھلی تو دن کا اجالا پھیلا ہوا تھا۔ سر کے درد میں کچھ کمی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر اٹھا کر دیکھا۔ صائمہ جائے نماز پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔
’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے آہستہ سے آواز دی۔ وہ لپک کر میرے پاس آگئی۔
’’کیسی طبیعت ہے‘‘ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’کافی بہتر محسوس کر رہاہوں۔‘‘
’’آپ کلی کر لیں میں آپ کے لیے ناشتہ لاتی ہوں‘‘ اس نے کہا اور پانی کی بوتل میری طرف بڑھائی۔ میں نے پاس پڑی باسکٹ میں کلیاں کیں۔ صائمہ چائے اور بسکٹ لے آئی اور چائے میں ڈبو ڈبو کر مجھے کھلانے لگی۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے میں نے کچھ بھی نہ کھایا تھا۔ پورا بسکٹوں کاڈبہ کھا گیا۔ کچھ توانائی محسوس ہوئی میں دوبارہ لیٹ گیا۔ گزرا ہوا واقعہ ایک بار پھر میرے ذہن میں تازہ ہونے لگا۔
’’عمران بھائی بتا رہے تھے کہ آپ کوئی فائل لینے گھر آئے تھے؟‘‘ صائمہ نے میرے پاس بیٹھ کر پوچھا۔
’’ہاں ایک ضروری فائل گھر رہ گئی تھی‘‘میں نے اس کی طرف بغور دیکھا۔
’’لیکن تم گیٹ کیوں نہیں کھول رہی تھیں۔ میں نے گاڑی کا ہارن بجایا بیل بجائی لیکن۔۔۔‘‘
’’میں سو گئی تھی۔۔۔رات نہ جانے کیوں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ذرا لیٹی تو آنکھ لگ گئی۔ نہ میں سوتی نہ آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔‘‘ وہ تاسف سے بولی۔
’’یوں نہیں کہتے ،گناہ ہوتا ہے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہو پوراہو کر ہی رہتا ہے‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔
’’سارے دکھ آپ ہی کی قسمت میں لکھے ہیں‘‘ وہ آب دیدہ ہوگئی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’شکر کرو ہر بار بچ جاتا ہوں‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر بمعہ نرس اندر آگیا۔ مجھے جاگتا دیکھ کر خوش اخلاقی سے بولا۔
’’کیا حال ہیں فاورق صاحب!؟ شکر کریں اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ہے ورنہ جس قدر شدید ضرب آپ کو آئی تھی اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بینائی بھی متاثر ہو سکتی تھی‘‘ وہ میری نبض چیک کرتے ہوئے بولا۔
’’جی ہاں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ڈاکٹر صاحب‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔
’’اگر گھر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے نرس کو پٹی چینج کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے مجھ سے کہا۔
’’اگر آپ کی اجازت ہو تو میں چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوکے۔۔۔ابھی آپ کی ڈسچارج سلب تیار ہو جاتی ہے۔ پھرآپ چلے جائیے گا۔ ایمبولینس کی ضرورت ہو تو بتائیں۔‘‘ اس نے آخری فقرہ صائمہ کی طرف دیکھ کرکہا۔
’’شکریہ ڈاکٹر صاحب! ہمارے پاس گاڑی ہے‘‘ صائمہ نے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم گھر جا رہے تھے۔ گاری صائمہ ڈرائیور کر رہی تھی۔ میں تکیہ سرکے نیچے رکھے پچھلی سیٹ پر دراز تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم گھر پہنچ گئے۔ بچے مجھے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ اتنے دنوں سے نازش اور عمران ہی ہمارے گھر پر بچوں کو سنبھال رہے تھے۔

گھر پہنچ کرمیں نے اطمینان کا سانس لیا ،چھوٹی سی غلطی بعض اوقات کتنے بھیانک نتائج لاتی ہے۔ اسی بیڈ روم کے باہر میں نے خود اپنی آواز سنی تھی۔ کیا وہ سب کچھ میرا وہم تھا؟ہوسکتا ہے صائمہ کے گیٹ نہ کھولنے کی پریشانی سے میرے تخیل نے کچھ گھڑ کر میرے سامنے پیش کر دیا ہو۔ میں نے خود کو مطمئن کیا لیکن دماغ مسلسل اس دلیل کی نفی کر رہا تھا آواز بڑی واضح تھی جتنا سوچتا اتناہی الجھ جاتا۔ صائمہ سمجھ رہی تھی کہ میں نے اپنی چابی سے گیٹ کھولا تھا جبکہ اس دن میں چابی گھر بھول گیا تھا۔ گیٹ میں خود کار قفل لگا ہوا تھا جو باہر سے چابی اور اندر سے ہاتھ سے کھل جاتا تھا مکمل صحتیابی میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ اسکے بعد میں نے بینک جانا شروع کیا۔
سارے سٹاف نے فرداً فرداً میرا حال پوچھا۔ وہ میرے گھر آکر بھی بیمار پرسی کرچکے تھے۔ خاص کر محمد شریف نے تو بہت تپاک سے پوچھا تھا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں کچھ صدقہ اداکر دوں کہ ردبلا ہے۔ میں نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ میں سر پر رومال باندھے رکھتا کیونکہ ڈاکٹر نے ٹانکے لگانے سے قبل سر کے بال اس جگہ سے مونڈھ دیے تھے۔ ایک ہفتے کے دوران پھر کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔ رادھا بھی مسلسل غائب تھی ۔جو دوا ڈاکٹر نے دی تھی اس میں خواب آوار دوا بھی تھی رات کو کھا کر سوتا تو کچھ ہوش نہ رہتا۔ ہر روز میں سوچتا کہ رادھا کو بلاؤں لیکن سونے کے بعد دن چڑھے آنکھ کھلتی۔ آج ٹانکے کھلنے تھے جب ڈاکٹر نے کہا اب دواکھانے کی ضرورت نہیں تو میں نے شکر کیا۔ رات کو ہم گھر واپس آئے تو صائمہ بہت خوش تھی۔ بات بات پر وہ مسکرا دیتی۔

’’کیا بات ہے آج بہت خوش ہو؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔
’’آپ کو اچھا نہیں لگا کہ میں خوش ہوں‘‘ اس نے عجیب سا جواب دیا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’صائمہ مجھے تمہاری خوشی دنیا میں ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ میں نے اس کاہاتھ تھام لیا۔
’’اچھا۔۔۔؟ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘ اس نے اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔ میں سمجھا وہ مذاق کر رہی ہے لیکن اس کے چہرے کے تاثرات اس بات کی نفی کر رہے تھے۔
’’کیا بات ہے مجھ سے ناراض ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔میں کیوں ناراض ہونے لگی؟‘‘ اس کے چہرے سے بیزاری عیاں تھی ،جیسے اسے میری باتیں اچھی نہ لگ رہی ہوں۔ حالانکہ ہسپتال سے گھر آتے ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور باہر چلی گئی۔ میں حیرت سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔یقیناًصائمہ میرے اور رادھا کے بارے میں جانتی ہے۔ اس رات جب میں رادھا سے مل کر آیا تو صائمہ نہ صرف بیٹھی تھی بلکہ اس نے بڑے سخت لہجے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کہاں سے آرہا ہوں؟ اگر صائمہ ہمارے تعلقات سے باخبر ہے تو ۔۔۔؟ پریشانی سے میرا برا حال ہوگیا۔ کیا اسے معلوم ہو چکا ہے ہم دونوں کے درمیان کیسا رشتہ استوارہو چکا ہے؟ میں نے گھبرا کر سوچا۔ یقیناًیہی بات ہے ورنہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ صائمہ میرے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنائے ہے۔
میں کافی دیر بیٹھا یہی سوچتا رہا پھر باہر نکل آیا۔ سوچا صائمہ سے دوچار باتیں کرکے معلوم کروں کہ آیا میرا خیال صحیح ہے یا کوئی اور بات ہے؟ میرا خیال تھا وہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی ہوگی لیکن صائمہ وہاں نہیں تھی۔ ڈرائنگ روم بھی اس کے وجود سے خالی تھا میں نے باہردیکھا۔ وہ لان میں بچھی کرسی پربیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔ میں دبے قدموں اس کے پیچھے پہنچا تو بری طرح چونک اٹھا ۔ وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔ صائمہ کی آواز بہت اچھی ہے کبھی کبھی وہ میری فرمائش پر کچھ سنا دیتی۔ لیکن ایسا وہ صرف میرے کہنے پر اس وقت کرتی جب ہم دونوں کے سوا کوئی نہ ہوتا۔ وہ جھولنے والی کرسی پر بیٹھی بڑے جذب کے عالم میں گنگنا رہی تھی۔ اسے اردگرد کی کچھ خبر نہ تھی۔ میں نے آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بری طرح اچھل پڑی۔
’’آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟‘‘ بیزاری اس کے لہجے سے عیاں تھی۔ میں سامنے والی کرسی پربیٹھ گیا۔
’’صائمہ! مجھے بتاؤ کیا بات ہے تم کس بات پر مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ وہ خاموشی سے بیٹھی گود میں رکھے ہاتھوں کو گھورتی رہی۔
’’صائمہ میں نے کچھ پوچھا ہے؟‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’کوئی بات ہو تو بتاؤں بھی۔۔۔میں نے کچھ کہا ہے آپ سے ؟‘‘ اسنے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اورکھڑی ہوگئی۔ لہجے میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں نے کھڑے ہو کر اسے اپنی بانہوں میں لینے کی کوشش کی۔
’’فاروق! کیا ضروری ہے کہ ہر وقت انسان یہی سب کچھ کرتا رہے ۔۔۔؟ بیوی ہونے کا مطلب یہ تونہیں کہ میں ہر وقت آپ کی ’’خواہش‘‘ کی غلام بنی رہوں‘‘ اس نے سختی سے کہا اور پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔ میں کافی دیر بیٹھا اسکے رویے کے بارے میں سوچتا اور پریشانی میں سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا ہرا۔ میرا خیال تھا وہ ابھی آکر اپنے رویے کی معافی مانگے گی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے میرے سینے سے لگ جائے گی۔ لیکن وہ نہ آئی۔ آخر تھک ہار کر میں نے بیڈ روم کا رخ کیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو حیران رہ گیا۔ صائمہ بستر پر نہ تھی۔ باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا پھر بھی میں نے اندر جھانک کر دیکھا وہ بھی خالی۔ میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا وہ وہاں بھی نہ تھی میں لاؤنج کی طرف بھاگا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ بندتھا میرے ہاتھ لگانے سے بھی نہ کھلا۔ یا خدا ! یہ کیامعاملہ ہے؟ میں نے دروازے پر دستک دی۔۔۔آوازیں دیں۔ کافی دیر بعد دروازہ کھلا اور صائمہ سرخ آنکھیں لیے نمودار ہوئی۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
’’صائمہ!‘‘ میں نے اسے جھنجھوڑا۔
’’آں۔۔۔‘‘ وہ اس طرح چونکی جیسے نیند سے جاگی ہو۔ پہلے اس نے اردگرد دیکھا پھر مجھے اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’فف۔۔۔فاروق! یہ کیا؟ میں تو بیڈ روم میں سو رہی تھی۔ کیا آپ مجھے یہاں لائے ہیں؟ ‘‘ وہ آنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی بات پر حیران رہ گیا۔
’’بتائیے نا میں یہاں کیسے۔۔۔؟ کیا میں ڈرائنگ روم میں سو گئی تھی؟‘‘ حیرت اس کے چہرے پر ثبت تھی۔
’’ہاں۔۔۔ہاں کیا بھول گئیں؟ تھوڑی دیر پہلے ہی تم ہم دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے باہر لان میں چہل قدمی کے لئے چلا گیا تھا واپس آیا تو تم یہیں صوفے پر سو رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہتم شاید گہری نیند میں تھیں اسلئے میں تمہیں چلا کربیڈ روم میں لے جا رہا تھا کہ تمہاری آنکھ کھل گئی‘‘ میں نے فوراً کہانی گھڑ کر سنادی۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ جاگ رہے ہوں اورمیں سو جاؤں؟‘‘ اس نے میرے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
’’انسان تھکا ہوا ہو تو ایسا ہو جاتا ہے اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ وہ چپ رہی لیکن ابھی تک حیرت زدہ تھی۔ بیڈ پر لیٹ کر وہ میری جانب مڑی۔
’’سوری فاروق! نہ جانے کیسے مجھے نیند آگئی؟‘‘ اسنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا میں نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
جب وہ سو گئی تو میں ایک بارپھر اسی گورکھ دھندے میں کھو گیا۔ نہ سمجھ آنے والی کیفیت تھی اس کی۔ کہیں واقعی صائمہ کو نیند میں چلنے کی بیماری تو نہیں ہوگئی؟ میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ میرے ساتھ اچھی بھلی باتیں کر رہی تھی نہ جانے میری کس بات سے چڑ کر باہر چلی گئی تھی۔ اس کے بعد وہاں بھی اس نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور اٹھ کر اندر آگئی لیکن بیڈ روم میں آنے کے بجائے ڈرائنگ روم میں جا کر سو گئی۔ زیادہ دیر میں نہ سوچ سکا نیند کی مہربان دیوی نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح حسب معمول صائمہ نے مجھے جگایا تو وہ ہشاش بشاش تھی۔ چہرے پر بڑی پیاری مسکان لیے اس نے مجھے سلام کیا۔ وہ کسی طرح رات والی صائمہ نہ لگ رہی تھی۔ ناشتے کے بعد اسنے روزانہ کی طرح مجھے مسکراتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں رخصت کیا۔ بینک میں کام کی مصروفیت ذرا کم ہوئی تو میں نے سوچا فون کرکے صائمہ کی خیریت دریافت کروں اور اس سے رات کے رویے پر بھی بات کروں، دراصل مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا کہیں صائمہ ہمارے تعلقات سے آگاہ نہ ہوگئی ہو۔ ہو سکتاہے اسنے صرف کمپرومائز کیا ہو۔ طرح طرح کے خیالات میرے ذہن کوپریشان کرتے رہے۔ میں چاہتا تھا کہ فون پر اس سے پوچھوں سامنے شاید میں اتنا واضح جھوٹ نہ بول سکتا۔ فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ صائمہ تیسری چوتھی بیل پر فون اٹھا لیا کرتی۔ بیل جاتی رہی لیکن کسی نے فون اٹینڈ نہ کیا۔ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے فون بندکیا اور چابیاں اٹھا کر باہر نکل آیا۔ آندھی اور طوفان کی طرح گاڑی بھگاتا میں گھر پہنچا۔ باہر کے تالے کی چابی میرے پاس تھی۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوااور بھاگتا ہوا بیڈ روم میں پہنچا اندر جھانکا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

سامنے بیڈ پر صائمہ سو رہی تھی۔ حیرت کی بات اس کی نیند نہیں بلکہ گہرا میک اپ تھا۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا مجھے اس وقت لگا جب میں نے دیکھا اس کے بالوں میں بیلے کی کلیاں گندھی ہوئی ہیں جبکہ ہمارے لان میں بیلے کے پھول توکیا پودے بھی نہ تھے۔ اس نے نہ صرف گہرا میک اپ کیا ہوا تھا بلکہ اپنی پسندیدہ گلابی رنگ کی ساڑھی بھی باندھی ہوئی تھی۔
وہ سر تاپا قیامت بنی محو خواب تھی۔ خوابیدہ حسن غضب ڈھا رہا تھا مدھرسی مسکان اس کے نرم و نازک ہونٹوں پر تھی جیسے سوتے میں وہ حسین خواب دیکھ رہی ہو۔ میں حیرت سے کنگ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ وہ اکثڑ کہاکرتی عورت کو صروف اپنے خاوندکے لئے بننا سنورنا چاہئے پھر۔۔۔؟ پھر وہ میرے جانے کے بعد کس کے لئے سج سنور کر بیٹھی ہوئی تھی؟ شک کا ناگ میرے اندر پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا۔ لباس کی بے ترتیبی ایسی کہانی سنا رہی تھی جس پریقین کرنا مشکل تھا۔ صائمہ کی شرافت مسلم تھی میں کسی طور ماننے کو تیارنہ تھا کہ کوئی ’’ایسی ویسی‘‘ بات ہو سکتی ہے۔ آج کل اسے نیند بھی بہت آتی۔ ایک بارپہلے بھی فون اٹینڈ نہ کرنے پر میں پریشانی میں گھر آیا تھا۔ تو بیڈ روم سے خود اپنی آواز اور صائمہ کی ہنسی سن کر میں لپک کر بیڈ روم میں داخل ہونے لگا تھا کہ وہ سنگین حادثہ رونما ہوا تھا جس کے نتیجے میں میں بری طرح زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ آج بھی میں نے پریشانی کی حالت گھر کا رخ کیا لیکن یہاں آکر میری پریشانی اور بڑھ گئی تھی۔ آہستہ سے چلتاہوا میں بیڈکے پاس بچھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’صائمہ‘‘ میں نے آہستہ سے اسے آواز دی وہ اسی طرح سوتی رہی۔
’’صائمہ‘‘ اس بارمیں نے ذرا بلند آوااز سے اسے پکارا اور بازو سے پکڑ کر بلایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔ کھوئے کھوئے انداز میں اسنے میری طر ف دیکھا۔
’’صائمہ‘‘ میں نے بڑے پیار سے کہا۔
’’جی۔۔۔‘‘ اسکی آواز نیند سے بوجھل تھی۔
’’صائمہ! کیا کہیں جانے کی تیاری تھی؟‘‘ میں نے اس کی توجہ لباس کی طرف دلائی۔
’’اس نے تو کہاتھا وہ یہیں آئے گا؟‘‘ وہ جیسے خود سے ہمکلام تھی۔ میں بری طرح چونک گیا۔
’’وہ کون؟‘‘ میں نے تیزلہجے میں پوچھا۔
’’تم کس کی بات کر رہی ہو؟ کس نے کہا تھا وہ یہاں آئے گا؟‘‘
اس بار وہ جیسے نیند سے جاگ گئی۔ اسنے میری جانب دیکھا پھر جیسے اس کی نظر اپنے لباس پر پڑی وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ حیرت سے اس کی آنکھیں ممکن حد تک پھیل گئیں ۔ وہ کبھی اپنے لباس کی طرف دیکھتی کبھی میری طرف پھر تحیر زدہ اپنے سراپے پر نظر ڈالنے لگی۔
’’یی۔۔۔یہ۔۔۔کک۔۔۔کیا؟‘‘ حیرت سے اس کی آواز بند ہوگئی۔
’’فاروق! یہ لباس میں نے کب بدلا؟‘‘ وہ لباس پر نظر ڈال کر پوچھ رہی تھی اسی وقت اس کی نظر آئینے پر پڑی جس میں اس کا چہرہ نظر آرہا تھا وہ بھاگ کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی اور اپنے چہرے پر ہاتھ لگا کر دیکھنے لگی۔ میں غور سے اس کی حرکات دیکھ رہا تھا درحقیقت وہ حیران تھی یہ ادکاری نہ تھی۔ حیرت سے اس کے چہرے کے نقوش بگڑ گئے تھے۔
’’فاروق! یہ سب ۔۔۔یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ اس قدر حیران تھی جتنا بھی نہ ہوا تھا۔
’’میں تو صفائی کر رہی تھی کہ اچانک مجھے چکر آیا اور میں بیڈ پر لیٹ گئی۔ کئی دن سے مجھے کمزوری سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے بعد اب آنکھ کھلی ہے لیکن فاروق! کیا آپ نے ۔۔۔؟ نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ میرا لباس تبدیل کریں اور میں سوتی رہوں۔ بتائیں نا یہ سب کیا ہے؟ ‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔ ٹپ ٹپ آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
’’شاید تمہیں نیند میں چلنے اور کام کرنے کا مرض لاحق ہوگیا ہے‘‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’نیند میں چلنے کا مرض؟‘‘ اس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا۔
‘‘ہان اور یہ ناممکن نہیں۔ بڑے بڑے نامور لوگ نیند میں چلنے اور کام کرنے کے مرض میں مبتلا رہے ہیں کئی معروف سائنسدانوں نے نیند کی حالت میں کامیاب تجربات کیے بلکہ ایسے کارنامے سر انجام دیئے جو وہ جاگتی حالت میں کبھی نہ کر پاتے۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا
’’لیکن فاروق! یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے کچھ پتا ہی نہ چلے اور سب کچھ کر لوں۔ مثلاً میک اپ وہ بھی ایسا‘‘ اس نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہی تو اس مرض کی خصوصیت ہے کہ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا وہ ایسا کام کر گزرتا ہے جسے وہ شعور کی حالت میں کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ مثلاً تم عام حالت میں کبھی اتنا اچھا میک اپ نہیں کر سکتیں جیسا کہ تم نے کیا ہے۔‘‘ میں نے دلیل دی۔
’’میری تو عقل گم ہوگئی ہے اگر یہ سب کچھ میرے ساتھ نہ ہوا ہوتا تو میں کبھی یقین نہ کرتی‘‘ وہ کچھ مطمئن ہوگئی تھی۔ اسے اطمینان دلاکر میں خود بے سکون ہو گیا تھا۔ اس کاجملہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔
’’اس نے تو کہا تھا وہ یہیں آئے گا‘‘ وہ کس کے بارے میں کہہ رہی تھی۔ وہ کون تھا جس کا صائمہ کو انتظار تھا؟ کسی بات کی سمجھ نہ آرہی تھی۔
’’کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔
’’کچھ نہیں میں سوچ رہا تھا کہ تمہیں کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھا دوں‘‘ میں نے کہا۔
’’ڈاکٹر کیا کرے گا؟‘‘ وہ حیران رہ گئی۔
’’تمہارا علاج کرے گا اور کونسا ایسا لاعلاج مرض ہے؟ تم فکر نہ کرو میں آج ہی عمران سے کسی اچھے سے سائیکٹرسٹ کے بارے مییں پوچھتاہوں‘] میں نے اسے تسلی دی۔
’’نہیں فاروق ! پلیز عمران بھائی کونہ بتائیے گا وہ کیا سوچیں گے آپ خود ہی کسی ڈاکٹر کا پتا کریں‘‘ وہ جلدی سے بولی۔
’’اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ چینج کر لو پھر اچھی سی چائے بنا کر لاؤ دونوں ساتھ پیتے ہیں‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’فاروق آپ کتنے اچھے ہیں میرا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ارے۔۔۔میں تو پوچھنا ہی بھول گئی آپ اس وقت گھرکس لئے آئے تھے؟‘‘
’’تمہاری یاد آئی تو اٹھ کر چلا آیا کہ تمہیں سے تھوڑا سا پیار کر لوں‘‘ میں نے شرارت سے اسے دیکھا۔
’’نہیں۔۔۔ایسا نہیں کرنا‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا رنگ زرد ہوگیا۔ وہ بری طرح گھبرا گئی۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’کیا مطلب؟ کیا کہہ رہی ہو تم‘‘۔
’’کک۔۔۔کچھ نہیں‘‘ وہ بری طرح گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔
’’نہیں بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں تم؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔
’’وہ۔۔۔وہ میری طبیعت خراب ہے نا اس لئے میں کہہ رہی تھی آ۔۔۔آج نہیں پھر کسی دن‘‘ وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’میں چینج کرکے ابھی آتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔ میں سوچوں کی بھنور میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔ قرین قیاس بات یہی نظر آتی تھی کہ واقعی اسے نیند میں چلنے اور کام کرنے کی عادت پڑ گئی ہو۔ تو کیا وہ صائمہ ہی تھی جو رات کو میرے پاس آکر دوسرے دن انکاری ہو جاتی۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رادھا نے خود تسلیم کیا تھا۔ صائمہ کا صرف جسم استعمال ہوتا تھا لیکن اصل میں وہ رادھا ہی تھی۔ اس کا ذکر آتے ہی میں چونک گیا۔ کتنا احمق ہوں میں بھی خود سر کھپانے کے بجائے رادھا سے کیوں نہیں پوچھ لیتا۔ میں نے سوچا اس کے ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ کافی دن ہوگئے ہیں رادھا نہ تو مجھ سے ملنے ہی نہ آئی کوئی رابطہ کیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ آج رات کو ہی رادھا کو بلاؤں گا۔ یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ چائے کی ٹرے اٹھائے آگئی۔ چائے پینے کے بعد میں نے کہا۔
’’چلو بچوں کو سکول سے لے آئیں۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے دونوں چلتے ہیں‘‘ وہ چادر اٹھاتے ہوئے بولی۔ جب ہم سکول پہنچے تو چھٹی ہو چکی تھی۔ بچے ہم دونوں کودیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے عمران کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ میرے سر میں درد ہے میں واپس نہیں آؤں گا۔ صائمہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو جاتی۔ بیٹھے بیٹھے چونک جاتی۔ کبھی گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتی میرے پوچھنے پر کوئی بہانہ کر دیتی۔ اس کا دمکتا ہوا رنگ ماند پڑ چکا تھا۔ چہرے کی تازگی اور شادابی کہیں کھو سی گئی تھی۔ میں عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو صائمہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ بچوں کو ہوم ورک کروا کر اس نے سلا دیا تھا۔
’’نماز پڑھ لی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں۔
’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے دوبارہ اسے آواز دی۔
’’آں۔۔۔مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں؟‘‘ اس نے چونک کر پوچھا۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ میں نے مسکرا کر اسے دیکھ۔ا
’’کچھ نہیں۔۔۔آپ کیا پوچھ رہے تھے؟‘‘ اس کی سوالیہ نظریں میری طرف اٹھی ہوئی تھیں۔
’’میں پوچھ رہا تھا عشاء کی نماز پڑھ لی؟‘‘ اس کا جواب مجھے حیرت کے سمندر میں غرق کر گیا۔
’’ہر روز تو پڑھتی ہوں ایک دن نہیں پڑھی تو کیا قیامت آگئی۔‘‘ اس نے بڑی بیزاری سے کہا اور کروٹ بدل کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ میں نے اس پیش نظر کچھ نہ کہا کہ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دے جو کفر کا باعث بن جائے۔
’’کل انشاء اللہ ڈاکٹر کے پاس چلیں گے میں نے پتا کیا ہے ایک بہت اچھا سائیکٹرسٹ ہے میں نے فون پر وقت لے لیا ہے کل شام پانچ بجے چلیں۔۔۔‘‘
’’یہ کیا ڈاکٹر ڈاکٹر لگا رکھی مجھے کوئی بیماری نہیں سنا تم نے؟ اگر اب ایسی بات کی تو تمہاری خیر نہیں‘‘ اس کی دھاڑ نے مجھے لرزا دیا۔ بچے بھی گھبرا کر جاگ گئے میں اس کے جواب سے ششدر رہ گیا۔ جلدی سے آگے بڑھ کر بچوں کو تھپک کر دوبارہ سلا دیا۔
’’صص۔۔۔صائمہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو کیا تم ہوش میں ہو؟‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا۔ وہ اپنی بڑی بڑی سرخ انگارہ آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی پھر قہر میں بھری تکیہ اٹھا کر کارپٹ پر لیٹ گئی۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے لیٹ گیا۔ یقیناًاس کی طبیعت خراب تھی ورنہ اس طرح تو وہ کبھی بات نہ کرتی تھی میں نے اس وقت اسے چھیڑنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے سونے کا انتظا کرنے لگا۔ رادھا سے بات کرنے کے بعد میں کوئی قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ بارہ بجے کے قریب دیکھا صائمہ سو چکی تھی۔ میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلا۔ لان میں آکر میں نے رادھا کو آواز دی۔
’’پریم! تم نے بلانے میں کتنا سمے لگا دیا۔ میں ہر روز اس آشا میں آتی تھی تم مجھے بلاؤ گے پرنتو تم تو شاید اپنی داسی کو بھول ہی گئے۔‘‘ وہ جھٹ میرے سامنے حاضر ہوگئی۔ نیلی ساڑھی میں اس کا تراشا ہوا بدن کچھ اور دلکش نظر آرہا تھا۔
’’میں نے تمہیں ایک کام کہا تھا اس کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’شما چاہتی ہوں موہن! ابھی تک میں اس شکتی بارے جانکاری پراپت کرنے میں سپھل نہ ہو سکی‘‘ اسنے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’موہن! میں نے بڑی اوشکتا کی پرنتو نہ جان سکی کہ وہ پاپی کون ہے؟ کوئی دوجی شکتی اس کی سہائتا کر رہی ہے۔ جس نے اس کے گرد کڑا پھیر لیا ہے تم جانتے ہو کڑا توڑنا میرے بس میں نہیں۔ پونتو میں اتنا جان گئی ہوں تمری پتنی کسی شکتی کے گھیرے میں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمرے وچار کے انوسار(تمہارے خیال کے مطابق) تمری پتنی کو کوئی روگ (بیماری) لگ گیا ہے۔ پرنتو یہ روگ نہیں۔۔۔کسی شکتی نے اسے اپنے بس میں کرنے کے کارن سب کچھ کیا ہے‘‘
’’تمہارے کہنے کا مطلب ہے صائمہ کو نیند میں چلنے کی بیماری نہیں ہے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں موہن! یہی بات ہے‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔’’وہ کون ہے؟ یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی‘‘ شرمندگی سے اس نے سر جھکا لیا۔
’’اب کیا ہوگا رادھا! میں تو سخت پریشان ہوں‘‘ میں نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ مجھے یقین تھا رادھا اس مشکل کا حل ضرور تلاش کر لے گی لیکن اس نے بھی فی الحال مجبوری ظاہر کر دی تھی۔
’’تم چنتا نہ کرو موہن! میں ایک جاپ کر رہی ہوں زیادہ سمے نہیں لگے گا‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔
’’رادھا! صائمہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے آج تو حد۔۔۔‘‘
’’میں جانتی ہوں تم اپنی پتنی کے کارن بہت دکھی ہو۔ میرا وشواس کرو میں جلد ہی اس پاپی کو ڈھونڈ نکالوں گی۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تمری پتنی کس کارن ہارسنگھار کرکے بیٹھتی ہے۔ وہ یہاں آتا ہے پرنتو میں اسے دیکھنے میں سپھل نہ ہو سکی۔ کوئی شکتی میرے آڑے آجاتی ہے۔‘‘
’’کیا صائمہ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہے؟‘‘ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’نہیں وہ کھد نہیں جانتی سب کچھ کیوں کرتی ہے؟ اس کے شریر کو کسی نے اپنے بس میں کر لیا ہے۔ پرنتو وہ اسے چھو نہیں سکتا اس کارن یہ ہے کہ تمری پتنی ہر سمے پوجا پاٹ(عبادت) میں مگن رہتی ہے جس کارن وہ پاپی اسے چھونے میں سپھل نہیں ہو پا رہا۔ پرنتو اس نے اس کاپربند کر لیا ہے۔ وہ تمری پتنی کو پوجا سے روکنے کے کارن جیادہ سمے اس کے شریر میں رہنے کا وچار کر رہا ہے۔‘‘ رادھا نے مجھے تفصیل بتائی۔
’’رادھا جلدی سے اس کا مشکل کا کوئی حل بتاؤ میں بہت پریشان ہوں‘‘ میں نے بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’پریم! تم چنتا مت کرو جب تک رادھا جیوت ہے تمری پتنی کو کوئی کشٹ نہیں دے سکتا‘‘ اس نے میرا ہاتھ تھپتھپایا۔ بے اختیار میرا دل بھر آیا۔
’’رادھا میں صائمہ کے بغیر جی نہ پاؤں گا۔‘‘ میری آواز بھرا گئی۔
’’کیا رادھا تمرے بن نہ جی پائے گی؟ تھوڑا سمے انتجار کر لو میں جس جاپ میں لگی ہوں مجھے وشواس ہے کہ میں اس میں سپھل ہو جاؤں گا پھر دیکھنا اس پاپی کا حشر بنستی سے بھی برا ہوگا۔ سنسار میں اسے میرے شراپ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا‘‘ وہ چکھ دیر خاموش رہی پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا۔
’’موہن یدی وہ منش جس نے تمہیں کالی داس کے شراپ سے بچایا تھا تمری سہائتا کرنے پر مان جائے تو تمری پتنی کی سمسیا کھتم ہو جائے گی‘‘
’’کون۔۔۔ملنگ؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’ہاں وہ بہت شکتی مان ہے کالی داس کی شکتی بھی اسکے آگے کچھ نہیں۔‘‘ رادھا نے مجھے بتایا۔
’’لیکن میں اسے کہاں تلاش کروں‘‘ میں نے بے بسی سے پوچھا تو اسکا جواب سن کر پھر چونک جانا پڑا۔

جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں