بندوق کی پرواہ کیے بغیر وہ اس سپاہی کے ساتھ الجھ پڑا۔ میں سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ کالے رنگ اور دہرے بدن کا پچیس چھبیس سالہ شخص بڑا دلیر واقع ہوا تھا۔ مکا کھانے والا سپاہی گالیاں بکتا ہوا اٹھا اور فوٹو گرافر سے لپٹ گیا۔تھوڑی دیر میں اچھا خاصا ہنگامہ ہوگیا۔ فوٹو گرافر بڑی بے جگری سے تینوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی وہ اکیلا ان پر بھاری تھا۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں ان تینوں کو لہو لہان کر دیا۔ شور سن کر چند اور سپاہی بھاگے آئے اور آکر اسے قابو کرکے لے گئے ۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں حیران تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لیکن وقتی طور پر ہی سہی یہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ اگرمیری تصویر اخبار میں چھپ جاتی تو۔۔۔؟ یہ خیال ہی میرے لیے سوہان روح تھا۔ کچھ روز قبل شرجیل نے سپنا نامی لڑکی کو اپنے بیڈ روم میں صرف بلایا تھا اس پر بھی ہم سب نے اس کی کیا حالت کی تھی؟ کھیدو چوہڑے اور سپنا کا حشر دیکھ کر آنٹی میرا بہت زیادہ احترام کرنے لگی تھیں۔
اب پولیس سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ انہیں کچھ نہ کچھ دے دلا کر جان چھڑائی جا سکتی تھی۔ میں نے باہر کی طرف دیکھا سامنے کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے سلاخوں کے ساتھ سر ملا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی مجھے ایک سپاہی نظر آیا۔ میں چاہتا تھا اس کے ذریعے عمران کو بلواؤں اور ان خبیثوں سے جان چھڑا کر باہر نکلوں۔۔۔
جو کچھ کالی داس نے میرے ساتھ کیا تھا اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو ہو سکتا تھا میں انجام کی پرواہ کیے بغیر اسے جان سے مار دیتا۔ لیکن کیا میں اس کی پراسرار قوتوں کا مقابلہ کر سکتا تھا؟ میری اب تک کی جیت سے رادھا اور ملنگ کی مدد شامل رہی تھی لیکن میں خود کیا تھا؟ کیا میں اس شیطان کی گندی جادوئی قوتوں کے باوجود اسے زیر کر سکتاتھا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں چکرا رہا تھا۔
چوٹیں ٹھنڈی ہونے کے بعد مزید اذیت کا باعث بن گئی تھیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کچھ اس منحوس بسنتی کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہیں یوں کہنا چاہئے کہ ان حالات کے پیچھے میری ہوس کارفرما تھی۔ بسنتی کے حسن نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ میں برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھا تھا۔ کاش میں نے اس بدبخت کی بات نہ مانی ہوتی۔ لیکن۔۔۔بدبخت وہ نہیں میں خود تھا۔ حسین اور وفا شعار بیوی کے ہوتے ہوئے میں کن راستوں پر چل پڑا تھا؟
جسم کے ساتھ ساتھ میرا ذہن بھی دردکرنے لگا تھا۔ میں شدت سے کسی سپاہی کا منتظر تھا جس کے ذریعے عمران کو بلوا سکوں۔ پیاس کی شدت سے میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ گلا خشک ہو رہا تھا۔ دو گھونٹ پانی کے لئے میں ترس رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک سپاہی ٹہلتا ہوا کمرے کی جانب آیا۔
’’بھائی! دو گھونٹ پانی پلا دو میرا دل ڈوب رہا ہے‘‘میں نے اسے مخاطب کیا۔
’’بیٹا! ابھی صاحب تجھے ٹھنڈا شربت پلاتا ہے فکر نہ کر‘‘ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
’’بھ۔۔۔بھائی! تمہیں خدا کا واسطہ میری بات سن لو‘‘ اسے جاتا دیکھ کرمیں نے منت کی۔ وہ رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
’’اگر تم ایک چھوٹا ساپیغام ایک شخص تک پہنچا دو تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گا‘‘ میں نے اسے لالچ دیا۔
’’کونسی جیب میں رکھے ہیں ایک ہزار روپے؟‘‘ وہ میرے نیم برہنہ جسم کو دیکھتے ہوئے تمسخر سے بولا۔
’’مم۔۔۔میں تمہیں جس شخص کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں وہ تمہیں ایک ہزار روپیہ دے دے گا ۔ میری بات پریقین کرو‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا۔
وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسکی مہینہ بھر کی سات آٹھ سوسے زیادہ نہ ہوگی۔ ان دنوں ایک ہزار روپے کی کافی اہمیت تھی۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں اگر تم میرا ایک پیغام اس تک پہنچا دو تو وہ اسی وقت تمہیں پیسے دے دے گا‘‘ میں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
’’بتاکہاں جانا ہے لیکن ایک بات سن لے۔۔۔میں پہلے اس سے پیسے لوں گاپھر تیرا پیغام دوں گا ، دوسرے یہ کہ اس نے رقم نہ دی تو آج رات جن سپاہیوں نے تیری ’’خدمت‘‘ کرنی ہے میں ان سب میں آگے ہوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوگا وہ میرا بھائی ہے جب تم اسے بتاؤ گے تو وہ فوراً تمہیں پیسے دے دے گا۔‘‘ میں نے اس کی منت کی۔
’’شکل سے تو توپڑھا لکھا لگتا ہے پھر تو نے ایسی حرکت کیوں کی؟‘‘ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھ کربولا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیایہ سب میرے دشمنوں کی سازش ہے‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’ہاں تو اپوزیشن لیڈر ہے نا اسلئے تیرے خلاف سازش کی گئی ہے‘‘ اس نے طنزکیا۔ مجھے اس سے کام تھا اس لئے اس کی بات صبر سے برداشت کرگیا۔
’’میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہ بھولوں گا میرے بھائی میرا اتنا سا کام کر دو‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا پھر ہنس کربولا۔
’’اوئے۔۔۔تو تو زنانیوں کی طرح رونے لگا۔ ابھی سے تیری یہ حالت ہے ابھی توکسی نے تجھے کچھ کہا ہی نہیں۔ رات کو صاحب تیرا جو حشر کرنے والا ہے اسکا تو تجھے پتا ہی نہیں جلدی سے بتاکہاں جانا ہے اورکیا پیغام دینا چاہتا ہے تو اپنے اس بھائی کو؟‘‘ وہ تیز لہجے میں بولا۔
’’میں نے اسے بینک کانام اور ایڈریس سمجھا کر بتایا کہ وہاں ایک صاحب ہوں گے عمران محمود انہیں باہر بلا کرکہنا کہ وہ ابھی مجھے تھانے آکرملیں۔ علیحدگی میں بلا کربات کرنا سب کے سامنے نہیں‘‘
’’ابے ماں کے خصم۔۔۔! تو کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ سارے شہر میں تیرے کرتوتوں کا چرچاہو رہا ہے اور تو مجھے راز و نیاز کا مشورہ دے رہا ہے ۔۔۔‘‘ اس نے ایک اور گالی میری طرف لڑھکائی۔
اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اسکے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اسی الجھن میں مبتلا رہا کہ اتنی جلدی یہ خبر کیسے پھیل گئی؟ کیونکہ فوٹوگرافر جو میری تصویریں بنانے آیا تھا اس نے کیمرہ زمین پرمار کر توڑ دیا تھا۔ میرے ذہن میں کالی داس کا نام ابھرآیا۔ یقیناً یہ اسی حرام کے نطفے کی کارستانی ہوگی۔ اپنی پراسرار قوتوں سے کام لے کر اسی نے بات پھیلائی ہوگی۔ اب کیا ہوگا؟ میں سخت پریشان ہوگیا۔ میرا خیال تھا عمران آئے گا تو میں اسے کہوں گا تھانے والوں کو ان کی منہ مانگی قیمت دے کر میری جان چھڑائے۔ میں نے سوچا تھا سب کچھ کھیڈو چوہڑے اور سپنا پر ڈال دوں گا۔ مجھے یقین تھا کہ میرے گھر والے مجھ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور صائمہ تو کبھی مر کربھی یقین نہ کر سکتی تھی کہ میں اتنی گری ہوئی حرکت کر سکتا ہوں۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا کچھ ہو چکا ہے سپاہی کی بات پر میں چونکاضرور تھا۔
’’تیرے کرتوتوں کا چرچا سارے شہر میں پھیلا ہوا ہے‘‘ اس کا فقرہ میرے ذہن میں گونجا۔ اس وقت میرا خیال تھا وہ محض مجھے ڈرانے کی خاطر کہہ رہا ہے۔ یہ تو مجھے بعد معلوم ہواکہ سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنامیں سمجھ رہاتھا۔ سپاہی کو گئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوگیا تھا ،ابھی تک عمران نہ آیا تھا۔ میں سبین کو تقریباً بارہ بجے گھر لے کر گیا تھا۔ اس حساب سے اب شام چار بجے کا وقت ہونا چاہئے تھا۔ مجھے خطرہ تھا اگر سپاہی وقت پر نہ گیا تو بینک میں چھٹی ہو جائے گی پھر عمران کا ملنا ناممکن تھا۔ سپاہی کی بات کا مجھے اس لئے بھی یقین نہ تھا اگر بات سارے شہرمیں پھیل چکی تھی تو عمران ابھی تک کیوں بے خبر تھا؟ یہ تو ناممکن تھا کہ اسے معلوم ہوتا اور وہ نہ آتا۔ اسکے ساتھ ہی ایک لرزہ خیز خیال میرے ذہن میں آیا۔
’’کیا انکل بیگ اور آنٹی کو بھی معلوم ہو چکا ہوگا؟‘‘یہ سوچ بھڑکتی چنگاری جیسی تھی۔ چونکہ ان کا گھر ہم سے زیادہ دور نہ تھا اور ایسی بات توجنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ کیسے کیسے مہربان اور شفیق لوگوں کا ساتھ مجھے میسر رہاتھا کہ مجھے ایک دن بھی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ اگربات ان کے علم میں آگئی اور انہوں نے یہاں آکرمجھے اس حالت میں دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے؟
سوچوں نے میرے حواس معطل کردیئے تھے۔ میں دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح عمران آجائے۔
اب میں رادھا کی آمد سے مایوس ہو چکا تھا۔ اسے آنا ہوتا تو اب تک وہ آچکی ہوتی فاصلے اس کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے وہ پل بھر میں دنیا کے جس کونے میں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ تو کیا اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا؟لیکن اسے کیا ضرورت تھی ایسی بات کہنے کی؟ اسے مجھ سے کیا خوف تھا کہ میرے ساتھ جھوٹا وعدہ کرتی؟ کیا اسے کالی داس نے روک دیا تھا؟ کیاکالی داس سب پر حاوی ہوگیا تھا؟ میں اپنی سوچوں میں اتنا گم تھا کہ عمران کونہ دیکھ سکا جو سلاخوں کے پاس غمگین حالت میں کھڑا تھا۔
’’خان بھائی!‘‘میں نے چونک کر دیکھا۔ اس کے احساسات کا اظہار اس کے پرخلوص چہرے سے ہو رہا تھا۔ مجھے اپی طرف دیکھتا پا کر اس نے آہستہ سے کہا۔
’’خان بھائی! یہ سب کیا ہوگیا میں تو سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کبھی یوں بھی ہو سکتاہے؟‘‘
زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا اگر میرے بس میں ہوتا تو کہاں تومیں شدت سے عمران کامنتظر تھا اورجب وہ آیا تو میں شرم کے مارے نظر نہ اٹھا سکا۔ وہ میری کیفیت کو جان گیاتھا۔
’’خان بھائی! مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت نہیں ہے اس میں ضرور کسی کی سازش ہے لیکن باہر جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میں بہت فکر مند ہوں۔ مجھے جیسے ہی معلوم ہوا میں اسی وقت تھانے آگیا تھا لیکن ڈی سی پی صاحب کی موجودگی میں مجھے اندر نہیں آنے دیا گیا۔ یہ تو تھانہ محرر میرا کلاس فیلو اور دوست ہے اسی وجہ سے آپ سے ملاقات ممکن ہوسکی۔ بہرحال آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتاہوں۔‘‘
’’عمران تم تو جانتے ہو میں کیسا انسان ہوں؟کیا تم سوچ سکتے ہوکہ میں ایسی قبیح حرکت کر سکتا ہوں؟‘‘ میں نے جھوٹ بول کراپنے صفائی پیش کی۔
’’خان بھائی! سب ٹھیک ہو جائے گا میں ابھی آتا ہوں‘‘ کہہ کر وہ سامنے سے ہٹ گیا۔ جتنی شرمندگی مجھے ہو سکتی تھی اس کا اندازہ بھی کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن یہ حقیقت تھی اور میں اپنے کرتوت کی سزا بھگت رہا تھا ۔مجھے اپنے ایک ایک گناہ یاد آنے لگے۔ اگر میں رادھاکے حسن کو دیکھ کر پاگل اور اندھا نہ ہوا ہوتا تو آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ بسنتی نے کالی داس سے مل کر یہ سب کچھ کیاہو؟۔ ہوسکتاہے اسے رادھا کے ساتھ کوئی پرخاش ہو‘‘ مختلف سوچوں نے میرے دماغ کو گھیر رکھا تھا۔ کسی سوال کا جواب میرے پاس نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عمران دوبارہ نظر آیا اس بار اس کے ساتھ سادہ لباس میں ایک شخص بھی تھا جس نے کپڑوں کا ایک جوڑا ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔ جیسے کسی اندھے کو آنکھوں کی خواہش ہو سکتی ہے اسی طرح مجھے اس وقت کپڑوں کی ضرورت تھی۔ سادہ لباس والے نے کپڑے اندر پھینک دیئے۔
’’انہیں پہن لو اگر کوئی پوچھے تو کہنا یہیں حوالات کے کمرے میں پڑے تھے‘‘ اتناکہنے کے بعد وہ دونوں سامنے سے ہٹ گئے۔
کپڑے میرے اوپر آگرے، ان سے پسینے کی بدبو آرہی تھی۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہن لیے۔ تھوڑی دیر بعد وہی سادہ لباس والا آیا، اسکے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا۔ وہ بھی اس نے کپڑوں کی طرح اندر پھینک دیا۔ شاید وہ دروازہ کھولنے پر قادر نہ تھا۔ میں نے جلدی سے ڈبہ کھول کر منہ سے لگا لیا۔ زندگی میں سینکڑوں بار میں نے کئی قسم کے مشروبات پئے ہوں گے لیکن اس وقت جوس کا ڈبہ میرے لئے آب حیات سے کم نہ تھا۔ میرے حواس کچھ بحال ہوئے۔عمران ایک بار پھر سامنے آیا۔
’’خان بھائی!معاملہ بہت بگڑ چکاہے۔سبین ہسپتال میں ہے۔ ڈی ایس پی صاحب خود اسکابیان لینے گئے تھے اس نے سب کچھ انہیں بتا دیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہی ہے؟‘‘
میں جیسے زمین میں گڑ گیا۔ جس حالت میں عمران نے مجھے حوالات کے اس کمرے میں دیکھا تھا اسے سو فیصد یقین ہونا چاہئے تھا کہ میں مجرم ہوں لیکن وہ اللہ کابندہ مجھ پر اندھا اعتمادکرتا تھا،ابھی تک وہ یہی سوچ رہاتھاکہ یہ سب کچھ میرے خلاف ایک سازش ہے۔
’’ڈی ایس پی باقر حسین، سبین کے والد کا شاگرد ہے۔ اسنے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ آپ کوکیفرکردار تک پہنچا کررہے گا۔ سبین کا منگیتر فوج میں میجر ہے وہ بھی آپہنچا ہے۔ اسنے قسم کھائی ہے کہ آپکو ساری زندگی جیل سے نکلنے نہیں دے گا ۔ان کے علاوہ خواتین کی ایک تنظیم نے بھی اس معاملے کو اچھالنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ جسکی صدر میڈم ستارہ کا تعلق اپوزیشن پارٹی سے ہے اور اس قسم کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس میں اسے حکومت کوبدنام کرنے میں مدد ملے۔ استادہونے کے ناطے سبین کے والد صاحب کی اس شہر میں بہت عزت ہے ۔علاقے کے سرکردہ افراد کے بچے ان کے پاس تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ طلباء نے بھی تھوڑی دیرپہلے جلوس نکالا ہے۔ انہوں نے ٹائر جلاکر سڑک بند کر دی تھی۔ لوگ بری طرح بھپرے ہوئے ہیں جگہ جگہ سے لوگوں کی ٹولیاں جلوس میں شامل ہورہی ہیں۔ میڈم ستارہ کے اکسانے پر خواتین مشتعل ہوکرگھروں سے باہرنکل آئی ہیں۔‘‘
عمران بتارہا تھا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری رہائی کی ساری راہیں مسدورہو چکی ہیں۔
’’خان بھائی! میں یہ سب کچھ خدانخواستہ آپ کو اسلئے نہیں بتا رہاکہ میں آپ کومجرم سمجھتاہوں بلکہ میرا مقصد آپ کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنا ہے۔ آپ فکر نہ کریں مجھ سے جو ہو سکا میں کروں گا‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔ لیکن اس کا لہجہ اعتماد سے خالی تھا ۔اتنا کہہ کر وہ چلاگیا۔ میں جانتا تھاکہ محض طفل تسلی ہے۔ میری بد نصیبی کادور شروع ہو چکاتھا۔ میں سر جھکائے بیٹھا ان حالات پر غورکر رہاتھا جو سراسر میرے خلاف تھے۔ مایوسی بڑھ گئی تھی۔ جب اتنے سارے لوگ میرے خلاف تھے تو اکیلا عمران کیا کر سکتاتھا؟
اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ فوٹو گرافرکا رویہ رادھا کی پراسرار طاقت کاکرشمہ ہوگ لیکن اس کی غیرموجودگی اس بات کی نفی کر رہی تھی۔۔۔فوٹوگرافر کے رویے کی وجہ کچھ بھی ہولیکن میرے سر سے وقتی طور پروہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ بقول عمران میرے خلاف پرچہ کٹ چکاتھاجسے سبین کے بیان نے اورموثر بنادیاہے۔ اس نے کھل کرمیرے خلاف بیان دیاتھا لیکن وہ یہ نہ بتا سکی تھی کہ وہ میرے ساتھ گھر کیوں گئی تھی؟ عمران کو یہ معلومات محرر سے حاصل ہوئی تھیں۔ ابھی تک ایک دو سپاہیوں کے علاوہ کوئی اس طرف سے نہ گزرا تھا۔ عمران سے ملنے والی معلومات کے بعد صحیح معنوں میں مجھے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔میرے ہاتھ پر خراش بھی آتی تو صائمہ تڑپ کررہ جاتی۔ اب میرا جسم لہولہوتھالیکن ہمدردی کے دوبول کہنے والابھی کوئی نہ تھا۔ لیکن میں تو اس سے بھی بدتر سلوک کامستحق تھا۔ بے بس وبے یارومددگار۔سبین نے کتنی منتیں کی تھیں؟ لیکن میرے کان پر جوں نہ رینگی تھی۔ اب۔۔۔میری فریادکون سنتا؟ اب تو شاید ساری زندگی مجھے جیل میں گزارنا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔
شام کا ملگجااندھیرا اب گہری تاریکی میں تبدیل ہورہا تھا۔ اس حالت میں تو میں اپنے رب کے حضورجھک بھی نہ سکتا تھا۔ جنابت کی حالت میں کوئی دعا بھی نہیں مانگ سکتاتھا۔ کاش مجھے غسل کی سہولت میسر آجاتی تو سر سجدے میں رکھ دیتا۔ آہ۔۔۔بدقسمت اور بد بخت فاروق خان سوائے آہیں بھرنے کے کچھ نہ کر سکتاتھا۔ میں سرجھکائے بیٹھا تھا کمرے میں اچھا خاصا اندھیرا ہوگیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے میری کمر دہری ہو گئی تومیں وہیں فرش پر لیٹ گیا۔کہ اچانک ایک منحوس آواز کانوں میں پڑی۔
یہ آواز کیا تھی سیسہ تھا پگلا ہوا۔
’’بہت نراش دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔بالک!‘‘
میں اس بری طرح اچھلاجیسے کسی بچھو نے ڈنک ماردیا ہو۔ ساتھ ہی کمرے میں مدہم روشنی پھیل گئی جسکا مخرج حسب معمول نظر نہ آرہا تھا۔ تیزی سے اٹھ کر بیٹھنے سے میرے زخموں سے ٹیسیں نکلنے لگیں۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکل گئی جسے میں نے بمشکل ہونٹوں میں دبایا۔
کالی داس مجھ سے کچھ فاصلے پر دیوار سے ٹیک لگائے بڑے اطمینان سے بیٹھاتھا۔ اس وقت اس کے نحیف جسم پرایک دھوتی تھی۔ جب وہ لوگوں کو لے کرمیرے بیڈ روم میں آیاتھا تو اس نے مقامی لوگوں کی طرح دھوتی کرتہ پہن رکھا تھا۔ لمبے سفیدبال اس کی پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا حلیہ ہمارے ہاں اکثر درویش قسم کے لوگ اپناتے ہیں لیکن وہ اس کا بہرروپ تھا۔ وہ توشیطان صفت آدمی تھا بلکہ اسے آدمی کہنا آدمیت کی توہین تھی۔
’’اور تم کیا ہو۔۔۔؟‘‘ ضمیر کی ملامت سے میرا سرجھک گیا۔
’’ابھی تیری پریمیکا آکر تجھے اس کشٹ سے بچاکرلے جائے گی‘‘ اسنے میرا مضحکہ اڑایا۔
میری رگوں میں خون کی بجائے لاوا دوڑنے لگا۔ زخمی جسم لے کر میں تیزی سے کھڑا ہوگیا۔ چاہتا تھا زمین کو اس کے گندے وجودسے پاک کر دوں۔ وہ بڑے اطمینان سے مجھے اپنی طرف بڑھتے دیکھتا رہا آج اس نے میرے جسم کو بے حس و حرکت نہ کیا تھا۔ میں تیزی سے اس پر جھپٹا۔ قریب تھا کہ اس بوڑھے ڈھانچے کا گلا دبا دیتا، کسی نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ زخموں سے چور جسم جیسے ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ کمرہ سادھو کے خوفناک قہقہے سے گونج اٹھا۔ میں چاروں شانے چت پڑا تھا۔
’’تو نے پچھلی بارکہا تھا یدی میں تمرے شریرکو اپنی شکتی سے نہ باندھتا تو مجھے نشٹ کر دیتا۔ اسی کارن اس بارمیں نے تیرے شریر کو نہ باندھا کہ تو اپنے من کی حسرت نکال لے آ۔۔۔آگے بڑھ اور میرا کریہ کرم کر دے کس بات کی دیر ہے؟‘‘ اس نے میری حالت دیکھتے ہوئے مضحکہ اڑایا۔
’’میں بھی تو دیکھوں تو کتنابلوان ہے؟‘‘ اس کی ہرزہ سرائی جاری رہی۔ میں ہمت کرکے دوبارہ اٹھا۔ اس بار میں محتاط انداز میں اس کی طرف بڑھا۔ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا اس کے ہونٹ دائرے کی صورت میں سکڑ گئے۔ میں بجلی کی سی تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا تھوک مجھ سے دوانچ کے فاصلے سے گزر کرفرش پر جا پڑا۔ اسکے گندے تھوک کی اذیت میں ابھی بھولانہیں تھا۔ میرے اور اس کے درمیان چار پانچ قدموں کافاصلہ رہ گیا تھا۔ میں ہوا میں اچھلا اور اس پرچھلانگ لگا دی۔ لیکن کسی نادیدہ ہاتھ نے مجھے ہوا میں معلق کر دیا۔ چھت کے قریب جا کرمیں سرکر بل گرنے لگا۔ زمین تیزی سے میری طرف بڑھ رہی تھی اس عالم میں اگر میں زمین پر گرتا تومیرا سر پاش پاش ہو جاتا لیکن اب جینے کی خواہش کسے تھی؟جس قدر ذلت میں اٹھا چکاتھا اس کے بعدمیں خود بھی جینا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن موت بڑی ظالم چیز ہے انسان زندگی سے جس قدر بھی تنگ ہومرنا نہیں چاہتا۔ قریب تھا کہ زمین سے ٹکراکرہمیشہ کی نیندسو جاتا مجھے محسوس جیسے میرا پاؤں کسی کی گرفت میں آگیا ہے۔ خوفناک جھٹکے نے میرے اوسان خطا کردیے۔ دردکی شدید لہرنے احساس دلایا جیسے ٹانگ کولہے کے جوڑسے نکل گیا ہو۔جیسے ہی میرے حواس بحال ہوئے میں نے دیکھا میں بالکل کالی داس کے اوپرمعلق تھا۔ میرے ہاتھ اس کے سر سے انچ دو انچ کے فاصلے پر ہوا میں لہرا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا اسکا گلادبوچ لوں تاکہ اسکے گندے جسم سے بدروح پروازکرجائے۔ اس کے مکروہ ہونٹوں پرموجودہ طنزیہ مسکراہٹ نے مجھے مزید مشتعل کردیا۔
’’کاش میں بھی پراسرار قوتوں کاماہر ہوتا تو اس خبیث کوابھی مزا چکھادیتا۔‘‘
’’کیوں بالک! اب کیا وچارہیں یدی اب بھی تومیرا کہامان لے تومیں تجھے شماکر سکتا ہوں‘‘ اس بار اس کا لہجہ بدلہ ہوا تھا۔ پھر چھت کی طرف دیکھ کر اس نے اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میں آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔میری دائیں ٹانگ کسی نادیدہ گرفت میں تھی۔ کسی نے مجھے آرام سے نیچے اتار کرپشت کے بل لٹادیا۔
’’اٹھ کر بیٹھ جا‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’ابھی سمے گیانہیں۔۔۔مورکھ نہ بن میری آگیا کا پالن کرکے تو ایک بارپھر عجت (عزت) سے سنسار میں رہ سکتا ہے‘‘
میں اس کی بات سن کر چونک گیا۔ وہ گہری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ میں ایک بار پھر معاشرے میں عزت کی زندگی جینا شروع کر دوں۔
’’میرے بارے اپنے وچار ٹھیک کر، میں اتنا برا نہیں۔۔۔متروں کا متر ہوں۔پرنتو بیریوں کے سنگ تو کوئی منش اچھا برتاؤ نہیں کرتا۔ تیری پریمیکا اور تو نے میرے سنگ کیا کیا تھا۔۔۔یاد ہے؟‘‘
’’کیا یہ اس خبیث کی کوئی نئی چال ہے؟‘‘ میں سوچ میں پڑ گیا۔
’’تیرے وچار غلط ہیں۔۔۔میں نے کہا نا، میں تیری سہائتاکر سکتا ہوں پرنتو تجھے میری آگیا کا پالن کرناہوگا‘‘ اسنے ایک بار پھر مجھے یقین دلایا۔
’’توکیا چاہتاہے؟‘‘ میں نے کچھ سوچ کر پوچھا۔ اس وقت اگر خبیث کی بات مان کرمیرا چھٹکارا ہو سکتا تھا تو دانشمندی اسی میں تھی کہ اسکی بات مان لی جائے۔
’’میں کالی ماتا کی آگیا کے انوسار رادھا کوحاصل کرنا چاہتا ہوں‘‘ اسنے اپنا مطالبہ دہرایا۔
’’رادھا کو حاصل کرناچاہتا ہے؟ یاد ہے اسنے کس طرح تجھے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیاتھا؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی میرا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔ یکبارگی اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’ایسی باتیں نہ کر کہ ایک بار پھر تجھے کشٹ بھوگنا پڑے۔‘‘
’’لیکن اس سلسلے میں میں تمہاری کیا مددکرسکتا ہوں؟‘‘ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’جیسا میں کہوں کرتا جا پھر دیکھ۔۔۔سنسار کو میں تیرے واسطے سورگ(جنت) بنا دوں گا تیری ہرمنو کا منا (خواہش) پوری ہوگی۔ تو جس اچھا کاوچاراپنے من میں لائے گا اوش پوری ہوگی‘‘ وہ مجھے لالچ دے رہاتھا۔
’’میں ابھی تک تمہاری بات نہیں سمجھا‘‘ اسکی باتوں سے میں بری طرح الجھ گیاتھا۔
’’رادھا کا جاپ پورا ہونے میں ابھی کچھ سمے باقی ہے ۔یدی مجھے وچن دے کہ تو سمے آنے پر میری آگیا کاپالن کرے گا تو میں تیری سہائتاکرنے پرتیار ہوں‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’کھل کر بات کرو تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر وہ مجھے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے بولا۔
’’رادھا تجھ سے پریم کرتی ہے میں جانتاہوں تم دونوں کے بیچ کیسا سمبندھ ہے؟ تجھے کیول اتناکرنا ہوگا کہ جب وہ تجھ سے ملنے آئے تومجھے کھبر کردے۔‘‘
اس بار اس نے وضاحت کی۔ مجھے رادھا کی بات یاد آئی۔
’’سنسارکے سارے پنڈت پجاری مجھے پراپت کرنے کے کارن دھونی رمائے بیٹھے ہیں‘‘ میں اچھی طرح سمجھ رہاتھاکہ یہ منحوس کیا چاہتاہے؟ اس سے قبل اس کا چیلا امر کماربھی اس قسم کامطالبہ کرچکاتھا لیکن اسنے شرط رکھی تھی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ میرے چہرے پرکشمکش دیکھ کروہ بولا۔
’’تو اپنی پتنی کوچھوڑے بنا بھی میری سہائتاکر سکتا ہے امرکمارمیرا چیلا تھا اس نے ابھی اتنی شکتی پراپت نہ کی تھی اسی کارن اس نے تجھ سے تیری پتنی کوچھوڑنے کو کہا تھا پرنتو۔۔۔میں ایسی کوئی بات نہ کہوں گا۔ میری اچِھا تو کیول یہ ہے تو من سے میری بات مان لے۔ پرنتو اس بات کا اوش دھیان رکھنا یدی تونے میرے سنگ چھل کپٹ کیا توتوجانتا ہے کالی داس کس شکتی کا نام ہے؟‘‘ کچھ دیر وہ میرے چہرے کے تاثرات کاجائزہ لیتا رہا پھر کہنے لگا‘‘ میں یہ بھی جانتاہوں رادھا کے آنے کے بعد تو ایک بارپھر میرے آڑے آنے کی اوشکتا کرے گا۔ پرنتو اس بار وہ مجھے کشٹ دینے میں سپھل نہ ہوپائے گی۔‘‘
’’لیکن اس دن تو ایسا ہی ہواتھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں تجھے بتا چکا ہوں اس دن کچھ اور شکتیاں بھی تیری سہائتا کر رہی تھیں اسی کارن وہ مکت(کامیاب) ہوگئی تھی۔ نہیں تو رادھا کالی داس کی شکتی کوجانتی ہے۔‘‘ اس نے گردن اکڑا کرکہا۔
’’اگر میں ایسا کرنے کا وعدہ کربھی لوں تو اب تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو؟یہ معاملہ تو اتناالجھ چکا ہے کہ اب تم چاہو بھی تو نہیں سلجھا سکتے‘‘ میں مایوس ہو چکا تھا۔
’’تو نے ابھی کالی داس کی شکتی دیکھی ہی کہاں ہے بالک! مجھے وچن دے پھر دیکھ میں کرتا ہوں؟‘‘ اس کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا وہ سچ بول رہا ہے۔
’’لل ۔۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ سارے شہر میں میرے خلاف ہنگامے ہو رہے ہیں؟پرچہ کٹ چکا سبین نے اپنا بیان بھی دے دیا ہے اب تو۔۔۔‘‘
’’تو یہ باتیں چھوڑ کیول اس بات پردھیان دے جو میں کہہ رہا ہوں تجھے بچانا میرا کام ہے۔ پرنتو دھیان رہے یدی۔۔۔تو وچن دے کر پھر گیا تو تجھے میرے شراپ سے بچانے والا اس سنسارمیں کوئی نہ ہوگا۔ میں جانتا ہوں اس سمے من میں رادھا کے واسطے کرودھ ہے پرنتو اس کے آنے کے بعد ہو سکتا ہے تیرے من میں اس کا پریم پھر جاگ جائے اور تو اپنے وچن سے پھر جائے۔ یدی ایسا دھیان بھی تو اپنے من میں لایا تو اتنا یاد رکھنا کالی داس تجھے کبھی شما نہ کرے گا۔‘‘
یہ ایساموقع نہ تھا کہ اس کی باتوں کا برا مانا جاتا۔ میں اس کی دھمکی کو زہرکے گھونٹ کی طرح پی گیا۔ ضبط سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ میری کیفیت دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔
’’کالی داس کا متربن کر دیکھ۔۔۔کالی داس تیرے چرنوں میں سندرکنیاؤں کا ڈھیر لگا دے گا۔ رادھا سے بھی سندر کنیائیں۔ یدی تجھے میری بات پروشواس نہ ہو تومیں تجھے ابھی چمتکاردکھا سکتاہوں‘‘ مجھے اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے پاکر وہ معنی خیز انداز سے مسکرایا۔
’’میں جانتاہوں تو کیول میرے کہے پر وشواس نہ کرے گا اب دیکھ کالی داس کیاکرسکتاہے؟‘‘
وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا ۔اس کے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی۔ دوسرے ہی لمحے حوالات کے کمرے میں بسنتی ظاہر ہوگئی۔ وہی بسنتی جس کی بات مان کر میں اس حال کوپہنچا تھا۔ میں آپ کوپہلے بھی بتا چکاہوں کہ وہ اس قدر حسین تھی کہ اس پر سے نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ میری اس حالت کی ذمہ دار بسنتی ہی تھی پھر بھی اسے دیکھ کرایک لمحے کے لیے میں ڈول گیا۔ اس نے نہایت مختصر لباس پہن رکھا تھا جس سے اس کاکندن بدن دمک رہاتھا۔
’’پرنام مہاراج‘‘ اس نے کالی داس کوہاتھ باندھ کر سلام کیا۔ اس کے بعد وہ میری جانب مڑی اور ہاتھ جوڑ دیئے اس کے ہونٹوں پر بڑی ہی شوخ مسکراہٹ تھی۔
حسین آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ اچانک مجھے اپنی تذلیل یاد آگئی جسکی ذمہ دار صرف اور صرف بسنتی ہی تھی ۔میرا چہرہ تپ گیا۔ رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔میرا خیال درست تھا کالی داس کی اس سازش میں بسنتی پوری طرح شریک تھی۔
’’مجھ ابھاگن پرکس کارن خفا ہو مہاراج؟ میں نے تو کیول مہاراج کالی داس کی آگیا کاپالن کیا ہے‘‘ اسکی مدہر آوازآئی۔ میرے چہرے سے دلی کیفیات عیاں تھیں۔
’’بسنتی تم نے دھوکہ دیا ہے۔ رادھا تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘ میرا لہجہ خود بخود سرد ہوگیا۔
’’اب چھوڑو بھی پرانے جھگڑے فاروق خان! ہم متر بن چکے ہیں اور متروں کے واسطے من میں کرودھ رکھنا پاپ ہے‘‘ کالی داس کے ہونٹوں پردوستانہ مسکراہٹ تھی۔ لیکن مجھے اس خبیث کی کسی بات پر اعتبار نہ رہا تھا۔
’’یدی تمرا من صاف نہیں ہے تو میں جاتاہوں اسکے بعد تیرے سنگ جوہوگا وہ تو بھگت نہ پائے گا‘‘ایک بار پھر اس نے مجھے دھمکایا۔ دل تو چاہ رہا تھا ان دونوں کو جان سے مار دوں لیکن یہ میرے اختیارمیں نہ تھا۔
’’ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں میں تمہاری بات مانوں گالیکن تم بھی یہ وعدہ کرو کہ مجھے اس مصیبت سے چھٹکارا دلاؤ گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوناچاہئے کہ یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہوگا۔ اور رادھاکے سلسلے میں میں تمہاری کیامددکر سکتاہوں؟‘‘ بالآخر میں نے کہا۔
’’تو بڑا بھاگی شالی ہے کالی داس نے تجھے اپنامترمان لیا ہے۔ اب دیکھنا کالی داس تجھے اس کشٹ سے کیسے نکالتاہے؟‘‘ اس کے لہجے میں تکبر بول رہاتھا۔
’’رہی بات رادھا کی ‘‘ کچھ دیر وہ پُر خیال نظروں سے میری طرف دیکھتا رہاپھر کہنے لگا’’جب رادھاجاپ سے واپس آکر تجھ سے شریر کاسمبندھ جوڑنے آئے تو تو کیول مجھے کھبر کردینا‘‘ اس نے بڑے آرام سے مجھے سمجھایا۔
’’لیکن میں تمہیں کیسے بتاؤں گا؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’سمے آنے پر میں تجھے سمجھا دوں گا۔ پرنتو اس سمے کیول اتنا جان لے جب رادھا تجھ سے شریرکا سمبندھ جوڑنے کو کہے تو تو کہنا آج نہیں کل۔ اس کے بعد تو میری آگیاکاپالن کرتے ہوئے مجھے کھبرکردینا۔ باقی میں کھد دیکھ لوں گا۔ ‘‘ اس نے اپنامدعا واضح کیا۔ اسکی بات سے میں یہ سمجھا کہ جب میں اور رادھا ملتے ہیں تو وہ کوئی ایسا بندوبست کرلیتی ہے جس سے کالی داس کو ہمارے ملنے کی خبر نہیں ہوسکتی۔
’’ٹھیک ہے کالی داس! میں تمہاری بات ماننے پر تیار ہوں‘‘ میں نے کہا۔ اس کے مکروہ ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ اس دوران بسنتی بالکل خاموش کھڑی رہی ۔میری بات ختم ہونے پر اس نے کالی داس سے کہا۔
’’مہاراج مجھے جانے کی آگیا دو ۔میرے بھوجن کا سمے ہو رہا۔‘‘
’’ہاں تو جا۔۔۔جب تیری جرورت ہوگی میں بلا لوں گا‘‘ کالی داس نے لگاوٹ بھری نظروں سے بسنتی کو دیکھا۔
’’مہاراج ! اپنا وچن یاد رکھنا۔ یدی تم بھول گئے تو بسنتی بھی اپنے وچن سے پھر جائے گی‘‘ دوسرے ہی لمحے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اس کے جانے کے بعد کالی داس میری طرف متوجہ ہوا۔
’’تجھے کس بات کی چنتا ہے؟ میں نے جو کہہ دیا کہ اب ہم متر ہیں اور کالی داس کے متر کو کشٹ بھوگنا پڑے یہ اسمبھو(ناممکن) ہے جانتا ہوں اتنی جلدی تو مجھ پر وشواس نہ کرے گا۔ ٹھہر۔۔۔تجھے ایک اور چمتکار دکھاتا ہوں۔ پرنتو دھیان رہے کسی کے سامنے مجھے آواج نہ دینا۔‘‘
میں ابھی اس کی بات کا مطلب پوچھنے ہی والا تھا کہ باہر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے گھبرا کر کالی داس کی طرف دیکھا جو بڑے اطمینان سے اپنی جگہ نیم دراز تھا۔ کمرے میں یکدم اندھیرا چھا گیا۔
’’کمرے میں اندھیرا کیوں ہے؟‘ دروازے کے باہر سے آواز آئی۔
’’سر جی! شاید بلب فیوز ہوگیا ہے‘‘ جواب ملا۔ اس کے بعد تالا کھلنے کی آواز آئی۔
’’جا بھاگ کر ایمرجنسی لائٹ لے آ‘‘ پہلے والے نے کہا۔ تیز قدموں سے کسی کے جانے کی آواز آئی۔ اندھیرا اتنا بھی گہرا نہ تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو۔ دروازے کے سامنے ایک درازقد شخص کا ہیولا دکھائی دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہی آدمی ہاتھ میں جلتی ہوئی ایمرجنسی لائٹ پکڑے آگیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور دونوں اندر آگئے۔ ایک نے وردی پہنی ہوئی تھی جبکہ ایمرجنسی لائٹ پکڑے ہوئے آدمی سادہ لباس میں تھا۔
’’سر جی! ذرا اسے پکڑیں میں بلب لگا دوں‘‘ سادہ لباس نے وردی والے سے کہا پھر بلب لگا کر لائٹ آن کر دی۔ کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ وردی میں ملبوس شخص کے کندھے پر لگے سٹارز اسے انسپکٹر ظاہر کر رہے تھے جبکہ دوسرا شاید سپاہی تھا۔ انسپکٹر نے مجھے غور سے دیکھا۔
’’کھڑے ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا۔ میں بمشکل اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے کالی داس کی طرف دیکھا وہ بڑے اطمینان سے نیم دراز تھا۔ مجھے اس کی ہدایت یاد تھی کسی کے سامنے میں اسے مخاطب نہ کروں۔ انسپکٹر میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لے رہا تھا۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم بے گناہ ہو۔ میں تو شکل سے مجرم کو پہچان لیتا ہوں‘‘ پھر سپاہی کی طرف مڑا۔
’’اسے کچھ کھانے کو بھی دیا ہے یا نہیں؟‘‘
’’سر جی! صاحب جی کا آرڈر تھا کہ اسے کچھ نہیں دینا‘‘ سپاہی نے کہا۔
’’وہ تو پاگل ہے اس کی نظر میں ہر شخص مجرم ہے ۔۔۔جاؤ اس کے لئے کچھ کھانے پینے کو لے آؤ‘‘ اس نے ’’صاحب جی‘‘ کو برا بھلا کہتے ہوئے سپاہی کو حکم دیا۔ وہ فوراً باہر چلا گیا۔
’’میرا نام انسپکٹر عادل ہے۔ میری پولیس سروس کو پچیس سال ہوگئے ہیں۔ میں شکل سے ہی مجرم کو پہچان لیتا ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ تم مجرم نہیں لیکن یہ بات بھی میری سمجھ سے باہر ہے سب لوگ تمہارے خلاف کیوں ہیں؟کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘ اس نے بڑے مہذب انداز میں سوال کیا۔
’’اس سے کہہ تجھے کسی بات کی جانکاری نہیں۔ جی اچھا نہ ہونے کے کارن تو گھر پر تھا کچھ منش آئے۔ انہوں نے تیرے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور تجھے مار مار کر تیری یہ دشا بنا دی۔ اس کے بعد تجھے کچھ کھبر نہ رہی۔ جب ہوش آیا تو یہاں حوالات کے کمرے میں پڑا تھا‘‘ کالی داس نے کہا۔ میں نے چونک کر پہلے کالی داس پھر انسپکٹر کی طرف دیکھا۔ وہ کالی داس کے وجود سے بے خبر مجھے دیکھ رہا تھا ’’یہ مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘ کالی داس میری پریشانی بھانپ کر بولا۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق تھانیدار کو وہی کہانی سنا دی۔
’’کون لوگ تھے اور انہیں تم سے کیا دشمنی ہے؟‘‘ میں نے پھر کالی داس کی طرف دیکھا۔
’’کچھ اپنی بدھی سے کام لے لے ‘‘ اس کی بیزار آواز آئی۔
’’یہ تم بار بار پیچھے کیوں دیکھنے لگتے ہو؟‘‘ تھانے دارنے نرمی سے پوچھا۔ وہ ایک سلجھا ہوا شخص تھا۔
’’میرے گھر کے سامنے ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر حیات رہتا ہے ۔وہ اس گھر کو خریدنا چاہتا تھا لیکن پروفیسر صاحب جو اس مکان کے مالک ہیں انہوں نے مجھے کرایہ پر دے دیا ۔اس بات کا اسے بہت رنج ہے۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ میں تمہیں یہاں زیادہ دیر تک ٹکنے نہیں دوں گا‘‘ میری جو سمجھ میں آیا میں نے کہہ دیا۔
’’ہوں۔۔۔یہ بات ہے جبھی وہ بڑھ بڑھ کربول رہا تھا‘‘ اس نے کہا۔
’’سامنے والی کوٹھی میں ساجد نامی ایک شخص رہتا ہے ۔وہ عمر حیات کا گہرا دوست ہے۔ اس نے بھی کئی بار مجھے دبی دبی زبان میں کہا تھا کہ میں یہ گھر چھوڑ دوں نہیں تو پچھتاؤں گا‘‘ میں نے اپنی بات میں اضافہ کیا۔ لاشعوری طور پر میں نے ساجد سے بدلہ لیا تھاکیونکہ مجھے مارنے والوں میں وہ پیش پیش تھا۔
’’ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا تم بالکل بے فکر ہو جاؤ ۔ابھی کرم دین کھانا لاتا ہے وہ کھا لو۔ چارپائی اور بسترمیں بجھوا دیتا ہوں آرام سے سو جاؤ کسی بات کی فکر نہ کرنا صبح عدالت سے ضمانت ہو جائے گی۔ اگرمیرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں ابھی گھر جانے کی اجازت دے دیتا لیکن تمہارے خلاف پرچہ کٹ چکا ہے تمہیں صبح میں خود عدالت میں لے کر جاؤں گا۔ کسی بات کی فکر نہ کرنا جس درندگی سے انہوں نے تمہیں مارا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے میں نے تمہاری مرہم پٹی نہیں کروائی کہ جج صاحب کے سامنے میں تمہیں اسی حالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں‘‘۔اس نے ملائمت سے مجھے سمجھایا۔
’’اچھا اب میں چلتا ہوں تم کسی بات کی فکر نہ کرنا میں تمہارا دفاع بھرپور طریقے سے کروں گا‘‘ اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گیا لیکن اس باراس نے دروازہ بند کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ابھی وہ گیا ہی تھا کہ سپاہی کرم دین میرے لئے کھانا لے آیا۔ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے مجھے بھوک کا احساس دلایا۔صبح سے اب تک میں نے سوائے ایک جوس کے ڈبے کے کچھ کھایا پیا نہ تھا۔
’’صاحب جی! پیٹ بھر کر کھاؤ اور کسی بات کی فکر نہ کرو ہمارا صاحب بہت اچھا آدمی ہے۔ وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘ اس نے کھانا میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔ جاتے ہوئے اس نے دروازہ بند تو کر دیا لیکن اس میں تالا نہیں لگایا۔
’’بھوجن کر لو پھر باتیں کریں گے‘‘ کالی داس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ کھانا دیکھ کر میں اس کی موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا۔
’’آجاؤ تم بھی کھا لو‘‘ میں نے اسے دعوت دی۔ اس میں وقت اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر اسکی ہر بات ماننے کے لئے تیار تھا اور اس کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔
اس نے گہری نظروں سے دیکھا ۔
”تم کھاﺅ….میں بھوجن کرکے آیا تھا“ اس نے کہا۔ جب میں کھانے سے فارغ ہوا تو اس نے کہا۔”دیکھا مہاشے! کیسے ایک پل میں میں نے کایا پلٹ دی؟ یہی منش آج کی رینا تمری ہڈیوں سے گودا نکالنے والا تھا پرنتو اب کیسے تمرا داس بنا کھڑا تھا؟“ اس نے بڑے فخر سے کہا۔
”کالی داس! میں تم سے اپنے پچھلے رویے کی معذرت چاہتاہوں دراصل رادھا کی محبت میں میں اندھا ہوگیا تھا“ میں نے کہا۔ اگر کالی داس مجھے اس مصیبت سے چھٹکارہ دلوا دیتا تو اسکا بہت بڑا احسان ہوتا۔ اس وقت اس کی جس قدر ہمدردی میں حاصل کر سکتا میرے لئے بہتر تھا۔
”اب چھوڑ بھی پرانی باتیں جب ہم متر بن چکے ہیں تو کاہے کی چنتا؟“ اس نے بے پرواہی سے کہا۔
”تو نے جو کتھا(کہانی) اس کو مورکھ کو سانئی ہے میرا من بہت پرسن ہوا ہے آج کی رینا جوکشٹ تجھے بھوگنا پڑے گا۔ اس کے لئے مجھے شما کرنا کل ساری کٹھنائیوں سے تیری جان چھوٹ جائے گی“ اسنے معذرت بھرے لہجے میں کہا۔
”معافی تو مجھے مانگنی چاہئے کہ میں نے رادھا کے ساتھ مل کر تمہیں بہت دکھ دیا ہے ہاں ایک اور بات بھی مجھے تم سے کہنا ہے جب تم ….“
”جانتاہوں تو کیا کہنا چاہتا ہے کھیدو چوہڑے اور سپنا کی ہتھیا کو میں بھول نہیں پایا۔ پرنتو وہ رادھا کا اپر ادھ ہے تو نردوش ہے“ اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔ وہ بھی رادھا کی طرح دل کی بات جان لیتا تھا۔
”کیول اتنا جان لے ، یدی رادھا کے آنے پر تو نے میرے سنگ چھل کیا تو ….“ اس کی ادھوری بات میں دھمکی پوشیدہ تھی۔
”کیا تم اب بھی یہ سمجھتے ہو کہ میں رادھا کا ساتھ دوں گا جس کی وجہ سے آج میں اس حالت میں حوالات میں پڑا ہوں؟ یہ سب کچھ اس بدبخت کی وجہ سے ہی تو ہوا ہے ورنہ میں تو ایک سیدھی سادھی زندگی بسر کرنے والا انسان ہوں۔ نہ رادھا مجھے ملتی نہ یہ دن دیکھنا پڑتے“ میں نے اس کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر رادھا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بات تھی بھی سچ، ان حالات کی ذمہ دار رادھا ہی تھی۔
”تو بہت بدھی مان ہے۔ یدی تو ستیہ کہہ رہا ہے تو سن اب کالی داس کی شکتی تجھے ان کٹھنائیوں سے یوں نکال کر لے جائے گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور کالی داس کا متر بن کر توگھاٹے میں نہیں رہے گا۔ رادھا تو کچھ بھی نہیں ایسی ایسی سندرکنیائیں تیرے چرنوں میں بٹھا دوں گا کہ تو آکاش کی اپسراﺅں کو بھی بھول جائے گا“ اسنے مجھے لالچ دیا۔
”ٹھیک ہے کالی داس! اگر تم نے اپنا وعدہ پورا کیا تو مجھے ہمیشہ اپنا دوست پاﺅ گے“میں نے اسے یقین دلایا اور دل میں اسی بات کو دہرانے لگا۔وہ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
”دھن باد خان صاحب! تم ایک گھر سے منشہور جو کچھ تمرے من میں ہے ۔وہ میں جانتا ہوں اب تو کسی بات کی چنتا نہ کر دیکھ کالی داس کیا کرتا ہے۔ تجھے ابھی کالی داس کی شکتی سے جانکاری نہیں کیول آج کی رینا اس کوٹھڑی میں بتا لے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا“ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں نے منہ سے کچھ نہ کہا بس سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی۔
تھوڑی دیر بعد سپاہی کرم دین چارپائی اور بسترلے آیا۔ اس کے جانے کے بعد کالی داس بولا۔
”اب مجھے آگیا دے….ابھی جا کر بہت کچھ کرنا ہے پرنتو تو چنتا نہ کرناسب ٹھیک ہو جائے گا۔“
میں نے ایک بار پھر اسکا شکریہ ادا کیا۔اچانک وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھا نے مجھے بتایا تھا کہ کالی داس زبردست پراسرار قوتوں کا مالک ہے۔ اس کے لئے نظروں سے اوجھل ہونا یا ہزاروں کوس دور پہنچ جاتا کوئی مشکل بات نہیں۔
میری چوٹوں میں بہت درد ہو رہا تھا۔ کمبختوں نے بری طرح میری دھنائی کی تھ۔
”کیا کالی داس واقعی میری مدد کرے گا؟“ لیکن اس وقت اس پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران دوبارہ نہیں آیا تھا میں دکھتے جسم کے ساتھ لیٹ گیا۔ سارے واقعات ایک بار پھر میرے ذہن میں تازہ ہوگئے۔ مجھے خود سے شرم آرہی تھی۔ جو کچھ میں نے اس مجبور اور بے بس لڑکی کے ساتھ کیا تھا اور اس کی سزا تویہی تھی کہ مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ لیکن میں خود غرض ہوگیا تھا۔ میرے سامنے صائمہ اور بچوں کے چہرے آگئے۔ مجھے اپنی سزا کی اتنی فکر نہ تھی ،جو کچھ میں نے کیا تھا میں واقعی سزا کا حقدار تھا۔ لیکن صائمہ اور بچے….ان کا قصور کیا تھا؟ اگرمیں جیل چلا جاتا تو ان کا پرسان حال کون ہوتا؟ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا۔ شاید بلب پھر فیوز ہوگیا تھا۔ اچانک میرے نتھنوں سے خوشبو کا جھونکا ٹکرایا۔ کمرے میں کسی اورکی موجودگی کا احساس ہوا۔
”رادھا….؟“ میرے ذہن میں فوراً خیال آیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن رادھا جب آتی تو گلاب کی مہک سے کمرہ بھر جاتا۔ خوشبو تو اب بھی آرہی تھی اور بہت ہی مسحور کن مہک تھی لیکن یہ گلاب کی خوشبو نہ تھی۔
”مہاراج ! مجھے شما کر دو۔“ کمرے میں بسنتی کی مدہر آوازآئی۔
”بسنتی….؟“ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
ہاں مہاراج ! میں ابھاگن بسنتی ہی ہوں“ اس کی مغموم آواز آئی۔
”مجھے شما کر دو۔ میں نے گھور پاپ کیا ہے پرنتو میں تمرے پریم میں پاگل ہوگئی تھی۔ تم ہو ہی اتنے سندر کہ کوئی بھی ناری تمہیں دیکھ کرکچھ بھی کر سکتی ہے۔“
اچانک کمرے میں دودھیا روشنی پھیل گئی جیسے چاند نکل آیا ہو۔ واقعی کمرے میں چاند نکل آیا تھا۔ بسنتی میری چارپائی کے بالکل پاس کھڑی تھی۔ اس کے وجود سے اٹھتی مہک میرے مشام جان کو معطرکیے دے رہی تھی۔ گہرے نیلے رنگکے مختصر گھاگرے چولی میں اس کا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ پیار سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کراس نے مجھے لٹا دیا اور میرے اوپر جھک آئی۔ اس کی گرم سانسیں میرے چہرے کو چھونے لگیں۔ میں ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ حدت سے اس کا پنڈا تنور بنا ہوا تھا۔
”آج کی رینا مجھ سے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل آتما شانت ہو جائے“ اس کی خمار آلود سرگوشی ابھری۔
”جس سمے میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا میرا من میرے بس میں نہیں ر ہاتھا۔ تم تو دیوتاﺅں سے بھی جیادہ سندرہو۔ میں نے آج تک تمرے جیسا سندر منش نہیں دیکھا“ وہ میرے اوپر چھا گئی ۔ گھنے سیاہ بالوں نے مجھے ڈھک دیا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ اس وقت حوالات کے کمرے میں سزا کا منتظر ہوں کل میرے ساتھ کیا ہوگا میں یہ نہیں جانتا تھا؟ بسنتی کے قرب نے جیسے دنیا سے بیگانہ کر دیا تھا۔
”پریم“ وہ میرے اندر جذب ہونے لگی۔ اس کی خود سپردگی دیکھ کر میں بھی زیادہ دیر بے حس نہ رہا سکا۔ خود بخود میرے ہاتھ حرکت میں آگئے۔ اس کی نرم و نازک انگلیاں میرے بالوں میں الجھ گئیں۔ ماتھے پر ہاتھ لگا تو زخم میں درد کے باعث میرے منہ سے سسکاری سی نکل گئی۔
”کیا ہوا میرے میت؟ مجھ سے پریم کرونا“ اس کے چین آواز آئی۔
”تمہارا ہاتھ لگنے سے زخم میں درد شروع ہوگیا ہے میرا سارا جسم زخموں سے چور ہے اس حالت میں میں کیسے تمہاری”خواہش پوری کر سکتا ہوں؟“ میں نے کراہتے ہوئے کہا۔
”پریتم! ابھی تمرے سارے دکھ سکھ بدل دیتی ہوں، یدی تم آگیا دو تو میں اسی سمے ان پاپیوں کے گھربھسم کر دوں جنہوں نے تم پر انیائے کیا ہے“ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ شاید وہ میرے زخموں کو ٹھیک کرنا چاہتی تھی کہ مجھے انسپکٹر کی بات یاد آئی اس نے کہا تھا کہ وہ اسی حالت میں مجھے جج صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ میرے حق میں بہتر تھا۔ جج کی ہمدردی میرے ساتھ ہوتی۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بسنتی کو روک دیا۔
”ٹھیک ہے پرتم! سب کچھ ایسے ہی رہے گا پرنتو تمہیں درد نہیں ہوگا“ اس نے کہہ کر میرے جسم پر اپنا کومل ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں اس کے ہاتھ کا میرے جسم پر پھرنا تھا کہ یکدم درد سے نجات مل گئی۔
”بسنتی ! میں جانتا ہوں کہ تم ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر سکتی ہو لیکن کالی داس چاہتا ہے کہ میں باعزت طور پر بری ہو جاﺅں، اگر تم نے ان کے گھر جلائے تو ہو سکتا ہے میں ساری زندگی جیل کی سلاخوں سے نہ نکل سکوں“ میں نے وضاحت کی۔ مجھے خطرہ تھا کہ یہ جن زادی کہیں ان سب کے گھروں کو نہ جلا دے۔ اس کے لئے ایسا کرنا کیا مشکل تھا؟
”پرنتو پاپیوں نے جو تمرے سنگ کیا ہے اس کا بدلہ تو انہیں ملنا ہی چاہئے نا“ اس کے لہجے میں اپنایت تھی۔
”لیکن یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے تو ہوا ہے جس وقت وہ لوگ مجھے مار رہے تھے تو میں نے کئی بار تمہیں پکارا تھا لیکن تم نہ آئیں“ میں نے گلہ کیا۔
”وہ سب میں نے کالی داس کی اچھا کے انوسار کیا تھا وہ رادھا کو پراپت کرنا چاہتا ہے اس نے مجھے وچن دیا ہے یدی میں اس سمے اس کی سہائتا کروں تو وہ رادھا کو اپنے بس میں کر لے گا پھر ہمیں ایک دو جے سے پریم کرنے میں کوئی روک نہ ہوگی“ وہ میری بانہوں میں سما گئی۔ اس رات کی کہانی بھی عجیب ہے۔ حوالات کے کمرے میں اس قسم کی رات شاید ہی کسی نے بسر کی ہو۔ ٹھیک ہے میں اس وقت مجبور تھا لیکن سچ پوچھیں تو بسنتی کے وصال کے لئے میں خود بھی بے چین تھا۔ مجبوری اپنی جگہ لیکن اس میں میری نفسانی خواہش کو بھی دخل تھا۔ صبح دم جب وہ جانے لگی تو بڑے پیار سے مجھے تسلی دی۔
”چنتا نہ کرنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا“ اس کے جانے کے بعد لائٹ خود بخود آن ہوگئی۔ لیکن اب میں ان باتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ حیران ہونا میں نے چھوڑ دیا تھا۔ روشنی میں میں نے اپنے زخموں کا جائزہ لیا جن سے خون نکل کر جم گیا تھا۔ زخم ویسے ہی تھے لیکن درد یا تکلیف کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ بھی ایک عجیب تجربہ تھا۔ تھکن سے میرا برا حال تھا۔ بسنتی جو کچھ میرے لئے کر رہی تھی اس کا اس نے پورا پورا ”معاوضہ “ وصول کیا تھا ۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ کسی نے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔ نیند بھی کتنی مہربان شے ہے ہر دکھ تکلیف خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی، اس سے نجات دلا دیتی ہے۔ میں آنکھیں کھول کر دیکھا سپاہی کرم دین مجھے آوازیں دے رہا تھا۔
”بھئی سچ پوچھ تو میں نے کسی کو حوالات کے کمرے میں اتنے آرام سے اور گہری نیند سوتے ہیں دیکھا۔ مجھے بھی پولیس میں آئے ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“ اس نے حیرت سے کہا۔ دن کا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔
”میں ناشتہ لاتاہوں“ وہ جانے لگ تو میں نے کہا مجھے رفع حاجت کے لئے جانا ہے۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا پھر بولا ”اچھا آﺅ میرے ساتھ۔“ میں اس کے پیچھے باہر نکل آیا۔ وہ مجھے لے کر ایک طرف چل پڑا۔
ایک قطار میں بیت الخلاء بنے ہوئے تھے۔
’’فٹا فٹ فارغ ہو جاؤ‘‘ اس نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ فارغ ہو کرمیں نے اس سے کہا۔
’’کرم دین ایک اور احسان میرے اوپر کر دو‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
’’میں روزانہ غسل کرتا ہوں برسوں سے عادت ہے اگر مہربانی کر سکو تو ۔۔۔‘‘ اسنے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’تم توکہتے تھے میں نے ’’کچھ نہیں کیا‘‘ پھر نہانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔‘‘ میں شرم سے کٹ کر رہ گیا۔
’’مم۔۔۔میں نے بتایا ہے ناکہ مجھے روزانہ نہانے کی عادت ہے۔‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا آؤ تم بھی کیا یاد کرو گے کس سخی سے واسطہ پڑا تھا‘‘ پھر میری جیب پر نظر ڈالی۔
’’جیب میں کچھ مال پانی بھی ہے یا خالی خولی ہو۔‘‘
’’تم تو جانتے ہو کہ مجھے کس حالت میں لوگ تھانے لائے تھے میرے ۔۔۔‘‘ میں اسے بتانے ہی لگا تھا کہ یہ کپڑے بھی مجھے تھانے میں ہی میسر آئے ہیں لیکن فوراً ہی بات بدل لی۔ مجھے معلوم تھا کہ محرر نے چھپ کر لباس فراہم کیا ہے۔ وہ جلدی میں تھا اس لئے اس نے میری بات پر توجہ نہ دیا ور مجھے ایک طرف لے چلا۔ اسی طرح ایک قطارمیں حمام بنے ہوئے تھے بنیان اور دھوتی پہنے کئی سپاہی جا بجا مسواک کر رہے تھے کچھ ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ چار غسل خانے تھے لیکن خالی کوئی بھی نہ تھا۔
’’اوئے کرم دین!‘‘ ایک سپاہی نے اسے آواز دی۔
’’ہاں بھئی افضل کیا بات ہے؟‘‘ کرم دین نے کہا۔
’’اوئے اس پھٹل (زخمی) بندے کو کدھر لیے پھر رہے ہو؟ اسکی پٹی شٹی نہیں کرائی۔ یہ تو بہت زخمی ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کرپوچھا۔ کرم دین چونک گیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔
’’اوئے سر جی!۔۔۔صاحب نے کہا تھاکہ تمہیں اسی حالت میں جج صاحب کے سامنے پیش کرنا ہے اگر تم نہا لو گے تو زخموں پرسے سارا خون شون تو صاف ہو جائے گا نا‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔
’’چلو۔۔۔چلو پیشی بھگتنے کے بعد نہا لینا گھرجا کر‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واپس چل پڑا۔ سپاہی مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جو لباس میں نے پہنا ہوا تھا شاید وہ کسی سپاہی کاتھا۔۔۔سفید رنگ کا کرتا شلوار، جو میرے زخموں سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ میں تیز تیز چل رہا تھا حالانکہ جتنے زخم میرے جسم پر لگے تھے انکی موجودگی میں ہلنا جلنا بھی مشکل تھا۔ اور یہی بات ان کے لئے باعث حیرت تھی لیکن وہ تونہیں جانتے تھے کہ یہ کرشمہ بسنتی کا ہے۔ وہ مجھے بڑا جی دار سمجھ رہے تھے جو اسقدر زخمی ہوکر بھی میں بالکل نارمل انداز میں چل پھر رہا تھا۔ جب ہم واپس حوالات کے کمرے میں پہنچے تو چارپائی اور بستر غائب تھے کرم دین مجھے چھوڑ کرچلا گیا اس بار اسنے باہر سے تالا لگا دیا تھا۔ مجھے بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ آنے والے کئی تھے۔ کرم دین دروازہ کھول کر ایک طرف ہٹ گیا۔ سب سے پہلے وہی انسپکٹر اندر داخل ہوا جس نے مجھے رات کھانا چارپائی اور بستر فراہم کیا اور اپنا نام عادل بتایا تھا۔ اس کے پیچھے ڈی ایس پی تھا۔ اسکی نظریں برچھی کی طرح میرے جسم کے آر پار ہو رہی تھی۔ شکل سے ہی وہ تند خو اور غصیلا لگتا تھا۔
’’سر! بہت بری طرح ان لوگوں نے اسے مارا ہے‘‘ انسپکٹر نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
’’اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں اسے جان سے مار دیتا۔ یہ سزا تو اسکے لئے کچھ بھی نہیں آج مجھے اس کا ریمانڈ لینے دو پھر دیکھنا میں اسکا کیا حشر کرتا ہوں۔‘‘ وہ زہریلے لہجے میں بولا۔
’’سر! اس کے بقول یہ سب شرارت ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر حیات کی ہے۔ رات میری پروفیسرصاحب کے ساتھ بھی بات ہوئی تھی انہوں نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ وہ اسے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں یہ اس قسم کا انسان نہیں۔۔۔پانچ وقت کا نمازی اور نیک آدمی ہے۔‘‘
انسپکٹر بھرپور طریقے سے میرا دفاع کر رہا تھا۔ نہ جانے یہ سب کچھ وہ اپنی فطرت کی باعث کہہ رہا تھا یا اس میں کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔
’’پروفیسر صاحب آج عدالت میں بھی آئیں گے‘‘ انسپکٹر نے بتایا۔
’’تمہاری تقریر ختم ہوگئی یا ابھی باقی ہے؟‘‘ ڈی ایس پی کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔ انسپکٹر کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’سر! میں تو آپ کو رپورٹ پیش کر رہاتھا کہ اب تک میں نے کیا معلوم کیا ہے؟‘‘ وہ جز بزہو کر بولا۔
’’اس کی مرہم پٹی وغیرہ کیوں نہیں کرائی گئی‘‘ ڈی ایس پی نے مجھے گھورتے ہوئے انسپکٹر سے سوال کیا۔
’’سر !آپ نے خود ہی توکہا تھا کہ اسکے قریب بھی کوئی نہ پھٹکے‘‘ انسپکٹر نے کہا۔
’’گدھے ہو تم سب‘‘ اسنے ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد کرم دین نے دروازے کو تالا لگادیا۔میں دوبارہ فرش پر بیٹھ گیا۔
’’کیوں چنتا کرتا ہے؟‘‘ اچانک میرے پیچھے کالی داس کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ مڑ کر دیکھا وہ بڑے اطمینان سے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اسکے ہونٹوں پر دوستانہ مسکراہٹ تھی۔
’’ڈی ایس پی بہت غصے میں ہے‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یہ حرامی کیا شے ہے اس کے تو بڑے بھی تیری سیوا کریں گے‘‘ کالی داس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ پھر ایک طرف منہ کرکے آواز دی۔
’’بسنتی!‘‘
’’جی مہاراج‘‘ فورا بسنتی کی مدہر آواز کمرے میں گونجی۔ وہ نظروں سے اوجھل تھی۔
’’ساراپربندہوگیا؟‘‘ کالی داس نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’ہاں مہاراج! تمری اچھا کے انوسار، سمے آنے پر سب وہاں پہنچ جائیں گے‘‘ بسنتی نے جواب دیا۔
’’عدالت میں تو نے وہی کچھ کہنا ہے جو کل تھانے دار سے کہہ چکا ہے‘‘ کالی داس نے مجھے خاطب کیا۔
’’کیا تم عدالت میں موجود ہو گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سب تیری اچھا کے انورسار ہوگا نشچنٹ رہ‘‘ اس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے تسلی دی۔ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔‘‘ کاش میں بھی کالی داس کی طرح پراسرار قوتوں کا ماہرہوتا ‘‘ میں دل میں خواہش جاگی۔
’’خان بھائی!‘‘ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ عمران کی آواز آئی۔ میں نے چونک کردیکھا۔ عمران سلاخیں پکڑے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے سے افسردگی ظاہرہورہی تھی۔ میں جلدی سے اٹھ کر اسے پاس چلا آیا۔
’’پروفیسر صاحب نے ایک بہت قابل وکیل کا بندوبست کیا ہے آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ تعالیٰ آپ باعزت بری ہو جایں گے‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’عمران!میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ تم نے دوست ہونے کا حق ادا کر دیا‘‘ میری آواز بھراگئی۔ عمران کو دیکھ کر مجھے صائمہ اور بچے یاد آگئے تھے۔ اسکی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
’’خان بھائی! فکرنہ کریں انشاء اللہ فتح ہماری ہوگئی۔ میں نے اسے بھی وہی کہانی سنا دی جوانسپکٹر کو کالی داس کے کہنے پر سنائی تھی۔ وہ حیرت سے منہ کھولے سنتا رہا۔
’’لوگ دنیاوی مفادکے لئے اتنا بھی گر سکتے ہیں مجھے گمان تک نہ تھا۔ خیر کوئی بات نہیں دشمنوں کو شکست اور ہمیں فتح نصیب ہوگئی انشاء اللہ۔ دکھ اس بات کاہے کہ آپ نے مجھے ہر بات سے بے خبر رکھا۔ اگر اس حرامزادے نے آپ کودھمکی دی تھی تو آپ مجھے بتاتے‘‘ اس نے مجھے یقین دلانے کے بعد گلہ کیا۔
پھر کہنے لگا’’وکیل صاحب بہت قابل ہیں۔ ہو سکتاہے پہلی پیشی پر ضمانت نہ ہو سکے لیکن آپ فکر نہ کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔
’’ایسی بات نہیں ہے عمران ! میں بے قصور ہوں مجھے یقین ہے جب جج صاحب کو اصل حالات کا علم ہوگا تووہ مجھے باعزت بری کردیں گے‘‘ میں نے یقین سے کہا۔
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو‘‘ عمران نے کہا۔
’’اچھا میں چلتا ہوں بڑی مشکل سے محررکی جیب گرم کرکے میں نے ملاقات کا وقت لیا ہے ۔ عدالت میں ملاقات ہوگی۔‘‘
اسکے جانے کے تھوڑی دیر بعد انسپکٹر عادل کرم دین کے ساتھ آیا۔ مجھے عدالت نے جانے کا وقت آگیا تھا۔
’’جی تو نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ہتھکڑی پہناؤں لیکن مجبوری ہے ڈی ایس پی ساتھ جائے گا‘‘ اسنے معذرت کی۔ میں نے ا س کی ہمدردی پر اسکا شکریہ اداکیا۔ کرم دین نے میرے ہاتھوں میں آہنی زیورپہنا دیا۔ باہر لاکر مجھے بند گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی تھانے کی حدود سے نکل کر میری جانی پہچانی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ گاڑی کی باڈی میں جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں یونہی باہر جھانکنے لگا میرے ساتھ چار سپاہی تھے۔ پندرہ منٹ کے سفر کے بعدہم عدالت پہنچ گئے۔ جیسے ہی گاڑی عدالت کے احاطے میں داخل ہوئی میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر عدالت میں موجود تھا۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پرمیرے خلاف مختلف عبارتیں درج تھیں۔ اس کے علاوہ لوگ نعرے لگا رہے تھے ۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ چیخ چیخ کر میرے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔
’’عزتوں کے لٹیرے کو پھانسی دو۔ ایسے درندوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
گاڑی پر نظر پڑتے ہی ان کے نعروں میں تیزی آگئی۔ کئی جو شیلے تو پولیس کا گھیرا توڑ کر گاڑی پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے بڑے منظم طریقے سے ان کو کنٹرول کر رکھا تھا۔ گاڑی کو بالکل عدالت کے کمرے کے سامنے لے جایا گیا۔ جب میں گاڑی سے اترا تو ایک بار پھر لوگوں کا جوش بڑھ گیا۔ میرے چہرے کو ایک تولیے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ یہ کام انسپکٹر نے کیا تھا۔ جس کی وجہ اس نے یہ بتائی تھی کہ پریس فوٹو گرافرز میری تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کالی داس کے یقین دلانے کے باوجود میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ان پراسرار قوتون کے مالک لوگوں کی مجبوریاں بھی بعض اوقات آڑے آجاتی تھیں جیسا کہ رادھا کسی جاپ کی وجہ سے نہ آسکتی تھی۔ میرے سینے سے ایک آہ نکل گئی ۔اگر وہ ہوتی تو نوبت یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔
سارامیڈیامنہ تکتا رہ گیا۔ کیونکہ صحافیوں کو اندر داخل نہ ہونے دیا گیا تھا۔ کٹہرے میں کھڑا کرکے میری ہتھکڑی کھول دی گئی۔ جج صاحب اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ صبح تھانے میں پروفیسر صاحب کا بھیجا ہوا وکیل مجھ سے وکالت نامے پر دستخط کروا گیا تھا۔ وہ جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اشارے سے مجھے حوصلہ دیا۔ اسکے ساتھ ڈسکس کرنے کا موقع مجھے نہیں دیا گیا تھا۔ اس کام میں رکاوٹ ڈی ایس پی نے ڈالی تھی جو سبین کے والد صاحب کا شاگرد تھا اور سبین کو اپنی بہنوں کی طرح چاہتا تھا۔ وہ بھی ایک طرف کھڑا تھا۔ انسپکٹر عادل کی موجودگی سے مجھے کچھ حوصلہ تھا۔ میری نظریں چاروں طرف کالی داس کو تلاش کر رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا وہ بروقت عدالت پہنچ جائے گا۔ اگر وہ نہ آسکا تو؟ میرے دل میں یہ خدشہ بہرحال موجود تھا۔ کہیں وہ مجھے دھوکہ تو نہیں دے دے گا؟ مختلف قسم کے دسو سے میرے دل میں چکرا رہے تھے۔ کمرے میں لوگوں کی دبی دبی سرگوشیں گونج رہی تھیں۔ جج صاحب نے ہتھوڑا میز پر مارا۔
’’آرڈر۔۔۔آرڈر مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا جائے‘‘ ایک پختہ عمر وکیل اٹھ کر جج کے آگے جھکا اور اپنا تعارف سبین کے وکیل کی حیثیت سے کرواتے ہوئے اجازت چاہی۔ کالی داس ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ اس نے مجھے کچھ خاص ہدایت نہیں تھی کہ مجھے عدالت میں کیا بیان دینا ہے۔ اس سے پہلے زندگی میں اس قسم کے حالات کا سامنا نہ ہوا تھا مجھے کچھ معلوم نہ تھاکہ کیا کہنا ہے؟ بس لے دے کر وہی ایک کہانی تھی جو میں نے انسپکٹر عادل کو سنائی تھی۔ جج نے ایک سرسری نظر میرے اوپرڈالی پھر چونک گیا۔ بغور میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’اسے کس نے اس بری طرح مارا ہے؟‘‘
میرا وکیل فوراً اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔’’جناب عالی! آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس بری طرح میری موکل کو زدوکوب کیا گیا۔ ابھی تو اس کا جرم ثابت نہیں ہوا اس کے باوجود اس اسے کس بری طرح تشدد کانشانہ بنایا گیا ہے۔ یورآنر! درندگی کی انتہا ہے کہ میرے موکل کو ادھوموا کرکے تھانے لے جا کر بند کر دیا گیا‘‘ میرے وکیل نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’اس کا یہ حال کس نے کیا۔۔۔؟‘‘ جج نے ڈی ایس پی کی طر ف دیکھ کر سوال کیا ۔
’’یور آنر! جس درندگی کا مظاہرہ اس شخص نے کیا ہے جس طرح اس نے ایک معصوم کنواری لڑکی کی عزت لوٹ کر اسے تباہ کر دیا، اس کے مقابلے میں تو اسے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو اس درندے کو موت کی سزا دیتا‘‘ اس کے لہجے میں میرے لئے زہر بھرا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کرجج کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
’’میرا خیال ہے میں یہ کرسی چھوڑ کر اس پر آپ کو بٹھا دوں کیونکہ آپ کے اندر مجھ سے بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کیا قانوناً آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی بھی شخص کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا آپ کو وردی اسلئے دی گئی ہے کہ انسانوں کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں موت کے منہ میں پہنچا دیں؟‘‘ آہستہ آہستہ جج کا لہجہ تیز ہوتا گیا۔
’’میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ اس عہدے کے لائق نہیں ہیں۔ کیوں نہ آپ کو معطل کر دیا جائے یا آپ کی ترقی معکوس کرکے آپ کو دوبارہ تھانے دار بنا دیا جائے۔‘‘ ڈی ایس پی کے الفاظ نے جج کو چراغ کردیاتھا۔
’’جج۔۔۔جنا۔۔۔جناب! میں معافی چاہتا ہوں دراصل جس لڑکی پر اس درندے نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ میری منہ بولی بہن ہے‘‘ وہ اپنی چوکڑی بھول گیا۔
’’جس وقت ملزم اس لڑکی کی عزت رہا تھا آپ وہاں موجود تھے؟ کیا آپ نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے؟‘‘ جج نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’نن۔۔۔نہیں جناب! لیکن میرا تجربہ کہتا ہے یہ واقعی مجرم ہے‘‘ وہ بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔
’’اگر آپ کا تجربہ اتنا وسیع ہے تو آپ واقعی میری اس سیٹ کے حقدار ہیں‘‘ جج کے طنزیہ لہجے سے اس کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔
’’آئندہ خیال رہے یہ عدالت ہے اس قسم کے الفاظ بولنے سے پرہیز کریں درندے کی اصطلاح آپ نے ملزم کے لئے کیوں استعمال کی جبکہ آپ نے اسے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ جج نے اسے ایک بار پھر لتاڑا۔
’’کیسے کیسے نکمے اور جاہل لوگ پولیس میں بھرتی ہو کر آجاتے ہیں‘‘ اس کی واضح بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ ڈی ایس پی پیچ و تاپ کھا رہا تھا لیکن ظاہر ہے کچھ کر نہ سکتا تھا یہ عدالت تھی۔۔۔تھانہ نہیں ایک منٹ میں اسکی وردی اتر سکتی تھی۔ اچانک جج کے پیچھے کالی داس نمودارہوا۔ اسے دیکھ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ ظاہر ہے وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا ورنہ اسے وہاں کون ٹھہرنے دیتا۔ وہ جج کی کرسی کے پیچھے بالکل خاموش کھڑا تھا۔ حسب معمول اس نے ایک دھوتی لنگوٹی کی صورت میں باندھ رکھی تھی۔ سامنے والی کرسیوں کی قطار میں ڈی ایس پی عمرحیات، ساجدا ور میرے دیگر محلے دار بیٹھے تھے۔ میرے وکیل نے جج سے گواہوں سے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی جج نے سر ہلا کراجازت دے دی۔سب سے پہلے اس نے میرے پہلے قریبی ہمسائے کوکٹہرے میں بلایا۔ اس نے سچ بولنے کا حلف اٹھایا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں یقین سے تونہیں کہہ سکتا۔ غالباً میرے وکیل کانام امجدصدیقی تھا۔ وہ ایک معمر اور تجربہ کاروکیل تھا۔ اس نے غور سے میرے ہمسائے کودیکھا۔
’’آپ کانام؟‘‘ اس کی بھاری آواز کمرہ عدالت میں گونجی جہاں سکوت مرگ طاری تھا۔
’’محمد اسلم‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیاکام کرتے ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ کاذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘ وکیل نے دوسرا سوال کیا۔
’’میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتاہوں؟‘‘
’’عدالت کو مختصر الفاظ میں بتائیے کہ آپ نے میرے مؤکل فاروق خان کو کس حالت میں دیکھا جب آپ وہاں پہنچے۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ میرا موکل اس وقت کسی لڑکی کی عزت لوٹ رہا ہے؟‘‘
کالی داس نے اسلم کی طرف منہ کرکے پھونک ماری۔
’’جناب! میں نے سچ بولنے کی قسم کھائی ہے اس لئے مزید جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ اسلم کی بات نے سب کوچونکا دیا۔
’’میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔مجھے تو عمر حیات صاحب نے کہا تھا کہ فاروق ایک لڑکی کی عزت لوٹ رہاتھاکہ ہم نے اسے موقع پر پکڑ لیا۔ تم نے کل عدالت میں گواہی دینا ہے کہ تم نے ایسا ہوتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جناب! میں نے تو اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا ۔پھر میں کیسے کہہ سکتاہوں؟‘‘ اس پرانہوں نے مجھے دھمکی دی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تم پر کوئی الزام لگا کر تمہیں تھانے بند کروا دوں گا ۔میری بڑی پہنچ ہے۔ علاقے کا ایس پی میرا دوست ہے۔ جناب میں سیدھا سادہ بزنس مین ہوں ۔ان الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں پولیس کے اختیارات کوسبھی جانتے ہیں اس لئے میں چلا آیا۔ لیکن جب یہاں آکر میں نے قسم کھائی تو میرے ضمیرنے مجھے اجازت نہ دی کہ میں جھوٹ بولوں ‘‘ اتناکہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
’’کیا بکواس کر رہے ہو اسلم؟ جب ہم فاروق کے بیڈ روم میں داخل ہوئے تو کیا تم میرے ساتھ موجود نہ تھے؟‘‘عمر حیات حلق کے بل چیخا۔ اسے گمان ہی نہ تھا اسلم اس طرح جھوٹ بولے گا۔
’’آرڈر۔۔۔آرڈر۔۔۔مسٹر اس بات کو دھیان میں رکھو یہ کمرہ عدالت ہے۔ اگر اب تم نے اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات کہی تو میں تمہیں توہین عدالت کے جرم میں سزا دوں گا‘‘ جج نے برہمی سے کہا۔
’’سر! یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اس نے خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ ہوتے دیکھا تھا۔ اسکے علاوہ یہ سب لوگ(اس نے اپنے دائیں بائیں بیٹھے افراد کی طرف اشارہ کیا) بھی اس بات کے گواہ ہیں۔ اس نے احتجاج جاری رکھا۔
’’ان کی باری آنے پر ان سے بھی پوچھا جائے گا۔ فی الحال آپ خاموش رہیں‘‘ جج نے اس کو جھڑک دیا۔ لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ میرے وکیل کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔ گواہ منحرف ہونا اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی لیکن جس اطمینان سے اسلم نے عمر حیات کی بات کو جھٹلایا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔
’’مجھے کچھ اورنہیں پوچھنا جناب عالی‘‘ میرے وکیل نے سرکو خم کرکے کہا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
’’آپ گواہ سے کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ جج نے سبین کے وکیل سے پوچھا۔
’’نہیں جناب‘‘ اس کالہجہ شکست خوردہ تھا۔
جج صاحب نے میرے وکیل کو باقی گواہان پر جرح کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ باری باری گواہان کو بلاتا گیا سب نے ہی ایک جیسا بیان دیا کہ ڈی ایس پی نے انہیں دھمکایا تھا کہ اس کے کہنے پر گواہی نہ دو گے تو تم لوگوں کو تھانے میں بند کروا دوں گا۔ عمرحیات کی حالت دیدنی تھی۔ حیرت، غصے اور بے چارگی کی تصویر بنا وہ سیٹ پرپہلو بدل رہا تھا۔
وکیل مخالف نے اپنی فیس حلال کرنے کی خاطر کچھ گواہان سے سوالات کئے بلکہ کافی بحث بھی کی لیکن کسی بھی طرح انہیں اپنے پہلے بیان سے نہ ہٹا سکا۔ جج کی ہمدردی میری حالت دیکھ کر ہی مجھے سے ہوگئی تھی۔ اس پرجب گواہان بھی مکرگئے تو اس نے خشمگیں نظروں سے دونوں، آن ڈیوٹی اور ریٹائر ڈی ایس پیز کو دیکھا۔ سب سے آخرمیں میرے وکیل نے سبین کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہی جس پر جج صاحب نے سبین کے وکیل کی طرف دیکھا اس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ سبین کو بلایا گیا۔ جب وہ کٹہرے میں آئی تو اس کا چہرہ ترو تازہ گلاب کی طرح کھلاہوا تھا۔ کسی طور وہ ایسی لڑکی نہ دکھائی دے رہی تھی جس کے ساتھ ایک روز قبل ایسا اندوہناک سانحہ گزارا ہوا۔ یہ بھی کالی داس کی جادوئی قوت کا کرشمہ تھا۔ جج صاحب کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ کٹہرے میں آنے کے بعد میرا وکیل اس کے سامنے پہنچ گیا۔
’’آپ کا نام؟‘‘
’’جی میرا نام سبین امجد ہے امجدمیرے والد ہیں‘‘ اس نے واضح کیا۔
’’کٹہرے میں کھڑے صاحب کو آپ جانتی ہیں؟‘‘ وکیل نے میری طرف اشارہ کیا۔
’’جی ہاں جناب! یہ فاروق صاحب ہیں میرے باس‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ جج بڑی گہری نظروں سے سبین کی طرف دیکھ رہاتھا۔
’’کیاآپ عدالت کو بتانا پسندکریں گی کل آپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا؟‘‘ وکیل نے اس کے چہرے پر نظر جما کر سوال کیا۔
’’ڈی ایس پی جمال قریشی میرے منہ بولے بھائی ہیں اور میرے ابوکے شاگرد بھی ۔ ان کا ہمارے گھر آناجانا ہے۔ تین چار دن پہلے شام کے وقت آئے اور کہنے لگے مجھے کچھ شاپنگ کرنا ہے میرے ساتھ بازار چلو‘‘ اس نے ایک نظر جمال قریشی پر ڈالی جو الجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا رہا تھا پھر سلسلہ کلام جوڑا۔
’’میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر بازار چلی گئی۔ انہوں نے کچھ شاپنگ اپنے لئے کی۔ ایک دو چھوٹی چھوٹی چیزیں مجھے لے کر دیں ۔اس کے بعد ہم ایک ہوٹل میں کھانا کھانے چلے گئے ۔ کھانے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا۔ میرا ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر حیات ایک بنگلہ خریدنا چاہتا ہے لیکن اس میں تمہارے باس فاروق خان رہائش پذیر ہیں۔ہم نے ان سے کئی بار درخواست کی ہے کہ اگر آپ کوئی دوسرا مکان تلاش کرلیں تو پروفیسرصاحب یہ بنگلہ ہمیں فروخت کرنے پر تیار ہیں لیکن وہ نہیں مانتے۔ اگر تم ہماری مدد کرو تویہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا بھائی ! اس سلسلے میں میں آپ کی کیا ہیلپ کر سکتی ہوں؟ اس پر یہ کہنے لگے اگر تم ان سے کہو تو وہ ضرور مان جائیں گے۔ میں نے کہا یہ مناسب بات نہیں۔ ابھی مجھے بینک آئے دو روز ہوئے ہیں پھر میں کیسے ان سے یہ بات کہہ سکتی ہوں؟انہوں نے کہا اگر تمہارے کہنے پر بھی وہ نہ مانے تو میں اپنے دوست کو سمجھا لوں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔میں کل ان سے بات کرلوں گی۔ کہنے لگے کل ہم ان کے گھر چلے جائیں گے وہاں بیٹھ کراطمینان سے بات ہو جائے گی۔ مجھے حیرت تو ہوئی لیکن میں نے زیادہ بحث نہ کی۔ کل دوپہرکے قریب انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے چھٹی لے کر آجاؤں۔ جب میں گھرپہنچی تو یہ ابو کے پاس بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے چلوتمہارے افسر کے گھر چلیں۔ میں نے کہا لیکن وہ تو اس وقت ڈیوٹی پر ہیں۔ کہنے لگے تھوڑی دیر پہلے وہ گھر چلے گئے ہیں۔ میں ان کیساتھ چل پڑی پہلے ہم ان صاحب کے گھر گئے۔ ‘‘ سبین نے عمر حیات کی طرف اشارہ کیا جو حیرت سے منہ کھولے سن رہا تھا
’’ان کے ساتھ جو صاحب بیٹھے ہیں یہ بھی وہاں موجود تھے‘‘ اس بار سبین نے ساجدکی طرف اشارہ کیا۔
’’مجھ سے کہنے لگے تم فاروق سے بات کرنا کہ وہ یہ بنگلہ خالی کر دیں تاکہ ہم اسے خرید سکیں۔ مجھے ان کی بات کی سمجھ تونہ آئی لیکن جمال بھائی پر چونکہ مجھے اندھا اعتماد تھا اس لئے میں نے حامی بھر لی۔ ہم سب فاروق صاحب کے گھر پہنچے توانہوں نے کہا تم جاکربات کروہو سکتا ہے ہمیں دیکھ کر وہ نہ مانیں‘‘ اسنے ایک بارپھر عمر حیات کی طرف اشارہ کیا۔
’’دودنوں کی سروس میں میں نے سر فاروق کو اچھا اور سلجھا ہوا شخص پایاتھا اس لئے بے دھڑک اندر چلی گئی اسکے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس وقت گھرمیں تنہا ہیں۔ سر فاروق نے مجھے حیرت سے دیکھا؟ میں ابھی انہیں بتانے ہی لگی تھی کہ میں کس مقصد کے تحت آئی ہوں کہ اچانک جمال بھائی اور یہ دونوں (اسنے عمر حیات اور ساجد کی طرف اشارہ کیا) چند اور افرادکے ساتھ اندر آگئے۔ آتے ہی انہوں نے سر فاروق کو مارنا شروع کردیا اور اس درندے نے‘‘ اس نے ڈی ایس پی جمال قریشی کی طرف اشارہ کیا اسکی آواز بھرا گئی۔ کمرہ عدالت میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سبین کی سسکیاں تیز ہوگئیں کچھ دیر بعد اسنے آنسوصاف کیے۔
’’جناب! اس درندے نے مجھے دوسرے کمرے میں لے جاکرمیری عزت لوٹ لی۔ ایک بھائی نے بہن کی عزت کو تارتار کر دیا۔‘‘ ایک بارپھر اسکی آواز رندھ گئی۔
’’میں نے منتیں کیں واسطے دیے لیکن یہ جانوربن چکاتھا‘‘ دونوں ڈی ایس پیز کے ساتھ ساجدبھی حواس باختہ نظر آرہا تھا۔ اتنا حیران وہ زندگی میں کبھی نہ ہوئے ہوں گے جتنے اس وقت نظر آرہے تھے۔
’’سبین! یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘ جمال قریشی نے چیخ اٹھا۔ جج جو سبین کی باتوں سے آبدیدہ نظر آرہا تھا اسنے قہربارنظروں سے جمال قریشی کی طرف دیکھا اور انسپکٹر عادل کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کرلے۔ جمال قریشی بری طرح بوکھلاگیا۔
’’سس۔۔۔سر۔۔۔یور آنر! یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے‘‘ وہ گڑ بڑا کرچیخا۔
’’شٹ اپ۔۔۔تم نے اپنے مطلب کے لیے ایک شریف لڑکی کو استعمال کرکے معاشرے کے ایک باعزت فرد پرگھناؤنا الزام لگایا ۔ اس کے گھر میں گھس کر اسے زدوکوب کیا اور سب سے اہم بات یہ کہ تم نے ایک شریف لڑکی کی عزت لوٹی۔ ان الزامات کے تحت میں تمہاری گرفتاری کا حکم دیتاہوں۔‘‘ انسپکٹر عادل نے سپاہیوں کو حکم دیا ۔انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر جمال قریشی کو گرفتارکرلیا۔ اسکا حشر دیکھتے ہوئے عمر حیات اور ساجد نے کھسکنے کی کوشش کی جس پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تھوڑی دیر ہنگامہ رہا پھر جج صاحب کے کہنے پر لوگ پرسکون ہوگئے۔ دبی دبی سرگوشیاں اب بھی ہو رہی تھیں۔ سبین اطمینان سے کٹہرے میں کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر سکون تھا۔
کالی داس واقعی زبردست قوتوں کا مالک تھا۔ اس نے سارا معاملہ ایسے سلجھا دیا تھا کہ حیرت سے میری اپنی عقل گم تھی۔ ایک دوبارہ میرے ضمیر نے مجھے ملامت کیا کہ میں نے بے گناہ لوگوں کو پھنسا دیا اور خود بری ذمہ ہوگیا۔ لیکن یہ موقع ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کانہ تھا۔ مجھے باعزت بری کردیاگیا۔
کالی داس اپنا کام کرکے غائب ہو چکا تھا۔ جب میں کمرہ عدالت سے باہر آیا تو صحافیوں نے مجھے اور سبین کوگھیرلیا جومیرے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ جب لوگوں کو اصل صورت حال معلوم ہوئی تو وہی لوگ میرے حق میں نعرے لگانے لگے۔ تھوڑی ہی دیر بعدمیں دوبارہ معاشرے کا باعزت فرد بن چکا تھا۔ جیسے ہی سپاہیوں نے ہمیں صحافیوں کے نرغے سے نکالا عمران مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر میرے زخموں سے چور جسم پرنظر پڑتے ہی وہ الگ ہو کربولا۔
’’چلیں خان بھائی گھر چلیں‘‘ وہ بدوقت مجھے لوگوں کے نرغے سے نکال کر ٹیکسی میں بٹھانے میں کامیاب ہوا۔ جب ہم گھر پہنچے اورنازش مجھے اس حالت میں دیکھ کر رونے لگیں۔ عمران نے جلدی سے ڈاکٹر کوفون کیا جس نے آکرمیری مرہم پٹی کر دی۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ اور بھائی صاحب پہنچ گئے۔ عمران کل ہی انہیں فون کرکے سارے حالات بتا چکا تھا۔ گھر آکرمیں نے اسکے کپڑے پہن لیے تھے سوائے سر کی ایک پٹی کے باقی پٹیاں لباس میں چھپ گئی تھی۔ آنکھ کی سوجن بھی کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود صائمہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ اگر وہ مجھے کل دیکھ لیتی تو نہ جانے اس کا کیا حال ہوتا۔ بھائی صاحب میری حالت دیکھ کر طیش میں آگئے اسی وقت انہوں نے فون پر حکام بالا سے بات کی۔ میرا خیال تھا ڈی ایس پی جمال قریشی ، عمر حیات اور ساجد تولمبی مدت کے لئے گئے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر ہم اپنے گھرآگئے۔ بھائی صاحب اور بچوں کے سونے کے بعدصائمہ میرے ساتھ لپٹ گئی۔
’’اگر مجھے معلوم ہوتاکہ میرے جانے کے بعد یہ کچھ ہونا ہے تومیں کہیں نہ جاتی‘‘وہ بلک پڑی۔
’’ارے۔۔۔تم تو بالکل بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ جو مصیبت آنی ہوتی ہے وہ آکر رہتی ہے۔ میں تو خوش ہوں اگر تم یہاں ہوتیں تو رو رو کر نہ جانے کیا حال کرلیتیں؟‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ کافی دیر رونے کے بعد جب اس کا جی کچھ ہلکا ہو اتوکہنے لگی۔
’’فاروق! کہیں یہ سب رادھاکی شرارت تو نہیں؟‘‘ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’یہ خیال تمہیں کیسے آیا؟‘‘ اسکی بات پرمیں چونک گیا۔
’’ہو سکتا ہے اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو کر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہو۔‘‘
’’کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے مبہم سا جواب دیا۔
’’یہ بھی ہوسکتا ہے ساری شرارت کے پیچھے کھیدو چوہڑے کا ہاتھ ہو۔‘‘
اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔’’فاروق !ہماری وجہ سے آپ کو اس قدر تکلیف سہنا پڑی۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ شرارت ضرور اس کالے بھجنگ ہوگی کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد وہ سو گئی جس قدر ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا میں نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کیا تھا میرا دل ہی جانتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے کالی داس اور بسنتی کا خیال آیا۔ دونوں نے رادھا کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مکروہ سازش کی اور مجھے پھنسا دیا۔۔۔ہاں اس میں قصور وار میں بھی تھا جو بسنتی کو حاصل کرنے کی خاطر انسانیت کی سطح سے نیچے گر گیا۔
کچھ بھی ہو کالی داس نے بہرحال مجھے اس مشکل صورتحال سے یوں نکال دیا تھا جیسے مکھن میں سے بال۔ ہر چند کہ مجھے اس مصیبت میں پھنسانے والا بھی وہی تھا لیکن اگر وہ میری مدد نہ کرتا تومیں اس کا کیا بگاڑ لیتا۔ لیکن رادھانے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ اچانک مجھے رادھا کی یاد آئی کہ اگرمیں نے کسی عورت سے جسمانی مراسم اختیار کیے تو وہ میری مدد نہ کر پائے گی اورمیرے دشمن ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں ہیں۔ اس نے مجھے وقت سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا لیکن میری ہوس آہ۔۔۔
سرد آہ میرے سینے سے خارج ہوگئی۔ میں نے ایک نظر صائمہ پر ڈالی اس کا معصوم چہرہ دنیا جہاں کی فکروں سے آزاد تھا۔ قصور وارکون تھا۔
میں خود۔۔۔
کالی داس اور بسنتی
یا پھر رادھا۔۔۔؟
سوچنے سے میرے سر میں درد ہونے لگا تو میں نے سر جھٹک کر خیالات سے چھٹکارہ حاصل کیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مہربان نیند نے اپنی آغوش وا کر دی۔ دوسرے دن سارا سٹاف سوائے سبین کے میرے گھر آیا۔ مجھے باعزت طور پر بری ہونے پر مبارکباد دی اور اس مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا جو بلا وجہ مجھے پیش آئی تھی۔ اب میں کیا کہتا؟ بھائی صاحب دو دن رہ کر واپس چلے گئے جاتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اصرار کیا کہ ہم لوگ ان کے ساتھ واپس چلے جائیں لیکن پروفیسر صاحب جن کے ساتھ بھائی صاحب کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی نے سمجھایا اس طرح چلے جانے پر وہ شرمندگی محسوس کریں گے کہ میرے بنگلے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بچوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ بابا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔ یہ بات انہیں صائمہ نے خود ہی سمجھا دی تھی۔ سبین ایک ہفتے کی چھٹی پر تھی۔ اسی دوران ہی اس نے اپنی ٹرانسفر کسی اور شہرکرالی۔ اس میں بھی یقیناً کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔
دن ایک بار پھر پرسکون انداز سے گزرنے لگے۔ میں نے بینک جانا شروع کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو تقریباً پندرہ دن گزرے تھے کہ ایک دن میں جب بینک سے واپس آرہا تھا مجھے راستے میں کالی داس نظر آیا۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ میری گاڑی دیکھ کر اس نے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں خود بھی رکنے کا ارادہ کر چکا تھا کچھ بھی ہو وہ میرا محسن تھا۔
’’تم تو اپنے متر کو بھول ہی گئے‘‘ اس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے شکوہ کیا۔
’’کالی داس! ایسی بات نہیں مجھے تمہاری کسی ٹھکانے کا علم ہی نہیں پھر میں تم سے کیسے ملتا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اب ہم متربن چکے ہیں میرے سارے استھان اب تمہرے ہیں، میں کچھ سمے بعد تمہیں کھد ہی اپنے سنگ لے جاکردکھا دوں گا۔ اس سمے تو میں تمہیں تمہرا وچن یاد دلانے آیا ہوں‘‘ اس نے بے پرواہی سے کہا۔
’’کالی داس میں جب کسی سے وعدہ کر لوں تو اسے بھولتا نہیں ہوں۔‘‘
’’وچن دے کر پھرنا بھلے مانسوں کا کام نہیں۔ رادھا کا جاپ کھتم ہونے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ وہ آتے ہی ضرور تم سے ملے گی تم کیول اتنا کرنا کہ مجھے کھبر کر دینا‘‘ وہ مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا شاید اسے بھی یقین نہ تھا کہ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔
’’لیکن میں تمہیں بتاؤ ں گاکیسے؟مجھے توپتا ہی نہیں تم کہاں رہتے ہو میرا مطلب ہے میں تم سے رابطہ کیسے کروں گا؟‘‘
’’تم سچے من سے میرا وچارکرلینا میں کھد آجاؤں گا۔ پرنتو اتنا دھیان رہے کہ رادھا کو دیکھ کرہمیں بھول نہ جانا‘‘ اسنے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’کالی داس میں نے تمہیں کہا تو ہے کہ جب میں کسی سے وعدہ کر لیتا ہوں تو اسے نبھانامجھے آتا ہے۔‘‘ میں نے اسے یقین دلایا۔
’’دھن باد خان صاحب!‘‘ اسنے کہا۔ گاڑی کی رفتار خودبخود آہستہ ہونا شروع ہوگئی۔ بالآخر وہ رک گئی۔ کالی داس نے اپنی قوت سے اسے روک دیا تھا مقصد مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا۔ اسنے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر ایک طرف چل پڑا۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس واقعہ کے بعد بسنتی نے بھی کوئی رابطہ نہ کیا تھا۔ مجھے حوالات کی وہ رات بھولی نہ تھی جب بسنتی نے مجھے عنائیتوں سے نوازا تھا۔ اس کا والہانہ پن دیوانگی کی حد تک تھا۔ وہ بلا شبہ آگ تھی۔ جوانی کے جوبن سے بھرا جسم ایسا نہ تھا کہ اسے بھلا دیاجاتا۔ یہی سوچتا میں گھر میں داخل ہوا۔ بچے حسب معمول اپنا ہوم ورک کر رہے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے پروفیسر صاحب کی طرف چلے گئے۔ واپس آکر رات دیر تک میں اور صائمہ باتیں کرتے رہے پھر سو گئے۔
رات کو جانے کونسا پہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں ابھی جاگنے کی وجہ سے سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں بسنتی کی مدہر آواز آئی۔
’’مہاراج! اپنی داسی کو اتنی جلدی بھول گئے؟ کچھ جیادہ سمے تو نہیں ہوا کہ میں نے تمری سہائتاکی تھی؟‘‘ اسکی شوخ آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ ایک نظر خوابیدہ صائمہ کی طرف دیکھ کرمیں نے دبی دبی آواز میں پوچھا۔
’’تم کہاں ہو بسنتی؟َ‘‘
’’اپنے من میں جھانک کر دیکھو۔۔۔بسنتی کا استھان تمرے ہردے میں ہے‘‘ وہ کھکھلا کر ہنسی۔
’’اپنی داسی کو درشن نہ دو گے مہاراج! اتنے کھٹور کب سے ہوگئے؟‘‘ وہ حد سے زیادہ شوخ ہو رہی تھی۔
’’تم ہوکہاں؟‘‘میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’وہیں جہاں تمرا اور رادھا کا ملن ہوتا تھا‘‘ اسکی خمار آلود سرگوشی میرے کان میں ابھری ۔ میں نے آہستہ سے دراز کھول کر سگریٹ کاپیکٹ نکالا اور دبے قوموں سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ فضامیں بھینی بھینی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ لان میں آکر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔
’’میں یہاں ہوں‘‘ لان کے نیم تاریک گوشے سے بسنتی کی آواز آئی۔ وہ چمبیلی کی بیل کے پاس کھڑی تھی۔ قریب پہنچتے ہی وہ لپک کرمیرے گلے لگ گئی۔ اس کے وجود سے اٹھتی خوشبو مجھے مدہوش کر دیا کرتی تھی۔ کافی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے رہے پھر وہ میرا چہرہ اپنے کومل ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر بولی۔
’’تم سے دور رہ کر میں کتنی بیاکل رہی ہوں تم وچاربھی نہیں کر سکتے۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا تھا کہ دور رہو۔تم تو خود ہی چلی گئی تھیں۔ کہاں رہیں انتے دن؟‘‘ میں نے اس کے نرم و ملائم ہاتھ تھام لئے۔
’’سمے کتنا سندر ہے ایسے میں کوئی دو جی بات نہ کرو پریتم! کیول پریم کرو‘‘ اس کی آواز بوجھل ہو چکی تھی۔
وہ میرا سوال بڑی خوبصورتی سے ٹال گئی تھی۔ اس کے بعد محبت کی زبان میں باتیں ہونے لگیں۔ صبح دم جب وہ واپس جانے لگی تو میرا ہاتھ تھام کر بولی۔ رادھا کے آنے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ یدی تم نے مہاراج کالی داس کی آگیا کا پالن نہ کیا توبڑی کٹھن گھڑی آپڑے گی‘‘ مجھے لگا وہ اندر سے خوفزدہ ہے۔
’’رادھا کب آئے گی؟‘‘ میرا دل دھڑک اٹھا۔
’’کیول آٹھ دن رہ گئے ہیں اس کا جاپ پورا ہونے میں مجھے وشواس ہے وہ سب سے پہلے تمرے درشن کرنے آئے گی۔‘‘ بسنتی کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے اسکی طرف مستسفرانہ نظروں سے دیکھا وہ کسی سوچ میں گم تھی۔
’’بسنتی! میں نے کالی داس کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میں اپنا قول نبھاؤں گا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ خود اتنا طاقتور ہے پھربھی وہ رادھا کو قابو نہیں کر سکتا جبکہ میں تو ایک عام سا انسان ہوں میں اس سلسلے میں اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ نہ تو میں پراسرار قوتوں کا ماہر ہوں نہ اس کام کا مجھے کوئی تجربہ ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔
’’یدی تم اس کام کو کرنے میں سپھل نہ ہوئے تو ۔۔۔؟‘‘ اس کے حسین چہرے پر تفکرات کی پرچھائیاں رقص کر رہی تھیں۔’’میرا کام توصرف اتنا ہے کہ جب رادھا مجھ سے ملنے آئے میں کالی داس کو بتا دوں اس کے بعد وہ کیا کرتا ہے یہ میرا نہیں اس کا درد سر ہے۔‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔
’’یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا تم وچار کر رہے ہو۔ تمہیں ابھی رادھا کی شکتی بارے جانکاری نہیں‘‘ بسنتی کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’یہ بات نہیں‘‘ اس کالہجہ اسکی بات کی نفی کر رہا تھا۔’’ یدی کالی داس اسے اپنے بس میں کرنے سے ناکام رہا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ اس کے لہجے میں اندیشے لپک رہے تھے۔
کسی بات کی فکر نہ کرو‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’مہاراج! مجھے وچن دو کہ تم کالی داس سنگ وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ وہ ملتجی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا؟‘‘ اس کے بار بار کہنے سے میں چڑ گیا۔
’’وشواش تو ہے پرنتو ایسا نہ ہوا تو گجب ہو جائے گا۔‘‘ اس کی ساری شوخی ختم ہوگئی تھی۔ میں نے اس کی ریشمی زلفوں سے کھیلتے ہوئے تسلی دی۔ ایک بار پھر نشہ مجھ پر سوار ہونے لگا تھا۔ لیکن جب بسنتی کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا تو میں بھی خاموش ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعدمیں دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ صائمہ محو خواب تھی۔ آٹھ دن ۔۔۔صرف آٹھ دن رہ گئے تھے رادھا کے آنے میں۔ بسنتی کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور رادھا سے کم نہیں اس کے علاوہ کالی داس بھی اس کے ساتھ تھا پھر ۔۔۔پھر وہ کیوں خوفزدہ تھی۔۔۔
یہ گھورکھ دھندا میری سمجھ سے باہر تھا۔ بسنتی نے رادھا کو دھوکہ دیا تھا۔ وہ اسے میرا نگہبان بناکرگئی تھی لیکن اس نے دوست بن کر اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ بسنتی کو شاید کالی داس کی پراسرار قوتوں پر کچھ زیادہ بھروسہ نہ تھا۔ رادھا کے آنے کے بعد اگر میں اپنے وعدے سے پھر جاؤں تو؟ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن فوراً ہی میں نے اسے رد کردیا۔ رادھا حسن میں بسنتی کے مقابل نہ تھی البتہ طاقت میں وہ اس سے زیادہ تھی۔ رہی بات محبت کی تو وہ دونوں مجھ سے کرتی تھیں۔ میں دونوں میں موازنہ کرتا رہا۔ دماغ رادھا کی طرفداری کرتا تھا لیکن کمبخت دل بسنتی کے راگ الاپ رہاتھا۔ رادھا نے کئی مواقع پرمیری مدد کرکے مجھے موت کے منہ سے نکالا تھا اور اب تو وہ صائمہ کے سلسلے میں بھی مفاہمت اختیار کرچکی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو رادھا ہر لحاظ سے میرے لئے بہتر تھی۔ لیکن بسنتی کا انداز محبت اتنا دلکش تھا کہ میرا دل اسی کی جانب کھنچا جا رہا تھا۔ خیر رادھاکے آنے کے بعد فیصلہ ہوگاکہ کیا کیا جائے؟ یہ سوچ کر میں مطمئن ہوگیا۔
سات دن اور گزر گئے رات بارہ بجے کے قریب مجھے بسنتی نے آواز دے کر باہر بلایا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر پہلے میں اور صائمہ باتیں کر رہے تھے میں نے آہستہ سے سر گھما کر اس کی طرف دیکھا وہ سو چکی تھی پھر بھی میں نے ہلکے سے اسے آواز دی۔ جواب نہ پا کر میں مطمئن ہوکرباہر نکل آیا۔
’’بسنتی‘‘ میں نے لان میں آکر پکارا۔
’’جی مہاراج!‘‘ بسنتی کے آواز مجھے اپنے پیچھے سے سنائی دی۔ میں جلدی سے مڑا۔ وہ فتنہ گربالکل میرے پاس کھڑی تھی۔ گلابی رنگ کی مختصر سے کھاگر یچولی میں وہ ہمیشہ سے زیادہ حیسن لگی۔ میں سحر زدہ سا اسے دیکھتا رہا گلاب کی پنکھڑیاں واہوئیں۔
’’پریم۔۔۔‘‘ وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے میں جذب ہوگئے۔ اسکی چڑھتی سانسیں اس کے اندر کے حال کاپتا دے رہی تھی۔ تپتے بدن کی آنچ مجھے پگھلائے جا رہی تھی۔
’’پریم!‘‘ اسکی بوجھل سرگوشی میرے کانوں میں رس گھول گئی۔
’’ہوں‘‘ مجھ پر خمار چھانے لگا۔
اس کے بعد باتیں ختم ہوگئیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
’’کیول ایک دن رہ گیا ہے رادھا کے واپس آنے میں‘‘ جب طوفان تھما تو بسنتی نے کہا۔
’’رادھا کے آنے کے بعد ہمرا ملن نہ ہو پائے گا‘‘ اس کے لہجے میں حسرت تھی۔
’’کیا تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔پرنتو میں نے رادھا سے وشواس گھات کیا ہے۔ یاد ہے اس نے جاتے سمے کیا کہا تھا؟‘‘
’’کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے ماتھے پر آئی شریر سی لٹ کوانگلی پر لپیٹتے ہوئے پوچھا۔
’’مہاراج!کیا واقعی تم کالی داس کی آگیا کا پالن کرو گے؟‘‘ اسکی آنکھوں سے بے یقینی کا اظہارہورہا تھا۔
’’کہہ جو دیا کہ میں ہر صورت میں اپنا وعدہ پورا کروں گا پھر باربار تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟‘‘اسنے میرا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا لیا۔
’’میرے سرکی سوگندکھاؤ کہ تم رادھا کے کارن میرے سنگ وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ اس کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ میں نے زور سے اسے بھینچ لیا۔
’’میری جان! یقین کرو میں تمہارے اعتماد کو دھوکہ نہ دوں گا‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے لگی۔’’پریم !یدی تم نے کالی داس کی سہائتانہ کی تو۔۔۔‘‘ اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں سوچتا تھا بسنتی کیوں خوفزدہ ہے۔ اسنے رادھا کی محبت پر ڈاکا ڈالاتھا۔ اس کا حق استعمال کیا تھا۔ رادھا کو یہ کسی طورگوارا نہ تھاکہ مجھے اس کے علاوہ کوئی چاہے اور بسنتی کو تو وہ میرا نگہبان مقرر کر کے گئی تھی۔ جاپ پر جانے سے پہلے اس نے بسنتی کو بلا کر اسے میری حفاظت کرنے کا حکم دیا تھا۔ پہلی ملاقات میں میں نے بسنتی کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت چھلکتی دیکھ لی تھی۔ رادھا کے جانے کے بعد بسنتی کی حوصلہ افزائی سے میرے قدم ڈگمگا گئے تھے۔ وہ بھی مجھے حاصل کرنے کے لئے بے چین تھی۔ اسی دوران شاید اسکی ملاقات کالی داس سے ہوئی جو خود بھی رادھا پر خار کھائے بیٹھا تھا۔ دونوں نے مل کر سازش سے میرے گرد رادھا کا بندھا ہوا حصار ختم کروایا۔ جس کے لیے کسی کنواری لڑکی سے جسمانی تعلقات قائم کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں سبین کو قربانی کا بکرابنایا گیا۔ میں خود بھی بھی بسنتی کے قرب کے لئے مرا جا رہا تھا بلا سوچے سمجھے بسنتی کے اشاروں پر چل کر اس معصوم کی عزت لوٹ لی۔ جسکا خمیازہ مجھے بھگتناپڑا۔ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔
رادھاکی غیر موجودگی نے اسے کالی داس اور بسنتی کے لئے آسان بنا دیا۔ کالی داس تو شاید کسی طور پر رادھا کا مقابلہ کر لیتا یا چھپ کر اسکے قہر سے بچ جاتا لیکن بسنتی۔۔۔؟ اگر کالی داس اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتا تو بسنتی کی خیر نہ تھی۔ رادھا اسے کسی طور پر معاف نہ کرتی۔
’’اگر میں سفارش کروں تب بھی وہ معاف نہ کرے گی؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا جس کا جواب مجھے فوراً ہی مل گیا ۔
’’نہیں قطعی نہیں‘‘ میرے بارے میں رادھا حد سے زیادہ حساس تھی۔ وہ کسی طور گوارانہ کر سکتی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی آئے۔ صائمہ اس کی مجبوری تھی میں نے واضح میں کہہ دیا تھا اگر صائمہ کو کچھ ہوا تومیں خود کشی کرلوں گا اسی لیے وہ صائمہ کے معاملے میں مجبور تھی۔ لیکن بسنتی کو وہ کبھی نہ چھوڑتی۔ خود میرے ضمیر کی خلش مجھے کبھی کبھی اس بات پر بے چین کر دیتی کہ میری وجہ سے بے گناہ لوگوں کو سزا ملی۔
’’کس وچارمیں گم ہو مہاراج!‘‘ سوچوں کے بھنورمیں پھنس کر میں بسنتی کی موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا جومیری گود میں سر رکھے اداس لیٹی تھی۔
’’بسنتی! کالی داس اور تم نے جس طرح میری مدد کی ہے میں یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ لیکن اس بات کا مجھے بہت دکھ ہے کہ میری وجہ سے بے گناہ لوگ پھنس گئے۔ میرا مطلب ، عمرحیات ، ساجد اور جمال قریشی سے ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اس سمے ان کادھیان تمرے من میں کیسے آگیا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اکثر یہ خیال میرے دل میں آجاتا ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یدی تم ان کے کرموں کی کتھا(کارناموں کی کہانی) سن لو تو پھر کبھی ایسی بات نہ کہو‘‘ وہ منہ بناکر بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’وہ تینوں منش راون سے بھی برے ہیں۔ نہ جانے کتنی ہی ناریوں سنگ بلات کار کیا ہے ان لوگوں نے۔ اس پاپی عمر حیات کی بیٹھک میں ہر رات یہ تینوں اکٹھے ہو کر مدھ پیتے اور مجبور ناریوں کی عجت سنگ کھلواڑ کرتے۔‘‘ بسنتی کی بات سن کر میں شششدر رہ گیا۔
’’اور وہ پاپی ساجد۔۔۔اس نے تو ایک ہتھیا بھی کر رکھی ہے۔ ایک کنیا اس کے پاس آئی جس کا باپو (قیدی) تھا۔ یہ نردئی اس کی سہائتا کرنے کے بہانے اسے عمر حیات کے پاس لے آیا۔ جب وہ آگئی تو ان دونوں نے اس کا بلات کار کیا اور اس کی ہتھیا کردی۔ انہیں اس بات کی چنتا تھی یہ کسی سے کہہ نہ دے‘‘بسنتی نے اپنی بات جاری رکھی میرے ضمیرپر سے بوجھ ہٹ گیا تھا۔
’’اگر یہ بات ہے تو پھر تو ان کے ساتھ ٹھیک ہوا‘‘ اطمینان بھری سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔
’’پریم ! تم پاپ اورپن کے چکر کو چھوڑو کیول اس بات پر دھیان دو کہ رادھا کے آنے پر تم کالی داس سنگ کیا وچن پورا کرو گے‘‘ وہ دوبارہ اصل موضوع پر آگئی۔
’’کیا رادھا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ترنت اس نے جواب دیا۔
’’یہی چنتا تو مجھے بیاکل کر رہی ہے جیسے ہی وہ منڈل سے باہر آئے گی۔ سب سے پہلے تمرے کارن بیاکل ہوگی۔ جب اسے میرے بارے جانکاری ہوگئی وہ ترنت اس کا پربند کر لے گی کہ کالی داس سپھل نہ ہو پائے۔‘‘
اس کی پریشانی بجا تھی رادھا کی قوتوں کا مجھے اندازہ تھا۔ کہیں رادھا مجھ سے بھی ناراض نہ ہو جائے؟ میرے ذہن میں خیال آیا اگر ایسا ہوا تو میرے لئے مشکلات بڑھ سکتی تھیں۔ پریشانی نے مجھے بھی آگھیرا تھا۔
’’پریم! اس بات کا اوش دھیان رکھنا کہ کالی داس کے سپھل ہونے میں ہم سب کا بھلا ہے‘‘ بسنتی میرے دل کی بات جان گئی تھی۔
’’اچھا پریتم! چلتی ہوں کل رادھا آجائے تو اس کے آنے سے پہلے کالی داس تمہیں بتائے گا کیا کرنا ہے؟‘‘ اس نے کہا اور حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے غائب ہوگئی۔ میں اندر آگیا۔ صائمہ محو خواب تھی۔ بسنتی کی باتوں سے میں بھی پریشان ہوگیا تھا۔ دوسری صبح جب میں جاگا تو صائمہ ناشتہ تیار کر چکی تھی۔ اس کے چہرے سے خفگی ظاہر ہو رہی تھی۔ میں نے حیرت سے دیکھا رات کو تو اسکا موڈ بالکل ٹھیک تھا۔
’’کہیں میرے باہر جانے کے بعد صائمہ جاگ تو نہیں گئی تھی؟‘‘ یہ خیال ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔ میرے دل میں چورتھا اس لئے میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا۔ میں جانتا تھا اگر کوئی بات ہوگی تو صائمہ ضرور کرے گی وہ دل میں بات رکھنے کی قائل نہ تھی۔ اور ہوا بھی یہی۔
’’فاروق! آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی ‘‘میرا دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ بچے ناشتہ کرکے سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
’’آپ تو نماز پڑھنا یوں بھول گئے ہیں جیسے مسلمان ہی نہ ہوں‘‘ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی ۔ جو کچھ میں سمجھ رہا تھا وہ بات نہ تھی۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ میں کن راہوں پر چل پڑا تھا۔ اگر اسے میری حرکتوں کا پتا چل جاتا تو زندہ درگور ہو جاتی۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ تو اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے والے تھے لیکن۔۔۔جب سے ہم یہاں آئے ہیں میں آپ کے اندر خاصی تبدیلی دیکھ رہی ہوں۔ خاص کر جب سے اس منحوس جن زادی والا معاملہ شروع ہوا آپ کافی بدل گئے ہیں۔ کئی دن سے آپ نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی‘‘ اس کی آواز دکھ سے بھرا گئی۔ خفت سے میرا سر جھک گیا۔
’’کیا میں یقین رکھوں کہ آپ دوبارہ نماز شروع کر دیں گے؟‘‘ وہ میرا ہاتھ تھامے پیار سے پوچھ رہی تھی۔
’’انشاء اللہ‘‘ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ پیار سے میرا ہاتھ تھپتھپا کر وہ بچوں کے پاس چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ مجھے کیا ہوگیا ہے صائمہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔صراط مستقیم سے بھٹکنے کے بعد مصائب نے مجھے گھیرلیا تھا۔ شریف کے مرحوم والد صاحب کے الفاظ مجھے یاد تھے انہوں نے تاکید کی تھی کہ نماز سے غافل نہ رہوں میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد خرافات سے بچنے کی کوشش کروں گا اور باقاعدگی سے نماز اور تلاوت قرآن کا اہتمام کروں گا۔ یہ سوچ کر دل کو کچھ سکون ملا۔ بچوں کو سکول چھوڑ کر میں بینک روانہ ہوگیا۔ آنے جانے کے لئے میں وہی راستہ استعمال کرتا جس پر میری سادھو امر کمار اور ملنگ سے ملاقات ہوئی تھی۔ صائمہ کی باتیں ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ایسی نیک بیویاں قسمت سے ملا کرتی ہیں اور میں اس معاملے میں خوش قسمت تھا۔
اچانک میری نظر ملنگ پر پڑی۔ وہ سڑک کے کنارے بیٹھا زمین پر انگلی سے لکیریں بنا رہا تھا۔ میں نے گاڑی اس کے پاس روک دی۔ وہ بدستور اپنے شغل میں مصروف رہا۔ میں نیچے اترکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’بابا جی!‘‘ میں نے بڑے ادب سے اسے پکارا۔ کچی زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں بنی ہوئی تھی۔
’’کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ہر طرف سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا ،ابھی میری انگلیاں اس کے ہاتھ سے مس ہوئی ہی تھیں کہ اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا۔ اس تھپڑ کی قوت مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں اچھل کر دو فٹ دور جا گرا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے کپڑے مٹی سے بھر گئے۔ دکھ سے زیادہ مجھے حیرت تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ قہر بار نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کا پُر جلال چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ آنکھوں میں بجلیاں کڑک رہی تھی۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ شفقت اور مہابنی سے پیش آتا رہا تھا۔ بلکہ جب کالی داس نے مجھے گھیر لیا تھا تو اسنے مجھے اس کی گرفت سے نہ صرف آزاد کرایا تھا بلکہ میرے پیٹ کے زخم کو اپنے لعاب سے ٹھیک بھی کر دیا تھا۔ لیکن آج وہ سراپا قہر بنا مجھے گھور رہ اتھا۔
’’غلاظت میں لتھڑے حقیر کیڑے۔۔۔‘‘ تیری جرات کس طرح ہوئی کہ مجھے ہاتھ لگائے‘‘ اس کی قہر بار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ بس کے حادثے سے مجھے بچانے والا آج نہ جانے کس بات پر اتنا ناراض تھا۔
’’جا۔۔۔جا کر اپنی راتیں رنگین بنا۔۔۔بدکاریاں کرتا پھر ۔۔۔جن زادیوں کے لئے عیش و عشرت کا سامان پیدا کر۔۔۔اندھے گڑھے میں جا کر گرجا۔۔۔جہنم کا ایندھن بن جا۔۔۔ناعاقبت اندیش۔۔۔گندگی کھا اور اپنی ہوس پوری کر۔۔۔تجھے کیا مطلب ہے ہم فقیروں سے کیوں آجاتا ہے بار بار میرے سامنے؟ اگر آئندہ میرے پاس آیا تو یاد رکھ زمین پر چلنے کے قابل نہ رہ جائے گا‘‘ اس کی آواز میں وہ گھن گرج تھی کہ میں سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگا۔ میرے گال پر جیسے کسی نے مرچیں بھر دی تھیں۔ کان میں شدید درد ہو رہا تھا۔ ملنگ نے مجھے بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا تھا۔ صبح صائمہ کی بات سے میں کافی شرمندگی محسوس کر چکا تھا۔ لیکن اس کے اور ملنگ کے سمجھانے میں بہت فرق تھا۔ میں ملنگ کی باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ جن راہوں کا مسافر میں بن چکا تھا ملنگ اس سے بے خبر نہ تھا۔ وہ بہت پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ اس کی کرامات کا مشاہدہ کئی بار مجھے ہو چکا تھا۔
کالی داس پراسرارقوتوں کا مالک ہونے کے باوجود اس سے خوفزدہ تھا۔ رادھا جب بلی کے روپ میں تھی وہ بھی ملنگ کو دیکھ کر بھاگ گئی تھی۔ اچانک میرے دماغ میں جیسے بجلی سی چمکی۔ جس رات رادھا مومنہ کے جسم کا سہارا لے کر مجھ سے مخاطب ہوئی تھی تو احد نیند سے جاگ گیا تھا ۔اس کے منہ سے کسی مرد کی گرجدار آواز نکلی تھی۔۔۔ہاں یہ وہی آواز تھی۔ اس سے پہلے بھی ملنگ کئی بار میرے ساتھ مخاطب ہوا تھا لیکن ہمیشہ وہ بے معنی باتیں کرکے قہقہے لگاتا رہا تھا۔ آج پہلی بار وہ مجھ پر غضبناک ہوا تھا اس کی آواز بالکل بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ عام حالت میں اسکی آواز کچھ باریک سی ہوتی لیکن جب وہ غضب میں ہوتا تو اس کی آواز گرجدار ہو جاتی۔ قہر میں ڈوبی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میں زیادہ دیر تک اس کی پُر جلال نظروں کی تاب نہ لا سکا خود بخود میری نظریں جھک گئیں۔ دل چاہ رہا تھا وہ مجھے اور برا بھلا کہے۔ مجھے ڈانٹے۔ میں سر جھکائے منتظر تھا کہ وہ کچھ اور کہے لیکن آواز آنا بند ہو چکی تھی میری آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ دل چاہا ملنگ سے معافی مانگوں۔ نظر اٹھا کر دیکھا لیکن اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ جا چکا تھا مجھے گردوپیش کا کوئی ہوش نہ رہا۔ آنکھیں پھاڑے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں تھوڑی دیر پہلے ملنگ موجود تھا۔
’’کیا بات ہے بھائی صاحب!‘‘ اچانک ایک مہربان سی آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ ایک خوش پوش سا شخص میرے اوپر جھکا پوچھ رہا تھا۔ میں زمین پر پڑا تھا۔ ملنگ نے اس زور سے مجھے مارا تھا کہ میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا تھا اور ابھی تک اسی حالت میں تھا۔ وہ شخص آنکھوں میں حیرت لیے مجھے دیکھ رہا تھا ۔ قریب ہی میری گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے شفیق سے چہرے والے شخص کو دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔
’’کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ لگتا ہے آپ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے‘‘ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ میں نے ہتھیلیوں سے آنکھوں کو پونچا اور سر نفی میں ہلا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ حیرت بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ پھر کاندھے اچکا کر چل پڑا۔ میں پژمردگی سے گاڑی چلانے لگا۔ دل بھر آیا تھا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے میرے کپڑے مٹی سے خراب ہو چکے تھے گھٹنے کے پاس پینٹ پر گوبر کا داغ لگ گیا تھا ۔اس حالت میں نہ تو میں بینک جا سکتا تھا نہ گھر واپس۔ اگر چلا بھی جاتا تو صائمہ کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ میرا دل ہر شے سے اچاٹ ہوگیا اور میں نے گاڑی یونہی ایک کچے راستے پر موڑ لی۔ موسم گرم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ دن کودھوپ میں خاصی گرمی ہو جایا کرتی۔ ملتان اور اس کے گردونواح کی گرمی تو ویسے بھی مشہور ہے۔ میں نے ایک درخت کے سائے میں گاری روک لی اور باہر نکل کر کچی زمین پر بیٹھ گیا۔
’’کس وچار میں گم ہے بالک! ‘‘ اچانک میرے پیچھے سے کالی داس کی آواز آئی۔ میں اپنی سوچوں میں غرق تھا۔ بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کالی داس ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے گہری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’کس بات کی چنتا بیاکل کر رہی ہے؟‘‘ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا لیکن منہ سے نہ بولا۔’’کیا اپنے متر کو بھی نہ بتائے گا؟‘‘ اس نے اصرار کیا۔
’’ایک بہت مخلص دوست مجھ سے ناراض ہوگیا ہے۔‘‘ نہ جانے کس طرح یہ الفاظ میرے منہ سے نکل گئے۔ وہ کچھ میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری مسکراہٹ چھا گئی۔
’’اس مورکھ کی بات کا کیا برا منانا وہ تو ۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کر کالی داس! تو کیا جانے وہ کون ہے؟‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر غرایا۔’’اگر ایک لفظ بھی اس کے بارے میں کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ میری بات سن کر کالی داس کی آنکھوں میں آغ بھڑک اٹھی۔ غیض و غضب سے چہرہ تپ گیا۔ کچھ دیر وہ مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر اس کی سرد آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’شاید تو جانتا نہیں اس سمے کس سے بات کررہا ہے؟ کیا اتنی جلدی سب کچھ بھول گیا۔ جیادہ سمے تو نہیں بیتا ابھی۔۔۔کیا ایک بار پھر میں تجھے بتاؤں میں کون ہوں؟‘‘
’’جانتا ہوں تو گندی قوتوں کا ماہر ہے۔ لیکن تو بھی یہ بات یاد رکھ میں تیرا غلام نہیں ہوں کہ ہر وقت تیرے آگے ہاتھ باندھے کھڑا رہوں۔‘‘ گناہ کا احساس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ پچھتاوے بری طرح مجھے گھیر چکے تھے۔ انجام سے بے خبر میں کالی داس کو بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا۔ مجھے کالی طاقت والے ان وحشیوں سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔ انہی بدبختوں کی وجہ سے آج میں انسان سے جانور بن چکا تھا۔ اب مجھے کسی بات کی پرواہ نہ رہی تھی۔ ملنگ نے جیسے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔ میں اس غفور الرحیم اللہ سے ڈرنے کی بجائے ان شیطانوں سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔
کالی داس غضبناک نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔
’’تجھ جیسے مورکھ بڑی جلدی اپنی جاتی(ذات)بھول جاتے ہیں۔ تجھے کوئی شکشا دینا ہی پڑے گی۔‘‘ وہ گرج کر بولا۔
میرے دل سے کالی داس کا خوف نکل چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ بڑا غور الرحیم ہے انسان ساری زندگی گناہ کرتا رہے پھر بھی اگر سچے دل اسے یاد کرلے تو وہ معاف کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ میں نے بڑی دلیری سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جن میں شیطانی قوتوں کا رقص جاری ہو چکا تھا۔
’’اب تو دیا کی بھکشا بھی مانگے گا تو میں تجھے شما نہیں کروں گا۔‘‘ وہ غرایا۔
’’تجھ جیسے بدکار سے بھیک مانگوں گا؟ جا چلا جا نہیں تو میرا تیرا گلادبا کر زمین کو تیرے گندے بوجھ سے چھٹکارا دلا دوں گا۔‘‘ میں نے بے خوفی سے کہا۔ کچھ دیر وہ مجھے قہر آلود نظروں سے گھورتا رہا پھر اس کے موٹے ہونٹ ہلنے لگے۔ میرے کان کے پاس سرگوشی سی ہوئی۔
’’آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میرے ہونٹ خود بخود حرکت میں آگئے۔ کالی داس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے سے کشمکش کااظہار ہو رہا تھا متحرک ہونٹ ساکت ہوگئے۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ متذبذب سا مجھے دیکھ رہاتھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔ میرے ہونٹ مسلسل حرکت کر رہے تھے۔ کچھ دیر وہ غیض و غضب کی حالت میں کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر بری طرح چونک اٹھا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے میرے پیچھے کسی کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک وہ کسی چھلاوے کی طرح نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کسی نے میری پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا اور ہاتھ رکھنے والے کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
میرے پیچھے ملنگ ہونٹوں پر شفیق مسکراہٹ لیے مجھ دیکھ رہاتھا۔
’’آج وہ مجھ سے نہیں تجھ سے خوفزدہ ہو کر بھاگا ہے۔ دیکھا اللہ پاک کی کلام کا کرشمہ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی بانہیں وا کر دیں میں بے اختیار اس کے مہربان سینے سے لگ گیا۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ملنگ میری پشت پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ میں اسکے شانے پر سر رکھے روتا رہا۔ ملنگ کا کندھا میرے آنسوؤں سے تر ہوگیا۔
’’بس کر میرے بچے! جب انسان سچے دل سے اس غفور الرحیم سے معافی مانگے تو وہ معاف کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتا‘‘ اس نے نرم لہجے میں مجھے سمجھایا۔ تھوڑی دیر پہلے وہ مجسم قہر لیکن اب اس کی آنکھوں میں شفقت کا دریا موجزن تھا۔
’’شیطان ، انسان کا کھلا دشمن ہے اس نے مالک کائنات سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قبر تک انسان کا پیچھا کرے گا اور اسے ہر صورت بہکائے گا۔ وہ اپنے کام میں مگن ہے افسوس تو یہ ہے کہ ہم اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس مقصد کے لئے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے؟ جو اس بات کو سمجھ لیتا ہے وہی کامیاب انسان ہے۔ یہاں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے اسے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک اور بات یاد رکھنا جب انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے تو وہ رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے محروم نہیں۔ اس غفور الرحیم کا در تو ہر وقت کھلا رہتا ہے وہ پکارتا ہے ، ہے کوئی جو مجھ سے رحمت و مغفرت طلب کرے؟ لیکن میرے بچے! سیدھے راستے پر چلنے والوں کو کچھ آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس سے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور درجات میں بلندی عطا ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو۔ لیکن اس بار تم ثابت قدم رہنا۔‘‘اس کی آواز نرم اور شفیق تھی۔
ہمیشہ قہقہے لگانے والا آج سنجیدگی سے مجھے ایمان کی باتیں سمجھا رہا تھا۔ دیوانہ آج فرزانوں جیسی باتیں کر رہا تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کافی دیر تک مجھے سمجھاتا رہا۔ پھر نماز کی پابندی اور ذکر الٰہی کی تاکید کی۔ میں خاموشی سے سر جھکائے اس دانا کی باتیں سنتا رہا58
’’صراط مستقیم پر چلنا سیکھ‘‘
’’بابا جی! آپ تو مجھے وقت ہی نہیں دیتے۔ میں چاہتا ہوں آپ میری انگلی پکڑ کر مجھے سیدھے راستے پر چلنا سکھا دیں‘‘ میں نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔
’’قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو خود بخود سیدھے راستے کی نشاندہی ہو جائے گی‘‘ اتنا کہہ کر وہ چل پڑا۔میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن میری ہمت نہ پڑی کہ اسے آواز دوں اس کے جانے کے بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوگیا۔ ایک جگہ رک کر میں نے کپڑے ٹشو پیپر سے اچھی طرح صاف کیے۔ گھٹنے کے قریب لگا گوبر کا داغ پانی سے دھویا اور بینک روانہ ہوگیا۔ کیبن میں بیٹھ کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ وہ مسکراتا ہوا اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’محمد شریف میں۔۔۔‘‘
’’میں جانتا ہوں جناب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں شکر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت سے نواز دیا ہے۔‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولا۔
’’محمد شریف میں چاہتا ہوں کہ تم دوبارہ میرے گھر اور دفتر کا حصار کر دو‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا رہا۔
’’محمد شریف! تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘ میں نے اسے چپ دیکھ کر سوال کیا۔
’’جناب عالی! معذرت چاہتا ہوں اب یہ ممکن نہیں ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’تم شاید میرے رویے سے ناراض ہو‘‘
’’ایسی بات نہیں جناب! میں تو آپ سے خفا ہونے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ دراصل عملیات میں کچھ اصول ہوتے ہیں اگر انہیں توڑ دیا جائے تو بہت مشکل پیش آتی ہے۔ جب آپ نے حصار ختم کرنے کے لیے کہا تھا تو میں نے انہی بزرگ شخصیت سے گزارش تھی۔ وہ بہت برہم ہوئے تھے۔ لیکن میری درخواست انہوں نے رد نہیں کی۔ دوبارہ میں ان سے اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ میری مجبور کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ جناب!‘‘۔
محمد شریف کے چہرے سے اس کی سچائی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ میرا سر جھک گیا۔ اپنی نادانی سے میں نے سب کچھ گنوا دیا تھا اب خود ہی کچھ کرنا تھا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا مزید ان پُر اسرار قوت رکھنے والوں کے حکم کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا۔ میں خود کو بدلا ہوا شخص پا رہا تھا۔ شریف کے جانے کے بعد کافی دیر اسی معاملے پر سوچتا رہا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آخر کار میں نے سوچا صائمہ کو سارے حالات بتا کر اس سے مشورہ کروں۔
’’لیکن کیا میں سب کچھ اسے بتا سکتا تھا؟ وہ مر کر بھی گوارانہ کرتی کہ اس کی موجودگی میں کسی اور کے ساتھ تعلقات رکھوں۔ کیا وہ رادھا یا بسنتی کے ساتھ گزرے دنوں کے باوجود مجھے اسی طرح چاہتی رہے گی؟‘‘
سوچوں نے میرے دماغ کو تھکا کر رکھ دیا۔ کالی داس ایک بار پھر میرا دشمن بن چکا تھا۔ بسنتی نے بار بار مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں کالی داس کی مدد ضرور کروں۔ شام پانچ بجے جب میں گھر پہنچا تو تھکن سے برا حال تھا۔ ابھی تک میرے دائیں جبڑے میں سخت درد ہو رہا تھا۔ ملنگ کے ایک تھپڑ نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔
میں واقعی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ ’’رادھا کے آنے کے بعد تم دوبارہ تو ان راہوں کے مسافر نہیں بن جاؤ گے؟‘‘ میرے ضمیر نے سوال کیا؟میرا یقین مضبوط تھا۔ اس لئے مجھے اپنے ضمیر کی تنقید بری نہ لگی۔
رادھا کے واپس آنے میں ایک دن رہ گیا تھا۔ اس کے تصور سے میرے دل کی دھڑکنیں ایک بار پھر اتھل پتھل ہونے لگیں لیکن میں نے خود کو سختی سے سمجھایا کہ اب کچھ بھی ہو میں کسی کا ناجائز مطالبہ تسلیم نہ کروں گا۔ مغرب کی نماز با جماعت ادا کی صائمہ بہت خوش تھی۔ اس دن میں نے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ کھیلتے گزارا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں کافی عرصے بعد گھر واپس آیا ہوں۔ رات دیر تک میں اور صائمہ باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن میں علی الصبح جاگ گیا۔ فجر کی نماز کے لیے بھی میں مسجد گیا۔ یہ سب کچھ بتانے سے میرا یہ مقصد قعطاً نہیں کہ میں خود کو نیک اور پرہیز گار ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ میری مراد فقط یہ ہے کہ میری داستان پڑھنے والوں کو اصل حقائق کا علم ہو سکے کہ جب ہم سدھے راستے پر چلنا شروع کرتے ہین تو کوئی بھی شیطانی قوت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ان خرافات کی وجہ سے کام پر بھی کوئی خاص توجہ نہ رہی تھی۔ میں فائلز کے ڈھیر سامنے رکھے اپنے کام میں مصروف تھا۔ چاہتا تھا کافی سارا کام نپٹا لوں۔
’’کیسے ہو پریتم‘‘ رادھا کی آواز سن کر میں اچھل پڑا۔ دیکھا تو وہ قتالہ عالم میرے سامنے والی کرسی پر براجمان تھی۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ اس کا حسن مزید نکھرآیا تھا۔ اسے دیکھ کر گلاب کی نو شگفتہ کلی کا احساس جاگ پڑتا تھا۔
’’کن و چاروں میں گم ہو پریم؟‘‘ اس کی مدھر آواز آئی۔
’’کچھ بدلے بدلے سے جان پڑتے ہو‘‘ اس کی کھوجتی نظریں میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔
’’کیا اتنی جلدی اپنی داسی کو بھول گئے، میں کوئی اور نہیں وہی رادھا ہوں‘‘ اس کے نرم و نازک لبوں پر بڑی دلآویز مسکراہٹ رقصاں تھی۔ میں نے سر جھٹک کر سفلی جذبات سے پیچھا چھڑایا۔
’’جانتا ہوں تم وہی رادھا ہو لیکن ۔۔۔اب وہ فاروق خان نہیں رہا‘‘ میرا لہجہ مضبوط تھا۔
’’ہاں میں دیکھ رہی ہوں کچھ شکتیاں تمرے سنگ ہیں۔ پرنتو پرائی شکتی پر کیا مان کرنا۔ اور ہم کونسے بیری ہیں ہم تو ایک دوجے کے سجن ہیں۔‘‘
’’اسلام میں اس کی گنجائش نہیں کہ غیر محرم مرد و عورت خواہ ان کا تعلق انسانوں سے ہو یا قوم جنات سے ایک دوسرے کے دوست بنیں‘‘ میری دلیل سے اس کے چہرے پر غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت نظر آئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر بولی۔
’’یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے مومن!؟‘‘
’’میرا نام فاروق خان ہے‘‘ میرا لہجہ خشک تھا۔
’’اچھا۔۔۔؟‘‘ اس نے اچھا کو خاصا کھینچ کر ادا کیا۔
’’کیا تم سب کچھ بھول گئے؟ کیا تم نے اپنی رادھا کو بھی بھلا دیا۔ یا تم مجھ سے کسی بات پر ناراج ہو؟ مجھے یہ جانکاری مل چکی ہے میرے نہ ہونے سے تم کشٹ میں پڑ گئے تھے۔ پرنتو میں تمہیں بتایا تو تھا کہ جاپ کرتے سمے میں کسی دوجی اور (طرف) دھیان نہیں دے سکتی۔ اور یہ بات تو تم اوش نہیں بھولے ہوگے کہ میں نے تمہیں کیا اپدیش دیا تھا؟ یدی تم نے کسی ناری سے شریر کا سمندھ جوڑا تو میں تمری سہائتا نہیں کر پاؤں گی اور تمرے بیری ایسے ہی کسی اوسر کی تاک میں ہیں‘‘ اس نے مجھے یاد دلایا۔
’’پرنتو اب میں آگئی ہوں جو کچھ بسنتی اور کالی داس نے تمرے سنگ کیا ہے جانتی ہوں۔ دیکھنا رادھا انہیں کیسی شکشا دیتی ہے؟‘‘ اس کا لہجہ نرم تھا۔
’’جس نے جو بھی کیا اچھا نہیں کیا لیکن میں کسی کو قصور وار نہیں ٹھہراتا کیونکہ غلطی میری تھی۔ میں ہی اپنی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ سب کچھ میری نادانی کی وجہ سے ہوا۔ میں تمہیں بھی قصور وار نہیں سمجھتا رادھا! تم نے کئی بار مشکل وقت میں میری مدد کی ہے میں تمہارا احسان کبھی نہ بھول پاؤں گا‘‘ وہ حیرت سے آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی تھی۔