شرجیل ابھی تک نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
’’آنٹی آپ بھی بیٹھیں اور جاوید تم یہاں آجاؤ میرے پاس ‘‘ وہ کسی حد تک اپنے اعصاب پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ میری ساس منہ بنائے ایک طرف بیٹھ گئیں۔
’’فاروق بھائی! کب آئے آپ؟‘‘ اس نے کھسیانے انداز سے پوچھا۔
’’آج ہی آیا ہوں تم سے ملنے کو دل چاہا تو چلا آیا پر شاید میں مخل ہوا ہوں نا وقت‘‘ میں نے سپنا کی طرف دیکھا۔ جو نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں واقعی شراب کی سی مستی تھی۔ اس کے حُسن کا جادو ہی کسی کو پاگل کرنے کے لئے کافی تھا اس پر وہ جنتر منتر بھی جانتی تھی، اعتماد اس کا قابل دید تھا۔ یوں اکڑی بیٹھی تھی جیسے وہ اس گھر کی مالکن ہو اور ہم سب اس کے نوکر۔ ہاں باقیوں کی بہ نسبت وہ میری ذات میں کچھ دلچسپی لے رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔ وہ حُسن کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھی۔ رادھا ایک کونے میں کھڑی دلچسپی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر بادصبا کی طرح چلتی وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔
’’کیا وچار ہیں ہے نا سندر؟‘‘ اس کی آنکھوں میں شوخی تھی۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اس کے حسن کو پھر کسی وقت دیکھ لیں گے ابھی تو جس کام آئے ہیں اسے پورا کرنا ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچ کر رادھا کو جواب دیا۔ پھر شرجیل کی طرف متوجہ ہوا جو پاؤں کے انگوٹھے سے قالین کو کرید رہا تھا۔
’’شرجیل مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا ہے‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’جی فرمائیے‘‘ وہ ابتدائی جھٹکے سے سنبھلنے کے بعد اب کافی حد تک نارمل نظر آرہا تھا۔ میں نے ایک نظر سپنا کی طرف دیکھا جس کے ہونٹوں پر بڑی دلآویز مسکراہٹ تھی۔
’’فاروق بھائی! میں معذرت چاہتا ہوں آپ کا تعارف کروانا بھول گیا۔ یہ سپنا ہیں۔۔۔جلد ہی ہم دونوں شادی کرنے والے ہیں۔‘‘ شرجیل نے مجھے سپنا کی طرف دیکھتے پا کر جلدی سے کہا۔
’’واقعی۔۔۔یہ اسم با مسمیٰ ہیں ان کو سپنوں میں دیکھنا تو ہر کسی کی خواہش ہو سکتی ہے۔ ‘‘ میں نے ہونٹوں پر بڑی میٹھی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ کمرے میں سپنا کا مد ہر قہقہہ گونج اٹھا۔ اس کے موتیوں جیسے دانتوں کی چمک بڑی ہی مسحور کن تھی۔ صائمہ جو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی غصے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’جب آپ لوگ شعر و شاعری سے فارغ ہو جائیں تو مجھے بلا لیجئے گا۔‘‘ وہ تنتاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ جاوید بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ سپنا نے حقارت سے صائمہ کی طرف دیکھا پھر کندھے اچکا کر دوبارہ نیم دراز ہوگئی۔ خوب کھائی کھیلی ہوئی عورت تھی۔ صائمہ نے نا وقت باہر جا کر غلطی کی تھی سپنا کی تعریف سے میری وہ مرادنہ تھی۔ جو صائمہ سمجھ رہی تھی میں اسے اچھی طرح گھسنا چاہتا تھا لیکن صائمہ سے برداشت نہ ہو سکا۔ خیر اسے بعد میں بلایا جا سکتا تھا۔ میں شرجیل کی طرف متوجہ ہوا۔
’’شرجیل تم نے ناعمہ کے متعلق کیا سوچا ہے؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’فاروق بھائی! میں آنٹی کو بتا چکا ہوں۔ پہلے تو میں نے کوشش کی کہ ناعمہ اس بات پر راضی ہو جائے کہ میں سپنا سے دوسری شادی کر لوں لیکن اس کی ضد تھی کہ میرے ہوتے تم سپنا تو کیا کسی سے بھی شادی نہیں کر سکتے۔ ہر شخص کو دوسری شادی کا حق حاصل ہے میں کوئی غیر قانونی یا غیر شرعی کام تونہیں کر رہا نا؟‘‘ شرجیل نے کہا۔
’’تم نے بالکل صحیح کہا دوسری شادی کی قانون اور شریعت میں اجازت ہے بلکہ دوسری کیا تیسری اور چوتھی کی بھی ہے۔ لیکن میں نے تو سنا ہے کہ تم ناعمہ کو طلاق دے رہے ہو‘‘ میں نے ملائمت سے پوچھا۔
’’پہلے تو میں ناعمہ کی منتیں کرتا رہا لیکن ایک دن اس نے میری موجودگی میں سپنا کی بہت بے عزتی کی۔ ہر کسی کی عزت ہوتی ہے فاروق بھائی! اب سپنا بضد ہے اگرمیں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو پھر مجھے ناعمہ کو طلاق دینا ہوگی۔ اس میں بھی غلطی ناعمہ کہ ہے سپنا نے پہلے اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی بلکہ اس کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس نے بڑے کھلے دل سے اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ ٹھیک ہے میں ناعمہ کے ہوتے ہوئے تمہارے نکاح میں آنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن ناعمہ نے ایک دن ملازموں کے سامنے سپناکو بہت برا بھلا کہا بلکہ کچھ الفاظ ایسے بھی کہے جو میں آنٹی کے سامنے دہرا بھی نہیں سکتا۔‘‘ اس نے وضاحت سے ساری بات بتائی۔
’’اب محترمہ سپنا صاحبہ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی حسین مسکراہٹ ہونٹوں پر چپکائے یک ٹک میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے پسندیدگی کے آثار صاف نظر آرہے تھے بلکہ اتنے واضح تھے کہ شرجیل نے بھی محسوس کیا اور اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’اب سپنا اس بات پر راضی نہیں‘‘ شرجیل نے آہستہ سے کہا۔
’’کیوں سپنا صاحبہ؟‘‘ میں نے مسکرا کر سپنا کی طرف دیکھا۔
اس کے خوبصورت ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی ’’اگر آپ کا حکم ہو تو میں اب بھی اس بات پر کمپرومائز کر سکتی ہوں لیکن صرف آپ کے لئے‘‘ اس نے اپنی مخروطی انگلی کا رخ میری طرف کیا۔ میں نے دیکھا شرجیل کے ماتھے کی تیوریاں گہری ہوگئی تھیں لیکن وہ خاموش رہا۔
’’بہت شکریہ اس عزت افزائی کے لئے۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں آپ اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ناعمہ کے لئے یہ گھر خالی کر دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔‘‘ میں نے متانت سے کہا۔
’’یہ تو خیر ممکن نہیں۔۔۔ہم نے آپ کا اتنا ریگارڈکیا یہ کیا کم ہے؟‘‘ اس نے بڑی ادا سے ماتھے پر آئی زلفوں کی لٹ کو پیچھے جھٹکا۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔
’’گوری کو اندر بلا لو۔‘‘ رادھا نے کہا۔ میں نے جاوید کو آواز دی وہ فوراً ہی اندر آگیا ساتھ میں صائمہ بھی۔ شاید دونوں بہن بھائی دروازے کے باہر ہی کھڑے تھے۔
’’باہر سے گوری کو بلا لاؤ‘‘ میں نے کہا۔ اس دوران میری ساس بالکل خاموشی بیٹھی رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد جاوید گوری کو لے آیا۔ سپنا، گوری کو دیکھ کر بری طرح چونک گئی بلکہ کہنا چاہئے چوکنی ہوگئی۔ گوری نے حیرت سے سب کو دیکھا اور پریشان سی ایک طرف کھڑی ہوگئی جیسے اسکی چوری پکڑی گئی۔ اسکی سراسیمہ نظریں بار بار آنٹی کی طرف اٹھتیں اورجھک جاتیں۔
’’بیٹھ جاؤ‘‘ میں نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ صوفے کے کنارے پر ٹک گئی۔ سپنا تیزی سے نارمل ہوگئی۔ اس کی نظریں ایک بار پھر مجھ پر ٹک گئیں۔
’’یہ کلٹا بھی تمری سندرتا پر ریجھ گئی ہے۔۔۔معلوم ہے اس سمے اسکے من میں کیا ہے؟‘‘ رادھا نے جل کر کہا۔ صائمہ کے بعد اب رادھا بھی اس بات سے چڑ گئی تھی۔ سپنا بڑی بے باکی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
’’صائمہ کے بعد تم کہیں ناراض ہو کر باہر نہ چلی جانا ورنہ میری خیر نہیں‘‘ میں نے چھیڑا جسے رادھا نے سمجھ کر تیکھی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کہیں تمرے من کو بھا تو نہیں گئی؟‘‘
’’تم دو کیا کم ہو کر ایک اور بلا اپنے سر منڈھ لوں‘‘ میں نے شوخ نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا۔ بظاہر میں بظاہر اپنے دائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن میری نظریں رادھا پر تھیں۔ رادھا کے گلاب کی پنکھڑیوں سے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ پھر اچانک میں نے اسے بری طرح چونکتے دیکھا۔ کچھ دیر وہ خلا میں دیکھتی رہی پھرآنکھیں بند کرلیں۔ میں بھی چونک گیا۔ رادھا پوری طرح آنکھیں بند کئے کھڑی تھی۔ سب میرے بولنے کے منتظر تھے اور میں رادھا کے بولنے کا۔ تھوڑی دیر بعد رادھا نے آنکھیں کھولیں۔۔۔جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔
’’کیا بات ہے رادھا ‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر دل میں سوچا۔
’’کھیل شروع ہونے والا ہے۔ جاوید سے کہو وہ جا کر ناعمہ بھیج دے اور کھد تمری سنتان کے پاس بیٹھ جائے، اسکو سختی سے سمجھا دینا کہ وہ ان کو کمرے سے باہر نہ نکلنے دے میں دو پل میں آتی ہوں کچھ پر بند کرنا ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میں نے جاوید کو اپنے پاس بلا کر اسے سمجھایا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ وہ اسی وقت چلا گیا۔ کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا تھا۔ شرجیل میری طرف دیکھ رہا تھا کہ میں کچھ کہوں لیکن جب تک رادھا نہ آجاتی میں کچھ بھی نہ کہہ سکتا تھا نہ جانے اس نے کیا خطرہ محسوس کیا تھا کہ چلی گئی تھی ۔اندر سے میرا دل ڈر بھی رہا تھا کہیں پہلے کی طرح رادھا نہ آسکی تو کیا ہوگا؟ لیکن دل کڑا کرکے بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آگئی۔۔۔میری جان میں جان آئی۔
’’موہن! کچھ سمے کیلئے سپنا کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھو۔‘‘ اس نے آتے ہی ہدایت دی۔ وہ کچھ پریشان اورالجھی ہوئی دکھائی دی۔
’’میں نے سنا ہے آپ کچھ جادو ٹونے میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں؟‘‘ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو ایسے ہی میں نے سپنا سے ایک سوال کر دیا۔’’فاروق بھائی! کیسی باتیں کر رہے ہیں، کہاں سپنا جیسی تعلیم یافتہ خاتون اور کہاں جادو ٹونے۔۔۔؟ یہ تو جاہلوں کے ڈھکوسلے ہوتے ہیں‘‘ شرجیل نے اس طرح کہا جیسے میں نے نہایت احمقانہ بات کہہ دی ہو۔
’’اگر یہی بات میں آپ سے پوچھوں تو؟‘‘ سپنا نے بڑے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔
’’چونکہ سوال پہلے میں نے کیا ہے اس لحاظ سے اخلاقاً میں جواب سننے کا حقدار بھی پہلے ہوں‘‘ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
’’میں نے کچھ عرصہ ہندوستان میں گزارا ہے اس دوران ایک جوگی سے دو لفظ سیکھ لئے تھے‘‘ اس نے بے پراہی سے کہا’’لیکن آپ پر میں جادو قطعاً نہیں کروں گی کیونکہ آپ کے لیے میرے حسن کا جادو ہی کافی ہے‘‘ اس کی بات نے سب کو حیران کر دیا۔۔۔اور تو اور شرجیل کا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا۔
اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ سپنا اس قدر بے باکی سے اس کے سامنے ایسی بات کہہ دے گی۔ پھر بھی اس نے خجالت مٹانے کی خاطر کہا۔
’’سپنا بہت بزلہ سنج واقع ہوئی ہیں‘‘ پھر بڑے لاڈ سے اسے دیکھا۔
’’سپنا ہر کسی میں حس ظرافت اتنی نہیں ہوتی۔ خان بھائی ایک سیدھے سادھے ینگ آفیسر ہیں جن کا سارا وقت فائلوں کو دیکھتے اور ان پر دستخط کرتے گزرتا ہے۔ کیوں فاروق بھائی؟‘‘ اس نے آخری فقری میری طرف دیکھ کر کہا۔
میں نے کچھ کہنے سے پہلے صائمہ کو نظروں میں تنبیہہ کی وہ بالکل خاموش رہے۔ اس سے پہلے کہ میں شرجیل کی بات کا جواب دیتا سپنا نے شرارت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’خیر اتنے سیدھے بھی نہیں ہیں۔ بہت گہرے انسان ہیں۔ کیا آپ مجھے اپنا ہاتھ دکھائیں گے؟ دراصل مجھے تھورا بہت شغف پامسٹری سے بھی ہے‘‘ وہ ایک ادا سے لہراتی ہوئی اٹھی اور میرے قریب آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے اور میرے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہ رکھا تھا۔ اگر میں نے صائمہ کو اشارہ نہ کیا ہوتا تو شاید وہ اٹھ کر اس کے منہ پر تھپڑ مار دیتی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی رہی لیکن اس کا چہرہ کسی تنور کا منظر پیس کر رہا تھا۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھا وہ آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لئے اس نے آنکھیں کھول کر مجھے اشارے سے اسے ہاتھ دکھانے کے لئے کہا پھر آنکھیں بند کرکے پڑھنے لگی۔ معاملہ کچھ زیادہ ہی گھمبیر دکھائی دیتا ورنہ رادھا نے تو کالی داس جیسے طاقتور انسان کو ایک منٹ میں زمین چانٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ سپنا کے سامنے کر دیا۔اس نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے نرم و نازک ہاتھ میں تھام لیا۔ میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑنے لگیں اس کا ہاتھ تپ رہا تھا وہ مخمور نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور میری ہتھیلی پر اپنی نظریں جما دیں۔ آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ وہ غور سے میرا ہاتھ دیکھ رہی تھی۔ کبھی کبھار وہ نظریں اتھا کر اپنی بڑی بڑی حسین آنکھوں سے مجھے دیکھ کر مسکراتی پھر آنکھیں ہتھیلی پر مرکوز کر دیتی۔ صائمہ پیج و تاپ کھا رہی تھی سب خاموش بیٹھے تھے۔ آنٹی کے چہرے پر بھی ناگواری کے تاثرات تھے۔ اگر جاوید نے انہیں پیر کے ساتھ میرے سلوک کے بارے میں بتا نہ دیا ہوتا تو شاید وہ قطعاً اس بات کوپسند نہ کرتیں۔ قریباً دس منٹ سپنا میرے ہاتھ کو دیکھتی رہی پھر ایک گہری سانس لے کر چھوڑ دیا۔
’’کچھ مجھے تو بتائیں آپ کو کیا پتا چلا، میرے ہاتھ کی لکیروں میں کیا لکھا ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
’’خان صاحب! کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سب کے سامنے کرنے والی نہیں ہوتیں۔ مثلاً ۔۔۔شکنتلا‘‘ اس نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اس کا خیال تھا میں گھبرا جاؤں گا۔ بہرحال وہ کچھ نہ کچھ جانتی ضرور تھی ورنہ اسے کیسے معلوم ہوتا کہ شکنتلا کا کیا معاملہ ہے۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ باہر شور سنائی دیا۔ کوئی زور زور سے بول رہا تھا۔ چوکیدار شاید اسے آنے سے روک رہا تھا۔ ایک بھاری سی آواز آئی۔
’’مجھے جانے دے ۔۔۔سنتا ہے مجھے جانے‘‘
جواباً چوکیدار نے کچھ کہا لیکن اس کی آواز میں التجا تھی۔ ابھی شرجیل اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور ایک کالا بھجنگ شخص اندر گھس آیا۔ وہ اس قدر سیاہ تھا جیسے توا ۔ جسم پر اس نے کالا سیاہ لباس پہن رکھا تھا جو ایک کرتے اور دھوتی پر مشتمل تھا۔ اس کی شکل اس قدر مکروہ تھی کہ ایک بار دیکھ کر دوسری بار اس پر نظر ڈالنے کو دل نہ کرتا تھا۔ اوپری ہونٹ کٹا ہوا تھا اور سامنے کے اوپر والے دانت کافی بڑے اور منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں کلائیوں میں کافی سارے لوہے کے کڑے پہن رکھے تھے ہاتھ ہلانے کے ساتھ وہ بری طرح جھنجھنا اٹھتے۔ سیاہ چہرے پر اس کی لال سرخ آنکھیں اسے کافی ڈراؤنا بنا رہی تھیں۔ اس نے سب سے پہلے سپنا پر نظر ڈالی اور پوچھا۔
’’تو ٹھیک تو ہے نا ۔۔۔کسی نے تجھے کچھ کہا تو نہیں؟‘‘ سپنا کی آنکھوں میں اس کے لئے اجنبیت تھی۔ لیکن وہ اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی ’’میں تجھ سے پوچھ رہا ہوں تو ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ اس نے سپنا کو خاموش پا کر دوبارہ پوچھا۔ رادھا بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے کیا ہونا ہے اور تم کون ہو؟‘‘ سپنا نے جواب دے کر سوال کیا۔
’’مجھے میرے دوست نے تیری حفاظت کے لئے بھیجا ہے‘‘ اس نے ہم سب پر نظرڈال کرکہا۔ اچانک اسکی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ بڑی دلچسپی سے اس طرف دیکھ رہا تھا جہان رادھا کھڑی تھی۔
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ اسکے کٹے ہوئے ہونٹ مسکرا کر اور بھیانک منظر پیش کرنے لگے۔ صائمہ منہ دوسری طرف پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’آ۔۔۔چل‘‘ اس نے بے پرواہی سے ایک نظر رادھاپر ڈال کر کہا۔ سب اس بات پر حیران تھے کہ سپنا نے اسے دیکھ کر نہ تو نفرت کا اظہار کیا تھا نہ اس سے زیادہ سوال و جواب کیے تھے۔
’’کہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہ نہ پوچھ۔۔۔تو نہیں جانتی تو اس وقت کس مصیبت میں پھنسنے جا رہی تھی۔ یہ تو میں بروقت پہنچ گیا۔۔۔نہیں تو تو برباد ہو جاتی‘‘ وہ ننگے پاؤں تھا۔ قیمتی قالین اس کے گندگی سے لتھڑے پاؤں سے خراب ہو چکا تھا۔
’’کون ہو تم اور سپنا کو کہا لے جانا چاہتے ہو؟‘‘ شرجیل جو حیران و ششدر کھڑا تھا اسنے کالے بھجنگ سے پوچھا۔ اس کی لال انگارہ آنکھیں شرجیل پر ٹک گئیں۔
’’نادان چھوکرے ! تو نہیں جانتا۔۔۔تیرے آستین کے سانپ ہی تجھے ڈسنا چاہتے تھے۔ میں اس وقت اس سے زیادہ تجھے کچھ نہیں بتا سکتا۔ میرا دوست واپس آجائے پھر دیکھ لوں گا‘‘ اس نے میری اور رادھا کی طرف دیکھ کر بڑی حقارت سے کہا ’’چل جلدی کو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے میں ایک بہت ضروری کام چھوڑ کر تجھے لینے آیا ہوں‘‘ اس بار وہ سپنا سے مخاطب ہوا۔
سپنا کچھ دیر گومگوکی کیفیت میں کھڑی رہی پھر کسی فیصلے پر پہنچ کر بولی ’’شرجیل میں جا رہی ہوں کل آؤں گی جب تک تم ان کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لو اب زیادہ دیر کرنا ٹھیک نہیں‘‘ اتنا کہہ کر اس نے ایک نظر کالے بھجنگ پر ڈالی اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
’’موہن تم تھوڑی دیر کے لئے مجھے اپنے اندر آنے دو۔ تمسے یہ معاملہ سنبھالا نہیں جائے گا ۔یہ پاپی بہت کچھ جانتا ہے ۔کالی داس نے اس سے سہائتا کی بنتی کی ہے‘‘ رادھا نے ایک عجیب سی فرمائش کی۔
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا‘‘ میں نے سوچ کر ذریعے کہا۔
’’تم کیول اتناکہہ دوکہ میں تمہیں آگیا دیتا ہوں کہ تم میرے شریر میں پرویش کرلو‘‘ رادھا نے جلدی سے کہا۔ وہ برابر سپنا اور اس کالے پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
’’لیکن سپنا! میرے منہ سے عورت کی آواز اور ہندی کے الفاظ نکلیں گے تو یہ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
’’میں دھیان رکھوں گی تم چنتانہ کرو۔‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔
’’ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے‘‘ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن موقع کی نزاکت کے لحاظ سے میں نے ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اچانک رادھا میری نظروں سے اوجھل ہوگئی اس کے فوراً بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے گرم ہوا کا جھونکا میرے جسم میں داخل ہوگیا ہو ،میرا جسم کپکپا اٹھا۔ اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
’’یہ اتنا آسان نہیں بے وقوف! تیرا کیا خیال ہے میں یہاں جھک مارنے آیا ہوں؟‘‘ میں جیسے خود پر اختیار رکھے بیٹھا تھا۔ میرے اندر رادھا بول رہی تھی۔ ایک نظارہ اس کا میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا جب رادھا مومنہ کے جسم میں داخل ہو کر میرے ساتھ ہمکلام ہوئی تھی۔ اتنا سننا تھا کہ کالا بھجنگ بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ اس کے بدنما کٹے ہوئے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس کی نظریں مجھ پرجمی ہوئی تھیں۔
’’تو مجھے روکے گا۔۔۔جانتا ہے میں کون ہوں؟ مجھے کھیڈؤ چوہڑا کہتے ہیں‘‘ (چوہڑے جو پہلے زمانے میں لوگوں کے گھروں سے غلاظت اٹھایا کرتے) ۔ وہ بڑی حقارت سے بولا اور سپنا کا ہاتھ پکڑکرباہر جانے لگا۔ یک بیک میرا ہاتھ اٹھا اور سپنا ایک چیخ مارکر نیچے گر گئی۔ اس کی آنکھیں چڑھ گئیں اور ہاتھ پاؤں بری طرح مڑ گئے تھے۔ وہ اس مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی جسے پانی سے نکال کر باہر پھینک دیا گیاہو۔
کالے کی آنکھوں کی سرخی مزید بڑھ گئی۔
’’تم سب کمرے سے باہر چلے جاؤ‘‘ اچانک میرے منہ سے نکلا۔ مخاطب صائمہ، آنٹی اور گوری وغیرہ تھیں۔ صائمہ کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی لیکن وہ بغیر کچھ کہے سب کے ساتھ باہر جانے لگی تو میں نے کہا۔
’’اگرجاوید ناعمہ کولے آیاہ و تو اسے اندربھیج دینا‘‘ اس نے سر ہلایا اور باہر چلی گئی۔ میں کیا میرے اندر رادھا بول رہی تھی۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ناعمہ اندر آگئی۔ شرجیل حیرت سے منہ کھولے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
’’آج میں تمہیں اس حسین بلا کے کالے کرتوت دکھاؤں گا جسے تم اپنا سب کچھ بنائے بیٹھے ہو۔اس ناگن کی خاطر اپنی وفا شعار اور پیاری بیوی کو ٹھکرا رہے ہو؟‘‘ میں نے سپنا کی طرف اشارہ کرکے شرجیل کو مخاطب کیا۔ وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔ سپنا ابھی تک تڑپ رہی تھی کھیڈو چوہڑے کے چہرے پر کشمکش کے آثار تھے وہ کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا تھا۔ بالآخر اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میرا تمہارا کوئی براہ راست جھگڑا نہیں ہے۔ میرے دوست نے کچھ عرصے کے لئے اس چھوکری کو بطور امانت میرے سپرد کیا ہے۔ اور جب تک وہ نہ آجائے میں اس کی حفاظت کروں گا۔ میں تجھ سے صرف اتنا کہتاہوں کہ اس کے آنے تک چھوکری کو مجھے لے جانے دے۔۔۔بعد میں تو اس کے ساتھ کیا کرتا ہے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘
میں نے بڑے تحمل سے اس کی بات سنی پھر میرے منہ سے نکلا۔
’’میں بھی تمہارے جیسے ذی علم کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتا لیکن اس لڑکی کو جب تک اس کے کیے کی سزا نہیں مل جاتی تم اسے نہیں لے جا سکتے۔ دوسرے اسے یہ بھی وعدہ کرنا ہوگا کہ یہ دوبارہ اس گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی اور اپنے ناپاک عزائم لے کر ہمیشہ کے لئے دفع ہو جائے گی‘‘ میں نے کالے سے کہا۔
وہ کچھ دیر کھڑا ہونٹ چباتا رہا پھر بولا ’’یہ وعدہ تو میں کر سکتا ہوں کہ میرے دوست کے آنے تک یہ دوبارہ اس گھرمیں نہیں آئے گی لیکن اس کے آنے کے بعد یہ کیا کرتی ہے یا تم کیا کرتے ہو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘
’’کیا دوست دوست کی رٹ لگا رکھی ہے۔ سیدھی طرح اس منحوس کالی داس کا نام کیوں نہیں لیتا۔۔۔؟‘‘ میں نے گرج کر کہا۔ وہ بری طرح چونک گیا۔
’’تمہارا کیا خیال تھا کہ وہ بدبخت مجھ سے چھپ جائے گا میں تو شدت سے اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ وہ زنکا ، نامرد ، اپنے دائرے سے نکلے اور میں اسے قبر میں اتاروں‘‘ میری دھاڑ کمرے میں گونج اٹھی۔
’’اس کے آنے کے بعد تو اسے قبرمیں اتاریا وہ تجھے ۔۔۔اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں صرف اس وقت تک اس لڑکی کو بچاؤں گا جب تک وہ آنہیں جاتا۔‘‘ اسنے بڑے اٹل لہجے میں کہا۔
’’تم اس لعنتی کی مدد کیوں کررہے ہو، تم نہیں جانتے وہ کتنا شیطان صفت ہے؟‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’اس نے ایک بار میری جان بچائی تھی۔ اس کا بہت بڑا احسان ہے مجھ پر، میں کسی صورت اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچنے دوں گا۔ میں ایک بار پھر تجھ سے کہہ رہا ہوں باز آجا نہیں تو بعدمیں معافی مانگتا رہے گا لیکن میں معاف نہیں کروں گا۔‘‘ اس نے قہر بار نظر مجھ پر ڈالی۔
ناعمہ تصویر حیرت بنی ایک طرف کھڑی تھی۔ سپنا بے سدھ قالین پر پڑی تھی تڑپنا تو اس نے بند کردیا تھا لیکن اس کے منہ سے کراہیں نکل رہی تھی۔
’’اٹھ چھوکری۔۔۔!‘‘کھیڈو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا ۔ جیسے ہی کھیڈو کا ہاتھ سپنا کے ہاتھ سے لگا وہ بھلی چنگی ہوکر کھڑی ہوگئی۔ اب وہ نفرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’میں جا رہاہوں اگر اس بار تم نے کوئی حرکت کی تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘
اس نے قدم باہر کی طرف بڑھائے لیکن رادھا اسے جانے دیتی یہ کیسے ممکن تھا؟ میرا ہاتھ خود بخود اٹھا اور اس کے پاؤں کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ لوہے کا باریک کڑا کھیڈو کے دونوں پاؤں کے گردپڑ گیا۔ وہ دھڑام سے قالین پر گر گیا۔ لیکن گرتے ہی وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اسکے کٹے ہوئے ہونٹ حرکت کرنے لگے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے میرے بدن میں آگ بھڑک اٹھی ہو۔ میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ شرجیل اور ناعمہ نے چونک کر مجھے دیکھا ا
’’کیول ایک پل کے لیے سہن کر لو میرے میت!‘‘ رادھا کی آواز میرے کان میں آئی۔ اذیت میری برداشت سے باہر تھی۔ یوں محسوس ہو رہاتھا جیسے کسی نے مجھے تپتے ہوئے تنور میں ڈال دیاہو۔ رادھا فوراً میرے جسم سے نکل کر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔ اس کے نکلتے ہی میرا جسم پرسکون ہوگیا۔ رادھا کی آنکھوں میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔
اس نے قہر بار نظروں سے کھیدو کی طرف دیکھا پھر کسی بگولے کی طرف گھومتی ہوئی کھیڈو کی طرف بڑھی اور اس کے اندر سما گئی۔ دوسرے ہی لمحے وہ کسی ذبح کیے ہوئے بکرے کی طرح ڈکرایا اور زمین پر گر کر بری طرح تڑپنے لگا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑے وہ بری طرح ڈکر ا رہا تھا جسیے کوئی اس کا گلا کاٹ رہاہو۔ اس کے منہ سے خون کی دھار نکل کرقالین میں جذب ہونے لگی۔ سپنا خوفزدہ ایک طرف کھڑی تھی اسکا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہوچکا تھا۔
’’مم۔۔۔مج۔۔۔مجھے۔۔۔معاف کر۔۔۔دو‘‘ کھیڈو کے منہ سے الفاظ بمشکل نکلے۔ خون مسلسل اس کے منہ سے جاری تھا۔ تھوڑی دیر بعد رادھا اس کے جسم سے نکل آئی۔
’’تو نے میرے موہن کو کشٹ دیا۔ تجھے شما کر دوں؟ یدی کوئی میرے پریتم کو بری نجر سے دیکھے تو میں اسے سنسار سے پرلوک بھیج دیتی ہوں تونے گھور پاپ کیا ہے تو شما کے یووک نہیں۔‘‘
رادھا کی قہر بار آواز آئی۔ صرف مجھے اور کھیڈو کو ہی اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اور یہ تو میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ جسے وہ چاہتی وہی اسکی آواز سن پاتا۔ ناعمہ اور شرجیل پھٹی پھٹی آنکھوں سے کھیڈو کی طرف دیکھ رہے تھے جو دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑے بے سدھ پڑا تھا۔ رادھا نے میری طرف دیکھا وہ میری مرضی معلوم کرنا چاہ رہی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اسے کہا اگر اسے مارنا ہی تویہاں یہ کام نہ کرنا کہیں یہ لوگ کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔
’’چنتا نہ کرو موہن! میں اس دھشٹ کا کریہ کرم کسی اور استھان پر کروں گی‘‘ رادھا نے مجھے تسلی دی پھر ہاتھ اس کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اچانک کھیڈو چوہڑ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خون کی ایک لکیر اب بھی اس کے ہونٹوں سے جاری تھی۔ وہ دائیں ہاتھ سے اپنا گلا سہلا رہا تھا۔ اس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ چکا تھا۔ سب غرورو تنتنا غائب ہوگیا۔ اس نے فریادی نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا اور کپکپاتے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔
’’مجھے معاف کر دو۔۔۔آئندہ میں کبھی ایسی گستاخی نہیں کروں گا۔ تم جانو اور یہ لڑکی۔ میری جان بخشی کر دو۔ ۔۔۔میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا‘‘ وہ باقاعدہ منتوں پر اتر آیا۔ چونکہ رادھا میرے ساتھ کھڑی تھی اسلیے سب سمجھے کھیڈو مجھ سے معاف مانگ رہا ہے۔ سپنا اور گوری کے رنگ لٹھے کی طرح سفید ہو چکے تھے۔
’’یدی جیون چاہتا ہے تو ترنت بھاگ جا‘‘ رادھا نے نفرت سے اس پر تھوک دیا اتنا سننا تھا کہ وہ سر پرپاؤں پر گڑ گئیں۔ اچانک وہ لڑکھڑائی اور دونوں ہاتھوں سے سرکو تھام لیا رادھا آہستہ سے چلتی ہوئی اس کے پاس چلی گئی اور اپنا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا۔۔۔اس کے بعد وہ گوری کے پاس آئی اور اس کے ساتھ بھی وہی حرکت دہرانے کے بعد آکر میرے پاس کھڑی ہوگئی۔
’’موہن! گوری سے کہو وہ سب کچھ بتا دے نہیں تو اس کا حال بھی کھیڈو جیسا ہی ہوگا۔‘‘
میں سمجھ گیا رادھا کیا چاہتی ہے؟ میں نے غصے سے گوری کی طرف دیکھا جس کے چہرے پرموت کی زردی چھائی ہوئی تھی۔
’’جو چکھ تو نے آج تک سپنا کے کہنے پرکیا ہے سب کچھ سچ سچ بتا دے نہیں تو ۔۔۔جو حال میں نے اس کالے بھجنگ کا کیا ہے اس سے بھی برا تیرا کروں گا‘‘ وہ لرزنے لگی۔
’’مم۔۔۔میں۔۔۔سب۔۔۔کچھ بتا دوں گی خدا کے واسطے مجھے معاف کر دیں۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی ساتھ ہی رونے لگی۔ میں نے رادھاکے کہنے پرصائمہ وغیرہ کو بھی اندر بلا لیا۔ گوری کسی بھرے ہوئے ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنے لگی۔ کہ کس طرح سپنا بی بی نے اسے تعویز لا کر دیئے جو وہ ناعمہ باجی کو چائے اور دودھ وغیرہ میں پلاتی رہی۔
’’سپنا بی بی نے کہا تھاجب ناعمہ باجی مرجائے گی تو میں تمہیں اپنے رکھ لوں گی اور ۔۔۔اور۔۔۔‘‘ اتناکہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
’’بولتی ہے یا پھر‘‘ میری گرج دار آواز سن کر وہ لرزرنے لگی۔
’’سپنا بی بی نے کہا تھا جب میں شرجیل بابو سے شادی کر لوں گی تو کبھی کبھی رات کو مم۔۔۔میں تمہیں بھی شرجیل بابو کے کمرے میں بھیج دیا کروں گی‘‘ گوری نے جھجکتے ہوئے بتا دیا۔ شرجیل کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔ ناعمہ اور صائمہ نے جلدی سے دوپٹوں میں منہ چھپا لیے۔ سپنا کا رنگ دھلے ہوئے لٹھے کی طرح سفید ہو چکا تھا۔ وہ پاس پڑی کرسی پر ڈھیر ہوگئی۔
’’سن لیا تم نے ۔۔۔؟‘‘ میں نے حیرت سے منہ کھولے شرجیل کو مخاطب کیا۔
’’فا۔۔۔فاروق۔۔۔بھائی میں کیا کہوں میری تو عقل خبط ہو چکی ہے‘‘ پھر وہ سپنا سے مخاطب ہوا۔’’سپنا میں نے تمہیں کیا سمجھا تھا اور تم کیا نکلیں؟ یہ سب کچھ تم نے کیوں کیا؟‘‘ اس کے چہرے پر دکھ اور تاسف کے گہرے بادل چھا گئے تھے۔
سپنا نظریں نیچی کیے بیٹھے تھی۔ اس کا سارا تنتنا ختم ہو چکا تھا۔ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مسلتے ہوئے وہ شرجیل کی طرح دیکھتی پھر منہ نیچے کر لیتی۔’’اس کلٹا کے کارن کئی گھر برباد ہوئے ہیں۔ نسیم نامی ایک ناری کے پتی کو اسنے اپنے منتروں سے ایسا بس میں کیا کہ وہ اپنا سارا دھن اس پر لٹابیٹھا، کیول یہی نہیں اس ابھاگی نے اپنی پتنی کو بھی چھوڑ دیا۔ اس دکھیاری نے اپنی کومل سپتری کی ہتھیا کرکے آتم ہتھیا کر لی‘‘ رادھا نے مجھے معلومات پہنچائیں۔
’’تمہاری وجہ سے کتنے گھر برباد ہوئے۔۔۔؟ کتنی عورتوں نے خو دکشی کرلی؟ تم ایک ڈائن ہو، تمہیں معاف کرنا انسانیت پر ظلم‘‘ میں نے نفرت بھری نظر سپناپر ڈالی۔
’’نسیم نامی وہ عورت تو تمہیں یاد ہوگی جس کے شوہر کو تم نے اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر اس سے سب کچھ لوٹنے کے بعد اس کی بیوی کو طلاق دلوا دی تھی۔ اس بے چاری نے اس غم میں اپنے ہاتھوں سے اپنی ننھی سی بیٹی کو مار کر خود کشی کر لی تھی۔ یاد ہے یا بھول گئیں۔۔۔؟ تمہارے گناہوں کی فہرست خاصی طویل ہے میں نے تو صرف ایک واقعہ بتایا ہے۔‘‘
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس سے زیادہ حیران شرجیل تھا۔
’’اس پاپن نے تمرے شریر کو اپنے پلید ہاتھوں سے چھوا تھا اس کارن راپ تو اسے او ش ملے گا۔‘‘ رادھا کو اپنی جلن ستائے جا رہی تھی۔
’’پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے سوچ کے ذریعے رادھا سے پوچھا۔
’’دیکھتے جاؤ۔‘‘ رادھا چلتی ہوئی سپنا کے پاس کھڑی ہوگئی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ سپنا کو کچھ سزا دینا چاہتی ہے۔ صائمہ کو خوش کرنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔
’’تم نے اپنے گندے ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھامنے کی جرأت کی تھی۔۔۔کیا سمجھی تھیں میں بھی دوسرے احمقوں کی طرح تم پر ریجھ گیا ہوں؟‘‘ میری بات سن کر شرجیل کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ میں نے ڈائریکٹ اس پر چوٹ کی تھی۔
’’تمہیں اس گناہ کی سزا تو ضرور ملے گی‘‘ میں نے کنکھیوں سے صائمہ کی جانب دیکھا جس کا چہرہ خوشی اور فخر سے چمک رہا تھا۔ رادھا میری چالاکی سمجھ گئی تھی اس کے گلابی لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ آگئی۔ اس نے سپنا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ میری باتوں سے پہلے ہی ڈری بیٹھی تھی بری طرح چونک کر اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی جو کسی نادیدہ گرفت میں آگیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے تھانیدار والا واقعہ گھوم گیا جب رادھا نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور ا س کا خوبصورت ہاتھ انگارے کی شکل اختیار کر گیا تھا جس سے تھانیدار کے جسم کو آگ لگ گئی تھی۔ میں لرز گیا۔ رادھا کی آنکھوں سے قہر ٹپکنے لگا۔ میں نے جلدی سے رادھا کی طرف دیکھا۔
’’رادھا! دھیان رکھنا صائمہ کے گھر والوں کے لئے کوئی مصیبت نہ کھڑی نہ لینا۔‘‘ میں نے سوچ کے ذریعے اسے مخاطب کیا۔ اس نے میری طرف دیکھ کرمطمئن ہونے کا اشارہ کیا۔ اچانک سپنا اپنا ہاتھ جھٹکنے لگی۔ وہ بری طرح چیخ رہی تھی سب کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹ گئیں۔ سپنا کے ہاتھ پر موٹے، موٹے آبلے پڑ چکے تھے۔ اس کے خوبصورت شفاف ہاتھ پر بدنما داغدار آبلے نکل آئے۔ رادھا ایک طرف کھڑی دلچسپی سے سپناکو دیکھ رہی تھی۔ اچانک سپنا میرے قدموں میں گر پڑی۔ میں بری طرح بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا۔
’’خداکے واسطے مجھے معاف کر دو۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔ہائے میں مر گئی مجھے معاف کر دومجھ سے یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے‘‘ رادھا کے ہونٹ ہلے اس نے کچھ پڑھ سپنا پر پھونک دیا۔
میں نے دیکھا سپنا کسی معمول کی طرح اٹھی اور جا کر ناعمہ کے قدموں میں گر گئی۔
’’مجھے معاف کر دو ناعمہ۔۔۔مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ میں نے تمہارے خاوند پر جادو کرکے اسے اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔ میں مانتی ہوں کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے لیکن تم ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہو مجھے یقین ہے تم مجھے معاف کر دو گی‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
ناعمہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔ رادھا میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ سب سے زیادہ خوشی صائمہ کو ہو رہی تھی۔ سپنا اٹھ کر دوبارہ میرے پاس آگئی۔
’’خان صاحب! میں آپ سے بھی معافی مانگتی ہوں آپ بہت علم والے ہیں، میں دو چار جنتر منتر سیکھ کرسمجھ بیٹھی تھی کہ میں ہی سب کچھ ہوں لیکن سچ کہتے ہیں ہر سیر کو سوا سیر ہوتا ہے۔ براہ کرم مجھے معاف کر دیں۔‘‘ اس کا ہاتھ سوج کا کپا ہو گیا تھا جس پر بڑے بڑے چھالے بن گئے تھے۔ اس کی چہرے کی بے چارگی دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔ شاید میں اسے معاف کر دیتا لیکن رادھانے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’یہ کلٹا اس سمے کیول اپنی جان بچانے کے وچار میں ہے۔ اس کے ہر دے میں کھوٹ ہے یہ اپنے اس پاپی گرو کے انتجار میں ہے کہ وہ آکر تم سب کو کشٹ دے سکے۔‘‘
’’تمہارے یہ مگر مچھ کے آنسو میرے اوپر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ میں خوب جانتا ہوں تمہارے دل میں کہا ہے؟ تم اس منحوس کالی داس کے انتظار میں جو تمہارا انتقام لے سکے۔ اس بات کا تو مجھے ذرا بھر خوف نہیں ہے کیونکہ تمہارا وہ مکروہ اور لعنتی استادمجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن جو کچھ تم نے بے گناہ لوگوں کے ساتھ کیا ہے اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی‘‘ میرے کہنے پر اس کا چہرہ ایک بار پھر سفید پڑ گیا۔ اس نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں بے بسی کا احساس بڑا واضح تھا۔
’’آپ بے فکر ہو جائیں فاروق بھائی! میں اسے ابھی پولیس کے حوالے کرتا ہوں وہ خود ہی اس سے سب کچھ اگلوالیں گے اگر یہ قاتلہ ہے تو میں اسے پھانسی کی سزا دلوا کر چھوڑوں گا‘‘ شرجیل نے اے سی ہونے کے زعم میں کہا۔ غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن آنٹی اور ناعمہ وغیرہ کا لحاظ مانع تھا پھر بھی میں نے کہا۔
’’بچو! یہ تمہارے بس کی نہیں اور یہ سارا کیا دھرا تمہاری نادانی کی وجہ سے ہوا ہے اگر تمہیں کسی فاحشہ سے شادی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پورا کر لو۔‘‘ میری آواز خوبخود بلند ہوگئی تھی۔ شرجیل کو توقع نہیں تھی کہ میں اس سے اس لہجے میں بات کروں گا۔ شرمندگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ لیکن کچھ تو میں اس سے بڑا تھا دوسرے وہ اپنی آنکھوں سے کھیڈے چوہڑے اور پھر اپنی معشوقہ کا حال دیکھ چکا تھا اس لئے کچھ نہ بول سکا، خاموشی سے سر جھکا لیا۔ صائمہ فخر سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ سپنا اپنی سزا سننے کے انتظار میں خوفزدہ کھڑی تھی۔
’’موہن! اس کلٹا کو جانے کا کہہ دو۔ اس کا ماس کھا کر میری سکھیوں کو بڑا سودا(مزہ) آئے گا‘‘ رادھا نے کہا۔ میں سمجھ گیا تھا رادھا کیا چاہتی ہے؟ ہو سکتا ہے میں اس کی سفارش کرتا لیکن جب رادھا نے مجھے بتایا کہ یہ کینہ پرور عورت ہم سے بدلہ لینے کا پروگرام بنا رہی ہے تو میں نے بھی یہی مناسب سمجھا اسے اس کے انجام تک پہنچ جانا چاہئے۔ کالی داس کے آنے کے بعد یہ ناعمہ کو ضرور نقصان پہنچاتی۔
’’ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔تمہارے بارے میں فیصلہ بعد میں کیا جائے گا‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’مم ۔۔۔میرا ہاتھ‘‘ وہ خوفزدہ نظروں سے اپنے بدنما ہاتھ کی طرف دیکھ کر گھگھیائی۔
’’یہ تمہیں یاد دلاتا رہے گا کہ تم نے کتنے لوگوں پر ظلم کیا ہے۔۔۔؟ اس کے علاوہ اس ہاتھ کے ساتھ تم کسی کو اپنے حسن کا شکار نہ بنا سکو گی‘‘ میں نے سنگدلی سے جواب دیا۔ وہ کچھ نہ بولی آہستہ قدموں سے جانے لگی۔
’’اپنے استاد سے کہنا اگر اسے تم سے محبت ہے تو دائرے سے باہر آکر تمہارا ہاتھ ٹھیک کر دے‘‘ میں نے پیچھے سے آواز لگائی۔ اس نے مڑ کر زخمی نظروں سے میری طرف اور باہر نکل گئی۔
’’چلو چلیں‘‘ میں نے صائمہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’فاروق بھائی! بیٹھیں نا ابھی تو میں نے آپ کی کوئی خاطر مدارت بھی نہیں کی۔‘‘ شرجیل کے سارے کس بل نکل چکے تھے اب وہ بالکل فدوی بنا ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ اس کی بات کا جواب بھی کسی نے نہیں دیا تو بری طرح شرمندہ ہوگیا۔
ہم سب باہر نکل آئے۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح ہمارے پیچھے آرہا تھا۔ جب ہم گیٹ تک پہنچے تو اس نے آہستہ سے مجھے پکارا۔
’’فاروق بھائی۔۔۔! رات کو اگر تھوڑا سا ٹائم نکال سکیں میرے لئے تو بہت مہربانی ہوگی‘‘ اس نے التجا کی۔
’’اچھا دیکھیں گے‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا اور باہر نکل آیا۔ میں دراصل اسے اچھی طرح سبق دینا چاہتا تھا کہ دوبارہ وہ ایسی حرکت نہ کرے۔ جب ہم گھر پہنچے تو گوری جو کہ بالکل بھیگی بلی بنی ہوئی تھی اچانک روتے ہوئے میری ساس کے قدموں میں گر گئی۔
’’مجھے معاف کر دیں بیگم صاحبہ! مجھے معاف کر دیں ، اگر دوبارہ مجھ سے کوئی غلطی ہو تو بے شک مجھے جان سے مار دیں‘‘ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔
’’اس پاپن کا اس گھر میں رہنا ٹھیک نہ ہے۔ یدی اسے اوسر ملا تو یہ کچھ بھی کر سکتی ہے یوں بھی اس کے پریمی بہت ہیں اس شہر میں ’’ رادھا نے مجھے سمجھایا۔
’’دفع ہو جاؤ یہاں سے، اگر میں نے تمہیں اس گھر کے آس پاس پھٹکتے بھی دیکھ لیا تو تمہاری خیر نہیں‘‘ میں نے گوری کو بری طرح لتاڑ دیا۔ اس نے ایک نظر سب کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ سب خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ صائمہ آج بہت خوش تھی وہ بار بار میری طرف دیکھ کر مسکراتی۔
’’موہن! میں جا رہی ہوں یدی کسی کارن میری جرورت ہو تو من میں میرا دھیان کر لینا میں آجاؤں گی‘‘ رادھانے میرے کان میں کہا۔
’’دل میں تو ہر وقت تمہارا ہی خیال رہتا ہے‘‘ میں نے اسے خوش کرنے کے لئے کہا۔ اسکا احسان کچھ کم نہ تھا۔ بڑی دلآویز مسکراہٹ اس کے نازک لبوں پر آگئی۔
’’یہ بات ہے تو میں رات کو آکرتم سے ڈھیر سارا پریم کروں گی‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
’’ناعمہ تم اپنے کمرے میں جاؤ‘‘ صائمہ نے اس سے کہا۔
’’اچھا باجی‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
’’فاروق ! شرجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ صائمہ نے میری رائے جانناچاہی۔
’’جو آپ لوگ مناسب سمجھیں‘‘ میں نے مختصر ساجواب دیا۔
’’بیٹا! اگر مناسب ہو تو اسے معاف کرکے ناعمہ کو اس کے گھر بھیج دیاجائے۔ بیٹیاں اپنے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں‘‘ میری ساس کہنے لگیں۔
’’پہلے آپ ناعمہ سے پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے ؟ اگر اس کا خیال بھی یہی ہے تو ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا۔
بات ختم ہوگئی۔ رات کا کھانا کھا کر میں اور صائمہ باہر لان میں آبیٹھے۔ بچوں کو جاوید کے حوالے کرکے میں مطمئن تھا یوں بھی وہ دونوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ صائمہ نے چائے بنانے کی ذمہ داری ناعمہ کے سپرد کی اور اسے کہا چائے وہ وہیں لے آئے۔ہم دونوں لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ناعمہ چائے لے آئی وہ بالکل خاموشی تھی۔ مجھے اس پر ترس آیا کتنی شوخ ہوا کرتی، ہر وقت ہنستی رہتی۔ گیٹ پر بیل ہوئی چوکیدار نے بتایا شرجیل صاحب آئے ہیں۔ میں نے دیکھا ناعمہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آگیا۔ میں نے صائمہ کی طرف دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اسے اندر بھیج دو‘‘ میں نے چوکیدار سے کہا۔
’’میں نے کہا تھا جی، وہ کہہ رہے ہیں فاروق صاحب کو بلادو‘‘ چوکیدار نے بتایا۔
’’صائمہ! تم جا کر اسے لے آؤ‘‘ تھوڑی دیر بعد شرجیل سر جھکائے آگیا۔
’’اسلام علیکم!‘‘ اس نے آتے ہی سلام کیا۔
’’وعلیکم اسلام! آؤ شرجیل بیٹھو‘‘ میں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چپ چاپ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ شرمندگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’شرجیل! غلطی تو تم نے بہت بڑی کی ہے ۔۔۔اگر تم اپنے کیے پر نادم ہو اور ناعمہ تمہیں معا ف کرتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے ایک نظر ناعمہ کی طرف دیکھا جو چہرہ جھکائے لان کی گھاس کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے کرید رہی تھی۔
’’ناعمہ! جو غلطی میں نے کی ہے اس کے لئے اگرمیں سوبار بھی معافی مانگوں تو کم ہے ۔۔۔لیکن غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور میں بھی ایک انسان ہوں۔ اگر تم مجھے معاف کر دو تو میں وعدہ کرتاہوں ساری زندگی دوبارہ ایسی غلطی نہیں کروں گا‘‘ شرجیل نے کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کرکے ناعمہ سے معاف مانگلی۔
’’انکل اور آنٹی آجائیں پھر بیٹھ کر بات کر لیں گے‘‘ صائمہ نے شرجیل سے کہا ’’اگر وہ تمہاری ضمانت دے دیں کہ تم دوبارہ ایسی حرکت نہ کرو گے تو ہمیں ناعمہ کو بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں‘‘ صائمہ بہت دانشمند تھی۔ اس نے یہ بات محض شرجیل کو ڈرانے کے لئے کہی تھی۔ شرجیل کا رنگ اڑ گیا۔
’’باجی! خدا کے لئے مجھے مزید ذلیل نہ کریں، اگر پایا اور مما کو معلوم ہوگیا تو مجھے ہمیشہ کے لئے گھرسے نکال دیں گے۔ آپ تو جانتی ہی ہیں پایا کو وہ کس قدر سخت اور اصولوں کے پابند ہیں‘‘ شرجیل نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔ صائمہ نے میری طرف دیکھا اور میں نے ناعمہ کی طرف وہ میرا اشارہ سمجھ کر بولی۔
’’فاروق بھائی! آپ میرے بڑے ہیں جیسا آپ کا حکم ہوگا میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘
’’شرجیل اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کو تم دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرو گے‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’باجی! جس قدر شرمندگی مجھے ہو رہی ہے اگر میں اس بات پر قادرہوتا کہ اپنا دل آپ کھول دکھا سکوں تو یہ بھی کر دیتا لیکن اس وقت تو میں اتناہی کہہ سکتاہوں کہ فاروق بھائی علم والے ہیں اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میں سچ کہہ رہاہوں تو مجھے معاف کر دیا جائے‘‘ اس نے بڑی متانت سے کہا۔
’’دل تو تم اپنی ان محترمہ کو دکھاناہمیں تو تمہاری باجی کا دل سنبھالنے میں ہی خاصی مشکل پیش آتی ہے دوسرا دل کہاں سے دیکھتے پھریں‘‘ میں نے ماحول کا تناؤ ختم کرنے کے لیے کہا۔ میری بات پرصائمہ نے گھور کر مجھے دیکھا پھر ہنس پڑی۔ ماحول کچھ خوشگوا ر ہوگیا تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے صائمہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا کچھ دور جاکرمیں نے کہا’’تھوڑی دیر دونوں کو تنہا چھوڑ دو اگر ان کا آپس میں کمپرومائز ہو جاتاہے تو بہتر ہے۔‘‘
’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے فاروق!‘‘ اس نے میری تائید کی۔ تھوڑی دیر لان میں چہل قدمی کرنے کے بعدہم دوبارہ کرسیوں پر آبیٹھے۔ ناعمہ بھیگی آنکھیں لیے مسکرا رہی تھی۔
’’فاروق بھائی!آپ نے جتنا بڑا احسان کیا ہے میں چاہوں بھی تو اس کا بدلہ ساری زندگی نہیں اتار سکتا‘‘ شرجیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے کہا
’’اتار سکتے ہو اگر تم ناعمہ کوخوش رکھو تو سمجھو میرے احسان کا بدلہ اتر گیا۔مٰں ناعمہ کی آنکھوں میں آئیندہ آنسو نہیں دیکھ سکوں گا، اورہاں اس کے ساتھ ہی تمہیں جرمانہ بھی ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’جان حاضرہے خان صاحب!‘‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔
’’جان تو تم سنبھال کر رکھو اپنی ناعمہ کے لیے ہمیں تو بس آئس کریم کھلا دو‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ ناعمہ شرما کر اندر بھاگ گئی۔ بچے آئس کریم کا سن کر بھاگتے ہوئے آگئے۔ میری ساس کا بس نہ چلتا تھا کہ مجھے اپنی آنکھوں پر بٹھا لے۔ بہرحال مزید ایک دن رک کر ہم واپس آگئے۔
گھر آکر صائمہ نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
’’فاروق! ایک بات کی سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ ایک چھٹی باقی ہونے کی وجہ سے میں گھر پر تھا بچے سکول جاچکے تھے۔
’’کونسی بات؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’جب آپ اتنا کچھ جانتے تھے تو وہ منحوس پنڈت اور اس کا استاد کیسے آپ پر حاوی ہوگئے‘‘ اس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔
’’اس وقت میرے وظائف ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ میں اکثر بیمار ہو جاتا تھا۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے تھا۔ لیکن میں مجبور تھا کسی کو کچھ بھی نہ بتا سکتاتھا۔ کیونکہ میرے استاد نے مجھے سختی سے تاکید کی تھی اگرکسی کوکچھ بتاؤں گا سب کچھ ختم ہو جائے گا اور تم جانتی ہو۔ جس قسم کے حالات ہمیں اس گھر میں پیش آرہے تھے اس وجہ سے بہت ضروری تھا کہ میں کچھ علم سیکھ لوں‘‘ میں نے اسے مطمئن کرنے کے لئے فوراً کہانی گھڑ لی جس میں اب میں کافی ماہر ہوتا جا رہا تھا۔
’’لیکن رادھا نے جب ہمیں تکلیف دینا شروع کی تھی اس وقت بھی آپ نے کچھ نہ کیا‘‘ وہ کسی طور مطمئن ہونے میں نہ آرہی تھی۔ میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ صائمہ حد درجہ ذہین ہے۔
’’کہا توہے اس وقت میرا وظیفہ مکمل نہیں ہوا تھا اسی وجہ سے وہ ہمیں ستانے کے قابل ہوئے۔ اب دیکھو اس کے بعد توکچھ بھی نہیں ہوانا‘‘ میں نے دلیل دی۔
اس کے بعد صائمہ نے اس بارے میں کوئی سوال نہ کیاتھا۔ میں حسب معمول بینک جانے لگا۔ ایک ہفتے تک کوئی خاص بات نہ ہوئی صائمہ نے بتایا کہ ناعمہ کا فون آیا تھا۔ وہ شرجیل کے ساتھ بہت خوش ہے۔
میں حیران تھا کہ کھیڈو چوہڑے اور سپنا کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کے باوجود کالی داس منڈل سے باہر نہ آیا۔ میں سمجھ رہا تھا شاید وہ بری طرح خوفزدہ ہوگیا ہے لیکن یہ میری بھول تھی۔ وہ خیبث اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مزید جادو سیکھ رہا تھا۔ جس کا علم رادھا کو بھی نہ ہو سکا۔ ملنگ بھی غائب تھا۔ رادھا ایک دو دن بعد رات کو آجاتی اور ہم دنیا و مافیھا سے بے خبر ایک دوسرے میں کھو جاتے۔
میں۔۔۔جو کھبی ایک نماز قضا کرنا گناہ کبیرہ سمجھتا تھا اب اکثر میری نمازیں قضا ہونے لگی تھیں۔ صبح کی نماز تو اکثر نکل جاتی۔ جس رات رادھا آتی تو صبح تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ مصروف رہتے ایسے میں صبح نماز کے لئے اٹھنا مشکل کام تھا۔ یوں بھی جب انسان برے اور بے حیائی کے کاموں میں پڑ جائے تو اس کے دل سے نیکی کا خیال نکل جاتا اور گناہ پر اس کے دل میں کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ میں جو کچھ رادھا کے ساتھ کر رہا تھا اس فعل کے بارے میں اسلام میں اتنی سخت سزا ہے کہ سنگسار کیے بنا چھوٹ نہیں۔ لیکن میں رادھا کے عشق میں اندھا ہو چکاتھا۔ صائمہ ایک دو بار مجھ سے اس بات پرایک دن میں بینک میں حسب معمول اپنے کام مصروف تھا کہ رادھا آگئی۔ اسکا آنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی بلکہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا جب وہ نہ آتی۔ اس دن کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی تھی۔
’’کیا باتہے رادھا! آج تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’موہن! مجھے کچھ دن کہیں جانا ہوگا۔ اور مجھے تمری چنتا ہے کہ کہیں تمہیں کوئی کشٹ نہ بھوگناپڑے‘‘ اس نے کہا۔
’’کون مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے؟‘‘ میں حیران ہوگیا۔
’’تم کالی داس کو بھول گئے ہو‘‘ اس نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔رادھا! یاد آیا تم نے کھیڈو اور سپنا کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘ اکثر میرے ذہن میں یہ بات آتی لیکن رادھا جب سامنے ہوتی تو سوائے عشق و محبت کے اور کچھ نہ سوجھتا۔
’’میری سکھیوں کوبھوجن مل گیا تھا‘‘ اس نے بڑے آرام سے کہا۔
’’اس بار میں دھیان رکھا تھا ان کے بن ماس(بغیر گوش) کے شریر(ڈھانچے) کسی کو مل نہ جائیں اسی کا رن ان کو ایک گپھا (غار) میں لے جایا گیا تھا۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے لیکن تمہیں کتنے دنوں کے لئے جانا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ٹھیک چار دن بعد پور نماشی ہے مجھے اگلے پور نماشی تک سوریہ دیوتا(سورج دیوتا) کا جاپ کرنا ہوگا‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔
’’اپنی شکتی کو بڑھانے کے کارن مجھے ایسے جاپ کرنا پڑتے ہیں‘‘ اس نے سمجھایا۔
’’کیا تم ہر سال یہ جاپ وغیرہ کرتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ہر ورش کرنا جروری ہے‘‘ اس کے حسین چہرے پر سوچ کی گہری لکیریں ظاہر کر رہی تھی کہ وہ بہت فکر مند ہے۔
’’پھر کیا مسئلہ ہے؟ اس بار بھی کر لو‘‘ میں نے کہا۔
پچھلے ورش تو بات کچھ اور تھی میں نے کسی سے مس نہیں لگایا تھا پرنتو اس بار میرا من نہیں کرتا کہ جاؤں پرنتو نہ گئی تو ۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگی۔
’’یعنی کہ پوراایک ماہ تم مجھ سے دوررہو گی‘‘ میں بھی اداس ہوگیا تھا۔
’’ہاں‘‘
’’لیکن تم جانتی ہو کہ دشمن میری تاک میں ہے ایسا نہ ہو تمہاری غیر موجودگی میں وہ کوئی وار کر جائے‘‘ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’اسی بات کی چنتا تو مجھے بیاکل کر رہی ہے موہن!‘‘ وہ پر خیال انداز سے بولی۔ کافی دیر ہم دونوں اپنی اپنی سوچوں میں غرق رہے۔ خاصا سنجیدہ مسئلہ تھا۔ اور کسی کی طرف سے تو شادی اتنی فکر نہ ہوتی لیکن کالی داس ابھی زندہ تھا اور اس کمینے سے ہر قسم کی قبیح حرکت کی توقع کی جا سکتی تھی۔
’’کیا یہ جاپ تمہارے لئے بہت ضروری ہے؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’ہاں موہن!یدی میں ایسا نہ کروں تو میری شکتی کم ہو جاتی ہے۔ جس طرح کھیڈو تیار ہو کر آیا تھا یدی میں نے اپنا جاپ نہ کیا ہوتا تو تمرے واسطے کٹھنا یاں بڑھ سکتی تھیں وہ دھشٹ پوری تیاری کرکے آیا تھا۔ پرنتو وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی یدھ رادھا سے ہے‘‘ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھی رہی پھر سر پرہاتھ مارکربولی۔
’’دھت تیرے گی۔۔۔میں بھی کتنی مورکھ ہوں۔ اس سمسیا کا سما دھان ہے‘‘ اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
’’میری سکھیاں۔۔۔‘‘ اسکے لہجے سے اطمینان کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’کیا مطلب میں سمجھا نہیں‘‘
’’جب تک میں واپس نہ آجاؤں میری سکھیاں تمری رکھشا کریں گی‘‘
’’کیا تمہاری سہلیاں بھی تمہاری طرح مجھے نظر آیا کریں گی؟‘‘ میں نے کسی خیال کے تحت پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔پرنتو جب بھی تم اپنے من میں ان کا وچارکیا کرو گے وہ تمری سہائتا کرنے آجائیں گی۔ پرنتو ایک بات کا دھیان رکھنا، کہیں کسی سے من نہ لگا بیٹھنا‘‘ وہ آج حد سے زیادہ شوخ ہو رہی تھی۔
’’تمہیں دیکھنے کے بعد کسی اور طرف دیکھنے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ کیا تمہاری سہلیاں تم سے بھی خوبصورت ہیں؟‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔
’’ہاں۔۔۔یوں تو ساری ہی سندرہیں پرنتو بسنتی۔۔۔اپسراؤں سے بھی جیادہ سندر ہے‘‘ رادھا کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں چونک گیا۔
’’موہن! میرے سنگ وشواش گھات نہ کرنا میں نے تمہیں اپنا سب کچھ مان لیا ہے اب میرے من میں کسی کی پرچھائیں بھی نہیں آسکتی۔ تمری پتنی کی بات دو جی ہے پرنتو کسی اور کا دھیان بھی من مین نہ لانا، وہ از حد سنجیدہ تھی۔
’’تم نے یہ بات کرکے میرا دل دکھایا ہے رادھا! کیا میں تمہیں اس قسم کا انسان نظر آتا ہوں کہ جسے دیکھا اس پر مر مٹا۔ یاد ہے شروع شروع میں تم سے بھی زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا تھا یہ توپتا نہیں تمنے مجھ پر کیا جادو کیا ہے کہ میں تمہارا ہی ہو کر رہ گیاہوں‘‘ میں نے خفگی سے کہا۔
’’بھگوان کی سوگندکھا کر کہتی ہوں ناراج ہو کر تم اور سندر دکھتے ہو۔‘‘ وہ ہنسی’’مجھے تم پر پورا وشواس ہے پر نتویہ جو بنستی ہے نا۔۔۔بہت نٹ کھٹ ہے۔ اس پر سندربھی اتنی کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ اسی کارن ہم دونوں کے پیچھے سارے سنسارکے سادھو، پنڈت ، پجاری پڑے ہیں۔ مجھے تو اس کارن اپنی بندی بنانا چاہتے ہیں جو منش مجھے پراپت کرنے میں سپھل ہوجائے گا وہ سنسار کا سبسے بلوان منش بن جائے گا۔ پرنتو بسنتی کے پیچھے کیول اسکی سندرتا کے کارن پڑے ہیں ‘‘ رادھانے تفصیل بتائی۔ میرے دلمیں یونہی خیال آیا کہ رادھا خود بھی بہت حسین ہے جب یہ اس لڑکی ’’بنستی‘‘ کی تعریف کرہی ہے تو وہ کیا بلا ہوگی؟
’’ابھی دیکھا نہیں اور یہ وچار ہیں دیکھنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ رادھا کے لہجے سے حسد کی بو آرہی تھی۔ وہ حسب معمول میرے دل میں آئی بات جان گئی تھی۔
’’ارے نہیں۔۔۔میں تو بس یونہی سوچ رہا تھا‘‘ میں خجل ہوگیا۔
’’موہن! کل کیا ہوگا یہ توکیول دیوتا ہی جانتے ہیں پرنتو اتنا دھیان رکھنا رادھا تم بن جی نہ پائے گی‘‘ اس نے بڑی حسرت سے کہا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں نے اس کی حسین آنکھوں میں موتی چمکتے ہوئے دیکھ لیے تھے۔ میں اسے تسلی دینا چاہتاتھا لیکن اس نے موقع ہی نہیں دیا اور غائب ہوگئی۔
ایک دن میں بینک سے آیا تو صائمہ کہنے لگی ’’کل سے بچوں کو سکول سے چھٹیاں ہورہی ہیں اگر آپ بھی دوچار چھٹیاں لے لیں تو ہم لاہور ہو آئیں۔‘‘
’’آجکل کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے تم لوگ چلے جاؤ میں بھی ایک ہفتے بعد آجاؤں گاپھر اکٹھے واپس آجائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے اس طرح بچے کچھ دن سیربھی کر لیں گے۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
میں نے دوسرے دن انہیں بائی ائر لاہور بھیج دیا۔ میں بینک پہنچا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد رادھا آگئی۔ اسنے بتایا سارا بندوبست ہوگیا ہے دو دن بعد اسے ایک ماہ کے لئے جانا ہے۔
’’پریم! میں جانے سے پہلے ساری رینا تمری بانہوں میں بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ اسکی حسین آنکھوں میں نشہ اتر آیا۔ میرا دل بھی دھڑکنے لگا۔ رات کے حسین تصور نے میرے رگ و پے میں سرور کی لہریں دوڑا دیں۔
’’ٹھیک ہے تم آجانا‘‘ میں نے کہا۔
’’موہن! میں جانے سے پہلے تمہیں بسنتی سے ملانا چاہتی ہوں یدی کوئی کٹھن سمے آئے تو وہ تمہری سہائتا کر سکے‘‘ وہ کہنے لگی۔ یک بارگی میرا دل زور سے دھڑکا۔ میں نے جلدی سے خیالات کی رو دوسری طرف پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’تم کتنے بجے آؤ گی؟‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’یونہی پوچھ رہاتھا۔‘‘
’’جس سمے ہر روج آیا کرتی ہوں اسی سمے ہی آؤں گی‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے انوکھی سی فرمائش کی۔
پریتم! جس کوٹھے میں تم سوتے ہو اسے بندکر دینا اورکچھ سمے تم کسی استھان پر بتا لینا‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ میں چونک گیا۔
’’اس پرشن کا اتر میں تمہیں سمے آنے پر دوں گی۔‘‘
’’تمہاری تو ہر بات ہی ایک معمہ ہوتی ہے۔‘‘میں ہنس دیا۔ سفید رنگ کی ساڑھی میں وہ جنت کی حور لگ رہی تھی۔ واقعی اس کا حسن بے مثال تھا۔ ابھی تک میں نے اپنی زندگی میں اس قدر حسین عورت نہ دیکھی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس کی حسین آنکھوں میں خمار اتر آیا۔
’’تم بہت حسین ہو‘‘ تعریف سن کر اس کا چہرہ گلاب کی پھول کی طرح کھل اٹھا۔
’’پریتم! اسی طرح سارا جیون پریم کرتے رہنا‘‘ اس کی آواز بوجھل ہوگئی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگی
’’اچھا پرتیم! جاتی ہوں اپنے سمے پر میں آجاؤں گی۔ میری اچھا کادھیان رکھنا۔ جہاں ہم نے آج کی رینا بتانی ہے اسے کچھ سمے کے واسطے بند کردینا۔ بھولنا نہیں۔‘‘ جاتے ہوئے اس نے ہدایت کی۔
’’نہیں بھولوں گا‘‘ میں نے کہا لیکن مجھے حیرت تھی کہ وہ ایسی فرمائش کیوں کر رہی ہے۔ خیر وقت آنے پر معلوم ہو جائے گا میں نے زیادہ نہ سوچا اور کام میں مصروف ہوگیا۔
شام کو عمران مجھے اپنے گھر لے گیا اور زبردستی کھانا کھلایا۔ ساڑھے گیارہ بجے میں گھر آگیا۔ رادھا تقریباً بارہ بجے آیا کرتی تھی میں اس سے پہلے پہنچ گیا۔ میں شدت سے رادھا کا منتظر تھا اور خود اپنی حالت پر حیران بھی۔ کچھ دیر لان میں ٹہلتا رہا پھر آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ بیڈم روم اسی طرح بند تھا جیسے صائمہ اسے کر گئی تھی۔ وقت گزارنے کے لئے میں نے ٹی وی آن کر لیا لیکن اس میں بھی دل نہ لگا۔میری حالت اس لڑکے جیسے تھی جس سے پہلی بار اس کی محبوبہ نے ملنے کا وعدہ کیا ہو۔ وقت کاٹے نہ کٹ رہا تھا۔ ہر آہٹ پریوں محسوس ہوتاجیسے وہ آگئی ہے۔ دو تین بار میں نے باہر جاکربھی دیکھا پھر خود ہی اپنی حالت پر ہنسی آگئی۔ رادھا کوئی عام عورت تو تھی نہیں کہ اسے دروازے سے آنا تھا۔ وہ تو جہاں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ جب بے چینی حد سے بڑھی تو میں باہر نکل آیا۔ سردی اب بھی تھی لیکن اس میں وہ شدت نہ رہی تھی۔ ہوا رات کو خنک ہو جاتی جبکہ دھوپ کی وجہ دن گرم۔ بارہ بج گئے رادھا نہ آئی۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اب مجھ پر جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی تھی۔’’کہیں پھر توکوئی مسئلہ نہیں ہوگیا‘‘ میں اسی سوچ میں الجھا رہا۔ دو بجے کے قریب تو میں تقریباً مایوس ہونے کو تھا۔ میرا خیال تھا وہ اب نہیں آئے گی۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بیڈ روم میں جاؤں یا نہ جاؤں۔ اچانک میرے کان میں رادھا کی آواز آئی اور میں اچھل پڑا۔
’’پریم ! میں تمہرا انتجار کر رہی ہوں۔‘‘ اس کی آواز سے خمار ٹپک رہا تھا۔
’’تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’وہیں جہاں میں تمہرے آنے سے پہلے رہتی تھی۔ ترنت اسی کوٹھے میں چلے آؤ جہاں تم اپنی پتنی سنگ سوتے ہو۔‘‘ میں جلدی سے اٹھا اور بیڈ روم کی طر ف چل پڑا۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
خوابگاہ حجلہ عروسی بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں جن کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا۔ نہایت خوشنما اور خوشبودار پھولوں کی لڑیاں بیڈ کے اردگرد لٹکی ہوئی تھی۔ کمرہ کسی دلہن کی طرح سجاہوا تھا۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں ہر رات سویا کرتا لیکن آج اسکی حالت ہی بدلی ہوئی تھی۔ میں دروازے میں کھڑا آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ کمرے کے بیچوں بیچ رادھا کھڑی تھی۔ آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ نرم نازک پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ سارے جہاں کا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔ سرخ رنگ کی ساڑھی میں وہ شلعہ جوالہ بنی بانہیں پھیلائے میری منتظر تھی۔
’’آؤ پریم!۔۔۔میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ اسکی خمار آلود آواز آئی تو میں یوں اس کی طرف کھنچا چلا گیا جیسے لوہامقناطیس کی طرف۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اسکی سانسیں دہک رہی تھیں۔ نیم باز آنکھوں سے جیسے شراب بہہ رہی تھی۔ ہم ایک دوسرے میں گم ہوگئے۔
’’پریم! آج کی رینا مجھے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل آتما کو شانتی مل جائے۔‘‘ اس کی بہکی ہوئی سرگوشی میرے کانوں میں گونجی۔ میرے پیروں کے نیچے گلاب کی نرم و نازک پتیاں بکھری ہوئی تھیں اور بانہوں میں رادھا کا ریشمی وجود۔ میں جیسے کوئی خواب دیکھ رہاتھا۔
’’پریم‘‘ وہ خود کومیرے اندر جذب کرتے ہوئے بولی۔
’’ہوں‘‘ میری آواز بھی بہکنے لگی تھی۔
’’پریم! من کرتاہے تمرے شریر میں سما جاؤں‘‘
’’روکا کس نے ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ اس کے بعدکیا ہوا۔۔۔قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ لکھ سکے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ اس رات کی روداد بیان کر سکوں۔ بس یوں سمجھءئے ساری رات خوابوں کی وادی میں سفر جاری رہا۔ صبح دم اس نے کہا۔
’’پریم ! میرا انتجار کرنا۔ اگلی پور نماشی کو میں دوبارہ آؤں گی۔‘‘
’’اتنا طویل انتظار؟‘‘ میں نے تڑپ کر رہ گیا۔ میں اپنے ہوش میں کب تھا؟
’’پریم! میں نے تمری رکھشا کا پربند کر دیا ہے۔ میری سکھیاں ہر پل تمرے سنگ رہیں گی۔ یدی کوئی مشکل گھڑی آپڑے تو کیول بنستی کو پکارلینا وہ تمری سہائتا کرنے آجائے گی‘‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’میں بنستی کو تم سے ملوانے کے کارن بلانے لگی ہوں‘‘ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ رادھا نے آنکھیں بند کرکے کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا تھوڑی دیر بعد جیسے کمرے میں چاند نکل آیا۔ اچانک میری نظروں کے سامنے ایک نہایت حسین بلاؤز اور گھاگر اپہنے نمودار ہوئی۔ لڑکی کیا تھی پرتی تھی۔ ہاں وہ اتنی ہی حسین تھی کہ اس پر پریوں کا گمان ہوتا تھا۔ اس کے سامنے رادھا کا حسن بھی مانند پڑ گیا۔ میں گنگ رہ گیا۔ پلک جھپکنے کا ہوش بھی نہ رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کرپہلے رادھا کے آگے جھکی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’پرنام مہاراج!‘‘ جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج اٹھیں ہوں۔ اسکی بڑی بڑی حسین و سحر کار آنکھیں مجھے اپنی طرف کھنچ رہی تھیں۔ میں ہر چیز سے بے نیاز اسے دیکھا رہا تھا۔ اتنا خیال بھی نہ رہا کہ رادھا مجھے دیکھ رہی ہے۔ بے اختیار میرے ہاتھ بالکل اسی انداز سے اٹھ گئے اور میرے منہ سے نکلا ’’پرنام دیوی!‘‘
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں