شام کو عمران مجھے اپنے گھر لے گیا اور زبردستی کھانا کھلایا۔ ساڑھے گیارہ بجے میں گھر آگیا۔ رادھا تقریباً بارہ بجے آیا کرتی تھی میں اس سے پہلے پہنچ گیا۔ میں شدت سے رادھا کا منتظر تھا اور خود اپنی حالت پر حیران بھی۔ کچھ دیر لان میں ٹہلتا رہا پھر آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ بیڈم روم اسی طرح بند تھا جیسے صائمہ اسے کر گئی تھی۔ وقت گزارنے کے لئے میں نے ٹی وی آن کر لیا لیکن اس میں بھی دل نہ لگا۔میری حالت اس لڑکے جیسے تھی جس سے پہلی بار اس کی محبوبہ نے ملنے کا وعدہ کیا ہو۔ وقت کاٹے نہ کٹ رہا تھا۔ ہر آہٹ پریوں محسوس ہوتاجیسے وہ آگئی ہے۔ دو تین بار میں نے باہر جاکربھی دیکھا پھر خود ہی اپنی حالت پر ہنسی آگئی۔ رادھا کوئی عام عورت تو تھی نہیں کہ اسے دروازے سے آنا تھا۔ وہ تو جہاں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ جب بے چینی حد سے بڑھی تو میں باہر نکل آیا۔ سردی اب بھی تھی لیکن اس میں وہ شدت نہ رہی تھی۔ ہوا رات کو خنک ہو جاتی جبکہ دھوپ کی وجہ دن گرم۔ بارہ بج گئے رادھا نہ آئی۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اب مجھ پر جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی تھی۔
’’کہیں پھر توکوئی مسئلہ نہیں ہوگیا‘‘ میں اسی سوچ میں الجھا رہا۔ دو بجے کے قریب تو میں تقریباً مایوس ہونے کو تھا۔ میرا خیال تھا وہ اب نہیں آئے گی۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بیڈ روم میں جاؤں یا نہ جاؤں۔ اچانک میرے کان میں رادھا کی آواز آئی اور میں اچھل پڑا۔
’’پریم ! میں تمہرا انتجار کر رہی ہوں۔‘‘ اس کی آواز سے خمار ٹپک رہا تھا۔
’’تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’وہیں جہاں میں تمہرے آنے سے پہلے رہتی تھی۔ ترنت اسی کوٹھے میں چلے آؤ جہاں تم اپنی پتنی سنگ سوتے ہو۔‘‘ میں جلدی سے اٹھا اور بیڈ روم کی طر ف چل پڑا۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
خوابگاہ حجلہ عروسی بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں جن کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا۔ نہایت خوشنما اور خوشبودار پھولوں کی لڑیاں بیڈ کے اردگرد لٹکی ہوئی تھی۔ کمرہ کسی دلہن کی طرح سجاہوا تھا۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں ہر رات سویا کرتا لیکن آج اسکی حالت ہی بدلی ہوئی تھی۔ میں دروازے میں کھڑا آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ کمرے کے بیچوں بیچ رادھا کھڑی تھی۔ آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ نرم نازک پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ سارے جہاں کا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔ سرخ رنگ کی ساڑھی میں وہ شلعہ جوالہ بنی بانہیں پھیلائے میری منتظر تھی۔
’’آؤ پریم!۔۔۔میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ اسکی خمار آلود آواز آئی تو میں یوں اس کی طرف کھنچا چلا گیا جیسے لوہامقناطیس کی طرف۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اسکی سانسیں دہک رہی تھیں۔ نیم باز آنکھوں سے جیسے شراب بہہ رہی تھی۔ ہم ایک دوسرے میں گم ہوگئے۔
’’پریم! آج کی رینا مجھے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل آتما کو شانتی مل جائے۔‘‘ اس کی بہکی ہوئی سرگوشی میرے کانوں میں گونجی۔ میرے پیروں کے نیچے گلاب کی نرم و نازک پتیاں بکھری ہوئی تھیں اور بانہوں میں رادھا کا ریشمی وجود۔ میں جیسے کوئی خواب دیکھ رہاتھا۔
’’پریم‘‘ وہ خود کومیرے اندر جذب کرتے ہوئے بولی۔
’’ہوں‘‘ میری آواز بھی بہکنے لگی تھی۔
’’پریم! من کرتاہے تمرے شریر میں سما جاؤں‘‘
’’روکا کس نے ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ اس کے بعدکیا ہوا۔۔۔قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ لکھ سکے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ اس رات کی روداد بیان کر سکوں۔ بس یوں سمجھءئے ساری رات خوابوں کی وادی میں سفر جاری رہا۔ صبح دم اس نے کہا۔
’’پریم ! میرا انتجار کرنا۔ اگلی پور نماشی کو میں دوبارہ آؤں گی۔‘‘
’’اتنا طویل انتظار؟‘‘ میں نے تڑپ کر رہ گیا۔ میں اپنے ہوش میں کب تھا؟
’’پریم! میں نے تمری رکھشا کا پربند کر دیا ہے۔ میری سکھیاں ہر پل تمرے سنگ رہیں گی۔ یدی کوئی مشکل گھڑی آپڑے تو کیول بنستی کو پکارلینا وہ تمری سہائتا کرنے آجائے گی‘‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’میں بنستی کو تم سے ملوانے کے کارن بلانے لگی ہوں‘‘ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ رادھا نے آنکھیں بند کرکے کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا تھوڑی دیر بعد جیسے کمرے میں چاند نکل آیا۔ اچانک میری نظروں کے سامنے ایک نہایت حسین بلاؤز اور گھاگر اپہنے نمودار ہوئی۔ لڑکی کیا تھی پرتی تھی۔ ہاں وہ اتنی ہی حسین تھی کہ اس پر پریوں کا گمان ہوتا تھا۔ اس کے سامنے رادھا کا حسن بھی مانند پڑ گیا۔ میں گنگ رہ گیا۔ پلک جھپکنے کا ہوش بھی نہ رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کرپہلے رادھا کے آگے جھکی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’پرنام مہاراج!‘‘ جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج اٹھیں ہوں۔ اسکی بڑی بڑی حسین و سحر کار آنکھیں مجھے اپنی طرف کھنچ رہی تھیں۔ میں ہر چیز سے بے نیاز اسے دیکھا رہا تھا۔ اتنا خیال بھی نہ رہا کہ رادھا مجھے دیکھ رہی ہے۔ بے اختیار میرے ہاتھ بالکل اسی انداز سے اٹھ گئے اور میرے منہ سے نکلا ’’پرنام دیوی!‘‘
پیازی رنگ کی ساڑھی میں وہ کافر ادا رات سے بھی کہیں زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ مجھے اس طرح اپنی طرف دیکھتے پا کر اسکے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آگئی۔
’’پرنام مہاراج‘‘ اسنے دونوں ہاتھ جوڑ کر مجھے سلام کیا۔میں جو اس کے حسن کے ضیا پاشیوں میں کھویا ہوا تھا بے اختیار دونوں ہاتھ جوڑ دیئے۔ اس کی بڑی بڑی حسین آنکھیں مجھ پر ٹکی تھیں۔ رادھا نے سچ کہاتھا وہ حد درجہ حسین تھی۔ اسکی آنکھوں میں جیسے ستارے کوٹ کوٹ کربھرے ہوئے تھے۔ بالوں میں اس نے چمبیلی کے پھول گوندھ رکھے تھے۔ ہاتھوں میں گجر ے جھیل سی کاجل بھری آنکھیں غضب ڈھا رہی تھیں۔ مختصر بلاؤز اس کی جوانی کواپنے اندر سمونے میں ناکام ہورہا تھا۔ میری آنکھوں میں وارفتگی دیکھ کر وہ شرما گئی۔ مجھے اسکی یہ ادا بہت بھلی لگی۔ وہ دھیرے سے مسکرائی۔ موتیوں جیسے دانت میرے دل پر بجلیاں گرا رہے تھے۔ دنیا جیسے ختم ہو گئی تھی۔ اس کے سوا مجھے کچھ نظر نہ آرہا تھا۔
’’آگیا(حکم) مہاراج!‘‘ اسنے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔
میرے سامنے بیٹھ جاؤ‘‘ مجھے اپنی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔ شاخ گل کی طرح اسکاحسین بدن بل کھا کر کرسی میں سما گیا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے لئے پسندیدگی دیکھ کرمیرا حوصلہ اور بڑھ گیا۔
’’بسنتی! تم ہر وقت میری آنکھوں کے سامے رہا کرو جیسے رادھا رہتی تھی‘‘ وہ بری طرح شرما گئی۔
’’یدی ، یہ تمری آگیا ہے تو میں اس کا پالن کروں گی‘‘ اسکے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا وہ خود بھی یہی چاہتی ہے۔
’’بسنتی! میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں کیاتم میرے سوالوں کا جواب دوگی؟‘‘ میں نے کہا۔
’’رادھا دیوی، نے مجھے تمری ہر آگیا کاپالن کرنے کوکہا ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم کچھ کہو اورمیں منع کر دوں؟‘‘ مسکراہٹ جیسے اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔
’’اگر رادھا نہ کہتی تو تم میری باتنہ مانتیں؟‘‘ میں نے شوخی سے پوچھا۔
’’میرے بس میں ہو تو تم تمرے کارن اپنے پر ان بھی دے دوں‘‘ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی۔
’’ٹھیک ہے رات کو میں تمہیں بلاؤں گا پھرہم باتیں کریں گے‘‘ میں نے کہا۔
’’یدی مجھے آگیا ہو تو میں جاؤں؟‘‘ اسنے پوچھا۔
’’دل تونہیں چاہتا لیکن اگر تم جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں روکوں گا نہیں‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔
’’من تو میرا بھی نہیں کرتا مہاراج! پرنتو میرا جیا دہ دیریہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں‘‘ اس نے دل کی بات کہہ دی۔
’’کیوں۔۔۔کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘
’’تمر بیری تم پرکوئی وار کرجائیں تو رادھا دیوی مجھے کبھی شما نہیں کرے گی۔۔۔وہ تم سے ادھیک پریم کرتی ہے ‘‘ اس نے کہا۔ میں اسکے دل کی حالت جان رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پکار پکارکر کہہ رہی تھی‘‘ کاش میں رادھا کی جگہ ہوتی۔‘‘
’’کالی داس کسی ایسے اوسرکی تاک میں ہے کہ وہ پلید تم پر وار کرسکے‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’لیکن وہ تو خود رادھا کے خوف سے کسی دائرے میں چھپا بیٹھا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پرنتو اس سمے رادھا بھی منڈل میں بیٹھی ہے اور وہ پاپی یہ بات جانتا ہے۔‘‘ بسنتی نے بتایا۔
’’لیکن رادھا نے تو کہا تھا کہ اسکی غیر موجودگی میں تم میری حفاظت کرو گی۔۔۔کیاکالی داس تمہارے ہوتے ہوئے مجھ پر وار کر سکتا ہے؟‘‘
’’وہ پاپی ایسا نہیں کر سکتا پرنتو دھیان تو رکھنا ہی پڑے گا۔‘‘ اسنے کہا۔
’’ٹھیک ہے اگر تمہارا جانا ضروری ہے تو چلی جاؤ۔‘‘ میں نے اس پیش نظر کہا کہیں کالی داس پھر کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے۔ وہ بڑی میٹھی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’ٹھیک ہے تم جاؤ رات کومیں تمہیں بلالوں گا۔۔۔۔آؤ گی نا؟‘‘ میں نے اس کی جھیل سی آنکھوں میں جھونکا۔
’جب بھی پکارو گے داسی چرنوں میں آجائے گی‘‘ اس کے پنکھڑی سے لبوں پر بڑی دلآویز مسکراہٹ آگئی۔ کھڑے ہو کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور غائب ہوگئی۔ عمران کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ محمد شریف اب میرے کمرے میں اشد ضروری کام کے تحت آتا۔ وہ جیسے مجھ سے خفا تھا۔ میں نے بھی زیادہ پرواہ نہ کی۔ میں بالکل ہی بدل گیا تھا۔ پانچ بجے چھٹی کرکے میں حسب معمول عمران کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ کھانے کے بعد ہم کافی دیربیٹھے باتیں کرتے رہے۔
’’اوہ بارہ بج گئے مجھے چلنا چاہئے۔‘‘ اچانک میری نظر کلاک پر پڑی تو میں بری طرح چونک گیا۔ آج رات میرا پروگرام بسنتی کو اپنی خلوت میں بلانے کا تھا۔ اس کے تصور سے ہی میرے بدن میں سرور کی لہریں دوڑنے لگیں۔ گھر پہنچ کر میں نے لباس تبدیل کیا اور خوبگاہ میں چلاگیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ گزشتہ رات کا نشہ ابھی تک مجھ پرطاری تھا۔ بسنتی تورادھا سے زیادہ حسین اور جوان تھی۔ اس کا بدن ایک قیامت تھا۔ اس کے علاوہ میں بسنتی سے وہ راز جاننا چاہتا تھا جن سے رادھا نے آج تک پردہ نہ اٹھایا تھا۔ میں نے بیڈ پر درازہو کر بسنتی کو آواز دی۔
’’جی مہاراج‘‘ دوسرے لمحے اس کی خمار آلود آواز میرے کانوں میں آئی۔
’’بسنتی سامنے آؤ۔‘‘ میں نے بے چینی سے کہا۔
’’وہ فوراً میرے سامنے ظاہر ہوگئی۔ پھولوں کے زیورسے سجی بسنتی کے قیامت خیز بدن کی مسحور کن خوشبو سے کمرہ مہک اٹھا۔
میں بے خود سا اسے دیکھا گیا۔ تراشیدہ لبوں پر بڑی ہی دلآویز مسکراہٹ تھی۔ دعو ت آمیز مسکراہٹ جو کسی کو بھی پاگل بنا دے۔ اوپری ہونٹ پر پسینے کے قطرے ایسی شبنم کی مانندچمک رہے تھے جن پر سورج کی رو پہلی کرنیں پڑی رہی ہوں۔ ماتھے پر لگا تلک ہیرے کی طرح دمک رہا تھا۔ مجھے یوں وارفتگی سے دیکھتے پاکر اسکی نیم باز آنکھیں شراب کے پیالے بن گئے۔
’’بسنتی!‘‘ میں نے دھیرے سے کہا۔
’’جی مہاراج‘‘ اس کی سرگوشی نما آواز آئی۔
’’تم مجھے مہاراج نہ کہا کرو۔‘‘
’’پھر کیا کہا کروں؟‘‘ وہ اٹھلائی۔
’’جیسے رادھا مجھے بلاتی ہے تم بھی ایسے ہی بلایا کرو۔‘‘ میں نے مسکرا کرکہا۔
’’ہائے رام۔۔۔وہ تودیوی ہے۔ میری اتنی مجال کہاں کہ تمہیں اس شبھ نام سے پکاروں جس سے رادھا دیوی پکارتی ہے۔‘‘ اس کے انداز میں گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ حسرت بھی تھی۔
’’رادھا تمہاری کیا لگتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مہاراج ! شما کرنا کچھ ایسی باتیں ہیں جو میں رادھا دیوی کی آگیا کے بنا نہیں بتا سکتی۔ میری آشا ہے تم مجھے شما کر دو گے۔‘‘ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ایک طرف تو تم کہتی ہو کہ میراحکم ماننا تمہارا فرض ہے پھر جب کوئی بات پوچھتا ہوں توکوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی ہو‘‘ میں نے کسی قدرخفگی سے کہا۔
’’اچھا یہ بتاؤ کیا تم رادھا کی کنیز ہو؟‘‘ میں نے اپنا سوال گھماکر دوسرے طریقے سے کیا۔ اس بار وہ میرے داؤ میں آگئی۔
’’نہیں۔۔۔!‘‘ اس کالہجہ تیز ہوگیا۔
’’وہ کیول شکتی میں مجھ سے مہان ہے اور اس میں بھی میری خطا ہے‘‘
’’وہ کیا۔۔۔تم نے کیا غلطی کی؟‘‘ میری دلچسپی بڑھ گئی۔
’’جس طرح آج کل وہ سوریہ دیوتا کا جاپ کر رہی ہے اسی طرح وہ ہر ورش ادھیک جاپ کرتی رہتی ہے کبھی چندر ماکا جاپ، کبھی کسی دیوتاکا کبھی کسی دیوتا کا۔ اسی کارن دیوتاؤں نے اسے ادھیک شکتی دان کر دی ہے۔ یدی میں بھی یہ جاپ کرتی تو آج اتنی ہی شکتی مان ہوتی جتنی کہ رادھا دیوی ہے۔‘‘ اس بار بڑی تفصیل سے جواب ملا۔
’’پھر تم اسے دیوی کیوں کہتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
‘‘اسی کارن کہ وہ مجھ سے جیادہ شکتی مان ہے‘‘ اسنے بڑے سادہ لہجے میں بتایا۔
’’تمہارا تعلق کس مخلوق سے ہے؟‘‘ بالآخر میں نے بسنتی سے وہ سوال کر دیا جس کے جواب سے رادھا نے ابھی تک مجھے محروم رکھا تھا۔ اس کی حسین آنکھوں سے کشمکش کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’میں تو سمجھا تھا تم بھی رادھا کی طرح میری دوست ہو لیکن۔۔۔خیر چھوڑو دراصل رادھا مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اگر یہی سوال میں اس سے پوچھتا تو وہ ایک منٹ سوچے بغیر اس کا جواب دے دیتی۔ ہو سکتا ہے وہ تم سے زیادہ عقلمند ہو‘‘ میں نے لوہا گرم دیکھ کر وار کیا ساتھ ہی اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’یہ بات نہیں مہاراج! میں تو کیول اس کارن نہ بتا رہی تھی کہ رادھا دیوی ناراج نہ ہو جائے پرنتو میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم مجھ سے ناراج ہو۔‘‘
’’پھر تو تمہیں میرے سوال کا جواب دینا چاہئے‘‘ میں نے اسے اکسایا۔
اس کے چہرے سے کشمکش کا اظہار ہو رہا تھا۔
’بھگوان نے ہمیں اگنی سے بنایا ہے اور تمہیں ماٹی سے ‘‘ بالآخر اس نے کہا۔
میرا انداز صحیح تھا۔ رادھا اور بسنتی کا تعلق قوم جنات سے تھا۔ صائمہ کی پھوپھو جمیلہ اور محمد شریف نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھر میں جنات بستے ہیں حالانکہ مجھے پہلے سے اندازہ تھا لیکن یہ جان کر کہ اس وقت ایک جن زادی میرے سامنے کھڑے ہے میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ کچھ بھی تھا وہ چاہے جانے کے قابل تھی۔ اس کا حسن ایسا ہی تھا کہ اس کے لیے ملکوں میں جنگ ہو سکتی تھی۔
’’اتنی دیر کیوں سے کھڑی ہو؟ یہاں آؤ میرے پاس‘‘
وہ لجاتی ہوئی میرے پاس آگئی۔ میں نے اس کا نرم نازک ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ سرخ ہوگئی۔ آنکھوں میں گلابی ڈورے تیرنے لگے۔ سانسوں کا زیرو بم اس کے اندر کے ہیجان کا پتا دے رہا تھا۔ ہاتھ کی حدت سے اس کے جذبات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد میں نے اس کے ہاتھ کو ذرا سا جھٹکا دیا وہ مجھ پر آن گری۔ اس کی گھٹاؤں جیسی زلفوں نے مجھے ڈھک دیا۔ نازک وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک نے میرے ہوش و حواس چھین لیے۔ میری بے تابی مزید بڑھ گئی مجھے خود پر اختیار نہ رہا۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ جذبات کی حدت سے اس کا حسین بدن تپ گیا۔ وہ مچل کر میری آغوش سے نکل گئی اور مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہانپنے لگی۔ میں ایک بار پھر اس کی طرف بڑھا۔
’’نن۔۔۔نہیں ۔۔۔مہاراج! یہ ۔۔۔تھیک نہیں‘‘ اس نے اپنی سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رادھا دیوی نے تمرے شریر کے گرد کڑا پھیر رکھا ہے جس کارن تم سے شریر کا سمبندھ نہیں ہو سکتا‘‘ اس نے مجبوری ظاہر کی۔
’’کچھ بھی ہو میں تمہارے بنا رہ نہیں سکتا‘‘ میں ضدی لہجے میں کہا۔
’’یدی ہم نے ایسا کیا تو میں بھسم ہو جاؤں گی۔‘‘
’’اس مشکل کا کوئی حل نکالو‘‘ میں بے قرار ہوگیا۔
’’اس سمسیا کا ایک ہی سمادھان ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’وہ کیا‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔ وہ میری بے چینی پر مسکرا دی۔
’’پہلے تم کسی ناری سے اپنے شریر کا سمبندھ جوڑ لو اس کے بعد ہم ایک دوجے سے مل سکتے ہیں‘‘ اس نے حل بتایا جس سے پتا چلتا تھا ’’ہے دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘اگر میں اس کے تیر نظر کا شکار ہوا تھا تو وہ بھی میری دیوانی ہو چکی تھی۔
’’یہ توکوئی مسئلہ ہی ہیں میں صائمہ کو بلوا لیتا ہوں‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’نہیں مہاراج! پتنی سنگ پریم کرنا تو پنے (ثواب) کا کام ہے۔ اس کارن تو تمہیں کسی ایسی کنیا کا پربند کرنا پڑے گا جس کے شریر کو پہلے کسی پرش(مرد) نے نہ چھوا ہو‘‘ اسنے کہا۔
’’یعنی کوئی کنواری لڑکی۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’ایسی لڑکی کہاں سے ڈھونڈی جائے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ایسی کنیا ہے تو سہی۔۔۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچ کر بولی۔
’’کون ؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’اس کا شبھ نام سبین ہے‘‘ وہ شوخ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔
’’۔۔۔لیکن کیا وہ مان جائے گی؟‘‘
’’مہاراج تم اتنے سندر ہو کہ کوئی بھی کنیا تمرے کارن جیون دان کر سکتی ہے۔‘‘ اس نے بڑی اپنایت سے کہا۔ آنکھوں سے مستی جھانک رہی تھی۔
’’کیا اس سلسلے میں تم میری مدد کر سکتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں میں اسے یہاں تک لا سکتی ہوں پرنتو اس کے بعد سب کچھ تمہی کو کرنا ہوگا۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’ٹھیک ہے تم اسے لے آؤ باقی میں دیکھ لوں گا‘‘ میں بسنتی کے قرب کے لئے پاگل ہو رہا تھا۔
’’مہاراج اب مجھے آگیا دو کہیں تمرے بیری کوئی وار نہ کر جائیں‘‘ اس نے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’اس لڑکی سبین کو تم کس وقت میرے پاس لاؤ گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کل دن کو کسی سمے۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم جاؤ کل یہ کام ضرور کر لینا اب مجھ سے مزید صبر نہیں ہوتا۔‘‘میں نے اس کے پر شباب بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ غائب ہوگئی۔
میرا بس نہ چل رہا تھاکہ کس طرح رات گزر جائے اور میں سبین کو اپنے بیڈ روم میں لے آؤں۔ ساری رات میں جاگتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ سبین کو ایک اشارہ ہی کافی ہوگا کیونکہ اس کی آنکھوں میں میں اپنے لئے پسندیدگی دیکھ چکا تھا۔
دوسرے دن بینک پہنچ کر سب سے پہلے میں نے عمران اور محمد شریف کو باہر کسی کام سے بھیج دیا۔ یہ نہیں کہ وہ مجھے روکنے پر قادر تھے لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ انہیں کسی بات کی خبر ہو۔ ایک بے ضمیر انسان ایسا ہی کرتا ہے اسے خدا تعالیٰ کا خوف تو نہیں ہوتا لیکن انسانوں سے وہ ڈرتاہے ۔ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے سبین کو بلایا اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی بہت باتونی لڑکی تھی۔ اس سے بڑی بہن ماہین کی شادی اس کے کزن سے ہو چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کسی طرح گھر لے جاؤں؟ اچانک مجھے خیال آیا کہ بسنتی نے کہا تھا وہ اس سلسلے میں میری مدد کر سکتی ہے۔ میں نے یونہی کسی کام سے سبین کو باہر بھیج کر بسنتی کو پکارا۔
’’جی مہاراج‘‘ فوراً اس کی آواز آئی۔
’’تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں مہاراج تم آگیا دو‘‘ اسنے کہا۔
’’ٹھیک ہے لیکن یہ سب کیسے ہوگا؟‘‘ میں نے مطمئن ہوکر پوچھا۔
’’تم اسے اندر بلا کر اپنے سنگ جانے کا کہو وہ منع نہیں کرے گی‘‘ اس نے بتایا۔’
’’ٹھیک ہے میں اسے ابھی کہتا ہوں‘‘ بسنتی کی یقین دہانی کے باوجود مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کر دے۔ میں نے چپراسی کے ذریعے اسے بلوایا پھر دو ایک باتیں کرکے میں نے کہا۔
’’آؤ۔۔۔آج میں تمہیں اپناگھر دکھاؤں‘‘
’’چلیں سر‘‘ وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی۔
’’تم باہر میرا انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ میں نے اس پیش نظر کہا کہ سٹاف کو معلوم نہ ہو سکے۔ وہ مسکراتی ہوئی اٹھی اور باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور باہرآگیا۔ وہ بینک سے تھوڑی دور سڑک کے کنارے میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے گاڑی اس کے نزدیک روک کر اگلا دروازہ کھول دیا۔ وہ مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی۔میں تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کچا چور تھا اس سے پہلے کبھی ایسا کام نہ کیا تھا۔ میں اسے سیدھا بیڈ روم میں لے آیا۔ وہ بغیر کسی اعتراض کے چلی آئی۔ اندر پہنچ کر میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ کسی معمول کی طرح میرا ہر حکم مان رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس مرحلے سے گزر جاؤں کیونکہ ضمیر کی خلش بڑھتی جا رہی تھی۔
جب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا جیسے وہ نیند سے جاگ گئی۔ پہلے تو اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا پھر جیسے ہی اسکی نظر مجھ پر پڑی وہ بری طرح گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔
’’یہ۔۔۔یہ مم۔۔۔میں کہاں آگئی ہوں؟‘‘ ا س کا رنگ زرد ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت جیسے منجمد ہوگئی۔
’’مم۔۔۔میں تو بینک میں تھی پھر ۔۔۔یہ۔۔۔یہاں کیسے آگئی۔‘‘ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلنے لگے۔ اس کا نرم و نازک ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا۔ اچانک اسے احساس ہوا تو اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
‘‘سس۔۔۔سر! یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘ وہ بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کی حالت اس ہرنی جیسی ہوگئی تھی جسے شکاریوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہو۔ بڑی بڑی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔ اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا اس بند پا کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے اس کی طرف سے اتنے شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ مجھ پر ریجھ گئی ہے لیکن وہ ایک شریف لڑکی تھی ہنس مکھ اور باتونی ضرور تھی لیکن بدکردار نہ تھی۔ وہ سب کچھ سمجھ چکی تھی۔
’’سر! مجھے جانے دیں۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ سر! میری منگنی ہو چکی ہے سر۔۔۔!! اگلے ماہ میری شادی ہے‘‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی۔
میرا دل اندر سے لرز گیا ۔ اسی لمحے بسنتی کی آواز آئی۔
’’مہاراج! سمے برباد نہ کرو‘‘ میں جو سبین کی حالت سے بری طرح گھبرا گیا تھا ہمت کرکے اٹھا اور دوبارہ اسکا ہاتھ پکڑ لیا ،وہ رونے لگی۔
’’سبین! یہ کیا۔۔۔؟تم خود ہی تو اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی ہو پھر ایسے کیوں کر رہی ہو؟‘‘
’’مم۔۔۔مجھے نہیں معلوم میں کیسے یہاں تک آگئی ہوں سر ! پلیز آپ کو خدا کا واسطہ مجھے جانے دیں‘‘ رو روکر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسے واپس چھوڑ آؤں بسنتی کی بے چین آواز سنائی دی۔
’’اس سے اچھا اوسر پھر نہیں ملے گا۔ مہاراج !یدی اسے تم نے ایسے ہی جانے دیا تب بھی یہ سب کچھ اپنے گھر جا کر بتا دے گی‘‘ بسنتی کی بات سن کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
’’اب کیا ہوگا اگر اسنے گھر جا کر بتا دیا تو میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤں گا؟‘‘ اس سوچ نے مجھے لرزا دیا۔
’’میں اس کا پربند کر لوں گی کہ یہ کسی کو کچھ نہ بتا پائے پرنتو اس کے لیے تمہیں اس کا بلات کار کرناہوگا‘‘ بسنتی کی بے چین آواز سنائی دی۔
سبین ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’سبین تم نے مجھے مایوس کیا میں تو سمجھ رہا تھا تم مجھے پسند کرتی ہو تبھی میرے ساتھ چلی آئیں‘‘ میں نے منہ بنا کر کہا۔
’’سر ! میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں صرف آپ کے ساتھ اس لئے ہنس بول لیتی ہوں کہ آپ کی شکل میرے بہنوئی سے بہت ملتی ہے اور وہ مجھے اپنی بہنوں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں‘‘ آنسو تواتر سے اس کی آنکھوں بہہ رہے تھے۔
’’سمے برباد نہ کرو مہاراج! دوبارہ ایسا اوسر نہ ملے گا۔‘‘ بسنتی نے ایک بار پھر دخل اندازی کی۔
میں نے دل میں فیصلہ کیا اور آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ وہ بری طرح مچلی اور میری گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگانے لگی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ اس جانور کی منت کرنا بیکار ہے۔ اس نے شدت سے مزاحمت کی۔ اپنے بڑے بڑے نوکیلے ناخنوں سے میرے چہرے کو نوچنا چاہا۔چہرہ بچانے کی خاطر جیسے ہی میں پیچے ہٹا اس نے مجھے دھکا دیا اور باہر کی طرف لپکی۔ میں نے کسی بھپرے ہوئے درندے کی طرح زقند بھری اور اسے جا لیا۔ اس کے نازک وجود کو اٹھائے میں بیڈ پر آگیا۔ اسنے ایک بار پھر میری منتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ مجھے واسطے دے رہی تھی لیکن میں تو ایک جانور تھا اور جانوروں کو کہاں اتنی تمیز کہ وہ کسی کی منتوں پر کان دھریں۔ آج بھی جب مجھے وہ وقت یاد آتاہے تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میں اسے کسی کتے کی طرح بھنبھوڑ رہا تھا۔ اب اس کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی بے بسی سے اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اسکا جسم ایک بے جان مورت کی طرح میرے سامنے پڑا تھا جسے میں اپنے ناپاک وجود سے گندا کر رہا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔
وہ سسکتی رہی۔
میں اپنی ہوس پوری کرتا رہا۔
اچانک دروازہ ایک دھماکے سے کھلا۔ میری بری طرح اچھل پڑا۔ دروازے کے بیچوں بیچ میرا بدترین دشمن کالی داس کھڑا تھا۔
میں بے اختیار نیم بے ہوش سبین کو چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اسنے مضمحل سے انداز سے دروازے کی طرف دیکھا پھر بے سدھ ہوگئی۔ اس کی دوشیزگی لٹ چکی تھی۔ میں بیڈ کے پاس فطری لباس میں کھڑا تھا۔ کالی داس کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اچانک مجھے بسنتی کا خیال آیا۔
’’بسنتی۔۔۔!‘‘ میں نے زور سے آواز دی کوئی جواب نہ آیا۔
’’بسنتی ی ی ی ی ی ۔۔۔!‘‘ میں نے وحشت سے اسے دوبارہ پکارا۔
اس بار بھی کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ کالی داس مسلمان دیہاتی کے روپ میں کھڑا یک ٹک میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کے پیچھے مجھے کچھ لوگ نظر آئے۔
’’وہ کمرے میں گھس آئے تھے۔ میں بری طرح بدحواس ہوگیا۔ ستر پوشی کے لئے میں نے اپنے لباس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مجھ پر حقیقت کھلی کہ میرا وجود حسب معمول بے حس و حرکت ہو چکا ہے۔ کوئی دس بارہ افراد کمرے میں گھس آئے تھے۔ سب سے آگے کالی داس کھڑا تھا۔میرے حواس معطل ہو چکے تھے۔ کسی بت کی طرح کھڑا آنے والوں کی طرف دیکھ رہاتھا جن کی نظروں میں حیرت جیسے منجمند ہوگئی تھی۔ وہ کبھی میری طرف دیکھتے کبھی سبین کی طرف جس کا لباس تار تار ہو چکا تھا۔
’’میں نہ کہتا تھا یہاں ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔‘‘ میرے کانوں میں کالی داس کی آواز آئی۔ اندر آنے والے افراد میں زیادہ تر میرے ہمسائے تھے۔ سب سے آگے سامنے والی کوٹھی میں رہائش پذیر ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر حیات جس سے میری اچھی صاحب سلامت تھی۔ اس کے ساتھ جمال صاحب جن کا زرعی آلات بنانے کا کارخانہ تھا۔ ان کا چھوٹا بیٹا احد خان کا کلاس فیلو تھا۔ ان کے پیچھے توقیر صاحب اور ان کا بیٹا ساجد تھا۔ دیگر افراد سے کچھ کو میں بائی فیس پہچانتا تھا کیونکہ وہ بھی اس سڑک پر رہتے تھے جہاں میرا بنگلہ تھا۔ باقی افراد اجنبی تھے۔ وہ سب گم سم میری طرف دیکھ رہے تھے۔
’’میں نہ کہتا تھا کہ میں نے کسی لڑکی کی چیخوں کی آواز سنی ہے‘‘ کالی داس مقامی زبان میں ان افراد سے ہمکلام تھا۔ ایک بزرگ آدمی نے صوفے پر پڑے بیڈ پوش سے سبین کے بے ہوش جسم کو ڈھک دیا۔ ساجد نے آگے بڑھ کر زور دار تھپڑ میرے منہ پر مارا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا جیسے میرا جسم جکڑن سے آزاد ہوگیا ہے۔ میں الٹ کر پیچھے جا پڑا۔
’’بے غیرت انسان! ہم تو تجھے نیک اور شریف آدمی سمجھتے تھے۔ تو تو بہت گھٹیا نکلا۔ اس کے ساتھ ہی چند اور نوجوان آگے آئے اور مجھے مارنے لگے۔
میں برہنہ حالت میں قالین پر پڑا تھا۔ مجھ پر لاتوں کی بارش شروع ہوگئی۔ بے اختیار میں نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ مارنے والے کئی تھے۔ ساجد ان میں پیش پیش تھا۔ لاتوں اور گھونسوں کی ضربوں نے مجھے بے حال کر دیا۔
’’اسے پولیس کے حوالے کر دیں۔‘‘ ایک آواز میرے کانوں میں پڑی۔
’’پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔بس کرو۔۔۔کہیں بدبخت مر ہی نہ جائے‘‘ یہ آواز ڈی ایس پی عمر حیات کی تھی۔
’’ایسے بے حیا انسان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں انکل!‘‘ ساجد نے نفرت سے کہا اور ایک زور دار ٹھوکر میری کنپٹی پر رسید کی۔ اس کے ساتھ ہی میں ہوش کی دنیا سے دور چلا گیا۔ سر پر لگی ضرب نے مجھے بے ہوش کر دیا تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں سلاخوں والے دروازے کے پاس ننگے فرش پر پڑا تھا۔ سامنے ایک سنگین بردار سپاہی کی موجودگی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ میں تھانے کی حوالات میں ہوں۔ شعورمیں آتے ہی میں نے اپنے جسم کی طرف دیکھا۔ ایک دھوتی بندھی تھی اوپری جسم ننگا تھا۔ مجھے چکر آرہے تھے۔ دائیں آنکھ سوج کر کپا ہو چکی تھی جس میں سوزش کے ساتھ درد ہو رہا تھا۔ میں نے واحد آنکھ سے دیکھا کمرے میں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ میں سبین کو روندنے میں مصروف تھا کہ کالی داس کچھ لوگوں کے ساتھ اندر آگیا۔ حالانکہ بیڈ روم کا دروازہ اندر سے لاک تھا لیکن اس کے لئے اسے کھولنا کیا مشکل تھا؟ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور آج اسے میں نے وہ موقع فراہم کر دیا تھا۔ اسنے مجھ سے اچھا بدلہ لیا تھا۔
’’کاش بے ہوشی ہی میں میں اس دنیا سے جہنم کی طرف چلا جاتا۔ کاش لوگوں نے مجھے موقع پر ہی مار دیا ہوتا‘‘ میں نے چکراتے ذہن کے ساتھ سوچا۔ آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر دوبارہ ابھر آیا۔ آس پاس رہنے والے لوگوں کی آنکھوں میں شدید حیرت تھی۔ اورکیوں نہ ہوتی وہ کبھی مرکر بھی یقین نہ کر سکتے تھے کہ میرے جیسا انسان اس طرح کی قبیح حرکت کر سکتا ہے۔ میری شہرت اپنے علاقے میں بہت اچھی تھی۔ اس پرصائمہ گھر میں آنے والی خواتین کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتی۔ ان کے ساتھ نہایت اخلاق سے پیش آتی، اس کے علاوہ بچیوں کو وہ قرآن پاک بھی پڑھاتی تھی۔ صائمہ نے خود کبھی اس معاملے پرمیرے ساتھ تفصیل سے بات نہ کی تھی میں کچھ پوچھتا بھی تو کہتی۔
’’فاروق! ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملنے جلنے والوں کو دین کی تبلیغ کرے۔ میں اس کام کی تشہیر اس لئے نہیں کرتی کہ کہیں ریا کاری نہ ہو جائے‘‘ کس قدر عظیم اور نیک تھی میری بیوی اورمیں۔۔۔؟
مجھے اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ دل چاہا میں خود کشی کرلوں۔ لوگوں نے اس شدت سے مجھے مارا تھا کہ میرا جسم لہولہان ہوگیا تھا۔ اگر ڈی ایس پی عمر حیات ان کو نہ روکتا تو وہ شاید مجھے مار کر ہی دم لیتے۔ کاش وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہوتا۔
ایک طرف پڑے پڑے میرا جسم شل ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے جسم کو ہلایا توبے اختیار میرے منہ سے کراہ نکل گئی۔ سارا جسم زخموں سے چور تھا۔ آنکھ کی تکلیف الگ مارے ڈال رہی تھی۔ منہ کا ذائقہ نمکین ہو رہا تھا اور دائیں جبڑے میں سخت درد۔ کالی داس نے مجھ سے کیا خواب انتقام کیا تھا، وہ تاک میں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ لوگوں کو بھی وہی اکٹھا کرکے لایا تھا۔
سبین چیخی ضرور تھی لیکن بنگلہ اتنا بڑا تھا کہ اسکی ایک دو چیخیں کسی طور باہر سڑک پر نہیں سنی جا سکتی تھیں۔ یہ کار ستانی اس منحوس کالی داس کی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پرتھی کہ بسنتی میری مدد کرنے کیوں نہیں آئی؟ میں نے کئی بار اسے پکارا تھا۔ ہو سکتا ہے کالی داس نے اسے کسی طرح بے بس کر دیا ہو۔ ایک بار جب رادھا جاپ میں مصروف تھی تو اس کمینے نے مجھے گھیر کر اپنا بدلہ لینے کا بندوبست کر لیا تھا لیکن اس دن بھلا ہو ملنگ کا کہ اس نے میری مدد کی تھی۔ تب میں بے قصور تھا جبکہ آج تو میں نے وہ جرم کیا تھا جس کی دنیا اور آخرت میں بدترین سزا مقرر کی گئی ہے۔ کاش لوگ مجھے موقع پر ہی سنگسار کر دیتے۔ میں اہل علاقہ کی نظروں سے گر گیا تھا۔ جب صائمہ کو معلوم ہوگا تو وہ کیا سوچے گی؟ کیا وہ زندہ رہ پائے گی؟ میں نے اس کے اعتماد کو دھوکہ دیاتھا۔
اونگھتا ہوا سپاہی اچانک کھڑا ہوگیا ۔مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے اکلوتی آنکھ کھول کر دیکھا تو بری طرح لرز گیا۔ ایک سپاہی کے ساتھ دو آدمی سلاخوں والے دروازے کے قریب پہنچ گئے۔ ایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا دوسرے کے ہاتھ میں چھوٹی سی ڈائری اور پین ۔وہ کسی اخبار کے رپورٹر تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر چہرہ چھپا لیا۔ جانتا تھا وہ میری تصویریں بنانے آئے ہیں انہیں اپنے اخبار کے لئے ایک دلچسپ سٹوری مل گئی تھی۔
’’ایک معروف بینک کے منیجر نے اپنی ماتحت لڑکی کی عزت لوٹ لی‘‘
’’جو رہی سہی عزت رہ گئی تھی اس کا بھی جنازہ نکلنے والا تھا۔ اگریہ خبر اخبار میں آجاتی تو کیا میں معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا؟ جلدی سے میں تقریباً اوندھا ہوگیا۔کیمرے کی فلش چمکی۔ میں جس حد تک خودکو کیمرے سے بچا سکتا تھا میں نے کوشش کی۔ ان کے ساتھ آنے والے سپاہی نے ایک گندی سی گالی دے کر مجھے منہ اوپر کرنے کو کہا۔
’’حرامی! جس وقت اس معصوم کے ساتھ منہ کالا کررہا تھا اس وقت تجھے شرم نہ آئی اب منہ چھپا رہا ہے منہ اوپر اٹھا۔۔۔‘‘ وہ ایک اور گالی دے کر کڑک کر بولا۔
لیکن میں اسکی بات کیسے مان سکتا تھا؟ شدت سے رادھا کا منتظر تھا۔ اب اس معاملے کو وہی سلجھا سکتی تھی۔ کاش وہ آجائے اچانک مجھے رادھا کی بات یاد آگئی اسنے کہا تھا۔
’’اگر بات بسنتی کے بس سے باہر ہوجائے تو تم اس طرح مجھے پکارنا میں آجاؤں گی۔ دیوتاؤں کے کارن میری سہائتا کرو‘‘ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ صریح شرک ہے لیکن اس وقت عزت بچانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ شیطان نے مجھ پر اس قدر غلبہ پا لیا تھا کہ مجھے یہ خیال تک نہ آیا اگر میں سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو پکارلوں جو شہہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ میری مدد ضرور کرے گا۔ بے شک میں نے ایک کبیرہ گناہ کیا تھا لیکن وہ تو غفور الرحیم ہے اپنے بندوں کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ اور یہی اس کی شان کریمی ہے لیکن مجھ فاسق کو یہ خیال نہ آیا بلکہ میں شیطان کی اس چیلی کو پکارنا چاہتا تھا جسکی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا تھا۔
’’دروازہ کھول ! میں ابھی اس بے شرم کی شرم اتارتا ہوں کیسے چھپنے کی کوشش کر رہا ہے حرامزدہ۔۔۔تمہارے کرتوت جان کرتوہمیں شرم آرہی ہے‘‘ جو سپاہی صحافیوں کے ساتھ آیا تھا اسنے گرج کر سامنے بیٹھے سپاہی سے کہا۔ اب لمحوں کی بات رہ گئی تھی۔ اس کے بعد اگر میں چاہتا بھی تو دنیا والوں کی زبان نہ روک سکتا تھا۔ صرف ایک دھوتی میں حوالات کے فرش پر اوندھا پڑا تھا۔ کوئی لمحہ جاتا تھا کہ وہ دروازہ کھول کر اندر آجاتے پھر میں کسی طرح بھی ان کے سامنے مزاحمت نہ کر سکتا تھا۔
’’رادھا تمہیں دیوتاؤں کا واسطہ میرے پاس آجاؤ‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ آنے والوں میں سے ایک کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ یہ یقیناً فوٹو گرافرتھا۔
’’چھوڑیں بھٹی صاحب! اگریہ تصویر نہیں بنوانا چاہتا توکوئی بات نہیں آئیں چلتے ہیں‘‘
مجھے اپ کانوں پر یقین نہ آیا کہ واقعی اسنے وہی کچھ کہا جو میں سن رہا ہوں۔‘‘
’’مراد۔۔۔! یہ تم کیا کہہ رہے ہو کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘ دوسرے کی حیرت زدہ آواز سنائی دی۔ ساتھ ہی سپاہی جس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تھا کہ آواز آئی۔
’’اسکی کیا مجال کہ یہ تصویر نہ بنوائے میں اس کی ۔۔۔‘‘ اسنے ایک ناقابل اشاعت قسم کی گالی دے کر کہا’’۔۔۔نہ کر دوں گا۔‘‘
’’جب میں کہہ رہا ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں توبس بات ختم‘‘ فوٹوگرافر جھنجھلا گیا۔
’’جانتے ہو ایڈیٹر تمہارا کیاحال کرے گا؟‘‘ یہ اس کا ساتھی تھا۔
میں ان کی شکلیں تو نہیں دیکھ سکتا تھا ہاں آوازوں سے اندازہ لگا رہا تھا
’’تو میرا باپ نہ بن۔۔۔میں خود ایڈیٹر کو جواب دے لوں گا‘‘ فوٹو گرافر نے اس بار تلخ لہجے میں جواب دیا۔ ساتھ آنے والا سپاہی خاموش کھڑا ان کی بحث سن رہاتھا۔
’’بچو! ایک منٹ میں ایڈیٹر تمہیں نوکری سے نکال دے گا۔‘‘ ساتھی نے اسے ڈرایا۔
’’میں نے کہا ہے نا تومیرا باپ نہ بن سالے۔۔۔!میں خود دیکھ لوں گا ایڈیٹر کو بھی‘‘فوٹوگرافر چیخ اٹھا۔
’’تو میرا ماتحت ہے میری بات کیسے نہیں مانے گا؟‘‘ اس کا ساتھی بھی غصے میں آگیا۔ اسکے فوراً بعد دھماکے سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔
’’یہ لے ۔۔۔کھنچوا لے تصویر۔‘‘
میں نے چونک کر دیکھا فوٹوگرافر نے کیمرہ زمین پر مار کر توڑ دیا تھا۔ سب ہکا بکا کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ اپنے ساتھی کے منہ پر ایک زور دار مکا جڑ دیا۔ سپاہی آگے بڑھا تو اس نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا۔ مکا کھا کر سپاہی پیچھے کی طرف الٹ گیا۔ سنگین بردار سپاہی نے فوراً فوٹو گرافر پر گن تان لی لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا۔
بندوق کی پرواہ کیے بغیر وہ اس سپاہی کے ساتھ الجھ پڑا۔ میں سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ کالے رنگ اور دہرے بدن کا پچیس چھبیس سالہ شخص بڑا دلیر واقع ہوا تھا۔ مکا کھانے والا سپاہی گالیاں بکتا ہوا اٹھا اور فوٹو گرافر سے لپٹ گیا۔تھوڑی دیر میں اچھا خاصا ہنگامہ ہوگیا۔ فوٹو گرافر بڑی بے جگری سے تینوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی وہ اکیلا ان پر بھاری تھا۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں ان تینوں کو لہو لہان کر دیا۔ شور سن کر چند اور سپاہی بھاگے آئے اور آکر اسے قابو کرکے لے گئے ۔
میں حیران تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لیکن وقتی طور پر ہی سہی یہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ اگرمیری تصویر اخبار میں چھپ جاتی تو۔۔۔؟ یہ خیال ہی میرے لیے سوہان روح تھا۔ کچھ روز قبل شرجیل نے سپنا نامی لڑکی کو اپنے بیڈ روم میں صرف بلایا تھا اس پر بھی ہم سب نے اس کی کیا حالت کی تھی؟ کھیدو چوہڑے اور سپنا کا حشر دیکھ کر آنٹی میرا بہت زیادہ احترام کرنے لگی تھیں۔
اب پولیس سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ انہیں کچھ نہ کچھ دے دلا کر جان چھڑائی جا سکتی تھی۔ میں نے باہر کی طرف دیکھا سامنے کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے سلاخوں کے ساتھ سر ملا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی مجھے ایک سپاہی نظر آیا۔ میں چاہتا تھا اس کے ذریعے عمران کو بلواؤں اور ان خبیثوں سے جان چھڑا کر باہر نکلوں۔۔۔
جو کچھ کالی داس نے میرے ساتھ کیا تھا اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو ہو سکتا تھا میں انجام کی پرواہ کیے بغیر اسے جان سے مار دیتا۔ لیکن کیا میں اس کی پراسرار قوتوں کا مقابلہ کر سکتا تھا؟ میری اب تک کی جیت سے رادھا اور ملنگ کی مدد شامل رہی تھی لیکن میں خود کیا تھا؟ کیا میں اس شیطان کی گندی جادوئی قوتوں کے باوجود اسے زیر کر سکتاتھا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں چکرا رہا تھا۔
چوٹیں ٹھنڈی ہونے کے بعد مزید اذیت کا باعث بن گئی تھیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کچھ اس منحوس بسنتی کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہیں یوں کہنا چاہئے کہ ان حالات کے پیچھے میری ہوس کارفرما تھی۔ بسنتی کے حسن نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ میں برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھا تھا۔ کاش میں نے اس بدبخت کی بات نہ مانی ہوتی۔ لیکن۔۔۔بدبخت وہ نہیں میں خود تھا۔ حسین اور وفا شعار بیوی کے ہوتے ہوئے میں کن راستوں پر چل پڑا تھا؟
جسم کے ساتھ ساتھ میرا ذہن بھی دردکرنے لگا تھا۔ میں شدت سے کسی سپاہی کا منتظر تھا جس کے ذریعے عمران کو بلوا سکوں۔ پیاس کی شدت سے میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ گلا خشک ہو رہا تھا۔ دو گھونٹ پانی کے لئے میں ترس رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک سپاہی ٹہلتا ہوا کمرے کی جانب آیا۔
’’بھائی! دو گھونٹ پانی پلا دو میرا دل ڈوب رہا ہے‘‘میں نے اسے مخاطب کیا۔
’’بیٹا! ابھی صاحب تجھے ٹھنڈا شربت پلاتا ہے فکر نہ کر‘‘ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
’’بھ۔۔۔بھائی! تمہیں خدا کا واسطہ میری بات سن لو‘‘ اسے جاتا دیکھ کرمیں نے منت کی۔ وہ رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
’’اگر تم ایک چھوٹا ساپیغام ایک شخص تک پہنچا دو تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گا‘‘ میں نے اسے لالچ دیا۔
’’کونسی جیب میں رکھے ہیں ایک ہزار روپے؟‘‘ وہ میرے نیم برہنہ جسم کو دیکھتے ہوئے تمسخر سے بولا۔
’’مم۔۔۔میں تمہیں جس شخص کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں وہ تمہیں ایک ہزار روپیہ دے دے گا ۔ میری بات پریقین کرو‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا۔
وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسکی مہینہ بھر کی سات آٹھ سوسے زیادہ نہ ہوگی۔ ان دنوں ایک ہزار روپے کی کافی اہمیت تھی۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں اگر تم میرا ایک پیغام اس تک پہنچا دو تو وہ اسی وقت تمہیں پیسے دے دے گا‘‘ میں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
’’بتاکہاں جانا ہے لیکن ایک بات سن لے۔۔۔میں پہلے اس سے پیسے لوں گاپھر تیرا پیغام دوں گا ، دوسرے یہ کہ اس نے رقم نہ دی تو آج رات جن سپاہیوں نے تیری ’’خدمت‘‘ کرنی ہے میں ان سب میں آگے ہوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوگا وہ میرا بھائی ہے جب تم اسے بتاؤ گے تو وہ فوراً تمہیں پیسے دے دے گا۔‘‘ میں نے اس کی منت کی۔
’’شکل سے تو توپڑھا لکھا لگتا ہے پھر تو نے ایسی حرکت کیوں کی؟‘‘ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھ کربولا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیایہ سب میرے دشمنوں کی سازش ہے‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’ہاں تو اپوزیشن لیڈر ہے نا اسلئے تیرے خلاف سازش کی گئی ہے‘‘ اس نے طنزکیا۔ مجھے اس سے کام تھا اس لئے اس کی بات صبر سے برداشت کرگیا۔
’’میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہ بھولوں گا میرے بھائی میرا اتنا سا کام کر دو‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا پھر ہنس کربولا۔
’’اوئے۔۔۔تو تو زنانیوں کی طرح رونے لگا۔ ابھی سے تیری یہ حالت ہے ابھی توکسی نے تجھے کچھ کہا ہی نہیں۔ رات کو صاحب تیرا جو حشر کرنے والا ہے اسکا تو تجھے پتا ہی نہیں جلدی سے بتاکہاں جانا ہے اورکیا پیغام دینا چاہتا ہے تو اپنے اس بھائی کو؟‘‘ وہ تیز لہجے میں بولا۔
’’میں نے اسے بینک کانام اور ایڈریس سمجھا کر بتایا کہ وہاں ایک صاحب ہوں گے عمران محمود انہیں باہر بلا کرکہنا کہ وہ ابھی مجھے تھانے آکرملیں۔ علیحدگی میں بلا کربات کرنا سب کے سامنے نہیں‘‘
’’ابے ماں کے خصم۔۔۔! تو کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ سارے شہر میں تیرے کرتوتوں کا چرچاہو رہا ہے اور تو مجھے راز و نیاز کا مشورہ دے رہا ہے ۔۔۔‘‘ اس نے ایک اور گالی میری طرف لڑھکائی۔
اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اسکے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اسی الجھن میں مبتلا رہا کہ اتنی جلدی یہ خبر کیسے پھیل گئی؟ کیونکہ فوٹوگرافر جو میری تصویریں بنانے آیا تھا اس نے کیمرہ زمین پرمار کر توڑ دیا تھا۔ میرے ذہن میں کالی داس کا نام ابھرآیا۔ یقیناً یہ اسی حرام کے نطفے کی کارستانی ہوگی۔ اپنی پراسرار قوتوں سے کام لے کر اسی نے بات پھیلائی ہوگی۔ اب کیا ہوگا؟ میں سخت پریشان ہوگیا۔ میرا خیال تھا عمران آئے گا تو میں اسے کہوں گا تھانے والوں کو ان کی منہ مانگی قیمت دے کر میری جان چھڑائے۔ میں نے سوچا تھا سب کچھ کھیڈو چوہڑے اور سپنا پر ڈال دوں گا۔ مجھے یقین تھا کہ میرے گھر والے مجھ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور صائمہ تو کبھی مر کربھی یقین نہ کر سکتی تھی کہ میں اتنی گری ہوئی حرکت کر سکتا ہوں۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا کچھ ہو چکا ہے سپاہی کی بات پر میں چونکاضرور تھا۔
’’تیرے کرتوتوں کا چرچا سارے شہر میں پھیلا ہوا ہے‘‘ اس کا فقرہ میرے ذہن میں گونجا۔ اس وقت میرا خیال تھا وہ محض مجھے ڈرانے کی خاطر کہہ رہا ہے۔ یہ تو مجھے بعد معلوم ہواکہ سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنامیں سمجھ رہاتھا۔ سپاہی کو گئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوگیا تھا ،ابھی تک عمران نہ آیا تھا۔ میں سبین کو تقریباً بارہ بجے گھر لے کر گیا تھا۔ اس حساب سے اب شام چار بجے کا وقت ہونا چاہئے تھا۔ مجھے خطرہ تھا اگر سپاہی وقت پر نہ گیا تو بینک میں چھٹی ہو جائے گی پھر عمران کا ملنا ناممکن تھا۔ سپاہی کی بات کا مجھے اس لئے بھی یقین نہ تھا اگر بات سارے شہرمیں پھیل چکی تھی تو عمران ابھی تک کیوں بے خبر تھا؟ یہ تو ناممکن تھا کہ اسے معلوم ہوتا اور وہ نہ آتا۔ اسکے ساتھ ہی ایک لرزہ خیز خیال میرے ذہن میں آیا۔