ادھر حال یہ تھا کہ جنگ سے پہلے میرے دل نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ میں بے خود سا اسے دیکھا تھا۔
’’پریتم! وہ لپک کرآگے بڑھی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ ایک خواب کی سی کیفیت تھی میری۔ اسکا نرم و نازک وجود مجھ میں سمائے جا رہا تھا۔ اسکی خود سپردگی نے مجھے زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیا۔ میری بانہوں کا گھیرا خود بخود اس کے گرد تنگ ہوتا گیا۔ اسکا بدن کسی بھٹی کی طرح تپ رہا تھا۔ سانسوں میں جیسے بھونچال آیا ہوا تھا۔ وہ خود کو میرے اندر جذب کرنا چاہتی تھی۔ نہ جانے اس کے حسن میں ایسی کیا بات تھی کہ میں سب کچھ بھول گیا۔
’’پریم۔۔۔‘‘ میرے کان کے پاس اس کی خمار میں ڈوبی سرگوشی ابھری۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میری آواز بھی بوجھل ہو چکی تھی۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’پریم!۔۔۔پریم! میرے میت! کتنا تڑپی ہوں میں تم سے دور رہ کر ‘‘ وہ میرے چہرے سے اپنا نرم و ملائم چہرہ رگڑتے ہوئے بولی۔ اس کی معطر سانسیں میرے وجود کو مہکائے دے رہی تھی۔ اچانک ہر سو گھپ اندھیرا چھا گیا۔ میں بری طرح چونک گیا۔
’’نہ پریتم! یہ میں نے کیا ہے‘‘ اس نے مجھے بھینچ لیا۔
’’کیوں؟‘‘ میں جانتے بھی بھی انجان بن گیا۔
’’جب دو پریمیوں کا ملن ہوتا ہے تو دھرتی کی ہر شے سب کچھ بھول کر انہیں دیکھنے لگتی ہے اورمیں نہیں چاہتی کہ میرے سندر پریمی کو کوئی دوجا دیکھے‘‘ اس نے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے وہیں نرم نرم گھاس پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ اب سردی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ہم شبنم سے بھیگی گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ بیٹھی ہوئی تھی اور میں اس کی ریشمی گودمیں سر رکھے دراز تھا۔
’’رادھا تم توکہتی تھیں ہمارا جسمانی ملاپ ابھی ممکن نہیں پھر آج۔۔۔کیا وہ پابندی ختم ہوگئی؟‘‘ میں نے اسکی زلفوں کی مہک اپنے اندر اتاری۔
’’چھوڑو یہ باتیں دیکھو سمے کتنا سندر ہے۔۔۔چندر ما میری گود میں ہے‘‘ وہ میرے اوپر جھک آئی۔ اس کی سانسوں کی گرمی مجھے پگھلا رہی تھی۔ دم بدم اس اسکا چہرہ میرے چہرے کے قریب آرہا تھا۔ قریب۔۔۔قریب۔۔۔اور قریب حتیٰ کہ ہمارے وجود ایک ہوگئے۔ اس کے انداز میں جو وارفتگی تھی اسے شاید میں زندگی بھر نہ بھلا سکونَ کہاں تک اس کی بے تابیوں کی داستان رقم کروں؟ نہ قلم میں تاب ہے نہ میرے اندر اتنی صلاحیت کہ میں اس چاندنی رات کی داستان بیان کر سکوں۔۔۔جب ہم دونوں ہوش کی دنیا میں واپس آئے تو مجھے سب کچھ بڑا حسین نظر آرہا تھا۔ صبح کے قریب جب میں دبے پاؤں واپس بیڈ روم میں داخل ہوا تو صائمہ حسب معمول محو خواب تھی۔ اسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی خود بخود جھک گئی۔ بستر پر گرا تو میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
صبح صائمہ کے کئی بار جگانے سے میری آنکھ کھلی۔میری نظر اس کے چہرے پر پڑی جو کسی نو شگفتہ پھول کی طرح پاکیزہ لگ رہا تھا۔
رات کا خمار ابھی تک میری آنکھوں میں چھایا ہوا تھا۔ رادھا نے مجھے کچھ پوچھنے۔۔۔جاننے یا گلے شکوے کرنے کا موقع ہی نہ دیاتھا۔ میں اس سے اتنے دن کی غیر حاضری کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا۔ بینک پہنچنے کے بعد جیسے ہی میں نے اپنے کیبن کا دروازہ کھولا میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ میری کرسی پر وہ فتنہ گر جلوہ افروز تھی۔ جی ہاں رادھا۔۔۔ ساڑھی میں اسکا نکھرا نکھرا شباب قیامت ڈھا رہا تھا۔ دن کی روشنی میں وہ اور زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ اس کے حسن کے بارے میں کیا کہوں وہ تو پرستان سے آئی کوئی پری تھی۔ ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ لیے وہ خمار آلود نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے پیچھے مڑ کر سٹاف کی طرف دیکھا سب اپنے کام میں منہمک تھے۔
’’سجنا! تم بھول گئے میں نے کہاتھا تمرے بن مجھے کوئی دیکھ سکتا ہے نہ میری آواج سن سکتا ہے۔‘‘ رادھا کی مدھر آواز میرے کان میں پڑی۔ میں نے دروازہ بند کر دیا اور بے تابی سے اسکی طرف بڑھا میں چاہتا تھا اسے اپنی بانہوں میں بھرلوںَ اسکی مدھر ہنسی کمرے میں جلترنگ بجاگئی۔
’’پریم! یہ ٹھیک ہے میں کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔۔۔یدی تم نے مجھے ہر دے(سینے) سے لگایا توباہر بیٹھے منش کیا وچارکریں گے کہ تم کسے اپنی بانہوں میں بھینچے کھڑے ہو؟‘‘
مجھے اپنی بے خود پر ہنسی آگئی۔ وہ آہستہ سے کرسی سے اٹھی اور باد صبا کی جھونکنے کی طرح میرے پاس آگئی۔
’’برا جیئے مہاراج!‘‘ اسنے کسی کنیز کی طرح جھک کر مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہنا۔
’’شکریہ‘‘ میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی۔ وہ میرے سامنے کھڑی تھی لیکن کسی اور کو نظر نہ آرہی تھ۔ میں بار بار کنکھیوں سے باہر کی جانب دیکھ رہا تھا۔
’’میری بات پروشواس نہیں ہے ساجن!؟‘‘ اس نے میرے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔
’’یقین تو ہے لیکن دیکھو نا کتنا عجیب لگ رہا ہے تم موجود ہو لیکن میرے علاوہ کوئی اور تمہیں دیکھ نہیں سکتا‘‘ میں حیران تھا’’تم بھی بیٹھو نا‘‘ میں نے سامنے والی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کوکہا۔
’’داسیاں اپنے دیوتا کے چرنوں میں بھلی لگتی ہیں‘‘ وہ ایک جذب کے عالم میں بولی۔ آج مجھے اتنا ہوش نہ تھا کہ دیوتا کہنے پر اسے سر زنش کرتا۔ اس پر رات مجھے اس کی شدتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ مجھے بے حد چاہتی تھی۔
’’میرا من کتنا شانت ہے آج۔۔۔تم وچاربھی نہیں کر سکتے۔‘‘
’’کیوں‘‘ میں نے اسکی طرف دیکھا۔
’’تمنے وہ کڑا کھتم کروا کر جوا پکارمجھ پر کیا میں اس کے لئے تمہیں دھن وادکہتی ہوں‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ رات وہ میرے جسم سے لپٹ گئی تھی۔ میں نے پوچھا بھی تھا یہ سب کیسے ممکن ہوا۔۔۔لیکن اسکی بے تابیوں کے آگے سب کچھ گم ہوگیا تھا۔
’’ہائیں۔۔۔؟‘‘میں نے حیرت سے کہا۔
’’میں نے توکوئی کڑا ختم نہیں کروایا لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟‘‘ میں خود بھی حیران رہ گیا تھا۔ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تمنے نہیں کروایا تو پھر کیسے کھتم ہوگیا؟‘‘
’’میں نے توصرف محمد شریف سے کہہ کرگھر اور دفترکا حصار ختم کروایا تھا‘‘ میں نے پر خیال انداز سے کہا۔
’’کسی نے بھی کیا بھلا کیا‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’کہیں تم نے خود تو یہ سب کچھ۔۔۔‘‘ میں نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔ اسکی مدہر ہنسی کمرے میں جلترنگ بجا گئی۔
’’ہاں تمہیں تو اپنے کام سے مطلب ہے چاہے میں مر ہی نہ جاتا‘‘ آخر گلہ میرے ہونٹوں پر آہی گیا۔
’’بھگوان نہ کرے‘‘ اس نے جلدی سے میرے ہونٹوں پر اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا۔’’موہن! یہ تم نے کیا کہہ دیا؟‘‘ اسنے دکھ بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’تمہیں پتاہے تمہارے جانے کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ اس دن کی اذیت یاد آتے ہی میرا لہجہ تلخ ہوگیا۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ اس کی سوالیہ نظریں مجھ پر ٹکی تھیں۔ میں اسے کالی داس اور ملنگ کے بارے میں بتانے لگا۔ ابھی میں نے بات شروع کی ہی تھی کہ اس نے مجھے روک لیا۔
’’بس کرو موہن!‘‘ اس کی منہ سے غراہٹ نکلی۔ آنکھوں میں آگ کے الاؤ بھڑک اٹھے۔
’’کالی نے داس اپنی مرتیو کا پربند کھود گیا ہے‘‘ اس کا لہجہ اس قدر سرد تھا کہ میرا جسم کپکپاگیا۔ اسکا حسین چہرہ آگ کی طرح تپ گیا تھا۔
’’کالی داس! اب تجھے میرے شراپ سے دیوتا بھی نہ بچائیں گے‘‘ اتناکہہ کر وہ لمحوں میں میرے سامنے سے غائب ہوگئی۔
’’رادھا۔۔۔!‘‘ میں نے جلدی سے پکارا۔ لیکن کمرے کا سکوت بتا رہا تھا وہ جا چکی ہے۔ مجھے افسوس سا ہوا کہ میں نے اس وقت کیوں کالی داس کا ذکر چھیڑ دیا تھا۔ لیکن جوکچھ اس مردودنے میرے ساتھ کیا تھا میں اسے کسی طور بھول نہیں سکتا تھا۔ میری شدید ترین خواہش تھی کہ میں اس حرامزادے کو کتے کی موت ماروں۔ اگر اس دن ملنگ میری مدد نہ کرتا تو آج میں زمین کے اوپرہونے کے بجائے اندر ہوتا۔
کچھ دیر بعد وہ یکدم ظاہر ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ یوں میرے سامنے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کے حسین چہرے پر غصے اور جھنجھلاہٹ کے تاثرات تھے۔
’’وہ اپرادھی! منڈل میں چلا گیا ہے‘‘ وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولی۔
’’کہاں چلا گیاہے؟‘‘ میں کچھ نہ سمجھا۔
’’منڈل میں‘‘ اس کا چہرہ آگ کی طرح تپ رہا تھا۔
’’منڈل کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ پاپی ! جانتاتھاکہ اسے رادھاکے شراپ سے اب کوئی نہیں بچا سکتا اسی کارن وہ ایک دائرہ کھینچ کر اس میں بیٹھ گیا ہے جس میں اسے شرن (پناہ) مل گئی ہے‘‘ اس نے تفصیل سے بتایا۔
’’تم چنتانہ کرو موہن! وہ کب تک وہاں بیٹھا رہے گا جیسے ہی باہر آیا میں اس کا بلیدان تمرے چرنوں میں کروں گا‘‘۔
پھر کچھ سوچ کر بولی’’موہن !کیا تم مجھے وہ استھان دکھا سکتے ہو جہاں وہ پاپی تمہیں لے کر گیاتھا؟‘‘
’’میں یہاں کے راستوں سے اتنا واقف نہیں ہوں لیکن تمہیں وہاں تک لے جا سکتا ہوں جہاں میری گاڑی خراب ہوئی تھی یا کی گئی تھی‘‘ میرے خیال میں گاڑی کے خراب ہونے میں کالی داس کاہ اتھ تھا۔
’’تمراوچار گلط نہیں موہن! سب کچھ اسی دھشٹ نے کیا تھا‘‘ اس کا غصہ کسی طور پر کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔
’’چھوڑو رادھا!ً جب وہ لعنتی باہر آئے گا تو دیکھ لیں گے‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔
’’نہیں موہن! اس کا اپرادھ کچھ کم نہیں ہے ہو سکتا ہے اس استھان پرجا کر میں اسے باہر لانے میں سپھل ہوجاؤں۔‘‘ رادھا نے اصرار کیا۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ابھی بچوں کو سکول سے لانے میں کافی وقت ہے ہم جلدی سے وہاں ہو آتے ہیں‘‘ میں نے گاڑی کی چابیاں اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں باہرجانے لگا تو وہ بھی میرے ساتھ چل پڑی ۔
’’تم اسی طرح جاؤ گی؟‘‘
’’پھر کس طرح جاؤں؟‘‘ وہ حیران رہ گئی۔
میرا مطلب۔۔۔اچھا ٹھیک ہے‘‘ اچانک مجھے یاد آیا کہ وہ کسی اور کو تو نظر ہی نہیں آتی میں بار بار یہ بات بھول جاتا تھا بات تھی بھی ناقابل یقین۔ ہم دونوں کیبن سے باہر آئے۔ میں نے عمران کو کچھ ہدایات دیں ار اس کے ساتھ باہر آگیا۔
گاڑی میں بیٹھ کرمیں نے دوسری سائیڈ کا دروازہ اس کے لئے کھولنا چاہا تویہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہے۔ میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر وہ ہنس پڑی۔
’’کچھ سمے میں تم اس کے عادی ہوجاؤ گے۔‘‘
’’ہاں ٹھیک کہتی ہو تم‘‘ میں نے گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھائی۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے میری نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ وارفتگی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ ہر وقت اس کی آنکھوں میں میرے لیے پیار کا دریا موجزن نظر آتا تھا۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’دیکھ رہی ہوں تم کتنے سندر ہو؟‘‘ اس خمار آلود نظریں مجھ پر ٹکی تھیں۔
’’ایسے ہی مجھے بناتی رہتی ہو‘‘ میں نے کہا۔
’’اپنے اپنے وچار کی بات ہے‘‘ وہ مسکرائی۔
’’اگر تمہارے بارے میں میں ایسا کہوں کہ تم کتنی خوبصورت ہو تو اور بات ہے جبکہ خود کو تو میں روز آئینے میں دیکھتا ہوں۔‘‘
’’میرے نینوں میں کھد کو دیکھو تو جان پڑے تم کیا ہو؟‘‘ حسین آنکھیں خمار آلود ہوگئیں۔
تعریف سننا انسان کی کمزوری ہے اور یہی کمزوری اسے تباہی کے دہانے پر لے آتی ہے۔ ہم اسی طرح باتیں کرتے اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں میری گاڑی خراب کی گئی تھی۔ یہ جگہ بھی مجھے اس لئے یاد رہ گئی تھی کہ جب مدد کی تلاش میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا تو میری نظر ایک خستہ حال ٹوٹے ہوئے بورڈ پر پڑی تھی جو کسی فلور مل کا تھا۔ نام تو شاید مٹ چکا تھا ہاں ’’فلور ملز‘‘ کے الفاظ صاف پڑھے جا سکتے تھے۔ میں نے گاڑی اسی جگہ روک کر بائیں جانب دیکھا تووہاں دور دور تک کھیت تھے۔ جس گاؤں میں مجھے دھوکے سے لے جایا گیا تھا اس کا وجود ہی نہ تھا۔ میں نے ایک بار پھر اردگرد دیکھا بالکل وہی جگہ تھی۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ رادھا نے مجھے دائیں بائیں دیکھتے پا کر پوچھا۔
’’وہاں۔۔۔سامنے ایک گاؤں تھا جہاں مجھے لے جایا گیا تھا‘‘ میں نے اسے اشارے سے بتایا۔
’’لیکن اب تو کہیں نظر نہیں آرہا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔یہ بات ہے‘‘ رادھا نے پر خیال انداز میں کہا۔
’’کچھ مجھے بھی تو بتاؤ ۔۔۔کیا بات ہے؟‘‘
’’واپس چلو موہن‘‘رادھا نے جواب دینے کے بجائے کہا ہم واپس چل پڑے۔
’’رادھا! میں تم سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ واپسی پر میں نے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس کی سوالیہ نظریں مجھ پر ٹکی تھیںَ
’’تم اتنے دن کہاں غائب رہیں جبکہ تم نے کہا تھا تمہارا جاپ دو دن میں ختم ہو جائے گا اسکے علاوہ وہ حصار جو میرے گرد قائم تھا وہ کیسے ختم ہوا؟ تم نے کہا تھا جب ہمارا جسمانی ملاپ ممکن ہوگا تب تم اپنے بارے میں سب کچھ بتاؤں گی۔‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دیئے۔
’’اتنے سارے پرشن‘‘ وہ ہنس پڑی۔
’’میرے ذہن میں الجھن رہتی ہے جب تک ان سوالوں کے جواب نہ مل جائیں گے میں بے چین رہوں گا۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ٹھیک ہے موہن ایک دن اور رک جاؤ پھر میں سب بتا دوں گی پرنتو تمہیں اپنا وچن یاد ہے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کونسا وعدہ؟‘‘
’’یہی کہ اس ساری جانکاری کے بعد بھی تم مجھ سے پریم کرتے رہو گے‘‘ اسے نہ جانے کیا خدشہ تھا؟
’’ہاں یاد ہے ۔۔۔تم فکر نہ کرو ایسی کوئی بات نہ ہوگی‘‘ میں نے اسے اطمینان دلایا۔
’’اتنا یاد رکھنا موہن! تمری یہ داسی تمرے بن کچھ نہیں ۔یدی تمنے میرے من سے کھلواڑ کیا تو ۔۔۔پھر‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
’’اگر تمہیں مجھ پریقین نہیں تو میں اصرار نہیں کرتا۔ ‘‘ میں نے ناراضگی سے کہا۔
’’ایسی بات نہیں موہن ! جانے میرا من کیوں بیاکل رہتا ہے‘‘ حسن افسردہ ہوگیا۔
’’اچھا ییہ تو بتا دوکہ تم اس دن میری مدد کرنے کیوں نہیں پہنچی تھیں؟‘‘
’’جب کوئی منڈل میں بیٹھ جاتا ہے پھر اس سمے تک باہر نہیں آسکتا جب تک وہ جس کارن منڈل میں بیٹھا ہے اسے پور نہ کرلے‘‘ اس نے بتایا۔
’’لیکن تم تو صرف دو دن کے جاپ کے لیے بیٹھی تھیں‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں وچار تو میرا بھی یہی تھا کیول دو دن لگیں گے اس جاپ میں پونتو۔۔۔سمے کچھ جیادہ ہی لگ گیا۔ اسی کارن وہ دھشٹ تمہیں کشٹ دینے میں سپھل ہوگیا تھا‘‘ اسے پھر کالی داس پرغصہ آگیا۔ ہم سکول کی عمارت کے قریب پہنچ چکے تھے۔
’’اچھا موہن کل ملیں گے‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔
’’کیوں آج رات نہیں آؤ گی؟‘‘ نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔
’’من تو بہت کرتا ہے پرنتو آج نہیں‘‘ اس کے چہرے سے الجھن ظاہر ہو رہی تھی۔ یکدم میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں بچوں کو لے کر گھر آگیا۔ کھانے کھا کر جب میں بینک جانے لگا تو صائمہ نے پھر شرجیل اور ناعمہ کا ذکر چھیڑ دیا۔
’’آج پھر مما کا فون آیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اوہو میں تو بھول ہی گیا تھا‘‘ میں نے تاسف سے کہا۔
’’آنٹی بھی کیا سوچتی ہوں گی ایک کام کہہ دیا وہ بھی ان سے نہ ہو سکا۔‘‘
’’یہ بات نہیں میں نے مما کو فون کرکے کہہ دیا تھا کہ آجکل بینک میں مصروفیت بہت ہے ہم چند دن کے بعدآئیں گے۔‘‘ صائمہ نے بتایا۔
’’ٹھیک ہے کل چلیں گے‘‘ صائمہ خوش ہوگئی۔ بینک واپس پہنچ کر میں نے رادھا کو پکارا۔ دوسرے لمحے وہ میری آنکھوں کے سامنے تھی۔
’’کس کارن بیاکل ہے میرا ساجن!؟‘‘ اس کے ہونٹوں پر بڑی دلآویز مسکراہٹ تھی۔
’’کل ہم کراچی جا رہے ہیں شرجیل کا معاملہ سلجھانے۔ کیا تم اس سلسلے میں میری مدد کر سکتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں پریم! میری بڑی آشا ہے میں تمری سیوا کروں‘‘ اس کے لہجے میں اپنایت تھی۔
’’شکریہ، لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو، یاد ہے میں نے کہا تھا وہ ناری تمرے متر کی چیلی ہے؟‘‘ رادھا نے مجھے یاد دلایا۔
’’کہا تو تھا لیکن اس دن بات ادھوری رہ گئی تھی۔ تم میرے کس دوست کی بات کر رہی ہو؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’وہ کلٹا! کالی داس کی چیلی ہے۔‘‘ رادھا نے انکشاف کیا۔
’’کیا۔۔۔؟ لیکن وہ کالی داس کو کیسے جانتی ہے؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔
’’موہن ! ہو ناز۔۔۔ادھیک سندر ہے تم دیکھو گے تو دیکھتے رہ جاؤ گے۔ اس کی ایک سکھی کالی داس کی چیلی ہے اسی نے اس کا ملن کالی داس سے کروایا تھا۔ کالی داس سندر کنیاؤں کو پرسن کرتا ہے۔ اس نے تھوڑے بہت جنتر منتر اسے بھی سکھا دیے ہیں جن کے کارن وہ جسے چاہے اپنے بس میں کر لیتی ہے۔ ناعمہ کاپتی بھی اس کا شکار ہے پرنتو اس بار وہ اپنے چلتر میں سپھل نہ ہو پائے گی‘‘ رادھا نے تفصیل بتائی۔
’’پھر تو بڑا مزا آئے گا جب وہ ناکام ہوگی تم بھی چلو گی نا ہمارے ساتھ؟‘‘ میں نے کسی خیال کے تحت پوچھا۔
’’میں تو ہر پل تمرے سنگ ہوتی ہوں میرے میت!‘‘ اس نے بڑی لگاوٹ سے کہا۔
’’دیکھنا کہیں اس بار بھی تمہیں کوئی کام نہ یاد آجائے اور میں غریب ناکام ہو کر شرمندہ ہو جاؤں‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔
’’اب ایسا نہیں ہوگا موہن! اس سمے بھی میں کسی کارن نہ آئی تھی اور دوجے میں جان گئی تھی تمرا وہ متر پہنچ جائے گا یدی ایسا نہ ہوتا تو میں منڈل توڑ کر بھی تمرے پاس پہنچ جاتی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہ چلتا تھا۔ گھر آکر میں نے صائمہ کو بتایا کل صبح آٹھ بجے کی فلائٹ ہے۔‘‘
’’میں مما کو فون کرکے بتاتی ہوں‘‘ وہ خوش خوش باہر نکل گئی۔ جب بچوں کو معلوم ہوا وہ نانوکے گھر جا رہے ہیں تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ یوں تو میری داستان عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے ان سب کو بیان کرنے کے لئے ہزاروں صفحات بھی کم ہیں لیکن اس واقعے کا تعلق چونکہ کالی داس کے ساتھ ہے اور کچھ یہ دلچسپ بھی ہے اس لئے میں اسے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ دوسرے دن دس بجے کے قریب ہم کراچی پہنچ گئے۔ ائیرپرٹ پر ڈرائیور موجود تھا آدھ گھنٹے کی ڈرائیور کے بعد ہم صائمہ کے میکے میں تھے۔ آنٹی ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ صائمہ نے بتایا تھا کہ ناعمہ کی حالت کافی خراب ہے۔ وہ اس بات کا دل کا روگ بنا بیٹھی ہے۔ میں تو فوراً ناعمہ سے ملنا چاہتا تھا لیکن ساس صاحبہ نے ناشتہ تیار کروا رکھا تھا پیٹ پوجا کے بعد میں نے ناعمہ کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا وہ اپنے کمرے میں ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے باہر آگیا۔ رادھا کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرنا تھی۔
’’رادھا‘‘ ایک سنسان سڑک پر آکر میں نے اسے پکارا۔
’’میں تمرے پاس ہی ہوں پریتم!‘‘ اس کی مدھر آواز میرے کانوں میں آئی۔
’’کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس ناری سپنا نے ناعمہ پر کالی داس سے کچھ جنتر منتر کرو کر اسکی ہتھیا کا پربند کر رکھا ہے۔ یدی تم کچھ سمے اور نہ آتے تو ہو سکتا تھا ناعمہ اس سنسار میں نہ رہتی‘‘ میں بری طرح چونک گیا۔
’’اور یہ سب تم مجھے اب بتا رہی ہو‘‘ میں نے تیز لہجے میں کہا۔
’’موہن ! مجھے اس بات کی جانکاری ابھی ملی ہے‘‘ اس نے صفائی پیش کی۔
’’اچھا ٹھیک ہے اب کیا کیا جائے؟‘‘
’’تم چنتا نہ کرو دیکھو میں کیا کرتی ہوں؟ ہاں تمہیں ایک بات اور بتاتی ہوں۔ تمری ساسو ماں(ساس) نے ایک پیر بھی گھر میں بٹھا رکھا ہے۔ آج کل وہ اسکے چرن دھو دھو کر پی رہی ہے۔ اس دھشٹ نے تمری ساسو ماں کو وچن دیا ہے وہ تھوڑے ہی دنوں میں سب ٹھیک کر لے گا‘‘ رادھا نے مجھے ایک دلچسپ بات بتائی۔
’’کیا وہ کچھ علم جانتا ہے؟‘‘ مجھے تجسس ہوا۔
’’بس دو چار جنتر منتر کسی سے سیکھ لیے ہیں اسی سے لوگوں کی بدھی نشٹ(عقل خراب) کرتا رہتا ہے۔ بہت پاپی ہے اس کی نجر تمری سالی پر ہے وہ اس کا بلات کار کرنا چاہتا ہے‘‘ رادھا کی بات سن کر میرے خون میں ابال آگیا۔
’’کہاں ہے وہ کمینہ؟‘‘ میں نے غصے میں پوچھا۔
’’اسی گھر میں ایک کوٹھا پکڑ کر دھونی رمائے بیٹھا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسے تم کہتی ہو میں ویسے ہی کروں گا لیکن میرے پاس ہی رہنا مجھے ان کاموں کا بالکل بھی تجربہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نشچنٹ رہو میں ہر پل تمرے سنگ رہوں گی جیس کہتی جاؤں کرتے جانا پھر دیکھنا میں کیسا چمتکار دکھاتی ہوں‘‘ رادھا نے ہنس کر کہا۔ اب اس کام میں میری دلچسپی بڑھ گئی تھی۔
’’رادھا! میں صائمہ کو کیا بتاؤ گا؟‘‘ اچانک خیال کے تحت میں نے پوچھا۔
’’کہہ دینا تم نے اپنے متر کے پتا سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا ہے‘‘ رادھا نے مجھے مشورہ دیا۔
’’ہاں یہ بہتر ہے‘‘ میں مطمئن ہو کر گھر میں داخل ہوگیا۔ ڈرائنگ روم میں صائمہ اپنی ماں کے ساتھ سر جوڑے بیٹھی تھی۔ بچے کھانا کھا کر سو گئے تھے۔
’’ناعمہ اس سمے اس پیر کے پاس اس کے کوٹھے میں بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘ رادھا نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’ناعمہ کہاں ہے؟‘‘میں نے بیٹھے ہوئے صائمہ سے پوچھا۔
’’وہ۔۔۔وہ ۔۔۔نہا رہی ہے‘‘ آنٹی نے بمشکل بہانہ گھڑا۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔
’’آنٹی! بینک میں میرے ایک ماتحت ہیں محمد شریف ۔ ان کے والد محترم صاحب کرامت بزرگ تھے۔ مجھ پر خاص شفقت فرمایا کرتے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ جو عورت شرجیل کو رجھائے بیٹھی ہے میں اس کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں وہ ایک فاحشہ ہے۔ سپنا نام ہے اس کا۔ اس نے ناعمہ پر کالا جادو کروا رکھا ہے اگر اسکا باقاعدہ اور فوری علاج نہ کیا گیا تو خدانخواستہ اس کی جان کو خطرہ ہے‘‘ آنٹی کے لئے تو میری باتیں تعجب خیز ہونا ہی تھیں لیکن صائمہ بھی حیرت سے منہ کھولے میری بات سن رہی تھی۔
’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت ناعمہ اس جھوٹے پیر کے کمرے میں ہے وہ ایک فراڈ شخص ہے۔ سپنا نے شرجیل کو بھی جادو کے زور سے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔‘‘
’’فا۔۔۔فاروق! آپ نے تو مجھے کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ اتنا کچھ جاتنے ہیں‘‘ صائمہ کی آواز میں شکوہ بھی تھا اور خوشی بھی۔
’’آنٹی ! آپ فکر نہ کریں اب میں آگیا ہوں نا سب کچھ انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ میں نے انہیں تسلی دی۔
’’اللہ تمہاری زبان مبارک کرے نہ جانے میرے گھر کی خوشیوں کو کس کی نظر کھا گئی۔‘‘ انہوں نے آنسو پونچھے۔
’’آپ دعا کریں اور دیکھیں کیا ہوتا ہے۔۔۔؟‘‘ میں ذرا اس ڈبے پیر کی خبر لے لوں‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’فاروق ! میں بھی آؤں؟‘‘ صائمہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ میں ابھی انکار کرنے ہی والا تھا کہ رادھا نے مجھے صائمہ کو ساتھ لے جانے کا مشورہ دیا۔
’’ٹھیک ہے آجاؤ۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر آنٹی سے پوچھا جاوید(صائمہ کا بھائی) کہاں ہے؟‘‘
’’اپنے کمرے میں ، وہ بے چارہ بھی سخت پریشان ہے‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’اسے بھی بلا لیں‘‘ میں نے کہا۔ صائمہ جلدی سے جا کر اسے بلا لائی۔
ہم تینوں چلتے ہوئے اس کمرے کے دروازے تک آپہنچے جہاں وہ جھوٹا پیر ٹھہرا ہوا تھا۔ صائمہ نے آنٹی کو بچوں کے پاس ٹھہرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ صائمہ بالکل میرے پاس تھی ورنہ میں رادھا سے اندر کی پوزیشن پوچھنا چاہتا تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ رادھا کی آواز آئی۔
’’پریم! در وجہ بند ہے پہلے مجھے کھول لینے دو اندر جو کچھ ہو رہا ہے اسے تم کھد دیکھو تو بہتر ہے‘‘ وہ میرے دل کی بات جان گئی تھی۔ میں نے دروازے کو ہاتھ لگایا وہ اندر سے بند تھا۔ صائمہ کا ماتھا بھی ٹھنکا۔
’’میں نے یونہی رعب ڈالنے کے لئے منہ ہی منہ میں پڑھا اور دروازے کی طرف پھونک دیا پھر دروازے کو دھکا دیا ،وہ کھل گیا۔ سب کچھ صائمہ کے لیے نہایت حیران کن تھا۔ میں نے رادھا کی ہدایت کے مطابق اپنی اداکاری جاری رکھی۔ زور دار آواز سے دروازہ کھول کر میں اندر داخل ہوگیا۔ صائمہ اور جاوید بھی میرے پیچھے تھے۔ کمرے میں تقریباً اندھیرا تھا۔ بڑی مسحور کن خوشبویات پھیلی ہوئی تھی۔ وہ پیر فرطوت اس وقت ناعمہ پر جھکا ہوا تھا۔ جو بیڈ پر آنکھیں بندکیے لیٹی ہوئی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بری طرح اچھلا۔ اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی اس کی خلوت میں مداخلت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس نے دروازے کو اندر سے چٹخنی لگا کر بند کر رکھا تھا۔ صائمہ نے جلدی سے لائٹ جلا دی جس کا بٹن دروازے کے ساتھ ہی تھا۔ کمرے میں تیز روشنی پھیل گئی۔ میرے سامنے ہی وہ لعنتی کھڑا تھا۔ اس کا حلیہ روایتی عاملوں اور پیروں جیسا تھا۔ لمبا سا سبز رنگ کا چوغہ اس نے پہن رکھا تھا۔ بڑے بڑے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ کسی سانڈ کی طرح پلا ہوا تھا۔ داڑھی بے تحاشہ بڑھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کسی جانور کی لمبی سی ہڈی تھی جسے وہ غالباً ناعمہ کے جسم پر پھیر رہا تھا۔ وہ تیزی سے مڑا ہم سب کو دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا لیکن شیطان صفت آدمی تھا فوراً ہی اپنے تاثرات چھپا کر گرجا۔
’’کس کی اجازت سے تم لوگ اندر داخل ہوئے ہو۔۔۔میں نے کہا نہیں تھا کہ جب تک میں نہ بلاؤں کوئی اندر نہ آئے؟‘‘ اس کے منہ سے کف اڑانے لگا۔ سب کے چہرے پر نظر ڈال اس کی آنکھیں مجھ پر ٹک گئیں۔ جاوید کو تو وہ جانتا ہوگا کیونکہ بقول رادھا کے وہ کئی دن سے یہاں ڈیرے لگائے بیٹھا تھا۔ میں اور صائمہ اس کے لئے اجنبی تھے۔ اس کی لال انگارہ آنکھیں مجھ پر ٹکی تھیں۔
’’کون ہے تو‘‘ اس نے گرج کو پوچھا۔
’’یا حضرات ! مم۔۔۔میں ۔۔۔جاوید کا بہنوئی ہوں۔‘‘ میں نے یوں ظاہر کیا جیسے میں اس سے بری طرح خوفزدہ ہوگیا ہوں۔
’’لیکن یہاں کیوں آیا ہے مردود! کیا تو نہیں جانتا کہ اس بچی پر سخت جادو ہوا ہے اور ہم اس کا اتارا کر رہے ہیں تو نے جرأت کیسے کی ہماری اجازت کے بغیر اندر داخل ہونے کی‘‘ وہ غضبناک ہو کر دھاڑا۔
صائمہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ کہاں تو میں اس کی مما کے سامنے اسے جھوٹا اور فریبی پیر کہہ رہا تھا اور اب خوف سے میرا برا حال تھا۔ لیکن میں بالکل رادھا کی ہدایت کے مطابق عمل کر رہا تھا۔
’’اگر نہیں گیا تو پھر آپ کیا کریں گے جناب؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری بہن کا علاج ہو؟‘‘ وہ جاوید کی طرف مڑا۔
’’میں۔۔۔کیا‘‘ وہ بے چارہ بری طرح گڑ بڑا گیا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کیا اور اپنی نظریں پیر پر جما دیں۔
’’اچھا اب میں سمجھا۔۔۔تو بھی دشمنوں سے ملا ہوا ہے ٹھہر۔۔۔ابھی بتاتاہوں‘‘ اس نے آنکھیں بند کرکے کچھ بدبدانا شروع کر دیا۔ پھر بڑی بڑی مکاری سے بھری آنکھیں کھول کر بولا۔
’’اب سمجھا۔۔۔تو ہے وہ آستین کا سانپ۔۔۔جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے۔‘‘
’’یہ اس بچی کے شوہر سے ملا ہوا ہے۔ اس پرجادو کروانے میں اس کا ہاتھ بھی ہے‘‘ پیر نے بڑے پر جلال لہجے میں انکشاف کیا۔ اسکا مخاطب جاوید تھا۔
صائمہ جو منہ کھولے یہ سب کچھ سن رہی تھی۔ اسکا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
’’بکواس بند کرالو کے پٹھے!‘‘ اچانک وہ گرجی۔ مجھ پر الزام تو وہ کسی صورت برداشت نہ کر سکتی تھی۔
’’فاروق توناعمہ کو اپنی چھوٹی بہن سمجھتے ہیں مجھے تو جعلی پیر لگتا ہے۔ اگر تو کوئی اللہ والا ہوتا تو اس طرح جھوٹی بکواس نہ کرتا۔‘‘ اس نے ادب آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے پیر کو لتاڑ کر رکھ دیا۔
پیر کی آنکھیں لال انگارہ ہوگئیں‘‘ اس نے قہر آلودہ نظر صائمہ پر ڈالی۔
’’تو جانتی ہے کس کے سامنے زبان درازی کر رہی ہے؟ کیوں اپنی عاقبت خراب کرتی ہے۔ بے وقوف اس بدکار نے تجھ پر بھی جادو کروا رکھا ہے جس کی وجہ سے تیری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اگر عیبوں کو پردہ پوشی کا حکم نہ ہوتا تو میں ابھی اس لعین کے کالے کرتوت تجھے دکھا دیتا ‘‘ وہ منہ سے کف اڑتا ہوا غصے میں گرج رہا تھا۔
’’کرتوت تو تیرے گندے ہیں۔۔۔کیا اسلام میں یہ جائز ہے کہ کسی نوجوان غیرمحرم لڑکی کو بند کمرے میں رکھ کر جادو کا علاج کیا جائے یہ تو کس قسم کا علاج کر رہا ہے؟‘‘ صائمہ میرے بارے میں اس کی بکواس سن کر ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی۔ میں خاموش کھڑا ان دونوں کی بحث سن رہا تھا کیونکہ رادھا خاموش تھی۔
’’تو مجھے بدکار کہہ ہی رہی۔۔۔؟ تجھ پر خدا کا عذاب نازل ہوگا‘‘ وہ مزید غضبناک ہوگیا۔
’’ٹھہر میں تیری گز پھر کی زبان ابھی بند کرتا ہوں‘‘ اس کے مکروہ ہونٹ تیزی سے ہلنے لگے۔
’’اب خاموش رہنا مناسب نہیں موہن! آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دو‘‘ رادھا نے مجھے ہدایت دی۔ وہ آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ یہ سلوک بھی ہو سکتا ہے۔ میں جلدی سے آگے بڑھا اور پوری قوت سے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ تیورا کر پیچھے کی طرف جاگرا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہوتا میں نے گرج کر کہا۔
’’بہت سن لی تیری بکواس۔۔۔تو کس گندی نالی کا کیڑا ہے۔ میں ابھی تجھے بتاتا ہوں‘‘ وہ بل کھا کر کھڑا ہوگیا۔ اس کا چہرہ غصے سے سیاہ پڑ گیا تھا۔ قد اسکا تقریبا میرے برابر تھا میرے برابر تھا لیکن وہ خواب پلا ہوا تھا۔ اس نے وہ ہڈی جو ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی میری طرف کی۔
’’اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا کر منہ ہلانا شروع کر دو‘‘ رادھا کی دوسری ہدایت آئی۔ میں نے حرف بحرف عمل کیا۔ ہڈی یک بیک رسی میں تبدیل ہو کر اس کے دونوں ہاتھوں کے ساتھ یوں لپٹ گئی جیسے کسی نے اس کے ہاتھ باندھ دیے ہوں۔ اس کے چہرے پر اذیت کے آثار چھا گئے۔ رسی اس کے ہاتھوں کے گرد خود بخود کسی جا رہی تھی پہلے تو وہ اس کا توڑ کرنے کی فکر میں رہا لیکن اس نے دیکھ لیا کہ یہ ممکن نہیں تو وہ بری طرح بوکھلا گیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’اب کیا خیال ہے آپ کا اپنے بارے میں جناب عالی‘‘ میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’تت۔۔۔تو ٹھیک نہیں کر رہا۔ اب بھی باز آجاؤ مجھے خدا کا خوف ہے ورنہ ابھی تجھے بتاتا کہ اللہ والوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کیا سزا ہوتی ہے‘‘ اس نے اپنی خودی بلند رکھنے کی کوشش کی۔
’’موہن! اپنے ہاتھ کا رخ اس کے پیروں کی طرف کرکے جھٹک دو‘‘رادھا نے کہا۔ میں نے اس بار بھی اس کی بات پر عمل کیا۔ ہوا میں ایک رسی نمودار ہوئی اور اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔ اس کے ہاتھ پاؤں بندھ چکے تھے۔ پیر چھڑانے کے لئے زور لگانے پر وہ دھڑام سے نیچے آن گرا۔ اس کا سر زور سے سائیڈ ٹیبل کے کنارے سے ٹکرایا اور خون کا ایک فوارا سا اُبل پڑا۔’’ہائے میں مر گیا‘‘ وہ اذیت سے چیخا۔ اچانک رادھا اپنی جگہ سے آگے بڑھی اور اس موٹے پیر کو گردن سے پکڑ کر ہوا میں معلق کر دیا۔ اس کا ہاتھ دراز ہوگیا تھا۔ پیر کو ہوا میں معلق دیکھ کر صائمہ اور جاوید آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ نازک بدن رادھا نے اسے ایک ہاتھ میں لٹکا رکھا تھا۔ وہ ہوا میں لٹکا ہاتھ پاؤں مارنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ چیخ رہا تھا۔
’’تمہیں خدا کا واسطہ مجھے چھوڑ دو میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ کسی کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ مہربانی کرو میرے اوپر ترس کھاؤ میں بوڑھا آدمی ہوں مر جاؤں گا خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو‘‘ اس کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ گھر کے نوکر اس کی چخیں سن کر کمرے کے دروازے پر اکٹھے ہوگئے تھے جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو چیختے ہوئے بھاگ گئے۔
پیر کی گردن کے گرد رادھا کے ہاتھ کا حلقہ تنگ ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں باہرکو ابل آئی تھیں۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا تھا۔ مجھے خطرہ تھا تھوڑی دیر اور وہ موٹا لعین اسی حالت میں لٹکا رہا تو مر جائے گا اور یہ بات صائمہ کے گھر والوں کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی تھی۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ رادھا نے اپنی گرفت ڈھیلی کی تو وہ سانڈ دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ گلا دبنے کی وجہ سے وہ بری طرح کھانس رہا تھا۔ دونوں ہاتھ گلے پر رکھے وہ اوندھے منہ زمین پر پڑا تھا۔
’’موہن! اس نے تمری ساسو ماں سے دو لاکھ روپیہ بٹور رکھا ہے۔‘‘ رادھا نے انکشاف کیا۔
’’حرامزادے! اب بتا کون جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے؟ ان شریف لوگوں سے دو لاکھ لے کر تیرا گندہ نفس نہیں بھرا تھا جو اس معصوم لڑکی کی عزت کے درپے ہو رہا تھا‘‘ میں نے گرج کر کہا۔
’’مم۔۔۔مجھ ۔۔۔مجھے معاف کر دو استاد جی! آئندہ میں کبھی بھول کر بھی ادھر نہیں آؤں گا مجھے معاف کر دو تمہیں اللہ دعا واسطہ‘‘ وہ باقاعدہ منتوں پر اتر آیا۔
’’جب تو شیطان بنا اس کی عزت خراب کرنے چلا تھا اس وقت تجھے خدا یاد نہ آیا اب مجھے اللہ کے واسطے دے رہا ہے۔ تجھے معاف کرنا تو انسانیت کے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف ہے نہیں ۔۔۔تجھے تیرے کیے کی سزا ضرور ملے گی‘‘ میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
رادھا میرا اشارہ سمجھ گئی تھی کہ میں کیا چاہتاہوں۔ اس نے اپنا نازک ہاتھ پیر کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اچانک اسکے منہ سے جھاگ نکلنے لگا ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے جسم پھڑکنے لگا۔ تکلیف سے اس کے منہ سے کراہیں نکل رہی تھیں۔
’’فاروق! بس کریں۔۔۔اسے چھوڑ دیں کہیں یہ بد بخت مرہی نہ جائے‘‘ نرم دل صائمہ نے جب اس بدکار کی یہ حالت دیکھی تو اسے ترس آگیا ۔ اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔ اس نے دوبارہ اپنا ہاتھ اسکی طرف کرکے جھٹک دیا۔ تکلیف و اذیت سے بگڑتا اس منحوس کا چہرہ تیزی سے بحال ہونے لگا۔ وہ آہستہ سے اٹھ کر بیٹھا گیا۔ اب وہ ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اگرکوئی جاوید سے یہ کہتاکہ کل قیامت آجائے گی تو شاید وہ اتناحیران نہ ہوتا جتنا وہ اس وقت نظر آرہا تھا۔ بات تھی بھی حیران کن۔
’’اب کیا خیال تیرا۔۔۔اپنے بارے میں؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ اس نے جلدی سے میرے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’استاد! مجھے معاف کر دو۔ میں آج سے ان کاموں سے توبہ کرتا ہوں آئندہ کسی کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ محنت مزدوری کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالوں گا۔‘‘ وہ ایک منٹ میں سیدھا ہوگیا تھا۔
’’اسی وجہ سے تیری جان بخشی ہوئی ہے کہ تیرے معصوم بچے ہیں ورنہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ تجھے قبر میں اتار دوں۔‘‘ میں نے نفرت سے کہا
’’کھڑا ہو جا اور ابھی جا کر وہ رقم لیکر آجو تو نے ان شریف لوگوں سے ہتھیائی ہے۔‘‘
’’بہت بہتر جناب! میں ایک گھنٹے میں واپس آتا ہوں۔‘‘ وہ جلدی سے کھڑا ہوگیا۔
’’سن۔۔۔اگر اس بار تونے دھوکہ دیا تو پھر روئے زمین پرتجھے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بھی ظالموں کا ساتھ نہیں دیتا سن لیا؟‘‘ میں نے کڑک کرکہا۔
’’ج۔۔۔جج۔۔۔جی ہاں ابھی لاتا ہوں رقم۔ آپ بالکل فکرنہ کریں میں اب دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ وہ بری طرح خوفزدہ ہوگیا تھا۔
’’اب دفع ہو جا‘‘ میں نے حقارت سے کہا۔ وہ یوں کمرے سے بھاگا جیسے ایک لمحے کی تاخیر بھی ہوئی تو میں اپنا فیصلہ بدل دوں گا۔
’’پانی منگوا کر اسے ناعمہ پرچھڑک دو یہ ہوش میں آجائے گی‘‘ رادھا نے کہا۔ میں نے جاوید کو پانی لانے کے لئے کہا۔ اس کے جاتے ہی صائمہ میرے ساتھ لپٹ گئی۔
’’فاروق ! میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ آپ نے اتنا کچھ سیکھ لیا ہوگا‘‘ وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی۔
’’میں نے یہ سب کچھ تم سے اس لئے پوشیدہ رکھا تھا کہ میرے استاد صاحب کاحکم تھا‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
جاوید کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو وہ فوراً مجھ سے دور ہوگئی۔ میں نے پانی کا گلاس لے کر اس پر پھونک ماری اور ناعمہ پرچھڑک دیا۔ وہ یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور آنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھنے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کے نظر مجھ پر پڑی اسنے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھ لیا۔
’’مم۔۔۔میں کہاں ہوں مجھے کیا ہوگیاتھا؟‘‘اس کی آواز میں نقاہت تھی وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔
’’کچھ نہیں میرے جان! تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی‘‘ صائمہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’ناعمہ کے کمرے میں جانا ہے۔۔۔‘‘ میں نے جاوید سے کہا ’’ناعمہ تم بھی آجاؤ‘‘ اس بار میرا مخاطب ناعمہ تھی۔ سب کچھ میں رادھا کی ہدایت کے مطابق کر رہا تھا۔ تھوری دیر بعد ہم اس کمرے میں تھے جو ناعمہ کے لئے مخصوص تھا وہ جب بھی میکے آتی یہیں ٹھہرتی۔
’’پریم!۔۔۔ناعمہ کے بسترکے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ اور باقی لوگوں کو ایک طرف بیٹھنے کے لیے کہہ دو‘‘
’’ناعمہ کو اس صوفے پر بٹھا دو اور تم لوگ سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھ جاؤ‘‘ اس سب نے میری ہدایت پرعمل کیا۔ میں بیڈ کے پاس کھڑا ہوگیا اب میں رادھا کے اگلی ہدایت کا منتظر تھا۔ اس سارے وقت میں وہ دوسروں کی نظروں سے اوجھل میرے ساتھ کھڑی رہی تھی۔ رادھا نے آگے بڑھ کر بیڈ کی چادر ہٹائی پھر میٹرس کو ایک کونے سے پکڑ کر بیڈ سے نیچے پھینک دیا۔ یہ سب کچھ بخود ہورہا تھاکیونکہ رادھا تو نظروں سے اوجھل تھی۔ میٹریس کے نیچے لکڑی کاپھٹا تھا اس کے اوپر چار کیلیں(میخیں) دو تعویز اور ایک گیندے کا خشک پھول پڑا تھا۔ رادھا نے سب چیزوں کو اٹھایا اور میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ تینوں بہن بھائی حیرت سے منہ کھولے سب کچھ دیکھ رہے تھے جو خودبخود ہو رہا تھا۔ یہ سب چیزیں ہوا میں تیرتی ہوئی میرے ہاتھ پرآکر ٹک گئیں۔
’’ایک پیالی میں دودھ منگوا کریہ سب کچھ اسمیں ڈال دو‘‘ رادھا نے کہا۔ میں نے جاویدکوپیالی میں دودھ لانے کے لئے کہا۔ دودھ آنے کے بعد میں نے وہ ساری چیزیں اس میں ڈال دیں ۔پیالی میں سے ایسی آواز ابھری جس طرح کوئی گرم تپتی ہوئی چیز دودھ میں ڈال دی جائے۔ ساتھ ہی دھواں بھی نکلا۔ ادھر ناعمہ بیٹھے بیٹھے لہرائی اور صوفے پر گر گئی۔ سب کے ساتھ میں بھی چونک گیا۔
’’چنتا نہ کرو پریم! یہ ابھی ہوش میں آجائے گی۔‘‘
صائمہ اور جاوید جلدی سے اسکی طرف لپکے میں نے انہیں اشارے سے روک دیا۔ اور ایسے ہی اپناہاتھ ناعمہ کی طرف کرکے جھٹک دیا۔
’’پکے پنڈت بنتے جا رہے ہو‘‘ رادھا کی مدہر ہنسی میرے کان میں پڑی۔ مجھے بڑے زورکی ہنسی آئی جسے میں نے ہونٹوں میں دبالیا۔ ایک دو منٹ کے بعدناعمہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا پھر جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
اس کے چہرے پر بشاشت تھی۔ صائمہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔’’چند ! اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’باجی ایسا لگ رہا جیسے میرے سر پرمنوں بوجھ تھا جویکدم اتر گیا۔ اب میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہوں۔‘‘اس نے مسکراکرکہا۔
’’انشاء اللہ میری گڑیا بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ صائمہ نے اسے تسلی دی۔
’’لل۔۔۔لیکن باجی یہ سب کیا تھا؟ میں تو پیر صاحب کے پاس تھی انہوں نے مجھے کہا تھا لیٹ کر آنکھیں بند کرلوں میں نے انکی ہدایت کے مطابق عمل کیا تھاپھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا تھا۔ یہ میرے بیڈ کے میٹریس کے نیچے سے کیا نکلا تھا؟‘‘
’’یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ تم اپنے بھائی جان کا شکریہ ادا کرو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کلام سے تمہارا علاج کیا۔ کسی نے تمہارے اوپر کالاجادو کروا رکھاتھا‘‘ صائمہ نے میرے پاس آکرآہستہ سے پوچھا۔
’’ابھی تو صرف ناعمہ پرسے جاود ختم ہواہے لیکن شرجیل کا باقی ہے اسے بھی جادو کے زورسے ناعمہ سے جداکیا گیا۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
’’چلو اٹھو نہا کر فریش ہوجاؤ یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ صائمہ نے پیار سے ناعمہ کوڈانٹا۔ ہم سب ڈرائنگ روم میں آبیٹھے۔ صائمہ نے ملازمہ کو چائے بنانے کو کہا۔جس کانام گوری تھا۔ اس ملازمہ کا ذکر میں بطور خاص کروں گا۔ عمر اس کی بمشکل بیس سال ہوگی۔ لانبا قد، سانولا رنگ اس پرغضب کے تیکھے نقوش۔ بڑی بری بھنور اسی آنکھیں، گھنے سیاہ بال جو گھٹنوں سے نیچے آتے تھے۔ جوانی اس پرٹوٹ کر آئی تھی۔ اسکا تعلق خانہ بدوشوں کے قبیلے سے تھا۔ اس علاقے کے پیچھے ایک بہت بڑا میدان ہے ایک بار اس کے قبیلے والے یہاں آکر ٹھہرے۔ یہ بھیک مانگنے آئی۔ ناعمہ نے اس کودیکھا تو پوچھا میرے گھرنوکری کرو گی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ جب اسکے گھر والوں کو بلا کر بات کی گئی تو وہ کسی طور راضی نہ ہوئے۔ ادھر ناعمہ نے ضد پکڑ لی تھی کہ میں اسے اپنے پاس رکھوں گی۔ اس وقت گوری کی عمر تیرہ چودہ سال تھی۔ سسر نے بھاری رقم اور ڈرا دھمکا کر اسے اس کے والدین سے لے لیا تھا۔ شکل و صورت سے وہ کسی طور ان کی اولاد نہ لگتی تھی۔ شاید خانہ بدوشوں نے اسے کہیں سے اغوا کیا تھا۔ بہرحال وہ کسی گندے خون کی پیداوار تھی۔ آجکل سپنا کی آلہ کار بنی ہوئی تھی۔ شرجیل پر بری طرح عاشق تھی لیکن ناعمہ کے خوف سے اپنے جذبات دل میں چھپائے رکھتی۔ سپنا نے اسے حیلہ دے رکھاتھا کہ اگر تم میری مدد کرو تو جب شرجیل مجھ سے شادی کرلے گا تو تم بے شک اس سے پیار محبت کرتی رہنا۔ سپنا چونکہ خود طوائف زادی تھی اس لئے اسے اس قسم کی بے غیرتی کی توقع کی جا سکتی تھی۔ گوری جب چائے لے کر آئی تومیں نے محسوس کیا وہ بار بار کنکھیوں سے میری طرف دیکھتی۔ کبھی شامی کباب کبھی کوئی اور ڈش میرے سامنے رکھ کر بڑی ادا سے کہتی۔
’’صاحب جی ! یہ کباب کھائیں میں نے بنائے ہیں بڑے لذیذ ہیں‘‘ اس گھر میں آکر اس نے رنگ روپ بھی خوب نکال لیا تھا۔ صائمہ نے بھی اسکی حرکت نوٹ کرلی تھی اسکی صبیح پیشانی پر شکنیں نمودار ہوگئیں۔
’’ٹھیک ہے گوری! تم جاؤ جا کرکھانے کا انتظام کرو۔‘‘ وہ منہ بناتی چلی گئی ۔ناعمہ کے بستر کے نیچے تعویز اور دیگر عملیات کی چیزیں بھی اسی نے لاکر رکھی تھیں اوریہ سب کچھ سپنا کی ہدایت کے مطابق کیا گیا تھا۔
سپنا اسے اکثر کوئی نہ کوئی تعویز دے دیتی کہ اسے ناعمہ کے کھانے میں ملا دو اوریہ اسکے کہنے پرحرف بحرف عمل کرتی۔ ساری تفصیل رادھا سے معلوم ہوئی تھی۔ چائے سے فارغ ہو کر میں نے صائمہ سے کہا ’’مجھے شرجیل کے سلسلے میں کچھ پڑھائی کرناہے تم بچوں کو سنبھالنا میں تھوڑی دیر کے بعد آتاہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں باہر آگیا۔ میں ایک نظر شرجیل کا گھر دیکھنا چاہتا تھا۔ رادھا کے بقول وہاں ایک دلچسپ معرکہ ہونا تھا۔
’’کیا وچار ہیں مہاراج!‘‘ رادھا نے شوخی سے پکارا۔
’’جو آپ کی آگیا ہو؟‘‘ میں نے ہنس کر اسی انداز سے جواب دیا۔ اس کی مدہر ہنسی میرے کانوں میں جلترنگ بجا گئی۔
’’اپنے گھر پر بات آئی ہے تو کتنے بیاکل ہو رہے ہو؟ اور داسی کا کوئی دھیان ہی نہیں ہے‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔ اس وقت وہ نظروں سے اوجھل تھی ۔میں اس کی ادائیں اس کی آواز کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے محسوس کر رہا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ ہوا خوشگوار تھی۔ اس علاقے میں ناریل کی درختوں کی بہتات تھی۔ سڑک کے دو رویہ ہر کوٹھی کے سامنے ناریل کے درخت تھے۔
’’سپنا کو دیکھو گے؟‘‘ اچانک رادھا کی آوازآئی۔
’’کہاں ہے؟‘‘ میں چونک کر پوچھا۔
’’وہ اس وقت اپنے پریمی کے گھر میں اسے پریم کی شکشا دے رہی ہے‘‘ رادھا شوخ آواز آئی۔
’’تم نے کہا تھا کہ ہمیں سپنا کے ذریعے اس حرامی کالی داس تک پہنچنا ہے یاد ہے نا تمہیں؟ ‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’میری اچھا تو یہی ہے کہ ایک بار وہ دھشٹ منڈل سے باہر نکل آئے اور میں تمرے چرنوں میں اس پاپی کا بلیدان کروں‘‘ رادھا دانت پیس کر بولی۔
’’اور اس کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔‘‘
’’ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی دیکھو کیا ہوتا ہے؟‘‘ رادھا خود بھی الجھی ہوئی تھی۔
’’اب کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تم سب کو لے کر شرجیل کے گھر پہنچو میں جب تک کچھ پربند کرتی ہوں۔ اور ہاں اس گوری کو اوش لانا۔‘‘
’’کیوں اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
’’یہ تمہیں میں سمے آنے پر بتاؤں گی۔‘‘ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ میں گھر واپس آگیا اور صائمہ کو ایک طرف بلا کر ساری صورتحال بتائی۔ وہ متفکر ہوگئی۔
’’اب کیا ہوگا فاروق!؟ اس جیسی بدکار عورتوں کے تعلقات تو بدمعاش قسم کے لوگوں سے ہوتے ہیں کہیں۔۔۔آپ کو نقصان نہ پہنچ جائے؟‘‘ اس کے ماتھے پر فکر سے لکیریں کھچی ہوئی تھیں۔
’’کیا اب بھی تمہیں میرا اعتبار نہیں؟‘‘ میں نے شاکی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ایسی بات نہیں فاروق! یہ سب نہ بھی ہوتا تو مجھے آپ پر اپنی جان سے بھی زیادہ اعتبار ہے بس یونہی میرا دل ڈر رہا ہے۔‘‘
’’رادھا کو گالیاں دیتے ہوئے تو تمہیں ڈر نہیں لگا تھا‘‘ میں نے اسے چھیڑا’’اور بیچارے پیر صاحب کو تو تم نے ایسا لتاڑا کہ بس‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’فاروق! مجھ سے یہ قطعاً برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی آپ کو کچھ کہے پتا نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے؟‘‘ اس نے ایسی شکل بنا کر کہا کہ میری ہنسی چھوٹ گئی ’’لیکن آپ کے ساتھ تو میں گھر چل کر نبٹوں گی ۔آپ نے مجھے کچھ بھی نہ بتایا اور اتنا کچھ سیکھ لیا‘‘ اس کی مصنوعی خفگی کو میں اچھی طرح سمجھتا تھا۔ آج وہ بہت خوش تھی کہنے لگی ’’فاروق! جب جاوید نے مما کو سب کچھ بتایا تو ان کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا‘‘ ہم لان میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔
’’بھائی جان وہی پیر ہے آپ کو بلا رہا ہے‘‘ تھوڑی دیر بعد جاوید نے آکر بتایا۔ میں جلدی سے گیا تو وہ ہاتھ میں ایک شاپر پکڑے کھڑا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے باقاعدہ جھک کر سلام کیا۔ مجھے ہنسی تو بہت آئی لیکن میں نے ہونٹوں میں دبا لیا۔ اس نے شاپر میری طرف بڑھایا۔
’’جناب! گن لیں پورے ہیں‘‘ پھر اسنے جھولے کی جیب میں ہاتھ ڈل کر نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر میری طرف بڑھائی۔ ’’جناب! یہ میری طرف سے ادنیٰ سانذرانہ ہے‘‘ اس کے چہرے پر حد درجہ تا بعداری تھی۔
’’میں تمہاری گندی کمائی میں سے ایک پیسہ لینا حرام سمجھتاہوں‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔ اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ پھر وہ لجاجت سے بولا۔
’’جناب ! ایک گزارش ہے اگر آپ مان لیں؟‘‘
’’جلدی بک‘‘ مجھے حقیقتاً اس شخص سے نفرت ہوگئی تھی۔
’’اگر آپ مجھے اپنا شاگرد بنا لیں تو۔۔۔‘‘
’’اس سے پہلے کہ میں اپنا وعدہ بھول جاؤں کہ میں نے تجھے معاف کر دیا ہے یہاں سے دفع ہو جا۔۔۔میں تجھ جیسے گندے شخص کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور تو یہ بکواس کو رہا۔۔۔‘‘ اس نے میری پوری بات بھی نہیں سنی تھی کہ الٹے قدموں بھاگ گیا۔ مجھے جاوید کے ہنسنے کی آواز آئی جو نہ جانے کب میرے پیچھے آکھڑا ہوا تھا۔
’’ہم نے ابھی شرجیل کے گھر جانا ہے لیکن میں بچوں کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے جاوید سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا۔
’’بچوں کو گوری کے پاس چھوڑ جاتے ہیں‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔گوری نے بھی ہماری ساتھ جانا ہے ‘‘ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگا ’’اس کی وجہ میں تمہیں وہیں چل کر بتاؤں گا۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔
’’ناعمہ باجی بھی ہمارے ساتھ ہوں گی؟‘‘
میں نے ابھی کوئی جواب نہ دیا تھا کہ رادھا نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ فی الحال ناعمہ کو لے جانا مناسب نہیں۔
’’نہیں ناعمہ کو بعد میں بلائیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ناعمہ باجی کو بچوں کے پاس چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد ہم سب شرجیل کی طرف جا رہے تھے۔ گیٹ پر پہنچ کر جاوید نے بیل دی۔ بڑی بڑی مونچھوں اور بھاری بھر کم چہرے والے چوکیدار نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ جاوید اور آنٹی پر نظر پڑتے ہی اس نے سلام کیا اور گیٹ کھول دیا لیکن وہ بری طرح بوکھلایا ہوا تھا۔ مجھے اس کی بوکھلاہٹ کا انداز تھا۔ شرجیل نے سپنا کی موجودگی کی وجہ سے چوکیدار کو ہدایت دی ہوگی کہ کسی کو اندر نہ آنے دے۔ پر آنٹی کو تو وہ کسی طور نہ روک سکتا تھا۔ شرجیل کے والدین آجکل جج پر گئے ہوئے تھے۔ ادھر صاحب جی یہ گلچھرے اڑا رہے تھے چوکیدار نے گیٹ بند کرکے تیزی سے ہمارے آگے چلتے ہوئے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا ’’بی بی صاحب! آپ ادھر بیٹھو ہم صاحب کو بتانا ہے۔‘‘ اس نے اپنے تئیں بڑی دانشمندی دکھائی۔
’’موہن! سپنا اس سمے شرجیل کے کمرے میں ہے ۔‘‘ رادھا نے مجھے بتایا۔
’’وہ کس حالت میں ہیں؟ ‘‘ میں نے احتیاطاً پوچھ لیا۔ جس قسم کی وہ عورت تھی اس سے کسی اچھی بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔
’’کیول پریم کی باتیں کر رہے ہیں‘‘ رادھا نے بتایا۔ میں مطمئن ہوگیا۔
’’نہیں۔۔۔ہمیں سیدھا اپنے صاحب کے بیڈ روم میں لے چلو۔‘‘ میں نے چوکیدار سے کہا۔ وہ مجھے نہ پہنچانتا تھا اسلیے اس کے ماتھے پر بل پڑگئے۔ اس نے ناخوشگوار نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن کوئی سخت بات کہنے سے گریز کیا۔ اتنا تو جانتا تھا کہ آنٹی کے ساتھ کوئی اجنبی آدمی نہیں ہو سکتا۔
’’تم لوگ ادھر بیٹھو۔۔۔ام صاحب کو بلاتا ہے ‘‘ اس نے آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے حتی الامکان نرمی سے جواب دیا۔
’’جو تم سے کہا جا رہا ہے وہ کرو ، سمجھے۔۔۔؟‘‘ صائمہ نے اسے جھڑک دیا۔ اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ حرافہ شرجیل کے کمرے میں ہے فقط اسے ہتک محسوس ہوئی تھی کہ ملازم ہونے کے باوجود وہ اکڑ دکھا رہا ہے۔
رادھا اس وقت مجسم حالت میں ہمارے ساتھ تھی۔ چوکیدار نے کچھ کہنا چاہا لیکن رادھا نے اپنا کومل ہاتھ اس کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ وہ یکدم فدوی بن گیا اور ہماری راہنمائی شرجیل کے کمرے کی طرف کرنے لگا۔
’’گوری کو ابھی باہر ہی بیٹھا رہنے دو، اسے بعد میں بلا لیں گے۔‘‘ رادھا نے کہا۔
’’تم ادھر ڈرائنگ روم میں بیٹھو‘‘ میں نے گوری سے کہا۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا لیکن بغیر کچھ کہے چلی گئی۔
ہم سب چوکیدار کی معیت میں چلتے ہوئے اس کمرے کے دروازے پر جا پہنچے جہاں دو پیار کے پنچھی دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے میں گم تھے۔ میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور ہم سب اندر داخل ہوگئے۔ یہ ایک پر تعیش بیڈ روم تھا جسے ناعمہ نے بڑے ارمانوں سے سجایا تھا۔ شرجیل صوفے پر بیٹھا تھا جبکہ وہ قتالہ عالم بیڈ پر نیم دراز تھی۔ مختصر لباس میں اس کا حسین جسم چھپائے نہ چھپتا تھا۔ واقعی رادھا کا کہنا درست تھا۔ وہ تھی ہی ایسی کہ انسان اسے دیکھ کر ہوس و حواس کھو بیٹھے۔ ہمیں دیکھ کر دونوں بری طرح اچھل پڑے۔ شرجیل کا رنگ فق ہوگیا۔ سب سے آگے میں تھا پھر آنٹی اس کے بعد صائمہ اور جاوید، سب حیرت سے منہ کھولے دیکھ رہے تھے ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ شرجیل ایسی حرکت کر سکتا ہے۔
شرجیل فوراً صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’آ۔۔۔آ۔۔۔آپ آنٹی ی ی ی ۔‘‘ اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ سپنا بڑی ادا سے ہم سب کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ جس سے اس کے کردار کا پتا چلتا تھا۔ وہ نیم باز آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ سب کو دیکھ کر اس کی نظریں مجھ پر ٹک گئیں۔ شرجیل کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ بری طرح بوکھلا گیا تھا۔ سپنا بڑی ادا سے لہر ا کر اٹھی اور اپنے جسم کو کچھ اور نمایاں کرکے بڑی نخوت سے بولی۔
’’آپ کو کسی کی تنہائی میں آنے سے پہلے دروازے پر دستک دینی چاہئے تھی۔ ‘‘ اس کی ڈھٹائی پر صائمہ کا چہرہ غصے سے انگارہ بن گیا۔ قریب تھا کہ وہ کچھ بولتی میں نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کے لئے کہا۔
’’معذرت چاہتے ہیں ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ تشریف فرما ہیں ہم تو شرجیل سے ملنے آئے تھے۔‘‘
’’آ۔۔۔آئیے بیٹھئے فاروق بھائی!‘‘ شرجیل نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے ہاتھ ٹھنڈے برف ہو رہے تھے۔ اس کے بعد اس نے آنٹی کو آداب کہا جس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ ان کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں۔ جاوید بھی غصے میں بھرا ایک طرف کھڑا تھا۔ صائمہ قہر بھری نظروں سے سپنا کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا بس نہ چل رہا تا ورنہ اس کا منہ نوچ لیتی۔ میں نے صوفے پر بیٹھے ہوئے بڑے اخلاق سے سپنا کو بیٹھنے کے لیے کہا۔
’’تشریف رکھئے آپ کھڑی کیوں ہوگئیں؟‘‘ اس نے بڑی دلچسپی سے میری طرف دیکھا۔ پھر آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں نے اٹھ کر تپاک سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ صائمہ کا چہرہ مزید تپ گیا۔ لیکن وہ کچھ بولی نہیں قہرمیں بھری ایک طرف بیٹھ گئی۔
’’آپ کی تعریف؟‘‘ سپنا نے خمارآلود نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’خادم کو فاروق احمد خان کہتے ہیں‘‘ میں نے بڑی نیاز مندی سے کہا۔ مجھے معلوم تھا میرا یہ عمل صائمہ کو ایک آنکھ نہ بھایاہوگا۔ اس نے ابھی تک میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ میں نرمی سے اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ سبک خرامی سے چلتی ہوئی دوبارہ بیڈ پر جا بیٹھی۔ باقی لوگوں کی طرف اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔