’’رادھا! ایک بات تو بتاؤ‘‘ میں نے سوچا جتنا ہو سکے اس کا اعتماد حاصل کر لوں۔
’’پوچھو میرے پران(روح) ! جو کچھ بھی تمرے من میں ہے پوچھ لو میں تمرے ہر پرشن کا اترا وش دوں گی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’سادھو امر کمار کیوں میرے پیچھے پڑا ہوا تھا وہ مجھ سے کیا چاہتا تھا؟ میں تو اسے جانتا تک نہیں۔‘‘
’’امر کمار تمرے نہیں میرے پیچھے تھا، مجھے پراسچت کرنا اس کے جیون کی سب سے بڑی اچھا تھی۔ کیول اسی کی کیوں؟ جانے کتنے سادھو سنت، پنڈت، پجاری میرے کارن جوگ لیے دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ مورکھ اپنا جیون نشٹ کر رہے ہیں مجھ پر کسی کا ادھیکار ہونا کوئی بالکوں کا کھیل نہیں ہے نا؟ یہ تو میرا من تم پر آگیا ہے سنجا! نہیں تو رادھا کی اور (طرف) بری نجر سے دیکھنے والا دھرتی سے پرلوک سدھار جاتا ہے۔ جس سمے میں نے پہلی بار تمہیں دیکھا تھا اسی سمے جان لیا تھا میرا موہن دوجا جنم لے کر مجھ سے ملنے اس سنسار میں آگیا ہے ۔۔۔موہن! میں بھی تمری سنتان سے پریم کرتی ہوں، یدی تمری پتنی یہ جاپ جو اسے اس کی موسی نے بتایا ہے ارمبھ نہ کرتی تو میں اسی طرح ہررینا تمرے پاس آکر من کو شانت کر لیتی۔ میرا وشواس کرو میں تم سے ادھیک پریم کرتی ہوں یدی کوئی تمہیں بری نجر سے دیکھے۔ مجھ سے سہن نہیں ہوتا۔ اسی کارن اس پاپی سادھو کو میں نے اس سنسار سے ہی بھیج دیا۔‘‘
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں تمہاری بات سمجھا نہیں کھل کر بتاؤ تم کیا کہہ رہی ہو‘‘ میرا خوف بالکل ہی ختم ہوگیا تھا۔
’’اس بلی کے شریر میں تمری یہ داسی ہی تھی‘‘ اس کے انکشاف پر میں دنگ رہ گیا۔
’’لل۔۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا۔
’’کیوں۔۔۔؟ جب میں تمری پتری کے شریر میں رہ کر تم سے بات کر سکتی ہوں تو بلی کے شریر میں رہ کر تمری رکھشا(حفاظت) کیوں نہیں کر سکتی؟‘‘ اس نے مجھے بڑے رسان سے سمجھایا۔
بات تو اس کی ٹھیک تھی۔ مومنہ کے جسم پر قبضہ کرکے مجھ سے بات کرنا ممکن اگر تھا تو بلی کے جسم میں داخل ہونا کوئی مشکل بات نہ تھی۔
’’بالکل ٹھیک سمجھے اب تو تمہیں میری بات کا وشواس آگیا ہوگا کہ میں تم سے کتنا پریم کرتی ہوں؟ کیول تمرے کارن میں نے کالی ماتا کے ایک سیوک کی بلی چڑھا دی۔ ایک سادھو توکیا سارے جگ کے سادھو سنت میرے ہوتے تمہیں کچھ نہ کہہ پائیں گے۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک عزم تھا۔
’’کیا تم ایک روح ہو؟‘‘ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’کس بات کی چنتا تمہیں بیاکل کر رہی ہے؟ سمے آنے پر سب کچھ جان جاؤ گے۔ پریتم!‘‘
’’لیکن سادھو تمیں کیوں حاصل کرنا چاہتا تھا؟ اور میں اس سلسلے میں اس کی کیا مدد کر سکتا تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ اس بار میں نے کھل کر پوچھا۔
’’سادھو مجھے مار کر مہا شکتی مان بننا چاہتا تھا۔ جو منش مجھے اپنے بندی بنانے میں سپھل(کامیاب) ہو جائے وہ اس دھرتی کا سب سے مہاپرش(بڑا آدمی) بن جائے گا۔ اس کی شکتی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ دیوتا بھی اس کہا نہ ٹال سکیں گے۔‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔
’’یہ سب فضول باتیں ہیں میں ان پر یقین نہیں کرتا۔‘‘ میں چڑ گیا۔
’’دھیرج پرتیم! دھیرج۔۔۔کچھ سمے اور بیت جانے دو پھر سب کچھ تمری بدھی میں آجائے گا۔‘‘ اس نے بڑے یقین سے کہا۔
’’میں نے اس وقت اس سے الجھنا مناسب نہ سمجھا، اچھا یہ بتاؤ، سدھو مجھ سے کیا چاہتا تھا؟‘‘
’’یدی تم اس کی اچھا کے انوسار اپنی پتنی کو چھوڑ دیتے تو مجھے تمرے پاس آنے کے کارن کوئی اور راہ ڈھونڈنا پڑتی اور وہ پاپی یہی چاہتا تھا۔ جب میں تمرے شریر سنگ سنمبدھ جوڑتی وہ کسی طرح تمرے شریر کو بندی بنا کر مجھے پراپت کر لیتا‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔
’’لیکن یہ کام وہ میری بیوی کے ذریعے سے کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’پتی، پتنی جب ایک دو جے کے پاس آتے ہیں تو یہ پنے (ثواب) کا کام ہے۔ پرنتو جب تم کسی اور ناری کے شریک سنگ سمبندھ جوڑتے تو وہ تمہیں بندی بنانے میں مکت ہو جاتا پھر مجھے پراپت کرنا اس کے لئے کٹھن نہ تھا۔ میں جو کچھ تمہیں بتا سکتی تھی۔ بتا دیا۔ تم اپنی پتنی سے کہہ کر یہ جاپ بند کرو اور پھر تمرے پاس آنے میں مجھے کوئی روک نہ ہوگی۔‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہرایا۔
’’لیکن میں یہ سب کیسے کر سکتاہوں میں صائمہ کو اس بات پر کس طرح راضی کروں؟‘‘ میں نے اپی مجبوری ظاہرکی۔
’’یہ تم جانو۔۔۔یدی تم چاہتے ہو تمری پتنی کو کوئی کشٹ نہ ہو تو تمہیں یہ سب کرنا ہوگا۔ یہ اس کارن بھی جروری ہے کہ میں تمری رکھشا کر سکوں‘‘ ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک احد اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا۔ وہ اپنی سرخ انگارہ آنکھوں سے مومنہ کو گھورنے لگا۔ جب وہ بولا تو میں پوری جان سے لرز گیا اس کے منہ سے کسی مردکی گرجدار آواز نکلی۔
’’بدکار عورت ! تونے پھر وہی کام شروع کر دیئے۔‘‘ آواز کی گھن گرج سے مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نے مومنہ کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں مجھے خوف نظر آیا۔ اچانک مومنہ کا جسم لہرایا اور وہ دوبارہ لیٹ کر سو گئی۔ اسکے دونوں ہاتھ گال کے نیچے تھے۔ وہ اسی طرح سویا کرتی۔ میں نے گھبرا کر احد کی طرف دیکھا اس کا چہرہ پر سکون ہوگیا تھا۔ اس بار وہ بولا تو اسکی آواز میں وہ گھن گرج نہ تھی۔
’’بھاگ گئی بزدل۔۔۔مجھے اس کا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا‘‘ اس کی بڑبڑاہٹ ابھری۔ جیسے وہ خود سے ہمکلام ہو۔ اس کے بعد وہ بھی لیٹ کردوبارہ سو گیا۔میں پاگلوں کی طرح اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھ رہا تھا جو یوں آرام سے سو رہے تھے جیسے روزانہ سوتے ہیں اب کمرے میں گلاب کی خوشبو کا نام و نشان نہ تھا۔ ہر سو خاموشی طاری تھی۔ بارش رک چکی تھی۔ کبھی کبھی بجلی چمک جاتی۔ مجھے شبہ ساہونے لگاکہیں میں نے خواب تو نہیں دیکھا۔ تھوڑی دیر پہلے جو کچھ کمرے میں ہوا تھا وہ اتنا ہی ناقابل یقین تھا کہ آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود شعور اسے ماننے سے انکاری تھا۔ ابھی میں حیران و پریشان بیٹھا تھا کہ صائمہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ پہلے تو وہ خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر اسکی آنکھوں میں شعور کی چمک ابھری اور وہ متوحش ہوگئی۔ اس نے میرے طرف دیکھا اورکہنے لگی۔
’’فاروق! وہ سب کیا تھا کہیں میں نے کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں دیکھا؟ وہ منحوس عورت کون تھی جس کی صرف آواز سنائی دے رہی تھی وہ۔۔۔وہ ۔۔۔میرے بچوں کو مارنے کی باتیں کر رہی تھی‘‘
’’کچھ نہں ہوگا صائمہ! حوصلہ کرو انشاء اللہ تعالیٰ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انسان کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ ‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
’’فاروق! صبح ہوتے ہی ہم یہاں سے چلے جائیں گے ہم نے یہاں نہیں رہنا۔ اس مکان میں ضرور کوئی ایسی چیز ہے جو لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں ضرور صبح ہوتے ہی ہم یہ گھر چھوڑ دیں گے تم فکر نہ کرو اور آرام سے سو جاؤ۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
’’ان حالات میں کیسے نیند آسکتی ہے؟ مجھے تو اس بات پر بڑی حیرت ہے کہ میں کیسے سو گئی؟‘‘ اب میں اسے کیا بتاتا کہ وہ سوئی نہ تھی اسے سلا دیا گیا تھا۔
’’فاروق! صبح ہونے والی ہے بس نماز پڑھ کر یہاں سے چلتے ہیں‘‘ اس نے کلاک کی طرف دیکھا جس پر پانچ بج رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے نماز پڑھ کر اس مسئلے پر کچھ سوچتے ہیں‘‘ میں نے کہا۔اس نے باتھ روم میں جا کر وضو کیا اور جائے نمازبچھا کر نماز پڑھنے لگی۔
میں نے بھی ا پنے رب کے حضور سجدہ کی اور دعاکی ’’یا اللہ تو ہی قادر کریم ہے سب کی حفاظت کرنے والا۔ اے اللہ رب العزت ! توہی میری اور میرے بیوی بچوں کی حفاطت کرنا۔ آمین‘‘ دعا مانگ کر مجھے بہت سکون ملا۔ صائمہ نماز سے فارغ ہو کر قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ میں وہیں جائے نماز پر لیٹ گیا۔ ساری رات پریشانی سے جاگتا رہا تھا تھوڑی ہی دیر میں نیند آگئی۔
’’نہ جانے میں کتنی دیر سویا تھا کہ کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
’’میں تو ڈر ہی گئی تھی اتنی گہری نیند تو آپ کبھی نہیں سوئے‘‘ صائمہ میرے اوپر جھکی پریشانی سے کہہ رہی تھی۔ میں نے کئی بار آپ کو آواز دی لیکن آپ تو جیسے بے ہوشی کی نیند سو رہے تھے‘‘ اس کے چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔
’’دراصل رات بھر جاگتا رہا ہوں نا اس لئے گہری نیند آگئی تھی‘‘ میں نے اٹھ کر آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔
’’بچوں کو بھوک لگی ہے میرے ساتھ کچن میں چلیں ان کے لئے ناشتہ بنانا ہے۔‘‘ کل رات کے واقعے سے صائمہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔ میں نے منہ پر پانی کے دو چار چھٹے مارے اور اس کے ساتھ کچن کی طرف چل پڑا۔
صائمہ ناشتہ بناتی رہی اور میں اس کی مدد کرتا رہا۔ کل رات اس غیر مرئی مخلوق کو تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میں اس کا حکم مانوں گا لیکن میں نے اس گھر کو چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا۔
’’صائمہ! ناشتہ کرکے ضروری چیزیں لے لو ۔تم لوگوں کو عمران کے چھوڑ کر میں ٹکٹس لینے اور چھٹی کی درخواست دینے کے بعد آتا ہوں ہم آج ہی لاہور چلے جائیں گے۔‘‘
’’میں تو صبح سویرے ہی یہاں سے نکلنا چاہتی تھی لیکن آپ کی نیند کی وجہ سے انتظار کرتی رہی۔‘‘
اچانک بیڈ روم سے مومنہ کی دلخراش چیخ سنائی دی۔
ہم دونوں تیزی سے بھاگتے ہوئے بیڈ روم میں آئے تو دیکھا۔ مومنہ، احد کے ساتھ چپکی بری طرح رو رہی تھی۔ اور احد خوفزدہ نظروں سے باتھ روم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی ہم دونوں اندر داخل ہوئے وہ بھی رونے لگا۔ دونوں بچے بری طرح سہمے ہوئے تھے۔ صائمہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر مومنہ کو اٹھا لیا احد بھاگتا اور ہوا میری ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میں نے نیچے بیٹھ کر اسے اپنے ساتھ لگالیا۔ اسکا ننھا سا دل تیزی سے تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ صائمہ نے مومنہ کو اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا جواب بھی ہچکیاں لے رہی تھی۔ میں نے احد کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا ہوا مومنہ کیوں رو رہی ہے؟‘‘ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’بابا! ہم کھیل رہے تھے کہ ایک عورت جس کا منہ جلا ہوا تھا وہ مومنہ کو پکڑنے لگی تھی۔ بابا اس کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا‘‘ اس نے جھرجھری سی لی۔
’’پھر وہ کہاں گئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بابا۔۔۔! وہ۔۔۔باتھ روم میں چلی گئی ہے‘‘ اس نے خوفزدہ نظروں سے باتھ روم کی طرف دیکھا۔
میں نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور باتھ روم میں جھانک کر دیکھا وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے واپس آکر کہا
’’وہاں توکوئی بھی نہی ہے‘‘ مومنہ ماں کے کندھے سے لگی سسکیاں لے رہی تھی۔ اس کی ٹھوڑی صائمہ کے کندھے کو چھو رہی تھی۔ اچانک اس نے آنکھیں گھما کر میری طرف دیکھا۔ اف میرے خدا۔۔۔آج برسوں بعد بھی مجھے وہ منظر یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھیں یکدم بھینس کی آنکھوں جتنی ہوگئیں اور منہ سے دو نوکیلے دانت باہر نکل آئے۔ اس کا معصوم چہرہ بے حد ڈراؤنا ہوگیا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی میں نے بمشکل اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر صائمہ کی طرف دیکھا۔ وہ مومنہ کی حالت سے بے خبر گہری سوچ میں گم تھی۔ جب دوبارہ میری نظر مومنہ کے چہرے پر پڑی تو اسکا چہرہ پہلے کی طرح بالکل ٹھیک تھا۔ اچانک میرے نتھنوں سے گلاب کی خوشبو ٹکرائی۔ اس کے بعد رادھا کی آوا زکمرے سے گونجی۔
’’اب کیا وچارہیں پریتم! کیا کوئی اور چمتکار دیکھنا چاہتے ہو؟ میں نے تم سے کہا تھا نا میرے سنگ وشواش گھات نہ کرنا۔ تم نے مجھے وچن دیا تھا میری آگیا کا پالن کرو گے، پرنتو دن چڑھتے ہی بھول گئے تم نے کیسے سمجھ لیا رادھا تمہیں پا کر کھو دے گی؟ موہن ! تم نے میرے پریم کا گلط (غلط) وچارکیا۔ میں نے تمہیں کہا نہیں تھا۔۔۔؟ یدی تم یہاں سے جانے کا وچار بھی من میں لائے تو تمری یہ سندر پتنی اور سنتان جیوت نہ رہیں گے؟ کیا تم چلے جاؤ گے اپنی رادھا کو چھوڑ کر؟ پرنتو میں اس بات ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ ورشوں بعد تو میری منو کا منا (خواہش) پوری ہوئی۔ بولو موہن!کیا اپنی رادھا کو چھوڑ جاؤ گے؟‘‘ وہ بار بار ایک ہی بات کی تکرار کیے جا رہی تھی۔ اسکی آواز میں بلا کا درد امڈ آیا تھا۔ صائمہ کے چہرے پر وحشت چھا گئی تھی۔ وہ یک ٹک میری طرف دیکھ رہی تھی میں نے گھبرا کر بچوں کی طرف دیکھا وہ بالکل چپ کھڑے تھے۔ میں حیران تھا کہ انہوں نے رادھا کی آواز سن کرکسی ردعمل کا اظہار کیوں نہ کیا تھا۔ مومنہ تو خیر چھوٹی تھی لیکن احد بہت سمجھ دار تھا۔
’’میری آواز کیول تم اور تمری پتنی ہی سن رہے ہو میرے میت!‘‘ رادھا کی آواز نے میری الجھن دور کر دی۔ میں نے دیکھا رادھا کا مجھے میت کہنا صائمہ کو بہت برا لگا۔ باوجود خوفزدہ ہونے کے اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات بخوبی پڑھے جا سکتے تھے۔ اچانک اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جب وہ بولی تو میں حیران رہ گیا۔
’’تم جو کوئی بھی لیکن ہو بہت بے شرم۔۔۔تمہارے اندر ذرا سی بھی حیا نہیں ہے۔ خبردار اگر میرے شوہر کو دوبارہ تم نے اس قسم کے بے ہودہ القابات سے پکارا تو میں تمہارا حشر کر دوں گی‘‘ وہ کسی زخمی شیرنی کی طرح غرائی۔ احد نے حیرت سے صائمہ کی طرف دیکھا۔ وہ حیران تھا کہ ماما کس کو ڈانٹ رہی تھی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرہ رادھا کے قہقہے سے گونج اٹھا۔
’’سنا تم نے موہن! تمری پتنی کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ اس نے مجھے مخاطب کیا۔
’’بند کرو اپنی بکواس۔۔۔تم جیسی بدکردار بے حیا۔۔۔ہر مذہب اور نسل میں موجود ہوتی ہیں۔ تم کیا سمجھتی ہو ہم تم سے ڈر جائیں گے؟ یاد رکھو شیطان کتنا ہی طاقتور ہو جائے اللہ تعالیٰ کے کلام کے آگے وہ بے بس ہے اگر تم اپنی خیریت چاہتی ہو تو اسی وقت یہ جگہ چھوڑ کر چلی جاؤ نہیں تو جل کر رکھ ہو جاؤ گی۔‘‘ صائمہ کسی شیرنی کی طرح گرج رہی تھی۔ میں اس کی جرات پر حیران رہ گیا۔
’’کلنکنی! تجھے بتانا بہت جروری ہوگیا کہ اس سمے تو کس شکتی کے سامنے کھڑی ہے؟‘‘ رادھا کی قہر و غضب میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ میں نے صائمہ کی طرف دیکھا اس کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی پھر رادھا کی آواز آئی۔
’’موہن! اس بار تو میں تمرے کارن اس مورکھ کو شما کر رہی ہوں پرنتویہاں سے جانے کا وچار کیا توپھر میں اس پاپن کو بتاؤں گی کہ رادھا کیا ہے اور کتنی شکتی مان ہے؟ میں جا رہی ہوں پرنتو یہ نہ سمجھنا میں تم سے بے کھبر ہوں‘‘ اس کے بعدکمرے میں خاموشی چھا گئی۔ آہستہ آہستہ گلاب کی خوشبو مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے صائمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے اسے پرسکون رہنے کا اشارہ کیا۔
’’چلو آج کچن میں ناشتہ کرتے ہیں‘‘ صائمہ میرا اشارہ سمجھ گئی تھی۔ بچوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ تیزی سے نارمل ہوگئی تھی۔
’’ہاں بچو! آج کچن میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ احد خان نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے پوچھا۔
’’بابا ! ماما کس کو ڈانٹ رہی تھیں؟ وہ بڑے بڑے دانتوں والی عورت کون تھی؟‘‘
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا’’وہ کوئی فقیرنی تھی اسنے جب دیکھا کہ میں اور آپ کی ماما کچن میں ہیں تو وہ آپ کو ڈرانے آگئی‘‘ مجھے اور توکچھ نہ سوجھا بس چھوٹی سی کہانی گھڑ کر اسے مطمئن کر دیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم دوبارہ بیڈ روم میں آگئے بچے کھیل میں مصروف ہوگئے۔
’’آج تو تم نے کمال کر دیا بھئی! مجھے تم سے اتنی دلیری کی توقع نہ تھی‘‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا مدھم سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آگئی۔
’’کس قدر ڈھٹائی سے وہ میرے سامنے ہی آپ کو بے ہودہ طریقے سے بلا رہی تھی مجھ سے یہ برداشت نہ ہو سکا‘‘
’’تمہارا یہ روپ مجھے بہت بھلا لگا۔ مجھے فخر ہے کہ میری بیوی میرے لئے کسی بھی شیطانی قوت سے ٹکرا سکتی ہے۔‘‘
میری اس تعریف سے اسکا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا’’میرا سب کچھ تو آپ ہی ہیں۔ یہ تو میں مرکربھی برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے علاوہ کوئی آپ سے اس طرح بات کرے۔‘‘
اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ہم کافی دیر مختلف تراکیب سوچتے رہے۔ اچانک میرے ذہن میں کوندا سا لپکا۔ کیوں نا میں شریف کے والد محترم کی خدمت میں حاضری دوں۔ مجھے یقین تھا وہ اس مشکل کا کوئی حل ضروری بتائیں گے۔ اس سے پہلے میں نے صائمہ کو کسی بات کی بھنک نہ پڑنے دی تھا۔ میں نے سوچا پہلے میں ان سے ملاقات کر لوں پھر صائمہ کو بتاؤں گا۔ میرا پروگرام تھا اسے اور بچوں کو عمران کے گھر چھوڑ کر میں شریف کے ساتھ اس کے والد صاحب سے ملنے چلا جاؤں گا۔ سر سے جیسے بوجھ اتر گیا۔ میں نے صائمہ سے کہا۔
’’تم بچوں کو تیار کر لو میں بینک جاتے ہوئے تمہیں عمران کے گھر ڈراپ کر دوں گا‘‘ اس نے سر ہلایا لیکن بچوں کی موجودگی میں مزید کوئی سوال نہ کیا اور انہیں تیار کرنے چلی گئی۔ اس نے احد کو کپڑے بدلنے کے لئے کہا اور خود مومنہ کے ساتھ لان میں چلی گئی۔
میں ابھی فون کرنے کے ارادے سے اٹھنے ہی والا تھا کہ مومنہ کے چیخنے کی آواز آئی وہ بری طرح چلا رہی تھی۔ اس کے فورا بعد صائمہ کی ہذیانی آواز سنائی دی وہ مجھے بلا رہی تھی۔
’’ہائے اللہ۔۔۔فاروق ادھر آئیں یہ دیکھیں مومنہ کو کیا ہوگیا؟‘‘ میں جلدی سے باہر بھاگا ۔ دیکھا تو صائمہ نے مومنہ کو گود میں اٹھایا ہوا ہے اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے ہیں اور ہاتھ پیر بری طرح مڑے ہوئے ہیں۔ میں نے اسے گودمیں لے لیا۔ صائمہ رونے لگی۔
’’فاروق یہ دیکھیں اسے کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میں نے اسے اندر لا کر بیڈ پر لیٹا دیا۔ اچانک مومنہ نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی اس کے منہ سے قہقہہ نکلا لیکن آواز رادھا کی تھی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘
صائمہ نے روتے ہوئے قرآنی آیات کا ورد شروع کر دیا۔ مومنہ نے اپنی سرخ انگارہ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’اب کیا وچار ہیں میرے بارے میں؟‘‘ اس کے حلق سے رادھا کی آواز نکلی’’تو تو بڑی بلوان ہے۔ کیول اتنی سی بات سے گھبرا گئی؟ مجھے بھسم کرنے چلی تھی اب کیا ہوا؟ کدھر گیا تیرا وہ تیکھا پن؟ اگر تجھ میں جراسی بھی شکتی ہے تومجھے اپنی پتری کے شریر سے باہر نکال۔۔۔میں بھی تو دیکھوں تو کتنی شکتی مان ہے۔۔۔؟ سن مورکھ! میں موہن کے کارن اب بھی تجھے شما کر سکتی ہوں کیول تجھے اتناکرنا ہوگا جو جاپ تو ہر رینا کرتی ہے اسے بند کر دے‘‘ رادھا کا مطالبہ کھل کر سامنے آگیا۔ صائمہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے میری جانب دیکھا چونکہ رادھا زیادہ تر ہندی بولتی تھی اس لے جاپ وغیرہ کے الفاظ نہ سمجھ سکی تھی۔
’’رادھا کا مطلب ہے آیۃالکرسی کا جو وظیفہ جوتم ہر رات سونے سے قبل کرتی ہو وہ بند کر دو‘‘ میں نے وضاحت کی۔
کیوں۔۔۔وظیفے سے اسے کیا تکلیف ہے؟‘‘ صائمہ کی آنکھوں میں الجھن تھی۔ میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے مومنہ کے ذریعے رادھا سے کہا۔
’’رادھا! تم جیسا کہو گی ہم ویسے ہی کریں گے۔ تمنے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ صائمہ اور بچوں کی کوئی نقصان نہ پہنچاؤ گی لیکن پہلے دن ہی اپنا وعدہ توڑ دیا۔‘‘
’’وچن تو تم نے بھی مجھے دیا تھا پریتم! پرنتو اجالا پھیلتے ہی یہاں سے جانے کا وچار کر بیٹھے۔۔۔کیا مجھے جانکاری نہیں کہ تم اپنے متر کے گھر اس سمسیا کے سمادھان(مشکل کا حل) کے کارن جا رہے ہو‘‘
صائمہ نے حیرت سے میری طرف دیکھا کہ کس وقت یہ وعدے وعید ہوئے وہ بولنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
رات جب رادھا نے مومنہ کے ذریعے مجھ سے باتیں کی تھیں میں شُکر ادا کر رہا تھا کہ صائمہ سوئی ہوئی ہے۔ میرا خیال تھا کہ اگر صائمہ اسے اس حال میں دیکھ لیتی تو خوف سے مر جاتی لیکن جب رادھا نے محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے پریتم سجنا اور پریم جیسے القابات سے پکارا تو صداکی ڈرنے والی صائمہ بھپر گئی۔ اس نے رادھا کو کھری کھری سنا دی تھیں جس کے نتیجے میں وہ بد بخت مومنہ کے جسم پر قبضہ کر بیٹھی۔
’’رادھا! تم صائمہ کی باتوں کا برا نہ مانو جب کوئی عورت اپنے شوہر اور بچوں کو تکلیف میں دیکھتی ہے تو اسے غصہ تو آتا ہی ہے‘‘ میں نے بڑے رسان سے اسے سمجھایا۔
’’تم کہتے ہو تو میں اس مورکھ کو شما کیے دیتی ہوں پرنتو۔۔۔اسے کہہ دو، یدی اس نے مری آگیا کا پالن نہ کیا تو یہ کھد دیکھ لے گئی رادھا کیا کر سکتی ہے؟‘‘ کچھ دیر کے بعد مومنہ کے جسم نے بل کھایا اور آرام سے لیٹ گئی اچھا ہوا احد کمرے میں نہ تھا ورنہ مومنہ کے منہ سے ایسی باتیں سنتا تو نہ جانے اس معصوم پر کیا گزرتی؟
’’یہ منحوس کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔کونسے وعدے آپ نے اس کے ساتھ کیے ۔۔۔کب؟‘‘ اس کی آنکھوں میں شک کے کنول تیرنے لگے۔
’’تم مجھ پر شک کر رہی ہو؟‘‘ میں نے ناگواری سے کہا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے اپنے لہجے کی سختی کا اندازہ ہوگیا۔ دراصل رات سے اب تک پیش آنے والے خوفناک واقعات کے تسلسل سے میرے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ ’’آئی ایم سوری صائمہ! میں بھی تمہاری طرح سخت پریشان ہوں کسی بات کی سمجھ نہیں آتی۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔ اس نے بھیگی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور بنا کچھ کہہ باہر چلی گئی۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اٹھا یا دوسری طرف عمران تھا۔
’’خان بھائی! شریف کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ اس کی آواز کسی بم دھماکے کی طرح میری کانوں سے ٹکرائی۔ ‘‘ رات کو عشاء کی نماز کے بعد جنازہ یہ‘‘ وہ بتا رہا تھا۔
’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ’’کب ہوا ان کا انتقال؟‘‘
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے شریف کا فون آیا تھا کہہ رہا تھا آپ کی اطلاع کر دوں‘‘ اس کہا۔
’’اچھا میں بچوں کولے کر تمہارے گھر جا رہا ہوں ان کو وہاں چھوڑ کر ہم دونوں شریف کے گھر چلے جائیں گے۔‘‘ میں نے عمران کو پروگرام بتایا۔
’’ٹھیک ہے خان بھائی! میں بھی تھوڑی دیر بعد گھر پہنچ جاؤں گی‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ کمرے میں آکر میں نے صائمہ کو بتایا۔
’’میرے ایک ماتحت کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے عشاء کے وقت ان کی نماز جنازہ ہے تم تیار ہو جاؤ ہم عمران کے گھر چلتے ہیں تمہیں وہاں چھوڑ کر میں جنازے پر چلا جاؤں گا رات ہم عمران کے گھر ٹھہریں گے پھر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی حل سوچتے ہیں‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ اس نے سر ہلایا اور بچوں کو تیار کرنے چلی گئی۔ جنازے سے ہم لوگ گیارہ بجے کے قریب واپس آسکے۔ وہ رات ہم نے عمران کے گھر گزاری۔ شریف کے والد صاحب کے وفات کے بعد یہ دروازہ بھی بند ہوگیا تھا۔ صائمہ اور بچے سو چکے تھے۔ میں بھی بیڈ پر لیٹ گیا پر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی سوچنے سے اور تو کچھ حاصل نہ ہوا ہاں سرکا درد بڑھ گیا۔ نہ جانے کس پہر مجھے نیند آئی۔ رات بھر مجھے ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے رہے۔ بار بار آنکھ کھل جاتی خیر کسی نہ کسی طرح رات گزر گئی۔صائمہ اور بچوں کو میں نے عمران کے گھر ہی رہنے دیا۔ شریف کے والد کی وفات کے بعد ایک ہی شخص تھا جو میری الجھن کو حل کر سکتا تھا اور وہ تھا ملنگ۔ میں اسے تلاش کرکے اس مسلے پر اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن سوموار کا دن ہونے کی وجہ سے بینک میں اتنی مصروفیت رہی کہ مجھے ایک منٹ کا ٹائم نہ مل سکا۔ شام کو ہم واپس آنے لگے تو عمران نے کہا۔
’’خان بھائی آپ چلیں ایک چھوٹا سا کام ہے میں وہ کرکے آتا ہوں‘‘ میں واپس چل پڑا۔ گھر پہنچا تو نازش کو دروازے سے باہر کھڑے پایا۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر وہ لپک کرآئیں۔ کسی انجانے خدشے سے میرا دل دھڑک اٹھا۔ میں نے گاڑی روک کر جلدی سے دروازہ کھولا اور باہرنکل کر پوچھا۔
’’خیرت ہے بھابی! باہر کیوں کھڑی ہیں؟‘‘
’’فاروق بھائی! مومنہ پتانہیں کہاں چلی گئی ہے؟‘‘ الفاظ نہیں بم تھا جو میرے سر پٹھا۔
’’ک۔۔۔ک۔۔۔کیا کہہ رہی ہیں آپ، کیا مطلب؟‘‘ میرے منہ سے بے ربط جملے نکلے۔
’’تھوڑی دیر پہلے سب بچے لان میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے کافی دیر تک جب مومنہ نہ ملی تو شاہ جہان نے مجھے بتایا اس کے بعد سے ہم نے اسے سارے گھر میں تلاش کیا لیکن وہ کہیں بھی نہیں ہے‘‘ اتنا کہہ کر بھابی رونے لگیں۔ میں بھاگتا ہوا اندر گیا صائمہ برآمدے میں کھڑی رو رہی تھی۔ سب بچے ان کے پاس خاموش کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر صائمہ لپک کر میرے پائی آئی۔
’’حوصلہ رکھو صائمہ! یہیں کہیں ہوگی وہ کہاں جا سکتی ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی ۔ایک بار پھر ہم سب نے اس کی تلاش شروع کر دی۔ صائمہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ وہ نڈھال سی کرسی پر گر گئی۔
’’عمران کہاں ہیں، فاروق بھائی! ‘‘ نازش نے پوچھا۔
’’اسے بازار سے کچھ چیزیں خریدنا تھوڑی دیر میں آجائے گا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’اچھا وہ درزی کے پاس میرے کپڑے لینے گئے ہوں گے آپ ایسا کریں ان کو بلا بلائیں‘‘ انہوں نے مجھے ایڈریس بتاتے ہوئے کہا۔ میں جلدی سے گاڑی میں بیٹھا اور آندھی طوفان کی طرح بھگاتا ہوا بازار کی جانب چل پڑا۔ ابھی میں بازار سے کچھ دورہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے پولیس موبائل کا سائرن سنائی دیا میں چونکہ خطرناک حد تک تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کر رہا تھااس لئے شادی ٹریفک سارجنٹ نے مجھے چیک کرکے گاڑی پیچھے لگا دی تھی۔ میں نے رفتار سست کر دی پولیس موبائل تیزی سے میرے برابر آئی اور اگلی سیٹ پر بیٹھے پولیس والے نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرکے روک لی۔
میں چاہتا تھا اسے سمجھاؤں کہ میں کس مشکل میں ہوں اور تیز رفتاری کے لئے معذرت بھی کروں لیکن میرے نیچے اترنے سے پہلے موبائل سے چارپانچ پولیس والے اترے جنہوں نے ہاتھ میں خود کار رائفلیں پکڑی ہوئی تھیں۔ سب میری گاڑی کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے ۔میں ابھی سنھبل بھی نہ پایا تھا کہ ایک کرخت صورت تھانیدار نیچے اترا اور میری گاڑی کے پاس آکر غرایا۔
’’فاروق خان تمہاراہی نام ہے‘‘
’’جی ہاں۔۔۔بات دراصل یہ ہے آفیسر۔۔۔‘‘
’’بات کے بچے نیچے اتر۔۔۔‘‘اس نے میری بات کاٹ کرایک نہایت فحش گالی دی۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’دیکھو آفیسر۔۔۔!‘‘ ابھی الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ اس نے گرج کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا۔
’’اس حرامزادے کو نیچے اتار کر گاڑی میں بٹھاؤ‘‘ ایک سپاہی نے جلدی سے میری گاڑی کا دروازہ کھولا اور مجھے کالر سے پکڑ لیا۔
’’میری بات سنو تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے۔‘‘ میں نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔
اچانک میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا۔ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے۔ اس کے بعد تو مجھے پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش ہوگئی۔ میری کنپٹی پر کسی کا زوردار ہاتھ پڑا اور میں زمین بوس ہوگیا۔ گرتے ہی جیسے میرے سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ یہ کسی سپاہی کے بوٹ کی ٹھوکر تھی جو میرے سر پر پڑی تھی۔ سپاہیوں نے مجھے ڈنڈا ڈولی کرکے موبائل میں پھینک دیا۔ ابھی میں سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ گاڑی چل پڑی۔ چار سپاہی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں ان کے قدموں میں پڑا تھا۔ سر کی چوٹ نے میرے حواس معطل کر دیئے تھے۔ بائیں آنکھ میں بری طرح سوزش کے ساتھ درد ہو رہا تھا۔ جسم کے ایک حصے سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ان بدبختوں نے مجھے بری طرح مارا تھا۔ میں گٹھڑی بنا ان کے قدموں میں گاڑی کے فرش پر پڑا تھا۔ سپاہی مجھ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کر رہے تھے۔ وہ بات کم کرتے اور گالیاں زیادہ بکتے۔ شاید پولیس کے محکمے میں رہ کر ان کی زبان اس قدر گندی ہو چکی تھی۔ ایک سپاہی دوسروں کو کوئی واقعہ سنا رہا تھا۔ اس نے ایک محبت کرنے والے جوڑے کو کسی پارک سے پکڑا تھا۔ وہ مزے لے لے کر ان کو بتا رہا تھا کہ اس نے لڑکی کے ساتھ کیا کیا تھا اور کتنے پیسے لے کر انہیں چھوڑا تھا۔ کچھ دیر کے بعد موبائل تھانے کی عمارت میں داخل ہوگئی۔ گاڑی کے رکتے ہی تھانیدار نے سپاہیوں کو حکم دیا۔
’’اسے سپیشل حوالات میں بند کر دو میں رات کو اس کے ساتھ ۔۔۔کروں گا۔‘‘ اس نے نہایت فحش بات کی۔
’’بچو جی! خود ہی اترو گے یا تمہارے لئے پالکی لے کر آئیں۔‘‘ ایک سپاہی نے ہنس کر طنز کیا۔ میں جلدی سے نیچے اتر آیا وہ مجھے لے کر ایک طرف چل پڑا۔ سامنے ایک قطار میں چند کمرے بنے ہوئے تھے اس نے ایک کمرے کا تالا کھولا اور مجھے دھکیل کر دروازہ باہر سے بند کردیا۔ پہلے بھی میرا سابقہ ان حالات سے پڑ چکا تھا۔ جب سادھو کے چیلے تھانیدار نے مجھے چمپا کے جھوٹے اغوا کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ اس دن رادھا نے بلی کے روپ میں مجھے ان کے چنگل سے نہ صرف رہائی دلائی تھی بلکہ سادھو کے چیلوں کو عبرتناک سزا بھی دی تھی۔ میں نے سپاہی کے جانے کے بعد کمرے کا جائزہ لیا۔ نہایت کم روشنی کا ایک بلب اپنی مدقوق روشنی پھیلانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ فرش پر پرانی سی چٹائی بچھی تھی کمرے میں دیوار کے ساتھ کوئی کمبل اوڑھے لیٹا تھا۔ مجھ سا کوئی بد نصیب ہوگا۔ میں نے سوچا۔ میرے جسم پر ایک ہلکا سا سوئیٹرتھا۔ سردی اور خوف سے میرا جسم کانپ رہا تھا ’’ نہ جانے یہ درندے میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟‘‘ رادھا بھی مجھ سے ناراض تھی۔ میں نے اس کے بقول اسے دھوکہ دیا تھا لیکن کیا واقعی یہ دھوکہ تھا؟ کیا میں اس کا مطالبہ مان کر اس کی ہوس پوری کرتا رہتا؟ اس کا مطالبہ تھا صائمہ جو وظیفہ رات کو کرتی ہے وہ بند کر دے تاکہ وہ پہلے کی طرح صائمہ کے جسم میں سما کر میرا قرب حاصل کرسکے۔ میں کوئی زیادہ مذہبی آدمی تو نہیں ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں یہ کام غلط ہے۔ گزشتہ بار تو رادھا نے میری مدد کرکے مجھے چھٹکارا دلایا تھا اب کیا ہوگا؟‘‘ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں ڈنک ما رہا تھا۔
’’کہیں یہ سب رادھا کا کیا دھرا تو نہیں؟‘‘ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں نے ایک بار پھر گردن گھما کر سونے والے کی طرف دیکھا وہ بڑے مزے سے کمبل اوڑھے حوالات میں اس اطمینان سے سو رہا تھا۔ ’’ہو سکتا ہے کوئی عادی مجرم ہو؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا۔ اچانک ہر طرف تاریکی چھا گئی شاید لائٹ چلی گئی تھی۔
اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ جسم پر لگی چوٹیں ٹھنڈی ہو کر مزید اذیت دینے لگی تھیں۔ نہ جانے میری معصوم بیٹی کس حال میں ہوگی؟ مجھے یقین تھا کہ یہ سب کیا دھرا رادھا کا ہے اس نے اپنی پراسرار قوتوں سے کام لے کر یہ سب کچھ اس لئے کیا ہوگا تاکہ میں ڈر کر اس کا مطالبہ پورا کر دوں۔ اپنی بیٹی کے بارے میں سوچ کر میرا دل بھر آیا۔ آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگے۔بے بسی کا عالم تھا ۔ صائمہ کس کرب سے گزر رہی ہوگی؟ اس بے چاری کو کیا خبر کہ ایک اور افتاد اس پر آپڑی ہے ’’یا اللہ میرے گھر کی حفاظت کرنا میری ننھی معصوم بیٹی کو ہر مصیبت سے بچانا‘‘ بے اختیار میرے دل سے دعا نکلی۔
میں کھسک کر دیوار کے سہارے بیٹھ گیا۔ تاریکی میں ایک بار پھر میں نے اپنے واحد اجنبی ساتھی کو دیکھنے کی کوشش کی۔ مجھے دو دہکتے ہوئے سرخ انگارے دکھائی دیے۔ میں آنکھیں پھاڑے ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ انگارے بلند ہونا شروع ہوگئے۔ وہ تقریباً انسانی قد کے برابر بلندی پر جا کر ٹھہر گئے۔ پھر انہوں نے آہستہ آہستہ میرے طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ کمرے کی مہیب خاموشی میں ایسی آواز آنا شروع ہوگئی جیسے کوئی درندہ سانس لے رہاہو۔ انگارے مجھ سے دو فٹ کے فاصلے پر بالکل میرے متوازی ہوا میں جمے ہوئے تھے۔ میں بغیر پلک جھپکائے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ درندے کے ہانپنے کی آواز مجھے بالکل اپنے قریب سنائی دے رہی تھی۔ جس کمرے میں مجھے لایا گیا تھا اس کا دروازہ عام حوالات کے سلاخوں والے دروازے کے برعکس لوہے کی ٹھوس چادر کا بنا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے دروازے کی طرح کھسکنا شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ ایک بے فائدہ حرکت تھی دروازے کو میرے اندر داخل ہوتے ہی باہر سے بند کر کے تالا لگا دیا گیا تھا۔
اچانک مجھے اپنے سامنے غراہٹ سنائی دی خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جب مجھے لایا گیا تھا تو میں نے خود روشنی میں سارے کمرے کا جائزہ لیا تھا سوائے ایک شخص کے جو دیوار کے ساتھ کمبل اوڑھے لیٹا ہوا تھا اور کوئی کمرے میں نہ تھا۔ درندہ تو کجا کوئی چھوٹا سا بلی کا بچہ بھی موجودہ نہ تھا۔ اچانک یہ درندہ کہاں سے آگیا؟ میرے ہاتھ نے دروازے کو چھوا۔ ذرا اور آگے کھسک کر میں نے دروازے کے کنڈے کو پکڑ کر کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ باہر سے بند تھا۔ دہکتے ہوئے انگارے میرے سامنے تھے۔ سانسوں کی آواز بھاری ہوتی جا رہی تھی جیسے کوئی درندہ ہانپ رہا ہو۔ اچانک کمرے میں تیز روشنی پھیل گئی۔ روشنی کا مخرج وہ بلب قطعی نہ تھا بلکہ یہ پتا ہی نہ چل رہا تھا کہ وہ کس طرف سے آرہی ہے؟ کافی دیر تاریکی میں رہنے کی وجہ سے میری آنکھیں چندھیا کر رہ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد جب میری آنکھیں روشنی سے ہم آہنگ ہوئیں تو دیکھا میرے بالکل سامنے ایک طویل القامت بوڑھا کھڑا ہے۔ میں نے فوراً گردن گھما کر اس جگہ کو دیکھا جہاں تھوڑی دیر پہلے کوئی کمبل اوڑھے لیٹا ہوا تھا۔ کمبل ایک طرف پڑا تھا۔ وہ لال سرخ انگارے اس بوڑھے کی آنکھیں تھیں۔ روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی وہ چمک مدھم ضرور ہوئی تھی لیکن اب بھی وہ دہکتے ہوئے انگاروں جیسی تھیں۔ میں نے اس کا جائزہ لیا قد مجھ سے بھی نکلتا ہوا یعنی کہ ساڑھے چھ فٹ کے قریب۔ وہ بالکل بانس کی طرح تھا۔ سر اور داڑھی مونچھوں کے سفید روئی کے گالوں جیسے بال بے تحاشہ بڑھتے ہوئے تھے۔ یوں کہنا چاہئے بالوں نے تقریباً اس کے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔ اس کی لمبی داڑھی پیٹ تک پہنچتی تھی۔ ننگ دھڑنگ جسم پر صرف ایک لنگوٹی تھی۔ مجموعی طور وہ ایک طویل القامت ڈھانچے کی طرح تھا۔ ہڈیوں پر صرف کھال منڈھی ہوئی تھی۔ اگر اس کے جسم پر کھال نہ ہوتی تو پہلی نظر میں وہ ڈھانچہ ہی لگتا۔ دوسری عجیب بات اس کی رنگت تھی۔ بالکل پیلی زرد جیسے اس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہو۔ وہ ساکت کھڑا اپنی سرخ انگارہ آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
’’جانتا ہے میں کون ہوں؟‘‘ وجود کے برعکس اس کی آواز بہت بھاری اور گرج دار تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔
’’کک۔۔۔کو۔۔۔کون ہو تم‘‘ خوف سے میری آواز کانپ گئی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرہ اس کے خوفناک قہقہے سے گونج اٹھا۔
’’کہاں ہے تمری وہ پریمیکا ؟ بلا اسے ۔۔۔آج وہ تجھے میرے شراپ سے بچائے تو جانوں۔‘‘
میں اس کی بات کا مطلب بالکل نہ سمجھ نہ سکا تھا۔ ایک انسان سے اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے خود کو سرزنش کی۔ میرے اندر کچھ ہمت پیدا ہوئی۔ اس بار میں نے کسی قدر بلند آواز میں کہا ’’میں پوچھ رہا ہوں تم کون ہو اورکیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’پاپی! مجھے کیول تیری پریمیکا کا انتجار ہے ۔۔۔جانتا ہوں وہ تیری رکھشا کرنے جرور آئیگی۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو؟ میں پوچھتا ہوں کون ہو تم؟‘‘ اس بار میں نے دبنگ لہجے میں کہا۔
’’تو نے میرے چیلے کی ہتھیا کی ہے پاپی! میں تجھے ایسا شراپ دوں گا کہ سنسار میں سب تجھ پر تھوکیں گے‘‘ وہ گرجا۔ اس کی آنکھوں میں آگ کے الاؤ روشن ہوگئے۔ اچانک میرے دماغ میں جیسے بجلی کا جھما کا ہوا۔ وہ یقیناً اس منحوس سادھو کا گرو تھا جیسے میرے سامنے ادھار اور اس کی ساتھیوں بلیوں نے نوچ نوچ کر کھا لیا تھا۔
’’کس وچار میں گم ہے؟ تو نے میرے چیلے کی ہتھیا کرکے گھور پاپ کیا؟ اس دن تو تیری پریمیکا تجھے چھڑا کر لے گئی تھی پرنتو آج دیکھتا ہوں وہ کیسے تیری سہائتا کرتی ہے؟ اس سمے تو میرے سامنے بندی بنا کھڑا ہے‘‘ اس نے میرا مضحکہ اڑایا۔
’’اچھا۔۔۔تو سادھو امر کمار کا استاد ہے؟ ہاں تیرے چیلے نے بھی ایک دن اسی طرح پولیس کی مٹھی گرم کرکے مجھے گرفتار کروایا تھا۔ آج تو نے بھی وہی حرکت کی ہے؟ اگر تجھ میں اتنی ہمت تھی تو میرے ساتھ مقابلہ کرتا یہ زنخوں کی طرح پولیس کا سہارا لے کر کسی کو گرفتار کروانا اور خوش ہونا تو ہیجڑوں کا کام ہوتا ہے ‘‘ اس کی بات سن کر میرے اندر آگ بھر گئی۔ اس نازک وقت میں اس نے یہ کمینگی کی تھی جب میں اپنی بیٹی کی گمشدگی کے لئے سخت پریشان تھا۔ میرے منہ میں جو آیا میں نے کہہ دیا۔ وہ اطمینان سے میری لاف زنی سنتا رہا۔ آنکھوں میں تمسخر لیے وہ میرے سامنے تن کر کھڑا تھا۔
’’یہ تو تجھے آج میں بتاؤں گا ہیجڑا کون ہے میں۔۔۔یا تو؟ کیول اتنا انتجار کر جب تک ریری پریمیکا نہیں آجاتی۔ اسے آواج(آواز) دے۔ مجھے پورا وشواس ہے وہ تجھے کشٹ میں دیکھ کر جرور آئے گی‘‘ نہ جانے وہ کس کے بارے میں کہہ رہا تھا؟ میری چہرے پر الجھن دیکھ کر اس نے وضاحت کی۔
’’میں تیری پریمیکا رادھا کی بات کر رہا ہوں۔ آج تو کھد دیکھے گا میں اس حرام کی جنی سنگ کیا کرتا ہوں۔ اس نے ایک مہا پرش کی ہتھیا کی ہے یہ کوئی معمولی بات نہ ہے۔ سادھو امر کمار میرا بہت اچھا سیوک تھا۔ میں اس کی مرتیو کو بھول نہیں سکتا۔ اس کی ہتھیا کا بدلہ میں تم اور تمہاری پریمیکا سے اوش لوں گا‘‘ غیض و غضب کے عالم میں اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔
’’اگر تو اتنا ہی طاقتور ہے تو اس طرح مجھے پولیس سے گرفتار کروا کر کیوں لایا ہے مجھے خود ہی سزا کیوں نہ دے دی؟‘‘ میں نے اس کا تمسخر اڑایا۔ میرا ڈر خوف سب ختم ہو چکا تھا۔ پہلی نظر میں اسے میں نہ جانے کیا سمجھا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ سادھو امر کمار کا گرو ہے تو میرا خوف غصے میں بدل گیا۔
’’اس بات کو چھوڑ میں نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں، کیا؟ تو کیول یہ چنتا کر۔ میں تیرے ساتھ آج کیا کرنے والا ہوں؟‘‘ اس نے میری بات سن کر بڑے اطمینان سے کہا۔
’’اگر تو انصاف کی بات سننا چاہتا ہے تو سن، تیرے چیلے کو میں نے نہیں رادھا نے مارا ہے۔ میں تو اسے جانتا بھی نہ تھا وہ خود ہی میرے پیچھے پڑا تھا۔ میں نے کئی بار اسے سمجھایا لیکن وہ ہر بار میرے ساتھ زیادتی کرتا رہا اور ۔۔۔‘‘
’’بند کر اپنا بھاشن۔۔۔‘‘ وہ غضبناک ہوگیا‘‘ اس کی دھاڑ سے مجھے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔
’’اس سے پہلے کہ میں تجھے جلا کر بھسم کر دوں اپنی گندی جیب روک لے۔ سادھو امر کمار کیول کالی ماتاکی آگیا کا پالن کرنے کے کارن تیرے پاس آیا تھا۔‘‘
’’میں ان سب باتوں کو فضول بکواس سمجھتا ہوں تم لوگ سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے الٹے سیدھے کرتب دکھا کر بے وقوف بناتے ہو۔ مذہب کی آڑ لے کر لوٹتے ہو لوگوں کو ۔۔۔تمہارا وہ خبیث چیلا بھی اسی لئے کتے کی موت مر گیا اور تمہارا حال بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘
میں بھی بھپر گیا۔ اس کی دہکتی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلنے لگے۔ کچھ دیر وہ میری طرفہ شعلہ بار نظروں سے دیکھتا رہا پھر سرد آواز میں بولا۔
’’تجھے ابھی پتا چل جائے گا کہ تو اس سمے کس شکتی کے سامنے کھڑا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے سینے سے ایک بال توڑ کر میری طرف پھینک دیا۔ بال تیر کی طرح میری طرف آیا اور میرے جسم کے گرد کسی مضبوط رسے کی طرح لپٹ گیا۔
یہ سب کچھ اتنی سُرعت سے ہوا کہ مجھے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ بال اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ میرے پورے جسم کے گرد لپٹ گیا۔ حتیٰ کہ میرے چہرے کے گرد بھی اس کے بل پڑ چکے تھے۔ کمزور سا وہ بال رسے کی طرح مضبوط تھا۔ میں کھڑے کھڑے زمین پر گر گیا۔ سر زمین پر بڑے زور سے ٹکرایا اور میری آنکھوں کے گرد تارے ناچ گئے۔ میں چت زمین پرپڑا تھا۔ سادھو نے آگے بڑھ کر اپنا ننگا پاؤں میرے سینے پر رکھ دیا۔
یوں لگا جیسے کسی نے میرے سینے پر منوں وزنی پتھر رکھ دیا ہو۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ سینے کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئیں۔ دم بدم میری سانس بند ہوتی جا رہی تھی۔آنکھوں کے گرد اندھیرا اچھا گیا۔ قریب تھا کہ میرا دم نکل جاتا۔ مجھے سادھو کی آواز دور سے آتی سنائی دی۔
’’پدھارئیے دیوی جی! بڑی دیری کر دی آنے میں۔۔۔دیکھ میں نے تیرے پریمی کی کیا دشا(حالت) بنا دی ہے؟ یہ مورکھ کالی داس کی شکتی بارے گلط وچار کر بیٹھا تھا‘‘ اس کے فوراً بعد مجھے رادھا کی آواز سنائی دی۔
’’مہاپرشوں کو منش سنگ ایسا کرنا شو بھا نہیں دیتا مہاراج! تمری یدھ(جنگ) میرے سنگ ہے اس نردوش کو کس کارن کشٹ دے رہے ہو؟‘‘ میرا ذہن معطل ہو چلا تھا کہ اچانک میرے سینے پر سے بوجھ ہٹ گیا۔ سانس بحال ہوتے ہی میری آنکھوں کے سامنے دم بدم گہرا ہوتا اندھیرا چھٹنے لگا۔
’’نردوش۔۔۔یہ تو کیا کہہ رہی ہے؟ اس پاپی نے میرے چیلے کی ہتھیا کر دی اور تو اسے نردوش کہہ رہی ہے؟‘‘ کالی داس کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔
’’مہاراج! اس نے تمہیں بتایا تو ہے کہ امر کمار کی ہتھیا میں نے کی ہے اور تم تو کھد اتنے شکتی مان ہو تم سے کون سی بات چھپی ہے؟‘‘ میرے سر کی طرف سے رادھا کی ٹھہری ہوئی آواز ہوئی۔ میں نے سر گھما کر اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تب مجھ پر حقیقت کھلی کی میں اپنے جسم کو حرکت دینے کے قابل نہیں ہوں۔ سادھو امر کمار نے بھی میرے جسم کو یونہی بے حس و حرکت کر دیا تھا۔ میں سن سکتا تھا دیکھ سکتا تھا اس کے علاوہ میرا جسم کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔
’’دیکھ دیوی! میں جانتا ہوں تو ہمرے دھرم کی ایک مہان ناری ہے پرنتو تجھے شوبھا نہیں دیتا کہ تو ایک مسلے کے کارن مہاپرشوں کے آڑے آئے۔ میں اب بھی تجھے شما کر سکتا ہوں۔ یدی تو کھد میرے چرنوں میں آجا۔ رہی بات اس مسلے کی۔۔۔تو اس حرام کے جنے کی تو اب میں کالی کے چرنو میں بلی چڑھاؤں گا۔ کالی کتنی پرسن (خوش) ہوگی اس کی زت سے اشنان(خون سے غسل) کرکے ’’کالی داس کے مکروہ ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ وہ چونکہ بالکل میرے سر پر کھڑا تھا اس لئے میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ جبکہ رادھا کی آواز میرے سر کی طرف سے آرہی تھی۔ آواز تو اس کی ہماری خوابگاہ میں بھی سنائی دی تھی لیکن وہ نظروں سے اوجھل تھی پرکالی داس میرے سر کے اوپر دیکھ کر بات کر رہا تھا۔ رادھا اس کو نظر آرہی تھی ۔۔۔؟ میں یہ بات نہ جان سکا۔
’’میں جانتی ہوں ورشوں تو نے بھگتی کرکے کالی کے ہردے(سینے) میں استھان(جگہ) بنا لیا ہے پرنتو۔۔۔اس سنسار میں کیول کالی ماتا کی شکتی تو نہیں ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے اور بھگت بھی تو بستے ہیں اس سنار میں۔۔۔تو جانتا ہے پہلے بھی ایک بار میرا موہن مجھ سے دور کر دیا گیا تھا ‘‘ رادھا نے اسے بڑے رسان سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیوی! تو جانتی ہے جس نے تجھ سے تیرا پریمی چھینا وہ پاپی بھی ایک مسلا تھا۔۔۔پھربھی تو اس مسلے کی سہائتا کرنے پر تیار ہے۔ کیا تجھے شو بھا دیتا ہے کہ تو دوجے دھرم کے منش سنگ اپنے شریر کا سمبندھ جوڑے؟ یہ گھور پاپ ہے دیوی‘‘ کالی داس کے لہجے میں ہمارے مذہب کے لئے نفرت بھری ہوئی تھی۔
’’مہاراج! تم اس بات کوجانے دو۔ میں کیا کر رہی ہوں اور مجھے کیا شو بھا دیتا ہے؟ میں اس سمے تم سے اپدیش (نصیحت) سننے نہیں آئی۔ اس کو چھوڑ کر مجھ پر اپکار(احسان) کر دو‘‘ رادھا نے ایک بار پھر کالی داس کو سمجھایا۔ میں سخت اذیت میں تھا۔ سارا جسم سن ہو چکا تھا۔ زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ رادھا نے سدھو امر کمار کو تو ایک پل میں ادھیڑ کر رکھ دیا تھا لیکن کالی داس کی وہ نصیحتیں کر رہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا وہ اس بدبخت کالی داس کا بھی وہی حشر کرے۔
’’دیوی! تو جانتی ہے میں اپنے من میں تجھے پراپت کرنے کی ٹھانے بیٹھا ہوں۔ کچھ ہی سمے بعد تو میرے چرنوں میں ہوگی۔ رہی اس مسلے کی بات تومیں تجھ سے کہہ چکا ہوں کہ میں کالی ماتا کو اس کی بھینٹ دے کر اس سے بنتی کروں گا کہ وہ امر کمار کی آتما کو کسی دوجے منش کے شریر میں ڈال کر مجھے دان کر دے۔ تو نہیں جانتی امر کمار میرا کھاص(خاص) سیوک تھا۔ کالی ماتا نے مجھے وچن دیا تھا کہ وہ تجھے میرے چیلے امر کمار کو دان کرے گی۔۔۔‘‘ اس نے ایک نفرت بھری نظر مجھ پر ڈالی۔ ’’دیوی ! اب بھی سمے ہے تو اس مسلے کو چھوڑ کر میرے چرنوں میں آجا۔ میں کالی سے تیرے لئے شما مانگ لوں گا۔ مجھے وشواس ہے کالی اپنے اس سیوک کا کہنا نہیں ٹالے گی‘‘ وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔
’’پاپ اور پن کی باتیں چھوڑو کالی داس! کس نے پاپ کیا اور کس نے پنے؟ یہ بات دیوتا جانتے ہیں۔ تو نے اس نرودوش کی کومل پتری سنگ انیائے کیا ہے اس نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟‘‘
رادھا کی بات سن کر مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ میں اب تک یہ سمجھ رہا تھا کہ مومنہ کی گمشدگی میں رادھا ملوث ہے لیکن اب مجھے پتا چلا کہ اس لعنتی ڈھانچے نے میری معصوم بیٹی کو اغوا کیا ہے۔ میرے جسم میں آگ بھر گئی۔ اگر میں بندھا ہوا نہ ہوتا تو اس بوڑھے کی گردن دبا دیتا۔ میں نے کسمسانے کی کوشش کی لیکن بال برابر بھی جسم کو حرکت نہ دے سکا۔
’’دیوی! مجھے مجبور نہ کرکہ میں تجھے بتاؤں تو اس سمے کس کے سامنے کھڑی ہے؟‘‘ کالی داس غضب ناک آواز میں دھاڑا۔
’’کالی داس! میں تجھ سے بنتی کرتی ہوں کہ تو میرے موہن کو شما کر دے۔ اسے جانے دے میری تجھ سے کوئی یدھ نہیں‘‘ رادھا نے اس بار بھی اسے متانت سے سمجھایا۔
’’دیوی! ایک مسلے سے سمبندھ جوڑتے تجھے لاج نہیں آتی۔ تو تو اپنا دھرم نشٹ کرنے پر تلی بیٹھی ہے پرنتو میں تجھے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ اس مسلے کا بلیدان تو کالی کے چرنوں میں اوش ہوگا‘‘ کالی داس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’کالی داس تو نے اب تک کتنی مسلمان ناریوں کا بلات کار کیا ہے تجھے اس سمے لاج آئی تھی؟‘‘
رادھا کی تلخ آواز میرے کانوں میں پڑی۔ ان دونوں کی بحث میں میں وقتی طور پر اپنی تکلیف بھول گیا تھا۔
’’پاپن! تو کالی داس کو اپدیش دینے چلی ہے۔ یدی مجھے کالی ماتا کو دیے وچن کا دھیان نہ ہوتا تو اس ملیچھ سنگ تجھے بھی بھسم کر دیتا ‘‘ کالی داس کسی زخمی درندے کی طرح دھاڑا۔
’’کالی داس! تیرا۔۔۔انت(انجام) تیرے چیلے سے بھی برا ہوگا‘‘ رادھا کی سرد آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’موہن اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ‘‘ اب رادھا مجھ سے مخاطب تھی۔ میں سوچ رہا تھا اسے کیسے بتاؤں کہ اس خبیث نے مجھے کسی شیطانی قوت سے باندھ کر بے دست و پا کر رکھا ہے۔
’’پریمی! میں کہہ رہی ہوں ادھر آجاؤ میرے پاس‘‘ رادھا نے اس بار بڑے پیار سے مجھے کہا۔ میں نے اپنے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کی لیکن نتیجہ حسب سابق رہا۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرہ کالی داس کے گرجدار قہقہے سے گونج اٹھا۔‘‘ کیا تو نے مجھے امر کمار سمجھ رکھا ہے دیوی؟‘‘ اس تمسخر سے بھرپور آواز آئی۔
اچانک میرے جسم پر دودھیا روشنی کا ہالہ پڑا۔ اس کے ساتھ ہی میرا جسم جکڑ بندیوں سے آزاد ہوگیا۔ میں اپنے شل جسم کو حرکت دے کر اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کالی داس نے غصے سے اپنا ہاتھ میری طرف کرکے جھٹک دیا۔ میں جو کوشش کرکے اٹھ بیٹھنے میں کامیاب ہوچکا تھا ایک بار پھر زمین پر گر پڑا۔
’’کالی داس میں تجھے ایک اوسر(موقع) دیتی ہوں اب بھی باز آجا نہیں تو۔۔۔تو جیون بھکشا مانگے گا اور میں تجھے شما نہ کروں گی‘‘ رادھا کی دھاڑ کمرے میں گونجی۔
’’پاپن! تو کالی داس کے آڑے آرہی ہے۔ ماتاکی سوگندیدی مجھے اپنے وچن کا دھیان نہ ہوتا تو میں تجھے ابھی نرکھ میں پہنچا دیتا۔‘‘ کالی داس جواباً غرایا۔
اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم پر ٹھنڈے پانی کی پھوار پڑی ہو۔ اس کے ساتھ میرا جسم جکڑ بندیوں سے آزاد ہوگیا۔ اس بار میں نے بھی پھرتی دکھائی اور کھڑا ہوگیا۔ اٹھتے ہی میں نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔۔۔ نظر اٹھی تو جھکنا بھول گئی۔
میرے بالکل پیچھے ایک نہایت حسین عورت سارھی باندھے کھڑی تھی۔ وہ اس قدر حسین تھی کہ الفاظ اس کے حسن کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ چمپا اور شکنتلا تو اس کی کنیزیں بننے کے قابل بھی نہ تھیں۔ وہ حسن ایک شاہکار تھی میں نے اپنی زندگی میں اس قدر حسین عورت نہ دیکھی تھی۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر مدہر مسکراہٹ اس کے نرم و نازک ہونٹوں پر چھا گئی۔ موتیوں جیسے دانت گلاب کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے جھانکنے لگے۔ بڑی بڑی جھیل سی گہری آنکھیں جن میں پیار کا سمندر ہلکورے لے رہا تھا ’’میرے میت! میں تم سے شما چاہتی ہوں مجھے آنے میں تھوڑی دیری ہوئی۔ اس پاپی نے تمری کومل پتری کو بندی بنا لیا تھا جس کی رکھشا اس کے پلید بیر(شیطان کے پیرو کار جنات) کر رہے تھے۔ یدی میں اسے اپنے سنگ لانے میں سپھل نہ ہو سکی پرنتو ایسا پر بند کر آئی ہوں کہ یہ پاپی اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ پائے گا‘‘ اس کی جھرنوں جیسی آواز میں معذرت تھی۔ میں جو اس کے حسن کو دیکھ کر گنگ کھڑا تھا۔ اس کی آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی۔ مومنہ کی بات سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’دھیرج پریتم! اس پاپی کا سروناش کرکے میں تمری پتری کو تمرے پاس کھد لاؤں گی‘‘ اس نے میرے چہرے پر غصہ دیکھ کر مجھے تسلی دی۔ اس کے بعد وہ کالی داس سے مخاطب ہوئی۔
’’کالی داس! اب بھی سمے ہے واپس اپنے استھان پر لوٹ جا۔ تجھے یہ شو بھا نہیں دیتا کہ اپنے مورکھ چیلے کے کارکن کسی کو کشٹ دے۔ وہ دوشی تھا جو کچھ اس نے کیا اس کا بدلہ اسے مل گیا۔ مجھے بھی کالی ماتا کا دھیان ہے میں نہیں چاہتی میرے ہاتھوں ایک اور ہتھیا ہو‘‘ رادھا نے ایک بار پھر کالی داس کو سمجھایا۔
’’رادھا! اس حرام زادے نے میری معصوم بیٹی کو اغوا کیا۔ مجھ پر تشدد کرایا اور تم اسے جانے کی اجازت دے رہی ہو؟‘‘ میں نے تلخ لہجے میں رادھا کو مخاطب کیا۔
’’جانتی ہوں پریتم! پرنتو کسی مہاپرش سنگ یدھ اچھی نہیں اسی کارن میں اسے جانے کی آگیا دے رہی ہوں‘‘ رادھا نے ملائمت سے مجھے سمجھایا۔ وہ باد صبا کے جھونکے کی طرح چلتی میرے قریب آگئی تھی میرے اردگرد گلاب کی مہک چھا گئی۔ میں نے کالی داسکی طرف نفرت سے دیکھا وہ اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ جیسے کسی الجھن کا شکار ہو۔
’’دیوی ! میں بھی کھدکے اور تیرے بیچ یدھ نہیں چاہتا، پرنتو تجھے اس ملیچھ کو لے جانے کی آگیا نہیں دے سکتا۔اس نے میرے چیلے کی ہتھیا کرکے گھور پاپ کیا ہے۔ میں نے کالی ماتا کو وچن دیا ہے اس دھشٹ کی بلی میں اس کے پوتر(پاک) چرنوں پراوش چڑھاؤں گا‘‘ وہ جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر بولا۔
’’کالی داس مجھے مجبور نہ کر۔ ایسا نہ ہو میں اپنا وچن بھول کر تجھے کوئی شراپ دے بیٹھوں۔ اتنا ہی بہت ہے کہ میں تجھے جانے کی آگیا دے رہی ہوں ورنہ جو کچھ تو نے میرے پریمی سنگ کیا ہے وہ بھولنے والی بات نہ ہے‘‘ رادھا نے اسے گھورا۔ کالی داس نے جواب دینے کے بجائے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بھدے ہونٹ متحرک ہوگئے۔
کالی داس ! مورکھتا(حماقت) نہ کر۔۔۔بند کر دے اپنا یہ کھلواڑ نہیں تو۔۔۔؟‘‘ رادھا گرجی۔
کالی داس آنکھیں بند کیے اپنی پڑھائی میں مصروف رہا۔ رادھا کی حسین آنکھوں سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا۔ میرا ہاتھ ابھی تک اس کے کومل ہاتھوں میں تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے دودھیا روشنی کی دھار نکل کر میرے جسم پر پڑی۔ مجھے ایک بار پھر محسوس ہوا جیسے کسی نے معطر پانی کی باریک پھورا میرے جسم پر ڈال دی ہو۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(جاری ہے)