صائمہ بچوں کے پاس لیٹ گئی تھی۔ میں نے دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے سوچا یہ سب کیا ہے؟ ایک بار پھر گزرے واقعات میرے ذہن میں تازہ ہوگئے۔ سادھو کے مرنے کے بعد جو سکون ملا تھا وہ ایک پل میں غارت ہوگیا۔
’’یہ آواز کس کی تھی؟ کون تھی جو مجھے موہن کے نام سے پکار رہی تھی؟ وہ نظر کیوں نہیں آرہی تھی؟‘‘ کئی سوالات میرے دماغ میں چکرا رہے تھے لیکن ان کا جواب کون دیتا؟ میں سوچتا رہا۔
صائمہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی شاید سو گئی تھی۔ میں نے بچوں اور صائمہ کے اوپر پڑا ہوا کمبل درست کیا اور دراز سے سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ سوچوں نے ایک بار پھر میرے دماغ کا گھیراؤ کر لیا۔ جب سے ہم اس گھر میں آئے تھے کچھ نہ کچھ ہوتا رہا تھا۔ کیا صائمہ کی باتیں اس کا وہم نہ تھیں؟ کیا واقعی کوئی آنٹی کھانے پینے کی اشیاء بچوں کو لا کر دیتی اور ان سے کھیلتی تھی؟
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صائمہ کا اصرار تھا اس نے اپنی آنکھوں سے ایک عورت کو مومنہ کو جھولا جھلاتے دیکھا تھا۔ ’’یقیناً یہ اسی عورت کی آواز تھی‘‘ اس نے میرے پوچھنے پر کہا تھا ’’میں تو رہتی ہی یہیں ہوں۔ آئے تو تم ہو میرے من مندر کے دیوتا‘‘ کیا وہ ہندو ہے؟ سوالات میرے دماغ پر یلغار کر رہے تھے۔ سادھو بھی ہندو تھا۔ حالات کی کڑیاں یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ ان سب واقعات کے پیچھے اس منحوس سادھو کا ہاتھ ہے۔
’’لیکن وہ تو مر چکا ہے میرے سامنے ہی بلیوں نے ا س کا گوشت کھا لیا تھا اس کا ڈھانچا عبرت کا نشان بنا مریے سامنے پڑا تھا۔ کیا مرنے کے بعد اس کی روح ہمیں تنگ کر رہی ہے؟ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ سوالات کا ایک ہجوم میرے دماغ میں اکٹھا ہو چکا تھا۔ بحیثیت مسلمان میرا اس بات پر کامل یقین ہے کہ روحیں مرنے کے بعد عالم الارواح میں چلی جاتیں ہیں جہاں ان کو ان کے اعمال کے مطابق سزا یا جزا دی جاتی ہے۔ پھر یہ ہندو عورت کون ہے؟ جس کی آواز تھوڑی دیر قبل ہمیں سنائی دے رہی تھی۔ اس کے نظر نہ آنے سے اس پر ماورائی مخلوق کا گمان ہوا تھا۔ مجھے یاد آیا اچانک مجھے آیاد سادھو نے مرنے سے پہلے اپنے کسی نادیدہ گرو سے باتیں کی تھیں اور اس سے اجازت مانگ کر میرے اوپر حملہ کیا تھا۔
ایک بلی نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر مجھے بچالیا تھا تو کیا یہ کارستانی سادھو کے اس استاد کی ہے؟ شاید وہ اپنے چیلے کے موت کا بدلہ مجھ سے لینا چاہتا ہو۔ سفید بلی جس نے متعدد بار مجے مشکلات سے نکالا تھا اب غائب تھی۔ سوچ سوچ کرمیرے سر میں درد شروع ہوگیا لیکن کسی بات کی سمجھ نہ آئی۔
باہر طوفانی بارش جاری تھی ۔ تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے کھڑکی کے شیشوں پر بارش کے قطرے شور پید اکر رہے تھے۔ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج سے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ کمرہ بند ہونے کے باوجود غضب کا شور اندر آرہا تھا۔ مجھے صائمہ اور بچوں کی نیند پر حیرت ہو رہی تھی وہ کیسے اتنے شور میں سو رہے ہیں؟ بچوں کے بارے میں تو خیر کہا جاسکتا ہے ان کی نیند پکی ہوتی ہے لیکن صائمہ جس کی آنکھ ذرا سی آہٹ پر کھل جایا کرتی آج یوں بے خبر سو رہی تھی جیسے کسی ساؤنڈ پروف کمرے میں ہو۔ حالانکہ ابھی اس نے کہا تھا کہ ان حالات میں اسے کیسے نیند آسکتی ہے؟
’’اچھا ہی ہوا کہ اسے نیند آگئی تھی ورنہ خوامخوہ پریشان ہوتی‘‘ یہ سوچ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی۔ نیند بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمتہے ساری مشکلات اور غموں سے وقتی طور پر ہی سہی چھٹکارا دلا دیتی ہے۔ میں نے پیار سے صائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے جسم پرپڑے کمبل کو ٹھیک کیا۔ ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے جب بھی میں سنتا فلاں گھر پر جنات نے قبضہ کر لیا ہے یا کسی پر آسیب کا اثر ہوگیا ہے تو بلا دھڑک کہہ دیتا یہ سب من گھڑت باتیں جاہل لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے پھیلا رکھی ہیں لیکن جب ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو مجھے یقین آگیا اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ میں بنیادی طور پر ایک دلیر شخص ہوں ڈر خوف میری فطرت میں نہیں ہیں لیکن جو کچھ اس شہرمیں آنے کے بعد میرے ساتھ ہوتا رہا اس نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔ مجھے خطرہ تھا صائمہ اور بچوں کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ میں نے سر دیوار سے ٹکا کر آنکھوں موند لیں ۔شاید غنودگی میں تھا کہ کھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ صائمہ اور بچے بے خبر سو رہے تھے۔ مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے میرا جسم شل ہو گیا تھا۔ بارش اور طوفان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ اچانک بجلی کا رابطہ بحال ہوگیا کمرے میں ہر طرف روشنی پھیل گئی۔
صائمہ میرے پاس اس کے بعد احد اور ساتھ ہی مومنہ لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اٹھ کر ایمرجنسی لائٹ بجھائی اور ابھی لیٹنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مومنہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو میں یہ سمجھا شاید وہ نیند میں اٹھ کر بیٹھ گئی ہے کیونکہ بچپن میں اسے نیند میں چلنے اور بولنے کی عادت تھی۔ وہ یک ٹک صائمہ کی طرف دیکھ رہی تھی میں اسے لٹانے کے ارادے سے اس کی طرف بڑھا اچانک اس نے میری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ جب وہ بولی تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس کے منہ سے اسی عورت کی آواز نکلی جو تھوڑی دیر پہلے کمرے میں سنائی دے رہی تھی جس نے اپنا نام رادھا بتایا تھا۔
’’موہن! یہ میں ہوں تمری رادھا۔۔۔اس سمے میں تمری پتری کے شریر میں ہوں‘‘ میں نے فوراً صائمہ کی طرف دیکھا اور اسے سوتے پا کر شکر ادا کیا اگر وہ جاگ رہی ہوتی تو شاید خوف سے اس کا دم ہی نکل جاتا۔ اچانک مومنہ کے حلق سے پھر وہی نسوانی آواز نکلی۔
’’موہن! جانتی ہوں تم اپنی پتنی سنگ ادھیک پریم کرتے ہو، پرنتو اس بات کا اوش دھیان میں رکھنا میں بھی تم سے پریم کرتی ہوں۔ جانتی ہوں تم اپنے من میں کیاٹھانے بیٹھے ہو؟ یہی نا۔۔۔سویرا ہوتے ہی واپس اپنی ماتا کے گھر چلے جاؤ گے یدی تم ایسا وچار بھی من میں لائے تو اپنی سنتان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے‘‘
میں نے ایک بار پھر صائمہ کی طرف دیکھا وہ بے خبر سو رہی تھی حالانکہ مومنہ کے منہ سے نکلنے والی آواز خاصی بلند تھی ۔ میرے یوں بار بار صائمہ کی طرف دیکھنے سے آواز (میں اسے آواز ہی کہوں گا کیونکہ نظر توکوئی نہیں آرہا تھا ) جھنجھلا گئی۔
’’میں نے اسے سلا دیا ہے جانو یہ اس سمے سنسار میں ہے ہی نہیں‘‘ مجھے اس کی بات بہت بری لگی میں نے غصے سے کہا
’’تم کون ہو اورکیون ہمارے پیچھے پڑ گئی ہو ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کیا تمہیں سادھو کے استاد نے بھیجا ہے؟ اگر ایسا ہے تو تم اسے بتاؤ کہ سادھو کی موت میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہیں شاید میری بات پر یقین نہ آئے لیکن اس معمولی سی بلی نے اس کا نرخرہ ادھیڑ دیا تھا اور یہ سب کچھ میرے سامنے ہوا۔‘‘ میں نے اسے یقین دلایا۔
’’بہت بھولے ہو‘‘ اس کی مدھر ہنسی سنائی دی کمرے میں جیسے جلترنگ بج اٹھا۔
’’تم جو کوئی بھی ہو خدا کے لی ہمارا پیچھا چھوڑ دو‘‘ اس بارمیں نے اس سے درخواست کی۔
’’میں تم سے پریم کی بات کر رہی ہوں اور تم۔۔۔سنو میرے میت! جب تک تم اس گھر میں رہو گے تمری پتنی اور سنتان جیوت رہیں گے۔ یہاں سے کہیں اور جانے کا وچارکیا یا ایک شبد تم نے اپنے بوڑھے متر سے کہا تو پھر اتنے بدھی مان(عقلمند) تو تم ہو ہی۔۔۔‘‘ اس کے بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ میں اس کی ادھوری بات کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ بوڑھے متر سے مراد شریف کے والد صاحب تھے۔ مومنہ بدستور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنی جگہ پر بیٹھی تھی۔ میں نے سوچا مومنہ پر کچھ پڑھ کر پھونک ماروں جیسا تھوری دیر پہلے صائمہ نے کیا تھا کہ سرسراتی ہوئی آواز آئی۔
’’سنو مورکھ! جس جاپ(پڑھائی) کا وچار تم اپنے من میں کر رہے ہو یدی تم نے اسے آرمبھ(شروع ) کیا تو تمری یہ کومل پتری جیوت نہ رہے گی۔ جس سمے تمری پتنی نے یہ جاپ کیا تھا میں نے کسی کے شریر میں پروریش نہ کیا تھا جبھی وہ پاپن سپھل ہوگئی تھی۔ پرنتو اب بات کچھ اور ہے اب ایسا وچار بھی من لائے تو ۔۔۔‘‘ اس نے ایک بار پرھ اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔میری ننھی معصوم بیٹی کے جسم پر کسی نادیدہ شیطانی قوت نے قبضہ جما رکھا تھا اور میں کچھ نہ کر سکتا تھا عجیب بے بسی کا عالم تھا۔
’’موہن۔۔۔! ‘‘ایک بار پھر مومنہ کے منہ سے وہی آواز نکلی۔ اس بار آواز میں پہلے والا سریلا پن اور شرینی تھی۔ ’’کس وچارمیں گم ہو؟‘‘
’’تم مجھے موہن کیوں کہتی ہو جبکہ میرا نام فاروق خان ہے‘‘ میں نے ہمت کرکے پوھا۔ جواب میں سریلی ہنسی سنائی دی۔
’’تم کوئی بھی ہو۔۔۔تمرا سبھ نام کچھ بھی ہو؟ تم میرے موہن ہی ہو!‘‘ جواب ملا۔
’’اچھا یہ بتاؤ موہن کون ہے؟‘‘ رفتہ رفتہ خوف کی جگہ تجسس نے لے لی تھی۔ اس بار وہ بولی تو آواز میں اداسی کا تاثر تھا۔
’’موہن میرا پتی تھا۔۔۔میرے من مندر کا دیوتا۔۔۔میرا پریمی تھا۔ سنسارمیں اس جیسا سندرکوئی نہ تھا‘‘ وہ ایک جذب کے عالم میں بول رہی تھی’’پرنتو تمرے دھرم کے ایک مہان گرو نے اسے بھسم کر دیا‘‘ اس کی آواز براگئی۔ کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر فضامیں اس کی سسکیاں گونجنے لگیں۔ بظاہر مومنہ سسکیاں لے رہی تھی لیکن مومنہ کا تو صرف جسم استعمال ہو رہا تھا جبکہ اس کے اندر کوئی اور بول رہا تھا۔
’’لیکن کیوں۔۔۔؟‘‘ بے اختیار میں نے پوچھا’’اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیا نام بتایا تھا ت نے ہاں ۔۔۔موہن، تمہارے شوہر نے ایسا کیا کیا تھا جو کسی نے اسے جلادیا؟‘‘
’’سمے اانے پر اپنی پوری جیون کتھا (زندگی کی کہانی) سمے آنے سنا دوں گی‘‘ اس بار ٹھہری ہوئی آواز میں کہا گیا۔
’’کیا تم ہندو ہو۔۔۔؟ ‘‘ خاموشی کا وقفہ آیا تو میں نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔پرنتو دھرم میں کیا رکھا ہے؟ دھرم تو سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہر دھرم میں پریم کی شکشا (محبت کا سبق) دی جاتی ہے۔ کیا تمرا دھرم یہ سکھاتا ہے کہ کسی پریمیکا (محبوبہ) سے اسکا پریمی دورکر دیا جائے؟‘‘ اس پاپی نے میرے موہن کو مجھ سے دور کردیا ۔۔۔بڑا نیائے (ظلم) کیا اس دھشٹ (ظالم) نے میں نے بھگوان کی سوگندکھائی۔ جب تک اس پاپی کا سروناش(تباہ) نہ کر دوں میری آتما(روح) شانت(پرسکون) نہ ہوگی۔ پرنتو مجھ سے پہلے ہی بھگوان نے اسے نرکھ میں بھیج دیا‘‘ آواز میں غصہ اورجھنجھلاہٹ تھی۔
’’لیکن کیوں۔۔۔؟‘‘
’’کہا نا ۔۔۔سمے آنے پر سب بتا دوں گی پرنتو ابھی بھی تمرے کسی پرشن کا اتر نہیں دے سکتی۔ اب تکنہ جانے کتنے منش یہاں آئے میں نے کسی کو یہاں ٹکنے نہ دیا پرنتو ۔۔۔تمہیں میں اپنی اچھا کے انوسار(مطابق) یہاں لائی ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب ؟ تمہاری کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’سب جان جاؤ گے پریتم! دھیرے دھیرے ‘‘ اس نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے مجھے تسلی دی۔
’’کیاڈاکٹر طاہر اور اس کی بیوی نورین کوبھی تم نے ہی مارا تھا؟‘‘
’’کیول انہی کو نہیں۔۔۔جو بھی یہاں آیا وہ یا تو اس استھان(جگہ) سے گیا یا اس سنسار سے۔اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
میرا تجسس بڑھ گیا۔ میں جلد از جلد اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا۔
’’ورشوں بعد میرے من کو شانتی ملی ہے۔۔۔میرا موہن مجھے پھر مل گیا ہے‘‘ وہ اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر صائمہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک بے خبر سو رہی تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہیں اس نے صائمہ کے ساتھ کچھ کر تو نہیں دیا۔
’’چنتا نہ کرو پریمی! تمری پتنی کو کچھ نہں ہوا یہ سب میرے جاتے ہی کھد جاگ جائے گی۔ اس نے جو کچھ کیا ہے من کرتا ہے اس کے کرموں کے کارن ایسا شراپ دوں کہ یہ جیون بھر یاد رکھے پرنتو تمرا دھیان آجاتا ہے۔‘‘ اس کے لہجے کی سختی سے میں کانپ گیا۔ ’’سنو موہن! یدی اس نے ہمرے بیچ آنے کی اوشکتا کی تو میں اسے ایک پل میں نرکھ میں پہنچا دوں گی‘‘ اس کی قہر بار آواز آئی۔
’’اس نے ایسا کیا کیا ہے جو تمہیں اس پر اتنا غصہ آرہا ہے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’یہ سارا دن پوجا پاٹ(عبادت) میں جتی رہتی ہے اورہر رینا سونے سے پہلے نہ جانے کیاجاپ کرتی ہے جس کے کارن مجھے یا تو یہاں سے جانا پڑتا ہے یا کشٹ بھوگنا پڑتا ہے ۔یدی اس نے ایسا کرنا نہ چھوڑا تو میں اسے نرکھ میں جھونک دوں گی‘‘ قہر بار لہجے میں کہا گیا۔
میں اس کی بات سمجھ گیا تھا صائمہ کی عادت تھی روزانہ رات کو سونے سے پہلے وہ 41بار آیۃ الکرسی پڑھ کر سارے گھر میں پھونک دیا کرتی۔ اس بار جب وہ لاہور گئی تو یہ وظفیہ اس کی پھوپھو نے اسے بتایا تھا ان کا کہنا تھا اگر روزانہ یہ وظیفہ پڑھا جائے تو گھر میں جنات اور جادو کا اثر باطل ہو جاتا ہے اس دن سے صائمہ نے اسے معمول بنا لیاتھا جب وہ مخصوص ایام میں ہوتی تو مجھے پڑھنے کے لیے کہہ دیا کرتی ورنہ تو اس کا معمول تھا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔یہ اسیا کچھ نہیں کرے گی تم میرا یقین کرو‘‘ کہیں یہ صائمہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے اس لیے میں نے جلدی سے کہا۔
’’یدی اس نے ہمرے بیچ آنے کا وچارکیا تو ۔۔۔‘‘ اس کی ادھوری بات میں دھمکی پوشیدہ تھی۔
’’تو کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’اس کی مرتیو تم اپنے ان سندرنینوں سے کھد دیکھ لو گے‘‘ اس کے منہ سے پھنکار سی نکلی۔ اس وقت اپنی بیوی بچوں کوبچانے کے لیے اس سے کوئی بھی وعدہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بس ایک بار اس کے چنگل سے نکلنا ضروری تھا۔ آواز پھر سنائی دی۔
’’موہن ! یدی تم نے میرے ساتھ کوئی چھل کپٹ (دھوکہ فریب) کرنے کی اوشکتا کی تو ان میں سے ایک بھی جیوت نہ رہے گا‘‘ اس کا اشارہ صائمہ اور بچوں کی طرف تھا۔ کمبخت دل کی بات بھی جان لیتی تھی۔
’’ٹھیک ہے ۔۔۔میں تمہارے ساتھ کوئی دھوکہ فریب نہ کروں گالیکن تمہیں بھی ایک وعدہ میرے ساتھ کرنا ہوگا‘‘ میں نے کہا
’’کہو میرے من مندر کے دیوتا! یہ داسی تمہں وچن دیتی ہے تمرا کہا میرے لئے بھگوان کے کہے سمان ہوگا۔‘‘فوراً جواب آیا۔
’’تم صائمہ اور بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گی‘‘ میں اس پوزیشن میں تو نہ تھاکہ اسے سے کوئی بات منوا سکوں لیکن اسکی اب تک کی گفتگو سے میں یہ سمجھا تھا کہ وہ میری محبت کا دم بھرتی ہے۔
’’نشچنت(بے فکر) رہو جب تک تمری اور(طرف) سے کوئی چھل نہ ہوا میں وچن دیتی ہوں ان کو کچھ نہ ہوگا۔ پرنتو تم بھی مجھے وچن دو کہ تم میرے سنگ وشواس گھات(اعتماد کو دھوکہ) نہ کرو گے۔ یدی ایسا نہ ہوا تو پھر میرا کوئی دوش نہ ہوا۔ تم سن رہے ہونا موہن؟‘‘ اس نے کہا۔
’’تم جیسا کہو گی ویسا ہی کروں گا۔‘‘ میں نے اسے اطمینان دلایا۔
’’تم کہتے ہو تو مان لیتی ہون پرنتو منش پر سے میرا واشواس اٹھ چکا ہے۔ وہ پاپی بھی تو ایک منش تھا جس نے میرا پریمی، میرا موہن مجھ سے چھین لیا۔ پرنتو اس بار میں ایسا نہ ہونے دوں گی‘‘ اس کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔
’’یہ تو واقعی بڑے دکھ کی بات ہے کہ تمہارے خاوند کو کسی نے مار دیا؟‘‘ میں نے بڑی اپنایت سے کہا۔ دراصل میں اس کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اگر مقابلہ کسی انسان سے ہوتا تو میں اسے مزا چکھا دیتا لیکن میرا واسطہ تو ایک ان دیکھی مخلوق سے پڑا تھا جس کا میں کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس لئے اس وقت میں نے اس سے ہمدردی جتائی اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے یقین دلایا تھا کہ میں اس سے کوئی دھوکہ نہ کروں گا۔ مجھے یقین تھا کہ اس مشکل سے نکلنے کی کوئی سبیل انشاء اللہ نکل ہی آئے گی۔ کمرہ گلاب کی خوشبو سے مہکا ہوا تھا۔
’’موہن!‘‘ آواز نے اپنی سوچوں کے بھنور سے نکلتے ہوئے کہا’’کیا بات ہے؟‘‘
’’ایک وچن مجھے اور دو‘‘ رادھا نے کہا۔
’’وہ کیا۔۔۔؟‘‘ میں تمہاری بات نہیں سمجھا‘‘
’’تمہیں یاد ہوگا جب تمری پتنی تمرے پاس آتی تھی تو اسکے ہاتھ میں گلاب کا پھول ہوتا تھا۔‘‘
مجھے وہ راتیں یاد آگئیں جب صائمہ میرے کمرے میں آتی تھی تو اس کے ہاتھ میں گلاب کا تازہ پھول ہوتا۔ دوسرے دن جب میں اس سے پوچھتا تو وہ اس بات سے انکاری ہوتی کہ وہ رات کو میرے پاس آئی تھی۔ اس کے بعد وہ سارے واقعات پیش آنے لگے جن کی وجہ میں شدید بیمار ہو کر ہسپتال جا پہنچا تھا۔
’’کیول شریر تمری پتنی کا ہوتا تھا پرنتو وہ میں تھی‘‘اس انکشاف پر میں رہ گیا۔ میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ قربت کے ان لمحات میں صائمہ کے انداز میں جس طرح کی بے باکی اور وارفتگی ہوا کرتی وہ اس فطرت کی نہ تھی۔ مجھے تعجب تو تھا لیکن یہ سوچ کر وہ مجھے بہت چاہتی ہے میں نے کوئی خیال نہ کیا تھا۔ جنہیں میں صائمہ کی ادائیں سمجھتا رہا تھا وہ یہ کمبخت تھی یہ جان کر مجھے بڑا عجیب لگا۔
’’ورشوں بعد میرے بیاکل شریر کو شانتی مل تھی پرنتو اس کلٹانے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا‘‘ اس کے لہجے میں صائمہ کے لئے نفرت تھی۔
’’کیا صائمہ جانتی ہے کہ اسکے بجائے تم میرے بستر پر آتی تھیں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں میرے دیوتا! اسے کچھ کھبر نہیں پرنتو جو جاپ وہ ہر رینا کرتی ہے اس کا رن مجھ بہت کشٹ بھوگنا پڑتا ہے‘‘ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی ہلکی ہلکی بوندا باندی اب بھی جاری تھی۔ میں اور میری معصوم بیٹی آمنے سامنے بیٹھے تھے اس کے جسم پر ماورائی مخلوق قابض تھی۔ میرے دل میں طرح طرح کے خدشات جنم لے رہے تھے کہیں میری معصوم بیٹی کو نقصان نہ پہنچ جائے؟ وہ میری کیفیت بھانپ گئی۔
’’موہن! میں نے تم سے کہا ہے نا جب تک تم میری آگیا کا پالن کرتے رہو گے انہیں کچھ نہ ہوگا تمہیں میرے وچن پرشواس کرنا چاہئے‘‘ اس نے مجھے اطمینان دلایا۔
’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے ایک آہ بھری۔ اس کے علاوہ میں کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
’’ایک بات اور جان لینا تمرے واسطے بہت جروری (ضروری) ہے‘‘ آواز آئی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے مومنہ کی طرف دیکھا ’’سادھو امر کمار ایک مہان سادھو تھا۔ اس نے اپنا سارا جیون کالی ماتا کی تپسیا اور بھگتی (عبادت اور خدمت) میں بتا دیا تھا۔ کیول تمرے کارن اسے پرلوک بھیج دیا گیا۔ جب تک تم میری شرن (پناہ) میں ہو اس کا گرو تمہیں کچھ بھی نہ کہہ سکے گا پرنتو، وہ تم پر کرودھ(غصہ) ہے اور سمے کا انتجار(انتظار ) کر رہا ہے جب تم میری شرن سے باہر آؤ وہ تم سے اپنے چیلے کی مرتیو کا بدلہ لے۔ اس لئے بھی تمرا یہاں رہنا جروری ہے میری بات سمجھ رہے ہو نا‘‘ اس نے کہا۔
میں نے اثبات میں ہلاتے ہوئے پوچھا’’لیکن میں کب تک گھر میں بند ہو کر بیٹھا رہوں گا۔۔۔مجھے باہر تو جانا ہی پڑے گا۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا ہے گھر میں بندی(قیدی) بن کے بیٹھے رہو۔ باہر جاؤ کام کاج کرو بس میری یہ بنتی (التجا) مان لو اپنی پتنی سے کہو وہ جاپ بند کر دے جس کے کارن مجھے یہاں سے جانا پڑتا ہے۔‘‘
’’لیکن میں اس سے کیسے کہہ سکتا ہوں کیا تم خود ایسا کچھ نہیں کر سکتیں؟‘‘ میں نے کسی خیال کے تحت پوچھا۔
’’میں کیا کر سکتی ہوں اور کیا نہیں؟ یہ تمہیں آنے والا سمے ہی بتائے گا۔ کیول اتنا جان لو کہ سادھو امر کمار کاگرو بھی تمہیں میرے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘
کہیں یہ اپنے مطلب کے لئے تو مجھے نہیں ڈرا رہی۔ ہوسکتا ہے اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے یہ چاہتی ہو کہ صائمہ آیۃ الکرسی کا ورد نہ کیا کرے میرے دل میں خیال آیا۔
’’تمہیں میرا وشواش کرنا چاہئے موہن! یدی مجھے تم سے پریم نہ ہوتا تو میں سادھو امر کمار کے شراپ سے تمری رکھشا کیوں کرتی؟‘‘ اس کی آواز دوبارہ آئی۔ میں جو سوچتا وہ جان جاتی۔
’’میں تمہیں مطلب نہیں سمجھا تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘ میں بری طرح الجھ گیا۔
’’پریتم! وہ میں ہی تھی جس نے تمری سہائتا کی تھی جب سادھو امر کمار نے تمہیں گھیر لیا تھا ‘‘ اس نے کہا۔
’’کک۔۔۔کیا مطلب؟ میری مدد توایک بلی نے کی تھی‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’بہت بھولے ہو سجنا!‘‘ اسکی مدھر ہنسی پر جلترنگ کا گمان ہوتا تھا ’’اس کی آواز اتنی خوبصورت ہے تو یہ خود کیسی ہوگی؟‘‘ ایک خیال میرے ذہن میں آیا۔
’’بہت بیاکل ہو رہے ہو میرے درشن کرنے کو‘‘ اس کی شوخی سے بھرپور آواز ابھری۔ میں خجل ہوگیا۔۔۔کمبخت ہر بات بھی جان لیتی تھی۔
(جاری ہے )