میں نے چاروں طرف نظر دوڑائیں لیکن بلی کہیں بھی نہ تھی۔
’’شاید کھڑکی کھلی رہ گئی ہے‘‘ یہ سوچ کر میں نے کھڑکی کھولنا چاہی پر وہ بند تھی چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ میں نے ہلکی آواز سے ایک دوبارہ’’مانو‘‘ کرکے پکارا کہ شاید ہو بیڈ یا ٹیبل کے یچے ہو اور باہر آجائے لیکن بے سود۔ میں دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا تھوری دیر بعد مجھے نیند آگئی۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا۔ گھر کے لان میں بیٹھا ہوں شام کا وقت ہے کہ اچانک گیٹ سے ایک نہایت حسین عورت داخل ہو کر مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ میں حیرت سے اسے دیکھتا ہوں وہ اس قدر حسین ہوتی ہے کہ میں گنگ اسے دیکھتا رہتا ہوں میرے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ وہ چلتی ہوئی مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچ جاتی ہے اس کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا کاغز ہے جسے وہ میری طرف بڑھاتی ہے اس پر کچھ لکھا ہوتا ہے۔ میں تحریر پر نظر دوڑاتا ہوں
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتی میرے سجنا!‘‘
بس یہی چند الفاظ اس پر لکھے ہوتے ہیں۔ تحریر پڑھ کر میں نظر اوپر اٹھاتا ہوں تو وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اچانک تیز ہوا کا جھونکا آتا ہے اور کاغذ کو میرے ہاتھوں سے اڑا کر لے جاتا ہے میری آنکھ کھل گئی۔ سامنے کارپٹ پر صائمہ نماز پڑھ رہی تھی۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا رات کے تین بجے تھے صائمہ تہجد پڑھ رہی تھی۔ میں کروٹ بدل کر دوبارہ سو گیا۔
دوسرے دن میری طبیعت پوری طرح سنبھل گئی۔ میں نے بینک جانا شروع کر دیا۔ زندگی ایک بار پھر معمول پر آگئی۔ کچھ دن مزید گزر گئے کوئی خلاف توقع بات نہ ہوئی تو میں بھی سب کچھ بھلا کر مطمئن ہو گیا۔ ایک ہفتہ واقعی سکون سے گزر گیا کوئی ایسی بات نہ ہوئی جو پریشانی کا باعث بنتی۔ شاید سادھو کی موت کے بعد سارے مسئلے ہی حل ہو گئے تھے۔ اس دوران آتے جاتے ملنگ بھی کہیں نظر نہ آیا۔
ایک دن میں شریف کے والد صاحب کی خدمت میں حاضری دینے گیا انہیں سارے حالات بتائے۔ ان سے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا میں نے بھی زیادہ پرواہ نہ کی اور گھر آگیا۔ کھانا کھانے کے بعد صائمہ اور بچے تو سو گئے جبکہ میں بینک سے لائی فائلز دیکھنے لگا۔ بیماری کی وجہ سے کافی سارا کام پینڈنگ تھا جس کی وجہ سے میں اکچر فائلز گھر لے آتا اور دیر تک کام کیا کرتا۔ جب تھکن محسوس ہوئی تو میں نے ایک زور دار انگڑائی لی اور سونے کے لئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ رات کو مجھے واہی خواب دوبارہ دکھائی دیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس بار وہ عورت مجھ سے کم فاصلے پر کھڑی ہوئی تھی۔ صبح اٹھ کر مجھے یاد آیا تو میں نے سر جھٹک دیا۔ میں خوابوں پر یقین کرنے والا نہ تھا۔ وقت کا دریا اپنے مخصوص انداز میں بہتا ہرا۔ ہم چھٹی والے دن کبھی پروفیسر بیگ کے کبھی عمران کے گھر چلے جاتے۔ کبھی ہمارے گھر پر محفل جمتی انکل بہت بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ اس پر عمران۔۔۔بات کم کرتا لطیفے زیادہ سناتا تھا۔ اس دوران محرم الحرام کی چھٹیاں ہوئی توہم تین دن لاہور گزار کر آئے۔ خوب گھومے پھرے انجوائے کیا۔ واپس آئے کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ میری ساس اور چھوٹی سالی ناعمہ آگئیں۔ صائمہ اور ناعمہ کی شادی ایک ہی دن ہوئی تھی۔ اس کا شوہر اسسٹنٹ کمشنر اور ان دنوں وہ رحیم یار خان میں تعینات تھا ۔ صائمہ کے برعکس ناعمہ بہت شوخ تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہر وقت شرارت ناچتی رہتی۔ ابھی تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔ میرے بچوں کے ساتھ اس کا بہت پیار تھا۔ بچے بھی اس کے دیوانے تھے۔ ایک دن ہم سب رات کے کھانے کے بعد بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ناعمہ کہنے لگی۔
’’بھائی جان! آپ کے گھر میں جنات تو نہیں؟‘‘
’’جہاں تم موجود ہو وہاں جنات کی مجال ہے کہ وہ آسکیں؟ یوں بھی جنات چڑیلوں سے ڈرتے ہیں‘‘ میری بات پر سب ہنس پڑے۔ جس پر اس نے گھور کر سب کو دیکھا اور کہنے لگی۔
’’آج صبح میں اوپر والے بیڈ روم میں بیٹھی ناول پڑ رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے سوچا باجی آئی ہوں گی مڑ کر دیکھا تو دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن کوئی موجود نہ تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے ہوا سے کھل گیا ہو میں پھر ناول کی طرف متوجہ ہوگئی۔ اچانک زور دار آواز سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس کے بعد ایسے آواز آئی جیسے کوئی دروازے کے سامنے ٹہل رہا ہو۔ مجھے ڈر لگا میں جلدی سے نیچے آگئی۔‘‘
میری ساس صائمہ کو کوئی بات سنانے لگیں تو موضوع بدل گیا۔ یوں بھی وہ ناعمہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھیں وہ سارے گھر میں جھوٹی مشہور تھی بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ لوگ دو دن مزید رہ کر واپس چلے گئے۔ ایک دن میں حسب معمول میں بینک میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ صائمہ کا فون آیا۔
’’فاروق ! میرا ڈائمنڈ کا سیٹ آپ نے کہیں رکھ دیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔میں نے تو دیکھا ہی نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں صبح سے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔الماری میں نہیں ہے۔‘‘ صائمہ کی پریشانی سے بھرپور آواز آئی۔
’’اچھی طرح دیکھ لو کہیں رکھ کر بھول گئی ہوگی۔‘‘
’’میں نے ہر جگہ اچھی طرح دیکھ لیا ہے‘‘ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
’’ایک بار پھر دیکھ لو یہیں کہیں ہوگا۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
’’اچھا ایک بار پھر دیکھ لیتی ہوں۔‘‘ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔
شام کو میں گھر آیا تو صائمہ پریشان بیٹھی تھی’’نہیں ملا‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔
’’کیا نہیں ملا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ میں نے دن کو بتایا نہیں تھا کہ میرا ڈائمنڈ کا سیٹ نہیں مل رہا۔‘‘ یہ سیٹ میں نے اسے منہ دکھائی کے طور پر دیا تھا اور اسے جان سے زیادہ عزیز تھا۔
’’لیکن وہ کہاں جا سکتا ہے؟‘‘ میں سیٹ کے لئے فکر مند نہ تھا لیکن صائمہ کی پریشانی مجھے کسی طور گوارا نہ تھی۔
’’فاروق! کہیں۔۔۔‘‘ صائمہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ کہتے ہوئے جھجک رہی تھی۔
’’کیا کہہ رہی تھیں تم؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ایسا ہو تو نہیں سکتا لل۔۔۔لیکن‘‘ پھر وہ خاموش ہوگئی۔
’’کیا بات ہے صائمہ! تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟‘‘
’’کہیں ناعمہ نے تو نہیں لیا‘‘ آخر کار وہ دل کی بات زبان پر لے آئی۔
’’بری بات ہے صائمہ! یوں کسی پر الزام نہیں لگاتے جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا جائے‘‘ میں نے اسے سرزنش کی وہ رونے لگی۔
’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ میں نے اس کا خیال ہٹانے کی خاطر سوال کیا۔
’’کارٹون دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اس نے شوں شوں کرتے بتایا تبھی میں سوچ رہا تھا کہ وہ گاڑی کی آواز سن کر بھی باہر نہ نکلے تھے۔ میں نے صائمہ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’کیوں رو رہی ہو۔ مل جائے گا کہیں رکھ کر بھول گئی ہوگی ہو بھی تم بھلکڑ۔ کافی دیر سے شوہر صاحب آئے آئے ہوئے ہیں لیکن تمہیں چائے بنانا بھی یاد نہ رہا۔‘‘
اس نے سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھا پھر بنا کچھ کہے کچن کی طرف چلی گئی۔ چائے کی بات میں نے اس لئے کی تھی کہ صائمہ کا رونا مجھ سے دیکھا نہ جا رہا تھا۔ میں جانتا تھامیرا دیا تحفہ اسے کتنا عزیز ہے؟ کچن میں وہ شاید روتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں رونے سے اور حسین ہوگئی تھیں۔
’’ارے جانم! اتنی سی بات پر ہیروں سے زیادہ قیمتی موتی اپنی ان حسین آنکھوں سے لٹا رہی ہو؟ ایسے کئی ڈائمنڈز تم پر قربان، میں تمہیں اور لا دوں گا۔‘‘
اس نے شاکی نظروں سے میری طرف دیکھا۔’’آپ جانتے ہیں مجھے ڈائمنڈز کی پرواہ نہیں وہ تو میرے لئے اس وجہ سے قیمتی تھا کہ آپ نے دیا تھا۔ میرے پاس دوسرا سیٹ جو ممی نے دیا تھا موجود ہے وہ گم ہو جاتا تو مجھے کوئی پرواہ نہ تھی ‘‘ اس نے سسکتے ہوئے کہا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
’’غم نہ کرو کہتے ہیں نا۔۔۔مال جان کا صدقہ، جان ایمان کا صدقہ۔۔۔تم سلامت رہو چیزیں تو اور مل جائیں گی۔ ‘‘ میری تسلی سے اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ دو تین دن تک صائمہ اس سیٹ کا یاد کرکے کئی بار روئی پھر آہستہ آہستہ اس کا غم ہلکا ہوگیا۔ کسی کسی وقت وہ اسے یاد کرکے ایک ٹھنڈی آہ بھر لیتی۔ وقت اپنے مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ میں پچھلی باتیں بھول چکا تھا۔ اس کے بعد میری محسنہ بلی بھی دکھائی نہ دی تھی۔
دسمبر کا مہینہ تھا سردی اپنے پورے شباب پر تھی۔ شام کو میں بینک سے واپس آیا تو صائمہ حسب معمول ہیٹر جلائے بچوں کو ہوم ورک کروا رہی تھی۔ میں باتھ روم سے فریش ہو کر نکلا چائے پینے کے بعد میں کچھ دیر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ رات کا کھانا بھی ہم نے بیڈ روم میں ہی کھایا۔ بچے بیڈ پر بیٹھے کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ صائمہ ہیٹر کے پاس بیٹھی مومنہ کا سوئیٹر بن رہی تھی۔ اسکے ہاتھ تیزی سے سلائیوں پر چل رہے تھے میں کچھ دیر اس کے ساتھ باتیں کرتا رہا پھر ناول اٹھا لیا جسے میں نے کئی دن پہلے شروع کیا تھا لیکن مصروفیت کی وجہ سے مکمل نہ کر سکا تھا۔ بچے کچھ دیر تو کھیلتے رہے پھر تھک کر ہمارے پاس ہی کارپٹ پر لیٹ گئے اچانک اون کا گولہ اپنی جگہ سے اچھلا اور سامنے کی دیوار پر جا لگا۔
صائمہ نے گھور کر احد کی طرف دیکھا میں بھی چونک گیا۔ ہمارا متشرکہ خیال تھا یہ شرارت اس کی ہے مگر وہ آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔
’’یہ مکر کر رہا ہے۔‘‘ صائمہ نے کہا
پھر اسے ڈانٹنے لگی’’احد بیٹا! بری بات ہے دیکھو بہنا سو بھی گئی اور آپ ابھی تک جاگ رہے ہو۔‘‘ لیکن اس نے کسی رعمل کا اظہار نہ کیا۔
صائمہ نے اٹھ کر اون کا گولا اٹھایا اور اسے احد کی پہنچ سے دور گٹھنے کے نیچے دبا لیا اور دوبارہ سوئیٹر بننے لگی۔ میں بھی ناول کی طرف متوجہ ہوگیا۔چند لمحے گزرے ہوں گے کہ صائمہ چونک کر گھٹنے کے نیچے دبے ہوئے اون کے گولے کی طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور حیران رہ گیا۔ اون کا گولا آہستہ آہستہ اس کی ٹانگ کے نیچے سے خودبخود باہر نکل رہا تھا۔ صائمہ نے ٹانگ ہٹائی تو اون کا گولا توپ سے نکلے گولے کی طرح سامنے دیوار پر ایک دھماکے سے جا لگا۔ ہم دنگ رہ گئے۔ اون کے نرم و نازک گولے نے دیوار سے سیمنٹ کا پلستر اس طرح اکھار دیا تھا جیسے لوہے کا وزنی گولا کسی نے پوری قوت سے دیوار پر دے مارا ہو۔
ہم دونوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کی طرف دیکھ رہے تھے کہ گولا دوبارہ اپنی جگہ سے اچھلا اب اس کا رخ صائمہ کی طرف تھا۔ اچانک میری چھٹی حس نے مجھے خطرے سے آگاہ کیا اور میں بجلی کی سی تیزی سے صائمہ کے اوپر جا گرا۔ میرے وزن سے صائمہ قالین پر گر گئی۔ گولا زن کی آواز نکالتا ہمارے اوپر سے گزر کر دوسری دیوار پر لٹکی پینٹنگ سے جا ٹکرایا۔ ایک دھماکے سے پینٹنگ کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ہم تیزی سے اٹھ کر بچوں کی طرف لپکے۔میں صائمہ کو اپنی اوٹ میں لئے ہوئے تھا۔ گولا آہستہ آہستہ اپنی جگہ آگے سرک رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنی جگہ سے اچھلا اور ہمارے سروں کے اوپر سے اڑتا ہوا بیڈ کی دوسری طرف جا گرا۔
’’تم مومنہ کو اٹھاؤ۔‘‘ میں نے احد کو کندھے پر اٹھاتے ہوئے چیخ کرصائمہ سے کہا۔ صورت حال کافی خطرناک ہو چکی تھی۔ میں صائمہ کے سامنے ڈھال بنا ہوا تھا۔ میں نے محسوس کر لیاتھا کہ گولے کا ہدف میں نہیں صائمہ ہے اس لئے میں ہر صورت اسے بچانا چاہتا تھا۔
’’آہستہ آہستہ دوسرے کمرے کی طرف چلو‘‘ میں نے سرگوشی کی۔ اس نے ہراساں نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اچانک کمرہ تیز نسوانی قہقہے سے گونج اتھا۔ صائمہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ خوفزدہ تو میں بھی تھا لیکن میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔ قہقہے کی آواز کمرے میں جیسے چاروں طرف سے آرہی تھی۔ پھر یکدم خاموشی چھا گئی۔اتنی گہری خاموشی جیسے دنیا ختم ہوگئی ہو۔
’’ادھیک پریم کرتے ہو اپنی پتنی سے؟‘‘ نہایت سریلی نسوانی آواز نے پوچھا۔ خوفزدہ ہونے کے باوجود میں آواز کے سریلے پن کو محسوس کیے بنا نہ رہ سکا۔ میں نے ہمت کرکے پوچھا۔
’’کون ہو تم اور کیا چاہتی ہو؟‘‘ آواز پھر آئی۔
’’تمرے پہلے پرسن کا تر تو یہ ہے کہ میں تمری داسی ہوں۔۔۔رادھا، رہی آنے کی بات۔۔۔تو مہاراج ! میں تو ورشوں سے یہیں رہتی ہوں‘‘ آواز میں بلا کا لوچ اور سریلا پن تھا۔
’’پرنتو۔۔۔مہاراج! تم جتنے سندر ہو اتنے ہی کھٹور بھی ہو‘‘ آواز دوبارہ آئی۔
’’تمری پتنی ادھیک سندر(بہت خوبصورت) ہے۔۔۔یہ بھی جانتی ہوں تم کیوں اپنی پتنی سے پریم کرتے ہو۔ پرنتو مہاراج ۔۔۔! میرا وشواس رکھو سندرتا میں بھی کم نہیں ہوں۔‘‘
خوف سے ہمارے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ صائمہ سختی سے بازو تھامے میرے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ اچانک وہی آواز پھر کمرے میں گونجی اس بار اس کا مخاطب صائمہ تھی۔
’’ہند کر اپنا یہ جاپ(پڑھائی) تو کیول اپنے پتی کے کارن جیوت(زندہ) ہے نہیں تو اسی سمے تیری مرتیو(موت) ہو چکی ہوتی جس سمے تو نے یہاں پک(قدم) دھرا تھا‘‘ اس بار آواز میں بے چینی اور کرختگی نمایاں تھی۔
’’موہن! اپنی پتنی سے کہو جو جاپ یہ کر رہی ہے اسے بند کر دے ورنہ قسم بھوانی ماتا(ہندوؤں کی ایک دیوی) ایک پل میں اسے بھسم (جلا) کر دوں گی‘‘ قہر بار آواز دوبارہ آئی۔
اس بار آواز نے شاید مجھے مخاطب کیا تھا۔ کیونکہ وہ صائمہ کو میری بیوی کہہ رہی تھی لیکن اس نے نام کسی موہن کا لیا تھا۔ میں حیران پریشان ابھی اس بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ آواز دوبارہ گونجی۔
’’موہن! میں کہہ رہی اس کلنکنی سے کہو یہ جو کچھ پڑھ رہی ہے اسے بند کر دے۔ تمرا دھیان نہ ہوتا تو یہ کب کا پر لوک(دوسری دنیا) سدھار چکی ہوتی‘‘ اس بار مجھے یقین ہوگیا وہ مجھ سے ہی مخاطب ہے۔ میں نے چونک کر صائمہ کی طرف دیکھا وہ سختی سے میرا بازو تھامے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھی ۔وہ قرآنی آیات کا ورد کر رہی تھی ۔اس نے پڑھتے ہوئے کمرے میں چاروں طرف پھونک ماری۔
’’’میں جا رہی ہوں کلنکنی! پرنتو اتنا جان لے یدی تو یہاں سے جانے کا دھیان بھی من میں لائی تو اپنی سنتان (اولاد) کی مریتو تو کھد (خود ) ہوگی‘‘
مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ احد کو لٹاتے ہوئے میں نے صائمہ سے کہا وہ بھی مومنہ کو لٹا دے۔ اس کے متحرک ہونٹوں سے پتا چل رہا تھا کہ وہ ابھی تک قرآنی آیات کے ورد میں مصروف ہے۔
مومنہ کو لٹا کر اس نے دونوں بچوں پر پھونک ماری اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’فاروق! یہ۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔۔۔اب کیا ہوگا؟ ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں؟‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
’’حوصلہ کرو صائمہ۔۔۔! کچھ نہیں ہوگا۔ صبح ہوتے ہی ہم عمران کے گھر چلے جائیں گے اور جلدی ہی میں یہاں سے تبادلے کے لیے درخواست دے دیتا ہوں۔ اب ہم اس شہرمیں نہیں رہیں گے‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’فاروق! وہ کیا کہہ رہی تھی مجھے تو اس کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔ نہ جانے وہ کس زبان میں بات کر رہی تھی‘‘ وہ سسکنے لگی۔
’’وہ کہہ رہی تھی اگر ہم نے یہاں سے جانے کا ارادہ کیا تو وہ ۔۔۔ہماری اولاد کو مار دے گی‘‘ میں نے وضاحت کی۔ چونکہ وہ ہندی بول رہی تھی اس لیے صائمہ اس کی بات پوری طرح سمجھ نہ پائی تھی۔ اس کا رنگ فق ہوگیا۔
’’اب کیا ہوگا فاروق! ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں‘‘ وہ رونے لگی۔
’’کچھ نہیں ہوگا زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خدائے بزرگ و برتر پر یقین ہے تمہیں ۔وہی ہر چیز پر قادر ہے تم بالکل فکر نہ کرو انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا صبح ہوتے ہی ہم یہاں سے نکل جائیں گے‘‘ میں نے اسے تسلی دی وہ میرے ساتھ لگ گئی۔
’’تم سو جاؤ میں جاگ رہا ہوں‘‘ میں نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
’’اس حالت میں مجھے نیند کیسے آئے گی؟‘‘
’’کوشش کرو نیند آجائے گی‘‘ میں نے زبردستی اسے لٹا دیا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ریوالور نکال کر اپنی گود میں رکھتے ہوئے بولا’’تم اطمینان سے سو جاؤ اگر اب کوئی آیا تو بچ کر نہ جا سکے گا۔‘‘
’’لیکن وہ تو نظر ہی نہیں آتی‘‘ اس نے خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔
اچانک بجلی بڑے زور سے کڑکی اور لائٹ چلی گئی۔ ہر طرف گھپ اندھیرا چھا گیا۔ صائمہ نے جلدی سے اٹھ کر بچوں کے اوپر ہاتھ رکھ لئے کہیں بجلی کے شور سے ان کی آنکھ نہ کھل جائے۔ تیز ہوا کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔
’’فاروق! ایمرجنسی لائٹ جلا لیں مجھے اندھیرے سے ڈر لگ رہا ہے‘‘ صائمہ کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔ میں نے دراز سے لائٹ نکال کر جلا لی۔ بجلی چمکتی تو ایک لمحے کے لئے کمرہ روشنی سے بھر جاتا۔
(جاری ہے )
ٖقست 7 کب شائع ھو گی