اچانک مجھے اپنے جسم میں ایک انوکھی طاقت کا احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس تشدد کے باعث آئے زخم میرے جسم سے یوں ختم ہوگئے جیسے کبھی لگے ہی نہ تھے۔
”ایک جگہ جم کر کھڑے رہنا پرتیم!“ رادھا نے مجھے بڑے پیار سے ہدایت کی۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ رادھا نے اپنی جھیل سی آنکھیں بند کرلیں۔ اچانک اس کے منہ سے عجیب آواز نکلی۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور لا تعداد بلیاں کمرے میں گھس آئیں۔ ہر طرف بلیاں ہی بلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ سب رادھا کے اشارے کی منتظر اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
”کالی داس! اب بھی سمے ہے اپنا جاب بند کرکے یہاں سے چلا جا نہیں تو بھوانی کی سوگند ایک پل میں تیرا یہ شریر میری سکھیوں کا بھوجن بن جائے گا “ رادھا کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔
کالی داس نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شیطانی قوتوں کا رقص جاری تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لکیر گہری ہوگئی۔ ایک نظر بلیوں کی طرف دیکھ کر وہ بولا۔
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”تو اس سمے امر کمار کے گرو کے سامنے کھڑی ہے مورکھ! تو نے کالی داس کی شکتی کا گلط و چار کیا۔ تیری سکھیاں تو کیول تیر امن پرسن کرنے آگئی ہیں۔ یہ جانتی ہیں کہ کالی داس کس شکتی کا نام ہے؟ ان سے کہہ یہ اپنا کریہ آرمبھ (کام شروع) کریں “ کالی داس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
رادھا نے بلیوں کو اشارہ کیا میرا خیال تھا بلیاں اس منحوس کے بدن کو نوچ کر کھا جائیں گی۔ لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی بلیاں اپنی جگہ یوں ساکت تھیں جیسے زندہ نہیں پتھر کی ہوں۔ اچانک رادھا کی آنکھوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے ایک نظر کالی داس پر ڈال کر اپنا خوبصورت ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور بلیوں کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اس کا حسین چہرہ غیض و غضب کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ اس عالم میں بھی وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ اچانک بلیوں کی جسم میں حرکت ہوئی اور سب کی سب کالی داس پر جھپٹیں۔کمرے میں کالی داس کی دھاڑ گونجی۔
”جے کالی ماتا….!“ یہ کہہ کر وہ اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا۔ بلیاں اس کے چاروں طرف پھیل چکی تھیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی لیکن جیسے کسی نادید دیوار نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ کالی داس اطمینان سے انہیں دیکھنے لگا۔
”یدی تو اب بھی مجھ سے شما مانگ لے اور مجھے وچن دے کر تو پھر کبھی اس ملیچھ مسلے سنگ سمبندھ نہ رکھے گی تو میں تجھے شما کو کر سکتا ہوں سمے بیت گیا تو پھر تو دیا کی بھکشا مانگے گی تو نہ ملے گی“ کالی داس نے میری طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے بڑے غرور سے رادھا کو مخاطب کیا۔ رادھا کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔
”مورکھ! مجھے کیول دیوتاﺅں کادھیان ہے نہیں تو اک پل میں میں تجھے نرکھ میں بھیج سیکتی ہوں۔ میری سگھیاں بھی اسی کارن تجھے اور سردے رہی تھیں۔ سمے ابھی گیا نہیں کالی داس ! یدی تو میرے پریتم سے شما مانگ لے اور یہ وچن بھی دے کر پھر کبھی تو ہمرے بیچ نہ آئے گا تو مجھے وشواش ہے میرا ساجن تجھ پر دیا کھا کر تجھے جیون بھکشا دان کر دے گا“ رادھا نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”تو اس پلید کے کارن کالی داس کے آڑے آئے گی۔ تو مجھے اس ملیچھ مسلے سے شما مانگنے کو کہہ رہی ہے“ کالی داس غضبناک ہوگیا۔ اس کے منہ سے کف اڑنے لگا۔
”بھگوان جانتاہے میں نے تجھے سمجھانے میں کوئی کمی نہ کی کالی داس! پونتو تو مورکھ ہے تیرے سر میں بدھی نہیں ماٹی بھری ہے۔ اب دیکھ میری سکتی تو نہیں جانتا رادھا کس شے کا نام ہے “ رادھا کا لہجہ برف سے زیادہ سر تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں میں آگ کے الاﺅ بھڑک اٹھے۔ اس نے اپنے حسین جسم کو ایک بل دیا دونوں ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کرلیں۔ چاروں طرف تیز سرخ روشنی پھیل گئی۔ کمرہ دہکتے تنور کا منظر پیش کرنے لگا۔ چھت سے آگ کا ایک گولا سیدھا اس جگہ گرا جہاں کالی داس کھڑا تھا۔ اچانک کالی داس جست لگا کر ایک طرف ہٹ گیا۔ بلیاں یک دم غائب ہوگئیں۔ آگ کے گولے نے ایک بار پھر کالی داس پر حملہ کیا۔ اس بار بھی کالی داس اچھل کر اس کے زد میں آنے سے بچ گیا۔ گولا بار بار اس پر حملہ کرتا اور کالی داس چھلانگ لگا کر اس سے بچ جاتا۔ اس نے کئی بار کوشش کی کہ وہ ایک جگہ ٹک کر کوئی جاپ کر سکے لیکن گولے نے اسے موقع نہ دیا۔ وہ بھاگتے ہوئے کچھ پڑھ رہا تھا اس کے موٹے موٹے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ آگ کا دہکتا ہوا گولا کالی داس کے پیچھے تھا اور وہ اس سے بچنے کے لیے کمرے میں چاروں طرف دوڑ رہا تھا۔ گولے نے اس ایک جگہ ٹکنے نہ دیا۔ اس کی حالت مضحکہ خیز ہو چکی تھی۔ وہ اپنے سب جنتر منتر بھول کر جان بچانے میں لگا ہوا تھا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ رادھا کے نقرئی قہقہے سے کمرے میں جلترنگ سا بج اٹھا۔ اس کا حسین چہرہ جوش سے سرخ ہو کر قیامت ڈھانے لگا۔ بھاگتے بھاگتے جب کالی داس میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اس کے آگ پاﺅں اڑا دیا۔ وہ اپنے زور میں دھڑام سے زمین پر جا پڑا۔ آگ کا گولہ اس پر جھپٹا قریب تھا کہ وہ اسے جلا کر راکھ کر دیتا کالی داس خوف سے چلایا۔
”بھگوان کے نام پر مجھے شما کر دے رادھا! میں وچن دیتا ہوں پھر کبھی تیری راہ میں نہ آﺅں گا۔ دیوی! مجھ ابھاگی (بدنصیب) پر دیا (رحم) کر“ اس کا زرد رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ وہ قریب آتے گولے کو یوں دیکھ رہا جیسے موت کو دیکھ رہا۔ آنکھیں خوف سے پھٹی ہوئی تھیں۔ رادھا نے اپنے نازک ترین ہاتھ کا رخ گولے کی طرف کر دیا۔ وہ شاید گولے کو اس پر گرانا چاہتی تھی۔
”رادھا! اس حرامزدے کو نہ مارنا۔“ میں اضطراری طور پر چلایا ”اگر یہ مر گیا تو میری معصوم بیٹی کون واپس لائے گا؟“ رادھا جو اپنا ہاتھ جھٹکنے والی تھی میری بات سن کر رک گئی۔ اس کا غضبناک چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگا۔
”کالی داس! میرے موہن کے کارن آج تو بچ گیا۔ اس کی پتری کو ابھی اسی سمے چھوڑ دے“ رادھا نے اسے حکم دیا۔
”دیوی! میں تیری ہر آگیا کا پالن کروں گا کیول ایک بار مجھے شما کر دے میں وچن دیتاہوں پھر کبھی تیرے پریمی کو کچھ نہ کہوں گا۔“ وہ منتوں پر اتر آیا۔ اس کا غرور تکبر سب خاک میں مل گیا تھا۔ مجھے ایک گونا فخر محسوس ہوا۔ رادھا نازک ہونٹوں پر ایک ملکوتی مسکراہٹ لیے مجھے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے کالی داس کو حکم دیا۔
”اپنے بیروں کو آگیا دے وہ اسی سمے موہن کی پتری کو اس کے گھر پہنچ دیں۔ یدی تو نے دیری کی تو پھر تو کھوب جانتا کہ میں….“ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ آگ کا گولہ ابھی تک کالی داس کے سر پر معلق تھا۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے گولے کو دیکھا پھر بڑی لجاجت سے بولا۔
”دیوی جی! اپنے سیوک سے کہہ میرے بیروں کو اندر آنے کی آگیا دے تاکہ میں ان سے کہہ سکوں“ اس کی قابل رحم حالت دیکھ کر رادھا کے منہ سے مدھر ہنسی نکل گئی۔ اس نے گولے کی طرف دیکھا وہ گھومتا ہوا چھت کے پاس جا کر ٹھہر گیا کالی داس اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہونٹ ایک بار پھر ہلنے لگے۔ رادھا چوکنے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کوئی بعید نہ تھا وہ خبیث پھر کوئی حرکت کر بیٹھتا۔ رادھا نے گولے کی طرف دیکھ کراجنبی زبان میں کچھ کہا۔ وہ گھومتا ہوا دروازے کے پاس جا کر ہوا میں ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر بعد کالی داس نے آنکھیں کھول دیں۔
”دیوی جی! تیری آگیا کا پالن ہوگیا ہے اب مجھے جانے دے“ رادھا نے میری طرف دیکھا اس کی نظریں مجھ سے وال کر رہی تھیں، کالی داس ہاتھ جوڑے رادھا کے حکم کا منتظر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔
”تو میرے پریتم موہن کا اپرادھی ہے….یدی وہ تجھ پر دیا کرے تو تجھے جیون بھکشا مل سکتی ہے“ ایک میٹھی نظر مجھ پر ڈال کر وہ بولی ”پریتم! میرا یہ سیوک اس سمے تمری ہر آگیا کا پالن کرے گا “ رادھا کا اشکارہ گولے کی طرف تھا ”یدی تم آگیا دو تو یہ ایک پل میں اس دھشٹ کر جلا کر بھسم کر دے“ پراسرار طاقتوں کی مالک رادھا میرے حکم کی منتظر تھی۔ خوشی سے میرا دل سرشارہوگیا۔
”جو کچھ اس ملعون نے میرے ساتھ کیا ہے اگر میں اسے بھول بھی جاﺅں تب بھی یہ موت کی سزا کا مستحق ہے اگر اس کا جھگڑا میرا ساتھ تھا بھی تو میری معصوم بیٹی کا اس میں کوئی قصور نہ تھا۔ اس بدبخت نے جو حرکت اس ننھی سی جان کے ساتھ کی ہے کیا یہ اس کے بعد کسی معافی یا رحم کا مستحق ہے؟“ میں نے نفرت سے کالی داس کو گھورتے ہوئے سوال کیا۔
”میں تجھ سے بھی شما مانگتا ہوں، مجھ پر دیا کر….میں وچن دیتا ہوں کبھی تجھے کچھ نہ کہوں گا۔“ وہ گھگیانے لگا۔ نہجانے مجھے کیوں اس پر ترس آگیا۔
”ٹھیک ہے رادھا! اس کو اس بار معاف کر دو، اگر آئندہ اس نے ایسی حرکت کی تو اسے ضرور سزا ملنی چاہئے۔“ اس وقت تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن اسے معاف کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو کچھ اس کمینے نے بعد میں میرے ساتھ کیا۔ اس شیطان صفت مردود کی وجہ سے میں کن مشکلات و مصائب میں گرفتار ہوا؟ یہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہوگا۔
”کالی داس! تجھے یہ بھکشا میرے پریمی کے کارن ملی ہے یاد رکھنا یدی تو نے پھر کبھی ہم دونوں کے بیچ آنے کی اوشکتا کی یا میرے موہن کی اور بری نجر سے دیکھا تو اس دھرتی پر تجھے میرے شراپ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ تو جانتا ہے رادھا جو کہے وہ اوش پورا کرتی ہے ….جاچلا جا کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے وچن سے پھر جاﺅں۔“ رادھا نے بڑی حقارت سے کہا۔
”دیوی جی! تیرا اور تیرے پریمی کا یہ اپکار میں جیون بھر نہ بھول پاﺅں گا۔ دھن باد دیوی جی….دھن باد“وہ رادھا کے آگے جھک گیا۔ اس کے بعد رادھا نے آگ کے گولے کو جو ابھی تک دروازے کے پاس ہوا میں معلق تھا اشارہ کیا وہ آنا فانا غائب ہوگیا۔ اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا بند دروازہ خود بخود کھل گیا۔ کالی داس یوں بھاگا جیسے جہنم کی بلائیں اس کے پیچھے ہوں۔ اس کے جانے کے بعد رادھا نے اپنایت بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔ اس کی حسین آنکھوں میں شکوہ تھا۔ میں نے اس پر شک کیا تھا جس کی وجہ سے میں اس سے شرمندہ تھا۔ دوسری بار اس نے مشکل سے بچایا تھا مومنہ کو اس مکروہ پنڈت سے چھڑانا اس کا سب سے بڑا احسان تھا میری آنکھوں میں شرمندگی کے تاثرات دیکھ کر وہ بولی۔
”مجھ پاپن کو ایسے نہ دیکھو موہن! تم نے اپنے من میں جو وچارکیا اس میں تمرا کوئی دوش نہیں جو کچھ آج سویرے میں نے تمری پتنی سنگ کیا تھا اس کے بعد تمرا یہ وچارکرنا کہ میں تمری بالیکا کو کشٹ دے سکتی ہوں کوئی ایسا برا بھی نہ تھا۔“ میں اس کی اعلیٰ ظرفی کا معترف ہوگیا۔
”نہیں رادھا! کچھ بھی ہو میں تم سے شرمندہ ہوں کہ میں نے تمہارے بارے میں ایسا سوچا۔“ میں نے بڑی سچائی سے اسے اپنی دلی کیفیت سے آگاہ کیا۔ اس نے کچھ نہ کہا مسکرا کر میرا ہاتھ دبادیا۔ اس کی ہر ادا میں میرے لیے محبت تھی۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی۔ معلوم تھا صائمہ شدت سے میرا انتظار کررہی ہوگی۔
”جانتی ہوں موہن ! تم اس سمے کس کارن بیاکل ہو۔ میں جیادہ سمے تمہیں یہان نہیں روکوں گی۔ پرنتو تھوڑا کشٹ تو اس پاپی کو بھی بھوگنا چاہئے جس نے کالی داس کے کہے پر میرے پریتم سنگ انیائے کیا ہے۔“
اس کے لہجے میں میرے لیے پیار ہی پیار تھا۔ جھیل سی گہری آنکھوں میں خمار چھایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بالکل اس انداز سے تالی بجائی جیسے پہلے زمانے میں شہزادیاں اپنی کسی کنیزکو طلب کرنے کے لیے بچایا کرتی تھیں۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دروازے سے وہی شیطان صورت تھانیدار داخل ہوا جو مجھے گرفتار کرکے تھانے لایا تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اس کا انداز اس شخص جیسا تھا جسے مسمرائز کر دیا گیا ہو۔ وہایک طرف کھڑا خالی خالی نظروں سے دیوار کو تک رہا تھا۔ میں نے حیرت سے رادھا کی طرف دیکھا جو بڑی دلچسپی سے تھانیدار کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اس کے کومل ہونٹوں نے حرکت کی وہ زیر لب کچھ پڑھنے لگی۔ اچانک تھانیدار چونک گیا اور حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں غصے کی کیفیت ابھری پھر جیسے ہی اس کی نظر رادھا پر پڑی وہ نظریں ہٹانا بھول گیا۔ اس کے ہونٹ سیٹی بجانے کے انداز میں سکڑ گئے۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے وہ بڑے اسٹائل سے رادھا کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی۔ مجھے نظر انداز کرتا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس کے بالکل قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔ مکروہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوگئی۔
”کون ہو تم ،یہاں کیسے آئی ہو؟“ ویسے ہو بڑی جاندار چیز….مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں میرے علاقے میں اس قدر حسین لڑکی رہتی ہے۔ تمہیں تو میرے گھر پر ہونا چاہئے“ اس نے کھل کر اپنے مکروہ ارادے کا اظہار کیا۔ تھانے کو وہ چونکہ اپنی ملکیت سمجھتا تھا اسلئے بڑی دیدہ دلیری سے بکواس کیے جا رہا تھا۔
”پرنام صاحب….!“ رادھا نے کسی کنیز کی طرح دونوں ہاتھ جوڑ کر اسے ہندوانہ انداز میں سلام کیا۔
”تمہاری آوازتو تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے“ اس کے منہ سے جیسے رال بہنے لگی۔
”مہاراج! کیا میں پوچھ سکتی ہوں اس منش کو کس کارن بندی بنایا گیا ہے؟“ رادھا نے بڑی لجاجت سے پوچھا۔ تھانیدار اس کی بات تو نہ سمجھا ہاں اتنا جان گیا کہ وہ میرے بارے میں بات کر رہی ہے۔
”اچھا تو تم اس کے پیچھے آئی ہو۔ لیکن یہ تو مسلمان ہے جبکہ تم ہندو دکھائی دیتی ہو“ تھانے دار نے اس کے ماتھے پر لگے تلک اور حسین سراپے کو پر ہوس نظروں سے دیکھا۔ مجھے ہنسی آرہی تھی میں جانتا تھا رادھا اسکا کیا حشر کرنے والی ہے۔“ اس حرامزادے نے تمہارے مذہب کی ایک لڑکی کی عزت خراب کرکے اس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ لیکن تمہارا یہ کیا لگتا ہے؟“ تھانے دار نے جواب دے کر سوال کیا۔
”یہ سب تمہیں کس نے بتایا مہاراج؟“ رادھا نے اس کا سوال یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بڑی ملائمت سے پوچھا۔ تھانے دار کے تیور بدل گئے۔
”تم اس بات کو چھوڑو، اسے تو میں اب پھانسی پر چڑھوا کر ہی دم لوں گا۔ تم ایسا کرو میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو تمہارے جیسی حسین لڑکی کی جگہ یہ نہیں میرا دل ہے“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ رادھا کی طرف بڑھایا۔ میرا خیال تھا ابھی رادھا اسکی جسارت کا جواب دے گی لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا بلکہ مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مہاراج! میں نے ایک پرشن پوچھا تھا“ تھانے دار کی سمجھ میں شاید اس کی بات نہ آئی کیونکہ رادھا زیادہ تر ہندی کے الفاظ بولتی تھی۔ میں بھی اس کی بات اس لئے سمجھ لیتا تھا مجھے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہے میں ہندی بول تو نہیں سکتاہاں بخوبی سمجھ لیتا ہوں۔
”میں پوچھ رہی ہوں اس کو کیوں قید کیا گیا ہے؟“ اس بار رادھا نے کسی قدر آسان انداز میں اپنے سوال کو دہرایا۔
”تمہیں اس سے کیا لگاﺅ ہے؟“ اس بار تھانے دار نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”مجھے تو معلوم پڑا تھا کسی نے تمہیں ایک لاکھ روپے دیئے ہیں اسے بندی بنانے کے کارن“ اس بار رادھا کا لہجہ سرد تھا۔ ایک بار پھر وہ تھانے دار کا سوال گول کر گئی تھی۔
”ارے چھوڑو اس حرامی کو….کیوں اتنی خوبصورت رات برباد کر رہی ہو؟ آﺅ میرے ساتھ میں تمہیں ایک نئے جہاں کی سیر کرواﺅں گا“ تھانے دارنے جواب دینے کے بجائے اسے اپنی طرف کھینچا۔
رادھا نے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ مضبوطبی سے پکڑ لیا۔ اچانک اس کا خوبصورت مومی ہاتھ سرخ ہونے لگا۔ تھانے دار کے منہ سے فلک شگاف چیخ نکلی۔ رادھا کا سفید مومی ہاتھ جلتے ہوئے انگارے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ تھانے دار اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے لیے یہ ممکن نہ رہا تھا۔ کمرے میں گوشت جلنے کی چراند پھیل گئی۔ وہ کسی ذبح ہوتے بکرے کی طرح ڈکرانے لگا۔ وہ بار بار ہاتھ کو کو جھٹکے دے کر چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کرب و اذیت سے اس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ آہستہ آہستہ آگ نے اس کا ہاتھ جلانا شروع کر دیا۔ آگ تیزی سے اس کے ہاتھ کو جلا کر آگے بڑھ رہی تھی۔ رادھا نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب تھانے دار پاگل کتے کی طرح کمرے میں دوڑ رہا تھا۔ وہ بار بار ہاتھ جھٹک کر آگ بجھانے کی کوشش کرتا۔ کچھ ہی دیر میں آگ نے اس کے سارے جسم کو گھیر لیا تھا وہ زمین پر گر کر لوٹنیاں لگانے لگا۔ بالآخر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ فلک شگاف چیخیں کراہوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہوگیا تھا۔ رادھا اطمینان سے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کاہاتھ دوبارہ اپنی اصل شکل میں آگیا تھا۔ گوشت جلنے کی چراند سے سانس لینا دوبھر تھا میں نے اپنی ناک چٹکی میں دبالی۔ رادھا نے میری طرف دیکھا اور میرے قریب آکر پیار سے میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے ہٹا دیا۔ اب بدبو کا نام و شنان نہ تھا بلکہ کمرے میں گلاب کی مسحور کن مہک پھیلی ہوئی تھی ۔ مجھے یاد آیا پہلی بار تھانے دار اور اس کے چیلوں کی موت جلنے سے ہوئی تھی اور کمرہ ان کے گندے گوشت کے جلنے کی بدبو سے بھر گیا تھا تو اچانک میرے نتھنوں سے گلاب کی خوشگوار مہک کا جھونکا ٹکرایا تھا پھر میں ہوش و حواس کی دنیا سے دور چلا گیا تھا۔ اس وقت میں شدید حیرت سے دوچار تھا کہ کس نادیدہ محسن نے مجھے ان درندوں کے چنگل سے رہائی دلوائی ہے؟ لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ وہ پیکر رعنائی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے قریب موجود تھی۔ تھانے دار کا جلا ہوا ڈھانچہ عبرت کا نشان بنا زمین پر پڑا تھا۔ اباس میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کی بدروح جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ جب وہ چیخ رہا تھا تو میں ڈر گیا کہ تھانے کا عملہ اس کی چیخیں سن کر آجائے گا لیکن انسان تو کیا کسی کی آواز بھی سنائی نہ دی تھی۔ یہ بھی شاید رادھا کے کی قوت کا کرشمہ تھا۔ پوری عمارت پر خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے یہاں ہمارے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ ہو۔
رادھا نے بغیر کچھ کہے میرا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ گلاب کی خوشبو برابر میرے آس پاس موجود تھی۔ باہر آکر میں اس نے اطمینان بھرا سانس لیا۔ سامنے ہی میری گاڑی کھڑی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ رادھا نے کالی داس سے کہا تھا۔
”اک پل میں تیرا یہ شریر میری سکھیوں کا بھوجن بن جائے گا“ جس کا مطلب تھا رادھاکی سہلیاں جو بلیوں کی روپ میں تھیں انسانی گوشت ان کی غذا تھی۔ سادھو امر کمار کا گوشت بھی وہ ایک پل میں چٹ کر گئی تھیں۔ ہونا تو یہ چائے تھا کہ رادھا بلیوں کو بلاتی اور انہیں تھانے دارگوشت کھانے کی اجازت دیتی بلکہ تھانے دار کے گوشت سے ان کی دعوت کرتی لیکن اس کی بجائے اس نے تھانے دارکو راکھ کر دیا تھا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی تھی۔
”کس وچار میں گم ہے میرا پریمی!؟“ اس نے پیار سے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے بتا دیا میں کیا سوچ رہاہوں؟“
تمرا وچارٹھیک ہے پرنتو میں اس طرح تمرے واسطے کٹھنائیاں بڑھ سکتی ہیں“ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
”لیکن جب تھانے دار کا جلا ہوا جسم ملے گا تو پھر بھی میری لئے مشکل پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ بھرے بازار سے یہ مجھے گرفتار کرکے لایا تھا“ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔ بڑی دلآویز مسکراہٹ اس کے نرم لبوں پرپھیل گئی۔
”چمپا تو یاد ہوگی تمہیں؟ وہ سندرنا جو تمہیں بہلا کر مادھو پور لے گئی تھی۔“
میرا دوران خون تیز ہوگیا۔ مجھے وہ رات یاد آگئی جو میں تھانے میں گزاری تھی۔
”میں اس حرامزادی کو کیسے بھول سکتا ہوں“ میں نے تیز لہجے میں کہا۔
”کل اس کوٹھے کی دشا(کمرے کی حالت) یہ نہ ہوگی پرتیم!“ اس نے اسی کمرے کی طرف اشارہ کیا جس میں تھانے ارکا جلا ہوا ڈھانچہ پڑا تھا۔“ یہ راکھ کا ڈھیر ہوگا جس میں سے اگنی سے بھسم دو شریر ملیں گے۔ ایک اس حرام کے جنے تھانے دار کا دوجا ایک کومل نارکا….جس کا سبھ نام چمپا تھا۔ دونوں سنسار سے چھپا کر یہاں ملن کر رہے تھے کہ کسی کارن کوٹھا بھسم ہوگیا۔“ میں اس کی ذہانت کا قائل ہوگیا۔
”تم تو بلا کی ذہین ہو“ میں نے تعریفی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
”جب کسی سے پریم ہو جائے تو اس کی رکھشا کرنے کے کارن ایسا پربند کرنا پڑتا ہے۔“ حسین آنکھوں میں خمار چھا گیا۔
”رادھا! جو احسان تم نے مجھ پر کیا ہے شکریہ اس کے لئے بہت چھوٹا لفظ ہے پھر بھی میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر تم میری مدد نہ کرتیں تو نہ جانے یہ لعنتی کالی داس میری معصوم بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ اور یہ راشی تھانے دار تو مجھے پوری طرح پھنسانے پر تلا ہوا تھا اس مشکل گھڑی….“ اس نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا۔
”پرتیم! تمری یہ باتیں سمجھے دکھی کر رہی ہیں تمرا مجھ ابھاگن کتنا ادھیکار ہے تم نہیں جانتے۔ میں نے جو کیا وہ تو کچھ بھی نہیں یدی کبھی ایسا اوسر آیا جس میں رادھا کو جیون دان کرنا پڑے تو رادھا اس سے بھی منہ نہ موڑے گی“ اس نے بڑے جذب کے عالم میں کہا۔ اس کے لہجے میں سچائی کا انداز ہو رہا تھا۔ حسین آنکھیں میری جانب اٹھ گئیں۔ لانبی خمدار پلکوں پر موتی لرز رہے تھے۔ جب وہ بولی تو اس کے لہجے سے حسرت ٹپک رہی تھی۔
”تم سے دورہونے کو من تو نہیں کرتا پرنتو….جانتی ہوں تو اپنے گھر جانے کے کارن بیاکل(بے چین) ہو رہے ہو“ ہم چلتے ہوئے گاڑی کے قریب پہنچے تو وہ بالکل میرے قریب آگئی۔ اسکی معطر سانسیں میرے چہرے کو چھو رہی تھی۔ اس مہک کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ مسحور کن مہک میرے حواسوں پر چھا گئی۔ اس کا قرب مجھے مدہوش کر رہا تھا۔
”پریم! میں نے ایک بنتی کی تھی اور تم نے مجھے وچن دیا تھا کہ تم اسے سوپکار کرو گے۔ پرنتو تم نے وہ گھر ہی چھوڑ دیا۔ جہاں میں رہتی ہوں۔ تمرے بن اس میں اب میرا من نہیں لگتا۔ میں بنتی کرتی ہوں پرتیم! واپس آجاﺅ۔“ حسین جھلیںپانیوں سے بھرنے لگیں۔
”لل….لیکن“ میں نے کہنا چاہا تو اسنے ایک بار پھر اپنے کومل ہاتھ میرے ہونٹ بند کر دیے۔
”کچھ نہ کہو میرے میت! میں جانتی ہوں تمرے من میں کا وچارہے؟ کیول اتنا یاد رکھو رادھا تم بن رہ نہیں پائے گی“
رات کی تاریکی اور تھانے کی حدودمیں بڑے اطمینان سے اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی۔ مجھے رادھا کی طاقت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اس نے جس طرح کالی داس کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا اور جو حشر اس نے تھانے دارکا کیا تھا اسے دیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔
”تمرے وچار ٹھیک ہیں سجنا….! کالی داس کوئی معمولی منش نہیں۔ اس نے سارا جیون کالی ماتاکی بھگتی میں بتایا ہے۔ وہ مہان شکتیوں کا مالک ہے۔ پرنتو اسنے تمہیں بیاکل کرکے گھور پاپ کیا تھا۔ یدی تم اسے شما نہ کرتے تو میں اس پاپی کو اس کے چیلے کے پاس بھیج دیتی۔ میں تمرے کارن سب سے یدھ کر سکتی ہوں پرنتو ایک پل کی دوری بھی مجھ ابھاگن سے سہن(برداشت) نہیں ہوتی۔ میرے اندر تم سے دور رہنے کی شکتی نہیں۔ تمرے بن تمری یہ داسی مٹی کی مورت ہے۔ کیول ایک شریر ہے میری آتما تو تم ہو“ وہ اپنی محبت کا رس دھیرے دھیرے میرے کانوں میں گھولتی رہی۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی لیکن نہ جانے اس کی قربت میں ایسی کیا بات تھی۔ میں سب کچھ بھول کر اس کے پاس کھڑا اسکی پیار بھری باتیں سن رہا تھا۔
وہ میرے اتنے قریب تھی کہ اس کی معطر سانسیں میری سانسوں کو مہکا رہی تھیں۔ میرا خیال تھا وہ اس تنہائی کا فائدہ ضرور اٹھائے گی لیکن وہ اس سے آگے نہ بڑھی بلکہ مجھ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوکر کہنے لگی۔
’’میرے من مندر کے دیوتا! یدی تم آج کی رینا(رات) اپنی داسی سے دور اپنے متر کے گھر ہی ٹھہرے رہے تو کھد کو روک نہ پاؤں گی۔ میں اس سمے ایک ایسی گھاٹی میں کھڑی ہوں جہاں سے نہ آگے جا پاتی ہوں نہ پیچھے یدی تم اپنی پتنی کی اچھا کے انوساروہیں رہے تو پھر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگئی۔
’’پھر کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’پھر مجھے تمری پتنی کا کوئی اپائے کرنا پڑے گا کوئی ایسا پربند کرنا پڑے گا کہ ہمرا ملن ہو سکے‘‘ آخر کار اس نے کہہ دیا۔ میں اس کی بات سن کر لرز گیا۔
’’نن۔۔۔نہیں رادھا تم ایسا کچھ نہ کرو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کل میں واپسی اسی گھر میں آجاؤں گا۔ مجھے آج رات کی مہلت دے دو۔‘‘ میں نے کسی قدر لجاجت سے کہا۔
’’ٹھیک ہے موہن! پرنتو تم واپس نہ آئے تو پھر مجھے دوش نہ دینا‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’جاؤ اپنے گھر جانتی ہوں اس سمے تم اپنی پتری سے ملنے ے کارن بیاکل ہو کل میں تمرا انتجار کروں گی۔‘‘
’’رادھا میری ایک اور درخواست مان لو‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’مجھ سے بنتی نہ کرو مجھے آگیا دو۔۔۔داسی تمری ہر آگیا کا پالن کرے گی کیول مجھے اپنے سے دور نہ کرنا۔‘‘ وہ بڑے پیار سے بولی۔
’’تم مجھ سے بات کرنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرلو میں اپنی معصوم بیٹی کو اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
’’بس یا کوئی کچھ اور بھی کہنا ہے۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’بس میری اتنی بات مان لو‘‘ میں نے اس کا نرم ونازک ہاتھ تھام لیا۔
’’ٹھیک ہے یدی تمرامن اس بات سے پرسن ہے تو میں ایسا ہی کروں گی میرے میت! تم سے ملنے کا میں کوئی اور اپائے ڈھونڈ لوں گی۔ جاؤ پریمی! کوئی تمری راہ تک رہا ہے‘‘ وہ حسرت سے بولی۔
میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے ہاتھ ہلایا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اس میں میرے ارادے کا کوئی دخل نہ تھا اس کی وجہ یقیناً وہ احسان تھا جو رادھا نے مجھ پر کیا تھا۔ میں تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا ہوا گھر پہنچا تو رات کے بارہ بج رہے تھے تقریبا پانچ بجے میں گھر سے نکلا تھا۔ ان چھ سات گھنٹوں میں مجھ پر جو بیتی تھی وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے اس کا کرب تو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کا سابقہ اس قسم کے حالات سے پڑا ہو۔ میں نے عمران کے گھر پہنچ کر ہارن دیا دروازہ فوراً ہی کھل گیا۔ عمران لپک کر میرے پاس آیا۔
’’خان بھائی! آپ کہاں چلے گئے تھے۔۔۔؟‘‘
’’مومنہ کہاں ہے؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’وہ تو تھوڑی دیر بعد مل گئی تھی۔ شاید کھیلتے کھیلتے باہر نکل گئی تھی بری طرح گھبرائی اور سہمی ہوئی تھی۔ ہم نے اس سے کچھ نہ پوچھا اب سو رہی ہے۔‘‘ عمران نے مجھے تفصیل سے بتایا۔ مجھے یقین تھا کہ مومنہ گھر پہنچ چکی ہوگی لیکن پھر بھی اپنی تسلی کی خاطر میں نے پوچھا تھا۔ عمران نے گیٹ کھول دیا۔ میں گاڑی اندر لے گیا سامنے برآمدے میں نازش کھڑی تھی۔ میں گاڑی سے اتر کر آیا تو انہوں نے بھی وہی سوال کیا۔
’’فاروق بھائی! آپ کہاں چلے گئے تھے؟ ہم بہت پریشان تھے۔ عمران سارے شہر میں آپ کو تلاش کرتے رہے۔ مومنہ تو تھوڑی دیر بعد آگئی تھی۔ شاید کھیلتے کھیلتے باہر نکل گئی تھی۔ ‘‘ نازش نے ایک ہی سانس میں سوال کرنے کے ساتھ مجھے تفصیل بتائی۔
’’بھابھی! میں مومنہ کی تلاش کرتے ہوئے راستہ بھول کر نہ جانے کہا نکل گیا تھا۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا پھر پوچھا۔’’صائمہ کہاں ہے؟‘‘
’’بھابی اندر کمرے میں بچوں کے پاس ہیں‘‘ عمران نے بتایا، اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوا لیکن موقع کی نزاکت کا احساس کرکے اس نے کچھ نہ پوچھا تھا۔ میں جلدی سے اندر آیا۔ صائمہ قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی سرخی بتا رہی تھی کہ وہ روتی رہی ہے ’’جس شخص کی بیوی اتنی نیک اور پرہیز گار ہو اسے کوئی شیطانی قوت پریشان نہیں کر سکتی‘‘ میرے دل میں خیال آیا۔ صائمہ کی جگہ کوئی عام عورت ہوتی تو رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتی لیکن اس اللہ کی بندی نے قرآن پاک اٹھا کر اللہ کا ذکر کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم اسے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی اس نے قرآن پاک کو بوسہ دیا اور اسے الماری میں رکھ کر میری طرف بڑھی۔ اس کی حسین آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
’’آ۔۔۔آپ کہاں چلے گئے تھے؟ فاروق! پریشانی سے میرا برا حال تھا۔‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر بولی میں نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں قید کرتے ہوئے اس کی حسین آنکھوں کو چوم لیا۔
’’میری جان! میں تو خود پریشان تھا مومنہ کی تلاش میں نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔‘‘
’’غلطی میری تھی بچے تو ادھر ادھر نکل ہی جاتے ہیں۔ میں خواہ مخواہ خود بھی پریشان ہوئی اور آپ کو بھی کیا۔‘‘ اس کے لہجے میں ندامت تھی۔
’’نہیں صائمہ! اولاد کی ذرا سی پریشانی انسان کو پاگل کر دیتی ہے۔‘‘
نازش بھابی نے کھانے کو پوچھا تو ہم باہر آگئے۔ کھانے کے بعد ہم اپنے کمرے میں آگئے بچے جلدی ہی سو گئے۔ صائمہ خاموشی سی لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ میں جانتا تھا وہ پریشان ہے لیکن میرے پاس اس کو تسلی دینے کے لیے الفاظ نہ تھے۔ کافی دیر اسی طرح گزر گئی۔ میں نے آہستہ کروٹ لے کر صائمہ کو دیکھا اس کی آنکھیں بند تھیں سانسوں کی رفتار بتا رہی تھی وہ سو چکی ہے۔ میں نے آنکھیں موند لیں ابھی غنودگی طاری ہوئی ہی تھی کہ مجھے رادھا کی سرگوشی سنائی دی۔
’’موہں۔۔۔‘‘
میں بری طرح چونک گیا پہلے تو اسے اپنا وہم سمجھا لیکن اسی وقت آواز پھر آئی۔
’’موہن! کیا تم کچھ پل کے لیے باہر آسکتے ہو؟‘‘
’’رادھا! تم کہاں ہو نظر کیوں نہیں آرہیں؟‘‘ میں نے چاروں طرف دیکھ کر آہستہ آواز میں پوچھا۔
’’تم باہر آجاؤ میں تمہیں نجر آجاؤں گی۔‘‘ اس کی مدھر آواز آئی۔ میں آہستہ سے بیڈ سے اترا باہر نکلنے سے پہلے ایک بار پھر صائمہ کی طرف دیکھا وہ بے خبر سو رہی تھی۔ پھر دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ مجھے یہ خطرہ بھی تھا کہیں صائمہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ میں نے احتیاطاً سگریٹ کا پیکٹ ساتھ لے لیا تھا۔ صائمہ میری اس عادت سے واقف تھی رات کو اگر مجھے نیند نہ آئے تو میں سگریٹ پینے باہر چلا جاتا ہوں۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے کاریڈور سے گزرتے ہوئے عمران اور نازش کے بیڈ روم کی طرف دیکھا ان کا دروازہ بند تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا ہوا ان کے کمرے کے سامنے سے گزر گیا۔ آہستہ سے آہٹ پیدا کیے بغیر میں نے دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا۔ میں نے گرم شال اوڑھ رکھی تھی اس کے باوجود سردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔ لان میں آکر میں نے چاروں طرف دیکھا۔ چاندنی رات تھی ہر چند کہ جاڑے کی چاندنی کو کوئی نہیں دیکھتا لیکن اس کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ہر طرف جیسے نور برس رہا تھا۔
’’پریتم۔۔۔!‘‘ میرے پیچھے بالکل کان کے پاس سرگوشی سنائی دی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا پھر نظریں ہٹانا بھول گیا۔ چاند کی روشنی میں چاند سے زیادہ حسین رادھا میرے پیچھے کھڑی تھی۔ سرخ رنگ کی ساڑھی میں اس کا حسن آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو چاروں طرف بکھر رہی تھی۔ وہ بے خود ہو کر میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھ۔ ہم دونوں ہر بات سے بے نیاز ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈوب گئے۔ بقول رادھا کے اسے مجھ سے عشق تھا لیکن اس کا سامنا ہوتے ہی نہ جانے مجھے کیا ہو جاتا تھا؟ سحر طاری تھا مجھ پر۔ اس کا فسوں پوری طرح مجھ پر چل چکا تھا۔ دیوانہ بنانے میں اگر اس کی پراسرار قوتوں کا دخل تھا تو اس کا حسن اسے دو آتشہ کر دیا کرتا۔ میری حالت اس نوجوان لڑکے سے مختلف نہ تھی جسے پہلی پہلی بار عشق ہوا ہو۔ ’’من کرتا ہے تمرے ہر دے میں سما جاؤں پرنتو۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں حسرت بول رہی تھی۔ میں اس کی بات کا مطلب سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ اس لئے میں نے بات کا رخ فوری طور پر بدل دیا۔
’’کیا تمہیں یاد ہے رادھا؟! تم نے میرے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا‘‘
’’تمہیں دیکھ کر تو میں سب کچھ بھول جاتی ہوں ساجن! یدی رادھا نے تمہیں کوئی وچن دیا تھا تو وہ اپنے وچن کا پالن اوش کرے گی‘‘ اس کی آواز خمار سے بوجھل تھی۔
’’تم نے کہا تھا اپنی زندگی کی کہانی مجھے سناؤ گی۔ تمہارے خاوند موہن کو کس نے اور کیوں مار دیا تھا؟ اس کے علاوہ میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ تم کون ہو؟ کیا تم میری یہ الجھن دور کر سکتی ہو؟‘‘
’’ہاں مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا پرنتو یہ بھی تو کہا تھا سمے آنے پر‘‘ اس نے کہا۔
’’اور وہ وقت کب آئے گا؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’بہت جلد آنے والا ہے وہ سمے‘‘ اس کی آنکھوں میں جیسے خواب اتر آئے۔’’تم اس بات کی چنتا چھوڑو میں سب تمہیں بتا دوں گی ۔پرنتو اس سمے تو میں اپنے پاپی من کو شانت کرنے آئی ہوں‘‘ چاندنی میں نہایا اس کا مرمریں بدن وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق نظر آرہی تھی اس کی معطر سانسیں میرے ہوش و حواس چھین رہی تھیں۔ مجھے کسی شاعر کا شعر یاد آیا جو غالباً ایسے ہی موقع کے لئے کہا گیا تھا۔
’’گلاب لب، غزال آنکھیں ابرو
ہوش و حواس چھن گئے ہوئے جب روبرو‘‘
اس کے قیامت خیز حسن، پراسرار قوتوں اور احسانات۔۔۔سب نے مل کر میرا جھکاؤ اس کی طرف کر دیا تھا۔ اسے دیکھ کر میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ حتیٰ کہ اب مجھے سردی بھی محسوس نہ ہو رہی تھی۔
’’پرتیم۔۔۔!‘‘اس نے دھیرے سے مجھے پکارا۔
’’ہوں‘‘ اب مین ان القابات کا عادی ہو چلا تھا۔ وہ مجھے اکثر اسی طرح پکاراکرتی ہے۔
’’تم نے بھی ایک وچن مجھے دیا تھا یاد ہے یا۔۔۔بھول گئے؟‘‘
’’مجھے نہ صرف یاد ہے بلکہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے میں کل دوبارہ اسی مکان میں رہنے کے لے جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے اسے خوش کرنے کی خاطر کہا۔’’دھن واد موہن! تم نے میرا مان رکھ لیا۔ پرنتو میں اس وچن کے بارے میں کہہ رہی ہوں جو تم نے مجھ سے کیا تھا کہ تم اپنی پتنی سے کہو گے وہ جو جاپ وہ کرتی اسے کھتم کر دے‘‘ آخر وہ لمحہ آہی گیا جس سے میں بچنا چاہ رہا تھا۔
’’رادھا! سب کچھ ایک دم تو نہیں ہو جاتا۔ آج ایک بات پوری ہوئی ہے کل یہ بھی ہو جائے گی‘‘ میں نے بڑے آرام سے اسے سمجھایا۔
’’چاہے تمری داسی کے پران ہی نکل جائیں‘‘ اسکی حسرت و یاس میں ڈوبی آواز آئی۔
’’تمہیں مجھ پر بھروسہ کرنا چاہئے رادھا! میں بھی تم سے ملنے کے لیے بے قرار ہوں۔‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا مجھے خود پر اختیار ہی کب رہا تھا؟
’’جانتی ہوں تم کیول میرا من پرسن کرنے کے کارن کہہ رہ ہو پرنتو میرے لیے یہی بہت ہے کہ تمہیں میرا اتنا دھیان ہے‘‘ اس بار اسکی آواز میں اطمینان تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ضد نہیں کی ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتی تھی ابھی یہ کام ہونا چاہئے تومیں کچھ بھی نہ کر سکتا۔
’’موہن۔۔۔!‘‘ اس نے مجھے خیالوں میں ڈوبا پا کر پکارا۔ میں نیا س کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’اپنی پتنی سے کہہ دو میں اس کی اور سے اتنی بے کھبر نہیں ہوں جتنا وہ وچار کر ریہ ہے۔ جانتی ہوں وہ تمہیں مجھ سے دور کرنے کے کارن کیا کر رہی ہے؟ پرنتو میں ہر بار اسے شما کر دیتی ہوں اسے کہہ دینا یدی اس نے چھل کپٹ سے کام لیا تو رادھا سب کچھ کھتم کر دے گی‘‘ اس کی آواز سرد ہوگئی۔ میرے ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر گزرتی چلی گئی۔ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ صائمہ ایسا کیا کر رہی ہے؟ کیونکہ اس کے بعد رادھا کو سلسلے میں کوئی بات نہ ہوئی تھی۔
’’رادھا! کیا تم مجھے نہیں بتاؤ گی کہ صائمہ نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’سمے آنے پر سب معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اس نے گول مول سا جواب دیا۔ پھر کہنے لگی’’یہ جو پاپی کالی داس ہے نا۔۔۔کالی ماتا کا بہت بڑا بھگت ہے اس نے سارا جیون کالی کی بھگتی میں بتایا ہے۔ کالی اس کا کہا نہیں ٹال سکتی۔ پرنتو میں نے اسے کس طرح دھرتی چاٹنے پر لگا دیا تھا۔ سنسار میں کالی داس جیسے مہاپرش کم ہی ہوں گے۔ لاکھوں بیر(جنات کی وہ قسم جو شیطان کے پیروکار اور جادوگروں کے حکم کی پابند ہوتی ہے) اس کی آگیا کا پالن کرنے ہر پل تیار رہتے ہیں۔ اورمیری سکھیوں خو تم نے دیکھا ہی ہے وہ میری آگیا کاپالن کرتے ہوئے کسی بھی منش کا ماس کھا جاتی ہیں شکتی میں وہ کسی سے کم نہیں پرنتو تم نے دیکھا۔۔۔کالی داس نے کس طرح ان کوبے بس کردیا تھا؟‘‘ اس نے بڑے طریقے سے مجھے اپنی طاقت کے بارے میں بتا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اگر صائمہ اس کے خلاف کچھ کرنے کی سوچ رہی ہے تو میں اسے اس بات سے باز رکھ سکوں۔
’’جانتا ہوں رادھا۔۔۔! سب کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اسی وجہ سے تومیں تمہارے بارے میں سب کچھ جاننے کے لیے بے قرار ہوں۔ ‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔ مجھے ڈر تھا کہیں وہ اپنی ضد پر اڑ نہ جائے ۔
’’بہت تھوڑا سمے رہ گیا ہے پھر میں تمرے ہر پرشن کا اتر اوش دوں گی۔ اسی کارن تو کہہ رہی ہوں اپنی پتنی سے کہو وہ جاب چھوڑ دے نہیں تو کالی داس کسی بھی سمے تمری سنتان یا پتنی پر وار کر سکتا ہے۔ یدی تمری پتنی جاپ بند کر دے تو میں اسی استھان پر رہ کر تمری رکھشا کر سکتی ہوں میرے ہوتے وہ یا اس کے پلید بیر وہاں نہیں آسکتے جہاں تم رہتے ہو۔‘‘ اس نے تفصیل سے بتا کر مجھے فکر مند کر دیا۔
کالی داس کمینہ شخص تھا جس طرح رادھا نے اسے ذلیل کرکے بھگایا تھا وہ کسی بھی وقت اپنی ذلت کا بدلہ صائمہ اور بچوں کو نقصان پہنچا کر لے سکتا تھا۔میرے چہرے فکر تر دو دیکھ کر رادھا سبک خرامی سے چلتی میرے پاس آگئی۔ پھر اپنے کومل ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام کر بولی’’میرے پریتم! تم چنتا کیوں کرتے ہو؟ میرے ہوتے وہ پاپی تمہیں کچھ نہ کہہ سکتا۔۔۔تم اپنی رادھا پر وشواس رکھو۔‘‘
’’کیا تم اس کے بغیر کوئی ایسا بندوبست نہیں کر سکتیں کہ کالی داس مجھے اور میری بیوی بچوں کوکوئی نقصان نہ پہنچا سکے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’ابھی بہت ساری باتیں تمری بدھی میں نہیں آئیں گی ساجن! دیکھو سمے کتنا سندر ہے۔ چند رما اپنی سندرتا چاروں اور بکھیر رہا ایسے میں میرے سنگ پریم کی باتیں کرو پریتم!‘‘ وہ اپنے پیار کا رس میرے کانوں میں گھولتی رہی۔ میں نے ہنس کراسے چھیڑا۔
’’تھانے دار بیچارہ بھی تو تمہارے ساتھ پیار کی باتیں کرناچ اہتا تھا تم نے اسے موقع ہی نہیں دیا کیسے بے چین ہو رہا تھا؟‘‘ اس کی نقرئی ہنسی نے فضا میں جلترنگ بکھیر دیا۔
’’پرتیم! ایک وہی کیا سارا سنسار رادھا کارن بیاکل ہے پرنتو رادھا تمری داسی بن گئی ہے اسے تمرے بن کچھ نجر ہی نہ آوے۔‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔
’’پریتم!‘‘
’’ہوں‘‘
’’چندرما کتنا سندر ہے؟ پرنتو تم سے جیادہ نہیں‘‘ اس پر نشہ چھانے لگا۔
’’بس میری اتنی زیادہ تعریف نہ کرو میں جانتا ہوں میں کیا ہوں؟‘‘ میں خجل ہوگیا۔
’’تم اپنی سندرتا سے بے کھبر ہومیرے پران(میری روح) یہ تو کیول میں جانتی ہوں تم کیا ہو؟‘‘ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ نرم و نازک ہاتھ حدت سے تپ رہا تھا۔
میرے جسم میں جیسے بجلیاں دوڑنے لگیں۔ بے اختیار میں اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ میں آج بھی اپنی اسی حالت پر حیران ہوں کسی سحر زدہ معمول کی طرح میں اس کی طرف بڑھا تھا۔ اس کی سانسیں بوجھل ہو چکی تھیں۔ قریب تھا میں اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتا۔ وہ جیسے خواب سے جاگ گئی۔ پھر بدک کر مجھ سے کچھ فاصلے پر چلی گئی۔
’’ابھی نہیں پریتم!‘‘ وہ جیسے ہانپ رہی تھی۔ چاندنی میں اس کا چہرہ شدت جذبات سے دہک رہا تھا۔ میں بھی اس کیفیت سے باہر نکل آیا۔ مجھے خود سے شرم آرہی تھی۔ نہ جانے مجھے کیا ہو جاتا تھا ہر مرتبہ میں توبہ کرتا لیکن جب بھی کوئی ایسا موقعہ آتا میں پھسل جاتا تھا۔ اس میں میری اپنی کوتاہی کا دخل تھا یا میں حالات کا شکار ہوگیا تھا۔۔۔یہ بات میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ بات ہو رہی تھی اس رات کی جب چاند اپنے پورے جوبن پر تھا۔ ہرسو چاندنی کا فسوں بکھرا ہوا تھا۔ ایسے میں رادھا کا حسن جہاں سوز مجھے بے خود کیے جا رہا تھا۔ ہم دونوں اس قدر قریب تھے کہ ایک دوسرے کی دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں مجھے یہ خدشہ بھی تھا کہیں صائمہ جاگ نہ جائے ۔ رادھا میری دل کی بات جان گئی۔
’’پریتم! من کرتا ہے ساری رینا تمرے چرنوں میں بتا دوں۔ پرنتو مجھے تمری مجبوریوں کا دھیان ہے۔ آہ۔۔۔میرا من کھد میرے بس میں نہیں‘‘ اس کی آواز بھیگنے لگی۔
’’میں جانتا ہوں رادھا! تم میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ لیکن میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ میں ایک شادی شدہ شخص ہوں مجھے ہر طرف دھیان رکھنا پڑتاہے۔‘‘ میں نے اپنی مجبوری ظاہر کی۔
’’میں تم سے سہمت(متفق) ہوں سجنا! پرنتو میں کھد پر اختیار کھو بیٹھی ہوں‘‘ اس نے اپنی نازک انگلیوں کی پوروں سے حسین آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف کر لیے۔’’جانتی ہوں پرتیم۔۔۔! کل تمرا انتجار اسی استھان پر کروں گی۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلکے سے دبایا۔’’جاؤ میرے من مندر کے دیوتا! تمری داسی آج کی رینا اور بیاکلتا میں بتا لے گی‘‘ میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور اندر کی طرف چل پڑا۔
برآمدے میں پہنچ کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دبے پاؤں چلتااپنی خوابگاہ میں آگیا۔ صائمہ بدستور محو خواب تھی۔ میں آرام سے اس کے پہلو میں لیٹ گیا۔ ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا لیکن میں بھی مجبور تھا۔ اگر حالات یہ رخ اختیار نہ کرتے تو میں کبھی بھی اپنی باوفا بیوی کو دھوکہ نہ دیتا۔ ہو سکتا ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن اس وقت واقعی میں مجبوریوں کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ دوسرے دن ہم گھر واپس آگئے۔ میں بینک چلا گیا۔ دو تین مرتبہ میں نے صائمہ کو فون کرکے خیر خیریت پوچھی۔ اس نے بتایا سب ٹھیک ہے۔ شام کو میں نے آکر کہا۔
’’عمران جلد ہی کوئی دوسرا مکان تلاش کر دے گا بس ایک دو دن کی بات ہے میں سوچ رہا ہوں تم کچھ دن کے لیے لاہور چلی جاؤ اتنے میں کوئی اچھا سا مکان دیکھتا ہوں جب مل جائے تو فون کر دوں گا۔‘‘ اس کا جواب مجھے حیران کر گیا۔
’’فاروق! اتنا اچھا بنگلہ چھوڑ کرکہیں جانا مشکل ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اللہ نگہبان ہے وہی ہماری حفاظت کرے گا۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بدبخت جو بھی ہے وہاں نہیں آجائے گی۔‘‘
میں اس کے اطمینان اور دلیل پر حیران ہوگیا۔
’’لیکن صائمہ ! کل توتم۔۔۔‘‘
’’اب ایسی بھی کیا بزدلی؟ ہم مسلمان ہیں اور اللہ پرکامل یقین ہے ہمیں‘‘ اس نے میری بات کاٹکرکہا۔
’’ادھر دیکھو میری طرف ‘‘ اسنے چہرہ میری طرف گھمایا۔
’’تمہارے اطمینان کی وجہ میری سمجھ سے باہر ہے کہاں تو تم ایک پل اس گھر میں گزارنے پر تیار نہ تھیں اور اب ۔۔۔تم کوئی بات مجھ سے چھپا تو نہیں رہیں؟‘‘
میرے کانوں میں رادھا کے الفاظ گونجے’’میں تمری پتنی کی اور سے اتنی بے کھبر نہیں جتنا وہ سمجھ رہی ہے‘‘ کچھ دیر صائمہ میری طرف دیکھتی رہی پھر گہری سانس لے کر بولی۔
’’فاروق! دراصل پھوپھو نے مجھے منع کیا تھا کہ یہ بات کسی سے نہیں کہنا اس لیے ۔۔۔ورنہ آپ جانتے ہیں میں ہربات آپ سے شیئر کرتی ہوں۔ آپ پھوپھو جمیلہ کو تو جاتنے ہیں ہماری شادی میں آپ کی ملاقات ان سے ہوئی تھی۔۔۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’حافظ قرآن اور عالمہ ہیں۔آج میں نے بھابی کے گھر سے انہیں فون کرکے ساری صورتحال بتائی تو وہ کہنے لگیں میں فی الحال اسی گھر میں رہوں تاکہ وہ پتا چلا سکیں اصل معاملہ کیا ہے؟ ان کا خیال ہے شاید یہ کوئی خبیث جن زادی ہے۔ کہہ رہی تھیں وہ رات کو ایک وظفیہ پڑھیں گی تو معاملہ انشاء اللہ حل ہو جائے گا۔‘‘ صائمہ نے بتایا۔
’’اچھا تو محترمہ کے اطمینان کی اصل وجہ یہ ہے‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ وہ ہنس دی۔ اس کے بعد اس موضوع پر مزید کوئی بات نہ ہوئی۔ رات کو کھانا کھا کر ہم لیٹ گئے۔ صائمہ ان دنوں جنابت کی حالت میں تھی اس نے مجھے تاکید کی تھی میں رات کو آیۃ الکرسی پڑھ کر سارے گھر پر پھونک دوں لیکن میں نے ایسا نہ کیا بلکہ صائمہ سے کہہ دیا کہ اب روزانہ میں خود یہ وظیفہ کر لیا کروں گا۔ ایسا میں نے اس لیے کیا تھاکہ صائمہ کو وظیفہ کرنے سے منہ نہیں کر سکتا تھا اور رادھا کا اصرار تھا کہ میں اسے روکوں۔ نہ جائے مانند نہ پائے رفتن کے بمصداق آخر یہی حل مجھے نکالنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ رادھا کے کہنے پر میں نے وہ تعویز بھی گلے سے اتار دیا تھا جو مجھے شریف کے مرحوم والد محترم نے دیا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔
مجھے پتا تھا رادھا آج رات مجھ سے ملنے ضرور آئے گی اور ہوا بھی یہی۔ ایک وہی رات کیا۔۔۔؟ اس کے بعد تو وہ ہر رات مجھ سے ملنے آنے لگی۔ مسلسل رت جگے سے میری آنکھوں کی گرد ہلکے پڑ گئے۔ وہ صبح کے چار بجے واپس جاتی۔ نیند کی کمی سے میری طبیعت خراب رہنے لگی۔ صبح کے قریب میں سوتا توبمشکل آٹھ بجے جاگتا۔ کچھ دن تو صائمہ نے توجہ نہ دی لیکن کب تک؟ ایک دن جب ہم ناشتہ کر رہے تھے اس نے میرے چہرے کو غور سے دیکھا۔
’’فاروق! آپ کی صحت خراب رہنے لگی ہے دیکھیں رنگ کس طرح زرد ہو رہا ہے؟ آنکھوں سے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ رات بھر جاگتے ہوں‘‘ میں جو اونگھتے ہوئے ناشتہ کر رہا تھا چونک کر سیدھا ہوگیا۔ وہ فکر مندی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’نیند تو بالکل ٹھیک آتی ہے بس ذرا دیر سے آتی ہے۔‘‘ میں نے اس سے نظریں چرائیں۔
’’آئینے میں اپنا چہرہ تو دیکھیں کتنا کمزور لگ رہا ہے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں فکر کے سائے گہرے ہوگئے۔’’فاروق!‘‘ اس نے آہستہ سے مجھے پکارا۔
’’ہوں‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’آپ کسی بات پر مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟‘‘ میں بری طرح چونک اٹھا۔ اس کی سوالیہ نظریں میرے چہرے پر ٹکی تھیں۔
’’میری جاں! میں تم سے ناراض ہوسکتاہوں بھلا!‘‘ میں نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔’’کیا تمہیں میری کسی بات سے ایسا محسوس ہوا ہے؟‘‘
’’آ۔۔۔آپ۔۔۔مجھے اپنے پاس بلاتے ہی نہیں اب تو‘‘ بالآخر اس نے جھجکتے ہوئے دل کی بات کہہ دی ’’کل رات تومجھے یقین تھا کہ آپ۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے شرما کر چہرہ جھکا لیا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔ راتیں تو رادھا کی حسین سنگت میں بیت رہی تھیں اس لیے کافی دن سے میں نے صائمہ کو اپنے پاس نہ بلایا تھا۔
’’ارے۔۔۔آج سورج کس طرف سے نکلا تھا؟کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟‘‘ میں نے شوخ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ شرم سے گلابی ہوگئی۔
’’اگر محترمہ کو مجھ سے یہ شکوہ ہے تو ابھی اسی وقت غلام حاضر ہے‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’بڑے خراب ہیں آپ‘‘ اسے بے طرح شرم آرہی تھی’’میں نے تو اس لئے پوچھا تھا کہ آپ اتنے دن تک کبھی مجھ سے دور نہیں رہے۔‘‘
’’تم دنوں کی بات کرتی ہو میں توایک پل بھی تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔‘‘ اس بات میں جھوٹ نہ تھا اگر صائمہ کو مجھ سے عشق ہے تو میں بھی اس کی محبت میں دیوانہ۔۔۔رادھا سے ملنا میری مجبوری تھا۔ اس کا حسن قیامت خیز سہی لیکن وہ کسی صورت صائمہ کی جگہ نہ لے سکتی تھی۔ رادھا بھی اس بات سے باخبر تھی۔ اس نے کئی بار مجھے اس بات کا احساس دلایا تھا کہ جتنی محبت وہ مجھ سے کرتی ہے اس کا عشر عشیر بھی میں اس سے نہیں کرتا۔
’’کہاں کھو گئے‘‘ اس نے میرے آنکھوں کے آگے ہاتھ نچایا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ میں چونک گیا۔
’’فاروق! اگر کبھی انسان ہونے کے ناطے مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو پلیز مجھے جو چاہے سزا دے دیجئے لیکن کبھی مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا‘‘ اس نے بھیگی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
’’میری جان !میں تم سے ناراض ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیا تمہیں میرے کسی انداز سے ایسا محسوس ہوا ہے؟‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’میں اکثر دیکھتی ہوں آپ کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں میں سمجھی شاید آپ مجھ سے ناراض ہوں۔‘‘ وہ میرے شانے سے سر ٹکا کر بولی۔ اس کے ملائم گیسو میرے شانے پر بکھر گئے۔ ان میں انگلیاں پھیرتے ہوئے میں نے کہا۔
’’جانم! ایسا کبھی سوچنا بھی نہیں اگر عشق کا وجود دنیا میں ہے تو سمجھ لو مجھے تم سے عشق ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں جانتی ہوں آپ کے دل میں میرے علاوہ کوئی نہیں‘‘ اسے مجھ پر خود سے زیادہ بھروسہ تھا۔
میں عجیب و غریب حالات کا شکار ہوگیا تھا۔ ایک طرف رادھا تھی جو میرے عشق میں کچھ بھی کرنے کے لیے ہر دم تیار تھی۔ اگرمیں اسے یہ کہتا کہ وہ رات کو مجھ سے ملنے کیلیے نہ آیا کرے تو ہو سکتا تھا وہ ہتھے سے ہی اکھڑ جاتی۔
مجھے زیادہ خوف اس بات کا تھا وہ صائمہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اکثر وہ اس بات کا اظہار کرتی کہ صرف میری خاطر وہ صائمہ کو برداشت کرتی ہے۔ رادھا کی طاقت کا مجھے انداز تھا۔ لیکن اس طرح کب تک چلتا؟ اس مسئلے پر رادھا سے بات کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ رات کا کھانا کھانے اور بچوں کے سونے کے بعد میں نے صائمہ کا شکوہ دورکرنے کی خاطر اسے اپنے پاس بلایا تو وہ کہنے لگی۔
’’فاروق! پلیز آج کی رات صبر کرلیں‘‘ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’صبح تم خود ہی شکایت کر رہی تھی اب انکار‘‘ مجھے الجھن ہوئی۔
’’دراصل آج میں نے پھوپھو جمیلہ کو فون کرکے ساری صورتحال بتائی تو انہوں نے مجھے وظیفہ پڑھنے کے لئے بتایا ہے میں آج رات اسے کرنے کا ارادہ کیے بیٹھی ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں تومیں کل رات کر لوں گی۔‘‘ اس نے میرا موڈ دیکھ کر جلدی سے کہا۔
’’یہ بات ہے محترمہ! توہم آپ کے وظیفے میں مخل نہیں ہونا چاہتے۔۔۔آج کی رات آپ کی جدائی برداشت کر لیں گے‘‘ میں نے اس کی ٹھوڑی کو چھو کر کہا۔
’’بہت بہت شکریہ جناب عالی‘‘ اس نے بھی شوخی سے جواب دیا۔ میں سونے کے لیٹا تو صائمہ جائے نماز بچھا کر اپنا وظیفہ شروع کر چکی تھی۔ کچھ دیر میں اس کے پاکیزہ چہرے کو دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے گمان ہی نہ تھا کہ صائمہ رات بھر وظیفہ کرے گی۔ رات کو حسب معمول میری آنکھ رادھا کی آواز سے کھلی۔ لائٹ ابھی تک جل رہی تھی۔ صائمہ کو مصروف دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے کلاک پر نظر ڈالی رات کے دو بج رہے تھے۔
’’موہن فوراً باہر آؤ‘‘ میرے کان میں رادھا کی آواز پڑی لیکن آج اس کی آواز میں حلاوت کے بجائے تلخی تھی۔ میں نے بے بسی سے صائمہ کی طرف دیکھا وہ آنکھیں بند کیے ذکر میں مصروف تھی۔
’’کیا تم نے سنا نہں میں کہا کہہ رہی ہوں؟‘‘ رادھا کی تلخی سے بھرپور آواز دوبارہ آئی۔ عجیب مصیبت تھی اگر میں رادھا کی بات کا جواب دیتا تو صائمہ سن لیتی۔
’’رادھا! صائمہ جاگ رہی ہے میں باہر کیسے آسکتا ہوں؟‘‘ میں نے صائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے دبی دبی آواز میں کہا۔
’’کیا تم چاہتے ہو میں اپنا وچن توڑ دوں؟‘‘ رادھا کی پھنکار میرے کانوں میں گونجی۔ صورت حال بڑی عجیب ہوگئی تھی اگرمیں باہر جاتا تو صائمہ دیکھ لیتی۔ چوری کھلنے کا وقت آگیاتھا۔
’’ٹھیک ہے موہن! اب مجھے کوئی دوش نہ دینا۔ میں نے تمرے پریم کے کارن اس کلٹا کو بڑی چھوٹ دی۔ پرنتو۔۔۔اس نے کھد کے لئے کٹھن راہ چنی ہے۔ میں جا رہی ہوں۔ اس بات کو اوش اپنے دھیان میں رکھنا رادھا کو کشٹ دینا تمری پتنی کو مہنگا پڑے گا ‘‘ رادھا کی قہر بار آواز آنا بند ہوگئی۔
’’سنو رادھا!‘‘ میں نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر سرگوشی کی۔’’آج کی رات مجھے معاف کر دو صبح ہوتے ہی میں کوئی ایسی راہ نکال لوں گا کہ آئندہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو‘‘میں نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ کوئی جواب نہ پا کر میں نے دوبارہ اسے پکارا ’’رادھا۔۔۔صرف آج کی رات صبر کر لوکل میں تم سے ضرور ملوں گا‘‘ کسی قسم کا جواب نہ آیا۔ شاید وہ ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔ ہزاروں خدشات نے جم لینا شروع کر دیا۔ ایک بار پھر میں نے صائمہ کی طرف دیکھا وہ ہر طرف سے بے نیاز اپنے وظیفے میں مگن تھی۔ مجھے اس پر ترس بھی آیا کہ وہ اپنے گھر کو بچانے کے لیے کس قدر محنت کر رہی ہے۔ نیند مجھ سے کوشوں دور چلی گئی تھی مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ رادھا کی قوت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ اس کے احسانات اپنی جگہ لیکن میں صائمہ کو بھی غلط نہیں کہہ سکتا تھا۔ ہو سکتاہے رادھا مجھ سے بہت پیار کرتی ہو لیکن صائمہ راہ راست پرتھی۔ جبکہ وہ بھٹکی ہوئی روح یا جو کچھ بھی تھی ہوس کی بچارن تھی۔ میں نے سر جھٹک کران پریشان کن خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا۔ سگریٹ کی طلب شدت سے محسوس ہوئی۔
’’دھت تیرے کی‘‘ میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ اگرمیں سگریٹ پینے کے بہانے باہر چلا جاتا توصائمہ کو کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا ہر چند کہ صائمہ نے باہر جانے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ لگائی تھی لیکن میں اسکے جاگنے کی وجہ سے ایسا نہ کرنا چاہتاتھا۔
’’یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہ آیا‘‘ میں نے جھنجھلا کر سوچا آہستہ سے دراز کھول کر سگریٹ کاپیکٹ اورلائٹر نکال کرمیں دبے قدموں دروازے کے پاس پہنچا۔ ایک نظر صائمہ پر ڈالی وہ آنکھیں بند کیے اپنے ورد میں مصروف تھے۔ حتی الامکان میں نے بے آواز طریقے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا۔ ڈرائنگ روم سے گرم شال اٹھا کر کندھوں پر ڈالی اورکاریڈور کادروازہ کھول کر لان میں آگیا۔ سردی نے مجھے کپکپانے پر مجبور کردیا۔
میں نے سگریٹ سلگایا اور چاروں طرف اس امید پر دیکھنے لگا شاید رادھا اس جگہ موجود ہو جہاں ہم روزانہ رات کو ملا کرتے تھے۔ ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جب میں رادھا سے ملنے کے لیے باہر آتا تو لان کی لائٹ اس خطرے کے پیش بجھا دیتا اگر صائمہ کی آنکھ کھل جائے اور مجھے بستر پر ناپا کر وہ باہر نکلے تو رادھا اسے دکھائی نہ دے۔ یہ تو بہت بعد میں مجھے معلوم ہوا اگر رادھا کی خواہش ہوتی تو وہ نظر آتی ورنہ نگاہوں سے اوجھل رہنا اسکے لئے مشکل نہیں تھا۔ لیکن اس وقت میں اس بات سے بے خبر تھا۔ میں اپنی سوچوں میں غلطاں سخت سردی میں لان میں کھڑا تھا۔
جب سگریٹ نے میری انگلیوں کو جلایا تو میں چونک اٹھا۔میں نے سگریٹ کا صرف ایک کش لیا تھا اس کے بعد مجھے خیال ہی نہ رہا کہ جلتا ہوا سگریٹ میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے جلدی سے اسے زمین پر پھینک کر جوتے سے مسل دیا اور نیا سگریٹ اس آس پر سلگا لیا شاید رادھا واپس آجائے۔ میں اس وقت تک اس کی ناراضگی کا متحمل نہ ہو سکتا تھا جب تک صائمہ اپنا وظیفہ مکمل نہ کر لیتی۔ سگریٹ کا طویل کش لے کر میں نے ایک بار پھر اس گوشے کی طرف دیکھا جہاں ہم روزانہ راز و نیاز میں مصروف رہا کرتے۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ سگریٹ ختم کرکے میں اندر آگیا۔ صائمہ حسب معمول اسی حالت میں بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔ تسبیح کے دانوں پر اس کی مخروطی انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ میں نے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔ نہ جانے اب رادھا کیا کرے؟ میں اس بات سے بہت خوفزدہ تھا کہ وہ کہیں صائمہ یا بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔
نہ جانے کب مجھے نیند آئی اور سو گیا۔ رات بھر مجھے پریشان کن خواب دکھائی دیتے رہے۔ صبح صائمہ نے مجھے جگایا تو اس کی غزالی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں نے اسے سونے کا مشورہ دیا تو اسنے کہا میرے دفتر اور بچوں کے سکول جانے کے بعد وہ نیند پوری کر لے گی۔ میں نے کہا بھی اگر وہ چاہے تو میں عمران سے کہہ کر نازش کو بلوا دیتا ہوں لیکن اس نے نرمی سے انکار کر دیا۔
’’فاروق ! اللہ تعالیٰ سے بڑا نگہبان کوئی نہیں ہے وہی میری حفاظت کرے گا۔‘‘ اس کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر مجھے بھی حوصلہ ہوا۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو ، واقعی اللہ تعالیٰ سے بڑا کوئی نہیں وہ قادر کریم ہماری حفاظت کرے گا‘‘ دوپہر کے قریب میرا دل چاہا میں صائمہ کو فون کرکے خیریت پوچھوں لیکن یہ سوچ کر اس کی نیند خراب ہوگی میں دل پر جبر کیے بیٹھا رہ۔ دو بجے میں بچوں کو سکول سے پک کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ چوک پر سرخ بتی دیکھ کر میں نے گاڑی روک لی۔ اچانک میرے برابر نئی چمکتی دھمکتی مرسیڈیز آکر رکی۔ اچھی گاڑیاں ہمیشہ سے میری کمزور رہی ہیں۔ میں نے تعریفی نظروں سے گاڑی کی طرف دیکھا۔ پچھلی سیٹ پر نظر پڑی تو اس طرح اچھلا جیسے میرا پاؤں بجلی کے ننگے تار پر پڑ گیا ہو۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کالی داس بڑے کروفر سے بیٹھا مجھے گھور رہا تھا۔مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر اس کے ہونٹ سکڑ گئے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے نفرت و حقارت تھی ۔اشارہ سبز ہوا تو اس کی گاڑی آگے بڑھ گئی۔ میں نے بھی اپنی گاڑی آگے بڑھائی۔’’یہ کمبخت اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھا کیا کررہا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کا کوئی ارادتمند امیر آدمی ہو‘‘ میرے دل میں خیال آیا۔جس طرح ہمارے ہاں پیروں اور عاملوں پر لوگ اندھا اعتماد کرتے ہیں اسی طرح ہندو بھی اپنے پنڈتوں بچاریوں پر اعتقاد کے معاملے میں ہم سے پیچھے نہیں ہیں۔
بچوں کو سکول سے لے کر میں گھر پہنچا تو صائمہ کھانا تیار کرے ہم لوگوں کو انتظار کر رہی تھی۔ اس کے حسین چہرے پر گہرا اطمینان تھا۔ ابھی تک اس نے اپنے وظیفے کے بارے میں مجھے کچھ نہ بتایا تھا میں نے بھی اس خیال سے نہ پوچھا ۔ اگر مناسب ہوگا تو خود بتا دے گی۔
کھانا کھا کر میں دوبارہ بینک روانہ ہوگیا۔ شام تک کام کرکے میں کافی تھک گیا۔ کرسی کی پشت پر سر ٹکا کر میں نے آنکھیں موند لیں۔ گزشتہ رات رادھا کی دھمکی نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔ دوسری رات بھی میں نے پریشانی کے عالم میں کاٹی۔ صائمہ بے خبر سو رہی تھی۔ میں دیر تک جاگ کر رادھا کی آواز کا منتظر رہا۔ رات کے جانے کس پہر مجھے نیند آئی۔
دوسری پھر تیسری رات بھی رادھا نہ آئی۔ مسلسل ایک ہفتے تک میں اس کا منتظر رہا۔ ’’ہو سکتا ہے صائمہ کے وظیفے نے اسے اس قابل نہ رکھا ہو کہ وہ مجھ سے مل سکے اسی لئے وہ اس رات اتنی خفا ہو رہی تھی‘‘ میں یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا۔
اتوار کا دن تھا بچوں کے اصرار پر انہیں باہر گھمانے لے گیا۔ شہر کے نواح میں نہر کے کنارے ایک بہت خوبصورت پارک بنا ہوا تھا۔ ہم وہاں چلے گئے۔ صائمہ نے بڑی سی چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ باہر جاتے ہوئے یا تو وہ برقع پہنتی یا اتنی بڑی چادر اوڑھ لیتی جس سے جسم اچھی طرح ڈھک جائے۔ سیاہ کالی چادر میں اس کا گلابی رنگ کندن کی طرح دمک رہا تھا۔ چادرکو اس نے ناک پر اچھی طرح جما رکھا تھا اس طرح صرف اس کی سیاہ بھوری سے آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ سردیوں کی دھوپ ڈھلنا شروع ہوگئی تھی۔ پارک میں زیادہ رش نہ تھا۔ وہاں موجود دو تین فیملیز واپس جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ ہم کچھ تاخیر سے پہنچے تھے۔ بچے پارک میں آتے ہی کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔ میں اور صائمہ ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ وہ گھر سے چپس، پکوڑے اور دیگر اشیائے خوردونوش بنا کر لائی تھی۔ ایک فلاسک میں چائے تھی۔ بچے کھانے کے ساتھ ساتھ کھیل بھی رہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد پارک میں ہمارے علاوہ کوئی متنفس نہ رہا۔
ہم ابھی جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک گاڑی پارک میں داخل ہوئی اور اس میں سے پانچ نوجوان اترے۔ حلیے سے وہ اوباش دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جیسے ہی ان کی نظر صائمہ پر پڑی جو چائے پینے کی وجہ سے چادر چہرے سے ہٹائے بیٹھی تھی۔ وہ معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے سیدھے اسی حصے میں آکر بیٹھ گئے جہاں ہم لوگ ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔ ہم سے تھوڑے فاصلے پر انہوں نے ایک چادر گھاس پر بچھائی اور بیٹھ گے۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن یہ ایک پبلک پلیس تھی ہم کسی کو اٹھا تو نہیں سکتے تھے۔ لیکن سارا پارک چھوڑ کر انہوں نے جان بوجھ کر ہمارے نزدیک ڈیرے لگائے تھے۔ وہ بار بار صائمہ کی طرف دیکھتے اور ذومعنی فقرے کستے تھے۔ صائمہ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے۔
’’فاروق! واپس چلیں‘‘ اس نے چادر کو اچھی طرح چہرے کے گرد لپیٹ کر کہا۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ وہ شاید ہمارا ارادہ بھانپ چکے تھے۔ ایک لڑکے نے بیگ سے شراب کی بوتل نکالی اور منہ سے لگا کر غٹاغٹ کئی گھونٹ بھر لئے۔ جیسے ہی ہم جانے کے لئے اٹھے وہی لڑکا سیدھا ہمارے طرف آیا اس کے ہاتھ سگریٹ تھا۔
’’آپ کے پاس ماچس ہوگی؟‘‘ اس نے ہوس بھری نظروں سے صائمہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’میرا چہرہ غصے سے تپ گیا۔ صائمہ میری کیفیت بھانپ چکی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھ کر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔
’’نہیں‘‘ میں نے قہر آلود نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور بنچ سے کھڑا ہوگیا۔
’’ماچس نہیں ہے تو کیا ہوا! اس حسینہ کے آنچ دیتے حسن سے سگریٹ سلگا لو‘‘ گروپ میں بیٹھے لڑکوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا ۔ اس کی بات سن کر باقیوں نے قہقہہ لگایا ۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’لیٹس گو فاروق!‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’واہ۔۔۔انگریزی بولتی ہے ، لگتی بھی شکل سے میم ہے‘‘ باقی لڑکے بھی اٹھ کر ہمارے نزدیک پہنچ گئے۔ انہوں نے ہمارے گرد دائرہ بنا لیا تھا۔ سب چھٹے ہوئے بدمعاش تھے۔ میرے اندر مزید ضبط کرنے کا یارانہ رہا۔
’’تم لوگوں کو تمیز نہیں کسی شریف آدمی سے بات کرنے کی، دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ۔۔۔‘‘ میں غصے میں گرجا۔ دل تو چاہ رہا تھا ان کی گردنیں توڑ دوں لیکن صائمہ کی موجودگی میں میں کسی قسم کا ہنگامہ نہ کرنا چاہتا تھا۔
’’ورنہ۔۔۔؟‘‘ ان میں سے ایک نے طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر لا کر پوچھا۔
’’ورنہ یہ میم ہمیں تحفے میں دے دے گا۔‘‘دوسرے نے لقمہ دیا۔ اس کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا۔ وہ حلق پھاڑ کر ہنس رہے تھے ۔ صائمہ نے جلدی سے آکر مجھے بازو سے پکڑ لیا۔
’’چھوڑیں فاروق! ان بے غیرتوں کے منہ کیا لگنا جنہیں مان بہن کی عزت کا ہی احساس نہیں‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔ بچے ہمارے پاس آکر حیرت سے ان آدمیوں کو دیکھ رہے تھے۔
’’جاتی کہاں ہو میم صاحب! آج تک تو ایسا ہوا نہیں کہ چوہدری نواز گھمن کو کوئی لڑکی پسند آجائے اور وہ اسے خوش کیے بغیر چلی جائے‘‘ جس لڑکے نے ماچس مانگی تھی اس نے صائمہ کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ وہی ان کا سرغنہ لگ رہا تھا۔ میں نے زور دار مکا اس کے چہرے پر جڑ دیا۔ وہ الٹ کر پیچھے جا گرا۔ میرے بدن آگ بھر گئی تھی۔ پوری قوت سے پڑے گھونسے نے اس کے سامنے والے دانت اکھاڑ دیے اور اس کے منہ سے خون جاری ہوگیا۔ باقی لڑکوں نے حیرت سے دیکھا۔ ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اس قدر جرات کا مظاہرہ کروں گا۔ صائمہ حراساں سی ایک طرف کھڑی ہوگئی۔ گھونسا کھا کر گرنے والے نے اپنے ہاتھ سے خون صاف کرتے ہوئے ڈب سے ریوالور نکال کر مجھ پر تان لیا۔ صائمہ بچوں کو لے کر ذرا دور چلی گئی تھی۔ وہ چاروں طرف دیکھ رہی تھی تاکہ کوئی نظر آئے تو اسے مدد کے لئے پکارے۔ میں کوئی بزدل نہ تھا۔ کالج لائف میں میں نے باقاعدہ مارشل آرٹس کی تربیت حاصل کی تھی۔ میں اس فن میں بلیک بیلٹ تھا۔ ان چاروں سے نپٹنا اگرچہ آسان نہ تھا پھر بھی میں پیٹھ نہ دکھا سکتا تھا۔ انہوں نے میری غیرت کو للکارا تھا۔ جس نے خود کو چوہدری نواز کہا تھا وہ قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ دم بدم اس کی انگلی ٹرائگر پر سخت ہورہی تھی۔
میں چوکنے انداز میں ریوالور بدست کو دیکھ رہا تھا۔
’’اس لڑکی کو اٹھا کر میری گاڑی میں ڈالو میں اس حرامی کو ابھی قبر میں اتار کر آتا ہوں‘‘ اس نے مجھ پر نظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’خدا کے لیے ہمیں جانے دو میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں۔ ہم نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ صائمہ نے نوجوان کو اپنی طرف سے بڑھتے دیکھا تو ہذیانی انداز میں چلائی۔ بچے ماں کی ٹانگوں سے چپکے رہ رہے تھے۔ مجھے موت کا خوف نہیں تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ صائمہ کے ساتھ ہوتا مجھے اس کا خوب اندازہ تھا۔ میں اس تاک میں تھا کہ اس کی نظر ہٹے اور میں اس کے ہاتھ سے ریوالور چھین کر اس پر خالی کر دوں۔ میری رگوں میں خون کے بجائے آگ دوڑ رہی تھی۔ قریب تھا کہ دوسرا حرامی صائمہ کا ہاتھ پکڑنا اچانک میرے نتھنوں سے گلاب کی مہک ٹکرائی پھر فوراً رادھا کی سرگوشی ابھری۔
’’موہن! چنتا نہ کرو، دیکھو میں ابھی ان حرام کے جنوں سنگ کیا کرتی ہوں؟‘‘
جیسے کسی کو مفت اقلیم کی دولت مل جائے۔ میرا سینہ گز بھر چوڑا ہوگیا۔
’’حرامزادے اگر تو نے اپنی بہن کو ہاتھ بھی لگایا تو میں تمہارا خون کر دوں گا۔‘‘ میں نے گرج کر اس سے کہا جو صائمہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔
’’ابے بزدل۔۔۔تیری ماں کا یہ خصم کیا کر سکتا ہے؟ اسے تو میں ابھی لمبا لٹا دیتا ہوں تو چھوکری کو اٹھا‘‘ پستول بردار دھاڑا۔
رادھا کے آنے سے میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ میں نے ریوالور والے پر ہاتھ ڈال دیا۔ وہ بھی چوکنا کھڑا تھا۔ جلدی سے پیچھے ہٹ کر ٹرائگر دبا دیا۔ اس نے بے دریغ مجھ پر گولی چلا دی تھی۔ پستول سے ٹھس کی آواز نکلی، اس نے پھر ٹرائگر دبایا اس بار بھی ایسی آواز نکلی جیسے گولی نال میں پھنس گئی ہو۔ وہ جنون میں ریوالور کی لبلبی دباتا چلا گیا۔ نتیجہ حسب سابق رہا۔ جھنجھلاہٹ میں اس نے پستول مجھ پر کھینچ مارا۔ جسے میں نے کیچ کرلیا۔ اس کے دوست آنکھیں پھارے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے ایک نظر صائمہ کی طرف دیکھا۔ ا سکا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔
’’اگر تیرے دل میں اور حسرت ہے تو وہ بھی نکال لے حرام کے نطفے! پھر میں تجھے بتاتاہوں کہ تو نے کسے للکارا ہے؟ ‘‘ میں نے دبنگ لہجے میں کہا۔ شام کا اندھیرا دم بدم گہرا ہو رہا تھا۔ وہ ابھی تک حیران تھا کہ فائرکرنے کے باوجود گولی کیوں نہیں چلی؟ چاروں اب بھی ہمیں گھیرے کھڑے تھے لیکن ان میں وہ دم خم نہ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو ان میں سے ایک نے پنڈلی سے بندھا خنجر نکال لیا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ وہ خنجر پکڑے محتاط قدموں سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔
’’موہن! اسے خنجر سے اپنے شریر پر وار کرنے دینا میں تمہیں ایک چمتکار دکھاتی ہوں؟‘‘ رادھا کی سرگوشی ایک بار پھر میرے کان میں ابھری۔ میں چونک گیا۔’’کہیں رادھا مجھے دھوکہ نہ دے دے۔‘‘
’’مجھ پرواشواس رکھو میرے میت!‘‘ اس کی شاکی آواز میرے کان کے بالکل قریب سے آئی۔ اتنے میں خنجر بدست میرے قریب آچکا تھا۔
وہ چوکنے انداز میں خنجر تولتا مجھ پر وار کرنے کے لئے تیار تھا۔ بجلی سی چمکی اور خنجر میرے سینے ٹکرا گیا۔ صائمہ کی کربناک چیخ نے فضا کا سینہ چیر دیا۔ ایک لمحے کے لیے تو میں بھی کانپ اٹھا۔ یوں لگا جیسے ابھی خنجر میرے سینے میں اتر جائے گا۔ لیکن دوسرا لمحہ سب کو حیر ت کے سمندر میں غوطہ زن کر گیا۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ خنجرمیرے سینے سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ ان سب کے چہروں سے خوف جھلکنے لگا۔ وہ آہستہ قدموں سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔
’’کہاں جاتے ہو اپنے باپ کو قبر میں نہ اتارو گے؟‘‘ میں نے زہر خند سے کہا’’پستول اٹھا کر ہوا میں ایک دو فائر کر دو‘‘ رادھا نے مجھے ہدایت دی۔ میں نے اسکے کہے پر حرف بحرف عمل کیا۔ علاقہ گولیوں کی گونج سے لرز گیا۔ پانچ فائر کرکے میں نے پستول کا رخ چوہدری نواز کی طرف کر دیا۔ اسکی ٹانگیں لرزنے لگیں۔
’’مم۔۔۔مجھ۔۔۔مجھے معاف کر دو میرے باپ!‘‘ اس کی گھگھیاتی آواز بمشکل نکلی۔ اس کے ساتھیوں نے اچانک دوڑ لگا دی۔ ہر بدمعاش دراصل اندر سے بزدل ہوتا ہے۔ جب انہوں نے موت اپنے سر پر منڈلاتی دیکھی تو فرار ہونا مناسب سمجھا۔ چوہدری نواز بھی بھاگنے کی فکر میں تھا لیکن پستول کی نال اس کے سینے کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ بمشکل چند گز بھاگے ہوں گے کہ اوندھے منہ جاگرے۔ کچھ دیر پڑے رہے اسکے بعد سب آکر میرے قدموں میں گر پڑے۔
’’ہمیں معاف کر دو استاد! ہم آئندہ بھول کر بھی تمہاری طرف نہ دیکھیں گے۔‘‘ وہ سب کو رس میں گڑگڑائے۔
’’موہن! اپنی پتنی کو لے کر ترنت یہاں سے چلے جاؤ باقی کام میں کھد کرلوں گی‘‘ رادھانے دوسری ہدایت دی۔ میں نے ایک نظر صائمہ کی طرف دیکھا وہ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ جوکچھ ہوا وہ اسے حیرت زردہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ میں نے مومنہ کو گود میں اٹھا کر حیران پریشان کھڑی صائمہ کو چلنے کا اشارہ کیا اور گاڑی کی طرف قدم بڑھائے ۔ صائمہ نے جلدی سے احد کا ہاتھ پکڑ کر میری تقلید کی۔ وہ چاروں زمین پریوں ساکت بیٹھے تھے جیسے زندہ انسان نہں پتھر کے مجسمے ہوں۔