ہندو کمیونٹی کے بارے میں بیان تو محض آڑ ہے ، فیاض چوہان کو اس لیے گھر بھیج دیا گیا کیونکہ وہ ۔۔۔۔۔ صف اول کے صحافی نے ایک نئی کہانی بیان کر ڈالی

کیا ستم ہے کہ مجھے فیاض چوہان کے بھی حق میں لکھنا ہے کہ جس مقدمے میں اسے وزارت سے ہٹانے کی سزا دی گئی ہے وہ قطعی طور پرجائز نہیں، درست نہیں۔نہیں، نہیں، یہ بات نہیں کہ میں فیاض چوہان کی شعلہ بیانیوں بلکہ بہت حد تک ایسی یاوہ گوئیوں کی حمایت کر رہا ہوں جن پر وہ خود معافیاں مانگتے رہے ہیں، چاہے وہ اداکارہ نرگس کا معاملہ ہویا

سیاسی مخالفین کے بارے میں ایسی ہرزہ سرائیاں جن سے کشمیری تک اپنے دل دکھائے اور منہ سُجائے بیٹھے ہوں، جی ہاں یہی دعا ہے کہ اللہ بچائے اس دن سے جب اس ذہنیت کا مقدمہ لڑنا پڑے کہ فیاض چوہان ایک شخص کا نام نہیں، ایک سوچ اور اظہار کا نام ہے جو ہمیں سوشل میڈیا ئی دور میں وافر ملتی ہے، دوسروں کو گالیاں دیتی ہوئی ، الزامات لگاتی اور پگڑیاں اچھالتی ہوئی۔ مگر ایک لمحے کو رکئے ،فیاض چوہان نے ہندو کمیونٹی کے بارے میں اسی طرح اظہار خیال کیا جس طرح وہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے بارے میں کیا کرتے تھے بلکہ ان کا مذکورہ فرمان تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بہت نرم تھا، انہوں نے ہندوؤں کو بتوں کو پوجا کرنے والا کہا، گائے کا یورین پینے والا کہا اورکہا کہ وہ حضرت علی اور حضرت عمر کے ماننے والوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے اور وہ اس زعم میں نہ رہیں کہ وہ آبادی اور جغرافیے میں سات گنا ہیں، تو کیا غلط کہا۔ مجھے تو جنگ کی اس فضا میں اس بیان میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور اگر آپ فیاض چوہان کے خلاف کارروائی کرنا ہی چاہتے ہیں تومجموعی روئیے پر کیجئے کہ انہوں نے جس طرح

سیاسی ماحول کو پراگندہ کر رکھا تھا۔ پارلیمانی رپورٹرز بیان کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں حکومت کو جس وقت بھی اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت پیش آئی یا بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ایوان کا ایجنڈا طے کرنے کے لئے ہوا تو اس میں موصوف کے بیانات ہی تلخی اور تعاون میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ فیاض چوہان کے بیان پر ہندوکمیونٹی کے سوشل میڈیا پر ایکٹیوکپل دیو کا ایک ٹوئیٹ سامنے آیا جس میں انہوںنے تحریک انصاف اور فیاض چوہان کو ٹیگ کر کے کہا کہ ان کی پاکستان کے ساتھ وفاداری کا یہ صلہ دیا جا رہا ہے کہ ان کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کی جاتی ہے اور وہ وائرل ہو گیا۔ ان کا شکوہ اس حد تک درست ہے کہ ہمارے پاس سورة انعام کی آیت کی صورت میں پوری گائیڈ لائن موجود ہے کہ ہم نے دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہیں کہنا ۔ اب معاملہ صرف یہ نہیں کہ فیاض چوہان نے کیا کہا، میرے سامنے معاملہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا اچانک ہندوؤں کی اچھائیوں اور اپنی برائیوںسے بھر گیا ہے۔ ہمارے لاہور پریس کلب کے ایک سابق عہدے دار دوست نے ٹوئیٹ کی کہ جب آپ کی نصابی کتب اقلیتوں کے بارے میں نفرت آمیز باتوں سے بھری ہوں

گی تو پھر آپ اسی طرح کے بیانات کی توقع کر یں گے۔ ایک دوسرے دانشوربزرگ دوست نے تحریر کیا کہ انہیں اپنی زندگی میں تین ہی بہترین اساتذہ ملے اور وہ تینوں ہی ہندو تھے۔ کچھ نے ہندوؤں کی دوستی کو سراہا، کچھ نے ان کی ہمسائیگی کو اور کچھ ڈاکٹر اپنے ہندو مریضوں پر فدا نظر آئے۔فیاض چوہان سے جبری استعفا لئے جانے کی واہ واہ میں سوشل میڈیا کی عمومی فضاایسی ہو گئی کہ جیسے ہندوؤں کے بارے میں جو کچھ کہاجاتا تھا اور کہا جاتا ہے وہ سب غلط ہے ،ہم مسلمان ہی وہ انتہا پسند ہیں جو ان کے بارے بری بری باتیں کرتے ہیں بلکہ ہم نے تو اپنے نصاب تک ان کے خلاف تعصب سے بھر رکھے ہیں۔ میںہندوؤں میں اچھے لوگوں کی موجودگی سے کیسے انکار کر سکتا ہوں بالکل ایسے ہی نہیں کر سکتا جیسے میں مسلمانوں میں برے لوگوں کیموجودگی سے نہیں کر سکتا مگر سوال یہ ہے کہ جب آپ ہندوؤں کی اچھائی کی ایسی مہم چلاتے ہیں تو یو ں لگتا ہے کہ جیسے دو قومی نظرئیے اور تحریک پاکستان کی نفی کی جا رہی ہو اور اگر آپ کو دوقومی نظرئیے کے بارے میں اب تک کوئی ابہام ہے تو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس کشمیری کی ویڈیو

دیکھ لیجئے جس کا چہرہ پاکستان زندہ باد کانعرہ لگانے پر لہو لہان ہے۔ اس ہندوستانی نوجوان کی ویڈیو دیکھ لیجئے جس میں بھارتی فوجی اس کی پیٹھ پر ڈنڈے برسا رہے ہیں اور وہ خوف کے عالم میں پاکستان مردہ باد ( خاکم بدہن) کے نعرے لگا رہا ہے، بسوں میں تشدد والی دیڈیو دیکھ لیجئے۔ آپ کشمیریوں سے پوچھئے کہ سیکولرازم کے پردے میں چھپی ہوئی ہندو ریاست ان کے ساتھ کیا سلوک کرر ہی ہے۔ کیا آپ نے اس شاکر اللہ کی لاش نہیں دیکھی جسے ہم نے ہٹے کٹے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو اس کے پاؤں پر پوری طاقت کے ساتھ چلتے ہوئے رخصت کرنے کے بعد وصول کیا ، جس شاکر اللہ کی جے پور کی جیل میں متعصب ہندوؤں نے پتھر مار مار کے پاکستانی ہونے کے جرم میں ہلاک کر دیا تھا،چلیں میں مان لیتا ہوں کہ قیدی تو جاہل، اجڈ اور اکھڑ ہوتے ہیں مگر جب میرے اس مظلوم پاکستانی کی نعش سے دماغ اور دل نکالنے والے تو ڈاکٹر تھے، پڑھے لکھے تھے، سماج کی خدمت کے دعوے دار تھے۔ میں مان لیتا ہوں کہ پاکستان کے تمام کے تمام چالیس لاکھ ہندوبہت اچھے ہیں مگر کسی بھی کمیونٹی کے روئیے کا فیصلہ اس وقت اور اس جگہ ہوتا ہے جب اور جہاں وہ طاقت میں ہوں،

اکثریت میں ہوں۔ اقلیتوں کے بارے میں کیا کہوں، میں آپ کو اخبار کے صفحے پر وہ وائرل ویڈیو نہیں دکھا سکتا جس میں ایک بھارتی مسلمان احرام باندھے خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے ہوئے اس کی تباہی کی اللہ سے دعائیں کر رہا ہے۔مجھے دہرانے دیجئے کہ میں پاکستانی ہندوؤں کی اپنے وطن سے وابستگی پر کوئی شک نہیں کرتا کہ پُرکھوں سے یہاں رہنے والے اپنی دھرتی کے غدار کیسے ہوسکتے ہیں، وہ پاکستانی ہیں اور بہت ساروں سے بڑھ کے پاکستانی ہیں کہ وہ اس شہریت کو شعور کے ساتھ قبول کرتے ہیں مگر اقلیتوں کے حقوق اور احترام کی آڑ میں قیام پاکستان کے موقعے پر ہندوؤں کے ظلم اور بربریت کو نظرانداز کرنا، ہندوستان میں مسلمانوں سے بالعموم اور کشمیریوں سے بالخصوص روا رکھے جانے والے مظالم پر لکیر پھیرنا، کشمیری ماؤں کی گودوں میں پیلٹ گنوں سے لہو لہان بچوں کو فراموش کرنا کسی طور پر درست نہیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ سب پاکستانی ہندو نہیں کر رہے تو میں آپ سے اتفاق کروں گا اور کہوں گا کہفیاض چوہان کی تقریر بھی سن لیجئے وہ بھی بھارت ہی کی بات کر رہا ہے۔ہندوازم کی بطور مذہب

دلجوئی پاکستان کی اصل بنیاد دو قومی نظرئیے کے تحفظ سے زیادہ ضروری نہیں۔ لہر میں بہہ جانے والوں سے ڈرتے ہوئے میں پھر کہتا ہوں کہ مجھے پاکستانی ہندوؤں کی وطن عزیز سے وفاداری پر ایک رتی برابر بھی شک نہیں اور نہ ہی میں ان کے عقیدے پر کسی قسم کا توہین آمیز تبصرہ کرنا چاہتا ہوں کہ گالی دینا دنیا کا آسان ترین کام ہے مگر میں اپنی آنکھیں ان مظالم سے بھی نہیں چرا سکتا جو بھارت میں ہندو اکثریت مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے ۔ ہندوستان ہی ہندوازم کا اصل چہرہ ہے اور وہ چہرہ مسلمانوں کے لئے انتہائی بھیانک، ڈراؤنا اور خوفناک ہے۔ فیاض چوہان کا بیان ہندوؤںکے لئے توہین آمیز سہی مگر وہ ایسا غلط بہرحال نہیں ہے جیسے اورجتنے غلط بیان وہ اس سے پہلے اپنے ہم وطنوں کے بارے میں دے چکے ہیں۔ یہ بات الگ کہ امن کے عالمی انعام کی چاہ میں ہمارے لئے ہندوستان اور ہندو ستان کا اکثریتی مذہب بہت اہم ہو چکے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی لہر اور ٹرینڈ کی بنیاد پر فیصلے کرنے والے جناب عمران خان ہندوؤں کو ” گڈ ول جیسچر “ دینے کی خاطر اپنا ہی وزیر قربان کر سکتے ہیں مگر قومی اسمبلی میں کرسیاں پھلانگ کے اپنی سیٹ

پر پہنچتے ہیں کہ کہیں اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہ ملانا پڑ جائے۔ بھارتی حملہ آور کو ماورائے عدالت رہا کرنے والے اپنے ہی سابق وزیراعظم کو علاج کی غرض سے بھی رہا نہیں کرسکتے۔ کیا ستم ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مودی کے یار بدلتے رہتے ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ فیاض چوہان کی بدکلامی اس وقت تک اعزا ز تھی جب تک وہ اپنے ہم وطنوں کے لئے تھی۔(تحریر: نجم ولی خان)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں