200ارب روپے کا قرضہ : حکومت نے پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ گروی رکھوا دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بینکوں سے قرضے کے لیے واپڈا ہاؤس ، ڈیمز اور پاور پلانٹس گروی رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔انہوں نے کہا حکومت کو تو یہ چاہئیے تھا کہ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے حکومت جو اقدامات

کرنے کی کوشش کررہی ہے اور200 ارب کا جو نیا قرضہ لیا جارہا ہے اس کی مکمل تفصیلات کو سامنے لایا جاتا اور عوام کے ساتھ شئیر کیا جاتا، حکومت کی جانب سے ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ ہم توشفاف ہیں، ہر معاہدہ سامنے لائیں گ ، گذشتہ حکومتوں کی طرح نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آج جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں وہ گذشتہ حکومت کو یہ کہتے تھے کہ قطر معاہدے کو سامنے لاؤ،دنیاکے ساتھ دیگر معاہدے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سامنے لاؤ، یورو بانڈز کے معاملات سامنے لاؤ، یہ اسد عمر اور عمران خان خود تقریریں کرتے تھے ،اب خود بھی انہوں نے قطر سے معاہدے کو خفیہ رکھا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے بینکوں سے قرض لینے کا بھی خفیہ معاہدہ کیا ،قرضوں کے لیے بینکوں کے پاس واپڈا ہاؤس ،ڈیمز اور پاورپلانٹس گروی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔حکومت نے آئی پی پیز کو ادائیگی کے لیے پاکستانی بینکوں سے فوری طور پر دو سو ارب روپے قرض لینے کا فیصلہ کیا ،وزارت توانائی نے 6 سو ارب کے قرض کے لیے 6 بینکوں سے معاہدہ کیا ،وزیر خزانہ اسد عمر نے بینکو ں سے دو سو ارب روپے قرض لینے کے لیے اقتصادی مشاورتی

کونسل کے اجلاس میں منظوری دی۔ اس معاہدے کے مطابق میزان بینک 88 ارب روپے ،فیصل بینک 35 ارب ،بینک اسلامی پاکستان 35 ارب اور دبئی اسلامک بینک 14.15ارب روپے قرض دے گا۔ وزارت توانائی کی زمین،بلڈنگ، پلانٹس اور مشینری گروی رکھی جائے گی۔ ایم سی بی اسلامک بینک 10ارب روپے ،البراک بینک 8ارب ،باقی بینکوں سے بھی 8ارب روپے لئے جارہے ہیں۔ ان بینکوں نے حکومت سے کہا ہے کہ ہمیں آپ پر اعتبار نہیں ہے، پہلے ہمیں گارنٹی دیں جس پر چیزیں گروی رکھی گئی ہیں۔ سینئیر صحافی رؤف کلاسرا نے کہا کہ کوئی بھی حکومتی نمائندہ سانحہ ساہیوال کے مظلوم خاندان سے بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن پر یہ کہتے رہے ہیں کہ ہماری حکومت میں ریاست ماں جیسی ہوگی۔ جس پر پروگرام میں موجود تجزیہ کار عامر متین نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بات کی تھی کہ خدا ترسی بڑی ضروری ہے ،اگر ایک ماں جس کے بیٹے کو ماردیا گیا ہو، اس کے ایسے جذبات دیکھ کر بھی کسی کو ترس نہیں آرہا تو پھر ریاست مدینہ کی بات کی جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اگر عقلمند حکمران ہوتے تو

عمران خان اور عثمان بزدار اس بوڑھی خاتون کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ عثمان بزدار کالی عینک پہن کر پھر رہے تھے اور ان کو نظر ہی نہیں آرہا تھا کہ آئی جی سے ہاتھ بھی ملانا ہے یا نہیں۔ 5 ماہ ہوگئے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ ہم پولیس ریفارمز کرنے جارہے ہیں، مجھے تو 5 سال میں بھی ریفارمز ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہئیے کہ وہ اپنی کالی عینک اُتاریں اور سی ٹی ڈی کی طرف سے جومظلوم خاندان کو دھمکیاں مل رہی ہیں، اس کا نوٹس لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں