ایک مظلوم خاندان کی کہانی جو شیطان کے چنگل میں پھنس گیا تھا، خاص تحریر۔۔ قسط نمبر8

میں نے گاڑی سٹارٹ کی اورجلدی سے پارک سے نکل آیا۔ گھر آکر بھی کافی دیر تک صائمہ اور بچے اپ سیٹ رہے۔ دونوں بچوں نے مجھ سے متعدد سوالات کیے تھے۔ مثلاً وہ کون لوگ تھے؟ اور کیوں آپ کو مارنا چاہتے تھے؟ میں نے انہیں سمجھایا وہ اچھے لوگ نہیں تھے اور ہم سے پیسے لوٹنا چاہتے تھے۔
’’شیطان کی بات مان رہے تھے؟‘‘ احد نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا وہ شیطان کی بات مان رہے تھے۔‘‘ میں نے اسے مطمئن کرنے کے لیے کہا ورنہ نہ جانے کتنے سوالات اورکرتا۔ سب تفریح غارت ہوگئی تھی۔ بچوں کے سونے کے بعد صائمہ کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ میرے سینے لگ کر بلک پڑی۔ میں نے پیار سے اسے تھپکا۔
’’حوصلہ کرو میری جان! کیا ہوا؟ اتنی سی بات سے گھبرا گئیں۔‘‘
’’فاروق اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں بھی زندہ نہ رہتی‘‘ اس نے جھرجھری لی۔ وہ کافی دیر روتی رہی اور میں اسے تھپک کر دلاسا دیتا رہا۔

جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’ایک بات کی سمجھ نہیں آئی فاروق!‘‘ کافی دیر رو لینے کے بعد جب اس کے دل کا غبار ہلکا ہوا تو اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’اس مردود نے جب آپ پر فائر کیا تھا تو پستول نے کام نہ کیالیکن جب آپ نے فائر کیے وہ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا ‘‘ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔’’میں شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔ رادھا کے بارے میں اسے بتانا چاہئے یا نہیں؟ رادھا کے احسانات مجھ پر بڑھتے جا رہے تھے۔ میں سمجھ رہا تھا وہ مجھ سے ناراض ہے کیونکہ اس نے کافی دنوں سے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا تھا۔ صائمہ کی سوالیہ نظریں میرے چہرے پر مرکوز تھیں ’’آپ نے بتایا نہیں فاروق! یہ سب کیا تھا؟ پستول نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ خنجر آپ کے سینے سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہوگئے۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔‘‘
’’ابھی تم نے خود ہی تو کہا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے صدقے ہمیں محفوظ رکھا‘‘ میں نے پہلو بچانا چاہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن بظاہر کوئی وسیلہ تو ہوتا ہے نا۔۔۔شاید آپ بتانا نہیں چاہتے‘‘ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شکوہ کیا۔
’’یہ کارنامہ رادھا نے انجام دیا‘‘ بالآخر میں نے کہہ دیا۔ایک لمحہ کے لیے تو وہ سمجھ ہی نہ سکی پھر اسکی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات ابھر آئے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھ رہی تھی کہ رادھا نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے لیکن عورت ہونے کے ناطے اسے قطعاً گوارا نہ تھا اس کی ہم جنس(خواہ اس کا تعلق کسی اور مخلوق سے ہی کیوں نہ ہو) ہم دونوں کے درمیان آئے۔ وہ کافی دیر خاموشی سے چھت کو تکتی رہی۔
’’میں اسی لئے تمہیں نہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہارا دل برا ہوگا‘‘ میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’یہ بات نہیں فاروق! بہرحال اس نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے اگر وہ موقع پر نہ پہنچتی تو نہ جانے وہ کمینے ۔۔۔ہمارا کیا حشر کرتے؟‘‘ اس کے چہرے پر ایک بارپھر خوف کی پرچھائیاں رقص کرنے لگیں۔


’’صائمہ تم نے مجھے اپنے وظیفے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ محض اس کا دھیان بٹانے کے لئے میں نے موضوع تبدیل کیا۔
’’دراصل پھوپھو نے منع کیا تھا کہ وظیفے کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کرنا۔ اس کے علاوہ ابھی تک مجھے کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں ملا جس سے میں سمجھ سکوں کہ مجھے کامیابی ملی ہے یا نہیں‘‘ اس نے تفصیل سے بتایا۔
’’اچھا یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے پھوپھو بہتر سمجھتی ہیں ہر بات کو‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
’’فاروق کیا رادھا آپ کے پاس آتی رہتی ہے؟‘‘ اس کے لہجے میں اندیشے لپک رہے تھے۔
’’کک۔۔۔کیا مطلب؟‘‘ میں بری طرح گڑ بڑا گیا۔ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔ میری سمجھ میں نہ آرہا تھا اسے کیا جواب دوں؟ مجھے معلوم تھا اصل بات جان لینے سے اس کی دل آزاری ہوگی۔ وہ مر کر بھی یہ گوارا نہ کر سکتی تھی کہ میرے اور اس کے درمیان کسی اور کا تصور بھی آئے۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے ایک آہ بھری اور خاموشی سے چت لیٹ کر چھت کو گھورنے لگی۔ میں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ کاجل بھری آنکھوں سے نکلنے والے آنسو سفید تکیے کو سیاہ کر رہے تھے۔ میں نے تڑپ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ آنسوؤں نے میرا سینہ بھگو دیا۔ میں نے کچھ دیر اسے رونے دیا۔ اس طرح اس کے دل کا غبار ہلکا ہوگیا۔
’’آئی۔ایم سوری فاروق‘‘ غمزدہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔ وہ میری طرف بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
’’صائمہ! تم ایک پڑھی لکھی اور باشعور عورت ہو۔ نہ آج تک میں نے کبھی تم سے جھوٹ بولا ہے نہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا۔ اگر میں تم سے کوئی بات وقتی طور پر چھپا لیتا ہوں تو اس کا مقصد فقط یہ ہوتا ہے کہ تمہاری دل آزاری نہ ہو‘‘ آخر کار میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ سب کچھ صائمہ کو بتا کر فیصلہ اس پر چھوڑ دوں ‘‘ صائمہ!۔۔۔مومنہ کی بازیابی بھی رادھا کی رہین منت ہے ‘‘ اس نے حیرت سے میر طرف دیکھا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘


’’میں شروع سے سارے حالات تمہیں بتاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر میں نے آج تک پیش آنے والے سب واقعات اسے بتا دیئے صرف چمپا اور شکنتلا والی بات گول کر گیا۔ وہ حیرت سے آنکھیں کھولے سن رہی تھی۔ بیچ بیچ میں کوئی بات اسے سمجھ نہ آتی تو سوال کر لیتی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ مومنہ کی بازیابی بھی رادھا کی رہین منت ہے تو اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات چھا گئے۔ رادھا نے جو کچھ اب تک ہم لوگوں کے لیے کیا تھا وہ کچھ کم نہ تھا اس نے ایسے ایسے مواقع پر میری مدد کی تھی جب میں ہر طرف سے مصیبتوں میں گھر چکا تھا۔
’’اتنا سب کچھ ہوتا رہا اور آپ نے مجھے بے خبر رکھا‘‘ شکوہ اس کے ہونٹوں پر آگیا۔
’’یہ بات نہیں میری جان ! تم پریشان نہ ہو اس لئے میں نے تمہیں کچھ نہ بتایا۔ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا
’’کیا آپ مجھے خود سے جدا سمجھتے ہیں؟‘‘ برسات اس کی آنکھوں سے پھر جاری ہونے کو تھی کہ میں نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے اس کی آنکھوں کو چوم لیا۔
’’تم تو میری روح ہو۔۔۔ایسا کبھی بھول کر بھی نہ سوچنا کہ میں تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچوں گا۔‘‘
’’فاروق کیا رادھا آپ سے ملتی ہے؟‘‘ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ بمشکل یہ لفظ میرے منہ سے نکلا۔
’’وہ کیا چاہتی ہے؟‘‘ اس کی بیزار آواز آئی۔
’’وہ چاہتی ہے تم یہ وظائف بند کر دو۔‘‘ میں نے اسے رادھا کا مطالبہ بتا دیا۔
’’تاکہ وہ کھل کر اپنی ہوس پوری کر سکے‘‘ صائمہ کے لہجے میں رادھا کے لئے نفرت ہی نفرت تھی۔
’’تم کیوں اپنی جان ہلکان کرتی ہو۔ پھوپھو کا بتایا ہوا وظیفہ کیا تو ہے انشاء اللہ اس کا خاطر خواہ نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اس کے بعد ہمیں ان سب مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے گا اور ہم دوبارہ اپنی جنت میں واپس چلے جائیں گے۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
ایک آہ بھر کو وہ خاموش ہوگئی۔ ہم دونوں چپ چاپ لیٹے ہوئے تھے۔ کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ صائمہ کو نیند نہ آئی تو کیا ہوگا۔ میرا اندازہ تھا کہ رادھا آج رات ضرور آئے گی۔
’’جانم! تم سو جاؤ۔۔۔بے کار میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہو گی۔ قسمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔‘‘ میں نے اس کی گھنی زلفوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’فاروق میں آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ پاؤں گی۔‘‘ وہ ایک بار پھر سسکنے لگی۔
’’کیا میں رہ پاؤں گا؟‘‘ میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ میں کسی صورت صائمہ کو دکھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی۔ اگر میں رادھا کو ناراض کرتا تو ہم سب کے لیے خطرہ تھا۔ اگر رادھا کی خوشنودی کے لئے اسے خود سے ملنے کی اجازت دیتا تو صائمہ یہ مر کر بھی گوارا نہ کر سکتی تھی۔
’’یا اللہ میں کیا کروں‘‘ میں نے اپنے دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے دبا لیا۔ رات کے بارہ بج رہے تھے ۔ رادھا کے آنے کا تقریبا یہی وقت ہوا کرتاہے ۔ میں نے کنکھیوں سے صائمہ کی طرف دیکھا وہ ہنوز جاگ رہی تھی۔
’’فاروق! رادھا آپ کو نظر آتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’میری جان! کیوں بے کار کی باتوں میں اتنے حسین پل گنوا رہی ہو۔ جب تم میرے پاس ہوتی ہو تو صرف اپنی باتیں کیا کرو۔ اپنے حسن کی باتیں۔۔۔پیار کی باتیں‘‘ میں نے اس کی نرم و ملائم گیسوؤں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’کچھ بھی ہو اسے ہر حال میں ہمارا پیچھا چھوڑنا ہوگا۔‘‘ صائمہ نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے عزم کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’انشا اللہ ضرور ایسا ہوگا۔‘‘ میں نے بھی صدق دل سے کہا۔
’’آپ میرا ساتھ دیں تو میں دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی ہوں‘‘ اس نے میرے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سو گئی۔ میں رادھا کے انتظار میں جاگتا رہا۔ آنکھیں بوجھل ہوتیں تو سر جھٹک کر نیند کو بھگانے کی کوشش کرتا۔ لیکن کب تک؟ آخر کار نیند مجھ پر حاوی ہوگئی۔

صبح میری آنکھ کھلی تو بچے ناشتہ کرکے سکول کے لیے تیار کھڑے تھے۔ میں نے جلدی سے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور گاڑی کی چابی لے کر باہر آگیا۔
’’آپ بچوں کو سکول چھوڑ آئیں میں جب تک ناشتہ تیار کرتی ہوں‘‘ صائمہ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔
’’ٹھیک ہے سرکار! جو آپ کا حکم سیدھا سادہ بندہ ہوں‘‘ میں نے مسکین سی صورت بنائی۔
’’بالکل جلیبی کی طرح سیدھے‘‘ وہ ہنسی۔
مجھے حیرت اس بات پرتھی کہ رادھا مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئی؟ اگر وہ مجھ سے ناراض ہوتی تو میری مدد نہ کرتی۔ اس کا نہ آنا میری سمجھ سے باہر تھا۔
’’کیا وہ مجھ سے مایوس ہو کر مجھے چھوڑ چکی ہے؟‘‘ لاشعوری طور پر میں اس کا عادی ہو چکا تھا۔ کافی دیر تک اس دھیڑ بن میں مصروف رہا پھر سر جھٹک کر خیالات سے چھٹکارا حاصل کیا اور بچوں کو سکول چھوڑ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں ایک سٹال پر رک کر میں نے اخبار خریدا اور یونہی کھڑے کھڑے سرخیوں پر نظر ڈالی۔ فرنٹ پیج پر نظر پڑتے ہی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ خبر بڑی واضح تصاویر کے ساتھ موجود تھی۔ واقعے کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ اور کیوں نہ کیا جاتا مرنے والا یہاں کے معروف زمیندار اور ایم این اے کا اکلوتا بیٹا تھا۔ خبر کچھ یوں تھی۔

معروف سیاسی و سماجی شخصیت اور قومی اسمبلی کے ممبر فیاض گھمن کا اکلوتا بیٹا نواز گھمن 5 دوستوں سمیت پراسرار طور پر قتل۔
’’(کرائم رپورٹر) معروف زمیندار اور قومی اسمبلی کے ممبر چوہدری فیاض گھمن کا اکلوتا بیٹا چوہدری نواز گھمن کل شام اپنے چار دوستوں کے ساتھ دریا کے کنارے واقع پارک میں پکنک منانے گیا۔ جہاں اسے اس کے دوستوں سمیت بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کے علاوہ پارک کے ایک مالی کی لاش بھی اس حالت میں ملی ہے کہ اس کا نرخرہ ادھڑا ہوا تھا۔ لاشوں کے چہرے اور جسم پر جا بجا نوکیلے پنجوں کے نشانات ملے ہیں۔ واردات میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مقتولین کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔ ان کے جسم جا بجا گوشت سے محروم تھے جیسے کسی درندے نے ان چاروں کو بے دردی سے ادھیڑ کر ان کے جسم کا سارا خون پی لیا ہو۔ جب اس سلسلے میں ماہرین جنگلی حیات سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا اس علاقے میں خون آشام درندوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ مقتولین کے ادھڑے ہوئے جسم پارک کے ایک گوشے میں پڑے ملے۔ لاشوں کو سب سے پہلے پارک کے چوکیدار نے دریافت کیا جو اپنی شبینہ ڈیوٹی پر تھا۔ لاشیں دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوگیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔ پارک انتظامی نے جب اس کی چیخیں سنیں اور وہاں پہنچے تو واردات کے بارے میں معلوم ہوا۔ پولیس سرگرمی سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارک کی کچی زمین پر جانوروں کے پنجوں کے واضح نشانات بھی ملے ہیں جس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کھوجی ماہرین کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں جو اس بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شہر میں ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ نامعلوم مدت کے لئے پارک بند کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اپیل کی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی درندے کو دیکھتے تو فوراً مندرجہ ذیل نمبروں پر اطلاع دے۔‘‘
’’چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ کس نے اتنی بے دردی سے ان گریبوں(غریبوں) کی ہتھیا کر دی ہے؟‘‘ میرے کان کے پاس رادھا کی آواز آئی۔ میں بری طرف اچھل پڑا ۔ پہلی بار رادھا کی آواز مجھے کسی پبلک پلیس پر سنائی دی تھی۔ میں نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی اخبار کے سٹال پر کھڑے اس خبر کو پڑھ رہے تھے۔ دو تین افراد میرے ہاتھ میں موجود اخبار پر نظریں گاڑھے بالکل میرے ساتھ جڑ کرکھڑے تھے۔۔
’’پریتم! میری آواج تمرے بن کوئی نہیں سن سکتا۔‘‘ رادھا کی آواز دوبارہ آئی میں نے اخبار تہہ کرکرکے بغل میں دبایا اور گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔
’’لیکن اس دن تو تمہاری آواز صائمہ نے بھی سنی تھی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’پرنتو تمرے سپتر اور سپتری میری آواج نہ سن پائے تھے‘‘ اس نے دلیل دی۔
’’کیوں چنتا کرتے ہو جب میں کہہ رہی ہوں میر اچھا کے بنا کوئی میری آواج سن سکتا ہے اور نہ مجھے دیکھ پاتا ہے تو تمہیں میری بات پر وشواس کرنا چاہئے‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔
’’اچھا چھوڑو۔۔۔یہ بتاؤ اس مالی کو کیوں مارا گیا جبکہ وہ بے قصور تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’نردوش۔۔۔؟ وہ پاپی تو سب سے جیادہ نردئی تھا۔ وہی تو تھا جو ان پاپیوں کو وہاں مدھ(شراب) پینے اور ناریوں سنگ بلات کار کرنے کا اوسر دیتا تھا۔ تم نہیں جانتے وہ کتنا پلید تھا۔ پرنتو اس کی مرتیو کا کارن یہ نہیں اس نے تمہیں ان پاپیوں سنگ جھگڑا کرتے دیکھ لیا تھا۔ یدی وہ جیوت رہتا تو ساری بات پولیس کو بتا دیتا پھر جانتے ہو کیا ہوتا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اس کی بات سن کر میں لرز گیا۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ کوئی ہمیں جھگڑا کرتے دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت سارا پارک خالی تھا۔ میرے سینے سے طمانیت بھری سانس خارج ہوئی۔
’’میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں کہ تم نے اس برے وقت میں میری مدد کی۔ اگر تم نہ آتیں تو نہ جانے وہ بے غیرت ہمارا کیا حشر کرتے؟‘‘ میں نے رادھا کا شکریہ ادا کیا۔
’’کیسی گیروں(غیروں) جیسی باتیں کرنے لگے ہو موہن!‘‘ جب وہ سنجیدہ ہوتی تو مجھے موہن کہہ کر مخاطب کرتی۔’’کوئی میرے موہن کو کشٹ دے اور میں اسے نرکھ میں نہ پہنچاؤں‘‘ اس کی آواز میں اپنائیت تھی۔
’’اسی لئے تو میں تمہارا شکریہ ادا کر رہا ہوں‘‘ میں نے گاڑی سٹارٹ کرکے روانہ ہوا اور وہاں سے ذرا دور ایک ویران سی جگہ پر اسے روک دیا۔
’’رادھا۔۔۔!‘‘ میں نے اسے آواز دی۔
’’ہوں۔۔۔!‘‘
’’تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’نہیں پریتم! یہ وچار تمرے من میں کیسے آیا؟‘‘ اس کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔
’’تم رات کو مجھ سے ملنے جو نہیں آتیں‘‘ میں نے دل کی بات کہہ دی۔
’’کیا تم میرا انتجار کرتے ہو؟‘‘ اس کی آواز میں بے یقینی کے ساتھ خوشی کا تاثر بھی تھا۔
’’تم کئی راتوں سے نہیں آئیں تو میں نے سوچا کہیں تم مجھ سے ناراض نہ ہو‘‘ میں نے کہا۔
’’ہائے رام میں کتنی بھاگیہ شالی ہوں تم میری راہ تکتے ہو۔ مجھے تو وشواس ہی نہیں ہو رہا۔‘‘ اس کی خوشی سے بھرپور آواز آئی۔’’پریتم ! تم نہیں جانتے تمری اس بات سے میری بیاکل آتما کو کتنی شانتی مل ہے۔ ہے بھگوان۔۔۔! یہ میں کیا سن رہی ہوں۔‘‘ اس پر جیسے شادی مرگ کی کیفیت طاری تھی۔
’’اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ گاڑی میں اس کی ٹھنڈی آہ بھرنے کی آواز آئی۔
’’کیا بات ہے کیوں آہیں بھر رہی ہو؟‘‘
’’جب سے تمہیں دیکھا ہے میں روج بھگوان سے پرارتھنا کرتی ہوں وہ مجھے بھی منش بنا دے تاکہ میں تم سے مل سکوں ہر پل تمرے سنگ رہ سکوں جتنا سمے تم سے دور بتاتی ہوں جانو نرکھ میں ہوتی ہوں‘‘ اس نے اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ مجھ میں ایسی کیا بات ہے جو یہ نادیدہ مخلوق جس کے بار میں میں ابھی کچھ بھی نہ جانتا تھا مجھے اتنا چاہنے لگی ہے۔ یہی بات میرے ہونٹوں پر آگئی۔
’’رادھا۔۔۔!‘‘ میں نے اسے پکارا۔
’’پریم! کہو میں سن رہی ہوں‘‘ اس ی چاہت میں ڈوبی آواز میرے کان کے بالکل پاس ابھری۔
’’تم نے ایسا کیا دیکھا ہے جو مجھ سے اتنی محبت کرنے لگی ہو؟ اب سے کچھ عرصہ پہلے تو تم مجھے جانتی ہی نہ تھیں‘‘
’’بتا دوں۔۔۔؟‘‘ اس کی آواز میں شوخی تھی۔
’’اگر نہیں بتاؤ گی تو میرے دل میں خلش رہے گی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تم میرے موہن کا دوجا جنم ہو۔ میرا موہن تم جیسا سندر تھا مجھے اس سے ادھیک پریم تھا پرنتو۔۔۔میں نے تمہیں بتایا تھا نا تمرے دھرم کے ایک پاپی نے اسے بھسم کر دیا تھا۔ میرا جیون اس کے بنا ایسا تھا جیسے بنا آتما کے شریر۔ جب میں نے تمہیں دیکھا تو مجھے وشواس ہی نہ آیا۔ پہلا وچار جو میرے من میں آیا وہ یہ تھا بھگوان نے میری پرارتھنا سویکار کرکے میرے موہن کو ایک بار پھر سنسار میں بھیج دیا ہے۔ میں ہر پل بھگوان سے ایک ہی پرارتھنا کرتی تھی میرا موہن مجھے لوٹا دے۔ اسی کارن مجھے یوں لگا جیسے موہن واپس آگیا ہے۔ تم سارے کے سارے موہن جیسے ہو۔ اسی جیسے سندر تمرے نین ، تمرا شریر۔۔۔سب کچھ ویسا ہے جیسا میرا موہن تھا۔ ‘‘ اس کی آواز بھر آئی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔ ’’میری سکھیاں تو تم نے دیکھیں ہیں۔۔۔‘‘
’’وہ بلیاں جنہوں نے سادھو امر کمار کا گوشت کھایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں وہی۔۔۔ساری نٹ کھٹ ہیں۔ ہر رینا وہ منشوں کو ستانے کے کارن کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ وہ رینا تمہیں یاد ہوگی جب تم لاری میں جا رہے تھے۔ میری ایک سکھی جو بہت سندر ہیلا ری جلانے والے منش کی راہ میں کھڑی ہوگئی۔ اسے یوں لگا جیسے ایک کنیا لاری سے ٹکر کھا گئی ہے۔ وہ مورکھ بہت ڈر گیا اور لاری کو روک دیا۔ سارے منش لاری سے نیچے آگئے تم بھی۔۔۔‘‘
مجھے یاد آیا جب میں ملتان جا رہا تھا اور راستے میں ڈارئیور نے یکدم بریک لگا دی تھی۔ اس کا کہنا تھا ایک لڑکی سڑک کے بچوں بیچ کھڑی تھی جو بس کے نیچے آگئی۔
’’ہاں مجھے یاد ہے پھر کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’تم بھی لاری سے نیچے اتر آئے تھے۔ میں اس سمے وہیں تھیں۔ میں نے جب تمہیں دیکھا مجھے وشواس ہی نہ آیا۔ میں تمرے پاس آئی اور تمہں دیکھتے ہی من میں دھیان آیا میرا موہن اس سنسار میں پھر سے آگیا ہے۔ تمرے بارے جانکاری کے کارن میں ہرپل تمرے سنگ رہنے لگی۔ پرنتو جب معلوم پڑا تم میرے موہن نہیں ہو۔۔۔میں نراش ہوگئی۔ من چاہا تمری ہتھیا کردوں یا آتم ہتھیا(خودکشی) کرلوں۔ پرنتو جب تمری سنتان کو دیکھا تو وہ مجھے بڑے بھلے لگے۔۔۔جیسے انہوں نے میری کوکھ سے جنم لیا ہو۔ میرے من نے کہا۔۔۔رادھا! جانے کتنے ورشوں بعد تمری آشا پوری ہوئی ہے یہ موہن نہ سہی موہن جیسا توہے اس کے بعد میں نے اپنے من میں ٹھان لی تھی یہاں میرے سنگ رہو گے۔ کیول اتنی سی بات ہے ۔ میں تمہیں اس استھان پر لے آئی پریم ! تم کھد یہاں نہیں آئے۔ میں تمہیں یہاں لائی ہوں۔ کیول مجھے اتنا کرنا پڑا کہ میں تمرے بڑے گرو(افسر) کے من میں یہ ڈال دیا کہ تمہیں یہاں بھیج دے۔ اس نے میری آگیا کا پالن کرتے ہوئے تمہیں اس استھان پر بھیج دیا۔ میں نے من میں ٹھان لی اب میں تمرے سنگ رہوں گی پرنتو میری سکھیاں میرے بنا نہ رہ پائیں انہوں نے کہا رادھا! تمرے بن ہمرا من نہیں لگتا تم۔۔۔اپنے پریمی کو یہاں لے آؤ۔ اسی کارن میں تمہیں یہاں لے آئی۔ نہیں تو اس سے پہلے جتنے منش بھی یہاں بسنے آئے میں نے ان کو ٹکنے نے دیا۔ جس نے میری اچھا کے انوسار اس استھان کو نہ چھوڑا اسے سنسار چھوڑنا پڑا۔ میں تم سے پریم کرتی رہی۔ یدی تمرا بوڑھا منتر اور تمری پتنی تمہیں مجھ سے دور نہ کرتے تو میں اسی طرح تمری پوجا کرتی رہتی۔ پرنتو جب ان پاپیوں نے تمہیں مجھ سے دور کرنا چاہا تو میں۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میں حیرت سے منہ کھولے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’تو وہ سب کچھ تمہارا کیا دھرا تھا۔‘‘
’’ہاں پرتیم! میں ہی تمہیں یہاں لائی ہوں۔ میں تمرے بن رہنے کا وچار بھی من میں نہیں لا سکتی۔‘‘آج وہ اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔ یہ ایک اچھا موقع تھا اس کے بارے میں جان لینے کا اس لئے میں نے فوراً پوچھا۔
’’رادھا تم نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دو گی تمہیں یاد ہے نا؟‘‘
’’ہاں میرے میت! سب یاد ہے پرنتو ابھی اس سے جیادہ(زیادہ) میں نہیں بتا سکتی۔ پھر تمہیں کاہے کی چنتا ہے؟ ردھا جو کچھ بھی ہے تمری داسی ہے کیا یہ کم ہے؟‘‘ اس نے اس بار بھی میرے سوال کا جواب نہ دیا بلکہ بڑے خوبصورت انداز میں بات کو ٹال گئی۔
’’اچھی بات ہے میں اس وقت کا انتظار کروں گی جب تم خود ہی سب کچھ بتا دو‘‘ گہری سانس لے کر میں نے کہا۔
’’اوہو۔۔۔اتنے نراش کس کارن ہو رہے ہو؟ بس تھوڑا سمے رہ گیا جب تمہیں میرے بارے مٰن سب جانکاری ہو جائے گی۔ پرنتو تمہیں وچن دینا ہوگا تم میرے بارے جان لینے پر بھی مجھ سے پریم کرتے رہو گے۔‘‘ اس کی شوخ آواز آئی۔
’’تمہارے دل می یہ خوش فہمی کس نے ڈالی ہے کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔
’’اچھا جی۔۔۔یہ بات ہے تو کس کارن میرا انتجار کرتے ہو‘‘ وہ بھی شوخی سے بولی۔
’’تم سے ڈر بھی تو لگتا ہے تمیہں غصہ آجائے اور میں غریب مفت میں مارا جاؤں۔‘‘ آج اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا۔
’’سجنا!۔۔۔یدی تم تھوڑی دیر اور گھر نہ گئے تو تمری پتنی اوش تمہیں مار دے گی۔‘‘ آج رادھا حد سے زیادہ شوخی ہو رہی تھی۔
’’اوہ۔۔۔میرے خدا تمہارے ساتھ باتوں میں میں اس قدر محو ہوگیا کہ مجھے اس بات کا خیال ہی نہ رہا۔‘‘ میں نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ رادھا کا قہقہہ گونج اٹھا۔ نہجانے اس کے حسن کا کرشمہ تھا یا پراسرارقوتوں کا میں آہستہ آہستہ اس کی طرف کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اس قدر طاقتور رادھا میرے ایک اشارے پر کچھ کرنے کو تیار ہے اور اس بات نے میرے دماغ میں فتور بھر دیا تھا۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔
شروع شروع میں گناہ بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے بالکل ایک بیج کی طرح اگر کوئی چاہے تو اسے دانتوں تلے دبا کر کچل دے لیکن رفتہ رفتہ یہی بیج تناور درخت بن جاتا ہے تو اسے کاٹنا کس قدر دشوار ہوتا ہے؟ گناہ بھی دل کی سر زمین میں ایک بیج کی طرح گرتا ہے پھر غرور ، تکبر اور جھوٹ کی نمو پا کر تناور درخت بن جاتا ہے کیکر کے درخت کی طرح جس کے کانٹے ہو سو بکھر کر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔ اس کی چھاؤں میں بھی کوئی بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا جب میں گھر پہنچا تو صائمہ متفکر بیٹھی تھی مجھے دیکھتے ہی اس نے سوال کیا۔

’’اتنی دیر کہاں لگا دی فاروق! میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے۔‘‘ مجھے خفت تو محسوس ہوئی لیکن میں نے جھٹ کہا۔
’’گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا‘‘ اگر میں یہ وضاحت نہ بھی کرتا تو کوئی بات نہ تھی لیکن میرے دل میں چور تھا۔ میں نے اخبار سیٹ سے اٹھا کر صائمہ کو دیا۔
’’جلدی سے آجائیں بڑے زور کی بھوک لگی ہے‘‘ وہ اخبار تھام کر بولی۔
’’اخبار کھول کر دیکھ لو ساری بھوک اڑ جائے گی۔‘‘
’’ایسا کیا ہے اخبار میں؟‘‘ اس نے اخبار کھولتے ہوئے پوچھا۔ پھر پہلے صفحے پر نظر پڑتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا۔ اخبار اس کے ہاتھوں سے گر گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ صائمہ اس خبر کا اتنا اثر لے گی خبر پر نظر پڑتے ہی خود میری حالت بھی بری ہوگئی تھی لیکن میں نے خود کو سنبھال لیا تھا۔ صائمہ چونکہ گھریلو عورت تھی اس لئے وہ بری طرح گھبرا گئی تھی۔
’’ارے جانم! اس قدر پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ تم خبر تو پڑھو‘‘ میں نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے تسلی دی۔ پھر اخبار اٹھا کر وہیں کھڑے کھڑے ساری خبر اسے سنا دی۔ وہ حیرت سے منہ کھولے سن رہی تھی۔
’’یہ سب کیا ہے؟ فاروق!‘‘ اس کی گھٹی گھٹی آواز آئی۔
’’سب کچھ رادھا نے ہماری خاطر کیا ہے‘‘ میرے لہجے میں شاید کوئی ایسی بات تھی جس نے صائمہ کو چونکا دیا۔
’’لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ رادھا نے کیا ہے؟ کیا وہ رات کو پھر آئی تھی؟‘‘ا س کی جھیل سی آنکھوں میں شک کے کنول تیرنے لگے۔
’’نہیں جان! رات کو میرے فرشتوں کو بھی اس خبر کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ واپس آتے ہوئے یونہی میں نے اخبار خرید لیا۔ جیسے ہی اس خبر پرمیری نظر پڑی میں بھی تمہاری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔ مجھے تو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ بد بخت اس قدر اثر رسوخ والے باپ کی گندی اولاد ہوگا۔ جب میں نے اخبار میں اس کے باپ کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا ہم سے کس قدر بڑی مصیبت میں گرفتار ہو سکتے تھے۔
’’میں پوچھ رہی تھی آپ کو کسیے معلوم ہوا یہ سب کچھ رادھا نے کیا ہے؟‘‘ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ہو سکتا ہے واقعی پارک میں کوئی درندہ آگیا ہو جس نے ان بدبختوں کو یہ سزا دی ہو‘‘ وہ شاید رادھا کی مدد کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔
’’ہو تو سکتا ہے تمہاری بات میں وزن ہے ‘‘ میں نے پہلو بچایا۔
’’فاروق ! ادھر دیکھیں میری طرف‘‘ اس کی شاکی نظریں میری طرف اٹھی ہوئی تھیں۔
’’میرے چہرے کے تاثرات سے اسے نہ جانے کیا شک ہوگیا تھا؟
’’کیا بات ہے صائمہ؟ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ میرے لہجے میں نہ جانے کیوں سختی در آئی۔ لاشعوری طور پر مجھے صائمہ کا یہ انداز برا لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شدید حیرت اتر آئی۔ آہستہ آہستہ حسین آنکھیں بھیگنے لگیں۔ وہ جلدی سے منہ پھیر کر اندر جانے لگی۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ میں نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور اپنی طرف گھما کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی۔
’’بس اتنے سے مذاق پر ناراض ہوگئیں؟‘‘ میں نے اس کی پلکوں پر لرزتے موتی اپنے ہونٹوں سے چن لیے۔ وہ میرے سینے میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
’’فاروق! مجھے لگ رہا ہے جیسے آپ مجھ سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے پورے زور سے اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔
’’یہ کیسے سوچ لیا تم نے؟ کیا تمہیں میری محبت پر صرف اتنا ہی یقین ہے؟‘‘
’’یقین تو اپنی ذات سے بھی زیادہ ہے لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں نہ جانے کیا ہونے والا ہے‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
’’کچھ نہی ہوگا میری جان! بے کار کی باتوں سے خودکو پریشان نہ کیا کرو۔‘‘ میری دلاسے سے اسے کچھ تسلی ہوئی۔
’’فاروق! میں نے کچھ دن قبل ایک بہت برا خواب دیکھا تھا‘‘ اس کے لہجے میں اندیشے بول رہے تھے۔
’’انسان پریشان ہو تو اسے اس قسم کے الٹے سیدھے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے اتنی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تم اس قسم کے توہمات پر یقین رکھتی ہو۔‘‘
’’میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں لیکن۔۔۔‘‘ اس کے ہونٹوں پر مغموم سی مسکراہٹ آگئی۔
’’لیکن کیا؟‘‘ میں نے اس کی زلفوں سے کھیلتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کی ذرا سی بے التفاتی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی‘‘ وہ میرے سینے پر اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے بولی۔میں اسے اپنے ساتھ لگائے لاؤنج میں آگیا۔
’’محترمہ آپ کو توبڑی سخت بھوک لگ رہی تھی‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔
’’وہ تو اب بھی لگ رہی ہے‘‘ وہ خفیف سی ہو کر بولی۔ ناشتہ کرتے ہوئے وہ نہ جانے کن سوچوں میں کھوئی رہی۔ میں بار بار اس کے حسین چہرے کو دیکھتا۔ میری نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے وہ زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر لے آتی لیکن تھوڑی دیر بعدپھر سوچوں میں گم ہو جاتی۔ میں جو صائمہ کے ماتھے پر فکر کی ایک لکیر دیکھ کر پریشان ہو جاتا آج نہ جانے کیوں مجھے اس کے انداز سے الجھن ہو رہی تھی۔ ناشتہ کرکے میں بینک روانہ ہوگیا۔ رخصت کرتے ہوئے بھی اس کے انداز میں وہ گرم جوشی نہ تھی۔ جو ہر صبح ہوتی۔ میرا ذہن رادھا میں اٹکا ہوا تھا۔ اس لئے میں نے بھی پرواہ نہ کی۔ نہ جانے مجھے کیا ہوگیاتھا؟ بار بار رادھا کا خیال میں ذہن میں ابھر آتا۔ کام کرتے ہوئے بھی میرے ذہن میں بار بار رادھا کے فقرے گونجتے رہے۔ اس کی شوخ باتوں کو یاد کرکے میرے ہونٹ مسکرا اٹھے۔
’’پریتم! ‘‘ میرے کان کے بالکل پاس رادھا کی پیار بھری سرگوشی ابھری۔ دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ لاشعوری طور پر میں اس کا انتظار کر رہا تھا
’’ہوں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’مجھے یاد کر رہے تھے نا؟‘‘ اس کی شوخ آواز آئی۔
’’تم سے کس نے کہا؟‘‘ میں انجان بن گیا۔
’’تمرے من نے مجھ سے کہا ہے‘‘ اس کی آواز میں چاشنی تھی۔
’’کیا بتایا ہے میرے دل نے؟‘‘ میری حالت اس وقت کسی ٹین ایجر لڑکے جیسی تھی جسے پہلی پہلی بار عشق ہوا ہو۔
’’تمرا من۔۔۔میرا میت بن گیا ہے اور تمہیں کھبر ہی نہیں میرے دیوتا!‘‘ رادھا کے پیار بھرے بول میرے دل کی پیاسی زمین پر بارش کی پھوار کی طرح پڑے۔
’’اس کا مطلب ہے تم چور ہو۔۔۔ تم نے میرا دل چرالیا ہے‘‘ مجھے اس سے باتیں کرکے مزا آرہا تھا۔
’’پریتم۔۔۔!‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ میں ان القابات کا عادی ہو چکا تھا۔
’’کب تک۔۔۔‘‘ اچانک خاموشی چھا گئی اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔ میں اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔ کہ دروازہ کھلا اور عمران اندر آگیا۔ پہلے دن سے میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ وہ بلا اجازت میرے کیبن میں آجایا کرتے لیکن آج اس کا یوں آنا مجھے برا لگا۔ میں نے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’خان بھائی! خودبخود مسکرائے چلے جا رہے ہیں، کیا ہمیں اپنی خوشی میں شامل نہیں کریں گے؟‘‘ اس نے شاید شیشے سے اندر کا منظر دیکھ لیا تھا اسکی سیٹ بالکل میرے سامنے تھی۔
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں!‘‘ میں زبردستی مسکرایا۔
’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘ وہ گنگنایا۔’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘‘ دل تو چاہ رہا تھا اسے باہر بھیج دوں پر لحاظ مانع تھا۔ کچھ دیر وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر میری بے توجہی محسوس کرکے باہر چلا گیا۔ جاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حیرت تھی اورکیوں نہ ہوتی ہم تھوڑے ہی عرصے میں بہت بے تکلف ہوگئے تھے ہمارے درمیان ماتحت افسر والا رویہ نہیں بلکہ دوستوں والی گہری بے تکلفی تھی تبھی میری ذرا سی بے توجہی کو اس نے محسوس کر لیا تھا۔ لیکن اس وقت مجھے ان باتوں کی پرواہ کب تھی؟‘‘
’’پریم۔۔۔!‘‘
عمران کے جاتے ہی میرے کانوں میں رادھا کی آواز آئی۔ وہ مجھے اکثر پریم پکارنے لگی پکارنے لگی تھی۔
’’کیا تم اس وقت سے یہیں تھیں؟ میں سمجھا عمران کے آنے سے تم شاید جا چکی ہو‘‘ میں نے کہا۔
’’میں تو ہر پل تمرے پاس ہوتی ہوں کیول جس سمے تم اپنی پتنی کے پاس ہوتے ہو میں تمسے دورچلی جاتی ہوں۔‘‘ اسکی آواز میں حسرت تھی۔
’’کیوں؟ اس وقت کیوں دور چلی جاتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مجھ سے تم دونوں کا ملن دیکھا نہیں جاتا پرتیم! مجھے اپنے من پر اختیار نہیں رہتا ڈرتی ہوں کہیں اپنا وچن توڑ نہ بیٹھوں‘‘
’’اچھا تو تمہیں صائمہ سے جلن ہوتی ہے۔‘‘ مجھے ہنسی آگئی۔
’’میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گی پریم! من کرتا ہے میں اور تم ایک شریر بن جائیں ہمرے بیچ کوئی نہ ہو۔۔۔موہن ! وہ سمے کب آئے گا جب میں ہمرے بیچ کوئی نہ ہوگا؟‘‘ اسکی آواز میں درد ہی درد تھا۔ میرا دل اس کی بات سے دکھی ہوگیا۔
’’رادھا تم خود ہی تو کہتی ہو وہ وقت جلد آنے والا ہے‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’پرنتو اب تو اک پل کی دوری بھی سہن(برداشت) نہیں ہوتی میرے من مندر کے دیوتا!‘‘
’’ایک بات کہوں رادھا‘‘ میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
’’موہن ایسا کیوں کہتے ہو؟ کوئی بات کہنے سے پہلے تم آگیا کیوں مانگتے ہو؟ جو تمرے من میں ہو ترنت پوچھ لیا کرو۔ ‘‘ وہ بڑی اپنائیت سے بولی۔
’’ڈر بھی تولگتا ہے تم سے۔۔۔کہیں تمہیں غصہ نہ آجائے۔‘‘ میں نے اسے سچی بات بتائی۔
’’میرے میت! جب تم رادھا سے وشواس گھات نہ کرو گے میں تم سے ناراج نہ ہوں گی۔ یہ رادھا کا وچن ہے‘‘ اس نے بڑے پیار سے کہا۔
’’تم مجھے دیوتا وغیرہ نہ کہا کرو۔ مجھے بہت برا لگتا ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس لئے کہ میں دیوی دیوتاؤں کے وجود پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ میں نے صاف گوئی سے کہا۔ کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا۔
’’بس ناراض ہوگئیں!‘‘
’’یہ بات نہیں موہن! یدی تمہیں میرا یہ کہنا اچھا نہیں لگتا تو میں نہیں کہوں گی پرنتو یہ بات کرکے تم نے مجھے دکھ دیا ہے تم دیوتاؤں کو نہیں مانتے‘‘ تھوڑی دیر بعد اس کی سنجیدگی سے بھرپور آواز آئی۔
’’میں تم سے مذہب کی بحث نہیں چاہتا لیکن جو چیز مجھے اچھی نہ لگے میں اس کے بارے میں صاف کہہ دیتا ہوں کوئی بات دل میں نہیں رکھتا‘‘ میں بھی اپنی بات پر قائم رہا۔
’’اچھا چھوڑو اتنا اچھا سمے ہے اور ہم کیا بات لے کر بیٹھ گئے‘‘ اسنے مفاہت سے کہا۔
’’جو حکم‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’اسی طرح ہنستے رہا کرو موہن! جب تم ہنستے ہو تو پتا ہے کتنے سندر دکھتے ہو؟‘‘
’’کتنا۔۔۔؟‘‘ میں نے مزاحیہ انداز میں پوچھا۔
’’دھرتی۔۔۔نیل گگن۔۔۔تاروں سے بھی جیادہ سندر‘‘ اس کا ایک ایک لفظ چاہت میں ڈوبا ہوا تھا۔ میرا دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔
’’من تو نہیں کرتا پرنتو اس سمے میرا جیادہ دیر یہاں رکنااچھا نہیں ، میں جا رہی ہوں میرے میت!‘‘
’’پھر کب آؤ گی؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’جب تم کہو‘‘
’’اگر کسی وقت مجھے تمہاری ضرورت ہو تو میں کیسے تمہیں بلا سکتا ہوں؟‘‘
’’جب بھ تم اپنے من میں میرا وچار کرو گے میں تمرے چرنوں میں آجاؤں گی۔‘‘ اس کے بعد خامویش چھا گئی۔
میں کافی دیر بیٹھا اسکے بارے میں سوچتا رہا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا جبکہ دل کمبخت اس کا راگ الاپ رہا تھا۔ کاش میں اس وقت ان باتوں سے بچتا تو مجھے وہ دن نہ دیکھنا پڑتے جن کی وجہ سے میں موت سے بدتر حالات کا شکار ہوا۔

رادھا کے جانے کے بعد مجھے عمران کے ساتھ اپنے رویے کا احساس ہوا۔ میں نے چپراسی کو بلا کر اسے کہا عمران کومیرے پاس بھیجے۔ تھوڑی دیر میں عمران اندر آیا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔
’’ہوسکتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو لیکن بیماری نے مجھے کچھ چڑا چڑا بنا دیا ہے۔‘‘ میں نے معذرت آمیز لہجے میں کہا۔ میری اتنی سی بات سے اس کے چہرے پر روشنی پھیل گئی۔
’’خان بھائی! میں تو سوچ رہا تھا نہ جانے مجھ سے کونسی غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ اگر انجانے میں کوئی بھول کر بیٹھا ہوں تو آپ جو چاہے سزا دیں لیکن خدارا مجھ سے ناراض نہ ہوں‘‘ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
’’ارے۔۔۔ارے یہ کیا۔۔۔؟ اتنی سی بات پر تم رونے لگے‘‘ مجھے دلی طور پر افسوس ہو رہا تھا کہ میرے رویے نے اس شریف آدمی کا دل دکھایا۔
’’پیار کو ترسا ہوا ایک تنہا انسان ہوں۔ والدین بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ چاچا۔ چاچی نے پالا ۔ بھائی بہن بھی کوئی نہیں آپ ملے تو سمجھا میرا بھی کوئی اس دنیا میں ہے‘‘آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کے لیے اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی پھر وہ بولا۔’’میں معذرت چاہتاہوں نہ جانے کیوں دل بھر آیا۔‘‘
’’معافی نہیں ملے گی تمہارے اس قصور کی سزا یہ ہے کہ تم لوگ آج رات کا کھانا ہمارے گھر کھاؤ گے‘‘ میں نے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی طاری کر لی۔
’’خان صاحب! کیوں پٹوانے کا ارادہ ہے ،نازش کا حکم ہے آج آپ لوگوں کو جیسے چاہے گھر لے کر آؤں میں تھوڑی دیر قبل یہی بات کہنے آیا تھا لیکن آپ۔۔۔خیر چھوڑیں اگر آپ اس لاچار بے یارو مددگار فقیر پر تقصیر کو بیوی کے ظلم و ستم سے بچانا چاہتے ہیں تو براہ کرم ٹھیک آٹھ بجے میرے غریب خانے پر تشریف لے آئیں ورنہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔‘‘ اس کی وہ شوخی لوٹ آئی تھی جو اس کی فطرت کا حصہ تھی۔
’’ٹھیک ہے مابدولت تمہارے غریب خانے کو رونق ضرور بخشیں گے‘‘ میں نے کسی بادشاہ کے انداز میں کہا۔ وہ کونسا کم تھا۔ جھک کر کورنش بجا لایا۔ میرے دل پر چھایا ہوا غبار ہلکا ہوگیا تھا۔ آج صبح میرا رویہ صائمہ کے ساتھ بھی کچھ اچھا نہ تھا۔ میں جانتا تھا وہ میرے جانے کے بعد خوب روئی ہوگی۔ وہ ایسی ہی تھی میری ذرا سی بات اس کا دل دکھا دیتی تھی۔ میں نے اسی وقت گھر فون کیا۔ گھنٹی بجتی رہی میں حیران تھا کہ صائمہ فون ریسیو کیوں نہیں کر رہی؟ طرح طرح کے اندیشے میرے دل کو گھیر رہے تھے۔ کیا دیر بعد ریسور اٹھایا گیا۔
’’ہیلو‘‘ میں نے دوسری طرف آواز آنے سے پہلے کہا۔
’’جی فرمائیے‘‘ صائمہ کی خفا خفا سی آواز میرے کان میں پڑی۔
’’کیا آپ مسز فاروق بات کر رہی ہیں؟‘‘ میں نے شوخی سے پوچھا۔
’’آپ کو کس سے بات کرنا ہے؟‘‘ صائمہ کا رویہ ویسا ہی رہا۔
’’اس گھر میں ایک بہت پیاری سی خاتون رہتی ہیں سارے جہاں میں ان جیسا حسن اس بندہ نا چیز نے کہیں نہیں دیکھا۔ جب سے انہیں دیکھا ہے دل قابو میں نہیں‘‘
’’بڑے خراب ہیں اور زمانے بھر کے چالاک بھی‘‘ صائمہ کی مدھر ہنسی سنائی دی۔
’’تعریف کا شکریہ خاتون کیا آپ اس بندہ ناچیز کے ساتھ کچھ دیر پیار محبت کی باتیں کر سکتی ہیں؟‘‘
’’ہمارے پاس فضول باتوں کے لئے وقت نہیں ہے کسی اور نمبر پر ٹرائی کیجیے؟‘‘
’’ٹھیک ہے متحرمہ جو حکم‘‘ میں نے ایک مصنوعی آہ بھر کر کہا۔
’’وہ بات کیجئے جس کے لیے فون کیا تھا‘‘ وہ بولی۔
’’حال دل سننانے کے لیے کیا تھا فون،آپ نے کر دیا اس غریب کے دل کا خون‘‘میں نے مزاخیہ انداز سے کہا۔
’’بڑی شاعری ہو رہی ہے کوئی حسینہ تو سامنے نہیں بیٹھی؟‘‘ صائمہ کی مسکراتی آواز آئی۔
’’حسینہ تو ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتی ہے پر ہے اس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ‘‘ میں نے آہیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
’’یہ پتھر آپ کے پیار کی آنچ سے ایک پل میں پگھل سکتا ہے لیکن جناب کے پاس غریب بندی کے لیے وقت ہی نہیں ہے‘‘ شکوہ اس کے ہونٹوں پر آہی گیا۔
’’تھوڑی دیر بعد مابدولت آپ کی ساری شکایات دور کرنے آرہے ہیں‘‘ مزید کچھ دیر ہنسی مذاق کرنے کے بعد میں نے فون رکھ دیا۔
’’اگر اجازت ہو تو میں بحکم، گھر سرکار المعروف ہوم گورنمٹ، چھٹی کرکے امور خان داری انجام دینے چلا جاؤں‘‘ عمران نے اندر آکر کہا۔
’’یار! تم کوئی آسان زبان نہیں بول سکتے؟‘‘ میں نے اسے گھورا۔
’’جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟‘‘ وہ مستی کے موڈ میں تھا۔ میرے رویے نے اس کا دل صاف کر دیا تھا۔
’’جاؤ بچو جی! تمہیں معطل کیا جاتا ہے کل صبح تک‘‘ میں نے اسی کے انداز سے کہا۔ وہ ہنستا ہوا چلا تھا۔
اسے گئے ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ محمد شریف نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔
’’آؤ آؤ محمد شریف‘‘ میں اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ وہ اپنے والد صاحب کی وفات کی وجہ سے چھٹیوں پر تھا۔ جب وہ اندر آیا تو اس کے چہرے پر مخصوص شفیق مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ اس نے کچھ کہے کے لیے ہونٹ کھولے پھر یکدم بری طرح چونک گیا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ اب وہ لمبے لمبے سانس لے کر کچھ سونگھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں یک بیک سرخ ہوگئیں۔اس چانک تغیر کی وجہ سے میں پریشان ہوگیا۔ کچھ دیر وہ اسی انداز میں کھڑا رہا۔ دم بدم اس کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں اس کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔ چہرے پر جلال چھا گیا۔ میں ششدر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی حالت میری سمجھ سے باہر تھی دروازہ کھلا ہوا تھا جسے نے بند کردیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ وہ سرخ چہرہ لئے آنکھیں بند کئے ساکت کھڑا تھا۔ میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں جیسے آگ کے الاؤ روشن تھے۔
’’یہ بدبخت ایسے باز نہیں آئے گی؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’تم نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اس نے ایک جھرجھری سی لی۔
’’آں۔۔۔‘‘ وہ جیسے نیند سے جاگا۔ آہستہ آہستہ اس کا چہرہ نارمل ہوگیا۔ لیکن سنجیدگی برقرار رہی۔ چند لمحے وہ خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا۔
’’میں معذرت چاہتا ہوں جناب‘‘ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی۔
’’کیا بات ہے محمد شریف تم کچھ پریشان ہو؟‘‘ میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گیا۔
’’میں اس لئے حاضر ہوا تھا کہ کل سے میں ڈیوٹی پر آنا چاہتا ہوں‘‘ پھر وضاحت کی’’دراصل ابھی میری تین چھٹیاں باقی ہیں۔‘‘
’’محمد شریف ایسی کیا عجلت ہے تم کچھ دن آرام کر لو‘‘ میں نے کہا۔
‘‘جناب یہ چھٹیاں بھی میں نے والد محترم کے حکم کے مطابق کی تھیں۔ اب بھی انہیں کے حکم سے واپس آرہا ہوں۔ ‘‘ اس کی بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔
’’تم کیا کہہ رہے ہو محمد شریف، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا‘‘
’’محترم والد صاحب میرے مرشد بھی تھے۔ اپنے وصال سے چند روز پہلے انہوں نے مجھے ہدایت دی تھی میرے وصال کے بعد تم گیارہ روز اپنے دفتر سے چھٹی کرکے یہ وظیفہ جو میں تمہیں بتا رہاہوں کرنا۔ میں نے ان کے حکم پر عمل کیا۔ کل رات حالت خواب میں مجھے حکم ہوا میں دو روز کے بعد دفتر جانا شروع کر دوں اور آج آپ کو اس بات کی اطلاع دوں بزرگوں کے حکم میں چونکہ حکمت ہوتی ہے اس لئے میں بلا چوں و چراں یہاں چلا آیا۔ لیکن یہاں آکر۔۔۔‘‘ وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔
’’کس نے حکم دیا تھا اوریہاں آکر کیا؟‘‘ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’میں انشاء اللہ کل سے حاضر ہو جاؤں گا‘‘ اس نے میرا سوال نظر انداز کرکے جانے کی اجازت چاہی۔ میں اس کی بات سے الجھ کر رہ گیا۔ وہ سلام کرکے چلا گیا کچھ دیر میں اس کے رویے کے بارے میں سوچتا رہا پھر سر جھٹک کر گھر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ شام کو حسب وعدہ ہم عمران کے گھر گئے اور رات دیر تک وہیں رہے۔ دوسرے دن میں بینک جانے کے لیے روانہ ہونے لگا تو صائمہ نے ایک گلاس میں کچھ پانی مجھے دیتے ہوئے کہا ’’یہ پی لیں‘‘
’’مسز خان! آپ کے حسن کا جادو ہی کافی ہے اور کسی قسم کا جادو کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر پانی کا گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے ہنس کر کہا۔
’’جادو کرتی ہوگی وہ آپ کی ’’کچھ لگتی‘‘ میں تو آپ کی حفاظت کی خاطر پانی پر قرآن پاک پڑھ کر دم کرتی ہوں‘‘ اس نے کچھ لگتی پر خاصا زور دے کر کہا۔ آج وہ بڑے اچھے موڈ میں تھی۔ بینک پہنچ کر میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ عمران بینک کے کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ میں لاشوری طور پر رادھا کا منتظر رہا۔ رات میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ رادھا کی حوصلہ افزائی نہ کروں گا۔ لیکن صبح ہوتے ہی میں سب کچھ بھول گیا۔ دوپہر تک رادھا کی آواز نہ سنائی دی تو میں بے چین ہوگیا۔ میں شدت سے اس کا منتظر تھا۔ خود اپنی حالت میری سمجھ سے باہر تھی۔سہ پہر کے قریب میں نے بے قرار ہو کر اسے پکارا۔ بقول اس کے جب اسے یاد کروں گا وہ آجائے گی۔ صبح سے اب تک میں کئی بار اسے یاد کر چکا تھا۔ بالآخر اسے آواز دی لیکن کمرے میں سکوت چھایا رہا۔
’’رادھا! تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے دوبارہ نیچی آواز میں اسے پکارا۔ تیسری بار میں نے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ میری آواز باہر نہ جائے ذرا بلند آواز سے پکارا۔ اس بار بھی اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔
اب میں واقعی پریشان ہوگیا ’’رادھا کیوں نہیں آئی؟‘‘ اس نے کہا تھا میں جب بھی اپنے دل میں اس کا خیال لاؤں گا وہ چلی آئے گی لیکن اب تو میں نے اسے کئی بار پکارا تھا پھر بھی وہ نہ جانے کہاں تھی؟ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے۔ اسی ادھیڑ بن میں شام ہوگئی۔ میں گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
’’موہن!‘‘ گاڑی میں رادھا کی آواز گونجی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ لیکن میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔
’’پریم ! کیا اپنی داسی سے ناراج ہو؟‘‘ اس کی چاہت سے بھرپور آواز دوبارہ آئی۔
’’سارا دن میں تمہارا انتظار کرتا رہا تمہیں کئی بار میں نے آوا زبھی دی تم نے تو کہا تھا کہ میں جب بھی اپنے دل میں تمہارا خیال لاؤں گا تم آجاؤ گی‘‘ میرے لہجے کی خفگی کو اس نے فوراً محسوس کر لیا۔
’’میں مجبور تھی پریتم!‘‘ وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولی۔
’’کیا مجبوری تھی؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’میرے آنے کی راہ بند کر دی گئی تھی‘‘ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے حیرت سے کہا
’’کس نے تمہارا راستہ بند کر دیا تھا؟‘‘ تم اس قدر طاقتور ہو پھر بھی کوئی طاقت روک سکتی ہے تمہیں؟‘‘ میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا۔
’’تمرے دفتر میں کام کرنے والے ایک منش نے میری راہ پر پہرے بٹھا دیئے تھے‘‘ اس نے کچھ جھجکھتے ہوئے بتایا۔
’’کس نے ؟‘‘ میں نے غصے سے پوچھا۔
’’اس کا نام شریف ہے وہ مورکھ نہیں جانتا وہ کس شکتی کے آڑے آرہا ہے۔ تھوڑے سمے کو وہ سپھل (کامیاب) ہوگیا پرنتو میں جلد ہی اس کا کوئی اپائے ڈھونڈ لوں گی۔ تم نشچنت رہو میرے میت! سنسار کی کوئی شکتی رادھا سے اس کا پریمی نہیں چھین سکتی‘‘ اس کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔ مجھے شریف کا وہ رویہ یاد آیا، جب وہ میرے کیبن میں داخل ہوا تھا تو اس کی حالت غیر ہوگئی تھی۔
’’اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔لیکن تم نے کالی داس جیسے شیطانی طاقتوں کے مالک کو ایک منٹ میں زیر کر لیا تھا‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’موہن تم کس کارن بیاکل ہو رہے ہو؟ میں اس کا کوئی اپائے ڈھونڈ لوں گی‘‘ اس نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھے تسلی دی۔
’’تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا شریف کالی داس سے زیادہ طاقتور ہے؟‘‘
’’یہ بات نہیں موہن!شکتیاں اس سمے تک ایک دوجے سے یدھ نہیں کرتیں جب تک انہیں ان کے بڑوں سے آگیا نہ مل جائے تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکو گے۔ پریم! چنتا نہ کرو میں رات کو تم سے ملنے آوش آؤں گی‘‘ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
میں اس کی عجیب و غریب منطق کو بالکل نہ سمجھ سکا تھا۔ گھر پہنچ کر میں سب کچھ بھول گیا۔ یوں بھی صائمہ کے سامنے میں محتاط ہوگیا تھا۔ رات دیر تک جاگ کر میں اس کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہ آئی بالآخر میں سو گیا۔ دوسرے دن بھی یہی ہوا میں سارا دن منتظر رہا لیکن وہ نہ آئی۔ جب میں گھر جانے کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں اس سے چند باتیں ہوئیں میرے پوچھنے پر وہ رات کو نہ آنے کی کوئی خاص وجہ بیان نہ کر سکی۔ میں اس کی باتوں سے کافی الجھ گیا تھا۔ کچھ دن اسی طرح ہوتا رہا۔ ایک دن جب رادھا اور میں گاڑی میں محو گفتگو تھے رادھا نے کہا
’’موہن! میری ایک بنتی ہے‘‘
’’کیا ؟‘ میں نے پوچھا۔
’’تم اس منش کو کہیں اور بھیج دو۔‘‘
’’کس آدمی کی بات کر رہی ہو؟‘‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’جس کا نام شریف ہے‘‘ اس نے نفرت سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ جانتے بوجھتے میں نے پوچھا۔
’’وہ مورکھ مجھ سے یدھ کرنے پر تلا بیٹھا ہے پرنتو وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ میں چاہوں تو ایک پل میں اسے نرکھ میں بھیج دوں پرنتو میں نہیں چاہتی تمرے واسطے کٹھنایاں پیدا ہوں۔‘‘ وہ جز بز ہو کر بولی۔
’’لیکن رادھا! اس کا تبادلہ کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘
’’یدی تم آگیا دو تو میں کچھ کروں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تمہاری ہر بات ایک پہیلی ہوتی ہے اس بات میں میری اجازت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں چڑ گیا۔
’’تم ان باتوں کو نہ سمجھ پاؤ گے پریتم! کیول تم آگیا دے دو‘‘ اس نے اصرار کیا۔
’’اس کے لئے مجھے اس کے لئے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سمے آنے پر میں تمہیں بتا دوں گی کیا کرنا ہے ابھی مجھے وچن دو جیسا میں کہوں تم ویسا ہی کرو گے‘‘ اس نے اصرار کیا میں اس کی کسی بات کو نہ سمجھ پایا تھا لیکن اس کا دل رکھنے کی خاطر میں نے کہہ دیا۔
’’ٹھیک ہے تم جیسا کہو گی میں ویسا ہی کروں گا۔‘‘
’’دھن واد۔۔۔ میرے میت! دھن واد‘‘ اس کی خوشی سے بھرپور آواز آئی۔
’’ایک بات تو بتاؤ‘‘ میں نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے پوچھا۔ گھر پہنچنے سے پہلے میں چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔
’’پوچھو! اس کی سانسیں میرے کان سے ٹکرا رہی تھیں۔ میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ میرے بہت قریب تھی۔
’’یہ کالی داس کون ہے؟ پہلے سادھو امر کمار پھر اس کا استاد، اس علاقے میں اتنے سارے ہندو کہاں سے آگئے۔ جبکہ میری معلومات کے مطابق یہاں ہندو بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی غریب سپیرے‘‘ بہت دنوں سے یہ بات مجھے الجھا رہی تھی۔
’’کالی داس کوئی معمولی منش نہیں اس نے سارا جیون کالی ماتا کی بھگتی میں بتا د دیا ہے اسی کارن کالی ماتا نیا سے کچھ شکتیاں دان کر رکھی ہیں وہ دھشٹ اک پل میں ہجارو(ہزاروں) کوس کا فاصلہ طے کر لیتا ہے لاکھوں بیر اس کی آگیا کا پالن کرنے کے کارن انتجار میں رہتے ہیں پرنتو آج تمہیں کالی داس کہاں سے یاد آگیا؟‘‘ اس نے تفصیل بتا کر پوچھا۔
’’کچھ دن قبل وہ ایک قیمتی گاڑی میں جا رہا تھا ٹریفک سگنل پر ہماری گاڑیاں رکیں تو وہ میری طرف بڑے معنی خیز انداز سے دیکھ رہا تھا‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’پریم! تمہیں کس بات کی چنتا ہے؟ میرے ہوتے ہوئے کالی داس توکیا سارے سنسار کے پنڈت پجاری ملکر بھی تمہیں کشٹ نہیں دے سکتے‘‘ اس نے حسب معمول مجھے تسلی دی۔
’’پریشانی کی بات نہیں میں تو یونہی پوچھ رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ایک طرف تو تم یہ بات کہتی ہو دوسری طرف تم شریف کی وجہ سے پریشان ہو یہ معاملہ میری سمجھ سے تو بالا تر ہے‘‘ میں بری طرح الجھ گیا تھا۔
’’موہن! اس سمے میں شاید تمہیں سمجھا نہ پاؤں کیول تم اتنا جان لو کچھ شکتیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے یدھ کرنے سے پہلے کچھ پربند کرنا پڑتا ہے تھوڑے ہی سمے میں اس کا اپائے بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں پر مجھے اس بات کی واقعی سمجھ نہیں آئی‘‘ میں نے بات ختم کی۔
’’تمرا گھر آگیا ہے پرتیم رات کو تمرے درشن کرنے اوش آؤں گی‘‘ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ گھر پہنچا تو صائمہ نے حسب معمول مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا لیکن آج اس کی مسکراہٹ بڑی اداس سی تھی۔آنکھیں سرخ تھیں جیسے وہ روتی رہی ہو۔ میں پریشان ہوگیا۔
’’کیا بات ہے صائمہ! تم کچھ پریشان سی ہو‘‘
’’آپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں‘‘ اس نے بریف کیس میرے ہاتھ سے لے لیا۔ بچوں کی موجودگی میں وہ شاید بتانا نہ چاہتی تھی۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا۔ کچھ دیر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔

کھانا کھانے اور بچوں کے سونے کے بعد وہ میرے پاس آگئی۔
’’فاروق! آج مما کا فون آیا تھا‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ اس کے چہرے سے کسی الجھن کااظہار ہو رہا تھا۔ میں نے بغیر بولے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’وہ ہمیں کچھ دنوں کے لیے بلا رہی ہیں۔‘‘
’’کیوں خیریت ہے؟‘‘ میں چونک گیا۔
’’شرجیل اور ناعمہ میں جھگڑا ہوگیا ہے ناعمہ۔۔۔مما کے گھر آگئی ہے‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
’’صائمہ! میاں بیوی میں جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور ۔۔۔‘‘
’’یہ بات نہیں‘‘ وہ میری بات کاٹ کربولی’’شرجیل ناعمہ کو طلاق دینا چاہتاہے‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا کہہ رہی ہو؟ ‘‘میں نے حیرت سے پوچھا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اگر ناعمہ کے ہاں کوئی بچہ ہو جاتا تو شاید وہ۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھراگئی۔
’’آخر کوئی بات تو ہوگی؟‘‘

’’کوئی عورت شرجیل کے پیچھے پڑ گئی ہے پہلے تو وہ کہتا تھا میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں بڑی مشکل سے ناعمہ رضا مند ہوئی تھی کہ اس عورت نے شرط لگا دی پہلی بیوی کو طلاق دو گے تو میں تم سے شادی کروں گی‘‘ وہ کوئی اچھی عورت نہیں ہے۔۔۔طوائفوں کے خاندان سے تعلق ہے اس کا‘‘ آج صائمہ مجھے حیران کیے جا رہی تھی۔ شرجیل سے میری چند بار ملاقات ہوئی تھی وہ ایک سلجھا ہوا بردبار انسان تھا۔
’’شرجیل کوکیا سوجھی یہ؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’مماکہہ رہی تھیں اس عورت نے شرجیل پر جادو کروا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے‘‘
’’یہ تو واقعی پریشانی کی بات ہے، کیا شرجیل کو معلوم ہے وہ پیشہ ور عورت ہے؟‘‘
’’اس نے خود ناعمہ کو بتایا تھا دراصل یہ عورت کسی کیس کے سلسلے میں شرجیل سے ملنے آتی تھی شرجیل نے اسکی مدد کی ۔ انہی ملاقاتوں میں نہ جانے اس نے ایسا کیا کر دیا کہ شرجیل اس کے پیچھے دیوانہ ہوگیا‘‘ صائمہ نے تفصیل بتائی۔
’’مما چاہتی ہیں ہم کچھ دنوں کے لیے آجائیں ایک تو ناعمہ کوکچھ تسلی ہو جائے گی دوسرے شرجیل کو سمجھائیں کہ وہ اس حماقت سے باز رہے۔ میں چاہتی تھی آپ شرجیل کو سمجھائیں وہ آپ کی بڑی عزت کرتا ہے آپ کی بات نہیں ٹالے گا۔‘‘
’’ایسے معاملات میں انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ کسی کی بات نہیں مانتا۔بہرحال میں فون پر اس سے بات کروں گا اگر مجھے کوئی مثبت جواب ملا تو چلے چلیں گے‘‘ میں نے اس کی تسلی کی خاطر کہا۔
’’اچھا‘‘ وہ بہت مایوس تھی۔ اسکے چہرے پر اداسی مجھ سے دیکھی نہ جا رہی تھی۔
’’میری جان! تم فکر نہ کرو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
’’پتہ نہیں شرجیل کو کیا ہوگیا ہے وہ تو ناعمہ پرجان چھڑکتا تھا‘‘صائمہ نے روتے ہوئے بتایا۔
’’یہ عورت کا چکر ہی براہوتا ہے۔ اس میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں بہرحال تم فکرنہ کرو جوکچھ ہم سے ہو سکا ضرورکریں گے۔‘‘ میری تسلی سے وہ کچھ مطمئن ہو کر سوگئی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے بھی نیند آگئی۔
نہ جانے رات کا کونسا پہر تھامیری آنکھ کھل گئی۔
’’پرتیم!‘‘ رادھا کی سرگوشی سنائی دی۔
’’تھوڑی دیر کے لیے باہر آجاؤ۔ دروجے سے باہر‘‘ اس نے عجیب بات کہی۔
’’دروازے سے باہر کیوں۔۔۔لان میں کیوں نہیں؟‘‘ میں نے ایک نظر صائمہ کی طرف دیکھ کردبی آواز میں پوچھا۔
’’باہر آؤ پھر بتاتی ہوں‘‘ اس کی آواز میں بچپنی تھی۔
’’اچھا آرہاہوں‘‘ میں نے سگریٹ کا پیکٹ دروازے سے نکالا اور دبے پاؤں خوابگاہ سے نکل آیا۔ باہر نکلنے سے پہلے میں نے اوور کوٹ پہن لیا۔ جونہی میں لان میں آیا سردی کی لہر نے مجھے کپکپانے پرمجبور کر دیا۔ گیٹ کھول کرمیں باہر نکل آیا۔ ہر طرف خاموشی اور تاریکی کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میں نے باہر آکر پکارا۔ میرا خیال تھاوہ ابھی جواب دے گی لیکن خاموشی چھائی رہی۔ کچھ دیر انتظار کرکے میں نے دوبارہ اسے پکارا۔ اس بار بھی جواب نہ دارد۔
میں حیران تھا مجھ باہر بلا کر وہ کہاں چلی گئی۔یخ بستہ ہواجسم کے آر پار ہو رہی تھی میں نے سگریٹ سلگایا اور گہرے کش لینے لگا اس سے سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ ہر شے دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میں نے اس بار ذرا بلند آواز سے پکارا۔ سڑک کے کنارے لگے درختوں سے پانی کے قطرے ٹپکنے کی آواز کے سوا کچھ نہ تھا۔ سگریٹ کو ہونٹوں میں دبا کر میں نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیے۔ ایسا توکچھ بہ ہوا تھا کہ رادھا مجھے بلا کر چلی گئی ہو۔ دور سے کسی کے قدموں نے چاپ سنائی دینے لگی۔میں نے چونک کر دیکھا دھند کے باعث کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا لیکن قدموں کی چاپ واضح ہوتی جا رہی تھی۔ میں گیٹ کی آڑ میں ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد کسی شخص کا دھندلا سا ہیولا نظر اایا۔ وہ سیدھا میرے گھر کی طرف چلا آرہا تھا۔ میں مزید ہٹ کربالکل گیٹ کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ اورجھری سے باہر جھانکنے لگا۔
آنے والا بالکل میرے گیٹ کے پاس آگیا۔ کچھ جانا پہچانا سا حلیہ تھا۔ آتے ہوئے چونکہ میں نے گیرج کی لائٹ آف کر دی تھی ۔ وہ کچھ اور قریب آیا تو اسے پہچان کر میں ششدر رہ گیا وہ کوئی اور نہیں محمد شریف تھا۔
اگر میں نے گیٹ کو بھیڑ نہ دیا ہوتا تو وہ مجھے دیکھ لیتا۔ اس کے ہاتھ میں کشکول نما برتن تھاجس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ہوا کا رخ اندر کی طرف ہونے کی وجہ سے میرے نتھنوں میں لوبان کی خوشبو اور دھواں آیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ گیٹ کھول کر اندر نہ آجائے۔ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ آدھی رات کے وقت محمد شریف میرے گھر کے باہر کیا کر رہا ہے؟
میں مسلسل جھری سے جھانک رہا تھا اس نے آہستہ آہستہ آواز میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا الفاظ تو سمجھ نہ آرہے تھے لیکن محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ قرآنی آیات کا ورد کر رہا ہے۔ پڑھنے کے ساتھ وہ بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی گیٹ کے مختلف حصوں پر پھیرتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے ہاتھ میں پکڑے برتن سے کسی شے کی چٹکی بھری اور ہتھیلی پر رکھ کر اسے پھونک سے گیٹ کی طرف اڑایا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مٹی نما کسی شے کی چھوٹی سی چٹکی نے گیٹ کے آس پاس سارے علاقے کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا جیسے گہرا گردو غبار چھا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی لوبان کی خوشبو تیز ہوگئی۔ گرد غبار تیزی سے بڑھ رہا تھا تھوڑی دیر گیراج لان سے ہوتا ہوا برآمدے اور کمروں کی طرف بڑھنے لگا۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا اور آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا برآمدے میں آگیا۔
ہر طرف اس قدر غبار چھایا ہوا تھا کہ برآمدے کے بلب کی روشنی بالکل مدہم ہوگئی۔ میں جلدی سے دروازہ کھول کر کاریڈور میں آگیا اور جھری سے جھانک کر دیکھا محمد شریف گیراج میں آچکا تھا۔ اگر میں وہیں کھڑا رہتا تو وہ یقیناًمجھے دیکھ لیتا۔ وہ مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ اس کی مدہم آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ لان کے درمیان میں پہنچ کر وہ بیٹھ گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ شریف کے گرد غبار قطعاً نہ تھا۔ اس کے گرد ایک ہالہ سا بناہوا تھا جیسے چاند کے گرد روشن ہالہ ہوتا ہے۔
اتنی شدید شردی کے باوجود اس نے صرف ایک چادر احرام کے طرز پر باندھ رکھی تھی۔ وہ لان کی بھگی ہوئی گھاس پر بڑے اطمینان سے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ برتن اس نے اپنے آگے زمین پر رکھ دیا تھا جس سے اب ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ مکان کے سامنے والا سارا حصہ دھواں نما غبار میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوبان کی خوشبو اس قدر تیز ہوگئی تھی کہ سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ میں دروازے کی جھری سے آنکھ لگائے بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا۔ روشنی آسمان کی طرف آتی محسوس ہو رہی تھی لیکن اندر ہونے کی وجہ سے اس کا مخرج دیکھنے سے قاصر تھا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں شل ہونے لگیں لیکن تجسس مجھے وہاں رکنے پر مجبور کیے جا رہا تھا۔

جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر9  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں