میں اس کالم میں سیاسی موضوعات کو بھلاکر کچھ دیگر معاملات پر لکھنے کا بہت شدت سے خواہش مند ہوں۔ میڈیا میں لیکن جو بک رہا ہو اسے نظر انداز کرنا ایک پیشہ ور صحافی کے لئے ممکن نہیں۔ اس لئے مجبور ہوں کہ ایک بار پھر اس کھچڑی تک محدود رہوں جو ان دنوں پنجاب میں تیار ہوتی نظر آرہی ہے۔معروف صحافی نصرت جاوید اپنے کالم میں لکھتے
ہیں۔۔۔۔۔جس روز چودھری پرویز الٰہی کے ہاں جہانگیر ترین کی آمد کے بعد ہوئی گفتگو کی بنائی ویڈیو لیک ہوئی اسی دن عمران خان صاحب بھی لاہور میں موجود تھے۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے چند کلمات کہے جن کا مطلب ان کے چاہنے والوں نے یہ نکالا کہ عثمان بزدار کا ”کلہ“ مضبوط ہے۔ انہیں کپتان نے ویسے ہی ”دریافت“ کیا ہے جیسے ”پاکستان الیون“ کے لئے وسیم اکرم اور انضمام الحق کو کیا تھا۔ یہ دونوں کھلاڑی خان صاحب کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی برسوں تک اس کھیل کے سٹار شمار ہوتے رہے۔اس بحث میں اُلجھے بغیر کہ عثمان بزدار کی ”دریافت“ کیسے ہوئی ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ نامزد کرتے ہوئے خان صاحب نے ہر شخص کو حیران کردیا تھا۔سرائیکی وسیب سے اس عہدے کی خاطر جاں گسل جوڑ توڑ اور لابنگ میں مصروف افراد نے ان کی نامزدگی کے بعد یکسوہوکر مجھ جیسے صحافیوں کو سرگرشیوں میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بزدار کا چناؤ جہانگیر خان ترین کے ایماءپر ہوا ہے۔ ان دنوں یہ فرض کر لیا گیا
تھا کہ سپریم کورٹ ترین صاحب کی نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے درگزر سے کام لے گی۔ ان کی جاں خلاصی ہوگئی تو پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست خالی کروائی جائے گی اور حق فارسی محاورے والے ”حقدار“کومل جائے گا۔اس دعوی کا بحیثیت رپورٹر ذکر کردینے کے باوجود میں اس بات پر مصر رہا کہ سپریم کورٹ سے جہانگیر خان ترین کے حوالے سے ایک غیر منطقی امید باندھی جارہی ہے۔ عثمان بزدار ان کے Seat Warmer نہیں ہیں۔ سرائیکی وسیب سے تحریک انصاف میں بیٹھے مخدومین خود کو طفل تسلیاں دینے سے باز رہیں۔ آنے والے کئی مہینوں تک انہیں بزدار صاحب ہی سے گزارہ کرنا ہوگا۔سرائیکی وسیب والوں کو میرے ربّ نے ویسے بھی صبر کی نعمت سے مالامال کررکھا ہے۔ پورے پانچ برس ان میں سے کئی حضرات نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ میں بیٹھے رہے۔ 2018کے انتخابات کا مرحلہ قریب آیا تو انہیں اپنے وسیب کا احساسِ محرومی یاد آگیا۔ وسیب کے لئے علیحدہ صوبے کے قیام کے مطالبے کو بنیاد بناکر انہوں نے ایک محاذ بنایا اور چند ہی دن بعد جہانگیر ترین کے جہاز میں لدکر بنی گالہ پہنچ گئے۔ ان کے
مشرف بہ تحریک انصاف ہونے کے بعد وسیب کا احساس محرومی بھی دور ہوگیا۔بزدار صاحب کی تعیناتی نے حسد کی آگ درحقیقت ان لوگوں کے دلوں میں بھڑکائی جن کا تعلق اٹک سے ساہیوال تک پھیلے اضلاع سے تھا۔ ان میں سے کئی ایک خود کو تحریک انصاف کے ”بنیادی“ اراکین بھی شمار کرتے ہیں۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی افراد نے بھی برسوں سے لاہور کو اپنا مسکن بنارکھا ہے۔ ان میں سے چند ایک پشتینی لاہوری ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ہمہ وقت متحرک نظر آنے والے شہباز شریف کو بھلانے کے لئے تحریک انصاف کو لاہور ہی سے کسی ”جی دار“ کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہیے۔ اسی باعث علیم خان کا ذکر ہوا اور میاں اسلم کا نام بھی گونجتا رہا۔ بزدار صاحب نے حلف اٹھا لیا تو یہ حضرات بھی ”اسی تنخواہ“ پر گزارہ کرنے کو تیار ہوگئے جو عمران خان صاحب نے طے کی تھی۔تحریک انصاف کے ”بنیادی“ اور نظریاتی“ ہونے کے دعوے داروں نے عثمان بزدار کی نامزدگی کے بعد اپنے دلوں میں ہوتی کھدبد کی وجہ سے یاد ہی نہ رکھا کہ کپتان نے انہیں اعتماد میں لئے بغیر جولائی 2018کے انتخابات سے چند
روز قبل گجرات کے چودھریوں سے حیران کن Adjustmentکی تھی۔ گجرات ان کے لئے ”خالی“ چھوڑ دیا گیا۔ یہ سہولت پرویز الٰہی کے نامزد کردہ کئی امیدواروں کے لئے برقرار رکھی گئی۔ کپتان اور چودھریوں کے مابین ہوئی دوستی اتنی گاڑھی ہوگئی کہ پرویز الٰہی کی قومی اسمبلی میں موجودگی یقینی بنانے کے لئے تلہ گنگ کی نشست بھی ان کے حوالے کر دی گئی۔ اس حلقے سے چودھریوں کے بہت لاڈلے حافظ عمار یاسر کو بھی پنجاب اسمبلی میں لانے کا بندوبست ہوا۔پنجاب میں اس وقت پکتی کھچڑی کو درست انداز میں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ذرا محنت کرکے یہ معلوم کرلیا جائے کہ عمران خان صاحب اور چودھریوں کے مابین 25جولائی 2018 سے قبل تعاون کا بندوبست کیسے ممکن ہوا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تو یہ تھا کہ وہ ”کھمبے“ کو بھی کسی نشست پر کھڑا کر دے تو اس حلقے کو ”آبائی“ تصور کرنے والے کئی برج اُلٹ جائیں گے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کو تحریک انصاف نے مگر ایک نہیں دو سیٹوں سے نوازنے کا فیصلہ کیا۔ حنیف عباسی والی نشست لیتے ہوئے اگرچہ راشد شفیق کو تحریک انصاف میں شامل ہونا پڑا۔ حافظ عمار یاسر
وغیرہ سے ایسا مطالبہ کیوں نہ ہوا۔گجرات کے چودھریوں کے ساتھ جو بندوست ہوا وہ ”مائنس نواز“ گیم کو طویل المدتی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بہت ضروری تھا۔ خان صاحب کی خود اعتمادی اگرچہ اسے بھانپ نہ پائی۔ انہیں وزیر اعظم کے منصب تک ہر صورت پہنچنا تھا اور انگریزی کا ایک محاورہ سمجھاتا ہے کہ اہداف کا حصول آپ کی جانب سے اٹھائے ہر قدم کو بالآخر جائز ٹھہرا دیتا ہے۔نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف کو بھی سیاسی اعتبار سے غیرمو¿ثر بنانا ہے۔ شریف خاندان سے سیاست کی گلیاں خالی کروالی گئیں تو اس خاندان سے ”وفاداری“ نبھانے کا وعدہ کرتے ہوئے جو Electables قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، ان کی دلداری کا بندوبست بھی کرنا ہوگا۔ یہ بندوبست فقط چودھری برادران ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ چودھری سرور یا علیم خان کے بس کی بات نہیں۔2002 سے 2008 تک چودھریوں نے ایسی ہی دلداری کے ذریعے یہ فضا بنائی تھی کہ اپنی جلاوطنی چھوڑ کر پہلے شہباز شریف اور بعدازاں نواز شریف نے وطن لوٹنے کی کوشش کی تو جلوہ نہ لگا پائے۔ انہیں جہاز میں لادکر واپس بھیج دیا گیا۔ ”قدم
بڑھاؤ….“ کا نعرہ لگانے والے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے۔عثمان بزدار کی صورت تحریک انصاف نے پنجاب میں جو انتظام بنا رکھا ہے وہ راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور جیسے شہروں میں ”سکون“ کی اس فضا کو یقینی بناتا دکھائی نہیں دے رہا جو چودھری پرویز الٰہی نے اپنے 5سالوں میں برقرار رکھی تھی۔ تحریک انصاف کی ”انقلاب دوستی“ نے پنجاب کی افسر شاہی کو خوفزدہ کردیا ہے۔ اسے حوصلے کی ضرورت ہے۔خود کو بہت کائیاں تصور کرنے والے چودھری سرور اپنے تئیں یہ حوصلہ فراہم کرتے ہوئے پنجاب میں اقتدار کا ایک متوازی مرکز قائم کئے ہوئے ہیں۔ خود پسندی کے زعم میں مبتلا یہ گورنر برطانوی پارلیمان کے رکن رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ آج کے پنجاب کو ”لارڈ منٹگمری“ بنا ہوا گورنر چلا ہی نہیں سکتا۔ اقتدار کا مرکز پنجاب اسمبلی کو منتقل ہو چکا ہے۔ وہ واقعتاً سیانے ہوتے تو سینٹ کی سیٹ چھوڑ کر گورنر ہاؤس نہ جاتے۔ اپنی عقل کو فقط پنجاب میں آنے کے لئے تھوڑی دیر کو مختص کرتے اور وہاں پہنچنے کے بعد ہی برادری کارڈ کھیلتے تو شاید اس دور کے حنیف رامے بن جاتے۔چودھری سرور نے یہ موقعہ
کھو دیا۔ مناسب یہی ہے کہ اب گورنری بچانے کی کوشش کریں۔