ابتداءمیں حضرت رابعہ بصریہؒ کے حسن و جمال کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ مگر جوانی کے شب و روز انہوں نے یاد الہٰی میں گزاردئیے۔ ان کے چہرے پر پاکیزگی کا ایک ایسا نقاب تھا کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خود بخود جھک جاتی تھیں۔ اسی زمانے میں ایک نوجوان نے انہیں رات کے وقت ایک قبرستان میں چاند کی طرح دمکتے دیکھا۔ وہ آپؒ کو کوئی غیر مرئی (خیالی) مخلوق سمجھ کر بھاگ کھڑا ہوا، لیکن دوسری صبح جب وہی چہرہ اسے بصرے کے ایک بازار میں نظر آیا تو وہ عقل و خرد سے ہاتھ دھوبیٹھا اور رات دن اسی کے تصور میں رہنے لگا۔ آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تو لوگوں سے پتہ پوچھتا ہوا حضرت رابعہ بصریہؒ کے گھر جاپہنچا۔
روزنامہ امت کے مطابق آپ کہا کرتی تھیں کہ: ”دل کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھو، کیا معلوم محبوب کس وقت دستک دیدے۔“ مگر گھر کے دروازے بند ہوں یا کھلے ہوئے، ان کی دانست میں برابر تھے۔ نوجوان کو خلاف توقع ان کا دروازہ کھلا ہوا ملا۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکنوں پر بڑی مشکل سے قابو پایا۔ رات کا وقت تھا، اندر چراغ روشن تھا۔ یہ سوچ کر بے باکی سے اندر داخل ہوگیا کہ حال دل سنادینے میں کیا حرج ہے؟ زیادہ سے زیادہ انکار ہی تو ہوجائے گا۔ واپسی کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے، لیکن جب وہ اندر پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ البتہ چھت سے ایسی پرسوز آواز آرہی تھی، جیسے کوئی زیر لب ہجر کا رونا رورہا ہو۔ نوجوان تیزی سے زینے چڑھ گیا۔ حضرت رابعہ بصریہ عشاءکی نماز سے فارغ ہوکر ثنا خوانی کررہی تھیں۔
”پروردگار! ستارے روشن ہوگئے، لوگ سوگئے، بادشاہوں نے دروازے بند کرلئے، ہر محبوب اپنے محبوب سے محو راز و نیاز ہے اور میں تیرے سامنے کھڑی ہوں۔“
نوجوان پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسی اثناءمیں حضرت رابعہ بصریہؒ نے پلٹ کر اسے ایسی قہر آلود نظروں سے دیکھا کہ اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ رابعہؒ نے اس کے قریب آکر پوچھا: ”کیا تم مجھ سے شادی کی درخواست کرنے آئے ہو؟“ نوجوان نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بول نہیں سکتا۔
حضرت رابعہ بصریؒ نے کہا: ”اس سے پہلے کہ زبان کی طرح تیرا دل بھی چپ ہوجائے، تو جس راستے سے آیا ہے، اسی راستے سے لوٹ جا۔“
نوجوان صرف آنکھوں سے التجا کرسکتا تھا کہ :”نیک خاتون! میری گویائی مجھے واپس دیدے۔ میں تیرے مرتبے سے واقف نہیں تھا، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے معاف کردے، لاعلمی ہمیشہ قابل معافی ہوتی ہے۔“اس کے خاموش آنسوﺅں کے جواب میں حضرت رابعہ بصریہؒ نے کہا:” نوجوان! تو نے اگر مجھ سے کوئی زیادتی کی ہوتی تو میں تجھے یقینا معاف کردیتی۔ میں نے خود کو بہت پہلے اپنے رب کے حوالے کردیا تھا۔ اب یہ معاملہ تیرے اور رب کے درمیان ہے۔ معافی مانگنا ہے تو اس سے مانگ۔ تو صدقِ دل سے توبہ کرنے کا ارادہ کرے تو شاید توبہ کی خاطر تیری زبان کھل جائے۔“
یہ کہہ کر وہ نماز کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ نوجوان بھی بے اختیار سجدے میں گرگیا۔ وہ رورہا تھا، نہ معلوم کب تک روتارہا۔ جب اسے ہوش آیا تو زبان کھل چکی تھی اور توبہ توبہ کا ورد کررہی تھی۔بصرہ کے بازاروں میں سالہا سال تک ایک مجذوب گرمی، جاڑے اور برسات سے بے نیاز ہوکر دیوانہ وار توبہ توبہ کے نعرے لگاتا رہا۔ اس کے نعروں سے بصرے کی راتیں گونج اٹھتی تھیں اور بچے سہم کے ماﺅں کے سینوں میں دبک جاتے تھے۔ آخر ایک دن وہ مجذوب اچانک ہی کہیں غائب ہوگیا۔ پھر کبھی اس کا پتہ نہیں چلا۔ وہ مجذوب یہی مذکورہ جوان تھا، جو حضرت رابعہ بصریہؒ کی بدولت ہی دربارِ خداوندی میں مقرب ٹھہرا۔ (سیرت حضرت رابعہ بصریہؒ، صفحہ 41 تا 45)