گھر میں کوئی نہیں ھے

ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا،
”گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبه حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی ھے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر ریگزین کےگتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ھی ریٹ بھی لکھے ھوۓ هیں
اور اگر آپ کے پاس پیسے نه ھوں، تو میری طرف سے لے لینا, اجازت ہے!
. وللہ خیرالرازقین!
ادھر اُدھر دیکھا، پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھی، میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. ، افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی ، داڑھی آدھی کالی آدھی سفید ، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وه ھمیں دیکھکر مسکرایا اور بولا” صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا
نام پوچھا تو بولا خادم حسین
پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا “پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے، میرا کوئی بال بچہ نہیں، بیوی مر گئی ہے، صرف میں ھوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نهیں اس لئے مجھے ھروقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں