بے نظیر کو مروانے کے لئے سنائپر کو اشارے کرنے والے خالد شہنشاہ کا قاتل پکڑا گیا دیکھیں کون ہے قاتل ، ویڈیو دیکھیں !!!

مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سات برس بعد بھی انجام کو نہ پہنچ سکا۔

پیپلزپارٹی کی چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر قتل کردیا گیا تھا، بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ راولپنڈی کے تھانہ سٹی میں درج ہوا اور انسدادِ دہشتگردی عدالت میں ٹرائل ہوا۔

سات برس میں دوسوتیس سماعتیں ہونے کے باوجود تاحال مقدمہ اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ سکا، پنجاب پولیس، ایف آئی اے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ نے تحقیقات کیں، آٹھ چالان جمع کرائے گئے اور تین مرتبہ مقدمے کا ازسرِنو ٹرائل شروع ہوا لیکن ایک سو تیس میں سے صرف اٹھائیس گواہوں کے بیانات ہی ریکارڈ کئے جا سکے، جائے وقوعہ سے اکھٹے کئے جانے والے پانچ سوشواہد بھی قتل کا معمہ حل نہ کرسکے۔

ابتدائی طور پر پانچ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، سابق سی پی او سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد اور پھر سابق صدر پرویز مشرف کو مقدمے میں ملزم نامزد کیا گیا جبکہ بیت اللہ محسود سمیت سات ملزمان کو ماسٹر مائنڈ قراردیا گیا۔

بینظیر بھٹو قتل کیس سے جڑے خالد شہنشاہ اور پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقارعلی سمیت دیگر اہم افراد قتل کئے جاچکے ہیں جبکہ اہم گواہ مارک سیگل سمیت کئی گواہوں نے دھمکیوں کے پیشِ نظر اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے معذرت کرلی۔

تاریخ کا سچ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دورِحکومت میں بھی بینظیر قتل کیس حل نہ ہوسکا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں