معروف سائنسی میگزین، پاپولر سائنس کے مطابق، امریکا میں ہر برس 90لاکھ افراد اپنا خون عطیہ کرتے ہیں۔ امریکی باشندوں کے اس عمل کی وجہ سے متعدد افراد کی جان بچ جاتی ہے اور خون عطیہ کرنے والوں پر منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوتے۔ 1980ء کی دہائی میں دوسروں کی جان بچانے کے لیے خون عطیہ کرنے والے ان افراد پر ایک تحقیق کی گئی
تھی، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ خون عطیہ کرنے سے مخصوص مدافعتی خلیوں جیسا کہ زیر گردش سیرم پروٹین اور اینٹی باڈیز میں عارضی طور پر کمی واقع ہوتی ہے۔ تاہم، سائنس داں ابھی تک خون عطیہ کرنے کے دیرپا منفی اثرات کا پتہ نہیں لگا سکے ہیں۔اس بارے میں سوئیڈن کے کیرولنسکا یونیورسٹی اسپتال کے ہیماٹولوجسٹ، گسٹاف ایگرن کا کہنا ہے کہ ’’ خون عطیہ کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد خون اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے اور اگر جسم کو مزید اینٹی باڈیز کی ضرورت ہوتی ہے، تو یہ نہایت تیز رفتاری سے انہیں پیدا کرتا ہے۔ ‘‘ کم و بیش 20لاکھ خون عطیہ کرنے والے افراد پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر ایگرن کا کہنا ہے کہ خون عطیہ کرنے والے افراد کو خون نہ عطیہ کرنے والوں کے مقابلے میں نہ ہی کینسر لاحق ہونے اور نہ ہی ان سے پہلے مرنے کے خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بیش تر خون عطیہ کرنے والے افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے وہ پہلے سے زیادہ صحت مند ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، جسم میں فولاد کی حد سے زاید موجودگی سے کینسر اور دل کے امراض لاحق ہونے کا
خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ سن یاس تک پہنچنے سے قبل خواتین کو کینسر لاحق ہونے اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، کیونکہ خواتین کو مہینے میں ایک مرتبہ ماہواری ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے جسم میں موجود فولاد کی سطح کم ہو جاتی ہے اور یہ عمل انہیں بیماریوں سے قدرتی طور پر محفوظ رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگرچہ ابھی تک اس بات سے شواہد نہیں ملے کہ خون عطیہ کرنے سے صحت بہتر ہوتی ہے۔ تاہم، بہت سے عطیہ کرنے والوں کو یقین ہے کہ اس سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر ایگرن کا کہنا ہے کہ ’’ یہ اچھی سوچ ہے۔ کیونکہ صحت مند رہنے کے لیے یہ تاثر ضروری ہے۔‘‘