پاکستان چھوڑنے کامنصوبہ ،آسیہ بی بی کواب تک رہاکیوں نہیں کیا گیا،اہل خانہ نے بھی تشویش کااظہارکردیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک )توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے 8 سال بعد بری ہونے والی آسیہ بی بی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا پاکستان چھوڑنے کا منصوبہ ہے۔ان کے خلاف 2010 میں سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے بڑے فیصلے کے بعد یہ پیش رفت ہوئی ہے۔آسیہ بی بی کے بھائی جیمز مسیح کا کہنا تھا

کہ 5 بچوں کی ماں 54 سالہ آسیہ بی بی کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے اور وہ باقاعدہ رہائی کا انتظار کر رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آسیہ پاکستان میں محفوظ نہیں رہیں گی، ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے اور وہ جلد ہی ملک چھوڑ دیں گی’۔جیمز مسیح نے ان کی منزل کے حوالے سے کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم فرانس اور اسپین دونوں ممالک آسیہ کو پناہ دینے کی پیشکش کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح اکتوبر کے وسط میں اپنے بچوں کے ساتھ برطانیہ کا دورہ کرکے واپس لوٹے ہیں اور ان کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر مشتعل افراد کے حملوں سے خوفزدہ آسیہ بی بی کے اہل خانہ ان سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں۔عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ ‘میری بیٹیاں، جب ان کی ماں ان سے دور ہو رہی تھیں تو صرف 10 برس کی تھیں، انہیں اپنی ماں کے ساتھ گزرا وقت زیادہ یاد نہیں ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری 4 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، ہم عدالت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں انسان تصور کرتے ہوئے بنا کسی عقیدے اور مذہب کی تفریق کیے فیصلہ دیا’۔انہوں نے کہا کہ 54 سالہ آسیہ کو ان کے لیے

سیکیورٹی انتظامات کے باعث جیل سے رہا نہیں کیا گیا ہے۔آسیہ بی بی کے بہنوئی ندیم کا کہنا تھا کہ ‘وہ یہاں محفوظ نہیں رہ سکتیں، باہر جو ہو رہا ہے اس سے آپ واقف ہیں، ہم ان کی رہائی سے قبل معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں’۔آسیہ بی بی کو جلد ہی رہا کردیا جائے گا اور ان کا خاندان سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑنے کو ترجیح دے گا، لیکن مقام کے حوالے سے فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے۔ندیم کا کہنا تھا کہ ‘پاکستانی حکام یا باہر سے کسی کی جانب سے اب تک ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا’۔عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کو جبری طورپر چھوڑنے پر افسردہ ہوں گے، ‘ہم بھی پاکستان کا حصہ ہیں، یہ ہمارا ملک ہے، ہمیں اس سے پیار ہے’۔آسیہ بی بی کو پھانسی سے بچانے کے بعد ان کے وکیل کو انتہا پسندوں کا سامنا ہے اور وہ پریشان ہیں کہ ان کی حفاظت کون کرے گا۔دھمکیوں کے باوجود سیف الملوک کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی افسوس نہیں ہے اور عدم برداشت کے خلاف اپنی قانونی جنگ کو جاری رکھوں گا۔فیصلے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اور خوشی کا دن ہے، اس فیصلے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ملک میں غریب، اقلیتیں

اور معاشرے کے کم ترقی یافتہ طبقے کوتاہیوں کے باوجود انصاف حاصل کرسکتے ہیں’۔سیف الملوک کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہورہا ہے کہ وہ بغیر سیکیورٹی کے رہ رہے ہیں، ‘میں سمجھتا ہوں کہ میں بالکل محفوظ نہیں ہوں، کوئی سیکیورٹی نہیں اور میں آسان ہدف ہوں، کوئی بھی مجھے قتل کرسکتا ہے’۔آسیہ بی بی کا دفاع کسی وکیل کی جانب سے کسی بھی متنازع کیس کی طویل عرصے تک پیروی کرنے کا تازہ کیس ہے۔یاد رہے کہ سیف الملوک 2011 میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر ممتاز قادری کے خلاف سرکردہ وکیل تھے۔سیف الملوک کا کہنا تھا کہ انہوں نے انتہاپسندوں کی جانب سے خوف میں لپٹے ہوئے دیگر مقدمات کی طرح اس کیس کو بھی لیا تھا اور ان کی پیروری کے نتیجے میں ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اس طرح کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں تو آپ کو اس کے نتائج اور اثرات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے لیکن ان کا کہنا تھا کہ خطرات انعام کی طرح قیمتی ہوگئے ہیں۔سینئر وکیل نے کہا کہ ‘میرے خیال میں بہادر اور مضبوط آدمی کی طرح مرنا بہتر ہے بجائے ایک چوہے اور ایک خوفزدہ شخص کی طرح مرنے سے’۔ان کا

کہنا تھا کہ ‘میری قانونی خدمات تمام لوگوں کے لیے حاضر ہیں’۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں