لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) ٹی ای لارنس نامی ایک برطانوی فوجی آفیسر کا نام تاریخ میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ ٹی ای لارنس نے ’’عربوں کی عظیم بغاوت‘‘ میں حصہ لیا اور اس نے بعد میں ایک کتاب بھی ’’عقل کے ساتھ ستون‘‘ کے عنوان سے تحریر کی۔ اس کتاب میں اس نے اپنی یادداشتیںرقم کیں۔ ٹی ای لارنس
1888کے ماہ اگست میں پیدا ہوا۔برطانوی فوج میں شمولیت کے بعد اس نے عربوں کے معاملات میں خاصی مہارت حاصل کر لی۔پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے فوراً بعد اسے مصر بھیج دیا گیا۔ 1916ء میں اسے ایک ’’مشن‘‘ پر عرب بھیجا گیا۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت میں شامل ہو گیا۔ اس کے ساتھ کچھ دوسرے برطانوی آفیسر بھی شامل تھے۔ وہ امیر فیصل کے بہت قریب ہو گیا جو عربوں کی بغاوت کا قائد تھا۔ امیر فیصل کے ہمراہ اس نے عثمانی فوجوں کے خلاف کئی فوجی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ان فوجی سرگرمیوں کے نتیجے میں اکتوبر 1918ء میں دمشق پر قبضہ کر لیا گیا۔ جنگ کے بعد لارنس دفتر خارجہ سے وابستہ ہو گیا۔ وہ برطانوی حکومت اور امیر فیصل کے ساتھ کام کرنے لگا۔1922 ء میں وہ سماجی زندگی سے الگ تھلگ ہو گیا اور رائل ایئر فورس سے وابستہ ہو گیا۔ اس نے کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ 1907ء سے 1910ء تک لارنس نے آکسفورڈ جیسز کالج میں تاریخ پڑھی۔ 1909ء کے موسم گرما میں وہ شام کے علاقوں میں پھرتا رہا۔ اس کا مقصد صلیبی جنگوں کے دوران تعمیر گئے گئے قلعوں کے
بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ اسے نوادرات اور قدیم یادگاریں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے سکول کے دوست سائرل بیسن کے ہمراہ ہر گاؤں کے چرچ میں گیا اور وہاں کی قدیم اشیا اور یادگاروں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔1910ء میں ٹی ای لارنس کو برطانوی عجائب گھر کی طرف سے ماہر آثار قدیمہ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع فراہم
کیا گیا۔ دسمبر 1910ء میں وہ بیروت چلا گیا اور یہاں پہنچنے کے فوراً بعد وہ جبیل (بائبیلوس) روانہ ہو گیا جہاں اس نے عربی پڑھی۔جنوری 1914ء میں لیونارڈ وولی ( اس کے ماتحت لارنس شام میں کام کر چکا تھا) اور لارنس کو برطانوی فوج نے صحرائے فیگو کا سروے کرنے کے لیے منتخب کیا۔انہوں نے یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ یہ صحرا فوجی لحاظ سے بہت اہم تھا کیونکہ جنگ کی صورت میں مصر پر حملہ کرنے والی کسی بھی عثمانی فوج کو اسے عبور کرنا تھا۔ اس کام کے بعد لارنس 15 دسمبر 1914ء کو عرب بیورو میں کام کرنے کے لیے مصر پہنچا۔ بیورو چیف گلبرٹ کلٹین نے مصری ہائی کمیشن کو ہنری کیکموہن کو اس بارے میں اطلاع دے دی۔ 1915ء کے دوران صورتحال بہت پیچیدہ تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں جہاں عربی بولی جاتی تھی، عرب قوم پرستی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی۔ اس میں وہ عرب شامل تھے جو سلطنت عثمانیہ کی فوج میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ امیر مکہ شریف حسین سے مسلسل رابطے میں تھے۔ شریف حسین برطانیہ سے اس بات پر مذاکرات کر رہے تھے کہ وہ عثمانیوں کے خلاف عربوں کی بغاوت کی نہ صرف حمایت کرے بلکہ اس بغاوت کی قیادت بھی کرے۔بدلے میں وہ برطانیہ سے اس امر کی ضمانت چاہتے تھے کہ وہ حجاز، شام او میسوپوٹیما پر مشتمل ایک آزاد عرب ریاست کے قیام کو یقینی بنائے۔ ایسی بغاوت برطانیہ کے لیے عثمانیوں کے خلاف جنگ میں بڑی معاون ثابت ہو سکتی تھی۔ تاہم فرانسیسی سفیر کی طرف سے مسلسل مزاحمت کی جا رہی تھی جن کا اصرار تھا کہ شام کا مستقبل فرانس کی کالونی بننا ہے نہ کہ آزاد عرب ریاست۔عرب بیورو میں لارنس نے نقشوں کی تیاری کی نگرانی کی اور برطانوی جرنیلوں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ایک بلیٹن جاری کرتا رہا۔ وہ قیدیوں کے انٹرویو بھی کرتا تھا۔ وہ مسلسل ایک آزاد شام کی ریاست کی وکالت کرتا رہا۔ اکتوبر 1915ء میں صورتحال بحران کی صورت اختیار کر گئی کیونکہ شریف حسین نے برطانیہ سے فوری طور پر عہد کا مطالبہ کیا۔اس کے ساتھ ساتھ دھمکی دی کہ اگر اس عہد کی پاسداری نہ کی گئی تو وہ عثمانیوں کے ساتھ مل جائے گا۔ برطانیہ کے لیے نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ برطانیہ نے وعدہ کیا کہ وہ مایوس نہیں کرے گا۔عربوں کی سلطنت کے خلاف بغاوت میں لارنس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسے برطانوی حکومت نے جہاں بھی کسی مشن پر بھیجا، وہاں اس نے کامیابیاں سمیٹیں ۔وہ ایک باکمال جاسوس تھا جو عربوں کا ہمدرد بن کر ان میں شامل ہو گیا اور اپنی ذہانت او ر مہارت سے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب اپنے اس کامیاب مشن کے بعد وہ برطانیہ لوٹا تو اس کا غیر معمولی استقبال نہیں کیا گیا۔ 1935ء میں وہ موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ہالی وڈ میں 1962ء میں ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ کے نام سے ایک فلم ریلیز کی گئی جس نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔اس فلم کو ہالی وڈ کی تاریخ کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس فلم میں لارنس کا کردار پیٹراوٹولز نے ادا کیا اور یہ اس کی پہلی فلم تھی۔ دیگر اداکاروں میں عمر شریف اور انتھونی کوئن شامل تھے۔ یہ فلم عمر شریف اور پاکستانی اداکار ضیاء محی الدین کی بھی پہلی فلم تھی۔ بہرحال ٹی ای لارنس کا کردار غیر معمولی تھا۔ دنیا کی تاریخ میں یہ کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔