اسلام آباد (ویب ڈیسک) چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بیک وقت تین طلاقوں کو بہت بڑا معاشرتی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ہماری سفارش پر اس کو باقاعدہ قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے ،ْ ہمارے قانونی شعبے نے سزا بھی تجویز کر دی ہے ،ْ کونسل کا اجلاس رواں ماہ کے آخر ہوگا ،ْ کوشش ہوگی سزا کی تجویز پارلیمنٹ میں لے
جائیں ،ْ جائیداد میں خواتین کو حق نہ دینے کے معاملے پر لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے اس حوالے سے قانون پر عمل نہ کر نے والوں کیلئے بھی سزا ہونی چاہیے ،ْ خواجہ سرا ء اپنے آپ کو جو بھی ڈکلیئر کریں اسے تسلیم کیا جائیگا ،ْ پارلیمنٹ سے قانون کی منظوری ہو چکی ہے ،ْخواجہ سرائوں کو میڈیکل ٹیسٹ کیلئے مجبور نہیں کیا جائیگا ۔’’ این این آئی ‘‘سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل میں بطور چیئر مین ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدخواجہ سرائوں کے حوالے سے صرف ایک بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے انہوںنے کہاکہ قائمہ کمیٹی کی طرف خواجہ سرائوں کے حوالے سے بل ہمارے پاس آیا تھا ۔انہوںنے کہاکہ خواجہ سرائوں کا مطالبہ تھا کہ جو حوالہ اور جو سمت ہم اپنے لئے ڈکلیئر کریں اسی کو تسلیم کرلیا جائے لیکن میڈیکل ٹیسٹ کیلئے ہمیں مجبور نہ کیا جائے ۔انہوںنے کہاکہ یہ مشکل اور حساس مسئلہ تھا ،ْیہ مسئلہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت تھا ،ْ نادرا کے ساتھ بھی بڑی گفتگو ہورہی تھی اور جب یہ مسئلہ ہمارے پاس آیاتو محتسب کے دفتر اور ہمارے درمیان ایک لمبی گفتگو ہوئی بعد میں ہم نے خواجہ سرائوں
کو بھی سنا اور ہمیں تفصیل سے پوری صورتحال سے آگاہ کیا گیا ،ْ پھر ہمارے شعبہ تحقیق نے یہ رپورٹ دی کہ واقعی خواجہ سرائوں کے دعوئوں پر اعتماد کیا جائے چانچہ کونسل نے اس بل کی منظوری دیدی اور پھر یہ باقاعدہ ایکٹ بن گیا ہے ۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں ایک عمومی تاثر بد قسمتی سے بنا ہوا ہے کہ یہ تنظیم عورتوں کے خلاف ہے اور میں نے آکر جب پرانی سفارشات دیکھیں تو پتہ چلا ایسی کوئی بات نہیں ۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ بیک وقت تین طلاقوں والا معاملہ بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے یہ معمولی مسئلہ نہیں ہے اور روزانہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے ،ْعلماء کرام ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہر دوسرے روز لوگ آتے ہیں کہ ہم جذبات اور غصہ میں آکر ایسا کام کر بیٹھے ہیں اور اب ہم شرمندہ اور نادم ہیں کیا کریں اس وجہ سے بچے بے گھر ہو جاتے ہیں ،ْخاتون بے گھر ہو جاتی ہے ،ْیہ بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے چنانچہ ہماری سفارش ہے کہ اس کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے یعنی اس پر باقاعدہ سزا ہو۔انہوںنے کہاکہ ہم نے یہ سفارش عام کر دی اس بارے میں اخبارات میں اشتہار دیا اور ٹی وی پر بات کی تو انسانی حقوق کی
تنظیموں اور خواتین نے خود ہمیں لکھا کہ ایک سزا بھی آپ تجویز کریں اگر آپ انتظار کریں گے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے پاس جائے اور پھر پارلیمنٹ دوبارہ آپ کو سزا کیلئے بھیجے ،ْبہتر ہے کہ آپ ابھی سے سزا تجویز کریں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے یہ کام اپنے قانونی شعبے کے حوالے کیا اس کے بعد انہوں نے سزا تجویز کی ہے اس ماہ کے آخر میں ہمارا اجلاس ہونے والا ہے ہماری کوشش ہوگی کہ یہ سز ا کی تجویز پارلیمنٹ کے پاس لے جائیں تاکہ پارلیمنٹ اس میں سزا کی ایک شق کا اضافے کرے ۔انہوںنے کہاکہ دوسری تجویز ہم نے دی ہے کہ صرف قانونی طورپر قابل تعزیر جرم قرار دینا کافی نہیں ہے ۔انہوںنے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شعور کو بھی بیدار کیا جائے اور علماء کو بھی آن بورڈ لے آئیں اور ان سے گزارش کریں کہ جمعہ کے خطبے یا دروس قرآن میں اپنے کورس اور موضوع کا حصہ بنا لیں ۔ انہوںنے کہاکہ علماء کرام لوگوں کو بتائیں کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے ،ْلوگوں کو بتایا جائے کہ آپ کی بیوی پر آپ کا حق ہے یہ معاشرے کے ایسے افراد نہیں ہیں کہ کھڑے کھڑے ان کو تین طلاقیں دے دیں پھر ان کو بے گھر کر دیں اور اولاد بے گھر کر دیں ۔
انہوںنے کہاکہ شعور کی بیداری اور قانون دونوں اہم ہے ۔ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ انسانی حقوق کی وزارت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے درمیان میراث کے مسئلے پر ایک گفتگو چل رہی ہے ،ْ قر آن نے میراث کا حق دیا ہے انہوںنے کہاکہ معاشرتی طورپر ہم سب بالعموم اپنے بیٹیوں ،ْ بہنوں اور بیویوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ہیںچنانچہ اس کیلئے بھی آئندہ آنے والے اجلاس میں پورا آئٹم رکھنے والے ہیں کہ کس طریقے سے اس بارے میں لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے اور قانون سازی بھی ہو جائے ۔انہوںنے کہاکہ میراث کے حوالے سے قانون ہے مگر قانون کے مطابق میراث خواتین کو دیا نہیں جاتا ،ْآئین میں واضح دفعات ہیں مگر جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے خواتین کو جائیداد کے اندر حق نہیں دیتے ہیں ہم چاہتے ہیں اس کی بھی کوئی سزا ہونی چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ لوگ ہمیں اس بارے میں بتاتے ہیں ،ْیہ عمومی مسئلہ ہے ،ْ ہماری خواتین بھی بیدار نہیں ،ْ وہ اپنے حق کا مطالبہ نہیں کرتیں ۔