اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بڑے افسران کو پتہ نہیں ہوتا، ذاتی طورپر خود ہی لوگوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔۔چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ
قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔چیف جسٹس نے مستقبل میں کرنل طارق کو محتاط رہنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رضوان گوندل کے خلاف کارروائی بنتی ہے تو کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت آئی جی پنجاب کو احسن جمیل کے خلاف انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔انہوں نے ریمارکس دئے کہ اگر جرم ثابت ہوتا ہے ایف آئی آر درج کریں۔ پولیس کی کیا عزت رہ گئی ہے ہر بندہ ذلیل کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔ کمال ہے وزیراعلیٰ پر جنہوں نے احسن جمیل کو پذیرائی دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب بھی کمال آدمی ہیں کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب پر آرٹیکل 62 ایف ون لگایا جائے۔ کیوں نہ وزیراعلیٰ کو نوٹس دے کر طلب کر لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔واضح رہے کہ قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے احسن جمیل گجر پر برہمی کا اظہار کیا تھا ۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا آئی جی
صاحب! آپ کے علم میں تھا کہ ڈی پی او کو وزیراعلیٰ نے بلایا ہے ؟ جس پر آئی جی پنجاب کلیم امام نے کہا کہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب ڈی پی او وزیراعلیٰ آفس روانہ ہوچکے تھے، میں نے کہا کہ آئندہ وزیراعلیٰ دفتر روانگی سے قبل مجھ سے اجازت لینا ہوگی۔چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے ڈی پی او کو وزیراعلیٰ آفس جانے سے منع کیوں نہیں کیا ؟ آپ وزیراعلیٰ کے پی ایس او کو کہتے کہ میرے علم میں لائے بغیر ڈی پی او کو نہیں بلا سکتے، ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا حکم کہاں ہے ؟ جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کا حکم زبانی تھا۔۔چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا رات 1 بجے تبادلہ کیا تو اس وقت آپ کہاں تھے ؟ آئی جی پنجاب نے کہا تبادلے کا حکم دیتے وقت میں اسلام آباد میں تھا۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ میں نے آپ سمیت تمام آئی جیز کو کہا تھا کہ سیاستدانوں پر انحصار نہ کریں، میں نے آپ سے کہا تھا کہ آزاد ہو جائیں۔ آپ نے ڈی پی او سے پوچھا کہ وزیراعلی کو کیوں طلب کیا؟ جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی او کا تبادلہ حقائق کے مطابق کیا ۔ رضوان گوندل سے حقائق چھپائے، غلط بیانی کی۔ رات 8 بجے ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کا فیصلہ کر لیا تھا۔اس موقع پر آئی جی پنجاب کلیم امام نے کہا کہ میں اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔ چیف جسٹس نے عدالت میں استفسار کیا کہ احسن جمیل گجر کہاں ہے؟ جس پر احسن جمیل گجر روسٹرم پر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا مانیکا کے بچوں سے کیا تعلق ہے جس پر احسن جمیل نے کہا کہ میں بچوں کا کسٹوڈین ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا بچوں کے ماما چاچا ہیں، بچوں کا باپ ابھی زندہ ہے۔جس پر خاور مانیکا نے کہا کہ احسن جمیل گجر خاندان سے 1972 سے روحانی تعلق ہے۔ احسن جمیل نے عدالت کو بتایا کہ بچی 5 روز سے مزار جا رہی تھی۔۔پولیس نے بدتمیزی کی۔ چیف جسٹس نے احسن جمیل گجر سے استفسار کیا کہ آپ نے کس قانون کے تحت وزیراعلی پنجاب کے دفتر میں بیٹھ کر معافی مانگنے کا بولا۔ احسن جمیل گجر نے کہا کہ میں نے معافی معانگنے کا نہیں کہا۔