میں جب نیند سے گھبرا کر اُٹھتا ہوں تو صحن میں ایک تاریک سایہ نظر آتا ہے اور جب میں اسے چھوتا ہوں تو۔۔۔

ابو دجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
’’یا رسول اللہ! میں اپنے بستر پر سوتا ہوں تو اپنے گھر میں چکی چلنے کی آواز اور شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سنتا ہوں۔ جب میں گھبرا کر سر اٹھاتا ہوں تو مجھے ایک تاریک سایہ نظر آتا ہے جو بلند ہو کر میرے صحن میں پھیل جاتا ہے۔ میں اسے چھوتا ہوں تو اس کی جلد خارپشت (سیہی) کی طرح معلوم ہوتی ہے اور وہ میری طرف آگ کے شعلے پھینکتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ مجھے بھی جلادے گا اور میرے گھر کو بھی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے گھر میں رہنے والا جن بہت برا ہے، وگرنہ رب کعبہ کی قسم! کیا تیرے جیسے شخص کو بھی تکلیف دی جاتی ہے!‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم دوات منگوا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ عبارت لکھوائی:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اِلٰی مَنْ طَرَقَ الْبَابَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزَّوَّارِ، اَمَّا بَعْدُ: فَاِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَۃً فَاِنْ تَکُ عَاشِقًا مُوْلِعًا اَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا اَوْ زَاعِمًا حَقًّا اَوْ مُبْطِلًا، ھٰذَا کِتَابُ اللّٰہِ یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ اتْرُکُوْا صَاحِبَ کِتَابِیْ ھٰذَا وَانْطَلِقُوْا اِلٰی عَبْدَۃِ الْاَصْنَامِ وَاِلٰی مَنْ یَزْعُمُ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا آخَرَ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ، کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ تُغْلَبُوْنَ ((حٰمٓ )) لَا تُنْصَرُوْنَ، حٰمٓ عٓسٓقٓ تَفَرََّقَ اَعْدَائُ اللّٰہِ وَبَلَغَتْ حُجَّۃُ اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

اس کے بعد ابودجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں اسے لپیٹ کر اپنے گھر لایا اور سر کے نیچے رکھ کر رات کو سو گیا اور میں ایک چیخنے والے کی چیخ سے بیدار ہوا، کوئی کہہ رہا تھا: ’’اے ابودجانہ! لات و عزیٰ کی قسم! ان کلمات نے ہمیں جلا ڈالا، تمھیں تمھارے نبی کی قسم! نامہ مبارک یہاں سے اٹھالو، ہم تیرے گھر میں آئندہ نہیں آئیں گے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’ہم نہ تمھیں ایذا دیں گے، نہ تمھارے پڑوسیوں کو اور نہ اس جگہ والوں کو جہاں یہ خط مبارک ہوا۔‘‘ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جواب دیا: ’’مجھے میرے رسول کے اس حق کی قسم، جو اللہ نے مجھ پر واجب کیا ہے! میں اس کو یہاں سے نہیں اٹھائوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ نہ کرلوں۔‘‘ سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جنات کے چیخنے، رونے اور بلبلانے سے وہ رات میرے لیے بہت طویل ہوگئی۔ صبح کی نماز میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اور جنات کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو دجانہ! تم وہ نامۂ مبارک جنات سے اٹھا لو اور اس ذات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! ان جنات کو قیامت تک عذاب کی تکلیف ہوتی رہے گی۔‘‘
[لقط المرجان فی أحکام الجان للسیوطی مترجم (ص ۲۲۹ تا ۲۳۱)]

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں