پاکستان کی تاریخ میں فوج کو ہی منتخب جمہوری حکمرانوں کو بندوق کی نوک پر اقتدار سے ہٹانے پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن شاید ہی اب کوئی یہ بات جانتا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا آرمی چیف بھی گزرا ہے جس سے بندوق کی نوک پراستعفٰی لیا گیاتھا ۔یہ جنرل گل حسن خان تھے جنہیں قائد اعظم کا اے ڈی سی بھی رہنے کا اعزاز حاصل تھا،وہ فوج کے آخری کمانڈر انچیف تھے جس کے بعد یہ عہدہ چیف آف آرمی سٹاف میں بدل دیا گیا تھا ۔اکہتر میں انہوں نے ہی جنرل یحیٰی پر دباو ڈال کر بھٹو کواقتدار دلوایا تھا ۔ دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکا کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 20 دسمبر 1971 کے دن جنرل گل حسن خان کو کمانڈر ان چیف مقرر کردیا جنہیں بھٹو نے اڑھائی ماہ بعد 3 مارچ 1972 کواس عہدہ سے ہٹادیاتھا ۔حال ہی میں نوجوان اینکر پرسن اسد اللہ کی کتاب ” مجھے کیوں نکالا “ میں ایک بار پھر سیاستدانوں اور فوج کے درمیان جاری رہنے والی کشمکش اور اسکے اسباب پر بحث کرتے ہوئے جنرل گل حسن خان کا بھی ذکر کیا ہے
۔” مجھے کیوں نکالا “کے مصنف کا کہنا ہے کہ جنرل گل حسن نے اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا ہے ۔ بھٹو نے انتہائی ڈرامائی انداز میں اس وقت کے گورنر پنجاب غلام مصطفے کھرکی مدد سے گن پوائنٹ پر جنرل گل حسن کو تبدیل کیا اور فوج کی کمان جنرل ٹکاخان کے سپرد کردی گئی۔فوج پر ملک ٹوٹنے کی وجہ سے دباوتھا جس کی وجہ سے وہ مزاحمت نہ کرسکی تھی۔