کدو کے جوس میں لیموں ملاکر پینے کافائدہ ہ

اسلامی طب میں کدو کی بے پناہ افادیت بیان کی گئی ہے.ہمارے پیارے رسولﷺ کدو رغبت سے کھاتے تھے.

اولیاء کرام نے بھی اس سبزی کو بصد احترام و شوق کھایا ہے.اسکے کئی نام ہیں. پنجاب میں اسے لوکی اور گھیا بھی کہا جاتا ہے. اس کی دو قسمیں ہیں ایک گول اور دوسری لمبی. یہ دونوں قسمیں بازار میں تقریباً چھ ماہ تک فروخت ہوتی دکھائی دیتی ہیں. اطبا کا کہنا ہے کہ کدو کا مزاج سرد اور تر ہے. اس میں گوشت بنانے والے روغنی اور معدنی نمکیات کوٹ کوٹ کے بھرے ہوتے ہیں. قدرت نے اس سستی سبزی میں بہت سے اجزاء سموئے ہوئے ہیں. اس ارزاں سبزی میں کیلشیم‘ پوٹاشیم اور فولادی اجزاء کثرت سے پائے جاتے ہیں. اس کے علاوہ وٹامن اے اور وٹامن بی بھی موجود ہوتے ہیں. یہ کثیر الغذا

سبزی‘ قبض کشا ‘ معدے کی سختی‘ جلن اور تیزابیت کو دو کر دیتی ہے. کدو کے بے شمار فوائد ہیں لیکن ہم آپ کو کدو کے جوس کا وہ فائدہ بتاتے ہیں جو عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں .یہ ہے کدو کا جوس ،یہ جوس پینے سے نہ صرف پیشاب کی جلن ختم ہوتی ہے بلکہ یہ آنتوں اور معدے سے تیزابیت اور انفیکشن بھی ختم کرتا ہے. جوس حاصل کرنے کے لئے ایک پورے کدو کو کدوکش کرنے کے بعد نچوڑ لیا جائے تو خاصی مقدار میں جوس حاصل ہوتا ہے. پیشاب کی تکالیف کے لئے ایک گلاس کدو جوس میں لیموں کا رس ایک چمچ ملا کر روزانہ پیا جائے تو اس مرض سے نجات مل جاتی ہے. کدو اور لیموں کے کھاری اجزاء جلن ختم کرتے ہیں. جدید ریسرچ کے مطابق پیشاب کے اعضاء میں انفیکشن ہو تو لیموں اور کدو جوس سلفا ادویات کے ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں پیشاب آور الکلائین کا عمل کرتا ہے. کدو جوس سے گردوں میں پتھریاں بھی نہیں بن پاتیں اور اگر چھوٹی موٹی پتھریاں ہوں تو خارج ہوجاتی ہیں .اس کا سب بڑا فائدہ جگر میں گرمی والوں

اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ہوتا ہے .اس کے لئے کم از کم دس روز تک لگاتار صبح شام ایک ایک گلاس جوس پینا چاہئے.اس سے بلڈپریشر بھی اعتدال پر آجاتا ہے اورآنتوں کے افعال درست ہوجاتے ہیں. ایک بار برطانیہ کے دورے کے دوران کدو کے جوس کے بنے پیک دیکھ کر اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ یورپی لوگوں میں قدرتی اجناس کا خالص جوس پینا بھی نصیب ہوتا ہے.دنیا بھر میں خالص اجزا سے تیار کردہ جوس عام ہورہے ہیں ،پاکستان میں بھی یہ رجحان عام ہونا چاہئے. شاہد آفریدی سے ایک غیر رسمی ملاقات آفس میں کام کی مصروفیت تھی کہ یکدم فون کی گھنٹی بجی، میں نے اسکرین پر دیکھا تو شاہد آفریدی کی کال تھی، ’’ہفتے کو کھانا میرے ساتھ نئے گھر میں کھانا ہے بھائی، میں نے اپنے 20،25 دوستوں کو ہی مدعو کیا ہے، کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘‘ اس کے بعد ناں کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں تھی. جیسا کہ پہلے طے ہوا تھا کہ گھر کے قریب کی ایک مشہور جگہ پہنچ کر میں نے کال کی تو لوکیشن پتا چل گئی. بس جیسے ہی گھر پہنچا تو دیکھتے ہی منہ سے ماشاءﷲ کے الفاظ ادا ہوئے. شاہد آفریدی نے واقعی بہت خوبصورت گھر بنایا ہے، اندر جاتے ہی آفریدی اپنے روایتی انداز میں بغلگیر ہوئے، پی ایس ایل میچ کے دوران زخمی ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی. جب میں وہاں پہنچا تو اُس وقت اُن کے بھائی مشتاق آفریدی سمیت چار، پانچ لوگ ہی موجود تھے. پہنچنے والوں میں سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال، صحافی ماجد بھٹی، شاہد ہاشمی اور ایک کوئی اور صاحب تھے. تمام مہمان حضرات کو آفریدی گھر کے بیسمنٹ میں لے گئے، وہاں داخل ہوتے ہی ایک طرف یونس خان، سچن ٹنڈولکر، اے بی ڈی ویلئرز اور شین وارن کی دستخط شدہ فریم شرٹس نظر آئیں تو دوسری جانب ویرات کوہلی کی دستخط شدہ شرٹ فریم میں نصب تھی. بائیں جانب کی دیوار پر آفریدی کے وکٹ لینے کے بعد والے مشہور پوز کی بڑی پینٹنگ اور چند اہم مین آف دی میچ و دیگر ٹرافیز رکھی ہوئی تھیں. یہیں انہوں نے اپنی 10 نمبر والی پاکستانی شرٹ بھی فریم کراکر لگائی ہوئی تھی، ساتھ ایک کمرے میں اسنوکر ٹیبل رکھی تھی. جب ہم بیسمنٹ پہنچے تو وہاں چند بزرگ و دیگر مذہبی شخصیات بھی موجود تھیں. وہاں سب کی باتوں کا سلسلہ جاری رہا اور مہمان بھی آتے رہے. دیگر آنے والے مہمانوں میں سابق اسکواش اسٹار جہانگیر خان، سابق کپتان معین خان، صلاح الدین صلو، عبدالرقیب، ڈاکٹر جنید علی شاہ، گلوکار شہزاد رائے سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات شامل تھیں، وہاں آفریدی نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ سب میرے اچھے دوست ہیں، اِس لیے نئے گھر کی خوشی میں مدعو کرنا ضروری سمجھا. سب سے پہلے کچھ دین کی باتیں ہوں گی اُس کے بعد کھانا کھائیں گے‘‘ پھر ایک باریش صاحب نے بہت اچھی دینی باتیں کیں، مجھے صحافی مرزا اقبال بیگ نے بتایا کہ وہ کسٹمز کے سابق ہاکی کھلاڑی جمشید سلطان ہیں جو اب تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں. اِس گفتگو کے بعد باجماعت نماز ادا کی گئی اور پھر کچھ دیر بعد اوپر صحن میں کھانا شروع ہوا. کھانے میں باربی کیو سمیت مختلف ڈشز کا اہتمام کیا گیا تھا، اِس دوران بات چیت کا سلسلہ بھی چلتا رہا، شاہد آفریدی اور اُن کے بھائی مشتاق آفریدی سب کا بھرپور خیال رکھتے رہے، جس ٹیبل پر میں بیٹھا تھا وہاں معین خان اپنے مخصوص انداز میں لطائف سنا کر سب کے قہقہے لگوا رہے تھے. کھانے کے بعد میں نے گھڑی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ کافی دیر ہوچکی ہے اور دوبارہ دفتر جا کر کام بھی کرنا تھا، میں نے شاہد آفریدی سے اجازت مانگی تو انہوں نے روک لیا کہ ابھی نہیں جانا گپ شپ لگاتے ہیں، میں نے انہیں آفس جانے کا بتا کر رخصت لی. وہاں سے جاتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ شاہد آفریدی کو اتنی عزت ملنے میں اہم کردار اُن کی منکسرالمزاجی کا بھی ہے. اُن سے مل کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اتنا بڑا اسٹار ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کے مداحوں کی تعداد اب بھی برقرار ہے.

..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں