اللہ تعالیٰ نے دنیا کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ السلام کی پیدائش کی اور ان کو دنیا میں بھیجا اور پھر ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ جب سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے آج تک کے زمانہ جدید میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ہندو آج تک بیٹی پیدا ہونے پر اس کو زندہ دفن کردیتے ہیں۔ اگر ہم آپ صلى الله عليه وعلى آله وسلم کے زمانہ میں بھی دیکھیں تو اس وقت کے کفار میں بھی یہ عام رواج تھا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ آج اگر پاکستان میں آپ دیکھیں تو اکثر اخبارات میں آپ کو اس طرح کی خبریں ملیں گی کہ ساس نے باقی رشتہ داروں کے ساتھ مل کر یا شوہر نے اپنی بیوی کو پہلی یا دوسری تیسری بیٹی کی پیدائش پر زندہ جلا دیا یا قتل کردیا۔
آخر ہم لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے پیارے رسول نبی کریم صلى الله عليه وعلى آله وسلم بھی بیٹیوں کے باپ تھے جن سے آپ ﷺ کو شدید محبت تھی اور حضرت فاطمۃ الزہراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو خاتون جنت ہیں اور جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ آپ صلى الله عليه وعلى آله وسلم کے صاحبزادے تو پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پاگئے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش کا ذمہ دار کون ہے اسلامی نقطہ نظر میں تو یہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بیٹا دیں جس کو چاہیں بیٹی دیں لیکن اگر ہم سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو سائنس بیٹے کی پیدائش میں عورت کو مکمل طور پر بے قصور قرار دیتی ہے چونکہ بیٹے کی پیدائش کیلئے جس کروموسوم کی ضرورت ہوتی ہے وہ عورت کے نہیں مرد کے خلیے میں ہوتا ہے آئیں دیکھتے ہیں وہ کس طرح…!
مرد کے ایک خلیہ میں 23کروموسومز ہوتے ہیں جن میں 22 جو ہیں وہ xx ہیں اور ایک sexکروموسوم xy ہوتا ہے یہ جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔یہ ایکس اوروائی کروموسومز جرم سیلز کی ایک مخصوص خاصیت ہے جو بعد ازاں جنین یا فیٹس میں سیکس کی نوعیت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سومیٹک سیل کی تقسیم میں نوزائیدہ خلیوں میں کروموسومز کی اتنی تعداد ہوتی ہے جتنی کہ پیئرنٹ سیل میں تھی کیونکہ 23 جوڑے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور پھر آدھے جوڑے ایک خلیے اور آدھے جوڑے دوسرے خلیے میں منتقل ہوجاتے ہیں اس کے برعکس جرم سیل میں ہیڑوٹپی کل ڈویژن میں ہر ایک 23جوڑے دو گروپ بنادیتے ہیں جن میں آدھے آدھے کروموسومز ہوتے ہیں یعنی پہلے والے سیل کے بریکس نوزائیدہ خلیوں میں کروموسومز کی تعداد23 ہوگی۔ مردوں میں اس طرح پرائمری سپرمیٹوسائٹ سے جو دو خلیے بنیں گے ان میں سے ایک کے اندر تو 23 کروموسومز 22+X ہوں گے یعنی سیکنڈری اواوسائٹ میں جبکہ دوسرے خلیے میں بھی اسی طرح 23 کروموسومز22+X ہوں گے لیکن چونکہ یہ فرسٹ پولر باڈی ہوگی اس کی اہمیت نہیں ہے چونکہ ہر ایک سیکنڈر سپرمیٹو سائٹ سے دو سپرمیٹیڈز بنتے ہیں اس لیے دو سپرمیٹو سائٹس سے چار سپرمیٹڈز بنیں گے۔ہرمیچور اووم میں اور ہر میچور سپرم میں پرائمری اواوسائٹ اور پرائمری سپرمیٹو سائٹ کی نسبت کروموسومز کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے جب ایک میچور سپرم کے ساتھ جو اپنے اندر 23 کروموسومز رکھتا ہے مل کر زائیگوٹ بناتا ہے تو کرموسومز کی کل تعداد 46 ہوجاتی ہے جو انسانوں کی نسل کا خاص وصف ہے اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ زائیگوٹ میں ماں اور باپ دونوں کی طرف سے آدھے آدھے کروموسومز شامل ہوتےہ یں میل اور فی میل سیلز کی نشوونما کے مرحلے کے دوران میں کروموسومز کا آدھا رہ جانا ایک بہت اہم چیز ہے۔
عورت میں بھی 23کروموسز خلیہ ہوتے ہیں جن میں 22 جو میں وہ xx ہیں اور ایک sex کروموسوم xx یعنی عورت کے پاس تمام x کروموسوم ہیں جبکہ مرد کے پاس جو ایک yکروموسوم ہے وہی لڑکا پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
جب میاں بیوی آپس میں ملتے ہیں تو مرد اور عورت کے کروموسومز جو کل 46بنتے ہیں مل کر اولاد پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اب یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکا یا لڑکی کس طرح وجود میں آتے ہیں لڑکا یا لڑکی بننے کا باعث مرد کے ایک کروموسومز کا جوڑا xy بنتا ہے جبکہ عورت کے sexکروموسومز ایک جوڑا xxبنتا ہے۔
اگر مرد کا xاور عورت کا xکروموسومز ملیں گے تو لڑکی پیدا ہوگی۔ اگر مرد کا yاور عورت کا xملیں گے تو لڑکا پیدا ہوگا۔
اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکا نہ پیدا کرنے میں عورت بے چاری بے قصور ہے کیونکہ اس کے پاس دونوں xxہیں جو صرف لڑکی پیدا کرسکتے ہیں جبکہ مرد کے پاس xyہیں اور مرد کا y ہی عورت کے xکے ساتھ مل کر لڑکا پیدا کرسکتا ہے۔
امید کرتا ہوں کہ میرا یہ مضمون پڑھ کر بہت سے لوگوں کو سمجھ آگئی ہو گی اور خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی۔