غریدہ فاروقی سکول ٹیچر سے نیوروم تک کیسے آئی شرمناک انکشاف

خدائے بزرگ وبرتر کی لاٹھی بڑی بےآواز ہوتی ہے ۔وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کی رسی درازرکھتا ہے جو اس کی مسلسل نافرمانی کرتے ہیں وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بندہ کہاں تک جا سکتا ہے ۔

انسان اسی زعم میں فرعون بن جاتا ہے اور اپنے تئیں لوگوں کی رزق ، زندگی اور موت کا مالک بن جاتا ہے – یہ ہوتی ہے انسان کی انتہا۔۔۔اور یہاں سے انسان کا زوال کا آغاز ہوتا ہے۔پروردگار چاہتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے معافی مانگ لے میں اسے معاف کر دوں گا مگراس کا وعدہ ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم وزیادتی کو معاف نہیں کروں گا جب تک کہ وہ انسان جس کے ساتھ ظلم ہوا ہو وہ معاف نہ کر دے-آج آپ کو ایک ایسی خاتون کا واقعہ بتاتا ہوں جس نے تکبر کی ہر حد پار کی، بس (نعوذ باللہ ) خدائی دعویٰ کرنا رہ گیا تھا کہ اللہ نے اس کی دارز کی ہوئی رسی کو کھینچا اوروہ منہ کے بل زمین پہ آگری-اس خاتون کا نام غریدہ فاروقی ہے جو کہ پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہے۔اس کا تعلق ملتان کے ایک غریب اور متوسط گھرانےسے تھا۔۔۔ آپ اب بھی اس کے آبائی گھر کا رخ کریں تو انتہائی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوے ایک چھوٹا سا گھر آتا ہے-ان گلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کو لاہور کے شاہی محلے کی گلیوں کا گمان ہو گا ۔ آج بھی اس کے بھائی کانوں میں بالیاں ڈالے،لمبے بال اور منہ میں پان دبائے ملیں گے۔ غریدہ فاروقی کچھ عرصہ مقامی سکول میں بچوں کوپڑھاتی بھی رہی مگر بعدازاں معروف سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کی طرح ملتان سے آنکھوں میں حسین خواب سجائے ہر قیمت پر پردہ سکرین پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا عزم لیے لاہور کا سفر کیا۔ لاہور پہنچ کر نیوز کاسٹر سے اپنے کیرئر کا آغاز کیا ،۔گزشتہ ایک دہائی سے نیوز کاسٹر رہنے کے بعد 2014 کے دھرنے میں رپوٹنگ کے دوران عحیب و غریب اور چھچھوری حرکات کی وجہ سے میڈیا کی توجہ حاصل کی اور پھر پروگرام لینے میں کامیاب ہو گئی ۔کراچی میں جس چینل پے پروگرام کا آغاز کیا وہ پروگرام تو مشہور نہ ہوسکا مگر پورے چینل میں اینکر صاحبہ کے رویے نے شہرت حاصل کر لی-یہ شہرت کوئی نیک نامی والی نہیں تھی بلکہ بہت بری تھی جس کی بنیادی وجہ موصوفہ کا غیر انسانی رویہ تھا ۔
غیر انسانی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انسانیت تو دوسروں کے ساتھ پیار اوراحترام سیکھاتی ہے مگر اینکر صاحبہ کے پاس اس طرح کی تہذیب نام کی کوئی شے نہ تھی یا شائد اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو جہاں صرف اپنے کام سے مطلب ہو انسان کی کوئی قدر نہ ہوتی ہو۔ گھریلو ماحول اور تربیت کا بھی انسان کی شخصیت پر بڑا اثر ہوتا ہے جسیے تیسے کر کے بندہ اچھے ماحول میں آ بھی جائے مگر کہیں نہ کہیں انسان اپنی اصلیت دکھا ہی دیتا ہے ۔اینکر صاحبہ نے ایسی اصلیت دکھائی کہ پورا کا پورا چینل سٹاف ان کے نفسیاتی رویےسے تنگ تھا- اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس نے چینل چھوڑا توتمام سٹاف نے میٹھایاں تقسیم کیں ۔اور خدا کا شکر ادا کیا۔2015 میں خصوصی سفارش پر اس نے ایکسپریس نیوز جوائن کیا اورلاہور سے “جی فار غریدہ” کے نام سے پروگرام شروع کیا ۔لاہور میں رہنے کے لیے اس کے پاس نہ گھر تھا اور نہ ہی وسائل – عارضی طور پر ادارے کی جانب سے رہائش کے لیے ادارے کا گیسٹ ہاؤس دیا گیا جو صرف کراچی یا اسلام آباد سے آنے والے مہمانوں کے لیے مختص تھا مگر محترمہ تو 2 کمروں کا سامان لے آئیں جیسے دلہن سسرال بیاہ کر آئی ہو۔نئی نویلی دلہن کی طرح ان کے نخرے تو ساتویں آسمان پرتھے ، کیوں نہ ہوتے ، اتنے بڑے چینل میں پرائم ٹائم کا شو اور پھر سونے پہ سہاگہ کہ تخواہ بھی اتنی کہ زندگی میں اس کے بزرگوں نے بھی اتنی رقم یکمشت نہ دیکھی ہو۔ذہنی مریضہ تو وہ پہلے سے ہی تھی مگر اچانک اتنی شہرت ،دولت،اور پروٹوکول دیکھ کے دماغ بالکل ہی کام کرنا چھوڑ گیا اور موصوفہ تکبر کے اس اوج پر پہنچ گئی کہ خدا کے قہر کے علاوہ میڈیا کے پاس کم از کم اس کا علاج نہیںتھا۔اسی وجہ سے گزشتہ ڈھائی سالوں میں اس نے 26 پروڈیوسرز کو ذلیل خوار کر کےنکالا ۔اگر ہر ایک کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کاذکر کیا جائے تو مجھے ڈر ہے کہ کوئی انسانی تذلیل کا سن کے غریدہ فاروقی کے خلاف انتہائی اقدام نہ اٹھالے۔انتظامیہ نےحیلے بہانوں سے چینل کا گیسٹ ہاؤس خالی کروایا تو گیسٹ ہاؤس کےملازمین نے خدا کا شکر ادا کیا اور موصوفہ بحریہ ٹاون میں پہلے 5 مرلے اور بعدازاں ایک کنال کے گھر میں منتقل ہو گئیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ موصوفہ شادی شدہ تھیں یا نہیں۔۔۔ بلکل نہیں۔۔۔ ابھی باضابطہ شادی نہیں ہوئی تھی تاہم اکژ رات گئے دلہن کی طرح ساڑھی پہنے بناؤ سنگار کرکےخود کو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹوں خود سے باتیں کرتی ہیں اور اکیلے سج سنور کے گھر میں گھومتی رہتی ہیں ۔

غریدہ فاروقی جس گھر میں منتقل ہوئیں اس کی بھی ایک سٹوری ہے لیکن بھر کسی دن ذکر کریں گے کہ موصوفہ کا مہربان کون ہے اور اتنی نوازشات کیوں ہو رہی ہیں ۔ کیسے پوری گلی کو کارڈن آف کیا گیا ہے اور کس کے کہنے پر ۔اہل محلہ اس سے اس قدر تنگ ہیں کہ الامان۔ گزشتہ دنوں اے آر وائی نیوزاور سوشل میڈیا پر خبر سنے کو ملی کہ اینکر صاحبہ نے اپنی ملازمہ کو گزشتہ 6 ماہ سے حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا ۔خدا کا شکر ہے کہ عدالت اور پولیس کی مداخلت سے بچی بحفاظت بازیاب ہوئی ۔متعلقہ پولیس اسٹیشن نے عدالت میں جو رپورٹ جمع کروائی ہے اس میں انھوں نے 4 ایف آئی آرکا بھی ذکر کیا ہے جو موصوفہ اپنے ملازمین کے خلاف درج کروا چکی تھیں اور اس کے علاوہ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر تھا۔کہ وہ پولیس ملازمین پر اپنے اینکر ہونے کا رعب جھاڑتی ہیں، تذلیل کرتی رہیں اور حکم نہ ماننے پر معطل کروانے کی دھمکیاں بھی دیتی رہیں-یہ سب دیکھ کے بہت دکھ ہوا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر لوگوں کو صادق اور امین کا لیکچر دینے والی خود کس قدر پست ذہن اورمنافق ہےمگر آج یہ خبر سن کر خوشی ہوئی کہ چینل انتظامیہ نے اُس کی اس ذلیل حرکت پر اس کوچینل سے اٹھا کرباہر پھینک دیا ہے۔۔اسے کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں