پاک فوج کے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افسر کی داستان شجاعت سن کر آپ کو فخر ہوگا

یہ داستان شہادت ایک غیر معمولی کپتان کی ہے جس نے مادر وطن پر جان ایسے قربان کی جیسے ناگہانی آفات کا رخ بدلتے ہوئے فلم کا ہیرو اپناکردار ادا کرجاتا ہے۔روح اللہ ۔۔۔۔۔پاک فوج کا یہ کپتان حقیقت میں انتہائی پاکیزہ اور شجاع پیشہ روح تھی جسے اللہ نے شہادت کے لئے چن رکھا تھا ۔پاک فوج کا ہر افسر اور سپاہی انہی جذبوں سے پروان چڑھتا ہے تاہم قدرت ہر کسی سے اپنی منشا کے مطابق کام لیتی ہے۔یہ وہی کیپٹن روح اللہ مہمند ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر درجنوں کیڈٹس کی جان بچائی اور اس معرکہ سے پہلے وہ ایسے کئی آپریشنز کے ہر اوّل دستے میں شامل تھے ۔ انکے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی نایاب صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ پاکستان آرمی کے ان افسران میں سے تھے جن کی آپریشنز میں حصہ لینے کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ جب باچا خان یونیورسٹی پر دھشت گردوں نے حملہ کیا تو ان کے خلاف کارروائی کرنے والے کمانڈوز میں وہ شامل تھے۔ کرسچیئن کالونی پہ دھشت گرد حملہ آور ہوئے تو ان کو جہنم واصل کرنے میں بھی کیپٹن روح اللہ مہنمد شریک تھے۔ مردان کچہری پر دھشت گردوں کے حملہ کے بعد کیپٹن روح اللہ مہمند ریسکیو ٹیم کا حصہ تھے۔
آپریشن ضربِ عضب کے بعد وہ پاکستان آرمی کے ان نایاب ینگ آفیسرز میں سے ایک تھے جنہوں نے 750 سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IOBs) میں حصہ لیا۔ یوں لگتا ہے خطرات سے کھیلنا کیپٹن روح اللہ کو پسند تھا۔ یا شاید موت کی آنکھوں میں بار بار آنکھیں ڈال کر اسے چیلنج دینا کیپٹن روح اللہ شہید کو محبوب تھا۔


انہوں نے چار سو سے زائد دھشت گردوں کو گرفتار کیا اور دس کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے تعریفی سند سے نوازا جانا تھا انہیں مگر اللہ نے جلد اپنے پاس بلا لیا۔ کوئٹہ حملے میں پولیس کیڈٹس کو دھشت گردوں سے بازیاب کروانے کے دوران اندھیرے کمرے میں ان کوایک دھشت گرد کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وقت اتنا کم تھا کہ اگر نشانہ لے کر فائر کیا جاتا تو دھشت گرد بلاسٹ کر دیتا اور اگر نشانہ خطا جاتا تو بھی وہ بلاسٹ کر دیتا۔ وہاں شاید چالیس پچاس کیڈٹس تھے اندھیرے کمرے میں۔ ہنگامی صورتحال میں جب کسی بھی لمحے دشمن کی گولی آپ کی پیشانی میں سوراخ کر سکتی ہو یا کسی بمبار کی جیکٹ پھٹ کے آپ کو چیتھڑوں میں تبدیل کر سکتی ہو آپ کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے لمحے سے بھی کم وقت ہوتا ہے۔ جن کیڈٹس کی جان روح اللہ بچانے گئے تھے ان کو بچانے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ خودکش بمبار کے پھٹنے سے پہلے اس پر گر کر دھماکے کی شدت کم کر دی جائے۔ تا کہ باقی لوگوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ایک کیڈٹ جو اس کمرے میں موجود تھا کہتا ہے ہماری آنکھوں کے سامنے کیپٹن روح اللہ مہمند نے اس دھشت گرد پر چھلانگ دی۔ اور اس کے ساتھ ہی دھماکہ ہو گیا۔ وہ جتنی زندگیاں بچا سکتے تھے اپنی جان دے کر بچا گئے۔
عام زندگی میں ہر کوئی خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ یقیناً ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کو موت کے خطرے سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ایمانداری سے بتائیں یقینی موت کی صورت میں جو جوان یہ کہتے ہیں
Sir i am going to lead from the front ٰ
ان کے متعلق یہ کہہ دینا کہ تنخواہ کےلیے لڑتے ہیں کتنا بڑا ظلم ہے؟ وہ جو ہماری طرف آنے والی گولیوں کو اپنے سینے پہ ٹھنڈا کر دیتے ہیں ان کی جگہ پر خود کو رکھ کہ سوچیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہو گا کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہوتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں