قائد کی صحت بری طرح گر رہی تھی۔کھانا پینا تقریباً بند ہو چکا تھا۔ ایک سلائس صبح کھاتے اور ایک شام کو دودھ میں بھگو کر دیا جاتا۔ بینائی تقریباً جواب دے چکی تھی۔ اُٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنے عظیم بھائی اور کرنل الٰہی بخش اپنی زندگی کے عظیم ترین مریض کی گرتی ہوئی صحت پر بہت پریشان تھے۔جب نقاہت حد سے گزرنے لگی تو معالج اپنے مریض کی خوراک کے بارے میں غور کرنے لگے۔ اسی دوران انہیں بتایا گیا قائداعظم بمبئی میں ’’کپور تھلہ برادرز‘‘ کے
کھانے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ برادرز پاکستان ہجرت کر آئے اور آج کل پنجاب کے کسی شہر میں اقامت پذیرہیں۔ کرنل الٰہی بخش نے فوراً کراچی بات کی جہاں سے حکومت پنجاب کو کپور تھلہ برادران کی تلاش کا حکم جاری ہو گیا۔ خفیہ ادارے حرکت میں آئے اور دو دن بعد فیصل آباد کے کسی دور افتادہ مقام سے ان دونوں بھائیوں کو برآمد کرکے زیارت بھیج دیا گیا۔ کرنل الٰہی بخش نے انہیں کچھ سمجھایا اور وہ باورچی خانے میں اپنے کام میں جُت گئے۔ اس شام جب قائداعظم کو کھانا پیش کیاگیا
تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ دوسرے روز دوبارہ کھانا پیش ہوا تو قائد نے اسی رغبت کا مظاہرہ کیا۔ شام کو جب ایک بار پھر طشتری لائی گئی تو قائداعظم کھاتے کھاتے ٹھٹکے اور کرنل الٰہی بخش کو مخاطب کرکے پوچھا۔ ’’آج کل میرا کھانا کون بنا رہا ہے؟‘‘ کرنل الٰہی بخش نے یہ الفاظ سنے تو ان کا سینہ فخر سے پھول گیا اور وہ سیدھے کھڑے ہو کر بولے۔ ’’سر کپور تھلہ برادرز‘‘ قائداعظم نے کھانے سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا اور پوچھا ’’وہ یہاں کیسے آئے؟‘‘ جواباً الٰہی بخش نے بڑے پُرجوش انداز سے ساری واردات سنا دی۔قائداعظم کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور انہوں نے اسی وقت ’’کپور تھلہ برادرز‘‘ کو طلب کیا۔ انہیں تین دن کی تنخواہ دی، پھر فیصل آباد سے زیارت تک ان کے سفر پر اٹھنے والے اخراجات کا چیک کاٹا، وہ چیک خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا اور پھر فرمایا۔ ’’ایک غریب ملک کا غریب گورنر جنرل اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔
’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔