فرق تو پڑتا ہے

ایک دانشمند مضمون نگاری کے لئے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا- اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا۔ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تو اسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتادکھائی دیا- وہ متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے- یہ جاننے کے لئے وہ تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا-وہ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے- نوجوان رقص نہیں کر رہاتھا-

وہ ساحل پر جھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا۔دانش مند اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں پوچھا، “صبح بہ خیر جوان! یہ تم کیا کر رہے ہو ؟”نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا”ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں””میں سمجھا نہیں۔ تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟””سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ میں نے انھیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی۔””لیکن نوجوان! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں ممکن نہیں کہ تمھاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے”

نوجوان نے شائستگی سے دانش مند کی بات سنی، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کےاندر پوری قوت سے اچھالتے ھوئے بولا”لیکن اس کے لیے تو فرق پڑ گیا نا”ہمیں بھی اسی طرح ہر کسی کے ساتھ اچھائی کرتے رہنا چاہیے یہ سوچے بغیر کہ اس سے معاشرے پر فرق پڑے گا کہ نہیں، کیوںکہ جس کے ساتھ اچھائی کی گئی اُس پر تو پڑے گا نا۔۔۔

..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں