حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں 40روز کس طرح رہے ہونگے ؟

جناب انتظام اللہ شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی کو حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یامین کا سبط (نواسہ) لکھا ہے۔ اسی کتاب میں ’’مسلم راج پوت گزٹ‘‘ ۸۲۹۱ء کے حوالے سے لکھا ہےکہ ڈاکٹر امروز جان ولسن، فیلو، کوئنز کالج آکسفورڈ(Dr. Imroz John Wilson, Fellow, Queen’s College Oxford)نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ اس کےے۔ اس کےے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت ۴۰۱ ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے

جو انسان کے لئے بخار کا درجہ ہے۔ ۰۹۸۱ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔۸۵۹۱ء ’’ستارہ مشرق‘‘ نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا ’’بار کلے‘‘ نامی ملاح سمندر میں گرا، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑی گئی۔

پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو اس میں سے ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور پھر صحت مند ہوگیا۔ اس نے اپنی بپتا سنائی ’’جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی۔میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اچانک مجھے

ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا، یہاں حد درجہ پھسلن تھی۔کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں۔ اردگرد نرم، گداز اور چکنی دیواریں کھڑی تھیں، جنہیں ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل کے پیٹ میں ہوں۔میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ سانس لینے پر ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی۔آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔

اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ بارکلے کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیقِ احوال کے بعد واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا ’’اس حقیقت کے منکشف ہوجانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں