رینہ پتا نہیں کیسی تھی اور ہر وقت اپنے آپ کو کیا سمجھتی تھی کہ جب بھی اس سے بات کرو تو ہمیشہ ناک چڑھا کر ہی جواب دیا کرتی تھی۔لیکن جب اس کو مطلب ہوتا توپھر مسکراتے ہوئے بڑے پیار سے پکارتی اور جب مطلب نہ ہو تو پھر صاف جھنڈی کروانے کے ساتھ ساتھ ہر بات کا منہ پھلا کر جواب دیتی ۔
پڑھی لکھی اور مدبر نظر والی زرینہ پر دفتر کے ہر شخص کی نظر تھی۔ اوپر سے خوبصورت بھی انتہا کی تھی۔کسی مرد سے بلا وجہ بات کرنا تو دور کی بات مردوں کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھی۔ مگر ایک دن وہ دفتر نہ آئی تو بہت سے لوگوں کو تشویش ہوئی کیونکہ وہ بغیر ضرورت کبھی چھٹی نہیں کرتی تھی۔ جب اگلے دن زرینہ کے گھر سے اس کا والد اور بھائی دفتر زرینہ کا پتا کرنے آئے تو دفتر کے لوگوں کو پتا چلا کہ زرینہ گھر سے غائب ہے۔ وہ دفتر بھی نہیں آئی اور گھر پر بھی نہیں ہے۔
زرینہ کہاں گئی اور اس کے ساتھ کیا ہوا کسی کو کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ اس کے والدین اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی اور دفتر کے کچھ لوگوں نے بھی اپنے طور پر اسے تلاش کیا مگر اس کا پتا نہ چل سکا۔ کہ آخر ہو کہاں گئی اور کس کے ساتھ گئی۔
اب دفتر میں اس کے حوالے سے چہ مگویاں شروع ہو گئی۔ تقریباً ایک ماہ بعد پتا چلا کہ بظاہر کسی بھی مرد سے بات تک نہ کرنے والی زرینہ ایک شخص کی محبت میں گرفتار تھی۔اس شخص سے اس کی ملاقات کئی سال پہلے ہوئی جب وہ ابھی اس دفتر میں نہیں آئی تھی۔
زرینہ نے لاہور جا کر ضلع کچہری میں ایک وکیل کی مدد سے اس شخص سے شادی کر لی۔یہ بھی سننے میں آیا کہ اس نے اس شادی سے قبل اپنے والدین سے اس شخص کا ذکر کیا تھا مگر اس کا والد اور بھائی اس شادی پر راضی نہیں ہوئے اور انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ اگرچہ والدہ نیم دلی سے راضی ہو گئی تھیں۔
چنانچہ زرینہ نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے کورٹ میرج کر لی۔اگرچہ پاکستان کے قانون میں کورٹ میرج کا کوئی قانون نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح برطانوی قانون میں ( برطانیہ میں) استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان بھی پہلے برطانیہ کی نوآبادی تھا لہذا یہاں پر بھی اس کے بنائے ہوئے بیشتر قانون رائج الوقت ہے۔ تاہم کورٹ میرج نام کا کوئی قانون نہیں۔ لیکن والدین کی رضامندی کے بغیر ایک بالغ جوڑے کی اپنی مرضی شادی کو کورٹ میرج کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے تحت کوئی بالغ لڑکی اور لڑکا ایک بیان حلفی پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ یہ شادی اپنی مرضی سے کر رہے ہیں اور کسی فریق نے دوسرے کو نہ تو ورغلایا ہے اور نہ ہی زبردستی یا جبر کا سہارا لیا ہے۔بلکہ وہ بحیثیت ایک عاقل و بالغ کے اپنی رضامندی سے یہ شادی کر رہے ہیں۔ اس بیان حلفی کی احتیاطاً دو دیگر افراد سے تصدیق کروائی جاتی ہے جو عموماً لڑکی یا لڑکے کے ملنے والے ہوتے ہیں۔تاکہ بعد میں لڑکی یا لڑکا اپنے بیان سے مکر نہ جائے۔یہ بیان حلفی نکاح خوان اور نکاح رجسٹرار کو دیا جاتا ہے جو ان کا نکاح پڑھا کر رجسٹرڈ کر دیتے ہیں۔
جب زرینہ کے والدین کو پتا چلا تو انھوں عقلمندی دکھاتے ہوئے پولیس کو دی ہوئی درخواست کی پیروی نہ کی اور زرینہ کواس کے حال پر چھوڑ دیا۔
زرینہ اپنے شوہر کے ساتھ لاہور ہی میں رہنے لگی ۔ ایک سال بعد زرینہ کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تب اخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا۔چنانچہ زرینہ نے ایک دفتر میں نوکری کر لی کیونکہ شوہر کی ملازمت سے پہلے ہی گھرکا کرایہ، یوٹیلیٹی بلز، کچن اور دیگر اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے تھے کہ گھر میں ایک ممبر کا اضافہ ہو گیا۔شادی کے دس سال بعد جب زرینہ کے چار بچے ہوگئے اور انھوں نے سکول جانا شروع کر دیا تو وہ سخت معاشی مشکلات میں پھنس گئے۔
زرینہ کا شوہر اگرچہ زرینہ کی حد تک قدرے مخلص تھا مگر وہ خود غرضی میں کچھ کم بھی نہ تھا۔گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے بیوی کو تو ملازمت کی اجازت دے دی مگر اپنے طور پر مزید کمائی کا سوچتا تھا۔ بلکہ اب وہ کم ہی کام کرتا تھا۔چھ ماہ کہیں کام کیا اور پھر وہاں لڑ جھگڑ کر چھوڑ دیا۔ یہی اس کا وطیرہ بن چکا تھا۔کیونکہ گھر میں کماﺅ بیوی موجود تھی ۔ گھر کے تمام اخراجات کا بوجھ زرینہ پر ہی تھا۔
ایک دن زرینہ جب دفتر سے تھکی ہاری گھر آئی اور آتے ہی بڑی بیٹی اور بیٹے نے سکول میں ہونے والے کلر ڈے میں شرکت کے لیے نئے کپڑوں کا مطالبہ کیا تو زرینہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔تو شوہر بولا کہ اب معاشی حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔تم اپنے بھائیوںسے اپنا حصہ کیوں نہیں مانگتی۔ جس پر زرینہ نے کہا اب دس سال کے بعد وہ کس منہ سے اپنے بھائیوں سے حصہ مانگے۔ میں جب ان کی عزت میں حصہ دار نہیں بنی تو آج ان کی جائیداد میں کیسے حصہ دار بن جاﺅں۔
شادی کے پانچ سالوں تک تو زرینہ اپنے والدین کے گھر نہیں گئی تھی مگر والد کی وفات کا سن کر پہنچ گئی تھی تب اسے پتا چلا تھا کہ اس کے گھر سے بھاگنے کے بعد اس کے والد نے نہ صرف اسے اپنی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ سے عاق کر دیا تھا بلکہ کسی قسم کا تعلق بھی نہ رکھنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک بیان حلفی تحریر کروا کر اخبار میں بھی اشتہار دے دیا تھا۔تاہم والد کی وفات سے زرینہ کے گھر آنے جانے کی راہ کھل گئی۔ اس کے بعد بھی زرینہ دوچار دیگر مواقعوں پر اپنے گھر گئی مگر اب دس سال بعد وہ بھائیوں یا والدہ کو اپنا حصہ دینے کا کہتی۔ یہ اسے گوارا نہ تھا۔
زرینہ کے انکار کے باوجود اس کے شوہر نے اصرار جاری رکھا اور کہا کہ قانون کی نظر میں ہم نے شادی کی ہے کوئی گناہ یا غیر قانونی کام تو نہیں کیا۔ اب بھی تم ان کی بیٹی ہو اور قانون کے مطابق والد کی جائیداد میں جہاں بھائیوں کا حصہ ہے وہاں تمہارا حصہ بھی ہے اور تم ان سے اپنا حصہ مانگ سکتی ہو۔ زرینہ ایک گوں مگوں کی صورت حال سے دوچار ہوگئی۔ چنانچہ ایک دن زرینہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک ملنے والے وکیل کے پاس گئے اور اسے تمام روداد سنائی۔
وکیل نے بتایا کہ اگرچہ ہمارے مشرقی معاشرے میں زرینہ کا والدین کو شامل کیے بغیر گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا عمل ایک غیر اخلاقی فعل تھا۔ جس کی ہمارا معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔لیکن کسی بھی لڑکی کا اپنی مرضی سے شادی کر لینے سے اس کے حقوق جو قانون انھیں دیتا ہے ، وہ متاثر نہیں ہوتے۔وکیل نے بتایا کہ اس کے والدین کی طرف سے اسے عاق کیے جانے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق یوں عاق نامے کا اشتہار اخبار میں دینے سے اولاد عاق نہیں ہوجاتی۔مسیح معاشرے یا دیگر غیر اسلامی معاشرے میں تو کسی وصیت کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے اپنی اولاد کو عاق کر کے وہ تمام دولت کسی بھی شخص چاہے تو عزیز ہو یا نہ ہو بلکہ چاہے وہ کوئی کتا یا بلی ہی کیوں نہ ہو، اس کے نام کر سکتا ہے مگر اسلام میں کسی بھی والدین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی جائیداد میں سے اپنی اولاد کو حصہ نہ دے یا کسی ایک کو دے۔ بلکہ شریعت کے بنائے قانون وراثت کے تحت وہ سب اولاد کو حصہ دینے کا پابند ہے۔
وکیل نے بتایا کہ ورثے کی تقسیم میںمرد اور عورت دونوں حقدار ہوتے ہیں۔
مرد کا حصہ عورت کے حصے کا دوگنا ہوتا ہے۔ ( مردوں پر مہر اور خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے جس وجہ سے اس کا حصہ دوگنا ہے )
کبھی کبھی ایک وارث کی موجودگی سے دوسرے وارث کے حصے پر فرق پڑتا ہے۔ اسے حجاب کہتے ہیں۔
ورثہ کم ہو یا زیادہ تقسیم کرنا لازم ہے۔
اگر کوئی وارث ورثہ تقسیم ہونے سے پہلے مر جائے تو اسکا حصہ اسکے وارثوں کو ملتا ہے۔
سگے بھائی کو سگی بہن سے دوگنا ملتا ہے اسی طرح سگے پوتے کو سگی پوتی سے دوگنا ملتا ہے۔ ایک باپ سے ہونے والے سوتیلے بھائی بہنوں میں بھی بھائی کو بہن سے دو گنا ملتا ہے مگر ایک ماں سے سوتیلے بھائی بہن کو برابر برابر ملتا ہے۔
وکیل نے زرینہ کو بتایا کہ بہرحال اس کے والد کی جائیدا میں اس کا حصہ تو بنتا ہے جس کے لینے کے لیے اسے عدالت میں مقدمہ کرنا ہوگا۔ چونکہ یہ مقدمہ جائیداد کی تقسیم کا مقدمہ ہوگا لہذا یہ طوالت بھی اختیار کر سکتاہے۔ ایسے مقدمات بعض اوقات کئی سال تک چلتے ہیں پھر کہیں جا کر فیصلہ ہوتا ہے۔ جبکہ تماہرے مرنے کے بعد تمہاری اولاد بھی یہ حصہ وصول کر سکتی ہے۔ ۔۔
وکیل یہ باتیں کر رہاتھا اور زرینہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے نہ صرف مشرقی روایات بلکہ اسلامی روایات سے باغی ہو کر اور والدین سے منہ موڑ کر کورٹ میرج کی۔ مگر پھر بھی اسلامی قانون یا معاشرے نے اس کا حق سلب نہیں کیا بلکہ ایسی حالت میں بھی حسہ لینے کا حقدار قرار دیا تو اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ اس کا سر ندامت سے جھک گیا۔ اس نے فیصلہ کیا اگرچہ والد کی جائیداد میں میرا حصہ ہے مگر اب میں نہیں لوں گی اور اپنی محنت سے اپنے بچوں کو پالوں گی۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے زرینہ شوہر کو لیکر گھر واپس آگئی ۔ اس نے اپنے شوہر کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ مگر اس کا شوہر نہ مانا۔
اس نے عدالت میں زرینہ کی طرف سے اس کے بھائیوں اور والدہ کو فریق بناتے ہوئے قانون وراثت کے تحت سول کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔مقدمے میں جب اس کے بھائی اپنی والدہ کے ساتھ پیش ہوئے تو انھیں پتا چلا کہ زرینہ خود سے حصہ نہیں لینا چاہتی لیکن اس کا شوہر اسے مجبور کر رہا ہے۔ چنانچہ اس کی والدہ نے بڑا پن دکھاتے ہوئے نہ صرف زرینہ کے گھر پہنچ گئی اور بیٹی کو گلے لگا لیا اور والد کی جائیداد میں سے اس کا حصہ اسے دے دیا۔