تنہائی میں تو ٹھیک ہے مگر بچوں کے سامنے نہیں

محمد بن ترخان ابو نصر فارابی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، ان کو ارسطو کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا فلسفی بھی کہا جاتا ہے، انھوں نے علم طبعیات، علم ریاضی، طب، فلسفہ ، منطق ور موسیقی میں بے پناہ تحقیق کی ، ان کی تحاریر آج بھی مستند سمجھی جاتی ہیں اور ان سے استفادہ حاصل کیا جاتا ہے، فارابی ارسطو اور افلاطون سے بے حد متاثر تھے ، انھوں نے ارسطو کی اکثر کتابوں کی شرحیں لکھیں، اسی وجہ سے انھیں معلم ثانی بھی کہا جاتا ہے، یہ اپنے وقت کے معروف شاعر بھی تھے۔

یہ 872ء میں ترکستان کے مقام فاراب میں پیدا ہوئے اور 950ء میں شام کے شہر دمشق میں وفات پائی، ان سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ ان کے بہت ہی قریبی ایک دوست کے ملنے والے، بخارا کے رہنے والے میاں بیوی ایک روز اپنے تین چار سال کے بیٹے کے ہمراہ ان کے پاس آئے اور کہا کہ یہ ان کا اکلوتا بیٹا ہے مگر یہ بہت ضدی ہے اور ابھی سے ہمارا کہنا نہیں مانتا اور بہت تنگ کرتا ہے، ہم اسے بہلانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر یہ نہیں ہماری کوئی بات نہیں سنتا بلکہ اپنی ضد پر ہی اڑا رہتا ہے یہ سن کر فارابی نے بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور اس سے باتیں کرنی شروع کر دیں، اسے ایسے ہی پند و نصیت کرتے رہے جیسے وہ ایک بڑے اور جوان شخص سے گفتگو کی جاتی ہے،تھوڑی دیر تک اس سے باتیں کرنے کے بعد فارابی بچہ واپس ماں کی گود میں دے دیا اور میاں بیوی کومتوجہ کر کے کہنے لگے کہ کیا تم جانتے ہوئے کہ تمہاری اور اس بچے کی ہیت میں کیا فرق ہے، دونوں میاں بیوی نے اپنے اپنے طور پر فرق بتلانے شروع کر دیے، جو عموماً لوگ ایک بڑے اور بچے میں فرق جانتے ہیں، فارابی ان کی باتیں سنتے رہے اور جب وہ خاموش ہوئے تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ نہیں تم میں اور اس بچے میں صرف ایک فرق ہے کہ تم لوگ بول سکتے ہو اور یہ نہیں بول سکتا، اس کے علاوہ تم میں اور اس بچے میں کوئی فرق نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو بھی وہی اعضاء دیے ہیں جو تم میں ہیں، اس کا وجود اگرچہ چھوٹا ہے مگر اس کے اندر روح اتنی ہی مکمل اور سمجھدارہے کہ جتنی تم لوگوں میں ہے، بس اس بات کا خیال رکھنا کہ جو باتیں تمہارے والدین تم لوگوں کے سامنے کرنے سے ہچکچاتے تھے ، تم بھی اس کے سامنے وہ باتیں کرنے سے پرہیز کرو، یہ تمہاری باتیں سن کر اپنے دل میں تلملاتا ہے، بول نہیں سکتا اور تم لوگوں کو کچھ کہہ نہیں سکتا، چنانچہ یہ کسی نہ کسی بات پر ضد شروع کر دیتا ہے۔

جب میاں بیوی فارابی کے گھر سے واپس لوٹے تو بیوی کہنے لگی کہ کس سنکی کے پاس چلے گئے تھے، جو اس بچے کو بھی ہم جیسا ہی سمجھدار کہتا ہے،اس کو نصیتیں ایسے کر رہا تھا کہ جیسے یہ بچہ اس کی باتیں سن اور سمجھ رہا ہو، میاں کہنے لگا کہ بی بی تم اس آدمی کو نہیں جانتی، اس نے جو کچھ کہا ہے وہ یقیناًدرست ہی کہا ہو گا، بس آزمائش شرط ہے، بیوی نے کہا کہ کیسے آزمایا جائے، تو میاں نے کہا کہ گھر چل کر ایک فہرست مرتب کرتے ہیں کہ ہمارے والدین ہمارے سامنے کن کن باتوں سے اجتناب کرتے تھے، ہم بھی ان باتوں سے اجتناب کرے گے، بیوی نے روکھے دل سے ہاں کر دی اور کہنے لگی کہ چلو تمہارے کہنے پر یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں، اگر تو ایسا کرنے کے بعد ہمارے بچے نے ہمیں تنگ نہ کیا تو یقیناًیہ آدمی سچا ہے وگرنہ ایسے بوڑھوں کو پتا نہیں لوگ کیوں اتنا منہ لگاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ان میاں بیوی نے ایک فہرست مرتب کی اور اس پر اسی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا، تو ان کی حیرت نہ رہی کہ بچہ بالکل بدل گیا اور اس نے اپنے والدین کو تنگ کرنا چھوڑ دیا، ان میاں بیوی نے اپنی فہرست میں کیا باتیں شامل کی تھیں اگرچہ ان کی تفصیل تو کہیں نہیں مل سکی مگر جب میں نے ایک امریکی ادارے Center for Child Health, Behavior and Development کی تحقیق دان ڈاکٹر حانا کا ایک آرٹیکل پڑھا تو مجھے فارابی سے منسوب واقعہ کی سچائی کا یقین آ گیا۔

ڈاکٹر حانا کا کہنا ہے کہ جب دو افراد ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو بعض اوقات سوچوں میں اختلاف جھگڑے کی صورت میں سامنے آتا ہے، اختلاف رائے ہوناکوئی بری چیزنہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ ازدواجی زندگی کا حسن ہے، مگر جن جوڑوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائیاں چھڑ جاتی ہیں ، توایسے والدین کے بچوں پرماں باپ کی لڑائی کے انتہائی ناخوشگوار نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جن گھروں کے بچے اس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں ، وہ انتہائی دباؤ اور پریشانی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، یہ بچے اس لیے بھی قابل رحم ہوتے ہیں کہ یہ نہ تو اپنے والدین کو کچھ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی باہر کے لوگوں سے کوئی مدد حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو خراب کر لیتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن بچوں کے والدین آپس میں لڑتے رہتے ہیں، وہ بعض اوقات اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت زیادہ با شعور اور سمجھدار ہو جاتے ہیں، تعلیم پر ان کی توجہ بڑھ جاتی ہے اور جلد ہی ان میں خود اعتمادی آجاتی ہے اور تنہا اور آزاد زندگی گزارنے کا احساس ان میں زیادہ تیزی سے پیدا ہوتا ہے۔تاہم بعض ماہرین نفسیات اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کاکہناہے کہ ضروری نہیں ہمیشہ ایسا ہی ہوبلکہ ایسے بھی ہوتا ہے یہ بچے بھی بڑے ہو کر وہی کام کریں جو ان کے والدین کرتے رہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن والدین کے تعلقات آپس میں اچھے نہیں ہوتے ان کے بچوں میں مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات دیگر خاندانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں،ایسے بچوں میں جسمانی مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں اوران کا دفاعی نظام انتہائی کمزور ہوجاتا ہے اور عام طور پر ایسے ہی گھرانوں کے بچے نشہ کی عادی ہو جاتے ہیں،اس کے علاوہ چوری، ڈیپریشن،خودکشی کی کوشش کرنا یا گھروں سے بھاگ جانا یا بلاوجہ لوگوں سے لڑنا جھگڑنا جیسے رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم اسلام کا اس حوالے سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ جیسے شریعت نے والدین کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں کہ ان کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے،ویسے ہی اولاد کے بھی کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا پورا کرناوالدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے، والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں، اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگارعالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بے جا سختی کے ساتھ نہ پیش آئیں،اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں، ایسا کرنے سے بچوں کے احساسات اور جذبات مرجاتے ہیں، ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور وہ بچے اپنے گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں، جبکہ ایسے بچے اپنے والدین سے نفرت بھی کرنے لگتے ہیں اور والدین سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مناسب وقت دیں، کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل اکثر والدین ہر وقت اپنے ہی معاملات میں مگن رہتے ہیں اور ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا،ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں،۔

بعض والدین اپنی اولا د کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرتے، وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں،جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی وہ ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جاتا ہے جبکہ باقی کے بچے احساس کمتری کاشکار ہوکر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، بعض اوقات وہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی باز نہیں آتے۔

بعض والدین کبھی بھی اس بات کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کس قسم کا لٹریچر ان کے زیر مطالعہ ہے،وہ کون سی چیزیں اپنے استعمال میں رکھتے ہیں، کن چیزوں سے کھیلتے ہیں، ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ، ایسے بچے بڑے ہو کر انتہائی خو گر بن جاتے ہیں اور وہ والدین کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

بعض والدین اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ان کا چھوٹا بچہ بڑوں کے ساتھ بدتمیزی، اونچی آواز یا ان سے بداخلاقی سے پیش آئے تو وہ بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں،درحقیقت والدین کی یہ بہت بڑی غلطی ہوتی ہے، جس کا پھر ایک دن انھیں خود خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادماؤں اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح یہ والدین اپنے بچوں کو اپنی محبت سے محروم کردیتے ہیں،جوعقلمندی نہیں ہے، جو حقیقی پیار اور محبت ماں باپ دے سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا، اس بھی بچے بڑے ہو کر والدین کا خیال نہیں رکھتے۔

بعض والدین بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے کرتے ہیں حتیٰ کہ ایسے والدین کے جن کے معاملات طلاق تک پہنچ جاتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بھی ان میں ملوث کر لیتے ہیں،والدین کی لڑائی اور ایک دوسرے کی توہین اور ایک دوسرے کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ سے بچے پریشان ہوجاتے ہیں اوروہچڑچڑے اور بداخلاق بن جاتے ہیں۔

فارابی سے ملنے والے میاں بیوی کا اصل میں یہی معاملہ تھا وگرنہ ان کا بچہ تو ایک معصوم بچہ تھا، وہ جو کچھ دیکھتا تھا، اس کا اظہار اپنے انداز میں کر دیتا تھا، فارابی کا کہنے کا یہ مطلب تھا کہ بچے کو بچہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی اپنا جیسا شعور رکھنے والا سمجھا جائے اور جو باتین ایک بڑے اور باشعور شخص یا عورت کو بری لگتی ہیں ، ان باتوں سے بچوں کے سامنے اجتناب برتا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں