دولے شاہ کے چوہوں پر ایک دل دہلانے دینے والی تحریر

چند روز پہلے کی بات ہے مین بلیوارڈ گلبرگ سے منی مارکیٹ کی طرف ٹرن لینے کے لیے میں ٹریفک اشارے پر کھڑا تھا۔ کہ دیکھا کہ 45/50برس کی ایک انتہائی موٹی عورت جو خود نہ صرف چلنے سے بیزار بلکہ شکل سے جلاد نظر آرہی تھی نے ایک ہاتھ سے ایک شاہ دولے کے چوہے کا بازو پکڑا ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ میں شاہ دولہ کی ایک چوہی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کو لیکر کاروں کی طرف جا رہی تھی۔ چوہے کا ہاتھ اس نے چھوڑ دیا جو کاروں کی طرف بڑھ گیا اور بھیک مانگنے لگا جبکہ چوہی کو پکڑے بھیک مانگنی شروع کر دی۔ سبز رنگ کے چوغے پہنے چھوٹے سر والے بچے جن میں سے بیشتر ذہنی معذور اور گونگے بھی ہوتے ہیں کو شاہ دولہ کے چوہے اور ایسی لڑکیوں کو شاہ دولہ کی چوہیاں کہا جاتا ہے ۔

ان چوہوں کو حضرت شاہ دولہ دریائی کے مزار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ دربار لاہور سے تقریباً 100کلومیٹر کے فاصلے واقع گجرات شہر میں ہے۔ گجرات شہر کے ایک طرف دریائے چناب اور دوسری طرف دریائے جلہم ہے۔ اس شہر کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اس خطے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اولین انسان یہاں پر آباد تھے۔گجرات کے شمال مشرق کی واقع علاقہ موضع بھڑیلہ شریف میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کی قبر موجود ہے ۔ان کا نام قنوط بتایا جاتا ہے۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق یہ قبر حضرت نوع کے بیٹے کی ہے۔ موضع موٹا، موضع چھمب، موضع وٹالہ، موضع شیخ چوکانی، موضع پڈا اور اعوان شریف کے علاقے میں قدیم زمانے کے پیغمبروں اور بنی اسرائیل کے کئی بزرگوں کی قبور موجود ہے۔ پبی کی پہاڑیوں سے اب بھی ہزاروں برس پرانی تہذیبوں کے آثار ملتے رہتے ہیں۔

گجرات کے قدیم شہر کے مشرقی دروازے کی طرف حضرت شاہ دولہ دریائی کا مزار ہے۔ دریائی انہیں دریاکے کنارے رہنے کی مناسبت سے کہتے تھے۔ شاہ دولہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے زمانہ میں گجرات آئے ۔ اس وقت گجرات کی آبادی صرف چند محلوں پر مشتمل تھی۔ حضرت شاہدولہ کی آمد کے بعد ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی جس سے یہاں کی آبادی بھی بڑھتی چلی گئی ۔

حضرت شاہ دولہ دریائی:

حضرت شاہ دولہ دریائی نہ صرف روحانی پیشوا تھے بلکہ وہ رفاہ عامہ کے بھی بڑے دلدارتھے۔اگر انھیں اپنے زمانے کا ایک معروف سماجی کارکن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مغل بادشاہ اور گجرات میں ان کے نمائندے ان سے برا قلبی لگاﺅ رکھتے تھے اور ان کے کئی طرح کے وطائف مقرر کیے ہوئے تھے۔ یہ وظائف شاہ دولہ رفاع عام کے کاموں پر خرچ کر دیتے تھے۔ انہوں نے شہر میں نہ صرف نالیاں تعمیر کراوئی بلکہ اہم گزر گاہوں میں آنے والے نالوں پر پل بھی تعمیر کروائے ۔ جگہ جگہ مسجدیں اور مسافروں کے لیے سرائے بنوائیں۔انھوں اس علاقے میں بے سہارا اور مفلوک الحال بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے ادارے قائم کرنے کی بنیاد رکھی اور کئی یتیم خانوں کی طرز پر عمارتیں بنوائی ۔انہی سراﺅں میں ایسے چھوٹے سر والے بچوں کی بھی پرورش کی جاتی تھی جنہیں بعد میں شادولہ کے چوئے کہا جانے لگا۔

بعد میں مزار سے منسوب ہونے والی روایات

حضرت شاپ دولہ کے مزار پر جہاں دور دراز سے معتقدین اپنی منتوں و مرادوں کے پورا ہونے کی آس لے کر آتے ہیں۔وہاں ایسی خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کہ جو اولاد کی نعمت سے محروم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے خاندان اپنے چھوٹے بچوں کو نظر بد سے بچائے رکھنے کے لیے یا کوئی پیدائشی نقصکو دور کرنے کی دعا کرنے کے لیے آتے ہیں۔

مزار سے منسوب روایتیں اگرچہ گجرات شہر میں تو اتنی مقبول نہیں کہ جتنی یہ ملک کے دوسرے شہروں میں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو بے اولاد مرد یا عورت حضرت شاہ دولہ کے مزار پر جا کر اولاد کی منت مانتا ہے تو اس کے ہاں پیدا ہونے والی پہلی اولاد ایب نارمل ہوتی ہے یعنی اس کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ بے زبان ہوتا ہے۔ اور منت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو مزار پر چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسے بچوں کا سر چھوٹا اور چہرہ بڑا ہوتا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ ایسے بچوں کو درگاہ کے نام پر وقف نہیں کرتے یا مزار پر چھوڑ کر نہیں جاتے تو ان کے ہاں پھر ایسے ہی چوہے بچے پیدا ہوتے ہیں۔

تاہم گجرات اور آس پاس کے لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شاہ دولہ کے چوہے اللہ کے بہت نزدیک ہوتے ہیں اور ان کی دعا ہرحال میں قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شاہ دولہ کا چوہالوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو ہر شخص حسب توفیق انہیں ضرور دیتا ہے۔ اور انہیں خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔
کچھ لوگ اگرچہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بچے مزار پر دیے جاتے ہیں انہیں کمسنی میں ہی آہنی ٹوپیاں پہنا دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ جو بالکل غلط بات ہے اور اس میں کوئی سچائی نہیں۔

دربار کی موجودہ صورتحال

جی ٹی روڈ سے مڑ کر اگر گجرات شہر میں جایا جائے تو پارنے شہر کے مشرق میں واقع دروازہ جسے اب شاہ دولہ گیٹ کہا ہے کہ اندر گلی میں مزار ہے۔ کسی دور میں یہ بڑی سڑک ہوا کرتا تھا جو یہاں سے کشمیر تک جاتی تھی۔مغل بادشاہ بھی اسی راستے سے کشمیر جایا کرتے تھے۔دربار باہر گلی کے دونوں جانب پھول، چادریں اور دیگیں فروخت کرنے والوں کی دکانیںہیں۔ ان دکانوں پر سونے چاندی اور گلٹ کے بنے ہوئے انسانی اعضاء، ہاتھ، پاﺅں ، زبان ، سر اور پورا جسم بھی فروخت ہوتے ہیں جنہیںمعتقدین خرید کر نذارنہ کرتے ہیں۔ جب دربار میں کوئی دوسرے شہر سے جاتا ہے تو اسے یہ خیال آتا ہے کہ یہاں پر دولے شاہ کے بہت چوہے ہونگے۔ یا یہاں کوئی ایسی پرورش گاہ ہوگی کہ جہاں ایسے بچوں کی پرورش کی جاتی ہے مگر مزار کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر ویسی ہی روایتی چہل پہل نظر آتی ہے جیسے دیگر مزارات پر۔یہاں پر کوئی ایسی عمارت یا چوہے نہیں۔تاہم ایکا دکا ہی ہوتے ہیں جیسے کے دیگر درباروں پر۔

1965ءسے قبل جب یہ دربار محکمہ اوقاف کی تحویل میں نہیں تھا یہاں پر حضرت دولے شاہ کے زمانے کے بنائی ہوئی سرائے بھی موجود تھی کہ جہاں ایسے بے آسرا اور یتیم بچوں کی پرورش کی جاتی تھی مگر محکمہ اوقاف نے تحویل میں لینے کے بعد اس سرائے کو ختم کر دیا اور ایسے بچوں کو دربار میں چھوڑ جانے پر پابندی عائد کر دی۔
مزار کے جانشین اور دیگر معتقدین ان تمام روایات کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی حقیقت نہیں کہ منت کے نتیجے میں پہلا پیدا ہونے والا بچہ چوہا پیدا ہوتا ہے یا ایب نارمل یا کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پہلا بچہ اگر مزار پر نہ چھوڑا جائے تو باقی کی اولاد بھی ایسی ہی پیدا ہوتی ہے۔ ان اصحاب کا کہنا ہے کہ حضرت دولے شاہ ایک بزرگ ہستی ہیں اور ایسی ہستیوں سے اگر کوئی چیز مانگی جائے تو کیا وہ خراب چیز دیں گے؟ اور اس کے عوض پھر وہ وہی چیز لے گے ؟ انھوں نے ان روایات کو غلط بیان کیا اور کہاکہ اصل حقیقت تویہ ہے کہ شاہ دولہ تو خود ایسے بچوں بیمار، معذور بچوں کی پرورش کیا کرتے تھے۔ اور یہ ان کی سماجی خدمت تھی کہ غریب والدین اپنے بچوں کو بہتر پرورش کے لیے یہاں چھوڑ جاتے تھے۔ پہلے کچھ والدین یہاں ایسے بچوں کو چھوڑنے آتے تھے جیسے کے دیگر یتیم خانوں میں غریب والدین اپنے بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں مگر اب یہاں کی انتظامیہ ایسے بچوں کو نہیں لیتی۔

ایسے بچے پیداکیوں پیدا ہوتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا کہ ایک جنیاتی نقص ‘Microcephaly’ کی وجہ سے ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ نقائص صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاءکے دیگر علاقوں، مشرق وسطیٰ اور جنوبی افریقہ کے کچھ قبائل میں بھی ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر قدامت پرست یہویوں کی ایمیش کمیونٹی میں بھی چھوٹے سر والے بچے کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔

اس جنیاتی نقص کی وجہ سے بچوں کے سر بڑھنے کی رفتار( گروتھ) ختم ہوجاتی ہے اور ان کا جسم اور عمر بڑھتی رہتی ہے مگر بچے کا سر اور ذہنی کیفیت وہی دو چار کے بچے کی ہی رہتی ہے۔ طبی ماہرین نے اس کی جو وجوہات بتلائی ہیں ان میں سب سے اہم وجہ کزن میرج کو قرار دیا ہے۔ یہودیوں کے ایمنش کمیونٹی پر کی گئی تحقیق کے مطابق ان میں قریبی رشتہ داروں میں نسل در نسل شادیاں کرنے کی روایت ہے جو پاکستان کے بیشتر علاقوں اور کاندانوںمیں بھی موجود ہے۔سگے راشتہ داروں میں شادیاں کرنے کی وراثت میں ملنے والی جنیاتی خامیاں اگلی نسل میں زیادہ شدت سے منتقل ہو جاتی ہے۔ جس وجہ سے ممکن ہے کہ ایک کزن میرج کے نتیجے میں ایسی اولاد پیدا نہ مگر جب ایسا تواتر سے ہوتا رہے تو کسی نہ کسی نسل میں یہ نقائص ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق صرف مرد یا عورت کسی ایک میں ایسا نقص ہونے سے بھی یہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا تاہم جب دونوں میاں بیوی میں یہ نقص نہ ہو۔

طبی ماہرین کے مطابق اب یہ نقص لا علاج نہیں ہے۔ اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ہی مرض کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔ اب پاکستان میں بھی یہ سہولت موجود ہے کہ ابتدائی ایمبریو کا ٹیسٹ ہوجاتا ہے اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔

ان بچوں کی موجودہ حالت

اگرچہ ایسے بچوں کی درست تعداد کے اعداد وشمار تو ملک کے کسی ادارے کے پاس نہیں تاہم ایسے بچوں کی تعداد 10ہزار سے زائد ہوگی۔ عام طور پر ایسے بچے بس کے اڈوں، ریلوے سٹیشن، شہروں کی آبادیوں اور اب بڑی سڑکوں پر بھی مانگتے نظر آتے ہیں ۔ بھیک مانگتے ہوئے ان بچوں کے ساتھ ہمیشہ ایک تندرست اور ہٹا کٹا آدمی یا عورت بھی ہوتی ہے۔ جس کے اشارے پر یہ چھوٹے سر والے بچے بھیک مانگتے ہیں۔

ان چھوٹے سر والے بچوں کے تعاقب میں بھکاری مافیا لگا رہتا ہے۔ اس کے کارندے نشاندہی ہونے پر یا تو اغوا کر لیتے ہیں یا پھر غریب والدین سے خرید لیتے ہیں۔ لڑکا پچاس ہزار تک اور لڑکی ایک لاکھ تک فروخت ہوجاتی ہے۔ پھر ان سے بھییک منگوا کر ان کا ساری عمر استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ بچے بھکاری مافیا کے لیے سونے کے چڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ عام لوگ ان چوہوں کی ناراضگی مول نہیں لیتے اور ان کو ضرور کچھ نہ کچھ دیتے ہیں اور ظاہر یہ رقم یا نذرانے ان بچوں نے خود استعمال نہیں کرنے ہوتے بلکہ ان کے ٹھیکیدار یہ سب کچھ لے لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ اس مافیا کی چالاک کارندوں کی باتوں میں آ کر بعض ناسمجھ اور انتہائی غریب والدین کہ جن سے ویسے ہی عام اور تندرست بچوں کی پرورش ممکن نہیں ہوتی تو وہ ایسے بچوں کو مزار کے نام پر وقف کر دینے کے نام پر ان افراد کو دے دیتے ہیں۔

اب یہ بھکاری مافیا ایک پورا نیٹ ورک بن چکا ہے جو مختلف شہروں اور علاقوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی مختلف کمیٹیاں بھی ہوتی ہے۔ جوگداگری کے مختلف شعبوں کو ڈیل کر تی ہیں ہر علاقے کا ایک ٹھیکیدارہوتا ہے جو تھامبو کہلاتا ہے ہر تھامبو کے نیچے پچاس سے لیکر پانچ سو تک گداگر ہوتے ہیں اور ایک علاقے کا گداگر دوسرے علاقے میں جاکر نہیں مانگ سکتا اور اگر کوئی غلطی سے دوسرے علاقے میں چلا جائے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مختلف علاقے مخصوص دنوں اور تہواروں کئے موقع پر لاکھوں روپے ٹھیکے پر بکتے ہیں۔ اور جب ٹھیکہ ختم ہو جاتا ہے تو بچے واپس کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح چوٹے سروں والوں ان چوہوں کا ایک الگ سے شعبہ ہے جس کے کارندے ملک میں ایسے بچوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان بچوں کو یہ مافیا کرایہ پر بھی دیتا ہے۔ جو عموماً 30ہزار سے50ہزار روپے ماہانہ ہوتا ہے۔ جبکہ مختلف تہواروں کے موقع پر ان کا کرایہ بھی زیادہ لگایا جاتا ہے۔

یہ انسانیت سے گری ہوئی مافیا ان معصوم بچوں کا ساری عمر استحصال تو کرتے ہی ہے مگر یہ بات کتنی گھٹیا اور افسوس ناک کہ اس مافیا میں شامل جنسی درندے ان معصوم بچوں( چوہوں) خصوصاً لڑکیوں( چوہیوں) کے ساتھ جنسی تشدد کا ارتکاب بھی کرتے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں