آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کو ”سیونگ فیس “ نامی ڈاکومنٹری بنانے کی وجہ سے شہرت ملی اس کے بعد انہوں نے کئی فلمیں بنائیں اور کامیابیاں سمیٹیں مگر اب ان کی ایک ڈاکومنٹری ” سونگ آف لاہور“ امریکہ میں پیش کی جا رہی ہے ، جس میں پاکستانی معاشرے پر انتہائی خطرناک الزامات لگائے گئے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر سویرا شامی نے ایروزینا یونیورسٹی سے نجی ٹی وی کے پروگرام ” نقطہ نظر “ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شرمین عبید چنائے ایک قابل احترام خاتون ہیں اور ان کی ڈاکومنٹریز بڑے پیمانے پر دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ دو دن قبل شرمین عبید چنائے کی ڈاکومنٹری امریکہ کے ”آلات موسیقی میوزیم“ میں دکھائی گئی۔ یہ لاہور کے ایک میوزک گروپ ”سچل“ کی کامیابی پر بنائی گئی ہے۔اس میں دکھایا گیا کہ ایک موسیقی گروپ جو بہت برے حالات میں تھا ، جس کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے کس طرح کامیابی حاصل کی،ان کی کامیابی کی داستان بیان کرنا یقینا اچھی بات ہے مگر شرمین عبید چنائے نے اس میوزیکل گروپ کے برے حالات کو اور ان کو مواقع نہ ملنے کو ان کے اہل تشیع ہونے سے جو ڑا ، اس ڈاکومنٹری میں انہوں نے دکھایا کہ پاکستان موسیقاروں کے لئے ایک خطرناک ملک ہے۔اس ڈاکومنٹری میں دکھایا گیا کہ طالبان آلات موسیقی کو توڑ دیتے ہیں،وہ لاہور اور دوسری جگہوں پر بھی آلات موسیقی کو توڑ کر موسیقاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔اسی طرح انہوں نے دکھانے کی کوشش کی کہ چند دہائیوں قبل پاکستان میں اسلامائزیشن ہوئی اور اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔اسی اسلامائزیشن کی وجہ سے موسیقی کے شعبہ سے وابستہ افراد کافی مشکلات کا شکار ہیں اور ان کے حالات تاحال سدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔
سویرا شامی کامزید کہناتھا کہ ہم امریکہ میں بیٹھ کر یہ ڈاکومنٹری دیکھ رہے تھے اور یہاں کے لوگوں کو کافی تجسس ہوا کہ یہ اہل تشیع کون ہیں؟ اور انہیں پاکستان میں اس طرح تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے ؟ ، ان سوالات کے جواب میں شرمین کی پروڈکشن ٹیم کی نمائندگی کرنے والے ایک صاحب نے کہا کہ شیعہ پاکستان میں اقلیت ہیں اور انہیں پاکستان میں کافی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان صاحب کے جواب کے بعد میں نے کھڑے ہوکر کہا کہ پاکستان موسیقاروں کے لئے قطعا خطرناک ملک نہیں اور نہ ہی اہل تشیع وہاں اقلیت میں ہیں ، اہل تشیع پاکستان میں اکثریت میں ہیں کیوں کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہیں۔