اس رات کتا گھر میں نہ ہوتا تو وہ گندی بدروح ہم سب کو ماردیتی

نظام الدولہ
کتا پلید جانور ہے لیکن انسان کے ساتھ بڑی وفا کرتا ہے،میری بیگم کو ہمیشہ اس بات پر اعتراض رہتا ہے کہ میں ٹومی سے اتنا پیار کیوں کرتا ہوں ۔وہ سخت ناراض ہوتی ہے ۔جب بھی دیکھتی ہے کہ میں ٹومی سے کھیل کر آیا ہوں وہ لڑ پڑتی ہے اور جب تک میں نہا دھو کر پاکیزہ نہیں ہوجاتا وہ مجھے کمرے میں گھسنے نہیں دیتی۔کئی بار کئی چکی ہے کہ اس کتے کو گھر سے نکالو۔اس پرمیرے اور اس کے درمیان جھگڑا بھی ہوجاتا ہے۔ میں کیا بتاو¿ںکہ میں نے انسانوں سے اتنی بھلائی کا منافع نہیں کمایا جتنا ایک کتے نے مجھ پر مہربانی کی اور میں اسکا قرض ادا کرتے ہوئے اس سے پیار اور لاڈ کرتا ہوں ۔ وہ میری فیملی کا حصہ ہے۔
پہلے میں بھی کتوں سے گریزکرتا تھا لیکن ایک دن جب میں رات گئے آفس سے گھر آرہا تھا تو مجھے راستے میں میانی صاحب کے اندر سے گزرکر گھر جانا پڑا ۔ اس رات میری زندگی ایک نئے تجربہ سے روشناس ہوئی تھی۔ہوا یوں کہ اس روز ہماری گلی کی تعمیر ہورہی تھی اور مجھے پچھواڑے سے میانی صاحب سے ہوکر آنا پڑا۔ہمارا گھر میانی صاحب کے قریب ہی واقع ہے ۔ مزے کی بات ہے کہ یہ مُردوں کا شہر ہمارے ہمسایہ کی طرح ہے۔اس رات میں گنگناتا ہوا پیدل آرہا تھا کہ یکایک مجھے لگا جیسے کوئی میرا نام لیکر پکار رہا ہے ۔میں چونکا ،اُدھر اِدھر دیکھا،قبروں اور جھاڑیوں کے سوا کوئی ایسا نفس نظر نہیں آیا جس سے میں کہہ سکتا کہ شاید اس نے مجھے پکارا ہے۔اسکو وہم خیال کرکے میں آگے بڑھا کہ پھر مجھے وہی سرگوشی سنائی دی” میاں سنو “
میں نے رک کر پھر دیکھا اور اس بار بے اختیار ہوکر بولا” کون ہے بھائی“
” نجم اد ھر آ“
”کدھرآوں“ آواز سن کر پھر گھوم کر پوچھا ” کون ہے ابے تو۔دکھائی کیوں نہیں دیتے“
اسی وقت میری دائیں جانب جھاڑیوں میں حرکت ہوئی اور ایک کپڑوں کا ڈھیر کوئی انسان نما مخلوق میری جانب بڑھتی چلی آئی۔میں سمجھا یہ کوئی ملنگ ہے جو اکثر بھاری بھاری چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر قبروں میں پڑے رہتے ہیں۔ہمیں ان سے کوئی خوف اس لئے محسوس نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہم اسی جگہ پلے بڑے تھے ۔وہ جو کوئی بھی تھا میرے پاس آیااور بولا ” یہ میری امانت ہے۔اسکو سنھبال کر رکھنا“ اس نے کتے کا ایک پلا مجھے تھما دیا۔خود وہ سرتاپا چادروں میں چھپا ہواتھا۔
میں یکایک بدکا” میں کتے کا بچہ نہیں سنبھال سکتا۔“ میں نے جھٹ سے وہ پلا اسکی جانب بڑھایا لیکن اس وقت عجیب و غریب واقعہ ہوا ۔جونہی میں نے پلا اسکو پکڑانا چاہا وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیااور دور جاتی اسکی سرگوشی سنائی دی” اسکو کتے کا بچہ جان کر نفرت نہ کرنا ،تو اسکا خیال رکھے گا تو یہ تیرا خیال رکھے گا“
میری زندگی میں خوف سے ڈرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا ۔
میں نے پلا ہاتھ میں ہی پکڑے رکھا اور دوڑ کر گھر پہنچ گیا۔رات کے دو بج رہے تھے ۔امی نے دروازہ کھولا اور مجھے ہانپتا کانپتا دیکھ کر اور پھر ہاتھ میں کتے کا بچہ دیکھ کر وہ گھبرا گئیں اور پیچھے ہٹ گئیں” ارے ارے یہ نجاست گھر میں کیوں لے آیا“

میں نے امی کو ساری بات بتائی ۔وہ بڑی وہمی تھیں اس لئے انہوں نے اس میں کوئی راز سمجھا اور مجھے پلے کو گھر میں رکھ کر پالنے کی اجازت دے دی۔میں نے اس رات پلے کو دودھ پلایا اور حیران کن حد تک وہ پلا مجھ سے مانوس ہوگیا۔اس کا رنگ سفید تھا،دنوں میں جاذب نظر آنے لگا۔امی اور میرے ساتھ بہت مانوس ہوگیا۔اس نے کبھی کمروں کے اندر غلاظت نہیں کی بلکہ اپنی گندگی کے وقت باہر نکل جاتاتھا ۔یونہی چند مہینوں میں وہ پلا اچھا خاصا جوان ہوگیا ۔اسکو میرے کمرے کے دروازے پر سونے کی عادت تھی۔جب تک میں گھرواپس نہیں آتا تھا وہ بھوکا رہتا ۔اسکی یہ عادتیں دیکھ کر امی کہا کرتی تھیں کہ یہ کتا خاندانی لگتا ہے اور اس میں کوئی خاص بات ہے۔میں نے اسکا نام ٹومی رکھ دیا تھا۔
ساتویں مہینے کی بات ہے،سحری کے وقت ٹومی کے بھونکنے کی آوازآنے لگی۔اس سے پہلے ایسا اتفاق نہیں ہواتھا ۔میں اٹھا کہ دیکھوں اسکو کیا ہوا ہے۔جونہی میں نے دروازہ کھولا ،ٹومی زور زور سے بھونکنے لگا اور میرے پیروں سے لپٹ کر اندر کمرے میں دھکیلنے لگا ۔یوں لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو باہر نہیں نکلو۔لیکن اس وقت مجھے اس بات کا اندازہ نہیں ہوا اور میں جھٹ سے باہر نکلا تو معاً میرے سینے سے کوئی چیز ٹکرائی اور میں الٹ کر پیچھے گر گیا ۔اس دوران ٹومی نے بھونک بھونک کرسارے گھر والوں کو جگا دیا، امی اور میرا چھوٹا بھائی بھاگتے ہوئے آئے اور مجھے اٹھایااور گرنے کی وجہ پوچھی۔واقعہ سن کر وہ سوچ میں پڑگئے کہ ایسی کیا چیز ہوسکتی ہے جو مجھ سے ٹکرائی اور نظر نہیں آئی۔میرے بھائی نے جھٹ سے میرے کمرے داخل ہوکر صورتحال کا جائزہ لینا چاہاتو ٹومی نے فوراًاسکی قمیض کا کونہ پکڑ لیا۔میں جب تک سمجھتا ،امی فوراً چیخیں کہ ٹومی کہتا ہے اندر نہیں جاو۔
خوف سے ا ن کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔وہ مجھے اور بھائی کو گھسیٹ کر صحن میں لے گئی لیکن ٹومی ادھر ہی دروازے پر کسی دبنگ پہرے دار کی طرح کھڑا رہا اور وقفے وقفے سے بھونکتا رہا اور یونہی صبح ہوگئی ۔
روشنی پھیل چکی تھی ،ٹومی میرے پاس آیا اور وہ میری طرف دیکھ کر اس طرح بھونکا جیسے کہہ رہا ہو کہ اب تم کمرے میں جاسکتے ہو۔میں ڈرتا ڈرتا کمرے میں گیا تو ٹومی بھی میرے آگے آگے تھا ،مجھ سے پہلے وہ کمرے میں داخل ہوا۔جب میں کمرے میں داخل ہوا تو انتہائی ناگوار سی بو پھیلی ہوئی تھی ،میرے بستر پر کسی انجان مخلوق کا فضلہ پڑا تھا ،چھت پر خون کے نشانات تھے لیکن کمرے میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی۔امی نے بھی کمرے کی یہ حالت دیکھی تو ان کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے اسی وقت دوسرے محلے میں رہنے والے ایک پیر صاحب سے رابطہ کرکے انہیں بلایا تو انہوں نے کوئی عمل کرکے بتایا کہ یہ کوئی گندی روح تھی جو قید سے بھاگ کر آئی تھی لیکن اس کتے کی وجہ سے وہ خوف زدہ ہوگئی کیونکہ کتا جنات وغیرہ کو دیکھ لیتا ہے ۔
پیر صاحب نے پانی پر دم کرکے کمرے میں چھڑکا اور پورے گھر پر بھی چھڑکاوکیا ۔اس دن کے بعد پھر کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا۔اس دن کے بعد تو ٹومی ہمارے گھر کا فرد بن چکا ہے ،بھلا میں اس کو اپنے سے جدا کیسے کرسکتا ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں