لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے میرے سامنے میرے والدین کو بتایا کہ آپ کے بیٹے کے پاس صرف تیس دن کی زندگی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک اندھیری سرنگ میں ہوں اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ میں اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں کرکٹ اکیڈمی جاؤں۔ ابھی میٹرک کے امتحانات دینے تھے۔ دوستوں سے ملنا تھا اور زندگی کا لطف اُٹھانا تھا۔‘‘
نامور پاکستانی خاتون صحافی اور اینکر عاصمہ چوہدری اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں یہ الفاظ تھے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہونے والے محمد طلحہ بٹ کے۔ طلحہ ابھی دسویں جماعت میں تھا کہ اسے بائیں کندھے اور بازو میں شدید تکلف شروع ہوئی۔ ڈاکٹروں کے پاس لے جایا گیا تو بتایا گیا کہ طلحہ کو کینسر ہے۔ یہ خبر والدین پر بجلی بن کر گری جب بتایا گیا کہ طلحہ صرف 30 دن زندہ رہ سکے گا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ والدین نے یہ خبر کیسے سنی ہوگی اور ان کے احساسات کیا ہوں گے! والدین ہی اس دُکھ کا تصور کرسکتے ہیں۔ طلحہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد نانبائی کی دُکان پر کام کرتے تھے۔
طلحہ نے اپنی کہانی خود سنائی: ’’میں اپنے والدین کی دوسری اولاد ہوں۔ ہم گوالمنڈی میں رہتے ہیں اور چار بہن بھائی ہیں۔ نومبر 2011ء میں جب میں پندرہ سال کا تھا اور دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو میری زندگی نے ایک بھیانک موڑ کاٹا۔ ایک روز میں اسکول سے باہر آرہا تھا تو میرے کندھے میں شدید درد ہوا۔ میں تکلیف سے دوہرا ہوگیا۔ یہ درد اتنا زیادہ تھا کہ میں سمجھا آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔ امی مجھے مقامی ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹروں نے مجھے دردکش انجکشن لگائے اور فوری طور پر داخل کرلیا۔ میں وہاں تین مہینے داخل رہا۔ اس دوران میں متعدد ایکسریز اور سی ٹی اسکین کیے گئے اور آخر میں ایک بائیوپسی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ آخر ہو کیا رہا ہے؟‘‘
طلحہ نے مزید بتایا کہ ’’پھر اچانک میری دنیا میرے سامنے ختم ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے میرے والدین کو بتایا کہ میرے پاس زندگی کے صرف تیس دن باقی ہیں۔ واحد راستہ ایک آپریشن ہے جو بہت خطرناک ہوگا۔ کیونکہ کینسر کا ٹیومر میرے دل کے بہت قریب ہے۔ لیکن ہسپتال کے ڈاکٹر یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھے اور میرے والدین کو مجھے گھر واپس لے جانے کے لیے کہا گیا۔ میں اندر سے ٹوٹ گیا۔‘‘
طلحہ کا کہنا تھا: ’’ہسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت نہیں تھی، اس لیے مجھے شوکت خانم ہسپتال بھیج دیا گیا۔ میرے والد ایک نانبائی کے پاس کام کرتے تھے اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ شوکت خانم بہت مہنگا ہسپتال ہے، ہم اس میں قدم بھی نہیں رکھ سکیں گے۔ اس کے باوجود میرے والدین مجھے شوکت خانم لائے۔ یہ میری زندگی بچانے کا فیصلہ ثابت ہوا۔ ڈاکٹروں نے حوصلہ دیا اور بتایا کہ یہ ہسپتال بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ غریبوں کو بہترین علاج فراہم کیا جاسکے۔‘‘
طلحہ نے بتایا: ’’میرے علاج میں کیمو تھراپی سیشنز شامل تھے تاکہ ٹیومر کا حجم کم کیا جائے اور اس کے بعد سرجری۔ ٹیومر میرے بائیں پھیپھڑے کے ساتھ تھا اور دل کے بہت قریب۔ اگر علاج نہ کیا جاتا تو یہ چند دنوں میں مجھے مار سکتا تھا۔ یہاں میرے والدین نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس میں زندگی کا امکان تھا۔ میری سرجری ممکنہ طور پر چھ گھنٹے طویل ہوتی۔ جب یہ آپریشن مکمل ہوا اور سرجن باہر آئے تو میرے والدین کی یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں تھی کہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ سرجن نے بتایا آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور ٹیومر نکال دیا گیا ہے۔ آپریشن کے بعد میرا علاج مکمل ہوا اور تقریباً ڈھائی سال بعد میں اپنے گھر واپسی کے لیے تیار۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ میں تیس دن سے زیادہ نہیں جی سکوں گا، لیکن اس کے بعد میں تیسری سالگرہ منارہا ہوں۔ میں نے علاج کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا دوبارہ آغاز کیا اور آج میں ایف ایس سی سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہوں۔ مجھے نئی زندگی مل چکی ہے اور میں اسے انجوائے کر رہا ہوں۔‘‘
یہ شوکت خانم ہسپتال سے علاج پانے والے ایک بچے کی حقیقی داستان ہے۔ کتنی ہی ایسی کہانیاں ہیں جو شوکت خانم کی راہداریوں میں چلتے پھرتے مریضوں سے آپ کو مل جائیں گی۔ بہت سے ایسے مریض، جو اپنے پیاروں سے مایوس ہوچکے ہوں، مگر یہ ہسپتال ان کے لیے اُمید کی کرن ثابت ہوجاتا ہے۔ عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلاف کیا جائے۔ بطورِ غیرجانبدار صحافی اور اینکر مجھے بھی ان سے بہت سے ایشوز پر اختلاف ہیں۔ سیاسی بیانات میں وہ جس قدر تلخ لہجے کا استعمال کرجاتے ہیں، اس سے کبھی اتفاق نہیں رہا، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اپنی ماں کی محبت میں لگایا گیا ان کا پودا اب تک ہزاروں لوگوں کو سایہ فراہم کرچکا ہے۔ چند دن قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا تو یہاں تک کہہ گئے کہ عمران نیازی کا خاندان شوکت خانم کے پیسوں پر پل رہا ہے۔ ظاہر ہے سیاست میں ایک دوسرے پر ایسے ہی وار کیے جاتے ہیں۔ نیچا دکھانے کے لیے ہر سیاسی راہنما ایسے ہی جملوں کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر اس سے دُکھ ہوا۔
میں شوکت خانم سے متعلق جانتی ہوں کہ یہاں کسی سے اس کی سیاسی وابستگی نہیں پوچھی جاتی۔ یہاں ’’پرچی‘‘ نہیں چلتی۔ یہاں ایسے لوگوں کا بھی مہنگا ترین علاج ہوتا ہے جن کی سیاسی وابستگی پاکستان تحریک انصاف کے شدید ناقدین اور مخالفین میں ہوتا ہے۔ یہاں ’’میرٹ‘‘ پر پورا نہ اُترنے والے ایسے لوگ بھی علاج سے محروم رہ جاتے ہیں جن کا عمران خان کے ساتھ ذاتی دوستی کا تعلق ہوتا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ایک واقعے کا علم ہوا جس نے شوکت خانم سے متعلق میری عقیدت کو مزید بڑھادیا۔ ایک ایسی شخصیت جن کے ساتھ عمران خان کا احترام اور محبت کا رشتہ تھا، ان کے ذریعے ایک مریض کے لیے سفارش کرائی گئی، لیکن انہیں بھی انکار ہی کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ’’انکار‘‘ عمران خان کے لیے کس قدر اذیت ناک ہوگا، لیکن یہی وجہ ہے کہ آج شوکت خانم ہسپتال سرکاری اداروں جیسا نہیں۔ یہاں حق دار کو حق مل جاتا ہے۔
آج جبکہ سیاسی معاملات کے لیے لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر میں نے اس موضوع کا انتخاب اسی لیے کیا۔ یہ ایک ’’نوبل کاز‘‘ ہے۔ یہ سیاست سے ماورا نیک مقصد ہے۔ سیاست دانوں کو ضرور سیاست کرنی چاہیے۔ اپنے فائدے کے لیے وہ ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اُچھالیں۔ لیکن اس کے لیے بے شمار ایشوز موجود ہیں۔ ایشوز نہ ہوں تو انہیں کھڑا کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر چند روزہ سیاست کے لیے نیک مقاصد کو اس طرح متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گاؤں، دیہات تو ایک طرف، لاہور جیسے شہر میں بھی مائیں سڑکوں پر بچے جنم دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں کیا ایسی بدترین بیماری کے لیے بنے ہوئے ایسے شاہکار ادارے نعمتِ خداوندی نہیں؟ ذرا سوچیے اگر پاکستان میں شوکت خانم جیسا ادارہ نہ ہوتا تو اس مہلک ترین اور اذیت ناک بیماری سے لڑنے میں ریاست کامیاب ہوتی؟ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ عمران خان کا ادارہ ہے، یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے۔ یہ ادارے کسی شخصیت کی ذاتی کاوش ہرگز نہیں ہوسکتے۔ یہ رب کی عطا ہیں اور رب اپنی عطا کے لیے کسی بھی شخص کو ذریعہ بناکر لاچار اور بے بس بندوں کی مدد کرتا ہے۔ طلحہ کا واقعہ کم ازکم یہی سکھاتا ہے اور شوکت خانم کی راہداریوں میں چلتے پھرتے سیکڑوں مریض یہی کچھ بتاتے ہیں!