پاکستان میں ایک اور نئے مذہب نے جنم لے لیا، دولہا دلہن کا نکاح اس طریقے سے پڑھا دیا گیا کہ ہر مسلمان غصے سے آگ بگولا ہوگیا

نام نہاد ’’شریعت لطیفی‘‘ کے تحت نکاح پڑھا کر نیا مذہبی فتنہ کھڑا کرنے والی کوٹری کی رہائشی ترقی پسند شاعرہ نایاب سرکش، عوام اشتعال کو دیکھتے ہوئے عذرگناہ پیش کر چکی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس نے ’’شریعت لطیفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’طریقت لطیفی ‘‘ کی اصطلاع پیش کی تھی۔ اس کا مبہم عذر اپنی جگہ ، تاہم دینی و عوامی حلقوں کے مطابق اس نئے فتنے کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کے خالق اور مٹھی بھر معتقد ین کی گرفت نہیں کی جاتی۔
اس حوالے سے ’’امت ‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق نام نہاد ’’شریعت لطیفی ‘‘ نامی فتنے کا اصل خالق جئے سندھ کا سابق کارکن اور مقامی سکول کا ٹیچر عباس کھوسو عرف سوجھرو سندھی ہے ، جس نے اپنی بیٹی سندھیہ کا نکاح نایاب سرکش سے پڑھوایا ۔ اس سلسلے میں نایاب سرکش کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترقی پسند شاعرہ کی خواہش ہے کہ اسے لندن میں ہونے والی ’’عالمی صوفی کانفرنس ‘‘ میں شرکت کا موقع ملے، اسی لالچ میں اس نے ایسے غیر شرعی فعل کا ارتکاب کیا۔


واضح رہے کہ 19 ستمبر کو ضلع جامشورو کے نواحی علاقے کھانوٹ کے قریب قواقع گوٹھ زیمی میں نایاب سرکش نے جیئے سند ھ کے سابق کارکن اور مقامی سکول ٹیچر عباس کھوسو عرف سو جھرو سندھی کی بیٹی سندھیہ کا نکاح نذیر کھوسو نامی شخص سے کرایا ۔ اس شادی و نکاح کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کو ہزاروں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شیئر بھی کیا گیا۔ جبکہ ہزاروں صارفین نے اس پر براہ راست کمنٹس کی صورت میں سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شریعت محمدی سے بغاوت و فتنہ قرار دیا گیا۔
تقریب کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ مائیک پر اعلان ہوا کہ سندھیہ کا نذیر کھوسو سے نکاح سندھی زبان کی شاعرہ رضیہ نایاب عرف نایاب سرکش پڑھائیں گی، جس کے بعد نایاب سرکش نے مائیک تھام کر اعلان کیا گیا کہ مذکورہ نکاح ’’شریعت لطیفی ‘‘ یعنی شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کی ’’شریعت ‘‘ کے مطابق پڑھایا جائے گا اور اس میں معروف صوفی شاعر کے کلام ہی کو پڑھایا گیا ۔ اس کے بعد نایاب سرکش نے دو گواہان کی موجود میں دو لہا نذیر کھوسو اور دلہن سندھیہ کا ایجاب و قبول بھی کرایا۔ ’’نکاح ‘‘ کے بعد شاہ عبدالطیف بھٹائی کے شعر پڑھے گئے اور پھر دعا کرائی گئی۔
19 ستمبر کو منعقدہ اس تقریب کے بعد سوشل میڈیا پر سخت عوامی رد عمل سامنے آیا جس کے عبد مذکورہ نکاح خواں خاتون کی جانب سے فیس بک پیج پر عذر گناہ پیش کیا گیا۔ نایاب سرکش نے لکھا کہ ’’میں غلطی سے ’’شریعت لطیفی ‘‘ کہ دیا۔ جبکہ میں ’’طریقت لطیفی ‘‘ کہنا چاہ رہی تھی اور یہ کہ میں نے نکاح نہیں پڑھایا تھا بلکہ صرف دعا کرائی تھی۔ ‘‘ تاہم اس عذر کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور دینی و عوامی حلقوں کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال سے گھبرا کر نایاب سرکش اپنے درجن بھر فالورز کے ہمراہ نوڈیرو میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما راشد محمود سومرو سے ملنے بھی گئی تاہم مولانا راشد محمود سومرو نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔


بعدازاں مولانا راشد محمود سومرو نے علمائے کرام کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فتنے کے خلاف ہر ممکن آواز اٹھائیں گے اور سندھ دھرتی کو کسی بھی صورت ایسی فتنوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس سلسلے میں ’’امت ‘‘ سے بات کرتے ہوئے ’’مولانا راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ ’’اگرچہ اس عورت نے معافی مانگی ہے، تاہم اب بھی معاملات کلیئر نہیں ہیں۔ جبکہ یہ معاملہ عدالت میں بھی چلا گیا ہے ۔
لہٰذا آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے علمائے کرام سے مشاورت کی جار ہی ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام واضح مؤقف ہے کہ حکومت سندھ ، عالمی صوفی کانفرنس کے نام پر لندن میں جو رقم خرچ کرنے جا رہی ہے وہ سندھ کی غریب عوام پر خرچ کرے۔ ‘‘
ادھر نایاب سرکش کایہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے صرف دعا کرائی تھی جبکہ نکاح مقامی مولانا نے پڑھایا تھا۔ تاہم اب تک نایاب سرکش اور عباس علی کھوسو کی جانب سے کذکورہ نکاح خواں کو سامنے نہیں لایا جا سکا ہے، جس کی وجہ سے دولہا ، دلہن کی ازدواجی زندگی پر بھی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عوام کی جانب سے سخت رد عمل اور نقص امن کے خدشہ کے تحت جامشورو کے علاقے خانوٹ تھانے میں 27 ستمبر کو اے ایس آئی بشیر احمد جانوری کی اطلاع پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ نمبر 2017/22 درج کر کے نایاب سرکش پر دفعہ 295 اے لگائی گئی تھی۔ ’’امت ‘‘ کو موصول ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق عباس علی کھوسو عرف سوجھرو سندھی کی بیٹی کا نکاح نذیر احمد کھوسو سے ’’شریعت لطیفی ‘‘ کے تحت پڑھا کر شعائر اسلام کو توہین کی گئی ہے۔ منکوحہ کے باپ سوجھرو سندھی کو پولیس نے کوٹری سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جس کے بعد عدالت نے ملزم کو 10 روز کے لیے جیل بھیج دیا اور وہ تاحال حیدر آباد کی نارا جیل میں ہی ہے۔
ادھر نایاب سرکش نے عداتل سے اپنے وکیل سجاد چانڈیو کے توسط سے جمعہ کو رجوع کیا، جس میں وکیل سجاد چانڈیو نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی موکلہ ایک معزز اور پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوئیں تھیں، جہاں پر انہوں نے نکاح کے بعد صرف دعا کرائی تھی۔ لہٰذا عدالت نے جو کارروائی کی ہے وہ خلاف قانون ہے۔
وکیل نے عدالت میں کہا کہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے میری موکلہ اور لڑکی کے والد عباس علی کھوسو کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور علمائے کرام کی جانب سے بھی بیانات سامنے آرہے ہیں۔ ان دلائل کے بعد حیدر آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سجاد چانڈیو کی درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے جامشورو پولیس کو ایف آئی آر پر فی الووقت کارروائی پر حکم امتنازع جاری کر دیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی مدعا علیہان صوبائی حکومت کے ہوم سیکرٹری، ڈی آئی جی حیدر آباد ، ایس ایس پی جامشورو اور اے ایس آئی بشیر احمد جھانوری کو 30 اکتوبر کو عدالت میں حاضر ہونے کیلئے نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ عباس کھوسو عرف سوجھرو سندھی، ضلع جامشورو کے گاؤں زیمی کا رہائشی ہے۔ قوم پرست سیاست سے وابستہ رہنے والا سکول ٹیچر، شاعر اور گلوکار بھی ہے۔ اور ساتھ ہی ’’صوفی ازم ‘‘ کو پروموٹ کرنے کا دعویدار بھی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اسے قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہی جئے سندھ سے نکالا گیا تھا۔ جبکہ نایاب سرکش بھی ایسے ہی خیالات کی حامل ہے اور خود کو ’’صوفی ازم ‘‘ سے وابستہ ظاہر کرتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں نے ایسا غیر شرعی اقدام اس لیے اٹھایا ہے کہ وہ صوبائی محکمہ ثقافت کے تحت لندن میں منعقد ہونے والی عالمی صوفی کانفرنس میں اپنی شمولیت کو یقینی بنا سکیں اور عالمی سطح پر خود کو ’’صوفی ازم ‘‘ کا مبلغ ثابت کر سکیں۔ واضح رہے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ وحدانیت اور حب رسول کے پابند شاعر تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں