صبح کا وقت تھا اور میں اپنی بیوی کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ آج میں نے تہیہ کیا تھا کہ اس کو جین کے بارے میں بتا کر رہوں گا۔ تین مہینے سے ایک لڑکی جین میری زندگی کا اہم حصہ بن چکی تھی
اور میں ہر روز اس کے ساتھ وقت بتاتا تھا۔ میں جین کے ساتھ اتنا خوش تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدوں گا۔ بہت دنوں سے مسلسل کوشش کر رہا تھامگر اس کو بتا نہیں پا رہا تھا بس آج ضرور بتا دونگا میں نے فیصلہ کیا۔ میں بولا : بیگم۔۔۔بس میرا تمہارا ساتھ یہیں تک تھا ، میں اب کسی اور کو تہہ دل سے پسند کرتا ہوں اور ہم دونوں شادی کرنے جا رہے ہیں۔ میں تمہیں چند دن میں طلاق دے دوں گا۔
میری بیوی آہستہ سے بولی کہ کیوں ؟۔۔میں نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا تو ایک دم غصے میں آگئی اور کھانے کا ڈونگا نیچے پھینک دیا اور اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔میں نے سوچا کہ میں نے بلکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں جین کے پاس چلا گیا۔ شام کو میں نے گھر پر وکیل بھیجا جس نے میری بیوی کو بتایا کہ طلاق کے بعد اس گھر کی مالک وہ ہو گی اور میرے بزنس کے تیس فیصد شےئر بھی اس کے ہوں گے۔ میرے وکیل نے فون کر کے بتایا کہ آپ کی بیوی نے سب لینے سے انکار کر دیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہ آئی ۔
رات کو میں گھر لوٹا تو دیکھا کہ میری بیوی کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔ میں نے دھیان نہ دیا، اور جین کے بارے میں سوچتا ہوا سو گیا۔ صبح اٹھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی دیکھا کہ میری بیوی ابھی تک ٹیبل پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔میں پاس گیا اور پوچھا کہ کیا کر رہی ہو۔ بولی کہ آپ مجھے طلاق دے دیں مگر میری دو شرطیں آپ کو ماننی پڑیں گی۔میرا دل پگھل گیا، میں نے بولا اوکے پرومس۔۔۔اس نے بتایا کہ ایک تو آپ مجھے ایک مہینے کے بعد طلاق دو گے، تب تک ہم ایسے ہی رہیں گے
کہ ہمارا بیٹا سمجھے کہ ہم میاں بیوی ہیں۔۔کیانکہ اس کے اگلے مہینے ایکزامز تھے۔ دوسرا آپ روز صبح مجھے کمرے سے اسی طرح اٹھا کر ناشتے کی میز پر لیکر جاؤ گے جیسے شادی کے پہلے دن لے کر آئے تھے۔ پورا ایک مہینہ۔ میں نے سوچا کہ کتنی پاگل ہےمیرے سے کوئی پیسے گھر، بزنس بھی نہیں قبول کر رہی، اس کی معصوم دو شرطوں سے کیا فرق پڑ جائے گاسو میں اس کی بات مان گیا۔ پہلی شرط ایک مہینے کے بعد طلاق اور دوسری روز اس کو اٹھا کر میز پر لجانا۔ اس کی پہلی شرط کافی ٹھیک تھی
کیونکہ میرے بیٹے کے پیپرز ایک مہینے بعد تھے اور ہم دونوں اس کی بہتری چاہتے تھے۔میں اس دن جین کے پاس گیااور اس کو ساری بات بتائی وہ بہت ہنسی کہ تمہاری بیگم سٹھیا گئی ہے بیچاری۔ مجھے تھوڑا غصہ آیا جین کی بے حسی پر۔ خیر مہینے کا پہلا دن آیا میں نے صبح اپنی بیوی کو گود میں اٹھایا۔ عجیب لگ رہا تھا۔ مجھے ہنسی بھی آرہی تھی کہ میرا بیٹا آگیا وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگا۔ ہم لوگ ہنس پڑے۔ میز پر بیوی کو چھوڑا، سب نے ناشتہ کیا اور بیٹا سکول چلا گیا، میں اپنے آفس اور بیگم اپنے دفتر۔ کچھ نہ بدلا میں اسی طرح شام کو جین کے ساتھ تھا
۔روز صبح اسی طرح بس ایک بار بیگم کو گود میں اٹھا کر ٹیبل پر چھوڑ دیتا اور اس سے میرا بیٹا بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ بس ایک بات عجیب تھی کہ میری بیوی کا وزن روز روز کم ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن میں نے اٹھایا تو مجھے لگا جیسے اسے بخار ہو، میں نے پہلی دفعہ اس کی جھریاں دیکھیں اور پھر اس کی بالوں کی چاندنی، مجھے اپنے اوپر شدید غصہ آیا کہ میں نے اس کی اتنی فکر کیوں نہ کی جتنی کرنی چاہیے تھی۔خیر پھر وہی روٹین۔ اگلے دن اس کو اٹھایا اور اس نے میرے گلے میں بازو ڈالے تو مجھے اس پر بہت پیار آیا۔میں اس کی مہک کو اپنے اندر جزب کر رہا تھا۔
پھر میرا بیٹا بھاگتا ہوا آیا، یس نے یہ روز کا ایک کھیل بنا لیا تھا ۔ صبح بھاگ کر آجاتا تھا اور کہتا تھا پاپا ماما کو اٹھاؤ نہ۔ پھر ناچتا رہتا تھا۔ میری ہر صبح پہلے کی صبح سے بہتر ہونے لگی تھی۔ آخری دن آن پہنچا۔۔۔میں نے اپنی بیوی کو اٹھایااور ناشتے کی میز پر اتار دیا۔ اس نے کپڑے صحیح کیے اور ناشتہ کرنے لگی۔ میرا بیٹا اسی طرح ہنس کھیل رہا تھا اور وہ اسے ناشتہ کرا رہی تھی۔ میرا دل کیا کہ ساری عمر ایسے ہی گزر جائے۔ میں اسی وقت اٹھا اور جین کے گھر نکل پڑا۔ جین مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ میں نے اس کو بتایا کہ سوری جین میں اپنی بیوی سے اب بھی بہت پیار کرتا ہوں
اور میں اسے کبھی بھی طلاق نہیں دوں گا۔جس دن میں نے اسے شادی کے پہلے دن اٹھایا تھا میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ آخری دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ یہ سن کر جین چلانے لگی اور زور زور سے رونے لگی۔ میں بھول گیا تھا کہ میری بیوی کیسی دکھتی تھی۔ ہم میں دوری آگئی تھی مگر روز صبح اس کو اپنی گود میں اٹھا کر میں نے دوبارہ اسی پیار کو محسوس کیا تھا جو ہم دونوں میں پہلے تھا اور سب سے بڑھ کر میرے بیٹے کا ہنستا ہوا چہرہ میرے اندر سکون بھر دیتا تھا۔میں اپنے گھر واپس چل پڑا
کیونکہ آج اتوار تھا اور سب کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا کہ اپنی جان کو یہ اچھی خبر دیتا ہوں۔اندر گیا تو نیچے کوئی نا تھا، اوپر کمرے میں گیا تو دیکھا کہ میری بیوی مری ہوئی تھی۔ میں بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ جانتی تھی اس کو کینسر ہو گیا تھا اور وہ مجھ سے چھپاتی تھی۔ صرف ہمارے بیٹے کے لیے وہ چاہتی تھی کہ ہم آخری مہینہ ساتھ گزاریںتا کہ میرا بیٹا ہمیشہ خوش رہے اور یہ سمجھے کہ اس کا باپ یس کی ماں سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ صرف ہمارے بیٹے کی خوشی کی خاطر صبح گود میں اٹھانے کا بولتی تھی۔
آج میرا بیٹا بڑا ہو چکا ہے اور بے حد کامیاب ہے ، وہ یہی جانتا ہے کہ اس کے ماں باپ میں بہت محبت تھی۔ اپنی بیوی کا یہ احسان میں کبھی نہیں چکا سکتا۔ وہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔ مکان، گاڑی، کپڑے جوتے سب معمولی چیزیں ہیں،رشتوں کی قدروقیمت ان سب سے کہیں زیادہ ہے۔ مکان، پیسا صرف خوشی تب دیتے ہیں جب ان کو شےئر کرنے کے لیے گھر والے ساتھ ہوں۔ یہ بذات خود صرف ایک پر مسرت زندگی کا زریعہ ہیں۔ خوشیاں ان سے ملتی ہیں کیونکہ یہ ہماری زندگی کو آسان بناتے ہیں، لیکن صرف ان چیزوں کے ساتھ خوشی کو منسوب کرنا بیوقوفی کی انتہا ہے
۔فرشتےآج صبح اچانک ہی آنکھ کھل گئی۔ وقت دیکھا تو ابھی رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔حیرت سی ہوئی کہ ایسے کبھی پہلے نہیں ہوا۔ ہمیشہ موبائل کے الارم بجنے سے آنکھ کھلتی تھی۔ دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ ایسے ہی سوچنے لگا۔ اتنی جلدی آنکھ کھلنے کاسبب کیا ہے؟ کیا خواب میں کچھ ایسا دیکھ لیا۔ ذہن پہ زور دینے پر بھی کوئی خواب یا خواب سے متعلقہ کوئی منظر ذہن میں نہ آیا۔ بس الجھن سی ہونے لگی۔کروٹ پہ کروٹ لیتا رہا نہ نیند آئی نہ بےچینی اور الجھن ختم ہوئی۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی۔ سوچا جاگ تو رہا ہوں
نماز پڑھ لوں۔ پلنک سے اٹھا اور جوتے پہن کر واش روم گیا۔ وضو کرکے باہر نکلا تو بیگم بھی جاگتی نظر آئی۔اس نے حیرت، غصے اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھا‘میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا تو پیچھے سے بیگم نے پوچھا‘کہاں چلے‘نماز کے لئے مسجد جا رہا ہوں۔میں نے پلٹ کر جواب دیااور اسے حیرت اور الجھن میں ہی چھوڑ کر باہر آگیا۔جب میں مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلا تو محلے کے ایک صاحب نے سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔میں نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے بعد اخلاقاً اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے بتا یا کہ اس کی بیگم پچھلے کئی دن سے ہسپتا ل میں داخل ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ دی ہوئی ہے
لیکن اس کی بیگم کے خون کا گروپ او نیگیٹو ہے۔جو کہ ایک کم یاب گروپ ہے۔ ڈاکٹر ز نے کہا ہے کہ آپ کم از کم چھ بوتل او نیگیٹو گروپ کا انتظام کرلیں۔ ورنہ آپریشن مقررہ تاریخ کو نہ ہو سکے گا۔ اس نے اپنی سی پوری کوشش کر لی لیکن انتظام نہ ہو سکا۔ ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ وہ دو بوتل اس گروپ کے خون کی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے آٹھ بوتل کسی دوسرے گروپ کے خون کی دینی ہوں گی۔وہ اسی پریشانی میں تھااور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔مجھے چند سال پہلے کا ایک منظر یا د آگیا۔میں بھی اسی کی طرح پریشان ایک مشہور ہسپتال کے سامنے کھڑا اور تقریبا اسی طرح کی پریشانی سے دوچار تھا۔ تب ایک نوجوان نے مجھے سلام کیا اور کہاسر آپ یہاں ؟
خیریت تو ہے۔میں نے اسے جب بتایا کہ میری والدہ اسی ہسپتال میں ہیں اور انہیں فوری طور پر خون کی ضرورت ہے تو اس نوجوان نے میں مجھے کہا‘اگرتو ایک بوتل چاہیے تو میں ابھی حاضر ہوںسر ورنہ مجھے صرف ایک گھنٹہ دیں۔ میں اپنے سب دوستوں کو بلا لیتاہوں۔میں نے اس دن پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا تھا۔مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر وہ صاحب بولے‘لگتا ہے آپ خود کسی پریشانی میں ہیںنہیں نہیں۔
الحمدللہ ایسی بات نہیں۔آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کی بیگم کس ہسپتال میں ہیں۔ وارڈ اور بیڈ نمبر کیا ہے۔آپ کے لئے خون کا انتظام ہو جائے گا۔وہ ایک دم سے جھٹکا کھا کر رک گیا۔سچ کہ رہے ہیں آپ ؟میں نے اسے مکمل تفصیل سے بتا یا کہ میں اس کے لئے کیسے خون کا انتظام کر سکتا ہوں اور یہ کا م میرے لئے کوئی مشکل نہیں۔ تو اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیںاور اس نے ایک مجھے گلے لگا لیااور کہاقسم کھا کر کہ رہاہوں میں نے آج زندگی میں پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا ہے۔میں چپ تھا لیکن مجھے صبح سویرے آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ میں آگئی۔