ایک یہودی ربائی کو کس طرح سے لاجواب کیا آپ کو مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر ہو گا دیکھئیے

ن آج سے 20 سال پہلے کی بات ہے اس عاجز کا امریکہ میں بیان تھا تین عالم آئے اور کہنے لگے ایک کام آپ کے ذمہ لگانا ہے میں نے پوچھا کیا تو کہنے لگے یہاں ایک فورم بنا ہے جس میں تمام ادیان کے علماء ہے وہ ہفتہ میں ایک بار ملتے ہیں اور بحث کرت ہیں تو جس دین کا عالم ہو تو اس دین کے بارے میں سوال کے جواب کا پابند ہوتا ہے میں نے کہا میں تو اس اہل نہیں ہوں انہوں نے کہا آپ ہی نے یہی کام کرنا ہے میں نے کہا اصرار کیوں کرتے ہو کہنے لگے ہم نے ایک عالم کو وہاں بیجھا تھا وہ عالم وہاں گئے تو وہاں جو یہودی یا عیسائی عالم تھا انہوں نے اس سے سائنس کے سوال پوچھنا شروع کر دئے اب مدرسے کا عالم سائنس تو نہیں پڑھا ہوتا تو وہ ان کے جواب نہیں دے سکا تو اس کولا جواب کر کے خوش ہوتے تھے عالم نے کہا میں تو وہاں نہیں جاتا پھر ایک پی ایث ڈی ڈاکٹر تھے ہم نے انکو وہاں بھیجنا شروع کیا تو سائنسی سوالات کا جوابات تو وہ دیتے تھے لیکن وہ تھے چالاک انہوں نے اس سے روحانی سوالات پوچھنا شروع کر دئے اب وہ ڈاکٹر روحانیت کا جواب نہیں دے سکتے تھے تو پچھلے ہفتہ اس نے کہ دیا کہ میں وہاں نہیں جا سکتا کسی اور کو بھیجے تو ہم آپ کے پاس آئے ہے کہ آپ کو عربی کا علم ہے وہ اپنی جگہ سائیس کا علم ہے وہ اپنی جگہ آپ انجنئیر ہے اور آپ کو روحانیت کا بھی علم ہے لہذا آپ ان کے سوالوں کے جواب دے سکے گے


تو یہ بوجھ آُ کے سر پر رکھا ہے اور آپ پر لازم ہے کہ دین کے لئے آپ وہاں جائے اور اس کو اٹینڈ کرے میں تو خاموش ہو گیا میرے ساتھ ایک عالم تھے حضرت مولانا عبدلحمید صاحب تو وہ کہنے لگے بھائی اللہ جو سر پر بوجھ ڈالتے ہیں تو اٹھانے کی توفیق بھی دیتے ہیں آپ نا نہ کرے آپ چلے ہم وہاں گئے اس کا نام تھا انٹر فیتھ گروپ یعنی وہاں مختلف مذاہب کے لوگ اکھٹے تھے او ر وہ اپنے مذاہب کے بارے میں آکر بات کرتے تھے تو وہاں جو عالم مجھے لے کر گئے تھے انہوں نے کہا کہ آج کے بعد یہ یہاں آیا کرے گے ۔ انہوں نے کہا بہت اچھا جب میری باری آئی تو میں نے ان کو بتایا کہ دیکھو بھئی میں عالم نہیں ہو میں طالب علم ہوں لیکن مجھے یہاں پر آنے کے لئے علماء نے کہا تو میں یہاں آیا ہوں آپ جو سوال پوچھے گے اگر مجھے جواب آتا ہو ا تو میں دوں گا اگر نہیں آتا ہوا تو اس میں شرم کی کو ن سی بات ہے منیرے بڑے موجود ہے میں ٹیلی فون اپنے استاد سے اس کا جواب پوچھوں گا اور میں آپ کو اگلی مجلس میں اس کا جواب دوں گا جواب دیا جائے گا کوئی سوال ایسا نہیں ہوگا جس کا جواب آپ کو نہ دیا جائے وہ کہنے لگے کہ ہاں یہ تو بالکل ٹھیک بات ہے تو اس عاجز نے اس مجلس میں جانا شروع کر دیا ۔دو تین مجلس اٹینڈ کی تو مجھے اس مجلس کی ترتیب کا بھی پتا چل گیا میں نے اندزاہ لگایا کہ سب اندر سے ایک جیسے ہے اور سب کا زیادہ زور اسلام ہی کے خلاف ہےبس ایک ہی ان کا ابجیکٹیو ہے کہ کسی طرح مسلمان عالم کو چھپ کروائے کوئی ایسا سوال پوچھے کہ وہ کہے میرے پاس اس کا جواب نہیں جس سے وہ خوش ہوتے تھے ہنستے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا مقصد پورا ہو گیا یوں سمجھے کہ اسلام دشمنی میں وہ سب اکھٹے ہو چکے تھے میں تھیم اور ترتیب سمجھ چکا تھا ایک دن مجلس کے اختتام پر سیکرٹیری نے کہا کہ اگلی مجلس میں کیا ہوگا تو میں نے کہا یہ اگلی مجلس کا ایجنڈہ یہ ہے کہ ہر دین والے کے پاس جو اللہ کا پیغام ہے وہ اس کو پڑھ کر سنائے گے اس کو یہ بات بہت پسند آئی اس نے کہا کہ ونڈر فل آئیدیا تو اس نے لکھ لیا کہ اگلی مجلس میں ہر دین والا جو اس کے پاس اللہ کا پیغام ہے اس کو پڑھ کر سنائے گے بات طے ہوگئی

چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد دوبارہ میٹنگ تھی جب مجلس میں جا کر بیٹھے تو سیکٹری نے مجلس کی اپننگ کی تو مجھ سے کہا کہ مسٹر احمد ۔ میں نے اپنا نام احمد بتایا تھا کہ ان کے زبان سے نام نکلے تو میرے محبوب ﷺ کا نام نکلے وہی ا ن کے لئے برکت کا سبب بن جائےگا ۔ تو کہنے لگا کہ آپ نے آئیڈیا دیا تھا کہ ہر مذہب والے کے پاس جو خدا کا کلام ہے وہ اس کو پڑھے گا تو آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہی شروع کرے اس کو کہتے ہیں کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے مجھے پتا تھا کہ مجھے پڑھنا پڑھے گا تو میں نے سورۃ فاتحہ کا آسان ترجمہ یاد کر کے گیا تھا وجہ کیا تھی حدیث پاک میں ہے حضرت زکریا رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو اللہ نے تمام پہلیکتابوں میں نازل کیاہے اس کو اللہ نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور جو کچھ قرآن میں اللہ نے نازل فرمایا اس کو اللہ نے سورۃ بقرہ کے اندر نازل فرمایا اور کچھ سورۃ بقرہ میں نازل فرمایا اس کو سورۃ فاتحہ میں نازل فرمایا اس لئے سورۃ فاتحہ کو فاتحہ الکتاب کہا جاتا ہے یعنی کہ یہ کتاب کا دیباچہ ہے اور اس میں پوری کتاب کا خلاصہ لکھا جاتا ہے یعنی سور فاتحہ میں پورے قرآن کا خلاصہ موجود ہے تو میں نے کہا کہ جب قرآن سنانا ہی ہے تو کیوں نہ سورۃ فاتحہ سناؤں تا کہ انکو پورے قرآن کا خلاصہ معلوم ہو جائے میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور ان کا ترجمہ ان کو بتایا وہ مطمئن ہو گئے اس کے بعد ایک عیسائی عالم بیٹھا تو اس سے کہا کہ آپ پڑے تو اس نے بائبل کھولی جس میں ایک ہے جس کو یہ پہاڑی کا وعظ کہتے ہیں اور اس میںاچھے اخلا ق کی تربیت ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی تمہیں ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو تم اس کے سامنے اپنا دوسرا رخسار بھی پیش کردو اور اس کو ان کے پادری ہے نا وہ بڑا لہک لہک کر پڑھتے ہیں کہ ہمارا دین کتنے اچھے اخلاق کا مالک ہے کہ اگر ہمیں کوئی ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو ہم دوسرا رخسار بھی پیش کر دیتے ہیں جب اسنے پڑھنا شروع کیا تو مجھے پتا چل گیا کہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے جب اس نے مکمل کر لیا تو سب لوگ اس کو بڑا اپریشئیٹ کر رہے تھے میں نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا کہ سیکٹری صاحب مجھے آپ سے ایک بات شئیر کرنی ہے اس نے کہا کیا میں نے کہا ٓکہ ایجنڈا تھا کہ جس کے پاس جو ورڈ آ گارڈ ہے وہ پڑھ کر سنائے اور اس پادری نے ایک پیرا انگریزی زبان میں پڑھا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا تورات انگریزی زبان میں نازل ہوا تھا جب میں نے یہ سوال پوچھا تو پادری صاحب خاموش کیونکہ تورات تو عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی یہ تو ترجمہ تھا جو ورڈ آف گارڈ نہیں کہلاسکتا اب وہ پادری صاحب چھپ کہ کیسے بتاؤں کہ یہ اللہ کی بات نہیں اس کے پاس ایک یہودی بیٹھا تھا وہ بہت تیز بندہ تھا اس کو پتا تھا کہ اب میں پڑھوں گا جو کہ انگریزی زبان کا پیرا گراف ہے کیونکہ کتاب تو دوسری زبان میں تھی اور اس کا کچھ اس کے پاس نہیں تھا تو وہ آگے بڑھا اور کہا مسٹر احمد آج میں ایک بات لاوڈلی اور کلئیر کہنا چاہتا ہوں میں نے کہا کیا ۔ اس نے کہا کہ اس دنیا میں جتنے بھی ادیان ہے جن کے پاس اللہکا کلام آیا ان سب میں سے صرف مسلمان ہے جن کے پاس اللہ کا کلام اصلی حالت میں موجود ہے اور کسی کے پاس اوریجنل فارم میں موجود نہیں جب اس نے سب کے سامنے یہ بات کہی تو میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی انا نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ۔ بے شک اس قرآن کو ہم نے نازل کیا اور اس قرآن پاک کے ہم ہی حفاظت کرے گے ۔ اللہ کتنے بڑے ہیں کہ آج ان کافروں کی زبان ے کہلوایا کہ صرف مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ ہے اور کسی کے پاس محفوظ نہیں ہم اللہ کا شکر ادا کرتےہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں