ایک خاتون اپنا واقعہ لکھتی ہیں کہ میری بیٹی لاہور میں شاپنگ کی غرض سے آئی‘ اس کے دیور کی شادی تھی‘ ہم مقامی مارکیٹ میں ایک بڑی سی فیبرکس کی دکان پر گئے‘ وہاں مختلف لباس دیکھتے رہے‘ وہاں ایک لباس پسند آیا‘ مگر قیمت میں ان بن کے باعث ہم اُٹھ کھڑے ہوئے‘ ابھی نکلنے ہی لگے تھے کہ دکاندار نے ابو کو روک لیا‘ ابو نے مڑ کے دیکھا وہ ایک اچھی پروقار شخصیت کا مالک تھا‘اس نے کہا میں اس دکان کا مالک ہوں‘ آپ میری دکان سے خالی ہاتھ نہ جائیں‘ آپ یہ لباس پندرہ
ہزار میں لے جائیں‘ ابو نے کچھ سوچ کر کہا کہ ٹھیک ہے۔ دکاندار نے کہا ہم یہ لباس آپ کو آرڈر پر بنوادیتے ہیں۔ آپ بیس دن بعد یہ لباس لے جائیں۔ پندرہ ہزار دکاندار کو جمع کروا کر رسید حاصل کرلی۔ بیس دن بعد دکان پر اپنا سوٹ لینے گئے تو مزید دس دن میں سوٹ تیار ہوگا پھر مزید پانچ دن‘ پھر تین دن‘ اس طرح دن پہ دن مزید آگے کرتا گیا حتیٰ کہ شادی کا دن آن پہنچا۔ شادی والے دن پھر ہم دکاندار کے پاس گئے اس نے کہا چلو آج شادی ہے۔ آپ یہ معمولی مالیت کا لباس لے جائیں۔ شادی پر گزارہ کرلیں پھر یہ لباس واپس کرکے اپنا آرڈر والا لباس لے جائیں۔ خیر شادی کا دن گزر گیا۔ ان کے پاس لباس لے کے آئے تاکہ ہمیں آرڈر والا لباس مل سکے۔ کہنے لگا: آپ کا فنکشن گزر گیا ہے ہم نے آرڈر کینسل کردیا ہے۔ پیسوں کا مطالبہ کیا تو وہ بھی صاف مکرگیا۔۔۔ مقدمہ درج کرنے کیلئے ہم نے وکیل سے رابطہ کیا‘ وکیل نے کہا ایک لاکھ کی رٹ دائر کریں۔ پھر میں سارے پیسے ان سے نکلوالوں گا۔ ہم نے منع کردیا کہ ہمارا پیسہ جاتا ہے سو جائے لیکن کسی کا پیسہ ہم نہیں لیں گے۔ ایک بار پھر دکان پر گئے‘ مالک نے ڈھٹائی ٓاور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسید ٹکڑے ٹکڑے کردی‘ہم خاموشی سے لوٹ آئے اور فیصلہ آخرت پر چھوڑ دیا‘ مگر کچھ ظالموں کو خدا نے اسی دنیا میں مزہ چکھانا ہوتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اُس مارکیٹ کا چکر لگا۔ کیادیکھتی ہوں فیبرکس کی شاندار بڑی دکان کا بٹوارہ ہوچکا تھا۔ ایک بڑی دکان دو گلیوں کی صورت بنی ہوئی تھی‘ وہ دکان مزید چھوٹی سے چھوٹی ہوتی گئی ہے۔میں جب بھی وہاں سے گزرتی ہوں تو مجھے اس دکان کو دیکھ کر عبرت ہوتی ہے کہ اب وہ دکان آدھے سے زیادہ خالی ہوچکی ہے۔ سوچتی ہوں کسی کا ناحق مال کھا کے آخرت کا نقصان تو کیا ہی ہے اس دنیا میں بھی کیا فائدہ حاصل کرلیا۔ خدا نے ان کوپکڑ لیا۔ وعدہ خلافی کا مظاہرہ کرکے اپنے شاندار کاروبار کو زوال دے دیا۔