کیسےسولہ سال کی لڑکیوں کوپاکستان میں راکی ایجنٹ بناکرنوجوان کےساتھ غلط کام کرواکرملکی راز لئے جاتے ہیں جان کر آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے

سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں