غُربت کا مزا

ہمارے گاؤں میں ایک نائی تھا- اُسکا کُل سرمایا ایک تکیہ، ایک چادر، اور اپنے اوزاروں کا تھیلا تھا! اُسکا کوئی گھر نہیں تھا- بھلے وقتوں میں لوگ اکثر اپنے گھر کے باھر ایک چارپائی اور پانی کا گھڑا رکھا کرتے تھے-

وہ نائی بھی کسی کے گھر کے باھر چارپائی پر سو جایا کرتا تھا!ایک بار گاؤں میں سیلاب آ گیا! سب لوگ اپنے اپنے مال اسباب کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے!نائی نے اپنا تکیہ چادر اٹھایا، ایک دیوار پر چڑھ کر تکیے کو ٹیک بنایا، اور لیٹ گیا! ایک شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اور اسے پُرسکون دیکھ کر کہنے لگا، لوکاں نو بھاجڑ پئی اے تے تو آرام نال لما پیا ایں؟(لوگ پریشان حال بھاگ رہے ہیں اور تم سکون سے لیٹے ہوۓ ہو؟)نائی نے جواب دیا؛اج ای تے غربت دی چس آئی اے!(آج ہی تو غربت کا مزا آیا ہے!)یعنی میرے پاس کونسا کوئی مال اسباب تھا، جسے بچانے کیلئے میں بھاگا پھرتا!میں تو آج اپنی غریبی کا مزا لے رہا ہوں!

آج کے غریبوں کا حال بروز محشر اُس نائی جیسا ہی ہوگا!اور آج کے جاگیرداروں کا حال ان لوگوں کی طرح ہوگا جو بُرے حال بھاگ رہے تھے!جھوٹ، مکر، فریب، خیانت اور ظلم سے دولت اکٹھی کرنے والے، جتنا دل چاہے اکٹھا کر لیں! یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ خدا کو حساب تو دینا ہی ہے! سچ یہ ہے کہ ان جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، کو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا یقین ہی نہیں ہے!اگر رائی کے دانے برابر بھی یقین ہوتا تو اپنی ضرورت سے زیادہ کے مال میں، اپنے مسلمان بھائی کو حصے دار بناتے!

..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں