مردہ کو ممیز میں تبدیل کرنا: آج سے ہزاروں سال قبل قدیم مصر میں امرا اور بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اس طریقے میں دل اور دماغ سمیت لاش کے مختلف حصوں کو کو الگ کردیا جاتا تھا جس کے بعد خالی جسم کو کیمیکل لگے لکڑی کے برادے سے بھر دیا جاتا تھا اورپھر پورے جسم کو سوتی کپڑے سے لپیٹ کر محفوظ کردیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح اگلے سفر تک محفوظ رہتی ہے، دنیا کی قدیم ترین ممی 6 ہزار سال پرانی ہے۔ ۔جاری ہے ۔
کریانوکس: قدیم زمانے میں لوگ مردہ انسان یا جانور کو انتہائی کم درجہ حرارت پر یعنی برف میں دبا کر کافی عرصے تک رکھ دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے مستقبل کوئی ایسی دوائی مل جائے جس کا استعمال کر کے اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔۔جاری ہے ۔
خلیوں کو پلاسٹک میٹریل سے تبدیل کر کے: زمانہ قدیم میں دنیا کے ان علاقوں میں جہاں سائنس کی ترقی اپنے عروج پر تھی وہاں مردہ انسان کے جسم سے خلیوں کے مرکزہ میں موجود سیال مائع اور چکنائیوں کو نکال کر اس کی جگہ پر پلاسٹک اور سیلی کون کے مصنوعی اعضا لگادیئے جاتے تھے جس سے لاش ایک طویل عرصے تک محفوظ رہتی اور اس میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں آتی تھی۔۔جاری ہے ۔
بحری جہاز پر آخری رسومات: دسوی صدی میں یورپی ساحلوں پر راج کرنے والے بحری قزاقوں کے سرداروں کی لاشوں کو ایک بحری جہاز پر رکھ کر اس کے ساتھ سونا، کھانا، اور کبھی کبھار غلاموں کوبٹھا کر سمندر کے بیچ پہنچا کر آگ لگادی جاتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح پرسکون رہتی ہے۔ ۔جاری ہے ۔
درختوں پر رکھ کر: آسٹریلیا، برطانیہ، کولمبیا اور سربیا میں بھی کچھ قبائل لاش کو درخت کی جڑوں اور شاخوں سے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے۔۔جاری ہے ۔
خاموشی کا مینار: زمانہ قدیم میں آتش پرست لاش کو اونچے پہاڑ پر بنے خاموشی کے مینار(ٹاور آف سائیلنس) پر لا کر چھوڑ دیتے اور جب کچھ عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتیں تو انہیں جمع کرکے چونے میں ڈال کر گلا دیتے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والے نے جس جس چیزکوچھو کر گندہ کیا ہوتا ہے وہ اس عمل سے پاک ہوجاتی ہے۔ ۔جاری ہے ۔