ایک بیوہ عورت کا اکلوتا لڑکا مر گیا، لیکن فرط محبت سے وہ بیچاری مامتا کی ماری اس کو زندہ خیال کر کے اس کے علاج کی کوشش میں در بدر ماری پھرتی تھی، ہر چند حکما اس کو سمجھاتے کہ تمہارا لڑکا مر چکا ہے لیکن جوش محبت میں اندھی ہونے کے باعث اس کو یقین نہ آتا تھا۔آخر کار لوگ اس کو مہاتما بدھ کے پاس لے گئے کہ شاید وہ اپنی تدبر و دانائی سے اس عورت کو سمجھا سکیں۔ مہاتما بدھ نے اس سے کہا کہ فی الحقیقت تمہارا لڑکا مر گیا ہے لیکن میں اس
کو زندہ ضرور کر سکتاہوں بشرطیکہ تو مجھے ایسے گھر سے پانی کا ایک کٹورا لا کر دے جس گھر میں کبھی کوئی آدمی مرا نہ ہوتاکہ میں اس پانی پر تیرے بیٹے کو زندہ کرنے کا منتر پھونکوں۔اس عورت نے پانی حاصل کرنے کے لئے تمام شہر چھان مارا لیکن کوئی گھر ایسا نہ ملا جس میں کوئی نہ مرا ہو۔ بلکہ بہت سے گھروں میں سے تو جو جواب ملا وہ یہ کہ مرے زیادہ ہیں اور زندہ کم ہیں۔ مہاتما نے اس سے کہا کہ جب تمام شہر میں تجھے ایک گھر بھی ایسا نہیں ملا جس میں کوئی مرا نہ ہو تو تُو اپنے مرے ہوئے لڑکے کے زندہ ہونے کی کیا امید کر سکتی ہے؟ اس بات سے اس عورت کو صبر اور اپنے لڑکے کے مر جانے کا یقین آ گیا اور اس کی تجہیز و تکفین پر رضامند ہو گئی۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ اگر بندوں کو اپنی موت معلوم ہوتی، تو بڑے بڑے اونچے گنبدوں والے محل نہ بنتے، نہ کبھی بازار لگتا ،نہ کبھی خرید و فروخت ہوتی، نہ باہمی عداوت ہوتی، نہ کوئی کوتوال اور پاسبان ہوتا۔ کھلے دروازے سب آرام سے سوتے اور یاد الٰہی کرتے۔ یہ سب جھمیلے موت کے بھولنے سے ہوئے۔