نجانے آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں کہ خواب ہمارے آنے والے وقت کے بارے میں ہمیں کچھ اشارے دے سکتے ہیں، لیکن اس برطانوی لڑکی کا تجربہ تو سو فیصد یہی رہا، اگرچہ اس کا خواب بہت بھیانک تھا اور تعبیر اس سے بڑھ کر بھیانک۔ ہڈیوں کے کینسر کی جان لیوا بیماری میں مبتلاءاس لڑکی نے حیرتناک انکشاف کیا ہے کہ اس کی بیماری کی تشخیص ہونے سے کئی سال پہلے سے اسے اس کے اشارے بار بار دکھائی دینے والے خواب میں مل رہے تھے۔
میل آن لائن کے مطابق 30 سالہ ایبی گلاتیا کا تعلق برسٹل شہر سے ہے اور جب وہ 26 سال کی تھیں تو ان کے اوسٹیو سارکوما کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ایبی کا کہنا ہے کہ جب وہ 12 سال کی تھیں تو پہلی بار انہیں خواب آیا کہ ڈاکٹر انہیں ہڈیوں کے کینسر کے متعلق بتارہے تھے اور پھر یہ خواب بار بار انہیں دکھائی دیتا رہا۔ ایبی نے جب اپنے گھر والوں سے اس بات کا ذکر کیا تو وہ اسے اس کا وہم او رخوف قرار دینے لگے۔ بعدازاں اس کے جاننے والے اور دوست بھی اسے پاگل قرار دینے لگے کہ وہ خواہ مخواہ یہ سوچتی رہتی ہے کہ اسے کینسر لاحق ہوگا۔
ایبی کی زندگی میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب ایک اجنبی لڑکی نے ان سے کچھ حیران کن باتیں کہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جنوبی افریقہ میں وہ ایک این جی او کے ساتھ کام کررہی تھیں جہاں ایک لڑکی نے ایک دن ان سے کہا ”مجھے آپ کی صحت کے متعلق عجیب و غریب خدشات محسوس ہورہے ہیں۔ مجھے آپ کے متعلق تین خواب آئے ہیں اور ہر بار مجھے یہ دکھائی دیا ہے کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو گھر واپس جانا پڑرہا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”جب میں اس لڑکی کے گھر سے روانہ ہورہی تھی تو اس کا کتا میری جانب لپکا اور مجھے کاٹنے کی کوشش کی۔ اور جب میں نے اپنے بازو کو تیزی سے پیچھے کھینچا تو مجھے اس میں شدید درد محسوس ہوا۔ جب میں شدت درد کے باعث ہسپتال گئی تو میرے بازو کا سکین کیا گیا اور پہلی بار اس میں موجود رسولی کے بارے میں انکشاف ہوا۔ یہ کینسر کی رسولی تھی جو میرے کندھے سے کہنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ میرے لئے ایک صدمہ خیز انکشاف ضرور تھا، لیکن شاید میں تو 14 سال پہلے سے ہی اس بات سے آگاہ تھی۔ مجھے پہلے سے محسوس ہوتا تھا کہ یہ بیماری مجھے اپنا ہدف بنائے گی۔ اگرچہ یہ احمقانہ بات محسوس ہوتی ہے لیکن میں 12 سال کی عمر سے ہی یہ محسوس کررہی تھی۔ بیماری کے انکشاف کے بعد ایک سال تک میری کیمو تھیراپی کی گئی اور سرجری کے ذریعے رسولی نکال لی گئی۔ میرے بازو میں سٹین لیس سٹیل ڈالا گیا لیکن یہ سرجری کامیاب نہ ہوئی جس کے بعد میری کمر، ٹانگوں اور بازوﺅں سے پٹھے اور عضلات لے کر انہیں متاثرہ جگہ میں منتقل کیا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ لڑکی میرے بارے میں خدشات کا اظہار نہ کرتی اور اس کا کتا مجھے کاٹنے کو نہ لپکتا تو شاید اس بیماری کی تشخیص میں بہت دیر ہوجاتی اور آج میں زندہ نہ ہوتی۔“