پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 50 سے زائد مفتیان نے فتویٰ دیا ہے کہ خواجہ سراؤں کا نکاح شرعی طور پر جائز ہے۔ یہ فتوی تنظیم اتحاد امت پاکستان کی اپیل پر جاری کیا گیا ہے۔
تنظیم کے سربراہ ضیا الحق نقشبندی کے مطابق 50 زائد مفتیان نے فتوی دیا ہے کہ ’ایسا خواجہ سرا جن میں جسمانی طور مردانہ علامات پائی جاتی ہوں ان کا ایسے خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے جس میں زنانہ علامات موجود ہوں۔‘ فتویٰ کے مطابق واضح علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور عورت بھی نکاح کر سکتی ہیں۔
مفتیان نے یہ واضح کیا کہ ’جن خواجہ سراؤں میں مرد اور عورت والی دونوں علامتیں ہوں ان سے نکاح جائز نہیں ہے۔‘ مفتیان نے فتوے کے ذریعے حکومت پر زور دیا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا پورا خیال رکھا جائے کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فتوے میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے علما کی نگرانی میں قانونی سازی کی جائے۔ شرعی طور پر خواجہ سراوں کا جائیدار میں حصہ ہے اور ایسے والدین کے خلاف کارروائی کی جائے جو خواجہ سرا بچوں کو جائیداد سے بے دخل کرے۔
فتوے میں مطالبہ کیا گیا کہ ’شرعی طور پر خواجہ سراوں کا جائیداد میں حصہ ہے اور ایسے والدین کے خلاف کارروائی کی جائے جو خواجہ سرا بچوں کو جائیداد سے بے دخل کریں۔‘
مفتیان کے مطابق خواجہ سراؤں کا مذاق اڑانا اور ان پر آوازیں کسنا شرعی طور پر حرام ہے۔
فتوے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈز جاری کیے جائیں تاکہ ان کو شناخت ملے اور وہ بھی دیگر پاکستانی شہریوں کی طرح ملازمت، کاروبار اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔
اس سلسلے میں بی بی سی کی ارم عباسی سے بات کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن الماس بوبی کا کہنا ہے ’یہ خوشی کے بات ہے کہ کسی نے ہمارے لیے بھی بات کی۔ شرعی طور پر یہ حق ہمیں ہمیشہ سے حاصل ہے مگر اس معاشرے میں ہمارے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کے دور کرنے کے لیے
جب تک اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’وہ سوچ جس کے تحت ہم پر ظلم کیا جاتا ہے اس کو تبدیل کرنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کر رہی۔‘
فتوے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈز جاری کیے جائیں تاکہ ان کو شناخت ملے. ان کا کہنا تھا کہ نادرا نے خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ روکے ہوئے ہیں اور حکومت کو چاہیے کو ان کی شناخت سے جڑے بنیادی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
جنس کی بنیاد پر تشدد کے خلاف کام کرنے والی تنظیم کے کارکن قمر نسیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فتوے میں خواجہ سراؤں کے خلاف نفرت انگیز واقعات کو حرام قرار دینا ایک اچھا عمل ہے تاہم خواجہ سرا کی شادی کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہوتا جب تک شادی کی قانونی حیثیت واضح نہیں کی جاتی۔‘
انھوں نے کہا ’اس مقصد کے لیے ہم جلد ہی سپریم کورٹ سے رابطہ کریں گے کیونکہ ابھی اس سلسلے میں بہت سی تشریحات ہونا باقی ہیں۔‘
قمر نسیم کے مطابق ’اکثر اوقات کم علمی کی وجہ سے پولیس خواجہ سراؤں کی شادی کو ہم جنس پرست شادی کے طور پر لیتی ہے اور نہ صرف شادی پر چھاپہ مارتی ہے بلکہ بعض خواجہ سراؤں کے شادی کرنے پر ہم جنس پرستی کے جرم کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور اس کی روک تھام تب ہی ہو سکتی ہے جب حکومت خواجہ سرا کے حقوق کی آگاہی کے لیے اقدامات کرے۔