اسلام آباد(نیوزایجنسی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ا ور جنرل سیکرٹری جہانگیرخان ترین کی نااہلی کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دور ان جہانگیر ترین سے لیز پر لی گئی18500 ایکڑ اراضی کے اصل مالکان ، پنجاب لینڈ ریونیو کا ریکارڈ اور مذکورہ اراضی کی جمع بندی اور خسرہ گرداوری سے متعلق مکمل دستاویزات طلب کرلیں ۔
منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پاکستان مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماں کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ نیازی سروسز کے اکانٹ میں موجود ایک لاکھ پاونڈ زکی رقم عمران خان کی نہیں تھی اس لئے ان سے اس رقم کی وضاحت بھی نہیں مانگی جاسکتی ،عمران خان 2008 سے 2013 تک عوامی عہدہ نہیں رکھتے تھے ، ہمیں این ایس ایل کے اکانٹس کا مکمل ریکارڈ ابھی تک نہیں مل سکا جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ حیرت ہے کہ آپ کووہ ریکارڈ مل جاتا ہے جوآپ کے حق میں ہو لیکن دوسرا ریکارڈنہیں ملتا۔ درخواست گزا رکے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے کہا کہ اگرعدالت مجھے نوٹس کر ے گی تو میں پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کردہ متفرق درخواست کا جواب دونگا، دستاویزات جمع کرانے کا یہ طریقہ نہیں جو جواب گزاروں کی جانب سے اپنایا گیا ہے جس پرعدالت نے حنیف عباسی کو ہدایت کی کہ وہ مران خان کی متفرق درخواست پر عدالت میں جواب جمع کرائیں۔
جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے عدالت کوآگاہ کیا کہ ان کے موکل جہانگیر ترین نے2010 میں 18 ہزار 500 ایکڑ اراضی لیز پرحاصل کی تھی، جس پر گنا کاشت کیا گیا جو تیار ہونے پرجہانگیر ترین شوگر ملز نے خریدا تھا،ان کاکہناتھا کہ جے کے فارمنگ سسٹم جہانگیر ترین کی ملکیتی کمپنی ہے جو ان تمام معاملات کو دیکھتی ہے، لیز پرخریدی گئی اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین 150 کلو میٹر کے دائرے میں میں واقع ہے اورتین اضلاع راجن پور، رحیم یار خان اور صادق آباد کی حدود میں ہے ، اس اراضی پر 86 فارم بنائے گئے ہیں، جن میں کاشت کاری کی جاتی ہے جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے فاضل وکیل سے استفسارکیا کہ اگر کاشت کاری سے اس قدر زیادہ آمدن ہو رہی تھی توجہانگیر ترین نے دو سو ایکڑ ذاتی اراضی کیوں اور کس کو فروخت کی تھی ،اس کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے سکندربشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں لیز کے جو معاہدے دکھا رہے ہیں فی الاحال ان کی اہمیت نہیں ہے، اب تک آپ کراس چیکوں پر انحصار کر رہے ہیں، لیکن زمین کا حقیقی ریکارڈ پیش نہیں کر رہے، اگر ہم نے کراس چیکوں پر کوئی آبزرویشن دے دی تو آپ کیلئے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کو آپ نے مالک ظاہر کر کے ادائیگیاں کی ہیں، کیا وہ حقیقی مالکان تھے یا نہیں،اس کاپتہ اراضی کے اصل مالکان اور محکمہ مال کے ریکارڈ سے ہی معلوم ہو گا، عدالت کو محکمہ مال کا ریکارڈ ہی در کا ہے، ہمیں وہ بات کرنے پر مجبور نہ کیاجائے جس سے جہانگیر ترین کیخلاف زیر سماعت مقدمہ متاثر ہو ، عدالت کوملکیت ،لیز ،کاشت اور ادائیگیوں کے ثبوت درکار ہیں ، اوراگر ضرورت محسوس ہوئی تو ریونیو دفتر کے کسی افسر سے ماہرانہ رائے بھی لی جا سکتی ہے۔ سکندر بشیر نے کہا کہ جن اضلاع میں میر ے موکل کی اراضی واقع ہے ، ان میں ریونیوکا ریکارڈ خاص ترتیب سے مرتب نہیں کیا جاتا ہے،زمین مالکان محکمہ،مال کے ریکارڈمیں کاشتکار کا نام لکھنے ہی نہیں دیتے کیونکہ اس طرح کرنے سے بڑے کاشت کار اصل مالکان کی زمینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ جو لیز معاہدے عدالت کو دیئے گئے ہیں ان میں یہ نہیں لکھا کہ کس مالک کی کتنی اور کس موضع میں زمین واقع ہے۔
سکندربشیر نے موقف اپنایا کہ زرعی ٹیکس کی بنیاد پر ان کے موکل کو عوامی عہدہ کے لئے نااہل نہیں قراردیا جا سکتا کیونکہ پنجاب میں زرعی آمدن کی جانچ پڑتال کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں،اور انکم ٹیکس قانون ہونے کے باوجود 2013 تک ٹیکس کا تعین اوروصولیات کیلئے ریکارڈ کا ادارہ جاتی فریم ورک موجود نہیں تھا جبکہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ کسی جگہ اگر انکم ٹیکس سے متعلق ابہام پایا جاتا ہو تو اس کا فائدہ امیدوار کو جانا چاہیے، اس لئے سسٹم میں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں اس کا قصوروار جہانگیر ترین کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ محکمے کا غلط ٹیکس تخمینہ لگانے کی سزا جہانگیر ترین کو نہیں دی جاسکتی جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت جانتی ہے کہ قانون کے مطابق زرعی آمدن والے کو ٹیکس دینا ہوتا ہے، اس لئے ہم نے محکمہ مال کاریکارڈ طلب کیا ہے بعدازاں عدالت نے جواب گزار سے لیزپرلی گئی اراضی مالکان سے متعلق تفصیلات اورمحکمہ مال کاریکارڈ طلب کرتے ہوئے مزید (آج) بدھ تک کیلئے سماعت ملتوی کر دی۔