بیماری اور معذوری انسان کیلئے بلا شبہ تکلیف کا باعث ہوتی ہے لیکن جب لوگ بے حس ہو جائیں اور کسی معذور یا بیمار کا مذاق اڑانا شروع کردیں تو یہ تکلیف کہیں گہری ہوجاتی ہے۔ یوں تو ہر مجبور و بے کس ایسے رویے پردکھی ہو جاتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ اس ننھے معذور کے دکھ کا کیا عالم ہو گا جس کا مذاق اڑانے والے اس کے اپنے گاﺅں والوں نے اسے شیطان قرار دے کر گاﺅں سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے پانچ سالہ بچے تاجور اختر کا بایاں ہاتھ کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے پھول کر پانچ کلو سے زائد وزنی ہوچکا ہے اور اس کی جسامت اس کے سر سے بھی بڑی ہے۔ تاجور سے ہمدردی کرنے کی بجائے اس کے گاﺅں کے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے شیطان کے نام سے پکارتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو بے حسی کی حد کرتے ہوئے اس کی والدہ پروین اختر سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ بچے کو ان کی نظروں سے دور لے جائے۔
اس بیماری کی وجہ سے ننھا بچہ سکول بھی نہیں جاسکتا اور اب تو اس کے ہم عمر بچے اس کے ساتھ کھیلتے بھی نہیں ہیں اور وہ ہر وقت گھر میں بند رہتا ہے۔ تاجور کی والدہ نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”میرا ننھا بیٹا سارا دن گھر میں اکیلا بیٹھا رہتا ہے۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اسے باہر نہ نکلنے دیا کرو کیونکہ اسے دیکھ کر ان کے بچے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ جب لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور دھتکارتے ہیں تو میرا دل بہت دکھی ہوتا ہے۔
اس کا ہاتھ بہت پھول چکا ہے اور یہ اتنا وزنی ہے کہ میرا بیٹا جب چلتا ہے تو اس کے وزن کی وجہ سے لڑکھڑا جاتا ہے۔ وہ سارا دن بیٹھا اپنے ہاتھ کو گھورتا رہتا ہے اور روتے ہوئے مجھ سے پوچھتا ہے کہ اس کا ہاتھا یسا کیوں ہے ۔ میں اسے تسلی دینے کی کوشش کرتی ہوں اور اسے سمجھاتی ہوں کہ اللہ نے اسے دوسروں سے مختلف بنایا ہے لیکن اس کا دکھ ختم نہیں ہوتا۔ میں اسے کب تک امید دلائے رکھوں گی؟
میرا جی چاہتا ہے کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح نارمل زندگی گزارے۔ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ میں مہنگے علاج کیلئے اسے کسی بڑے ہسپتال لیجاسکوں۔ وہ جب پیدا ہوا تو اس کا ہاتھ ٹھیک تھا لیکن تین ماہ بعد اس کی جسامت بڑھنا شروع ہوگئی۔ شروع میں تو یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی مکھی کے لڑنے سے اس پر سوجن پیدا ہوگئی ہو لیکن پھر یہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ہم نے اپنی حیثیت کے مطابق اس کا علاج کروانے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کا مکمل علاج کرنے کیلئے لاکھوں روپے کی ضرورت ہوگی۔ میرا خاوند ماہانہ پانچ ہزار روپے کماتا ہے۔ بھلا اتنی رقم میں کہاں سے لاﺅں؟ ہمارے پاس جو کچھ تھا اس کے علاج پر خرچ کرچکے ہیں اور اب ہمارے پاس صبر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔“